6۔جولائی 2017ء کی صبح دائمی مفارقت دینے والے اپنے نو جوان بیٹے سجاد حسین کے نام۔تمھارے بعد ایسی شامِ الم آئی کہ درد کی مسموم ہوا کے بگولوں میں تمھارا ضعیف اورالم نصیب باپ حسرت و یاس کے چیتھڑے اوڑھے نشیبِ زینہ ٔ ایام پر چراغ ِسحر بنا بیٹھاہے ۔ تم نے میرے کتب خانے میں بکھرے اورا ق کے پلندے سے یہ مضامین تلاش کیے، اپنے جدید ترین بیش قیمت کمپیوٹر پر کمپوزکیے اور اِن کی طباعت کی تمنا اپنے دِل میں لیے اچانک عدم کی بے کراں وادیوںکی جانب کُوچ کر گئے ۔ تمھارے بعد سعادت مندی ،وفا اور ایثار کے سب حقائق خیال و خواب بن گئے ہیں۔ہمارے خواب آہ و فغاں کرتے ہیں کہ اجل کے بے رحم ہاتھوںنے مرکزِ تعبیر ہی چھین لیا۔مضامین کی یہ تصویر دیکھ کر دِل تھام لیا کہ صاحبِ تصویر تو دائمی مفارقت دے گیا ۔تمھارے جانے کے بعدفضا میں سمے کے سم کے ثمر عجب گُل کھلایا کہ آب ِ رواں نے شعلۂ جوالا کی صورت اختیار کر لی اور آستین کے سانپ پھنکارنے لگے۔ بہو کا بھیس بنا کر آنے والی انسانیت سے عاری محافظہ ٔ رومان نے لیپ ٹاپ ،یو ایس بی ،ڈیجیٹل کیمرے اور تمھارے اندوختے سمیت سب متاع ِ علم و ادب لُوٹ لی ۔اس عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ کی جسارتِ سارقانہ اور شقاوت آمیز موقع پرستی دیکھ کر نا طقہ سر بہ گریباں ہے اور کچھ کہنے سے قاصر ہے ۔ خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اُس بروٹس قماش محسن کُش اور پیمان شکن کے صریح جُھوٹ اور فکر و خیال کی لُوٹ کوکس طرح احاطہ ٔ تحریرمیں لایا جائے۔ بے سروسامانی اور بے چارگی کے اِس عالم میں خالقِ کائنات کے سوامیرا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔اللہ کریم تمھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہم الم نصیب جگر فگاروں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
فقیر
غلام شبیر
سجاد حسین کی یاد میں
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاںنثار اختر (1914-1976)