دن بیتے گئے۔۔ وقت کب رکتا ہے۔۔ ہسپتال کے کمرے میں ڈاکٹر بےسدہ پڑے ایمان کے وجود کو جانچ رہے تھے۔۔ قریب ہی بیٹھی طاہرہ آنٹی قرآن پاک کی تلاوت کرتی بےآواز رو رہی تھیں۔۔ احمد صاحب کو باہر آنے کا اشارہ کرتے ڈاکٹر ان کے ہمراہ باہر آئے تھے۔۔
"احمد صاحب۔۔ ایمان کی حالت دن بادن بگڑتی جا رہی ہے۔۔ اگر وہ کوما سے باہر نہ آئی تو شاید ہمیں کسی خطرے کا سامنا کرنا پڑے۔۔ آپ ہر طرح کی خبر کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔۔ شاہ کی موت کا خاصا گہرا صدمہ پہنچا ہے ایمان کو۔۔ جب تک وہ خود پہ رحم نہیں کرے گی، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔ باقی الله سے دعا کریں زندگی اور موت بخشنے والا وہی ہے۔۔"
احمد صاحب کا شانہ تھپکتے وہ نرس کو چند ضروری ہدایت دیتے منظر سے ہٹ گئے۔۔ احمد صاحب قریب پڑے بینچ پہ ڈھے گئے۔۔ یہ کیسا وقت تھا؟؟ کیسا امتحان تھا جس سے انہیں گزارا جا رہا تھا؟ اک طرف دوست کے جوان بیٹے کی موت کا غم، تو دوسری جانب شاہ سے وابستہ اپنی بیٹی کو موت کے قریب سے قریب تر جاتا دیکھنا۔۔ "یا الله!!! صبر دے۔۔ صبر عطا کر۔۔ اس مشکل وقت سے نجات دلا۔۔ میری بیٹی کو صحت دے۔۔" ہاتھ کشکول کی صورت اٹھائے وہ الله سے اپنی بیٹی کی زندگی کی بھیگ مانگ رہے تھے۔۔ آنسو اک پل کو بھی نہ تھمے تھے۔۔ آخر کس کس غم، کس کس اذیت کو برداشت کرتے؟؟؟ کس کس تکلیف پہ صبر کرتے؟؟؟
منظر سے ہٹتے ایمان کے کمرے میں وآپس لوٹو تو طاہرہ بیگم قرآن پاک چوم کر اسے محفوظ جگہ رکھتی اب ایمان کے قریب آ بیٹھیں تھیں۔۔ پچھلے ایک ماہ سے ایک پل کو بھی انہیں چین کی نیند نصیب نہ ہوئی تھی۔۔ ہر خاندان میں ایک مرد ایسا ضرور ہوتا ہے جو گھر کا مضبوط ستون ہوتا ہے جس کا وجود سب کو باہم جوڑے رکھتا ہے، ایسا شخص جو سب کی خوشیوں کا سبب بنتا ہے۔۔ شاہ وہی مرد تھا۔۔ شاہ کے جانے سے سب ہنسنا بھول گئے تھے۔۔ دل ویران ہو چلا تھا۔۔
ہر ہر آہٹ پہ انہیں محسوس ہوتا جیسے ایمان انہیں پکار رہی ہو۔۔ 'امی' لفظ سننے کو طاہرہ بیگم ترس چکی تھیں۔۔ "ایمان" شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے طاہرہ بیگم نے اسے پکارا۔۔ "بیٹا اٹھو۔۔ ایک بار اٹھ جاؤ۔۔ مجھے پکارو۔۔ میرے بچے اٹھ جاؤ۔۔" آنسوؤں میں روانی آ گئی۔۔ "وآپس لوٹ آؤ بیٹا۔۔"
* * * * * * *
ویرانی کاٹنے کو ڈھورتی تھی مگر وہ ہنوز گھٹنوں میں منہ دئے بلک بلک کر رو رہی تھی۔۔ "شاہ۔۔ شاہان۔۔" مسلسل اپنی محبت کو پکارتی وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔ "مجھے لے جاؤ۔۔ لے جاؤ مجھے۔۔" سر مٹھیوں میں بھینچے وہ کراہنے لگی۔۔ "آہ۔۔" سر درد سے پھٹنے کو تھا مگر دل کی تکلیف اس سے کئی زیادہ تھی۔۔
یک دم اطراف میں خاموشی چھا گئی۔۔ ایمان نے بھیگی پلکیں اٹھائیں۔۔ کہیں سے سسکیاں ابھر رہیں تھیں۔۔ یہ سسکیاں ایمان کی نہ تھیں، بلکہ ایمان کی خاطر تھیں، ایمان کے باعث تھیں۔۔ "وآپس لوٹ آؤ۔۔ وآپس لوٹ آؤ میرا بچہ۔۔"
وہ اس آواز کو لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔۔ وہ اس کی ماں تھی جس نے اسے یہ زندگی بخشی تھی۔۔ "امی۔۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ تاریکی کے باعث اسے خود کا وجود تک دکھائی نہ دیتا تھا۔۔ "امی۔۔" وہ بلکنے لگی۔۔ "یا الله۔۔ میں کیا کروں؟"
سر مٹھیوں میں بھینچے وہ چکراتے سر کو تھام بلکتی کہہ رہی تھی۔۔ "مجھ پہ بھروسہ۔۔" دور کہیں سے آواز ابھری تھی۔۔ "مجھے۔۔ مجھے شاہ کے پاس جانا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔" یک دم ایمان کے آنسو تھم گئے۔۔۔ "میری امی۔۔۔ اففف میں کہاں جاؤں؟؟؟؟"
بلکتے ایک بار پھر وہ زمین پہ ڈھے گئی تھی۔۔ دفعتاً تاریکی میں دھیمی سی روشنی پھیلی۔۔ اچانک روشنی کے اتفاد سے ایمان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔۔ کھوجتی نگاہیں اس وجود پہ ٹکیں تھیں جو پرنور تھا۔۔ اس وجود کے باعث کمرے کی تاریکی مٹ گئی۔۔
وہ ایمان کے قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔۔ وہ وہ کسی انسان کا وجود معلوم نہ ہوتا تھا بلکہ وہ شاید کوئی پرنور مجسم تھا۔۔ جانے کون؟؟؟ مگر پرنور۔۔۔ جیسے۔۔ جیسے الله کے نیک ترین بندوں میں سے ایک ہو۔ شاید وہ عزرائیل تھا جو۔۔۔ جو ایمان کو لینے آئے تھے۔۔
ایمان کا سانس تھم گیا۔۔۔ پیشانی پہ پسینہ چمکنے لگا۔۔۔ اسے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔ سانس روکے وہ یک ٹک اس وجود کو دیکھے گئی۔۔۔ تو کیا اس کا وقت آ گیا تھا؟؟ کیا الله کو اس کی حالت پہ رحم آ گیا تھا؟؟؟
آنکھیں موندے اس نے تھوک نگلا۔۔۔
سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔
سرد آہ خارج کی۔۔۔
"میں تیار ہوں۔۔ تیار ہوں میں۔۔۔" دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوتے اس نے آنکھیں کھولیں۔۔ وہ اس تاریک کمرے کی بجائے اپنے بےسدھ پڑے وجود کے قریب کھڑی تھی۔۔ طاہرہ بیگم دور کونے میں کھڑی اسکے وجود کا معائنہ ہوتا دیکھ بلک رہیں تھیں۔۔ اس نے طاہرہ کی نگاہوں کی سدھ میں دیکھا تھا۔۔ ڈاکٹرز اس کے وجود کو جھٹکے دے رہے تھے۔۔ وہ وہی تھی۔۔ نالیوں میں جکڑا وجود آخری سانسیں لے رہا تھا۔۔
"ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔۔ تمھیں اپنی دنیا میں وآپس لوٹنا ہوگا۔۔" آواز پہ نگاہیں موڑیں تو پرنور مجسم کو کہتے سنا۔۔۔ ایمان کی سانس اٹک گئی۔۔ اسے زندگی کی نوید سنائی گئی تھی مگر وہ اندرونی طور پہ مردہ قرار دی جا چکی تھی۔۔ اک آنسو پلکوں کی بار توڑتا ایمان کے بےسدھ بےرنگ چہرے پہ بہہ نکلا۔۔ بلآخر اسے جدائی کا سامنا کرنا تھا۔۔
ہاتھوں کی انگلیوں میں حرکت پیدا ہوئی۔۔ سکرین پہ سانسیں مدہم چلتی دھیرے دھیرے نارمل ہو رہی تھیں۔۔ ڈاکٹر اک نظر سکرین پہ چلتی دھڑکنوں کو دیکھ ستیتھوسکوپ تھامے اس کا معائنہ کرنے لگے۔۔۔ طاہرہ بیگم کے آنسو تھم گئے۔۔ لب بےیقینی سے کھلے۔۔ ایمان کی پیشانی شکن آلود ہوئی تھی۔۔ وہ گہرے سانس لیتی تشویش میں مبتلا کئے دے رہی تھی۔۔ اگلے چند منٹوں میں ڈاکٹر نے اس کا مکمل چیک اپ کئے خوشی کی خبر سنائی تھی۔۔ پریشانی کے آثار چھٹنے لگے تھے اور بلآخر سکون و اطمینان کی لہر ان کے سینے میں رینگ گئی۔۔ طاہرہ بیگم نے تشکر آمیز نگاہ آسمان کی جانب ڈالے اس ذات کا شکر ادا کیا جس کے باعث ایمان اک بار پھر صحت یاب ہوئی تھی۔۔ وہ ذات جس نے اسے زندگی بخشی تھی۔۔۔
* * * * * * *
*دو سال بعد*
جب ہمارے ہمراہ کوئی ایسا شخص موجود نہ ہو کہ جس سے حال دل بیان کیا جائے، اس لمحے یہ صفحے، کاغذ کے چند ٹکڑے ہمارا درد بانٹتے ہیں۔۔ ہماری تکلیف خود میں سموتے ہیں۔۔ کئی برسوں سے میں اپنا حال دل لکھتے اس قرب کو بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہوں جو شاہان کی جدائی کے باعث میری بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ گیا۔۔
پچھلے دو سال سے میں ہر روز تڑپتی اسے بھولنے کی سعی میں خوار ہو رہی ہوں، مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی یاد مزید تڑپ لئے میرے دل پہ حملہ آور ہوتی ہے۔۔ جانے وہ بچھڑ کر بھی کیوں نہیں بچھڑا؟؟؟؟
اس کی سانسوں کی گرماہٹ۔۔
اس کی ہنسی کی کھلکھلاہٹ۔۔
اس کے وجود کی قربت۔۔
اس کی نگاہوں کا حصار۔۔
وہ کیا تھا جو مجھے راس نہ آیا؟؟ وہ کون سی گھڑی ہو گی جب الله نے میری قسمت میں شاہان کی جدائی لکھی ہوگی؟ کیا انہیں مجھ پہ رحم آیا ہوگا؟ کیا وہ اگلے چند صفوں پہ میری زندگی کو اختتام نہیں دے سکتے تھے؟ مگر وہ الله ہیں میں ان سے گلہ نہیں کر سکتی۔۔ یقینا اس میں بھی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوگی۔۔ مگر اس تڑپ کا کیا کروں جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہی؟ شاہان کی جدائی میں صبر کو کیسے پکاروں؟
یہ ڈر جو دل میں گھر کر بیٹھا ہے اسے کیسے نکالوں؟؟" دروازہ دھیمی سی دستک کے بعد کھلا تو ایمان کے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر زمین پہ سیاہی کے چند دھبے چھوڑ گیا۔۔ کتاب بند کئے اس نے جھک کر قلم وآپس تھاما پھر کتاب اور قلم سائیڈ میز پہ زرد لیمپ کی روشنی تلے رکھ دیا جو کب سے اسے آنسو بہاتے اپنا دل ہلکا کرتا دیکھ رہا تھا۔۔
کمرے میں اس زرد لیمپ کے علاوہ اور کوئی دوسری شے روشن نہ تھی،، کھڑکیوں پہ پردے درست کئے گئے تھے یوں کہ چاند کی چاندنی کمرے میں داخل ہونے سے قاصر تھی۔۔ طاہرہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے کمرے کو روشن کرنا مناسب نہ سمجھا۔۔ بیٹی کے آنسو جتنے پوشیدہ رہتے اتنا وہ کم روتی تھی۔۔
"ایمان بیٹا۔۔۔ اٹھو کھانا کھا لو۔۔۔" بستر پہ اس کے مقابل بیٹھتے وہ چہرے پہ مخروطی مسکراہٹ سجائے کہہ رہی تھیں۔۔ ایمان نے کمبل درست کیا اور چہرے تک تان کر آنکھیں موند لیں۔۔ اسکا وجود کمبل کے پیچھے مکمل چھپ گیا تھا۔۔ "بھوک نہیں۔۔" کہتے وہ سونے کی اداکاری کرنے لگی۔۔ طاہرہ کے دل کے جوت بجھ گئے۔۔
"ایمان بیٹا۔۔ ایسے کیسے چلے گا۔۔ تمہارے پاپا انتظار کر رہے ہیں۔۔" انہوں نے اسے قائل کرنا چاہا۔۔
"امی مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ نہیں کھانا کچھ بھی۔۔ پلیز لیو می الون۔۔" اک جھٹکے سے کمبل منہ سے اتار دور پھینکتے، وہ پاؤں میں چپل آڑستی کڑے تیور لئے باتھ روم میں جا گھسی۔۔ طاہرہ بیگم محض اس کی پشت کو گھور کر رہ گئیں۔۔
پچھلے دو سال سے یہ تو روز کا معمول بن چکا تھا۔۔ ایمان کی تکلیف کی پرچھائیاں اس کے چہرے پہ واضح دکھائی دیتی تھیں۔۔ دن با دن دل کی تکلیف اس کے روئیے سے جھلکنے لگی تھی۔۔ ہر گزرتے دن اس کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔۔ چڑچڑا پن اب اس کی ذات کی خاصیت بنتا جا رہا تھا۔۔
ایمان کا رویہ سبھی کو پریشانی میں مبتلا کر چکا تھا۔۔ گھر کے ایک فرد کی تکلیف سب ہی کے روئیوں پہ غالب آ چکی تھی۔۔ بات بے بات غصّہ دکھانا، چیخنا چلانا، رونا اب عام سی بات لگتی تھی اور وہ جانتی تھیں اس لمحے واش روم میں گھسی وہ بین کرتی اپنی ادھوری محبت کا سوگ منا رہی تھی۔۔۔
جانے کب سب ٹھیک ہونا تھا؟؟؟ جانے کب؟؟
* * * * * * *