دختر ِمغرب
ارینج شادیوں میں کئی طرح کی الجھنیں ہوسکتی ہیں۔ ان شادیوں کا اصل مقصد توتھا جائیداد میں اضافہ ،بلا اجازت ہونے والے عشق پرپہرے بٹھانایا خفیہ محبتوں کا راستہ بند کرنامگر یہ شادیاں عموماََ ناکام ثابت ہوتی ہیں۔لڑکی لڑکا چاہے ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں، جلد باز ماں باپ وقتی فائدے کے ہاتھوں بے حس ہو کر ،یہ جانتے ہوئے بھی باز نہیں آتے کہ اس شادی کا انجام برا یا شائد متشدد صورت میں سامنے آئے۔ یہ بات سیاسی زندگی پر بھی اتنی ہی صاد ق آتی ہے اور اس کا ثبوت وہ کوشش ہے جو واشنگٹن نے کی بے نظیر کا ہاتھ مشرف کے ہاتھ میں دینے کی۔
مذکورہ واقعہ میں واحد سخت گیر والدکا کردار ہر حال میں بضد نظر آتا ہوا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ادا کر رہا تھا(نیگرو پونٹے بیچ کا آدمی اور گورڈن برائون دلہن کی شرمیلی سہیلی کا کردار ادا کر رہے تھے)جسے یہ فکر تھی کہ اگر یہ شادی نہ ہوئی تو دولہا دلہن گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھے ہو جائیں گے۔ادھر دلہن کو تو بہت جلدی پڑی تھی البتہ دولہا میاں اتنے بے چین نہ تھے۔دونوں طرف سے رشتہ کرانے والے دلالوں کے مابین جہیز کے سامان بارے کافی تکرار ہوئی۔دلہن کی دلالی رحمن ملک کر رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں، جو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ان پر نیب میں کیس چلا۔ بے نظیر کی حکومت ٹوٹنے کے بعدلگ بھگ ایک سال جیل میں رہے۔ اس کے بعد وہ بے نظیر کے کاروباری شریک بن گئے۔بے نظیر کے ساتھ ساتھ وہ بھی ایک ہسپانوی عدالت میںمقدمہ بھگت رہے ہیں۔ یہ عدالت ’پیٹرولائن ایف زیڈ سی ‘نامی ایک ایسی کمپنی بارے مقدمہ سن رہی ہے جس نے صدام دور میں عراق کو کچھ مشکوک ادائیگیاں کی تھیں۔ اگر تو مقدمے میں پیش کی جانے والی دستاویزات درست ہیں تو ان دستاویزات کے مطابق بے نظیر اس کمپنی کی چیئر پرسن تھیں۔ بے نظیر کو بلا شبہ جلدی تھی مگر وہ با وردی دولہا کا بازو تھامے نظر نہیں آنا چاہتی تھیں۔ دولہا میاں دلہن کا ماضی فراموش کرنے پر تیار نہ تھے۔اس باہمی ناپسند کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کو امریکہ بہادر پر انحصار کرنا پڑا۔دونوں ’نہ‘ نہیں کہہ سکتے تھے، گو مشرف کی خواہش تھی کہ خفیہ شادی کر لی جائے۔ اس کا بڑا امکان تھا۔
دونوں نے سودے بازی کی۔ بے نظیر نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا کہ مشرف پارلیمنٹ سے ’دوبارہ انتخاب ‘ کے بعد مگرعام انتخابات سے قبل وردی اتار دیں(وردی اتار دی گئی ہے اور اب مشرف کا مستقبل انکے جانشیں نئے فوجی سربراہ کی نیک نیتی پر منحصر ہے)۔ مشرف نے جواباََ یہ کیا کہ ایک نیا قانون لاگو کیا، جسے ملکی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کہا جا سکتا ہے، اسے قومی مصالحتی آرڈیننس کا نام دیا گیا جس کے تحت ایسے سیاستدانوں کے خلاف مقدمے واپس لے لئے گئے جن پر قومی دولت لوٹنے کے الزامات تھے۔یہ قانون بے نظیر کے لئے اہم تھا ۔ انہیں امید تھی کہ اس طرح تین یورپی عدالتوں (ویلنسیا، جنیوا اور لندن ) میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور بد عنوانی کے مقدمے خارج ہو جائیں گے۔ ایسا ہوتا ہوا نظر تو نہیں آ رہا۔اکثر پاکستانیوںکو۔۔۔مراد وہ باغی اور شرارتی پاکستانی نہیں جنہیں بار بار گرفتار کرنا پڑتا ہے۔۔۔اس ’ڈیل‘ سے شدید کوفت ہوئی جبکہ سرکاری ٹی وی کی استثناء کے ساتھ پاکستانی میڈیا میں اس کی بھر پور مخالفت ہوئی۔اس ’بریک تھرو‘ کو البتہ مغرب میں بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا ۔ دھلی دھلائی بے نظیر کو امریکی نیٹ ورکس اور بی بی سی ٹی وی نیوز پر پاکستانی جمہوریت کی چیمپیئن کے طور پر پیش کیا گیا۔رپورٹر بے نظیر کو کئی ملکوں میں بدعنوانی کے مقدمات کا سامناکرنے والی سیاستدان کی بجائے فرض شناسی کے ساتھ’سابق وزیر اعظم‘ کے طور پر متعارف کراتے رہے۔
اس کرم نوازی کے ایڈوانس شکرئیے کے طور پر محترمہ عراق اور افغان جنگ کی حمایت، اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر کے ساتھ لنچ (لِٹمس ٹسٹ)اور پاکستان میں ’دہشت گردی کے مکمل خاتمے‘کا عہد کر چکی تھیں۔1979 ء میں اس وقت کے فوجی آمر نے محترمہ کے والد سے واشنگٹن کی رضامندی سے پیچھا چھڑایا اور شائد اس سے انہوں نے یہ سبق سیکھا کہ سامراجی چھتر چھایا میں ہی عافیت ہے۔ہارپر کولنز نے انہیںنئی کتاب لکھنے کے لئے پانچ لاکھ ڈالر ادا کئے جس کا سرورق انہوں نے ’مصالحت‘ تجویز کیاہے۔
یہ کتاب بے نظیر کی وفات کے بعد شائع ہوئی ۔ اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو اس سے قبل اسلام کے ایسے تجزیہ نگار نہ کہہ چکے ہوں جو ڈینیل پائپس یا کیمپس واچ فولک ایسے جریدوں کے سرورق پر شائع ہوتے ہیں۔ اصل جدوجہد اسلام اور امریکہ کے مابین نہیں بلکہ اسلام کے اپنے اندر تھی۔ اعتدال پسند اسلام ، جس کی نمائندگی بلا شبہ وہ خود،حامد کرزئی، حسنی مبارک اور دیگر اعتدال پسند کرتے تھے، مغربی اقدار کے لئے کوئی خطرہ نہ تھا۔ قرآن یا مسلمانوں کی اکثریت بھی کوئی خطرہ نہ تھے ۔ ایک بس انتہاپسندی تھی جس کا خاتمہ مقصود تھا۔1
جہاں تک جنرل کا تعلق ہے تو موصوف نے 1999ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وقت کے تقاضوں کے مطابق ’چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ کہلانے کی روایت توڑتے ہوئے ’چیف ایگزیکٹو‘ کالقب اختیار کیا۔اپنے ہر پیش رو کی طرح انہوں نے بھی وعدہ کیا کہ وہ مختصر مدت کے لئے آئے ہیں۔ 2003 ء میں وعدہ کیا کہ 2004 ء میں وردی اتار دیں گے۔ اپنے ہر پیش رو کی طرح انہوں نے بھی وعدہ خلافی کی۔ ہر مارشل لاء کا آغاز اس وعدے کے ساتھ ہوتا ہے کہ عہدِ گذشتہ کی گندگی اور بدعنوانی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک نیا نظام متعارف کروایا جائے گا:اب کی بار بے نظیر اور نواز شریف کی سول انتظامیہ کا تختہ الٹا گیا تھا۔یہ ’نئے نظام‘ پیش قدمی کی بجائے دائرے کا فوجی سفر ثابت ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک اور اس کے اداروں کی ہلی ہوئی بنیادیں مزید کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ دس سال کے اندر اندر فوجی آمرنئی شورشوں کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔
گذشتہ صدی میں اپنے عہد ِ عروج کے خواب دیکھنے میں مگن بے نظیر کی خواہش تھی کہ انکی واپسی پر ان کا بہت بڑا استقبال ہو۔جنرل ناخوش تھا۔خفیہ اداروں (اور ان کے اپنے سکیورٹی مشیروں ) کی نظر میں بے شمار خطرات لاحق تھے۔بے نظیر نے دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا اور انہوں نے قتل کی دھمکی دے رکھی تھی۔وہ دنیا، اپنے سیاسی مخالفین بشمول اپنی جاگیر پی پی پی میں موجود حریفوں کو اپنی مقبولیت ثابت کرنا چاہتی تھیں۔ دبئی سے کراچی جانے والی پرواز پر بے نظیر کے سوار ہونے سے ایک ماہ قبل ہی پی پی پی نے ملک بھر سے ایسے رضاکار بھرتی کرنے شروع کر دئیے تھے جو بے نظیر کا استقبال کرنے پہنچ سکیں۔ دولاکھ سڑکوں کنارے جمع ہو سکے۔ یہ تعداد اس دس لاکھ والے جلوس کا عشر عشیر بھی نہ تھا جو 1986 ء میں لاہور میں ایک مختلف بے نظیر کا استقبال کرنے جمع ہوا تھا، ایک ایسی بے نظیر جو ضیاء الحق کو چیلنج کرنے آئی تھی۔ منصوبہ تو یہ تھا کہ بے نظیر موبائل میں جلوس آہستہ آہستہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر جائے گا جہاں وہ تقریر کریں گی۔ ایسا نہ ہو سکا۔ شام ڈھلتے ہی بمبار حملہ آور ہو گئے۔وہ کون تھے اور انہیں کس نے بھیجا، اس بھید سے ہنوز پردہ نہیں اٹھا۔خود تو وہ محفوظ رہیں مگر ان کی حفاظت پر معمور پولیس والوں سمیت ایک سو تیس افراد جاں بحق ہو گئے۔شادی کی تقریب ماتم میں بدل گئی۔
جنر ل صاحب بے نظیر کے ساتھ ساجھے داری کے وعدے وعید کرنے کے ساتھ ساتھ سفاکی کے ساتھ ایوانِ صدر میں اپنے قیام میں توسیع کے لئے کوشاں تھے۔بے نظیر کی آمد سے قبل ہی وہ راستے کی رکاوٹیں عبور کرنے کے خوفناک منصوبے بنائے بیٹھے تھے مگر انکے اپنے جرنیل (اور امریکی سفارت خانہ)آڑے آ رہے تھے۔بے نظیر کے جلوس پر حملے سے بحث از سر نو شروع ہو گئی۔پاکستان ایسا آتش فشاں نہ بھی سہی جیسا اسے مغربی میڈیا بنا کر پیش کر رہا ہے مگر آتش فشاں کے دہانے پر ضرور ہے۔چیف جسٹس کی برطرفی پر مشرف سے نبرد آزما قانون دان برادری نے وقتی طور پر ایک کامیابی حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں ایک بے باک حد تک آزاد عدلیہ وجود میں آ گئی۔آزاد ٹی وی نیٹ ورکس مسلسل ایسی خبریں پیش کر رہے تھے جن سے سرکاری پراپیگنڈہ بیکار ہو کر رہ جاتا۔تحقیقاتی صحافت حکومتوں کو کبھی بھی پسند نہیں رہی۔ جنرل پاکستانی صحافیوں کے’ چبھتے ہوئے‘ سوالوں کا موازنہ اکثر امریکی ٹی وی نیٹ ورکس اور بی بی سی ٹی وی پر دی جانے والی تعظیم سے کرتا: اس طرح تو ’لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا تھا‘۔
انکی کتاب کو امریکہ میںملنے والی کوریج ، بالخصوص دی ڈیلی شو میں جان اسٹیورٹ کے ساتھ انہیں اپنا پروگرام بہت پسند آیا۔پاکستان میں صورتحال بالکل دوسری تھی۔ وکلاء کو ملنے والی میڈیا کوریج نے انہیں خبطی بنا کر رکھ دیا۔
مقبولیت میں کمی نے مزید خبطی بنا دیا۔جنرل کے مشیر جنرل کے اپنے پالے ہوئے لوگ تھے۔ایسے لوگ جنہوں نے ’دوستانہ اور بے تکلفانہ محفلوں ‘میں اختلاف رائے کیا تھا، انہیں ریٹائر کیا جا چکا تھا۔جنرل کے سیاسی حلیفوں کو خدشہ تھا کہ اگر بے نظیر کے ساتھ شراکت اقتدار ہوئی تو انکی لوٹ کھسوٹ کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔
اگر دم توڑتی اور غیر نمائندہ پارلیمنٹ سے دوبارہ انتخاب کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا تو؟اس آفت سے بچنے کے لئے آئی ایس آئی بلیک میلنگ کے جال بن رہی تھی: ایجنٹ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کی رنگ رلیوں کے ویڈیوز بنا رہے تھے۔مشرف کی عدم مقبولیت مگراس حد تک پہنچ چکی تھی کہ عدالت کی معزز ہستیوں کی ہم بستری کے مناظر بھی اپنا کام نہ دکھا سکے۔ عین ممکن ہے اس طرح ان ججوں کی حمایت میں اضافہ ہو جاتا۔1مشرف کو اندازہ ہو گیا کہ بلیک میلنگ سے کام نہ چلے گا۔ صرف آہنی ہاتھ سے ہی ’امن عامہ ‘ کی صورتحال سے نپٹا جا سکتا ہے یعنی اپنی گلو خلاصی کرائی جا سکتی ہے۔ایسی صورتحال میں عمومی طور پر تو مارشل لاء لگایا جاتا ہے۔ایسی صورت میں لیکن کیا کیا جائے کہ جب ملک پہلے ہی فوجی سربراہ کی سربراہی میں چل رہا ہو؟آسان حل: دوائی کی مقدار میں تگنا اضافہ۔ بغاوت در بغاوت کر دی جائے۔مشرف نے کم از کم یہی فیصلہ کیا۔ واشنگٹن کو چند ہفتے قبل ہی بتا دیا گیا تھا البتہ دس ڈاؤننگ سٹریٹ کو قدرے تاخیر سے اطلاع دی گئی۔مغرب میں موجود بے نظیر کے مربیوں نے انہیں پہلے سے خبر دار کر دیا تھا اور وہ، حماقت کی انتہا کہ ابھی اس سیاسی رہنما کو واپس آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے، دبئی کھسک گئیں۔
تین نومبر کو مشرف نے بحیثیت فوجی سربراہ 1973 ء کا آئین معطل کرتے ہوئے ہنگامی حالت نافذ کر دی، تمام غیر سرکاری ٹی وی چینلز کی نشریات معطل کر دی گئیں ، موبائل فون جام کر دئے گئے اور نیم فوجی دستوں نے سپریم کورٹ کو گھیرے میں لے لیا۔ چیف جسٹس نے ہنگامی بنچ تشکیل دیا۔ اس بنچ نے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اقدام کو ’غیر قانونی و غیر آئینی قرار دے دیا‘۔ان ججوں کو غیر رسمی انداز میں ہٹا کر نظر بند کر دیا گیا۔پاکستانی جج عموماََ چپ چاپ سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے۔اگر کوئی جج فوجی حکمران کی مخالفت مول لیتا تو اسے ڈرادھمکا کر رستے سے ہٹا دیا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ اس چیف جسٹس کے فیصلے نے حیران کر دیا اور اپنی عزت و مقبولیت میں بے پایاںاضافہ کیا۔ عالمی میڈیا میں پاکستان کی تصویر کشی ایک ایسے ملک کے طور پر کی جاتی ہے جہاں جرنیل ، بد عنوان سیاستدان اور مذہبی جنونی پائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کی بحالی کی جدوجہد نے ملک کے ایک مختلف تصور کو ابھارا۔
پی پی پی کے ممتاز رکن اور بے نظیر کی پہلی حکومت کے دوران انکے وزیر داخلہ ، اعتزاز احسن جو سپریم کورٹ بار کے صدر بھی ہیں، گرفتار کر کے قید تنہائی میں بٹھا دئیے گئے۔ہزاروں سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔عمران خان جو آمریت کے زبردست اور با اصول مخالف ہیں’دہشت گردی ‘ کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے۔۔۔اس الزام کے ثابت ہونے پر موت یا عمر قید کی سزا ہے۔۔۔انہیں ہتھکڑی لگا کر ایک دور افتادہ ہائی سکیورٹی جیل میں بھیج دیا گیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مشرف نے ملکی تاریخ میں ایک اور بھدے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ملک بھر میں وکلاء کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور گرفتاری سے پہلے پولیس والے ان کو تشدد کا نشانہ بناتے۔پولیس والوں کو حکم تھا کہ انکی تذلیل کی جائے اور پولیس والوں نے اس حکم کی بجا آوری میں کوئی کسر نہیںچھوڑی۔ ’عمر‘ نامی وکیل نے اپنی بپتا یوں بیان کی ہے:
’’میں اپنے ساتھیوں سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ ہم نے دیکھا پولیس والے اپنے ایک افسر کے حکم پر وحشی ہو کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔بلوے کے انداز میں ہتھیار اور لاٹھیاں اٹھائے سو کے قریب پولیس والوں نے ہم پر دھاوا بول دیا۔یوں لگتا تھا وہ اس حملے کیوجہ سے بہت خوش تھے۔ہم سب وہاں سے بھاگ اٹھے۔ہم میں وہ جو تیز دوڑنے سے قاصر تھے، پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔اس کے بعد ہمیں پولیس کی ان گاڑیوں میں بھر دیا گیا جو سزایافتہ مجرموں کو لانے لیجانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔طاقت کے اس اندھا دھند استعمال پر سب ہکا بکا تھے مگر ابھی تو بہت کچھ باقی تھا۔پولیس نے عدالت کے احاطے اور عمارت کے اندر بھی پولیس گردی کا زبردست مظاہرہ کیا۔ہم میں سے جو گرفتار ہو گئے انہیں مختلف تھانوں میں لے جا کر حوالات میں ڈال دیا گیا۔آدھی رات کو بتایا گیا کہ ہمیں جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔ہماری ضمانت ممکن نہ تھی کہ ہمارے بنیادی حقوق معطل تھے۔ساٹھ وکیلوں کو ایک ایسی گاڑی میں بھر دیا گیا جس کی اونچائی صرف پانچ فٹ جبکہ لمبائی دس اور چوڑائی چار فٹ تھی۔ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں بھر دیا گیا تھا۔جیل پہنچنے پر بتایا گیا کہ ہمیں اس وقت تک گاڑی سے نکلنے کی اجازت نہیں مل سکتی جب تک جیل انتظامیہ کو گرفتاری کے احکامات نہیں مل جاتے۔ہمارے کچھ معمر ساتھیوں کا دم گھٹنے لگا، کچھ بے ہوش ہو گئے، بعض کلاسٹرو فوبیا کا شکار ہو کر خوفزدہ ہو گئے۔پولیس ہماری چیخ و پکار پر کوئی کان نہ دھر رہی تھی اور گاڑی کے دروازے کھولنے سے انکاری تھی۔آخر تین گھنٹے کے بعد ہمیں گاڑی سے نکال کر مچھروں سے بھرے بیرکوں میں پہنچا دیا گیا اور جوکھانا دیا گیا وہ نالی کے پانی کی طرح بدبو دار تھا‘‘۔
سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک جیو نے اپنی نشریاتی تنصیبات دبئی میں قائم کی تھیں۔لندن میں جیو دیکھتے ہوئے عجیب سا احساس ہوتا تھا کہ پاکستان میںجیو بند تھا۔ایمر جنسی کے پہلے روز میں نے حامد میر کو جیو پر دیکھا ، جنرل کو یہ صحافی ایک آنکھ نہیں بھاتا،جو اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے لئے امریکی سفارت خانے نے سبز اشارہ دیا تھا کیونکہ امریکی سفارت خانہ چیف جسٹس کو وبال جان اور غلط طور پر ’طالبان کا ہمدرد‘ سمجھتا تھا۔نہ تو کسی امریکی ترجمان کو یہ توفیق ہوئی نہ ہی دفتر خارجہ کے کسی کل پرزے کو کہ آٹھ ججوں کی برطرفی یا انکی گرفتاری کی مذمت کردے۔ججوں کے مسئلے پر یہ خاموشی مشرف کی وردی اتروانے پر اصرار کی قیمت تھی۔جنرل مشرف اس شرط پر وردی اتارنے پر تیار تھے اگر کھیل کے باقی سب اصول انکے حق میں جاتے ہوں۔نئی نئی مقرر کی گئی گماشتہ سپریم کورٹ یہ کام کرنے کے لئے تیار تھی۔ دبئی میں موجود انتظامیہ نے بھی یہی کیا اور جیو کی نشریات بند کر دیں۔
ہنگامی حالت نافذ ہونے کے پہلے روز، بار بار کی تاخیر کے بعدنیم مدہوش جنرل مشرف ٹی وی پر نمودار ہوئے۔بال بری طرح ڈائی کئے ہوے تھے۔وہ ایک ایسے رہنما کا تاثر دینا چاہتے تھے جو سیاسی بحران کو خاطر جمعی اور پوری سنجیدگی سے زیر بحث لانا چاہتا ہو البتہ وہ ایک ایسے آمر کے طور پر نظر آئے جسے اپنے سیاسی مستقبل کی فکر لاحق ہو۔قوم سے پہلے اردو اور پھر انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے ان کی کارکردگی عدم تسلسل کا شکار تھی۔لب لباب یہ تھا: انہیںیہ اقدام سپریم کورٹ کی وجہ سے کرنا پڑا جس کی وجہ سے ’ریاستی ایجنسیاں اس قدر مایوسی کا شکار تھیں کی ہم ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ جنگ نہ لڑ سکتے تھے اور ٹی وی نیٹ ورک بالکل ’غیر ذمہ دار‘ بن چکے تھے۔سب و شتم سے مملو تقریر کے درمیان میں انہوں نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا ’میں نے ایمر جنسی لگا دی ہے۔ آپ نے ٹی وی پر دیکھ لیا ہو گا‘۔ کیا ان کا اشارہ بھنبھناتی مکھیوں والی ٹی وی سکرینوں کی طرف تھا؟ کیا خبر؟ بی بی سی اردو سروس کے بذلہ سنج سربراہ محمد حنیف نے یہ تقریر سنی ان کا کہنا ہے کہ وہ تقریر سن کر اپنے حواس کھو بیٹے۔ حنیف کو پورا یقین ہے کہ تقریر کا اردو حصہ جنرل نے خود ترتیب دیا تھا۔ جنرل کو اردو اور انگریزی میں نقل کرتے ہوئے محمد حنیف نے اس تقریر کی جو تشریح کی ہے اسے ہو بہو پیش کرنا ہی مناسب ہو گا:
’’یہ ہیں کچھ باتیں جو انہوں نے اپنی تقریر میں کہیں
جی ہاں انہوں نے کہا ایکسٹریم اسٹ بہت ایکسٹریم ہو گئے ہیں
ہم سے اب کوئی ڈرتا ہی نہیں
حکومت کے اندر ایک حکومت چل رہی ہے
ہر وقت بس کورٹ کے چکر لگاتے پھر رہے ہیں
اسلام آباد میں ایکسٹر یم اسٹ بھرے پڑے ہیں
صرف ایک لمحے کے لئے ان کے چہرے پر نرمی نظر آئی جب انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے تین برسوں کا ذکر کیا۔’میرا اس وقت مکمل کنٹرول تھا‘۔
’انکل پھر کیا ہوا‘ میں نے سوچا۔
جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگانے کا ذکر بھی سرسری طور پر ہاتھ ہلا کر کیا اور کہہ دیا کہ آپ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھ ہی لیا ہو گا۔یہ تک نہیں بتایا کہ سارے ٹی وی چینل تو میں نے بند کر دئیے ہیں۔
مجھے اصل بے عزتی کا احساس اس وقت ہوا جب آخر میں جنرل مشرف نے اپنے مغربی سامعین سے انگریزی میں خطاب کیا۔تقریر کا یہ حصہ لکھا ہوا تھا۔کسی نے گرامر کی غلطیاں بھی درست کر دی تھیں۔جملے شروع ہوتے تھے اور ختم بھی ہوتے تھے۔میں نے سوچا انکل ٹھیک ہے۔ ہم ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ جمہوریت یا بنیادی حقوق مانگ سکیں لیکن کیا ہم درست گرامر کے بھی حق دار نہیں؟ ‘‘
انگریزی تقریر میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ پر زور دیا گیا: جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ نپولین اور ابراہم لنکن بھی اپنے ملک ’کی سلامتی ‘ کے لئے وہی کرتے جو انہوں نے کیا۔ابراہم لنکن کا ذکر یقینا امریکی منڈی میں کھپت کے لئے کیا گیا تھا۔پاکستان کی فوجی تربیت گاہوں میں جن فوجیوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان میں نپولین، ڈیگال اور اتا ترک شامل ہیں۔
دبئی میں ٹی وی پر یہ تقریر دیکھتی ہوئی شکست خوردہ بے نظیر اس سے کیا نتیجہ اخذ کرے؟ان کا ابتدائی رد عمل کہ وہ ہکا بکا رہ گئی ہیں، کسی حد تک مکارانہ سا بیان تھا۔بالفرض اگر بے نظیر کو انکے مغربی سر پرستوں نے قبل از وقت ایمرجنسی بارے نہیں بھی بتایا تھا ، ایمرجنسی کا نفاذ کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ اس کا ایک اشارہ تو کنڈولیزا رائس کی وہ پبلک اپیل تھی جس میں انہوں نے مشرف سے کہا تھا کہ وہ ہنگامی حالت کے نفاذ سے باز رہیں۔چوبیس گھنٹے تک بے نظیر کی طرف سے کوئی واضح رد عمل سامنے نہ آسکا۔ایک موقع پر تو انہوں نے چیف جسٹس پر الزام لگایا کہ وہ بہت متحرک تھے۔کراچی سے احتجاج بھری ٹیل فون کالز آ رہی تھیںجن سے مجبور ہو کر وہ کراچی واپس آئیں۔ان کو انکی اوقات یاد دلانے کے لئے ان کا طیارہ کئی گھنٹے ٹارمک پر روکے رکھا گیا۔آخر جب وہ وی آئی پی لائونج میں پہنچیں تو انکے پارٹی کے ساتھیوں نے کہا کہ اگر وہ واضح طور پر ہنگامی حالت کی مذمت نہیں کرتیں، پارٹی ٹوٹ جائے گی۔ مشرف نے بھی چھوڑ دیا تھا،چالیں بھی بری طرح ناکام ہو چکی تھیں، اب اگر پارٹی کے کچھ رہنما بھی الگ ہو جاتے تو یہ خسارہ اٹھانے کا خطرہ وہ مول نہ لے سکتی تھیں لہٰذا انہوں نے ہنگامی حالت اور اسے نافذ کرنے والوں کی مذمت کی، محاصرے میں بیٹھی حزب اختلاف سے رابطہ کیا،گویا ایک نیا سنگھار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آمریت سے نجات کے لئے جدوجہد کی قیادت کریں گی۔اب چیف جسٹس سے اظہار ِ ہمدردی کے لئے وہ ان سے ملاقات کے لئے نکل کھڑی ہوئیں مگر انہیں چیف جسٹس کی رہائش گاہ کے قریب تک نہ پہنچنے دیا گیا۔
وہ اپنے گرفتار ساتھی اعتزاز احسن کے نقش ِ قدم پر چل سکتی تھیں مگر وہ اعتزاز سے جلتی تھیں۔اعتزاز پاکستان بھر میں بے حد مقبول ہو چکے تھے۔اعتزاز نے تو یہاں تک جرات دکھائی کہ واشنگٹن جا پہنچے جہاں مقتدر حلقوں نے ان کا شائستگی سے استقبال کیا اور اس بات پر غور کیا گیا کہ اگر معاملات بگڑ جائیں تو کیا اعتزاز کوئی متبادل ثابت ہو سکتے ہیں۔بے نظیر کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ چیف جسٹس کی بحالی کے لئے کامیاب مہم چلانے پر وہ ایک بلیک بیری میسج ہی اعتزاز کو بھیج دیتیں۔اعتزاز نے بے نظیر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مشرف سے کسی قسم کا سمجھو تہ نہ کریں۔کہا جاتا ہے اعتزاز نے بے نظیر سے کہا کہ جب جرنیل گھیر ے میں آ جاتے ہیں تو وہ غیر منطقی اور جان پر کھیل جانے والے اقدامات کرتے ہیں۔بعض دیگر افراد جنہوں نے یہی بات ذرا زیادہ نرم لہجے میں کہی تھی، ان کو بھی فارغ کر دیا گیا۔وہ پی پی پی کی ’تا حیات‘ چئیر پرسن ہیں اور کسی قسم کا اختلاف برداشت نہیں کر سکتیں۔اس بات سے انہیں مزید کوفت ہوئی کہ اعتزاز کی بات درست ثابت ہوئی۔سیاسی اخلاقیات سے تو لیکن عرصہ ہوا پیچھا چھڑا لیا گیا تھا۔یہ کہ پارٹی کے کوئی مستقل اصول ہونے چاہئیں، فرسودہ اور مضحکہ خیز بات تھی۔گرفتاری کے بعد اعتزاز ان درجنوں مغربی صحافیوں کی رسائی سے مناسب طریقے سے باہر ہو گئے تھے جنہیں بے نظیر اپنی چند روزہ نظر بندی کے دورا ن اوراس کے بعد بھی بڑی ادائوںکے ساتھ ملتی رہیں۔اعتزاز کی گرفتاری پر ہلکے پھلکے احتجاجی بیانات کے علاوہ محترمہ نے کچھ بھی نہ کیا۔
واشنگٹن سے صلح صفائی کروانے والے جلد ہی آن پہنچے۔نیگروپونٹے نے مشرف کے ساتھ کچھ وقت گزارا، بے نظیر سے بات کی اور دونوں پر زور دیا کہ دونوں صلح کریں اور ڈیل پر عمل کریں۔بے نظیر کی تنقید میں تو کمی آگئی مگرآگ بگولہ جنرل نے سر عام کہا کہ بے نظیر جنوری میں ہونے والے انتخابات کسی صورت نہیں جیت سکتیں۔ بلا شبہ آئی ایس آئی بڑے سٹائل کے ساتھ دھاندلی کرے گی۔اگر تو بے نظیر مشرف سے وفا کرتیں تو انکی مقبولیت ختم ہو کر رہ جاتی مگر جنرل نے اس بات کو یقینی بنا دینا تھا کہ آئندہ پارلیمنٹ میں انکو مناسب حصہ مل جاتا۔اب پھر سے ہر چیز کی بولی لگے گی۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بے نظیر کے دیرینہ حریف ،نواز شریف، ان سے کہیں زیادہ مقبول ہیں۔مشرف نے جو جلدی میں مکہ کا طواف کیا تو اس کی وجہ غالباََ یہ تھی کہ اگر شریف برادران سے سودے بازی کرنی پڑ جائے تو سعودی عرب، جہاں وہ جلا وطن تھے، کو درمیان میں ڈالا جا سکے اور یوں بے نظیر کا پتہ ہی کاٹ دیا جائے۔ گو طرفین سودے بازی سے انکار کر رہے ہیں مگر نواز شریف کی واپسی سعودی مرضی سے ہوئی ہے۔ سعودی بادشاہ نے انہیں آرمر پلیٹڈ کیڈیلک گاڑی تحفے میں دی ۔بلا شبہ ریاض بے نظیر پر نواز شریف کو ترجیح دے گا۔
ایسے میں کہ جب ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہے اور ملک کا سب سے بڑا میڈیا نیٹ ورک نشریات کی بحالی کے لئے حلف وفاداری لینے سے منکر ہے، جنوری میں ہونے والے انتخابات کے لئے عام کا لاحقہ تو غلط ہو تا۔یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ کس حلقے سے کون جیتے گا اس کا فیصلہ آئی ایس آئی کو کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی بعض جماعتیں عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بائیکاٹ بارے سوچ رہی تھیں۔نواز شریف نے پریس کو بتایا کہ انہوں نے بے نظیر سے فون پر تفصیلی بات چیت کی مگر وہ انتخابی عمل کو شروع سے ہی ناکام بنانے کے لئے بے نظیر کو بائیکاٹ کے لئے قائل نہ کر سکے ۔ جب نواز شریف ملک میں واپس آ گئے، ان کا ارادہ اتنا مصمم نہ رہا۔ ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ مشرف سے سودے بازی نہ کرنے کی وجہ سے انکی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور بائیکاٹ نقصان دہ ثابت ہو گا۔ نواز شریف نے یہ بات تسلیم کر لی۔
بے نظیر اب کیا کرتیں؟اسلام آباد میں واشنگٹن کی ایک حد تک ہی چلتی ہے۔ اوّل اوّل یہی تو وجہ تھی کہ امریکہ بے نظیر کو کھیل میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ایک تقریب کے موقع پر کسی امریکی سفیر نے نیم مذاق کے انداز میں کہا تھا کہ ’ ایک دارالحکومت میں دو ٹیلی فون نمبر ہونے چاہئیں‘۔ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو مگر اس کے باوجود بے نظیر کو وزارت عظمیٰ حتیٰ کہ منصفانہ انتخابات کی ضمانت بھی نہیں دے سکتا تھا۔ایسے ہی مسائل پر بے نظیر کے والد نے پھانسی کی کوٹھڑی میں غور کیا اور نسبتاََ مختلف نتیجے پر پہنچے۔’اگر مجھے قتل کیا گیا ‘بھٹو کی آخری وصیت اور ہدایت نامے کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب نیم گرامسکی انداز میں لکھی گئی مگر اس کا مفہوم بھٹو کے ساتھیوں کی گرفت سے باہر تھا:
’’مجھے اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ پاکستانی عوام امریکی بالادستی قبول نہیں کریں گے۔اسی منطق کے تحت پاکستانی عوام اندرونی طاقتوں کی بالادستی بھی قبول نہیں کریں گے۔یہ دونوں بالادستیاں ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔اگر بالفرض ہمارے عوام چپ چاپ اندرونی بالا دستی کو قبول کر لیتے ہیں تو انہیں بیرونی بالا دستی بھی قبول کرنا ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی بالا دستی کہیں زیادہ طاقت کی حامل ہے۔اگر لوگ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ایک چھوٹی طاقت کی مزاحمت نہیں کر سکتے تو وہ بڑی طاقت کی مزاحمت بھی نہ کر سکیں گے۔اندرونی بالادست قوتوں کے آگے سر جھکا دینے کا مطلب ہو گا کہ بیرونی بالا دست قوتوں کی بالا دستی بھی تسلیم کر لی جائے۔‘‘
بھٹو کی پھانسی کے بعد اس تحریر نے بھٹو وادیوں میں نیم مقدس کتاب کا درجہ حاصل کر لیا۔بھٹو مگر جب حکومت میں تھے تو انہوں نے ایسے کوئی ادارے تشکیل دئیے نہ حکمت عملی جس سے اس بالا دستی کا رستہ روکا جا سکے ماسوائے 1973ء کا آئین جسے انسانی حقوق کے پرانے کارکن اور وکیل محمود علی قصوری نے تیار کیا تھا (ان کے صاحبزادے کچھ دن پہلے تک وزیر خارجہ تھے)۔ شخصیت کے گرد گھومنے والے، آمرانہ نظام نے پارٹی کی روح کو گھائل کیا نتیجہ یہ نکلا کہ موقع پرست آگے آئے اور یوں بھٹو کے دشمنوں کے لئے راہ ہموار ہوئی۔بھٹو شدید نا انصافی کا شکار ہوئے، انکی موت نے انکے سب عیب دھو ڈالے اور وہ شہید کے رتبے پر فائز ہو گئے۔آدھی سے زیادہ آبادی، بالخصوص غریبوں نے، بھٹو کی موت کا ماتم کیا۔اس کے بعد پارٹی خاندانی ملکیت بن گئی اور یہ پارٹی کے لئے بھی برا ثابت ہوا اور ملک کے لئے بھی۔بھٹو خاندان کے ہاتھ بہت بڑا ووٹ بنک بھی آ لگا اور بے شمار ذرائع بھی۔والد کے مقدمے اور موت کے تجربے نے بیٹی کو ریڈیکل بنا دیا۔ان دنوں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سفیر بننا چاہتی تھیں۔ان کے دونوں بھائی لندن میں تھے جنہیں بھٹو نے حکم دیا تھا کہ وہ وطن واپس مت آئیں۔بھٹو کی جان بچانے کی ذمہ داری بے نظیر اورانکی والدہ نصرت کے کندھوں پر آن پڑی ۔ان دونوں نے جس حوصلے کا مظاہرہ کیا اس نے خوفزدہ اکثریت کے دلوں میں انکی خاموش عزت میں اضافہ کیا۔انہوں نے اس ضیاء آمریت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے جو اسلام کے نام پر عورتوں سے وہ حقوق بھی چھین رہی تھی جو عورتوں نے گذشتہ دہائیوں میں حاصل کئے تھے۔ انہیں کئی بار گرفتار اور رہا کیا گیا۔انکی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔نصرت بھٹو کو علاج کی غرض سے 1982 ء میں باہر جانے کی اجازت مل گئی۔لگ بھگ سال بھر بعد بے نظیر کو بھی رہائی مل گئی۔ اس کی وجہ امریکی دبائو بھی تھا جو اس مہم کا نتیجہ تھا جو بے نظیر کے ہارورڈ یونیورسٹی کے دنوں سے دوست پیٹر گلبرائتھ نے چلا رکھی تھی۔اس دور کا ذکر بے نظیر نے اپنی کتاب دختر مشرق(1988) میں کیا۔اس کتاب میں تصاویر کے نیچے اس طرح کے عنوان درج تھے: ’صدر ریگن کی طرف سے آمریت کی ’’جمہوریت کی جانب اہم پیش رفت ‘‘ پر مبارک دینے کے فوری بعد، ضیاء کے کل پرزوں نے یوم آزادی کے موقع پر لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ جنوری 1987 ء میں میری جیپ پر حملے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر بھی پولیس نے بے رحمی سے تشدد کیا۔‘لندن میں ان کا چھوٹا سا برج نما فلیٹ آمریت مخالف تحریک کا گڑھ بن گیا ۔یہاں ہم آمریت کے خلاف جدوجہد کے منصوبے بناتے۔فوجی آمریت کی بھر پور اور پر امن مزاحمت کے ذریعے، اور ہر بہتان کا کاری جواب دیتے ہوئے بے نظیر نے اپنے لئے ایک مقام بنا لیا تھا۔بے نظیر کے بھائی البتہ ایک مختلف انداز میں متحرک تھے۔انہوں نے الذوالفقار نامی مسلح تنظیم بنا ئی جس کا اعلانیہ مقصد تھا ’ضیاء کے ساتھ مل جانے والے غداروں‘ کو نشانہ بنا کر آمریت کو خوفزدہ اور کمزور کرنا۔بنیادی رضاکار پاکستان سے بھرتی کئے گئے اور 1980ء میں انہیں افغانستان میںٹھکانہ مل گیا جہاں تین سال قبل ماسکو نواز افغان کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔یہ ایک افسوسناک داستان ہے جو زبردست دھڑے بندی کے قصوں سے بھری پڑی ہے،نام نہاد مقدمے چلے، معمولی باتوں پر جھگڑے ہوئے،ہر طرح کی خیالی باتیں کی گئیں اور ایسے رکن جن کا کوئی سہارا نہ تھا، وہ موت کی بھینٹ چڑھا دئے گئے۔مارچ1981ء میں مرتضیٰ اور شاہنواز ایف آئی اے کی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر دئے گئے۔انہوں نے کراچی سے روانہ ہونے والاپی آئی اے کا طیارہ ہائی جیک کر لیا تھا(عین وقت پر بجلی چلے جانے کی وجہ سے ایکسرے مشینوں نے کام کرنا بند کر دیا اور ہائی جیکر ہتھیار جہاز پر لے جانے میں کامیاب ہو گئے)اور طیارہ کابل پہنچا دیا گیا۔کابل میں مرتضیٰ نے کمان سنبھال لی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔طیارے کے مسافروں میں شامل ایک نوجوان فوجی افسر کو قتل کر دیاگیا۔ طیارے کو ری فیولنگ کے بعد شام بھیج دیا گیا جہاں ماسٹر جاسوس جنرل خولی نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مزید کوئی موت واقع نہ ہو۔طیارے میں امریکی مسافر بھی سوار تھے اور جرنیلوں کو انکی فکر لاحق تھی۔ صرف اس وجہ سے سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے تریپولی پہنچا دیا گیا۔
اسے ایک جیت تصور کیا گیا اور پاکستان میں پی پی پی نے اس اقدام کو خوش آمدید کہا۔پہلی دفعہ الذوالفقار کو سنجیدگی سے لیا گیا۔الذوالفقار کا اندرون ملک ایک اہم نشانہ مولوی مشتاق حسین تھے ، جو لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے ۔ مولوی مشتاق نے 1979ء میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی اور عدالت میں مولوی مشتاق کا جو رویہ تھا اس نے پی پی پی مخالف لوگوں کو بھی حیران کر کے رکھ دیا تھا(انہوں نے بھٹو پر یہ الزام بھی لگایا کہ بھٹو مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں‘ کہ انکی والدہ نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا)۔مولوی مشتاق اپنے دوست کی گاڑی میں ماڈل ٹاون لاہور اپنے گھر جا رہے تھے کہ ان پر الذوالفقار والوں نے حملہ کر دیا۔ وہ تو بچ گئے مگر ان کا دوست اور ڈرائیور ہلاک ہو گئے۔ہلاک ہونے والے دوست گجرات کے ایک چوہدری تھے : چوہدری ظہور الٰہی۔ کہا جاتا ہے چوہدری ظہور الٰہی نے، جو دغا بازکاروباری آدمی تھے، بڑے طمطراق کے ساتھ جنرل ضیاء سے فرمائش کی تھی کہ جس قلم سے بھٹو کی موت کا پروانہ لکھا گیا تھا وہ ’مقدس قلم‘ انہیں تحفے میں دے دیا جائے۔ ہو سکتا ہے چوہدری ظہور الٰہی کو الذوالفقار نشانہ نہ بنانا چاہتی ہو مگر جسٹس مشتاق کے بچ جانے سے ہونیوالی خفت مٹانے کے لئے یہ کہہ دیا گیا کہ ظہور الٰہی بھی انکے نشانے پر تھے۔یہ بات بھی ہو سکتا ہے درست ہو۔یہ چوہدریوں کی اگلی نسل تھی جس نے مشرف کو سویلین ڈھونگ رچانے میں مدد دی: ظہور الٰہی کے بیٹے شجاعت نے نواز شریف کی مسلم لیگ توڑ کر ق لیگ بنائی اور نئی فوجی حکومت کی بڑھتی ہوئی مشکلات کو آسان بنایا۔سودے بازیاں شجاعت حسین ہی کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ایمرجنسی کے نفاذ سے کہیں پہلے وہ ایمرجنسی لگوانا چاہتے تھے تاکہ بے نظیر سے ڈیل نہ ہو سکے۔مشرف کی انتخابی مہم اب یہی صاحب چلائیں گے۔ان کے چچا زاد پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور آگے ان کے بیٹے خاندانی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مکینوں سے ان کے گھر خالی کروا رہے ہیں اور لاہور کے مضافات میں موجود تمام خالی زمین خریدنے میں مصروف ہیں۔یہ پتہ نہیں چل سکا کہ مقدس قلم خاندان کے کس فرد کی ملکیت میں ہے۔ دریں اثناء ہائی جیکنگ کے واقعہ نے ماسکو کو ناراض کر دیا اور بھٹو برادران سے کہا گیا کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں۔افغانستان میں دونوں بھائیوں نے دو افغان بہنوں ، فوزیہ اور ریحانہ فصیح الدین سے شادی کر لی جن کے والد افغان وزارت خارجہ میں افسر تھے۔اپنی بیویوں کے ہمراہ وہ شام میں رکتے ہوئے، شائد لیبیا سے بھی گزرے، یورپ پہنچ گئے۔تینوں بہن بھائیوں کی ملاقات فرنچ رویرا میں ہوئی۔ اس جگہ کا ماحول تینوں کے طرز بود و باش سے میل کھاتاتھا۔دونوں بھائی ضیاء کے ایجنٹوں سے خوفزدہ رہتے تھے۔دونوں کی ایک ایک چھوٹی بیٹی تھی۔ شاہنواز کینز Cannes)) میں ایک اپارٹمنٹ لیکر رہ رہے تھے۔ وہ ’فوجی شعبے‘ کے سربراہ تھے اور کابل کے دور نے شل کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ پریشان پریشان سے تھے۔ بیوی کے ساتھ انکے تعلقات تلاطم کا شکار تھے اور انہوں نے اپنی بہن کو بتایا کہ وہ بیوی کو طلاق دینے بارے سوچ رہے ہیں۔’ہمارے خاندان میں کبھی کسی کی طلاق نہیں ہوئی۔تمہاری شادی تو خاندان نے طے بھی نہیں کی تھی۔ تم نے ریحانہ سے اپنی مرضی کے ساتھ شادی کی تھی۔اب یہ شادی نبھائو‘بے نظیر کی کتاب کے مطابق انہوں نے یوں شاہنواز کوجواب دیا۔اس کے بعد شاہنواز اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پائے گئے۔شاہنواز کی بیوی کا دعوٰی تھا کہ شاہنواز نے زہر کھا لیا تھا مگربے نظیر کے مطابق ریحانہ کی کہانی پر کوئی یقین کرنے پر تیار نہ تھا۔کمرے میں تشدد کے نشان تھے اور شاہنواز کے کاغذات کی تلاشی لی گئی تھی۔ریحانہ جیسے معصوم بن رہی تھیں ، سارا خاندان اس سے حیران تھا۔ ریحانہ کو ’گڈ سمارٹین ‘ قانون کے تحت تین ماہ کی قید ہوئی کہ انہوں نے ایک مرتے ہوئے انسان کی جان بچانے میں مدد نہیں کی۔رہائی کے بعد وہ امریکہ میں جا بسیں۔’کیا سی آئی اے نے اپنے پسندیدہ آمر کو خوش کرنے کے لئے تو یہ نہیں کیا‘، بے نظیر نے سوال اٹھایا۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کہیں دونوں بہنیں آئی ایس آئی کی ایجنٹ تو نہ بن چکی تھیں؟کچھ عرصے بعد مرتضیٰ نے فوزیہ کو طلاق دیدی مگر تین سالہ بیٹی فاطمہ کو اپنے پاس ہی رکھا اور شام چلے آئے۔یہاں ان کے پاس وقت تھا کہ غور و فکر کر سکیں اور انہوں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ بے شمار غلطیاں ہوئی ہیں۔1986 ء میں انکی غنوٰی اطوئی سے ملاقات ہوئی جو 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد شام چلی آئیں تھیں۔غنوٰی نے مرتضیٰ کی دلجوئی کی ۔ 1989ء میں دونوں کی شادی ہو گئی اور اس سے اگلے سال ان کا بیٹا ذوالفقار پیدا ہوا۔1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں اور لاکھوںکے مجمعے نے ان کا ایک تو اظہار عقیدت کے لئے استقبال کیا اور دوسرا فوجی حکومت سے اظہار نفرت کے لئے۔انہوں نے ملک بھر کا دورہ کیا اور اس دوران انہیں احساس ہوا کہ بعض لوگ جو زیادہ مذہبی رجحان رکھتے ہیں ان کے لئے ایک غیر شادی شدہ لڑکی بطور رہنما قابل قبول نہ تھی۔وہ بغیر خاوند کے سعودی عرب کیسے جا سکیں گی؟زرداری خاندان نے رشتہ بھجوایا اور اسے منظور کر لیا گیا یوں آصف کے ساتھ 1987ء میں انکی شادی ہو گئی۔بے نظیر کو فکر تھی کہ جو بھی ان سے شادی کرے گا اسے انکی سیلانی سیاسی زندگی کے باعث اکثر ان سے دور رہنا پڑے گا مگر آصف زرداری کے پاس وقت گزاری کے بہت سے مشغلے تھے۔سال بعد جنرل ضیاء کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا۔اس کے بعد جو انتخابات ہوئے اس میں بے نظیر کی پی پی پی نے اکثریت حاصل کی۔بے نظیر وزیر اعظم تو بن گئیں مگر ایک طرف فوج اور دوسری طرف صدر غلام اسحق خان ،جو فوج کے پسندیدہ بیوروکریٹ تھے، ان کو چین نہ لینے دے رہے تھے۔ان دنوں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ خود کو بالکل بے بس محسوس کرتی ہیں۔وہ انہیںکچھ بھی نہ کرنے دے رہے تھے۔میرا مشورہ تھا’لوگوں کو بتائو‘۔لوگوں کو بتائو کہ کیوں تعلیم، صحت و صفائی، صاف پانی اور دوران ولادت مر جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے آپ اپنے وعدے پورے نہیںکر پا رہی ہیں۔بے نظیر نے لوگوں کونہیںبتایا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اپنے چند حامیوں کونوکری دینے کے علاوہ انہوں نے کچھ بھی نہ کیا۔لگتا تھا وہ اسی بات سے خوش ہیں کہ وہ حکومت میں ہیں۔انہوں نے سرکاری دورے کئے۔ مارگریٹ تھیچر سے ملیں اور ان سے بہت متاثر بھی ہوئیں اور انہیں پسند بھی کیا۔بعد میں اپنے خاوند کو گھسیٹتے ہوئے سعودی عرب جا پہنچیں جہاں بادشاہ نے شائستگی سے ان کا استقبال کیا۔دریں اثناء کچھ سازشیںتیار کی جا رہی تھیں۔حزب اختلاف نے باقاعدہ بے نظیر کے حامیوں کو خرید لیا۔1990 ء میں صدارتی حکم کے تحت انکی حکومت برطرف کر دی گئی اور ضیاء کے نوازے ہوئے شریف برادران کو اقتدار میں واپس لایا گیا۔
1993ء میں جب وہ دوبارہ منتخب ہوئیں تو وہ اصلاحات کے کسی بھی قسم کے منصوبے پر عمل درآمد کا کوئی ارادہ نہ رکھتی تھیںلیکن اس بات کا اندازہ کہ وہ جلدی میں ہیں، ان کے اس اقدام سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے شوہر کو انہوں نے وزیر سرمایہ کاری بنا دیااور یوں اندرون ملک یا بیرون ملک سے آنے والے سرمایہ کاری کی ہر پیش کش زرداری کی ذمہ داری تھی۔یہ الزام ہے کہ اس جوڑے نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی خرد برد کی۔پی پی پی کی اعلیٰ کمان پیسے بنانے کا ادارہ بن گئی مگر اس کا فیض نیچے کارکنوں تک نہیںپہنچ رہا تھا۔یہ وہ دور ہے جب پارٹی مکمل طور پر زوال پزیر ہو گئی۔میں جب پارٹی کے لوگوں سے اس بابت پوچھتا تو وہ ڈھٹائی سے جواب دیتے ساری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے‘یعنی وہ اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ پیسہ ہی اصل حقیقت ہے۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے انکی کارکردگی ملی جلی رہی۔ انہوں نے ہمالیہ کی چوٹیوں میں واقع کارگل میں بھارت مخالف مہم کی منظوری نہ دی مگر اس کا ازالہ کرنے کے لئے انہوں نے کابل پر طالبان کے قبضے کی پشت پناہی کی (دیکھئے لندن ریویو آف بکس میں میرا مضمون ۔ 15اپریل 1999) لہٰذا یہ بات ایک دوہرا مذاق ہے کہ لندن اور واشنگٹن انہیں جمہوریت کا چیمپئین بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو نے بیرون ملک سے انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔وہ ملک لوٹ آئے اور اپنی بہن کے ایجنڈے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔خاندان کا جب ملاپ ہوتا تو ان محفلوں میں ماحول کشیدہ ہوتا۔ مرتضیٰ کی کمزوریاں اپنی جگہ مگر وہ بد عنوان نہیں تھے اور وہ پارٹی کے پرانے ترقی پسندانہ مینی فیسٹو کی بات کرتے تھے۔انہوں نے اس بات کو کبھی راز میں نہ رکھا کہ وہ زرداری کو دست اندازی کرنے والا ایک ایسا شخص سمجھتے ہیں جو صرف پیسہ بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔نصرت بھٹو کی تجویز تھی کہ مرتضیٰ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔جواباََ بے نظیر نے نصرت بھٹو کو پی پی پی کی شریک چیئر پرسن کے طور پر ہٹا دیا۔اگر مرتضیٰ کے دل میں بہن کے لئے کوئی ہمدردی تھی بھی تو اب وہ نفرت میں بدل گئی۔انہوں نے زبان پر قابو رکھنا چھوڑ دیا اور جب بھی موقع ملتا وہ زرداری اور اس بد عنوان حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے جسے ان کی بہن چلا رہی تھی۔سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ زرداری کی پیداوار تھے۔انہوں نے مرتضیٰ کے حامیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرتضیٰ نے کٹھ پتلی کو نچانے والے سے دو دو ہاتھ کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ انہوں نے زرداری کو فون کیا اور کہا کہ اس خاندانی جھگڑے کو نپٹانے کے لئے وہ ملنا چاہتے ہیں مگر انہوں نے زرداری سے کہا کہ وہ مسلح محافظوں کے بغیر آئیں۔زرداری مان گئے۔جب دونوں باغ میں ٹہل رہے تھے تو مرتضیٰ کے ملازموں نے آ کر زرداری کو جکڑ لیا۔کسی نے تیز دھار استرا مہیا کیا، کوئی گرم پانی لے کر آیا اور ملازم اس بات سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ مرتضیٰ نے زرداری کی آدھی مو نچھ صاف کر دی ہے۔اس کے بعد مرتضیٰ نے زرداری کو دفع ہو جانے کے لئے کہا۔غصے سے بھرے زرداری کو، شائدانہیں اس سے بھی زیادہ برے سلوک کا خوف تھا ، باقی آدھی مونچھ بھی صاف کرنا پڑی۔میڈیا والوں نے بھی اس بات کا لطف اٹھایا مگر میڈیا کو بتایا گیا کہ مونچھیں خفیہ والوں کے مشورے سے صاف کی گئی ہیں کیونکہ مونچھوں کی وجہ سے وہ نمایاں طور پر نشانہ بن سکتے تھے۔اگر ایسا ہی تھا تو فوراً ہی زرداری نے مونچھیں بڑھانا کیوں شروع کر دیں؟۔1
کچھ ماہ بعد ، ستمبر 1996ء میں مرتضیٰ اپنے قافلے کے ہمراہ ایک سیاسی جلسے سے واپس آ رہے تھے کہ ان کے قافلے پر بہتر پولیس سپاہیوں نے چار افسروں کی قیادت میں ، عین ان کے گھر کے سامنے،گھات لگا کر حملہ کر دیا۔درختوں کے پیچھے کتنے ہی نشانچی نشانہ لئے چھپے ہوئے تھے۔ سٹریٹ لائٹ بند تھی۔ مرتضیٰ کو سمجھ آ گئی کہ کیا ہو رہا ہے لہٰذا وہ ہاتھ اٹھائے گاڑی سے باہر نکل آئے اور انہوں نے اپنے محافظوں سے کہا کہ وہ گولی مت چلائیں۔پولیس نے البتہ گولی چلا دی اور سات افراد ہلاک ہو گئے جن میں مرتضیٰ بھی شامل تھے۔جس گولی نے اپنا کام دکھایا وہ قریب سے چلائی گئی تھی۔یہ منصوبہ بڑی احتیاط سے بنایا گیا تھا لیکن جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے ، سارے منصوبے کی دریدہ دہنی ( پولیس کھاتوں میں جعلی اندراج، ثبوت کا گم کر دیا جانا،گواہوں کو اغواء اور ہراساں کرنا،پی پی پی سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ کو اس وجہ سے ایک بے کار سے مقصد کے لئے مصر بھیج دیا گیا کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا،ایک ایسے پولیس افسر کو ہلاک کر دیا گیا جس بارے شبہ تھا کہ وہ بول پڑے گا)1 سے یہ ثابت ہوا کہ وزیر اعظم کے بھائی کو قتل کرنے کا منصوبہ انتہائی اعلی سطح پر ترتیب دیا گیا تھا۔
جب گھات کی تیاری کی جا رہی تھی تو مرتضیٰ کے گھر کو جانے والے راستے بند کر دئے گئے تھے(اسی گھر سے 1977ء میں ان کے والد کو ضیاء کے کمانڈوز نے اٹھایا تھا)۔ گھر میں موجود اہل خانہ کو شک گزرا۔اس موقع پر قابل ستائش حد تک حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے چودہ سالہ فاطمہ نے اپنی پھوپھو کو ایوان وزیر اعظم فون کیا۔جو گفتگو ہوئی وہ فاطمہ کے ذہن پر نقش ہو چکی ہے اور چند سال قبل انہوں نے مجھے اس کی تفصیل بتائی۔ زرداری نے فون اٹھایا۔
فا طمہ: میں پھو پھو سے بات کرنا چاہتی ہوں ۔ پلیز
زرداری:اس وقت بات نہیںہو سکتی
فاطمہ: کیوں ؟ (اس موقع پر فاطمہ کے بقول انہوں نے رونے دھونے کی آوازیں سنیں جو کافی بناوٹی لگ رہی تھیں)
زرداری: سنائی نہیںدے رہا کہ وہ اس وقت کس قدر ہسٹریکل ہیں۔
فاطمہ: کیوں؟
زرداری: معلوم نہیں کہ آپ کے والد کو گولی مار دی گئی ہے۔
فاطمہ اور غنوٰی نے پتہ لگوا لیا کہ مرتضیٰ کو کہاں لے جایا گیا ہے اور وہ جلدی میں گھرسے دوڑ پڑیں۔وقوعے کا کوئی نشان سڑک پر نہ ملتا تھا کہ تمام ثبوت مٹا دئے گئے تھے۔نہ کہیں خون کا کوئی نشان نہ کسی ہلچل کا کوئی ثبوت۔وہ سیدھا ہسپتال پہنچے مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔
مرتضیٰ بھٹو دم توڑ چکے تھے۔بعد میں ان خواتین کو پتہ چلا کہ مرتضیٰ گھنٹہ بھر زخمی حالت میں پڑے رہے ، خون بہتا رہا ،کوئی امداد نہ پہنچائی گئی اور جس ہسپتال میں پہنچایا گیا وہاں ایمرجنسی کی سہولتیں موجود نہ تھیں۔جب بے نظیر بھائی کی تدفین کے لئے لاڑکانہ پہنچیں تو انکی لیموسین پر غصے سے بھرے ہجوم نے پتھر برسائے۔انہیں واپس جانا پڑا۔ اس کے برعکس، اسلامی روایات کے برخلاف مقامی لوگوں نے مرتضیٰ کی بیوہ کو تدفین کے عمل میں شریک ہونے کے لئے کہا۔فاطمہ کے بقول بے نظیر کے ایک آدمی نے غنوٰی کے خلاف شرعی عدالت میں اسلامی شعار کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کرایا۔ کچھ بھی مقدس نہ رہا تھا۔
مرتضیٰ کے قتل کے ہر گواہ کو گرفتار کر لیا گیا، ایک نے تو قید میں دم توڑ دیا۔جب فاطمہ نے بے نظیر کو فون کر کے پوچھا کہ قاتلوں کی
بجائے گواہوں کو کیوں پکڑا جا رہا ہے تو جواب دیا گیا ’دیکھو ابھی آپ بہت چھوٹی ہو۔ابھی آپ کو ان باتوں کی سمجھ نہیں ہے‘۔شائد یہی وجہ تھی کہ نیک دل پھو پھو نے فاطمہ کی خونی ماں فوزیہ کی، جنہیں وہ ضیاء کے پے رول پر موجود قاتل قرار دے چکی تھیں، حوصلہ افزائی کی کہ وہ پاکستان آ کر فاطمہ کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ اس بابت کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ فوزیہ کا کیلی فورنیا سے آنے جانے کا خرچ کس نے اٹھایا۔ غنوٰی اور فاطمہ نے مزاحمت کی اور یوں یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔اس کے بعد بے نظیر نے ایک ملائم چال چلی اور فاطمہ سے کہا کہ وہ انکے ساتھ نیو یارک چلیں جہاں بے نظیر کو اقوام متحدہ سے خطاب کرنا تھا۔ غنوٰی نے اپنے دوستوں سے دمشق میں رابطہ کیا اور اپنے دونوں بچوں کو باہر بھجوا دیا۔فاطمہ کو بعد میں پتہ چلا کہ نیو یارک میں فوزیہ کی بے نظیر سے کھسر پھسر ہوئی تھی۔
1986ء نومبر میں بے نظیر کی حکومت ایک مرتبہ پھر بر طرف کر دی گئی اور اب کی بار یہ کام انکے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر فاروق لغاری نے کیا ۔لغاری نے الزام تو بد عنوانی کا لگایا مگر انہیں غصہ اس بات کا تھا کہ آئی ایس آئی نے انہیں غیر مہذب انداز میں بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی۔انکی بیٹی کی اپنے بوائے فرینڈ سے ملتے ہوئے خفیہ والوں نے تصاویر بنا لی تھیں اور دھمکی دی تھی کہ یہ تصاویر پبلک کر دی جائیں گی۔کمزور بے نظیر کی حکومت گرا دی گئی اور سندھ کے وزیر اعلیٰ بُوٹ پر بیٹھ کر خلیجی ممالک فرار ہو گئے جہاں سے وہ امریکہ جا پہنچے۔
بے نظیر نے مرتضیٰ کے قتل کی تحقیقات کے لئے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا ۔ہائی کورٹ جج کی سربراہی میں بننے والے اس ٹربیونل نے تمام گواہوں کے بیانات قلم بند کئے۔ مرتضیٰ کے وکیلوںنے زرداری، عبداللہ شاہ اور دو اعلیٰ پولیس افسران پر مرتضیٰ کے قتل کامنصوبہ بنانے کا الزام لگایا۔بے نظیر (جو اب حکومت میں نہیں تھیں) نے تسلیم کیا کہ سازش ہوئی تھی مگر ’یہ سازش فاروق لغاری نے تیار کی تھی‘۔انہوں نے کہا کہ سازش کا مقصد تھا ’ایک بھٹو کو مار کردوسرے بھٹو سے نجات حاصل کر لو‘۔ کسی نے اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ جو ہوا تھا اس کے پیش نظر یہ بات ناقابل یقین تھی۔
ٹریبونل نے کہا کہ زرداری کو قتل سے جوڑنے کے لئے کوئی قانونی جواز موجود نہیںمگر یہ طے ہے کہ ’یہ ماورائے عدالت قتل تھا’ اور ایسا قتل اعلیٰ حکام کی مرضی کے بغیر نا ممکن تھا۔کچھ بھی نہ ہوا۔گیارہ سال بعد فاطمہ نے سر عام زرداری پر الزام لگایا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ میں ملوث اکثر لوگوں کو بعد میں مراعات سے نوازا گیا۔ایک آزاد ٹی وی پر ایمر جنسی کے نفاذ سے قبل بے نظیر سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے بھائی کو گھر کے سامنے ہلاک کر دیا گیا جب کہ وہ وزیر اعظم تھیں۔وہ سٹوڈیو سے باہر چلی گئیں۔14 نومبر 2007ء کو لاس اینجلس ٹائمز میں فاطمہ کا ایک تیز دھار مضمون ادارتی صفحات پر شائع ہوا:
بے نظیر بھٹو کی سیاسی وضع محض ڈھونگ ہے۔ فوج کے ساتھ ان کے مذاکرات اور مشرف حکومت میں شامل ہو نے پر کچھ دن قبل تک انکی ناشائستہ رضامندی نے ہمیشہ کے لئے جنوبی ایشیاء میں طاقت پکڑے ہوئے بنیاد پرست گروہوں کو یہ اشارہ دیدیا ہے کہ جمہوریت درحقیقت آمریت کا پردہ ہے۔
میرے والد بے نظیر کے چھوٹے بھائی تھے۔میرے والد کے قتل میں بے نظیر کے کردار بارے آج تک کوئی تسلی بخش وضاحت سامنے نہیں آئی حالانکہ انکی موت کے بعد تین معزز ججوں کی سربراہی میں جو ٹربیونل بنا تھا ، وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ قتل ایک ’’اعلیٰ سطحی‘‘سیاسی اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ممکن نہ تھا۔
بے نظیر بھٹو کی پاکستان میں موجودگی سے پیدا ہونے والے خطرات سے میرے خوفزدہ ہونے کی ذاتی وجوہات ہیں مگر صرف میں ہی خوفزدہ نہیں۔ اسلام پرست بھی انتظار میںبیٹھے ہیں۔ و ہ اس تصدیق کے انتظار میں ہیں کہ جن اصلاحات کے لئے انہوں نے جدجہد کی ہے وہ محض وائٹ ہاوس کی پشت پناہی سے دیا گیا فریب ہیں ۔1999 ء میں مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی جمہوری اصلاحات کے لئے ایک سنجیدہ تحریک گراس رُوٹ سطح پر چل رہی تھی۔ جو چیز ہمیں نہیں چاہئے وہ ہے ہمیں کٹھ پتلی ’’جمہوریت پسند‘‘ بے نظیر بھٹو کے ذریعے نئیو کان ایجنڈے سے نتھی کیا جانا۔
اس بابت جب بے نظیر سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا:’میری بھتیجی مجھ سے ناراض ہے‘۔ جی ہاں۔
مشرف نے تو مقدمے واپس لے لئے ہیں مگر برطانیہ، سوئٹزر لینڈ اور سپین کی عدالتوںمیں مقدمے چل رہے ہیں۔ جولائی 2003ء میں برسوں کی کارروائی کے بعد جنیوا کے مجسٹریٹ ڈینیل ڈئیوائوڈ نے مسٹر اور مسز زرداری کو انکی غیر حاضری میں منی لانڈرنگ کے مقدمے میں مجرم قرار دیا۔انہوں نے ایس جی ایس اور کوٹیکنا نامی دو سوئس کمپنیوں سے پندرہ ملین بطور رشوت وصول کئے۔دونوں کو چھ ماہ قید سنائی گئی اور حکم دیا کہ حکومت پاکستان کو 11.9ملین واپس کریں۔ڈئیوائوڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اپنے فیصلے بارے کوئی شبہ نہیں۔19نومبر 2005 ء کو وہ عدالت کے سامنے پیش ہوئیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کا باقی خاندان سے تعلق نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ملوث نہیں ہیں۔یہ مسئلہ زرداری اور ان کی والدہ(جو الزمیر ایسی بیماری کا شکار ہیں) سے متعلق ہے ۔انہیں بنک کھاتوں بابت بھی کچھ معلوم نہ تھا۔اس دستاویز بارے کیا رائے ہے جس پر ان کے نمائندے جینز شیلیگل مچ نے دستخط کئے تھے جس کے مطابق انکی اور زرداری کی موت کی صورت میں بومر فنانس کمپنی کے اثاثے زرداری و بھٹو خاندان میں برابر تقسیم کئے جائیں گے؟ اس بابت بھی انہیں کچھ علم نہ تھا۔120,000پونڈ مالیت کا وہ ہار جو بنک میں پڑا تھا اور جس کی ادائیگی زرداری نے کی تھی؟یہ ان کے لئے تھا مگر یہ تحفہ ’نا مناسب‘ ہونے کے باعث انہوں نے قبول نہیںکیا تھا۔مقدمہ جاری ہے اور گذشتہ ماہ بی بی سی کے اوٹ بینٹ جونز کو مشرف نے بتایا تھا کہ وہ مقدمے کی کارروائی میں مداخلت نہیں کریں گے۔’مقدمہ سوئس عدالتوں میںہے۔ اس کا فیصلہ وہاں کی حکومت کرے گی۔ یہ ان پر منحصر ہے‘۔
برطانیہ میں قانونی ماہرین 3.4 ملین کے سرے محل بارے بات کر رہے ہیں جسے آف شور کمپنیوں نے 1995ء میںزرداری کے لئے خرید کر انکے شاہانہ ذوق کے مطابق اسکی آرائش کی تھی۔زرداری نے اسکی ملکیت سے انکار کیا۔جب عدالت نے کہا کہ اسے بیچ کر پیسے حکومت پاکستان کو دے دئے جائیں تو زرداری سامنے آئے اور اسکی ملکیت کا دعوٰی کر دیا۔پچھلے سال لارڈ جسٹس کولنز نے کہا تھا کہ وہ کوئی ’حقائق کی تحقیق‘ کا دعوٰی نہیں کر رہے مگر لگتا ہے کہ حکومت پاکستان یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ یہ محل ’بد عنوانی کے سرمائے ‘ سے خریدا گیا ۔بے نظیر کی ایک دوست نے مجھے بتایا کہ بے نظیر اس محل میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیںکیوں کہ اس محل میں زرداری بے نظیر کے ساتھ وقت گزارنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
ان باتوں کا ٹی وی پر کم ہی ذکر سننے کو ملتا۔ دلچسپ بات اس سلسلے میں امریکی پریس کی کمزور یاداشت تھی ۔1998ء میں نیو یارک ٹائمز نے بھٹو زرداری بد عنوانی پر تفصیلی اور تیز فرد جرم شائع کی تھی۔ جان ۔ایف۔ برنز نے بتایا تھا کہ ’’کس طرح زرداری نے بے نظیر سے شادی کو ایک ایسی قوت میں بدل دیا تھا جسے چیلنج کرنا ممکن نہ ہو‘‘اور انکی بد عنوانی کے کتنے ہی مقدمات کا ذکر کیا۔ ایک مقدمہ تو تھا دبئی کے سونے کے ڈیلر کا جس نے زرداری کے کھاتے میں دس ملین ڈالر جمع کروائے اور بدلے میں اسے سونے کی درآمد پر اجارہ داری حاصل ہو گئی جو پاکستان کی جیولری کی صنعت کے حوالے سے اہم تھی۔ دو دیگر مقدمات میں فرانس اور ایک مرتبہ پھر سوئٹزر لینڈ ملوث تھے:
1995ء میں فرانسیسی عسکری کنٹریکٹر ’ڈسالٹ ایوی ایشن‘ نے چار ارب مالیت کے طیارے فروخت کرنے کے لئے زرداری اور ان کے ایک پاکستانی ساتھی کو دو سو ملین ڈالر کی رشوت دی مگر بے نظیر کی حکومت بر طرف ہو جانے کی وجہ سے یہ سودا منسوخ ہو گیا۔ ایک اور سودا تھا جس کے تحت پاکستان میں کسٹم فراڈ کی روک تھام کے لئے ایک سوئس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ۔ اس کمپنی نے 1994ء تا 1996ء ان بنک کھاتوں میں کئی ملین ڈالر جمع کروائے جو زرداری اور بے نظیر کی بیوہ ماں ، نصرت بھٹو کے نا م پر بیرونِ ملک کھلے ہوئے تھے۔ 1994ء تا 1995ء زرداری نے ایک سوئس بنک اکاونٹ اور امریکن ایکسپریس کارڈ کے ذریعے 660,000ڈالرکے زیورات خریدے بشمول ایک ہی ماہ کے اندر اندر ہونے والی 246,000ڈالر کی وہ خریداری جو کارٹیر اینڈبلگری پر بیورلی ہلز، کیلی فورنیا میں کی گئی۔1
اس قدر بد عنوانی کے باوجود واشنگٹن سمجھوتہ کروانے کے لئے اتنا بے چین کیوں تھا؟ڈینیل مارکی جو کبھی دفتر خارجہ سے تعلق رکھتے تھے اور آج کل کونسل آف فارن ریلیشنز میں انڈیا ،پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے لئے سینئر فیلو ہیں، بتاتے ہیںکہ امریکہ بے نظیر اور مشرف کی ڈیل کیوں کروانا چاہتا تھا:’ایک پروگریسو، اصلاح پسند اور کازموپولیٹن پارٹی اگر حکومت میں ہو تو امریکہ کے مفادات کا بہتر تحفظ ہو سکے گا‘۔ اگر بنک کھاتوں پر نظر ڈالی جائے تو واقعی زرداری جوڑا کازموپولیٹن ہے۔
واشنگٹن کے پاکستان میں کیا مفادات ہیں؟امریکی سیکرٹری دفاع نے حال ہی میں کہا تھا ’جتنا لمبا عرصہ پاکستان میں بحران جاری رہے گا، اتنی دیر پاکستانی فوج اور سکیورٹی فورسز اندرونی معاملات میں الجھی رہیں گی اور سرحدوں پر موجود خطرات سے نہ نپٹ سکیں گی۔‘بحران کی لیکن ایک وجہ امریکہ کا مشرف اور پاکستانی فوج پر غیر ضروری انحصار ہے۔یہ امریکہ سے ملنے والی حمایت اور امداد ہے کہ مشرف اپنی من مرضی کر سکے۔افغانستان پر البتہ بلاجواز مغربی قبضے نے حالات کو بگاڑا ہوا ہے کہ کابل میں بے چینی کا اثر پشاور اورقبائلی علاقوں میں آتا ہے۔ہنگامی حالت کا نشانہ عدالت، میڈیا اور حزب اختلاف کے سیاستدان تھے۔ایک طرح سے یہ تینوں گروہ افغان پالیسی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پر جاری حکمت عملی پر سوال اٹھا نے کے علاوہ غائب کر دیئے جانے والے سیاسی کارکنوں اور جیلوں میں تشدد پر سوال اٹھا رہے تھے۔ ٹی وی مذاکروں میں جس طرح کھل کر ان موضوعات پر بحث ہو رہی تھی وہ مغرب میں دیکھنے میں نہیں آتی کہ جہاں افغانستان بارے ایک اتفاق رائے پیش کیا جاتا ہے اور اختلافی بات کو دبا دیا جاتا ہے۔مشرف کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ کے رستے میں رکاوٹ تھی لہٰذا ایمرجنسی لگانی پڑی۔یہ بالکل لغو بات ہے۔یہ تو سرحد میں جاری لڑائی کے باعث فوج میں بے چینی پھیل رہی ہے۔بہت سے سپاہی لڑنا نہیںچاہتے لہٰذا درجنوں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے جونیئر افسر ریٹائر منٹ لے رہے ہیں۔
مغربی پنڈت ایٹمی ہتھیاروں پر ملّاؤں کے کنٹرول بارے شور مچا رہے ہیں۔یہ بالکل خام خیالی ہے اور ان دنوں کی یاد دلاتی ہے جب تین دہائیاں قبل جہادی خطرہ قرار دیئے جانے کی بجائے مغرب کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑ رہے تھے اور اصل خطرہ ترقی پسند قوم پرست افسر تھے۔15جون 1979ء کے شمارے میں ٹائم کے سر ورق پر پاکستان بارے رپورٹ تھی۔ایک اعلیٰ فوجی کا یہ بیان شائع کیا گیا تھا کہ اصل خطرہ یہ ہے کہ ’فوج کی صفوں میں کوئی قذافی ایسا کرنل یا میجر موجود ہو سکتا ہے۔ ایک دن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ضیاء کی جگہ لے لے اور یقین کریں اس طرح صرف پاکستان ہی عدم استحکام کا شکار نہ ہو گا۔‘پاکستانی فوج پانچ لاکھ سپاہیوںپر مشتمل ہے۔ اس نے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں: صنعت، زراعت، پبلک یوٹیلٹیز وغیرو وغیرو۔ایک بہت بڑا ابھار (مثلاََ امریکی حملہ یا قبضہ )ہی ہو تو اس فوج کو کسی جہادی گروہ سے خطرہ ہو سکتا ہے۔اعلیٰ فوجی عہدیدار دو باتوں کے پیش نظر ایک ہو جاتے ہیں: تنظیم کا اتحاد اور سیاستدانوں کو دور رکھنے کی پالیسی۔ایک تو انہیں سیاستدانوں سے یہ خطرہ ہے کہ برسوں کی محنت سے جو آسائشیں اور سہولتیں حاصل کی گئی ہیں وہ چھن سکتی ہیں ،دوم، بہت سی افواج کی طرح اس فوج کا بھی طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ جمہوریت مخالف ہے۔ان کے اپنے اندر چونکہ احتساب نہیںہوتا لہٰذا یہ کہ معاشرے میں بھی احتساب نہیں چاہتے۔
جنوبی افغانستان میں گڑ بڑ پھیلنے کے ساتھ ساتھ، جوں جوں بد عنوانی اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، توں توںطالبان کو سپاہی مل رہے ہیں۔وہ جرنیل شائد اب ریٹائر ہو چکے ہوں جنہوں نے بے نظیر کو قائل کیا تھا کہ طالبان کے ذریعے کابل پر قبضے سے پاکستان کو ’اسٹریٹیجک ڈیپتھ ‘ ملے گی مگر ان کے جانشین جانتے ہیں کہ افغان زیادہ عرصہ غیر ملکی قبضہ برداشت نہیںکریں گے۔یہ لوگ دھلے دھلائے طالبان کی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔ایران، روس اور بھارت پر مبنی علاقائی حل تلاش کرنے کے بجائے امریکہ پاکستان کو اپنے سپاہی کے طور پر افغانستان میں تعینات کرنا پسند کرے گا۔یہ کام ناکامی سے دو چار ہو گا۔ ادھر پاکستان میںلمبی رات کے ڈھلنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ پراناچکر نئے سرے سے شروع ہو جاتا ہے: فوجی قیادت اصلاحات کے وعدے کرتے ہوئے اقتدار سنبھالتی ہے،پھر آمریت میں بدل جاتی ہے۔ سیاست دان عوام سے بہتر زندگی کا وعدہ کر کے آتے ہیں اور دولت بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔اس بات کے پیش نظر کہ بہترحالات کے حامل کسی پڑوسی ملک کی پاکستان میں مداخلت کا کوئی امکان نہیں لہٰذا مستقبل قریب میں پاکستان انہی دو طرح کے نظاموں کے درمیان فٹ بال بنا رہے گا۔لوگ جب دیکھیں گے کہ وہ ہر چیز آزما چکے ہیں اور پھر بھی ناکام ہیں ، تو وہ نیم خوابی کی کیفیت میں چلے جائیں گے۔ ہاں مگر کوئی غیر متوقع چیز انہیں بیدار بھی کر سکتی ہے۔ اس کا امکان ہر وقت موجود ہے۔
اس سے پہلے کہ کہانی آگے بڑھتی ۔ بھٹو خاندان اور پاکستان کو ایک نئے المیئے کا سامنا کرنا پڑا۔ واشنگٹن کے کروائے ہوئے فاوسٹین سمجھوتے میںاپنا کردار ادا کرنے کے لئے ، ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد،بے نظیر نے ان انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جنہیں پاکستان کے ہر آزاد تجزیہ نگار نے حتیٰ کہ انکی اپنی جماعت کے بعض افراد نے مشکوک قرار دیا۔
انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے کے لئے پاکستان کے عسکری دارلحکومت راولپنڈی کا انتخاب کیا جہاں وہ 27 دسمبر 2007 ء کو آئیں۔ وہ لیاقت باغ (سابقہ میونسپل پارک) ایک عوامی جلسے سے خطاب کرنے پہنچیں۔ یہ جگہ جلسوں کے لئے مشہور تھی اور اسے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے نام سے منسوب کیا گیا تھا جنہیں اکتوبر1951 ء میں اسی مقام پر ایک شخص نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ سید اکبر نامی قاتل کو منصوبے میں شامل ایک پولیس افسر کے حکم پر موقع پر ہی گولی مار دی گئی۔اس مقام سے قریب ہی کلونیل عہد کی ایک عمارت ہے جہاں کبھی قوم پرستوں کو قید کیا جاتا تھا۔ یہ عمارت تھی راولپنڈی جیل کی۔ اپریل1979 ء میں یہاں بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ پھانسی دینے والے فوجی آمر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس عمارت کو گرا دیا جائے جہاں بھٹو کے عدالتی قتل کا المیہ رونما ہوا۔
جلسے کے دوران تو کچھ نہ ہوا۔ قاتل بے نظیر کی گاڑی کے قریب منتظر تھے۔ رخصت ہونے سے چند لمحے قبل انہوں نے ٹی وی کیمروں اور اپنے حامیوں کے نعروں کے جواب میں ہاتھ ہلانے کا فیصلہ کیا۔ وہ جوں ہی باہر نکلیں، بم دھماکہ ہوا اور لگا کہ وہ گولی کا بھی شکار بنیں۔ ایک ماہ قبل کراچی میں ہونے والی ناکامی کے بعد قاتلوں نے اس بار دوہرا بندوبست کیا تھا۔ وہ ہر قیمت پر بے نظیر کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ حکومتی پتھالوجسٹوں کا کہنا تھا کہ بے نظیرنے جب بم دھماکہ ہونے کے بعد نیچے بیٹھنے کی کوشش کی تو ان کا سر گاڑی کے سن رُوف سے ٹکرایا جس سے آنے والی چوٹ ان کی موت کا سبب بن گئی۔ انکی جماعت اس بات سے متفق نہ تھی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ سے مددمانگی گئی۔ تھوڑی سی تفتیش کے بعد سکاٹ لینڈ یارڈ نے حکومتی موقف کی تصدیق کر دی۔ قبر کشائی اور از سر نو پوسٹ مارٹم ضروری تھا مگر اسکی اجازت آصف زرداری نے نہ دی۔
ان کی موت پر پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انکے آبائی صوبہ سندھ میں لوگوں نے پر تشدد مظاہرے کئے ، حکومتی عمارتوں اور غیر سندھیوں کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ گو عالمی میڈیا بغیر کسی تحقیق کے مقامی جہادیوں اور القاعدہ کو ذمہ دار ٹھرا رہا تھا ، پاکستان میں ہجوم مختلف نعرے لگا رہے تھے اور جنرل مشرف پر انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ گلیاں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے اس نعرے سے گونج رہی تھیں: امریکہ نے ایک کتاپالا ،وردی والا وردی والا ۔
وہ لوگ بھی جو بے نظیر بھٹو کی سیاسی پالیسیوں کے اس وقت بھی خلاف تھے جب وہ حکومت میں تھیں اور ماضی قریب میں بھی، انکی وفات پر غم اور غصے کا شکار تھے۔ غصے اور خوف نے ایک مرتبہ پھر ملک کو جام کر دیا۔اس واقعے نے فروری 2008 ء میں ہونے والے انتخابات میں خام دھاندلی نا ممکن بنا دی۔ فوجی آمریت اور انارکی کے امتزاج نے ان حالات کو جنم دیا جو بے نظیر کی ہلاکت کا سبب بنے۔ ماضی میں فوجی آمریت امن و امان بحال رکھنے کے لئے آتی تھی۔ وہ اس میں کچھ سال کامیاب بھی ہوئی۔ اب ایسا نہیں۔ آجکل یہ بد امنی اور لاقانونیت کو جنم دیتی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی اس بات پر بر طرفی کا کیا جواز ہے کہ وہ خفیہ اداروں اور پولیس کو عدالت کے سامنے جوابدہ بنانا چاہتے تھے؟ انکی جگہ جو لوگ لا کر بٹھائے گئے ہیں ان میں یہ جرأت نہیں کہ وہ ملک کی ایک اہم سیاسی رہنما کے قتل میں خفیہ اداروں کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کریں۔سوچا یہی جا رہا ہے کہ قاتل جہادی متعصب تھے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن کیا انہوں نے خود سے ایسا کیا؟ قتل کے بعد کئی سازشی تھیوریاں سامنے آئیں۔ بے نظیر کے دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ رہنے والے جنرل حمید گل نے میڈیا کو بتایا کہ بے نظیرنے اے کیو خان، پاکستانی ایٹمی بم کے خود ساختہ والد، کو پوچھ گچھ کے لئے امریکہ کے حوالے کرنے کا وعدہ اور القاعدہ سے نپٹنے کے لئے پاکستانی حدود میں امریکی دستوں اور جہازوں کی آمد کی اجازت دینے کا وعدہ امریکہ سے کیا تھا مگر کراچی میں ان پر حملوں کے بعد ’’وہ ان وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی تھیں‘‘۔حمید گل کا اصرار تھا کہ ’’ اسرائیل اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ ہمارے جوہری ہتھیار ہم سے ہتھیا نہیں لیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف پاکستان ہے۔ ‘‘حمید گل کے مطابق انہیں اسی لئے ہلاک کیا گیا۔ فوج اور نوکر شاہی کے ریٹائرڈ حلقوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے مگریہ کس حد تک درست ہے؟
یہ بجا ہے کہ مشرف نے اے کیو خان کو امریکہ نہیں بھیجا۔ حکومتی اہل کاروں نے مجھے بتایا کہ امریکہ اے کیو خان سے ایران کے بارے میںپوچھ گچھ کے لئے بے چین تھا اور اے کیو خان امریکہ میں جو کچھ کہتے ، ان کے بیانات کو ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا۔ اگر بے نظیر نے کوئی وعدہ اے کیو خان کی بابت کیا تھا، اور ممکن ہے کیا ہو تو کوئی ایسے شواہد نہیں ملتے جن سے پتہ چلتا ہو کہ انکے سیاسی نظریات میں کوئی بڑی تبدیلی آ گئی تھی۔ بے شمار وجوہات کی بناء پر انہوں نے اپنا مستقبل امریکہ سے وابستہ کر لیا تھا۔ امریکہ نے انکے ماضی پر سفیدی پھیر کر انہیں اقتدار میں واپس لانے کا وعدہ کیا تھا اور اقتدار میں آ کر انہیں فوج سے نپٹنے کے لئے ایک مرتبہ پھر امریکہ کی ضرورت پڑتی۔ دنیا کی واحد عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کی مخالفت نہیں کی جا سکتی تھی اور جنہوں نے بے نظیر کے والد کی طرح کی ان کا انجام یہ نکلا کہ انہیں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ان وجوہات کی بناء پر انہوں نے تاریخی سمجھوتہ کیا اور واشنگٹن کو خوش کرنے کے لئے جلد از جلد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا۔ اسی کارن اسرائیلی میڈیا میں ان کی موت کو ’’نقصانِ عظیم ‘‘ قرار دیا گیا جبکہ لاس اینجلس کی ایک اسرائیل نواز تنظیم ویسنتھاک سنٹر کی طرف سے نیو یارک ٹائمز میں کئی روز تک پورے پورے صفحے کے اشتہار شائع ہوتے رہے۔ بے نظیر کی بہت بڑی تصویر کے ساتھ یہ سطور شائع ہوتیں ’’خود کش حملہ: اب اور کیا ہوگا کہ دنیا کوئی اقدام اٹھائے گی؟‘‘جبکہ اشتہار میں اقوامِ متحدہ سے اپیل کی جاتی کہ وہ اس مسئلے پر ایک خصوصی اجلاس بلائے۔ اشتہار کے مطابق’’جب تک خود کش حملے عالمی برادری کے ایجنڈے پر ترجیحی بنیادوں پر نہیںلئے جاتے، یہ موذی کینسر ہم سب کو نگل جائے گا۔اگر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار خود کش حملہ آوروں کے ہاتھ لگ گئے توخدشہ یہ ہے کہ تیس ممالک میں جو جانی نقصان ہوا ہے ،وہ بے حیثیت نظر آئے گا۔‘‘اشتہار میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ خود کش حملوں کو ’’انسانیت کے خلاف جرم‘‘ قرار دے۔
بے نظیر کے بعض قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ بے نظیر انتخابی بائیکاٹ بارے سوچ رہی تھیں لیکن واشنگٹن ، جو انتخابات طے شدہ حکمت عملی کے تحت منعقد کروانے کا حامی تھا،کی مخالفت کرنے کا سیاسی حوصلہ بے نظیر میں نہیں تھا۔ان میں بلا شبہ بلا کا جسمانی حوصلہ تھا اور وہ مقامی مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائیں۔ انہوں نے لیاقت باغ میں جلسے کا فیصلہ کیا۔ انکی موت نے پیپلز پارٹی اور فوج کے درمیان تعلقات کو مزید زہرآلود کر دیا۔ ان برے تعلقات کا آغاز 1977 ء میں انکے والد کی فوجی آمر کے ہاتھوں برطرفی اور پھر ہلاکت کے ساتھ ہوا۔ پارٹی کارکن، بالخصوص سندھ میں، بد ترین تشدد کا شکار بنائے گئے، بے عزت کئے گئے، بعض اوقات غائب کر دیئے گئے یا مار دیئے گئے۔
متواتر فوجی حکومتوں اور غیر مقبول عالمی اتحادوں کے نتیجے میں جنم لینے و الی پاکستان کی ہنگامہ خیز تاریخ پاکستان کے حکمران طبقے کو اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں اسے سنجیدگی سے کچھ باتوں کا انتخاب کرنا ہو گا۔ لگتا تو یہ ہے ان کے ارادے مثبت نہیں ہیں۔ ملک کی اکثریت حکومت کی خارجہ پالیسی سے اتفاق نہیں کر تی۔ وہ اس بات پر بھی ناخوش ہیں کہ اندرونی محاذ پر ان لالچی حکمرانوں کے پاس کوئی سنجیدہ پالیسی نہیں سوائے اس کے کہ وہ بشمول طفیلی اور پھولی ہوئی فوج، کھانے میں سنجیدہ ہیں۔ اب وہ بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ انکی آنکھوں کے سامنے سیاسی رہنما قتل ہو رہے ہیں۔
میری بے نظیر سے پہلی ملاقات ان کے والد کے گھر کلفٹن کراچی میں ہوئی۔ یہ1969 ء کی بات ہے جب وہ کھیل کود میں دلچسپی رکھنے والی ایک لڑکی تھیں۔آ ٹھ سال بعد دوبارہ اس وقت ان سے ملاقات ہوئی جب وہ آکسفورڈ یونین کی صدر تھیں اور انہوں نے مجھے خطاب کے لئے دعوت دی۔ ان دنوں وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سفارت کار بننا چاہتی ہیں۔ تاریخ کا جبر اور ذاتی المیہ انہیںایک اور جانب لے گیا۔ ان کے والد کی موت نے انکی زندگی بدل کر رکھ دی۔ وہ ایک نیا انسان بن کر سامنے آئیں جو آمرِ وقت سے ٹکرانے پر تلا ہو۔ ہم لندن میں ان کے چھوٹے سے فلیٹ میں گھنٹوں ملک کے مستقبل پر بحث کرتے۔ وہ اس بات سے متفق تھیں کہ اگر ملک کو گدھوں سے بچانا ہے، وہ وردی میں ہوں یا بغیر وردی، تو ملک میں زرعی اصلاحات، عوامی تعلیمی منصوبے، صحت عامہ کی سہولیات اور ایک آزاد خارجہ پالیسی مثبت نصب العین تھے۔ ان کا حلقۂ انتخاب غریب لوگ تھے اور انہیں ا س بات پر فخر تھا۔ لاہور کے سیاسی کارکنوں اور دانشوروں سے میرا مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ بے نظیر کی وطن واپسی وہ پہلا موقع ہو گا جب لوگ پہلی بار کھلے عام ان کے والد کی پھانسی کا سوگ منائیں گے اور کم از کم پانچ لاکھ لوگ ان کو خوش آمدید کہیں گے۔ضیاء آمریت کے ہاتھوں تکلیفیں سہنے کے بعد انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ واقعی اتنے لوگ جمع ہو جائیں گے اور اس بات پر انہیں کون الزام دے سکتا تھا۔جبر کے ذریعے ملک کوخاموش کرا دیا گیا تھا مگر میری جبلت بھی یہی کہہ رہی تھی جو لاہور میں دوست کہہ رہے تھے۔ بے نظیر نے مجھے کہا کہ میں انکی تقریر لکھوں۔ ایک دن ان کا فون آیا: ’’کل میں نے خواب دیکھا کہ میں لاہور پہنچ گئی ہوں،ہجوم جمع ہے ، میں سٹیج پر پہنچ کر جب پرس کھولتی ہوں تو تقریر غائب۔ آپ ذرا جلدی سے یہ کام نہیں نپٹا سکتے؟‘‘۔ میں نے تقریر لکھ دی اور انکی وطن واپسی سے ایک ہفتہ قبل ہم نے اس کی مشق کی۔ انکی اردو واجبی سی تھی اور جب میں نے ان سے کہا کہ وہ لاہور میں لوگوں سے پنجابی میں ایک سوال کریں تو وہ اس سوچ سے ہی لڑکھڑا گئیں۔ سوال سیدھا سا تھا: ضیاء رہوے یا جاوے؟ ان کا تلفظ مایوس کن تھا۔ وہ ہنسنے لگیں اور مشق کرتی رہیںتاآنکہ وہ اس قدر بہتر ہو گیا جتنا ہو سکتا تھا۔ گھبراہٹ کا ایک اور لمحہ بھی آیا۔ ’’اگر لوگوں نے کہا کہ رہوے تو پھر؟‘‘ اب میری باری تھی ہنسنے کی۔ ’’جو ایسا چاہتے ہیں وہ آپ کو خوش آمدید کہنے نہیں آئیں گے۔‘‘ اس جلسے کی ریکارڈنگ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے انہوں نے پنجابی میںیہ سوال پوچھا اور دس لاکھ کاجو مجمع اکٹھا ہوا، اس نے بھر پور جواب دیا۔ وہ مہم انکی زندگی کاایک زبردست مرحلہ تھا جب سیاسی و جسمانی بلند حوصلگی نے مایوسی کے مارے ملک میں ایک امید کو جنم دیا۔
وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پھر بدل گئیں۔ ابتدائی دنوں میں جب ان سے اسلام آباد میں کئی بار ملاقات ہوئی، ہم شائستگی سے بحث مباحثہ کرتے۔ میری ہر شکایت کے جواب میں ان کا یہی جوب ہو تا کہ دنیا بہت بدل گئی ہے۔ وہ تاریخ کے ’’غلط اوٹ‘‘ میں نہیں کھڑی رہ سکتیں۔ سو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی واشنگٹن سے صلح کر لی۔ اس کا آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مشرف سے سمجھوتہ کر کے دس سال کے بعد ملک واپس لوٹیں۔ انہوں نے مجھے کئی مرتبہ بتایا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتیں۔ پاکستانی سیاست میں موت کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے۔ ہماری ملاقات وزیر اعظم ہاوس میں ،انکی برطرفی سے ایک سال قبل، 1995 ء میں ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیاجان کو لاحق خطرے سے وہ خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انکی زندگی پر ایک حملہ ہو چکا ہے لیکن قاتلانہ حملہ کرنے والا ایمل کانسی خود کو ہی اڑانے لگا تھا اور پھر وہ بھاگ نکلا ۔ یہ کہہ کر وہ مسکرا دیں۔ میں سن کر حیران رہ گیا۔ کانسی سی آئی اے کا سابق ایجنٹ تھا جسے افغان جنگ کے دوران بھرتی کیا گیا تھا۔ جب روسی افغانستان سے واپس چلے گئے تو اسکی تنخواہ بند ہو گئی لہٰذا وہ سی آئی اے پر طیش میں تھا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اس کے بعد کانسی کا برتائو ’’دی بورن آئیڈینٹٹی‘‘ کے سکرپٹ سے میل کھاتا ہے۔ 1993 ء میں وہ امریکہ پہنچا، لانگلے، ورجینیا آیا ، بندوق ہاتھ میں لئے گھات لگائے بیٹھا رہا اور جوں ہی موقع ملا سی آئی اے کے دو اہل کار ہلاک کر ڈالے، ایک ا ن میں سے کانسی کاسابق باس بھی تھا، جبکہ کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ پھر پاکستان واپس آ گیا ۔ وہ سی آئی اے اور ایف بی آئی کی ’’موسٹ وانٹڈ لسٹ‘‘ میں تھا۔ 1997 ء میں آخر کار اسے اسلام آباد کے ایک ہوٹل ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے گرفتار کر لیا۔ اسے اس کے محافظوں نے دھوکا دیا۔ سی آئی اے نے اطلاع دینے والے یا پکڑوانے والے کے لئے ساڑھے تین ملین ڈالر کا اعلان کر رکھا تھا۔اسے امریکا کے حوالے کر دیا گیا جہاں مقدمہ چلایا گیا اور اسے پھانسی دیدی گئی۔
بے نظیر کی موت کا المیہ کسی مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ تو نہیںہو سکتا مگر ایک امکان ہے۔ پاکستان کو ایک ایسی جماعت کی اشد ضروررت ہے جو اکثریت کی سماجی ضروریات کو آواز دے سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پیپلز پارٹی ملک میں چلنے والی واحد عوامی تحریک میں حصہ لینے والے کارکنوں نے بنائی: طلباء، مزدور،کسان جو 1969 ء میں ملک کے پہلے فوجی آمر کو شکست دینے کے لئے تین ماہ تک جدوجہد کرتے رہے۔ وہ اس جماعت کو اپنی جماعت سمجھتے رہے۔ تمام تر باتوں کے باوجود ملک کے بعض حصوں میں آج بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔
بے نظیر کی افسوسناک موت پر ان کے ساتھیوں کو ایک لمحے کے لئے سوچنا چاہئے۔ ایک شخص یا خاندان پر انحصار کرنا کسی مخصوص وقت میںہو سکتا ہے ضروری بن جائے مگر یہ ایک تنظیم کی کمزوری ہوتا ہے طاقت نہیں۔ پیپلز پارٹی کو ایک ایسی جماعت کے طور پر منظم کرنے کی ضرورت تھی جو جدید اور جمہوری ہو، جس میں بحث مباحثے کی گنجائش ہو، جو سماجی و انسانی حقوق کا دفاع کرتی ہو، وہ تمام گروہ یا افراد جو کسی نسبتاََ بہتر متبادل کی تلاش میں ہوں انہیں اکٹھا کرنے والی جماعت ہو، ایک ایسی جماعت ہو جو مقبوضہ افغانستان کو مستحکم کرنے کے لئے ٹھوس تجاویز لیکر آئے۔ بھٹو خاندان سے مزید قربانی نہ مانگی جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہے جب جذبات غالب ہوں تو منطق زیرزمین چلی جاتی ہے اور پاکستان میں تو وہ ایک لمبا عرصہ دفن رہ سکتی ہے۔
اپنی پھانسی سے چھ گھنٹے قبل سکاٹس کی ملکہ مَیری نے اپنے بہنوئی ،فرانس کے ہنری سوم کو خط میں لکھا:’’ جہاں تک تعلق ہے میرے بیٹے کا، میں اس کا معاملہ آپ پر چھوڑتی ہوں، یہ جس قابل ہے اسی حساب سے اسے نوازا جائے۔ میں اس کی ذمہ داری نہیں لے سکتی۔‘‘ 30 دسمبر 2007 ء کو جاگیرداروں کا ایک ٹولہ مقتول بے نظیر بھٹو کے گھر میں ان کی وصیت سننے کے لئے جمع ہوا۔ یہ وصیت بعد ازاں عالمی میڈیا کو جاری کی گئی۔ وصیت میں عبوری دور کے لئے زرداری کو قیادت سونپی گئی تا آنکہ ’’پی پی پی یہ فیصلہ کر لے کہ اس کے مفاد میں کیا بہتر ہے‘‘ مگر زرداری ( جو ملک کے بدنام ترین سیاستدان ہیں اور دو یورپی عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات بھگتنے میں مصروف)اپنے بیٹے بلاول کو بھی بیچ میں لے آئے اور طے پایا کہ آکسفورڈ میں زیرِ تعلیم بلاول زرداری کے بالغ ہونے تک زرداری پارٹی کی قیادت کریں گے اور پھر اسکی باگ ڈور بلاول زرداری سنبھال لیں گے اور وہ حسبِ روایت تاحیات چئیر پرسن بن جائیں گے۔ پیپلز پارٹی اب رسمی طور پر ایک خاندان کی باندی بن چکی تھی۔ ایک ایسی جائیداد جسے اس کے مالک جب چاہیں بیچ ڈالیں۔
پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور پاکستان کے ساتھ قرونِ وسطیٰ کے عہد ایسا یہ بدمزہ سلوک نہیں ہونا چاہئے تھا۔ افسوس بے نظیر نے اپنی زندگی کاآخری فیصلہ اپنے پیشرووں کی طرح آمرانہ انداز میں کیا اور اسی فیصلے کی وجہ سے انکی جان بھی گئی۔ اگر وہ پارٹی کے بعض رہنمائوں کی بات مانتے ہوئے واشنگٹن سے سمجھوتہ نہ کرتیں یا بعد ازاں ہی اپنی زندگی کے بارے میں بھر پور ضمانت کے بغیر الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتیں تو شائد آج زندہ ہوتیں۔
پی پی پی کے اندرونی حلقے میں سب ابن الوقت لوگ ہیں جو بے روح زندگی گزار رہے ہیں اس بات کا جواز نہیں کہ قیادت یوں وراثتی انداز میں نسل در نسل منتقل کر دی جائے۔اگر پارٹی کے اندر جمہوریت ہوتی تو یہ سب بدلا بھی جا سکتا تھا۔ پارٹی کے اندر کچھ ایماندار اور با اصول سیاستدان ہیں مگر انہیں کونے میں لگا دیا گیا ہے۔ بے نظیر اپنے خاندان کا موازنہ کینیڈی خاندان سے کیا کرتی تھیں مگر ڈیموکریٹک پارٹی کسی ایک خاندان کا آلہ کار نہیں ہے۔
ایک ایسا ملک جسکی زندگی کا نصف فوجی سائے تلے گزرا ہو، وہاں جمہوریت بہت اہم ہے۔ پاکستان روانڈا یا کانگو ایسی ’’ناکام ریاست ‘‘ نہیں ہے۔ یہ غیر فعال ریاست ہے اور گذشتہ چالیس سال سے غیر فعال ہے۔
اس غیر فعالیت کی بڑی وجہ فوج ہے ۔ہر فوجی دور حکومت نے چیزوں کو مزید بگاڑا ہے۔ اس کی وجہ سے مستحکم سیاسی ادارے وجود میں نہیں آ سکے۔ اس معاملے میں امریکہ براہ راست ذمہ دار ہے کیونکہ اسکی نظر میں فوج واحدادارہ ہے جس کے ساتھ معاملات چلائے جاسکتے ہیں اور بد قسمتی سے امریکہ میں اب بھی یہی سوچ پائی جاتی ہے۔ اس چٹان نے متلاطم پانیوں کو سراسیمہ لہروں میں بدل دیا ہے۔
فوج کی کمزوریاں واضح ہیں اور ان کو مناسب طریقے سے پیش کیا جا چکا ہے۔ سیاستدان بھی لیکن وہ پارسا نہیں جو پہلا پتھر مار سکیں۔ عدالت پر حملہ، جسے امریکی نائب وزیر خارجہ نیگروپونٹے اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بانڈ درخور اعتناء نہیں سمجھتے، سب سے پہلے مشرف نے تو نہیں کیا تھا۔ عدالت پر سب سے پہلا حملہ نواز شریف کے حامیوں نے کیا تھا کیونکہ ججوں کا ایک فیصلہ نواز شریف کو اس وقت پسند نہیں آیاتھا جب وہ وزیر اعظم تھے۔
جن کو یہ توقع تھی کہ بے نظیر کی وفات سے پیپلز پارٹی ایک نئے باب کا آغاز کرے گی، انہیں مایوسی ہوگی۔زرداری کے عروج کے نتیجے میں پارٹی یقینا تقسیم کا شکار ہو گی۔ بے شمار کارکن ان سے متنفر اور انہیں انکی اہلیہ کے زوال کی وجہ سمجھتے تھے۔ اب وہ انکے رہنما بن چکے ہیں۔
یہ عالمی اتفاق رائے کہ بے نظیر کو جہادیوں نے یا القاعدہ نے ہلاک کیا ، دو ہفتے کے اندر اندر ڈھیر ہو گیا۔ پتہ یہ چلا ہے کہ جب بے نظیرنے اسی طرز پر سابق امریکی فوجیوں پر مبنی محافظ دستے کا مطالبہ کیا جس طرح حامد کرزئی کو دستیاب ہے تو پاکستان کی حکومت نے اسے ملکی خود مختاری کے خلاف قرار دیکر حقارت سے مسترد کر دیا۔ہیلری کلنٹن اور سینیٹر جوزف بیڈن، چئیرمین سینیٹ فارن ریلیشنز کمیٹی، نے سرِ عام اس جانب اشارہ کیا کہ الزام القاعدہ پر نہیں مشرف پر لگنا چاہئے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں میں مشرف سے نجات حاصل کرنے بارے سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے۔ مشرف نے یقیناََ ایسے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ زندہ بھی ہوتیں تو اکیلے اس بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں جو پاکستا ن کو درپیش ہے:
امریکہ کا خیال تھا کہ بے نظیر دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے مناسب شخص ہیں۔ اس لڑائی کے لئے بہترین شخص کون ہے؟ اگر آپ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کر نا چاہتے ہیں تو آپ میں تین خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اول، فوج آپ کے ساتھ ہونی چاہئے۔ بے نظیر فوج میں انتہائی غیر مقبول تھیں۔ پوری مذہبی لابی کی نظر میں آپ کو اجنبی ۔۔۔۔غیر مذہبی۔۔۔۔نہیں سمجھا جانا چاہئے ۔ تیسرا عنصر، آپ کو امریکہ کی توسیع نہیں نظر آنا چاہئے۔ اب مجھے امریکی توسیع سمجھا جاتا ہے مگر اتنی نہیں جتنی بے نظیر سمجھی جاتی تھیں۔ پاکستانیوں کو معلوم ہے میں سختی سے بھی پیش آ سکتا ہوں۔ میں ہیلری کلنٹن کے خلاف بات کر سکتا ہوں۔ میں کسی کے بھی خلاف بات کر سکتا ہوں۔ یہ ہیں وہ عناصر۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔1
بے نظیر کی وفات کے بعد واشنگٹن کامسئلہ اب یہ ہے کہ جو واحد فون نمبر وہ گھما سکتے ہیں وہ ہے لیون ورتھ سے تربیت یافتہ فوج کے سربراہ اشفاق کیانی کا۔نواز شریف کو امریکہ میں لائٹ ویٹ اور سعودی بغل بچہ سمجھا جاتا ہے ( ان کے سعودیہ کے ساتھ کاروباری تعلقات اور مذہبی ہم آہنگی سب کو معلوم ہے) لہٰذا وہ سو فیصد قابلِ اعتبار نہیں۔ ویسے سعودی امریکی اتحاد کے پیش نظر بے چارے نواز شریف حیران تو ہوتے ہیں کہ آخر ان کو کیوں گھاس نہیں ڈالی جاتی۔ وہ اور ان کے بھائی واشنگٹن کا حکم بجا لانے پر تیار ہوں گے بشرطیکہ سامراجی پیغام رسانی مشرف کے بجائے سعودی بادشاہ کریں۔
بحران کا ایک عارضی حل موجود تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ مشرف مستعفیٰ ہو جاتے،انکی جگہ کوئی غیر متنازعہ سا شخص صدر بنا دیا جاتا، ایک قومی حکومت بنتی جو چھ ماہ کے اندر اندر انتخابات کراتی،سپریم کورٹ کے جج بحال کئے جاتے جو بلا خوف و خطر بے نظیر کے قتل کی تحقیقات کرتے۔ مشرف نے آخر وردی اتار دی ہے اور فوج کیانی کے حوالے کر دی ہے۔ انہیں سیاسی زندگی سے بھی ریٹائر ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ وہ وردی کی وجہ سے ہی سیاست میں آئے تھے۔ یہ ایک نیا آغاز ہوتا مگر پاکستان کی تاریخ ایسے رہنمائوں سے بھری پڑی ہے جو نئے خیالات سے دامن چرتے ہیں۔ قلیل المدت سیاست ہمیشہ حاوی رہی ہے۔ اس ہنگامہ خیز سال نے ملکی تاریخ کو دوربین سے دکھا دیا ما سوائے ایک صوبے کے جو الگ ہوا چاہتا تھا۔ 1947 ء سے ملک پر تقریباََ مسلسل حکمران رہنے والی فوجی بیوروکریٹک اشرافیہ کی ایک مایوس کن خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اوریجنلٹی نہیں۔ بلواسطہ یا بلا واسطہ فوجی ادوار(1958-71, 1977-88, 1999-2008)میں یہ بات اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
آج کی دنیا میں سماجی و سیاسی رتبے کا تعین دولت سے ہوتا ہے۔ عموماََ دولت اور اقتدار ایک ہی جگہ ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جمہوریت بے دم ہو کر رہ گئی ہے اور اس کا مقصد ان امکانات کو کم کرنا رہ گیا ہے جن کے نتیجے میں دولت کی تقسیم ہو سکتی ہے یایہ کہ شہریوں میں اسکی اپنی توقیر میں اضافہ نہ ہو سکے۔ کچھ استثنائیں بھی ہیں۔ چین میں مثلاً پارٹی حاوی ہے جو شائد اس قدیم چینی روایت کی عکاسی کرتی ہے کہ سماجی ترقی کے لئے تعلیم اہم ترین ہے۔ پاکستان میں ہونہار ترین بچے نیو یارک میں اسٹاک بروکر بننا چاہتے ہیں۔ جو زیادہ جاہ طلب ہیں وہ وردی کے متمنی ہیں۔ فوج کی بے پناہ اہمیت ملک کے سیاسی کلچر کو تشکیل دیتی ہے۔ فوج کا سربراہ وہ شخص ہے جس کی طرف ساری سیاسی برادری کی نظر تقریباً مسلسل ہی لگی رہتی ہے۔ اس کے بعد اہم ترین شخصیت امریکی سفیر ہے۔ اگر اس حقیقت کو نہ سمجھا جائے تو اس ملک کا ماضی سمجھ میں آتا ہے نہ حال۔
پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ جرنیل کی سیاستدانوں کے ساتھ جھڑپوں کی تاریخ ہے۔ثانوی فریق کے طور پرسول بیوروکریٹ غیر جانبداری کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ انکی اکثریت فوج کا ساتھ دیتی ہے۔ حتمی فیصلہ واشنگٹن کرتا ہے۔ اعداد و شمار سے فاتح کا با آسانی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ بیوروکریٹوں اور غیر منتخب سیاستدانوں نے گیارہ سال حکومت کی، فوج نے چونتیس سال جبکہ منتخب سیاست دانوں کو پندرہ سال ملے۔ یہ ریکارڈ مایوس کن ہے لیکن اگرکسی بھی آمریت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا واشنگٹن کی مرضی ہمیشہ شامل حال رہی۔
…٭…