ماضی
(کئی برس قبل)
ماضی کی تلخ یادوں کو بھولنے کی سعی میں خوار ہونے والی ایمان حال سے کئی برس قبل والی ایمان احمد سے خاصی مختلف تھی۔۔ یاں شاید زندگی کی باگ دوڑ نے اسے بدل کر رکھ دیا تھا۔۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب ایمان محض چار برس کی تھی۔۔ اپنے والدین کے ہمراہ وہ قمر الحق صاحب کے ہاں رات کے کھانے پہ مدوع کی گئی تھی۔۔ قمر الحق صاحب ڈاکٹر تھے اور ان کی بیگم فاطمہ ہاؤس وائف تھیں۔۔ سب ڈائنگ ہال میں موجود ٹی وی پہ نشر ہونے والی کسی سرکاری مسئلے کے متعلق بحث ومباحثے میں مگن تھے جبکہ ایمان جلد اس بحث سے اکتا کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔۔
قمر الحق صاحب کا گھر خاصا کشادہ نہ سہی مگر چھوٹا بھی نہ تھا۔۔ بڑے سے ٹی وی لاوئج کے ہمراہ کھلا کچن تھا، جس میں باراں کرسیوں کے بیچ ایک وسیع ٹیبل پڑی تھی۔۔ گھر تین کمروں پہ مشتمل تھا۔۔ ایک قمر الحق اور ان کی زوجہ محترمہ کے زیراستعمال تھا جبکہ دوسرا انکے اکلوتے سپوت شاہان کا تھا، جہاں ایمان اس وقت قدم بڑھاتی داخل ہو رہی تھی۔۔ تیسرا کمرہ ضرورت کے وقت استعمال کیا جاتا تھا۔۔
کمرے میں داخل ہوتے اسنے اطراف میں نگاہیں ڈھوراتے اس کا بھرپور جائزہ لیا۔۔ دروازے کے مقابل دیوار میں اک کپڑوں والی الماری نصب تھی۔۔ اسی دیوار کے داہنے ہاتھ ایک ڈبل بیڈ پڑا تھا جس کا کور بکھرا بکھرا سا تھا۔۔
اس دیوار کے پہلو میں ایک رائٹنگ ٹیبل تھی، جس پہ چند کتابیں اور اسکول کا بیگ پڑا تھا۔۔ ایمان کمرے کا جائزہ لیتی کسی کھلونے کی تلاش میں تھی کہ یک دم اسے بیڈ کے مقابل دیوار پہ لگے اسٹینڈ میں مختلف قسم کے جہاز پڑے نظر آئے۔۔ کسی کا سائز بڑا تھا، تو کسی کا چھوٹا۔۔
قدم بڑھاتی وہ اس تک آئی اور دوسرے نمبر پر پڑا جہاز تھامے اسے دیکھنے لگی۔۔ یقینا اس کمرے کے مالک شاہان قمر الحق کو جہازوں سے خاصی رغبت تھی۔۔ تبھی اس ریک میں صرف جہاز رکھے تھے۔۔ اس ریک سے دو انچ اوپر بڑا سا "ڈونٹ ٹچ" لکھا تھا۔۔ مگر ایمان اس پر عمل پیرا ہونے کی پابند نہ تھی۔۔
"تم نے اسے کیوں پکڑا؟" عقب سے آتی آواز پر وہ مڑتی، اس سے قبل ہی شاہان اس پر جھپٹتا کھلونا چھین چکا تھا۔۔ پرتپش نگاہیں ایمان پر ٹکیں تھیں۔۔ "میری مرضی۔۔" کہتے ایمان نے کھلونا وآپس چھینا۔۔
"یہ میرا ہے۔۔ چھوڑو اسے۔۔" شاہان اب کی بار اسے جھپٹنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔۔ ایمان کے ننھے ہاتھوں کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔۔ ہونٹ سختی سے بھینچے وہ زور لگاتا اس سے اپنی پسندیدہ شے جھپٹنے کی سعی میں خوار ہو رہا تھا۔۔
"چھوڑو موٹی چڑیل۔۔" بس اسی لمحے ایمان کا ضبط جواب دے گیا۔۔ چند پلوں کو شاہان کی گرفت کھلونے پہ ڈھیلی پڑی تھی۔۔ بس اسی لمحے ایمان نے اسے پوری قوت سے مقابل دیوار پہ دے مارا۔۔۔ اگر وہ اس سے کھیل نہیں سکتی تو کوئی اور کیوں کھیلے؟
شاہان کے لب خیرت سے کھلے تھے۔۔ آنکھوں میں بےیقینی اور موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے۔۔
ہاتھ سینے پہ باندھے وہ فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے کمرے سے روانہ ہونے کو بڑھی۔۔ اس کا ارادہ بھانپتے شاہان نےاس کے بالوں پہ وار کیا۔۔۔ ایمان کے خوبصورت سیاہ ویوی بال اس کے ہاتھوں میں جکڑے تھے۔۔۔خود کا بچاؤ کرنے کی سعی میں ایمان بھی اس کے سیاہ بالوں کو دبوچ چکی تھی۔۔
دو ننھے وجود زمین بوس ٹوٹے جہاز کے لیے گتھم گتھا ہو رہے تھے۔۔۔
* * * * * * *
حال
"وہ ہماری پہلی لڑائی تھی۔۔" سٹریچر پہ بےسدھ لیٹی وہ ہاتھ پہلو میں گرائے دور خلا میں گھورتی کہہ رہی تھی۔۔ "بچپن سے ہی وہ اپنی چیزوں کے لیے نہایت پوزیسوؤ تھا۔۔ جو چیز اس کی ہے، اسے کوئی اور کیونکر چھوئے۔۔" گہرے سانس سینے میں انڈیلتے اس نے نگاہیں پھیرتے میری جانب دیکھا۔۔
"اور میں۔۔ مجھ میں تو بچپن سے انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔۔ ایسا کیسے ممکن تھا کہ میں اسے آڑے ہاتھوں نہ لیتی۔۔۔ ہار مان لینے والوں میں سے تو میں بھی نہیں تھی۔۔" وہ مسکرائی۔۔ زخمی سا تاثر اس کے چہرے پہ آن گزرا۔۔ "اگلی صبح اس کی ماما۔۔فاطمہ آنٹی نے ویسا ہی کھلونا مجھے لا کر دیا۔۔ مگر اس جہاز کی بات ہی اور تھی۔۔"
یک دم وہ کھانسے لگی۔۔ بری طرح۔۔۔ منہ پہ ہاتھ رکھے وہ دہری ہونے لگی تھی۔۔ خاتون یاں یوں کہیں طاہرہ آنٹی اس کی کمر تھپکتی پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں۔۔ ان کے دل کی عجب کیفیت تھی۔۔ دل پر عیاں کیفیت چہرے سے واضع جھلک رہی تھی۔۔
میں نے نگاہیں جھکاتے صفحے پر چند اہم نکات درج کئے۔۔ "فیملی فرینڈز۔۔ شاہان۔۔ پہلی لڑائی۔۔ چار برس کی عمر میں۔۔ جہاز۔۔" قلم بند کرتے نگائیں اٹھائیں تو وہ اب قدرے سمنبھل چکی تھی۔۔
"کیا آپ ٹھیک ہیں؟؟" میں نے چھوٹتے ہی پوچھا۔۔ایمان نے محض سر کے زخم سے جواب دیا۔۔۔ "آگے کیا ہوا؟؟"
* * * * * * *
ماضی
سورج سوا نیزے یہ اپنی تپش سے گجرانوالہ سٹی سکول کی عمارت کو جھلسائے دے رہا تھا۔۔ دوپہر کے ساڑھے گیاراں کا وقت تھا۔۔ تمام اسٹوڈنٹس گراؤنڈ میں موجود تھے۔۔ چند فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے تو کچھ چہل قدمی کرتے باتوں میں مگن تھے۔۔
اس گراونڈ کے مقابل سکول کی بڑی سی عمارت کھڑی تھی جہاں مختلف کلاس رومز تھے۔۔ اسی بلاک میں چند سٹوڈنٹس پہرہ دے رہے تھے۔۔ تمام تر اسٹوڈنٹس سفید لباس میں ملبوس تھے۔۔ لڑکوں کی سفید شرٹ کے ہمراہ گرے پینٹ تھی جبکہ لڑکیاں مکمل سفید قمیض میں ملبوس تھیں۔۔۔
ڈوپٹہ کے نام پر گرے رنگ کی پٹی جسے سیش کہا جاتا ہے کندھے سے کمر تک باندھی گئی تھی۔۔ وہ بھی اس لباس میں ملبوس تھی۔۔ قدم بڑھاتی وہ کنٹین تک آئی۔۔ سورج کی آگ برساتی کرنوں کے باعث وہ آنکھوں کی پتیلیاں سکوڑے دائیں ہاتھ کا چھجا سر سے ٹکائے طالبات کے ہجوم کو کنٹین کے باہر کھڑا دیکھ رہی تھی۔۔
"لوٹ مچی ہے۔۔ آج ہی سب خرید لیں گے۔۔" افسوس سے سر جھٹکتی وہ اس ہجوم میں جگہ بنانے لگی۔۔ بھوک سے برا حال ہو رہا تھا۔۔ ماتھے پہ پسینے کے قطرے بکھرے چمک رہے تھے۔۔ اسی ہجوم میں اسے وہ بھی کھڑا دکھائی دیا تھا۔۔۔ شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑ رکھے تھے۔۔ چہرہ پسینے سے بھیگا تھا۔۔ داہنے ہاتھ میں سیاہ گھڑی پہن رکھی تھی جس سے وہ اب پیسے دکاندار کو تھما رہا تھا۔۔
اس سے قبل وہ مطلوبہ چیز تھامتا ایمان نے دکاندار سے چھپٹے پیسے کاونٹر پہ رکھے اور ہجوم سے غائب ہوگئی۔۔ شاید کوئی اور موقع ہوتا تو وہ اس کے بال نوچ ڈالتا مگر فلوقت اسے صبر کرنا تھا۔۔ اور شاہان قمر الحق کو ضبط کرنا بخوبی آتا تھا۔۔ خاص کر جب سامنے ایمان ہوتی اور موقع محل سکول کی گراونڈ ہوتی۔۔
* * * * * * *
حال
"ہم دونوں ہی اسکول میں ایک دوسرے کو اوئڈ کرتے تھے۔۔ نا ہی وہ مجھے مخاطب کرتا نا ہی میں اسے۔۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ہم فیملی فرینڈز ہیں۔۔" میں الجھی اور جلد ہی اپنی الجھن اس کے گوش گزاری۔۔
"لیکن کیوں؟؟میرا مطلب تھا کہ وہ آپ کا دشمن پھر اس حرکت پہ کوئی ردعمل ظاہر کیوں نہیں کیا؟؟"
ایمان مسکرائی۔۔ نم آنکھیں چمکیں تھیں۔۔ابرو اچکائے۔۔ "اگر وہاں لڑتا تو بچاتا کون؟؟" ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔۔ ایمان جیسے دور خلا میں گھورتی بیتے وقت میں جا پہنچی تھی۔۔ اس کی حالت قدرے بہتر لگتی تھی۔۔
یک دک اس کے تاثرات بدلے۔۔ چہرے پر سپاٹ سا تاثر رونما ہوا۔۔ طاہرہ آنٹی اور مجھ میں نگاہوں کا تبادلہ ہوا۔۔ جانے وہ کیوں خاموشی کا تبادلہ اوڑھے مکمل چپ ہوگئی تھی۔۔ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے۔۔ آنسو لڑھکتے بالوں میں جذب ہونے لگے۔۔
چہرے پر کرب کے سائے امڈنے لگے جیسے دل ٹرپنے لگا ہو۔۔ تڑپ بڑھنے لگی۔۔ وہ بلکنے لگی۔۔ دل پر ہاتھ رکھے وہ مٹھی بند کرتی جیسے دل میں اٹھتی ٹیسوں کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
"ایمان۔۔ صبر کرو۔۔" طاہرہ آنٹی کو کہتے سنا تو دماغ ٹھنکا۔۔ صبر؟؟؟ کس لئے صبر؟؟ ایسا کیا کیا تھا شاہان نے کہ ایمان کو صبر کی تلقین کی جاتی؟؟تجسس میں مزید اضافہ ہونے لگا مگر دوسری جانب گہری خاموشی چھائی تھی۔۔
* * * * * * *