ملک ہار دینے والا جرنیل
پاکستانی فوج اس بات پر فخر محسوس کرتی ہے کہ وہ ملک کو متحد رکھنے والی طاقت ہے اور اس کے بغیر پاکستان نہیں بچے گا۔تاریخ البتہ یہ بتاتی ہے کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ مارچ1969 ء میں ایوب خان نے ملک کی باگ ڈور یحییٰ خان کے حوالے کر دی ۔یحییٰ خان نے سال کے اندر اندر انتخابات کرانے کا وعدہ کیا اور اس خوف کے پیشِ نظر کہ عوامی تحریک پھر شروع ہو سکتی ہے، وعدے کی پاسداری کی۔پاکستانی تاریخ کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے پہلے قارئین کی سہولت کے لئے مناسب ہو گا کہ پاکستانی فوج کے مقام اور کردار کا خلاصہ پیش کر دیا جائے۔
فوج کا یہ دعوٰی جو بہ تکرارپیش کیا جاتا ہے کہ اس کے کوئی ’’سفلی مفادات‘‘ نہیں ، بے نقاب ہو چکا ہے۔ ایوب خان نے سیاست کی اور جاگیردار اشرافیہ کو اپنی جماعت مسلم لیگ میں شامل کیا۔ ایوب کا بیٹافوجی چھتر چھایا تلے سیٹھ بنا ا ور اس نے معقول حدتک دولت جمع کی۔ پاکستان کو انگریز سرکار سے فوج اور نوکر شاہی کا جو کردار ’’ورثے‘‘ میں ملا اس کی حقیقت 68 ء کی نسل کے سامنے آشکار ہو چکی تھی۔ پاکستان میں فوج کا کردار ہمہ تن اور انتہائی مرکزی تھا۔ ایشیاء اور افریقہ میں موجود عہدِ حاضر کی فوجی آمریتوںسے قطعی مختلف۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جنوب مشرقی ایشیاء پر جاپانی حملے اور قبضے نے وقتی طور پر نوآبادیاتی حکومت کے کُہنہ ڈھانچے کو۔۔۔۔۔اس ڈھانچے میں مقامی نمائندگی کبھی بھی خاطر خواہ نہ رہی تھی۔۔۔۔ برما، انڈونیشیا اور دیگر جگہوں پر توڑ ڈالا۔جنگ کے بعد سامراجی طاقتوں کے پاس اس چیز کا امکان کم تھا کہ از سرِ نُو ان ڈھانچوں کو تشکیل دیتیں جبکہ بعد از آزادی تشکیل پانے والی فوج اور سول سروس کا ایک بڑا حصہ جاپا نی یا یورپی استعمار کے خلاف قومی آزادی کی تحریک میں حصہ لے چکا تھا۔
ادھر افریقہ میں نوآبادیاتی انتظامیہ میں خود نوآبادیاتی افرادی قوت اس قدر مووجود تھی کہ نوکر شاہی ۔۔۔۔اس سے بھی بڑھ کر فوج۔۔۔۔کا ادارہ آزادی ملنے کے بعد نئے سرے سے تشکیل دینا پڑا۔ برصغیر پاک و ہند میں البتہ ان دونوںحالتوں سے مختلف صورتحال تھی۔یہاں مقامی افراد پر مبنی، ایک بڑی نوکر شاہی لازمی ضرورت تھی کیونکہ اتنی بڑی آبادی کے انتظامی معاملات انگریز خود سے نہیں چلا سکتے تھے۔اسی طرح انہیں بیک وقت ایک بڑی فوج کی بھی ضرورت تھی جس کے بعض چھوٹے اور کچھ بڑے افسربرصغیر کی جاگیردار اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لارڈ کرزن نے 1900 ء میں جو ’’ میمورنڈم آن آرمی کمیشنز فار انڈینز‘‘ پیش کیا اس میں درج تھا کہ مقامی افسران ’’کا تعلق اشرافیہ یا بالا طبقے کی محدود سی پرت سے ہونا چاہئے۔۔۔۔ اور پیدائشی حسب نسب پیشِ نظر رہنا چاہئے‘‘۔ایسے افسر دستے ’’جائز مقاصد کی ترویج اور ہندوستانی معاشرے کے بالائی طبقات، بالخصوص روایتی طبقہء امراء، اورحکومت ِبرطانیہ کے مابین قریبی اور دوستانہ مراسم قائم کرنے میں مدد دیں گے‘‘۔1
مجموعی طور پر یہ حکمتِ عملی دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک کامیاب رہی۔ ہندوستانی دستوں نے دونوں عالمی جنگوں میں بھی زبردست خدمات سر انجام دیں اور ملک کے اندر جبر کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔کسی اور نوآبادیاتی طاقت کے پاس اتنی بڑی فوج نہ تھی ۔اس کامیابی کی ایک وجہ ہندوستان کا کثیرالقومی کردار بھی تھاجس کے باعث برطانیہ کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ منتخب ’’مارشل ریسز‘‘ ۔۔۔۔زیادہ تر پنجابی، سکھ، پٹھان، راجپوت، جاٹ، اور ڈوگرے۔۔۔۔ میں سے لشکری بھرتی کر سکے جن پر سلطنت کی دیگر رعیت قومیتوں کو دبانے کے لئے انحصار کر سکے البتہ ہندوستان کی کانگرس نے 1920ء کی دہائی سے زبردست تحریکِ آزادی چلائی، دیہی علاقوں میں زبردست تنظیم سازی کی جس کے نتیجے میں برطانیہ کو اپنی نو آبادی سے اس وقت نکلنا پڑا جب دو سری عالمی جنگ نے اسے بری طرح کمزور کر دیا تھا۔ اس کے بعد کانگرس اس قابل ہو گئی کہ ریاست تعمیر کر سکے اور پارلیمانی نظام پر حاوی رہے جو ہندوستان کی آزادی سے لیکر آج تک مستقل طور پر قائم ہے۔
پاکستان میں صورتحال مختلف تھی۔ کانگرس کے مقابلے پر مسلم لیگ ہمیشہ ایک کمزورسی تنظیم رہی۔اسکی بنیاد 1906 ء میں مسلمان نوابوں اور شہزادوں نے رکھی تھی اور اس کا مقصد ’’مسلمانانِ ہندمیں حکومتِ برطانیہ سے وفاداری کی سوچ کو فروغ دینا‘‘(لیگ کے منشور کے مطابق) تھا۔ تیس کی دہائی میں جناح کی قیادت میں تعلیم یافتہ مسلمان متوسط طبقے نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ایک دور میں کانگرس سے بھی لیگ نے اتحاد کیاالبتہ اس کا زور انگریز مخالفت کے بجائے ہندووں کی مخالفت پر صرف ہوتا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران لیگ نے انگریز سرکار کے ساتھ تعاون کیا اور اس کے نتیجے میں 1947 ء میں بغیر آزادی کی سنجیدہ جدوجہد کئے اسے ایک علیحدہ ریاست مل گئی۔اس تبدیلی کا بندوبست بھی ریاستی سطح پر نوکر شاہی نے کیا جس کے پاس ابتدائی طور پر ہر طرح کا اختیار تھا۔ بہرحال ایک بار جب ایوب خان نے باگ ڈور سنبھال لی تو انہوں نے اپنے گردخوشامدیوں کا ایک گرو ہ جمع کر لیا اور کارپوریٹ فوجی حکومت کو ادارے کی شکل دینے کی بجائے ذاتی آمریت کو فروغ دیا۔ دس سال بعد ایوب آمریت اس قدر غیر مقبول ہو چکی تھی کہ اس کے خلاف ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سماجی شورش نے جنم لیا۔ حکمران طبقے کے لئے یہ آمریت بے کار ہو چکی تھی لہٰذا جب اوائل 1969ء کے ہنگامہ خیز دور میںکہ جب عوام راولپنڈی، لاہور،کراچی، ڈھاکہ اور چٹاگانگ کی سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے ، مغربی اور مشرقی حصوں میں مسلسل ہڑتال اور بلوے جاری تھے، فوج نے آخر کار ایوب کو رخصت کیا اور سیاسی اموربراہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
یحییٰ خانی وقفہ اس تبدیلی کی نمائندگی کرتا تھا جو ریاست کے پیچیدہ ڈھانچے میں جنم لے رہی تھی۔ تبدیلی یہ تھی کہ طاقت سول نوکر شاہی کے ہاتھ سے نکل کر فوج کے پاس جا رہی تھی۔ قدرتی بات ہے کہ نوکر شاہی کااثر و رسوخ موجود رہا: ریاستی مشینری اور معیشت سے متعلقہ متنوع معاملات جنہیں فوجی سنبھالنے سے قاصر تھے، کلیدی بیوروکریٹ ہی نپٹاتے۔فوج البتہ اب سینئر پارٹنر تھی۔ 1971 ء میں ہی پاکستانی فوج تین لاکھ افراد پر مشتمل تھی جن کی اکثریت ان پنجابی اور پٹھان کسان طبقوں سے تھی جو روایتی طور پر برطانوی فوج میں بھرتی ہوتے تھے۔ ان میں سے ستر ہزار بنگال میں تعینات کئے گئے۔لیفٹیننٹ کرنل کے اہم عہدے اور اس سے اوپرکے عہدوں پر مبنی افسر طبقہ انتہائی چھان پھٹک کے بعد ترتیب دیا جاتا ۔ ترقی دیتے وقت ان کے طبقاتی پس منظر اور سیاسی نظریات کو مدِ نظر رکھا جاتا۔پاکستانی فوج کے جرنیل، بریگیڈئیر اور کرنل عموماََ جاگیردار گھرانوں کی اولاد (عموماََ منجھلے بیٹے) یا پنجاب اور سرحد کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ گجرات اور حیدر آباد سے آئے امیر مہاجروں کی اولاد بھی کہیں کہیں موجود تھی۔بے عیب سماجی وثیقے اور لب و لہجہ ، جس سے اہلِ مغرب بہت متاثر ہوتے، ان کے ماضی کا پتہ دیتے۔ سامراجی ریکروٹ کے طور پر ان کی تربیت ڈیرہ دون میں ہوئی یا سینڈ ہرسٹ میں۔بنگال میں وہی دستے جبر کر رہے تھے جنہوں نے کبھی جنرل گریسی کی قیادت میں ویت نام کے اندر اپنے ہنر آزمائے تھے۔جنرل ٹکا خان جنہیں بعد میں بُچر آف بنگال کا لقب ملا، شمالی افریقہ میں منٹگمری کی فوجی مہم میں حصہ لے چکے تھے۔ دسمبر 71 ء میں بھارت کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کرنے والے جنرل ’’ٹائیگر‘‘ نیازی نے اپنی خود نوشت میں فخر کے ساتھ لکھا کہ ٹائیگر کاخطاب ’’دوسری عالمی جنگ کے دوران برما کے محاذ پر میری جرأت مندی کی وجہ سے کمانڈر 161 انفنٹری بریگیڈ ،بریگیڈئیر وارن نے دیا تھا‘‘۔1 یہ تھی صورتحال جب پاکستان کی فوج نے اپنے ہی مشرقی بازو پر حملہ کیا۔
دریں اثناء ایوب کی شرمناک رخصتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدوجہد سڑکوں پر ہونے کی بجائے انتخابی اکھاڑے میں پہنچ گئی۔ دو سیاسی جماعتیں منظر پرحاوی تھیں۔مغربی پاکستان میں بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے 1968-69ء کی تحریک کے چند ذہین ترین اور جری سیاسی رہنما ا ور کارکن اپنے ااندر سمو لئے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ملک میں موجود بے مہار جوش و خروش زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کا کوئی سیاسی نتیجہ نکلنا چاہئے۔اس کے لئے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے کہ جو جماعتیں موجود ہیں وہ یا تو غیر متعلقہ ہیں یا ایک بڑا مقصد حاصل کرنے سے قاصر۔ بھٹو نے بیج بویا تھا لہٰذا فصل بھی انہی کے حصے میں آنی تھی۔ مشرقی حصے میں مائونواز بائیں بازوکا بڑا حصہ ،جس نے ایوب کی چین دوستی کی وجہ سے ایوب کی حمایت کی تھی، ڈھیر ہو گیا۔ ذرائع ابلاغ میں مضبوط مگر سڑکوں پر کمزور ،روایتی ماسکو نواز بائیں بازو کی کمزوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی لیگ کو میدان خالی ملا۔ اس جماعت نے بنگال کی خود مختاری کا ہمیشہ دفاع کیا اور تحریک کو اس نعرے کی مدد سے جیت لیا۔ عوامی لیگ بنگالی قوم پرستی کی آواز بن گئی اور یہ جماعت سیاسی لحاظ سے اس حملے کے لئے تیار تھی جس کی منصوبہ بندی اسلام آباد میں ہو رہی تھی۔مشرقی بنگال میں جاگیردار اور تاجر طبقہ زیادہ تر ہندو تھا۔1947 ء میں یہ لوگ اپنا کاروبار اور زمینیں چھوڑ کر مغربی بنگال ہجرت کر گئے جو بھارت کا حصہ تھا اور ہے۔اس خلاء کو یو پی سے آئے بہاری مسلمان مہاجروں اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر بنگالی سیٹھوں نے پُر کیا۔ تقسیم کے فوری بعد مشرقی بنگال کا استحصال شروع ہو گیا اور مغربی پاکستان سالانہ تین ارب روپے بنگال سے کماتا۔زرِ مبادلہ کا اہم ترین ذریعہ پٹ سن تھا۔ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی یہ جنس پاکستانی برآمدات کا پچاس فیصد تھی۔ یہ سرمایہ مغربی پاکستان میں اصراف اور سٹے بازی کے لئے استعمال ہوتا۔ مرکزی حکومت ترقیاتی کاموں کے لئے جو رقم مختص کرتی ، اس کا جائزہ امتیازی سلو ک کے حوالے سے خاصا دلچسپ ہے۔ 1948-51 کے عرصے میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں 1.13ارب روپے مختص کئے گئے۔ اس رقم کا صرف بائیس فیصدمشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ 1947-69کے عرصے میں جو وسائل مشرقی پاکستان منتقل کئے گئے ان کی مالیت 2.6ارب ڈالر تھی۔مغربی پاکستان کی معیشت کا مشرقی پاکستان پر زبردست انحصار تھا۔ ایک تو وہ سرمایہ کاری کے لئے اہم تھی مگر سب سے اہم بات یہ کہ وہ ایک مفتوحہ منڈی تھی اور سبسڈیز کا وسیلہ۔عوامی لیگ کے چھ نکات سیاسی و معاشی خود مختاری کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں اور فوج و نوکرشاہی میں موجود ان کے حواریوں کے کاروباری مفادات کے لئے شدید خطرہ تھے۔ چھ نکات یہ تھے:
۱۔بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پارلیمانی نوعیت کا وفاقی نظامِ حکومت
۲۔وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور خارجہ کے امور ہوں گے۔باقی تمام امور وفاق تشکیل دینے والی ریاستوں کے پاس ہوں گے
۳۔یا توملک کے دونوں حصوں میں دو کرنسیاں ہوں جو آزادانہ قابلِ تبدیل ہوں یا پورے ملک میںایک ہی کرنسی ہو۔ اس صورت میں ایسے آئینی اقدامات کئے جائیں کہ سرمایہ مشرقی حصے سے مغربی حصے میں نہ پہنچ پائے
۴۔ٹیکس اور ریونیو کا اختیار وفاق کی ریاستوں کے پاس ہوگا نہ کہ مرکزی حکومت کے پاس
۵۔ملک کے دونوں حصوں کے لئے،ان حصوں کی حکومتوں کی نگرانی میں، زرِ مبادلہ کے لئے علیحدہ اکاونٹس
۶۔مشرقی پاکستان کے لئے ملیشیا یا پیرا ملٹری فورس کا قیام
یہ نکات ایک جانب تو اس استحصال کا جواب تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے دوسری طرف یہ نئے آئینی اقدامات کے ذریعے پاکستان کے اتحاد کو قائم رکھنے کی سنجیدہ کوشش تھی۔ جب غیر ملکی نامہ نگار شیخ مجیب کے مطالبات کو ’’غیر معقول‘‘ قرار دیتے تو وہ چِڑ کر کہتے:’’کیا مغربی پاکستان کو سمجھ نہیں آتا کہ مشرقی پاکستان کو کمیونزم سے صرف میں ہی محفوظ رکھ سکتا ہوں؟اگر انہوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا تو طاقت میرے ہاتھ سے نکل جائے گی میرے نام پر نکسل باڑی (مائو نواز) مداخلت کریں گے۔ اگر میں نے زیادہ چھوٹ دی تو میری اتھارٹی جاتی رہے گی۔میں بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہوں‘‘۔1 چھ نکات آرزو مند بنگالی بورژوازی کے کردار کی عکاسی کرتے تھے۔ ان نکات سے پتہ چلتا ہے کہ بنگالی بورژوازی علاقائی ریاستی ڈھانچہ چاہتی تھی تاکہ سرمایہ دارانہ لوٹ میں برابر کا حصہ وصول کر سکے لیکن اسی وجہ سے تو مغربی پاکستان کے بالا طبقے ان کے خلاف تھے۔ پاکستانی فوج خلقی طور پر بنگال کی سول حکومت برداشت کرنے پر تیار نہ تھی کیونکہ خطرہ یہ تھا کہ ایسی حکومت اس کثیر فوجی ڈھانچے کا حجم کم کر سکتی ہے جو 1958 ء میں ایوب کے حکومت پر قبضے کے بعد اسلام آباد میں موجود طاقت کا جزو لاینفک بن چکا تھا۔ سٹیٹس کو قائم رکھنے میں فوجی افسر طبقے کا کس قدر گہرا مفاد تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقدیمی دہائی (1958-68) کے دوران فوج ملکی بجٹ کا ساٹھ فیصد ہڑپ کر گئی تھی۔صرف مالی سال 1970ء کے دوران ، 625ملین ڈالر فوج کیلئے مختص کئے گئے۔مغربی پاکستان کے کم نظر سیاستدان جنہیں یہ سب نظر نہیں آ رہا تھا جلد ہی خود بھی اسی مشینری کا شکار بن گئے کہ فوج سنجیدگی کے ساتھ کسی ایسی حکومت کے حق میںنہیں جو فوجی اور سماجی اخراجات کے بیچ فرق بارے معترض ہو۔
عوامی لیگ کے سیاستدانوں کو اس بات پر سراہنا پڑے گاکہ انہوں نے مسلسل بڑے فوجی اخراجات پر اعتراض کیا جو ایک ایسی فوجی مشینری پر کئے جا رہے تھے جس میں بنگالی نہ ہونے کے برابر تھے ، ایک ایسا فوجی ڈھانچہ جس میں اوپر ے لیکر نیچے تک بنگالیوں کے خلاف نسلی اور مذہبی تعصب پایا جاتا تھا ، ایک ایسی فوج جس میں بنگالیوں کو روایتی طور پر کالا، کمزور اور ہندومت سے متاثر سمجھا جاتا تھا۔ ادھر پاکستان کا کاروباری طبقہ اپنے مفاد کی خاطر چھ نکات پر مزاحمت کر رہا تھا۔ مغرب کے کاروباری مفادات کے مطابق بنگال سرمایہ کاری کے لئے موزوں نہیں رہاتھا۔ بنگال کی حیثیت ایک مفتوحہ منڈی اور زرِ مبادلہ کمانے کی وجہ سے اہمیت کی حامل تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں مغربی پاکستان کی برآمدات کا چالیس سے پچاس فیصد مشرقی پاکستان کو اجارہ دارانہ قیمتوں پر درآمد کرنا پڑتا تھا۔ مغربی پاکستان کی سرمایہ داری اپنی مہنگی مینوفیکچرنگ مشرقی پاکستان نہ بھیجتی تو کہاں بھیجتی؟ عوامی لیگ نے دو وجوہات کی بنا پر مشرقی بنگال میں زبردست سیاسی حمایت حاصل کی۔اول، اس نے قومی سوال کی اہمیت کو سمجھا اور دیکھا کہ مشرقی پاکستان کی حیثیت ایک نیم نوآبادی کی سی ہے۔ دوم، بائیں بازو کی جماعتیں جو ایوب کی چین ’’دوستی‘‘ کے باعث آمریت کی حمایت کرتی ر ہیں، ناکام ہو گئیں۔نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا مائو نواز دھڑا،چینی پشت پناہی کے ساتھ، بضد تھا کہ ایوب آمریت میں ’’بعض سامراج مخالف خصوصیات‘‘ پائی جاتی ہیں لہٰذا بعض صورتوں میں بورژوا جمہوریت سے بہتر ہے۔ یوں عوامی لیگ پورے صوبے میں خود کو حقیقی حزبِ اختلاف کے طور پر پیش کر سکتی تھی۔وہ چھ نکات کے حق میں مسلسل مہم چلاتی رہی، آزادانہ انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی اور ایوب کے خلاف جلسے منظم کرتی رہی۔مجیب الرحمن سمیت اس کے بعض رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا جس سے عوامی لیگ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ جب ایوب مخالف تحریک نے آمریت کا خاتمہ کر دیا اور اس کی جگہ یحییٰ جنتا نے لے لی تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر عوامی لیگ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی۔
اس کے باوجود عوامی لیگ اپنی وراثت سے منکر نہیں ہو سکتی۔ فوج کے ایوب سے استعفیٰ لینے سے چند ہفتے قبل ، عوامی لیگ نے جوش و خروش کے ساتھ ان ’’آئینی‘‘ مذاکرات میں حصہ لیا جو کسی سمجھوتے بازی کے لئے گول میز کانفرنس کی صورت ایوب خان نے کئے۔عوامی لیگ نے عوامی تحریک کو ہوا دی، بنگالی مزدوروں و کسانوں کا غصہ بہ چشمِ خود دیکھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے پارلیمانی ماضی سے نتھی رہی۔
عوامی ابھار کو دبانے میں ناکام یحییٰ آمریت کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا وعدہ کرنا پڑا۔ حکومتی مشیروں کا خیال تھا وہ انتخابات کو توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ انہیں یقین تھا کہ دھاندلی کی دیرینہ ماہر نوکرشاہی متوقع نتائج یقینی بنا لے گی۔ نوکر شاہی کو مناسب وقت فراہم کرنے کے لئے انتخابات ملتوی کر دئے گئے اور اس التواء کے لئے 1970ء میں بنگال میں آنے والے سیلابوں کو بہانہ بنایا گیا جس میں لاکھوں جانیں چلی گئیں۔فوج کی طرف سے سیلاب زدگان کو مناسب مدد کی عدم فراہمی نے بنگالیوں کے غصے کو مزید تیز کیا۔ جب مشرقی پاکستان کے مختلف مائو نواز دھڑوں نے انتخابات ، جو آخرِ کار دسمبر 1970ء میں ہوئے، کا بائیکاٹ کر دیا تو عوامی لیگ کو میدان خالی ملا۔مشرقی پاکستان کے لئے قومی اسمبلی کی مختص 169 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 167 جیت لیں ۔ اسی طر ح صوبائی اسمبلی کی 343 نشستوں میں سے 291 عوامی لیگ کے حصے میں آئیں۔ اسے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو گئی اور وہ مرکزی حکومت تشکیل دینے کے قابل ہو گئی۔ مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اس امکان کے پیشِ نظر سکتہ میں آگئی۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر کے عوامی لیگ نے چھ نکات کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تھا اور انتخابی بیان بازی میں وہ چھ نکات سے بھی آگے نکل گئی تھی، یہ بات واضح تھی کہ فوج قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دے گی۔ اس ضمن میں اگر ذولفقار علی بھٹو نے فوج کو رہنمائی نہیں تو کھل کر مدد ضرور دی ۔ انہوں نے ایک ایسی حکومت قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اکثریتی جماعت نے تشکیل دی ہو۔
بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ملک کے مغربی حصے میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور انہیں چاہئے تھا کہ انتخابی فاتح سے معاملہ طے کریں۔ اس کے بر عکس بھٹو نے ترش روئی سے کام لیتے ہوئے اپنی جماعت کو مشرقی پاکستان کے دارلحکومت ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے کی ہدایت کی یوں فوج کو حملے کی تیاری کے لئے مناسب وقت مل گیا۔بھٹو نے ’’ادھر ہم، ادھر تم ‘‘ کا نعرہ تراشا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بھی فوج کی طرح شراکتِ اقتدار پر تیار نہیں۔ یوں اشتعال سے بچنا ممکن نہ رہا۔ بنگال میں عدم تعاون کا ماحول پیدا ہو گیا۔ ہڑتالوں کی لہر نے اس صوبے کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ فوجی چھاونیوں میں بھی تنائو پایا جا رہا تھا مثلاََ جب عوامی لیگ نے عدم تعاون کا فیصلہ کیا تو بنگالی بیرے، گھریلو ملازم اور دھوبی چھاونیوں میں آنا بند ہو گئے۔ سبزی منڈیوں میں سبزی فروشوں نے فوجیوں کو مال بیچنا بند کر دیا۔ جو گاڑیاں چھاونی جاتیں ان کے نمبر اگلے روز ’’عوام‘‘ اخبار میں شائع ہو جاتے۔ ایک وقت پر توصورتحال اس قدر خراب تھی کہ فوجیوں کے لئے خوراک مغربی پاکستان سے بھیجنی پڑی۔
26 مارچ1971ء کو ہونے والے حملے سے قبل بھی سینکڑوں بنگالی جانیں ضائع ہو چکی تھیں اور اس کی ذمہ داری مغربی پاکستان سے بھیجی گئی فوج پر ڈالی جا رہی تھی جسے ایک جابر فوج کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اس دور کے بعض جرنیل جو اس کام میں ملوث تھے، نے بعد ازاں لکھا کہ اپنے ہی لوگوں سے خوفزدہ شیخ مجیب نے فوج سے کہا تھا کہ تحریک کو دبادیا جائے مگر حقیقت میں یہ ایک چال تھی جس نے انہیں اور بھی غیر مقبول بنا دیا۔دھوکے باز بھی کیسے الجھے ہوئے جال بنتے ہیں۔
فوجی طاقت کے اوّل اوّل اندھے استعمال سے عوامی لیگ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں اور اسے بنگالی عوام کو ایک طویل جدوجہد کے لئے تیار کر نا چاہئے تھا۔ عوامی لیگ نے اس کے باوجود ایسا نہیں کیا کہ عوام کی یہ زبردست خواہش تھی اور عوامی لیگ کے عوامی جلسوں میں پاکستان سے علیحدگی کے زبردست نعرے لگتے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری کا اظہار ان زبردست جلسوں سے ہو رہا تھا جو ستر کے انتخابات سے قبل اور بعد میں پورے مشرقی بنگال کے اندر ہو رہے تھے۔ہر مرحلے پر شہری اپنے پارلیمانی رہنمائوں کی نسبت ماضی سے زیادہ بہتر اسباق اخذ کر رہے تھے اور مشرقی پاکستان میں قائم نو آبادیاتی ریاست کے خاتمے کے لئے لڑنے پر تیار تھے۔ ہر موقع پر عوامی لیگ کی کلیسائی پارلیمان نوازی ان کے پائوں کی بیڑی بن جاتی۔ عوامی تحریک اور اس کی اصلاح پسند قیادت کے مابین تنازع اس امر کے پیشِ نظر اور بھی المناک صورت اختیار کر رہا تھا کہ بائیں بازو کی جو تنظیمیں موجود تھیں وہ یا تو مقامی سطح پر موجود تھیں یا اپنا اعتبار کھو چکی تھیں لہٰذا وہ فیصلہ کن انداز میں تحریک پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھیں۔
شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے بھارت کے ممتاز اخباری تجزیہ نگار رنجیت رائے نے پاک ہند اسٹیبلشمنٹ سیاست میں موجود ایک مشترکہ عنصر کا بخوبی ذکر کیا:’’عوامی لیگ کی قیادت کئی طرح سے ہماری کانگرس کی قیادت ایسی ہے۔۔۔۔ایک ایسی قیادت جو پر امن احتجاج کی پشت پناہی سے سمجھوتہ بازی کرنا چاہتی تھی اور آخر کار ہمارے نوآبادیاتی آقائوں کے ساتھ سمجھوتے با زی میں کامیاب ہو گئی۔ہماری آزادی برطانوی آقائوں کے ساتھ سمجھوتے کا نتیجہ تھی۔ شیخ مجیب بھی اسلام آباد کے ساتھ ایسے ہی سمجھوتے کی امید رکھتے تھے۔ ہندوستان میں کانگرس کی طرح عوامی لیگ کے بھی بس میں نہیں تھا کہ ایسی کسی جنگ میں ملوث ہوتی جیسی جنگ حالات نے بنگلہ دیش کو لڑنے پر مجبور کر دیا۔‘‘
یہ استغراق بلا شبہ لا شعوری طور پر برصغیر میںپاکستانی اور برطانوی کلونیل ازم میں ایک اہم فرق کی نشان دہی کرتا ہے۔برطانیہ سیاسی طور پر نوآبادیات سے نکل گیا کہ اس طرح کہیں بھی برطانیہ کی معیشت کو دھچکا نہیں لگا کیونکہ برطانوی معیشت کے مرکزی ستون تھے ملائشیا کا ربر اور ٹِن،مشرقِ وسطیٰ کا تیل، جنوبی افریقہ کا سونا اور ہندوستان کی کاشتکاری۔ مشرقی بنگال کی سیاسی آزادی البتہ اسلام آباد کی بھوکی ننگی نیم استعماریت کا خاتمہ تھا۔ نوآبادیاتی طاقت جس قدر کمزور ہو گی اسی شدت سے وہ اپنے رعیتی علاقوں کے سیاسی اختیار پر انحصارکرے گی۔اس حوالے سے بیسویں صدی کی تاریخ میں ہمارے لئے زبردست سبق موجود ہے۔
سمندر پار اپنے مقبوضہ جات قابو میں رکھنے کے لئے جس یورپی سامراج نے لمبی ترین اور مصمم ارادے کے ساتھ جنگ کی وہ برطانیہ یا فرانس ایسا صنعتی ملک حتیٰ کہ بلجئیم ایسا کوئی ملک بھی نہ تھا۔ یہ پس ماندہ، چھوٹا سا پُرتگال تھا جس کے معاشرے میں ہنوز زراعت غالب تھی۔افریقہ میں پرتگال نے انگولا، موزمبیق اور گینیا ایسی نوآبادیات پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے بے رحمی سے اور بلا چون و چرا جنگ لڑی کیونکہ پرتگال کے لئے ان نوآبادیات کی زبردست معاشی و نظریاتی اہمیت تھی۔ پرتگال، جس کی اپنی معیشت میں ترقی یافتہ طاقتوں کا سرمایہ گھس بیٹھ کئے ہوئے تھا، کی نیم استعماریت پاکستان کی مثال سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔دونوں کے پاس سیاسی و معاشی جوڑ توڑ کے لئے زیادہ امکانات موجود نہ تھے۔ اپنے اپنے انداز میں دونوں انتہاپسندی کی جانب مائل ہوئے اور جبر کی انتہائی شکلوں کا ارتکاب کیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ممالک کیلئے اس کے نتیجے میںزبردست بحران نے جنم لیا: ایک ٹوٹ گیا جبکہ دوسرے کی فوج زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ 1974 ء میں آنے والے جمہوری انقلاب، جس نے سالازار آمریت کا خاتمہ کردیا، میں میجر اور کرنیل عوامی تحریک کا ہراول تھے۔
عوامی لیگ جو آج بھی بنگلہ دیش میں ایک بڑی جماعت ہے، کے معروضی جائزے سے ثابت ہو گا کہ یہ ایک سیکولر مگرجنم جنم سے رجعت پسند جماعت ہے۔ مغربی پاکستانی بہنوں کی طرح ،جن دنوں یہ پروان چڑھ رہی تھی،ملک میں پارلیمانی جوڑ توڑ اور ساز باز کا رواج تھا۔ اس کی سماجی بنیاد ہمیشہ سے مشرقی پاکستان میں موجود سرکاری اہلکار، اساتذہ، چھوٹے تاجر، اور دکاندار تھے۔ حسین شہید سہروردی نے، جو مختصر سے عرصے کے لئے پاکستان کا وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے، یہ اعزاز حاصل کیا کہ 1956ء میںمصر پر اینگلو فرنچ اسرائیلی حملے کی حمایت کی۔سہروردی پاکستان میں ہی امریکی مفادات کا دفاع کرنے میں پرجوش نہ تھے بلکہ پورے ایشیاء میں امریکی حکمتِ عملی کے حامی تھے۔ مشرقی پاکستان میں بائیں بازو کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں جو امریکہ نوازی کی مخالفت کرتیں، عوامی لیگ کے’’رضاکاروں‘‘ کے تشدد کا نشانہ بنتیں اور ان کے جلسے شرمناک باقاعدگی کے ساتھ الٹائے جاتے۔سہروردی کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سندھ، سرحد اور بلوچستان کو پنجاب کی بالادستی میںقاہم ہونے والے ون یونٹ میںسمو دینے کے عمل کی نگرانی کی۔یوں انہوں نے مغربی پاکستان کے صوبوں کی ’’خودمختاری‘‘ کے لئے احترام کا مظاہرہ کیا۔
1958 ء کے بعد ایوب آمریت کے ابتدائی عرصے میں سہروردی نے حکومت کی مخالفت کی اور کچھ عرصے کے لئے قید کاٹی مگر ان کی مخالفت ہمیشہ بورژوا آئین پسندی تک محدود رہی۔ سہروردی میں بے پناہ صلاحیتیں تھیں۔۔۔۔زبردست وکیل تھے، سیاسی جوڑ توڑ میں مہارت رکھتے تھے، گفتگو کمال کی کرتے۔۔۔۔جن کے با عث وہ عوامی لیگ کے دیگر رہنمائوں سے کہیں ممتاز تھے۔ان کا نصب العین بہرحال بنگال کی آزادی ہر گز نہ تھا۔ وہ عوامی لیگ کو پورے ملک میں ایک انتخابی جماعت کے طور پر منظم کرنا چاہتے تھے جو ’’قومی‘‘ جماعت کے طور پر اقتدار میں آ سکے اور حسین شہید سہروردی کو سب سے مقدم عہدے پرپہنچنے کے لئے سیڑھی بن سکے۔ 1963ء میں ان کی بے وقت موت نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا۔
اس ابتدائی تاریخ کا جائزہ عوامی لیگ کے اس روئیے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے جو اس نے بعد میں اختیار کیا۔ ایوب آمریت کے باقی عرصے میں اس نے حزبِ اختلاف کا کردار جاری رکھا۔ ایوب نے خود کئی بار سوچا کہ عوامی لیگ کے رہنمائوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر لیا جائے اور انہیں مرکزی حکومت میں شامل کر لیا جائے مگر مشرقی پاکستان کی انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والے بدمعاش سیاستدان ، جن پر ایوب خان مشرقی بنگال کے اندر امن و امان قائم رکھنے کے لئے انحصار کرتے تھے، اس منصوبے کو مسلسل ناکام بناتے رہے کہ اس طرح انکی اپنی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا۔
عوامی لیگ کے پاس لہٰذا کوئی اور راستہ نہ تھا سوائے حزبِ اختلاف میں رہنے کے۔ اس نے 1964 ء میں ایوب خان کے خلاف مشترکہ امیدوار لانے کے لئے تشکیل پانے والے اتحاد (سی او پی) میں شمولیت اختیار کی۔ انتخابات میں فوج اور نوکر شاہی نے خوب دھاندلی کی اور فیلڈ مارشل آسانی سے جیت گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک اندر سے ٹوٹ گیا مگر اقتدار میں موجود کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد عوامی لیگ نہ چاہتے ہوئے بھی مختلف سمت میں سفر کرنے لگی اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ بچا کہ فوج کو کھلم کھلا للکارے۔ ساڑھے سات کروڑ بنگالیوں پر فوج کشی سے چند ہفتے قبل ’’اکانومسٹ ‘‘نے اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے جو عموماََ پائی جا رہی تھی، جنرل یحییٰ کو شرفِ قبولیت بخشا:’’امید کی جا سکتی ہے کہ جنرل یحییٰ فوج کو قابو میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی تک انہوں نے سیاست میں ایک ماڈل فوجی کا کردار ادا کیا ہے، انتخابی عمل سے لاتعلق رہے اور انتخابات کے بعد تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا‘‘۔
جناح کا پاکستان 26مارچ 1971ء کو اس وقت دم توڑ گیا جب بنگال کو خون میں غوطہ دیا گیا۔ مغربی پاکستان کے دو اعلیٰ فوجی قابلِ ستائش ہیں جنہوں نے بنگال کے واقعات کے خلاف استعفیٰ دیدیا۔ جب اسلام آباد نے ایڈ مرل احسان اور جنرل یعقوب کی اپیلیں مسترد کر دیں تو انہوں نے بنگال کو خیر باد کہہ دیا۔ دونوں مسئلے کے فوجی حل کے کٹر مخالف تھے۔ بھٹو نے البتہ حملے کی حمایت کی۔ ’’خدا کا شکر ہے! ملک بچ گیا‘‘ بھٹو نے اعلان کیا اور یوں اس تباہی کا ساتھ دیا جو نازل ہونے والی تھی۔ شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ بائیں بازو کے سینکڑوں دانشوروں، کارکنوں اورطلباء کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مقتولین کی فہرستیں انتخابات میں شکستِ فاش کھانے والی جماعتِ اسلامی کے مقامی کارکنوں کی مدد سے تیار کی گئی تھیں۔ سپاہیوں کو بتایا گیا کہ بنگالیوں نے کچھ ہی عرصہ قبل اسلام قبول کیا ہے لہٰذا وہ ’’مناسب حد تک مسلمان‘‘ نہیں۔ انکی نسل بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ تھاعوامی سطح پر بنگالی خواتین کو زیادتی کا شکار بنانے کا جواز۔
ڈھاکہ میں شیخ مجیب گھر بیٹھے گرفتاری کا انتظار کرتے رہے۔ ان کے بہت سے ساتھی زیرِزمین چلے گئے۔ فوج نے ڈھاکہ یونیورسٹی پر گولہ باری کی۔ توپ خانے نے مزدور بستیاں زمین بوس کر دیں۔ ٹریڈ یونین اور اخبارات کے دفاتر کو آگ لگا دی گئی۔سپاہیوں نے یونیورسٹی میں لڑکیوں کے ہاسٹل پر حملہ کر دیااور اکثر رہائشیوںکی آبروریزی کی یا مار ڈالا۔خفیہ والوںنے مقامی شریک کاروں ، جو اکثر اسلام پرست کارکن تھے، کی مدد سے (1965 ء میں جس طرح انڈونیشیا میں ہوا تھا) قوم پرست اور اشتراکی دانشوروں کی فہرستیں تیار کیں ،جنہیں اغواء کر نے کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔ان میں سے کچھ میرے قریبی دوست تھے۔ میں اداس بھی تھا ا ور سیخ پا بھی۔میں نے اس المئیے کی پیش گوئی اس امید کے ساتھ کی تھی کہ اس سے بچا جا سکتا ہے۔ دسمبر1970 ء میں ہونے والے انتخابات کے فوری بعد میں نے لکھا:’’کیا پاکستانی فوج اور مغربی پاکستان کے سرمایہ دار نواب ان مطالبات کو پورا ہونے دیں گے؟جواب ہے کہ بالکل نہیں۔ امکان یہ ہے کہ قلیل المدت عرصے میں شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان کے برآمدی اور درآمدی لائسنسوں کی تعداد بڑھانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں زیادہ حصہ حاصل کرنے کی اجازت دیدی جائے گی۔یہ وہ مراعات ہیں جو فوج آئندہ چند ماہ میں دینے پر تیار ہو سکتی ہے۔اگر تو شیخ مجیب نے انہیں تسلیم کر لیا تو وہ اقتدار میں رہ سکتے ہیں ورنہ فوج کی شکل میں وہی پرانا کھیل شروع ہوجائے گا۔یہ بات واضح ہے کہ اگر ایک نئی فوجی بغاوت ہوئی تو اہلِ بنگال کے غصے کے سامنے بند باندھنا ممکن نہ ہوگااور آزاد بنگال کی خواہش سو گنا بڑھ جائے گی‘‘۔1
بنگال کی سیاسی قیادت نے عوام کو اس حملے کے لئے تیار نہ کیا تھا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو بہت سی جانیں بچ سکتی تھیں۔ بنگالی پولیس اور فوجی اپنی قیادت کے اس حکم کے منتظر ہی رہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں سمیت فرار ہو جائیں اور اپنے لوگوں کی حفاظت کریں۔ جناح کے پاکستان کی موت ہو چکی تھی۔ بنگلہ دیش جنم لینے ہی والا تھا۔آزادیء بنگال کے لئے لڑنے والی قوتوں اور مغربی پاکستان کی فوج کے بیچ شروع ہونے والی یہ کشمکش 1968-69 کی عوامی تحریک کا تسلسل بھی تھا اور کیفیتی رخنہ بھی۔
1971ء کے اوائل سے مشرقی بنگال کی سیاست کے اندر دو واضح رنگ تھے: ایک طرف تو سماجی اور قومی جدوجہد کی ہر سطح پر عوام کی پُرجوش شمولیت، دوسری جانب عوامی لیگ کی پیٹی بورژوا قیادت کی سیاسی کمزوریاں کہ یہ قیادت جوڑ توڑ اور سمجھوتے بازی کی عادی تھی اور اس روایت نے اس قیادت کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا تھا کہ قومی آزادی کی تحریک کو قیادت فراہم کرے۔ 7مارچ 1971ء کو شیخ مجیب نے دس لاکھ کے جلسے سے خطاب کیا جہاں انہوں نے تاخیری حربوں اور سازشوں کی مذمت کی مگر اعلانِ آزادی نہ کیا۔ اس لیت و لعل کی قیمت عام بنگالی نے ادا کی۔ آپریشن سرچ لائٹ بے رحمی سے کیا گیا مگر کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ دانشوروں اور طلباء کے قتل سے وہ برق رفتار کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کی توقع پاکستانی جرنیل لگائے بیٹھے تھے۔ ایک بار جو ابتدائی حملہ ناکام رہا تو فوج نے مقامی اسلام پرست رضاکاروں (جماعتِ اسلامی کے ارکان) کے ساتھ مل کر ہندو آبادی کا قتل شروع کر دیا۔ ۔۔۔مشرقی پاکستان میں اک کروڑ ہندو تھے۔۔۔۔اور ان کے گھر جلا ڈالے۔ کسی بھی عالمی قانون کے مطابق یہ جنگی جرائم تھے۔1 یہ سب ہو رہا تھا اور اکثر یحییٰ نواز مغربی حکومتیں آنکھیں بند کئے یہ آس لگائے بیٹھی تھیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔جب حملے کی خبر پھیلی توبنگالی اکثریت والی ایسٹ پاکستان رائفلز میں بغاوت ہو گئی۔ بعد ازا ں اسلام آباد کی طرف سے اس بات کا خوب پراپیگنڈہ کیا گیاکہ کس طرح مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کمانڈر کرنل جنجوعہ کو ان کے ایک ماتحت نے صبح جگایا، پاجامے میں ہی دفتر لے جایا گیا، کمانڈنگ افسر کی کرسی پر بٹھایا گیا اور کس طرح ایک اردلی نے گولی سے اڑا دیا۔یہ سب بہت کریہہ انسانیت کے خلاف جرم کی تعریف یوں کی گئی:’’قتل، استیصال، غلام داری، جلا وطنی، اور دیگر غیر انسانی اقدامات جن کا نشانہ کوئی سول آبادی ہو ،یا سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر جبر۔ جب ایسے اقدامات یا جبر امن کے خلاف جرم یا جنگی جرم کے ارتکاب کے لئے یا اس کے ضمن میں کیا جائے‘‘۔
تھا مگر کس خانہ جنگی میں ایسا نہیں ہوتا؟کم ہی کسی نے یہ سوال پوچھنے کی کوشش کی کہ ملک میں موجود واحد بنگالی کمپنی کا کمانڈر غیر بنگالی کیوں تھا؟ یہ مسئلے کا حصہ تھا۔صوبے کے مختلف حصوں میں گوریلا دستے تشکیل پا گئے جو مختلف سیاسی دھڑوں کی نمائندگی کرتے تھے مگر آزادی کی جدوجہد میں سب متحد تھے۔ ان میں سب سے طاقتور مکتی باہنی (لبریشن آرمی) تھا جس کی قیادت عوامی لیگ کے قوم پرستوں کے ہاتھ میں تھی مگر دیگر دستے تھے جو مقامی طور پر متحرک تھے۔ ان میں سے بعض چے گویرا سے متاثر تھے اور انکی قیادت ٹیپو بسواس اور عبدالمتین کر رہے تھے۔ ان جنگجوئوں کے پاس اور کوئی راستہ بھی تو نہیں بچا تھا۔ بھارت اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ اس جدوجہد کا جلد از جلد خاتمہ چاہتی تھی۔ ایسا نہ ہوسکا۔اسلام آباد میں اس وقت طاقت کا مرکز فوجی افسروں کا ایک چھوٹا سا حلقہ تھا جن کو چند سول مشیران اور حواریوں کی مدد حاصل تھی۔یحییٰ خان ایک بے آب و کاہل شخص کی تصویر بن چکے تھے۔ بعد ازاں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ کس طرح ایک روز ، رات گئے، نشے کی حالت میں، وہ پشاور کی سڑکوں پر ننگ دھڑنگ نکل آئے ،پیچھے پیچھے ان کی پسندیدہ داشتہ (’’جنرل رانی‘‘)چلی آ رہی تھی۔موصوف کو ان کے محافظوں نے، جو اس حرکت پر ہر گز حیران نہ ہوئے، واپس کمرے میں پہنچایا۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اگر تو جنگ جیت لی جاتی تو ایسے واقعات کی کوئی ا ہمیت نہ ہوتی مگر ناکامی فوج کے سر پر منڈلا رہی تھی۔
پسِ پردہ جو گروہ جنگ لڑ رہا تھا وہ پانچ جرنیلوںاور چند سول بیوروکریٹس پر مبنی تھا اور ان میں سے کوئی بھی اپنی قابلیت کی وجہ سے مشہور نہ تھا۔اس دور کے ایک اعلیٰ فوجی افسر جنرل گل حسن نے اپنی سوانح عمری میں بتایاکہ جی ایچ کیو کس طرح افراتفری کا شکار تھا: جھوٹ پر مبنی مراسلے، فوجی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے حیلے بہانے، فوجی دستوں کا ضرورت سے زیادہ پھیلائو جس کے نتیجے میں ڈھاکہ کا دفاع کمزور پڑ گیا، وغیرہ وغیرہ۔اگر تو اسے خالصتاََ فوجی نقطہء نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ مہم بالکل ناکام ثابت ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے کمانڈنٹ جنرل ’’ٹائیگر‘‘ نیازی نے بڑ لگائی تھی کہ وہ ہفتوں میں سرکشی کا قلع قمع کر دیں گے مگر ان کی شیخی کسی کام نہ آئی۔جنرل گل حسن کے لئے مشکل ہو رہا تھ کہ وہ جنرل نیازی کے لئے اپنے دل میں موجود ہتک چھپائیں۔ گل حسن کے خیال میں جنر ل نیازی زیادہ سے زیادہ ’’کمپنی کمانڈر بننے کے قابل ‘‘تھے۔ جنرل گل حسن خود بھی کوئی توپ قسم کے فوجی مدبر نہ تھے۔ انہوں نے دوسرا محاذ کھولنے کی احمقانہ تجویز دی۔ اس کا مقصد بھارت کو مغربی سرحد پر مصروف کرناتھا۔جنرل گل حسن کی دلیل تھی کہ مشرقی پاکستان کو بچانے کا بہترین طریقہ اب یہ تھا کہ مکمل جنگ چھیڑ دی جائے جس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ ، امریکہ اور چین مداخلت کرکے علاقائی سطح پر فائربندی کروا دیں۔ ان کے اعلیٰ افسران نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی مگر ان کی تجویز رد کر دی۔1 وہ بالکل ہی احمق نہیں تھے۔ ریاست پر فوج کے مکمل اختیار نے اب چند بنیادی سوالوں کو جنم دیا۔
پاکستانی فوج اور نوکر شاہی کو مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جانب سے ہمیشہ نسبتاََ آزادی ملی رہی۔اس کی متضاد صورتحال کبھی نہیں پائی گئی۔ ثانی الذکر کا ریاست پر حاوی فوجی۔بیوروکریٹک کمپلیکس پر زبردست انحصار تھا۔ 1968-69 کی عوامی تحریک نے اس عمل کو تیز کر دیا۔ مغربی پاکستان کی اشرافیہ کا یہ احساس شدت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا کہ اس کا انحصار مستقل فوجی بیوروکریٹک ریاستی مشینری پر ہے لہٰذا فوج اور اس کا اتحاد جبر کا کردار ادا کرنے والے ادارے کے طور پر ہی نہیں سیاسی سد ِراہ کے لئے بھی ضروری تھا ۔ عوامی لیگ کے چھ نکات مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھائے تھے لہٰذا اس بات کی سمجھ آتی ہے کہ عوامی لیگ سے سمجھوتہ کیوں نہ ہو سکا، مشرقی پاکستان کے خلاف فوجی اقدام اس قدر بے رحم کیوں تھا اور پچیس مارچ کو ہونے والی فوجی بغاوت کی مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے متفقہ طور پر حمایت کیوں کی۔ یہ وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ امریکہ اور اس کے نائب، برطانیہ نے فوجی حکومت سے وفاداری کیوں نبھائی حالانکہ اس نے بنگال میں ’’استحکام ‘‘ کو دائو پر لگا دیا۔
امریکہ نے پاکستانی آمریت کو ’’اعتدال ‘‘ کا راستہ اپنانے کی تاکید کی مگر اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کا کام بھی جاری رکھا۔ کچھ ایسے ناقد تھے جو پاکستانی فوج کی تنگ نظر قوم پرست انا پرستی کے ہاتھوں امریکہ کے عالمگیر مفادات کو لاحق خطرات کی بات کر رہے تھے۔وہ اس بات پر بھی پشیمان تھے کہ مشرقی پاکستان میں شکست کا اثر پاکستانی فوج کے کمانڈ سٹرکچر کو بھی متاثر کر سکتا ہے جو ابھی تک بہت ٹھوس بنیادوں پر قائم چلا آ رہا تھا۔
برطانوی روایات کی پاسداری میں سینئر افسران نے اب تک فوجی نظام و مراتب کا خیال رکھا تھا۔ 1958 ء اور1968 ء میں جب ایوب اور یحییٰ نے بالترتیب اقتدار پر قبضہ کیا تو وہ فوج کے سالارِ اعلیٰ تھے اور دونوں نے ایک طرح سے سرکاری حیثیت میں اپنا کام کیا۔ خلیجِ وسطیٰ یا لاطینی امریکہ کی طرح اگر ترقی پسند جرنیلوں یا کرنیلوں نے بغاوت کی ہوتی تو یہ سنجیدہ روایت شکنی ہوتی۔ایک ایسی ہی صورتحال پر اس وقت قابو پا لیا گیا جودسمبر1971ء میں ہونے والی شکستِ فاش کے بعد سامنے آ سکتی تھی جب ملک کے حالات انتہائی دگرگوں تھے جبکہ چھوٹے افسر اپنی اعلیٰ قیادت کی نا اہلی کے باعث بے چین ۔
مشرقی پاکستان میں جنگ نے پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا جو 1968 ء سے ویسے بھی مندی کا شکار تھی۔زرِ مبادلہ کے ذخائر بالکل کم ہو کر رہ گئے جبکہ قیمتوں اور بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔پٹ سن کی برآمد قدرتی بات ہے کہ کم ہو گئی جس کا اثر کراچی کے اسٹاک ایکسچینج پر پڑا۔ یہ گمبھیر ااقتصادی بحران یقیناََ بنگال میں فو ج کشی کے باعث پیدا ہوا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس فوجی مہم پر روزانہ دو ملین ڈالر (آج کے لحاظ سے چالیس ملین ڈالر)صرف ہو رہے تھے جو اس حقیقت کے پیشِ نظر زبردست بوجھ تھا کہ مغربی پاکستان کا دائمی درآمدی خسارہ 140 ملین ڈالر (آج یہ رقم 2.8 ارب ڈالر کے برابر ہو گی)ماہانہ چلا آ رہا تھا۔ اسلام آباد کی غیرقانونی حکومت لہٰذا اندرونی طور پر اس تنگی کا شکار تھی جس کا علاج اس نے قتلِ عام کی مہم شروع کرنے سے پہلے نہیں سوچا تھا۔اس نے یکطرفہ طور پر غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی روک دی اور مکمل دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے اسے مزید امریکی امداد کا سہارا لینا پڑا۔
دیگر محاذوں پر مزید خطرات منڈلا رہے تھے۔ اندرا گاندھی کی قیادت میں قائم بھارتی حکومت کو جلد ہی سمجھ آ گئی کہ مشرقی پاکستان میں اگر جدوجہد زیادہ عرصہ جاری رہی تو بھارتی صوبے مغربی بنگال پر اس کے سنجیدہ انداز میں منفی اثرات مرتب ہو ںگے۔مغربی بنگال گذشتہ تین سال سے زبردست سماجی بحران کا شکار تھا۔کسان بغاوتوں اور عمومی سماجی بے چینی نے اس صوبے کو بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا تھا۔ بھارتی حکمران طبقہ گو اپنے پاکستانی ہم منصب کی نسبت کہیں طاقتور تھا، بہرحال بخوبی جانتا تھا کہ وبا پھیل سکتی ہے لہٰذا پشیمان تھا۔ اس تحریر کا مطالعہ کرنے والے بہت سے لوگ شائد حیران ہوں کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ کبھی واقعی ’’سرخ انقلاب‘‘ کے خطرے سے دوچار تھے مگر ایسا ہی تھا۔ کمیونسٹ پارٹی (مارکس وادی) اور اس کے بائیں جانب موجود مائو نواز گروہ یکے بعد دیگرے آنے والی بھارتی حکومتوں کے لئے مسلسل دردِ سر بنے ہوئے تھے۔
یہ وجہ تھی کہ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں ہونے والے واقعات پر مقبولِ عام ردِ عمل ظاہر کیا۔ نئی دہلی میں موجود حزبِ اختلاف کی ہر جماعت حکومت پر زور دے رہی تھی کہ وہ بھر پور طریقے سے مداخلت کرے۔ اندرا گاندھی کی حکمتِ عملی البتہ یہ تھی کہ عوامی لیگ کو پروان چڑھایا جائے جبکہ سرحد پار کر کے آنے والے گوریلوں کو غیر مسلح کیا جائے اور بھارت میں قائم نام نہاد ’’تربیتی کیمپوں ‘‘ پر سخت سیاسی کنٹرول قائم کیا جائے۔ گو بھارت کی فوجی طاقت کئی گنازیادہ تھی لیکن ابتداََ بھارت مشرقی پاکستان میں مداخلت کے امکان پر خائف تھا۔ اس سے امریکہ اور چین نااراض ہو سکتے تھے اور یوں پورا خطہ ایسی گڑ بڑکا شکار ہو سکتا تھا جو نئی دہلی کو خطرہ تھا کہ اس کے قابو سے باہر ہو سکتی تھی۔ اگر عوامی لیگ ایسی کوئی کامیابی حاصل کر بھی لیتی جسے اندرا گاندھی ’’سیکولر، جمہوری ریاست‘‘ کہہ رہی تھیںتو بھی مقامی اشرافیہ کی کمزوری اور ترقی یافتہ ریاستی ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باعث ایسے مسائل جنم لیتے کہ کسی برق رفتار انقلابی حل کے بغیر بات نہ بن پاتی۔
ان دنوں (آج کی طرح) مغربی بنگال کے اندر موثر ترین سیاسی قوت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) تھی جس کے کارکنوں کی تعداد ہزاروں اور حمایتیوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اس پارٹی کے سنٹر اسٹ رجحانات اس وقت بھی نمایاں تھے اور اس کا اظہار یہ تھا کہ اس نے مخلوط حکومت تشکیل دی البتہ جب گورنر راج نافذ ہونے کے بعد مرکز نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے تو اس نے انقلابی بیان بازی کا سہارا لیا۔ اس کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ یحییٰ خان اور اندرا گاندھی ایک جیسی رجعتی سماجی و سیاسی پرتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو کسی حد تک زیادتی تھی۔ان کی دلیل تھی جس طرح مشرقی پاکستان بالخصوص مغربی پاکستان کے استحصال کا شکار ہے، اسی طرح ’’مغربی بنگال بالخصوص بھارتی دارلحکومت کے استحصال کا شکار ہے‘‘ اس کا منطقی نتیجہ تو یہی نکلتاتھا کہ متحدہ سوشلسٹ بنگال کے لئے حکمتِ عملی ترتیب دی جاتی مگر ان خطوط پر سوچنے کا مطلب تھا کہ ماضی سے دامن چھڑایا جائے اور سی پی آئی ایم ایسا کرنے سے قاصر رہی۔شائد یہ کوئی یوٹوپیائی خیال تھا یا میری کوئی انقلابی حس جس نے بعدازاں مجھے مجبور کیا کہ میں سی پی آئی ایم سے ماورا متحدہ سوشلسٹ جمہوریہ بنگال کا مطالبہ پیش کروں۔ مجھے ’’بائیں بازو کا انتہا پسند مہم جو ‘‘ کہا گیا ۔ اب جو مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ الزام شائد کسی حد تک درست بھی تھا۔ اس وقت یہ مطالبہ فوجی آمریت، سمجھوتے باز سیاستدانوں اور رذیل سیٹھوں کا بہترین توڑ دکھائی دیتا تھا۔
یہ ایک ’’بائیں بازو کا انتہاپسندانہ مہم جو ‘‘ تھاکہ 1971 ء کی ایک تاریک رات میں ہندو بنئے کے بھیس میں کلکتہ پہنچا۔ میرا مقصد محاذِ جنگ سے آئے ایک پیامبر سے ملاقات اور اس کے ہمراہ سرحد پار جا کر بنگالی مزاحمت سے براہِ راست رابطہ کرنا تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی اور آخری بار اپنی مونچھیں صاف کرڈالیں اور میں خود بھی اپنے آپ کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔ میں ایک جعلی برطانوی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا جو ایک زمانے میں لندن کے ایسٹ اینڈ میں واقع برِک لین کے رہائشی، ایک بنگالی تاجرمطیب ٹھاکر کا تھا۔ معلوم نہیں وہ کون تھا مگر اس نے بنگالی جدوجہد کی مدد کرنے کے لئے وہ پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا تھا۔میں ہنوز پاکستانی شہر ی تھا اور جانتا تھا کہ ان دنوں ، اور آجکل بھی، پاکستانی پاسپورٹ اکثر ممالک بالخصوص بھارت میں داخلہ التوا میں ڈال سکتا ہے۔کسی نامعلوم وجہ سے فرانسیسی کامریڈ سوفی نے پیرس میں میرے بال اور بھنویں سرخ رنگ میں رنگ دی تھیں اور جب میں آئینہ دیکھتا تو ہالی ووڈ کے کسی سیرئیل کلر ایسا دکھائی دیتا۔ میرے پاس ایک پستول تھا جو آئی آر اے نے اس سفر کے لئے بلاواسطہ تحفے میں دیا تھا ۔ میں نے یہ پستول اور کچھ بارود اپنے سوٹ کیس میںڈال لیا۔
بمبئی کے ہوائی اڈے پر امیگریشن افسر نے روایتی سوالات پوچھے:’’ آپ کے والد کا نام؟‘‘۔ میں نے کلکتہ میں ٹھاکر کے گھر کا پتہ تو یاد کر رکھا تھا مگر احمقانہ طور پر اس سوال کے جواب پر غور نہیں کیا تھا۔ میں گھبرا گیا۔ میرے منہ سے نکلا’’محمد‘‘۔ امیگریشن افسر کو دھچکا سا لگا مگر اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا ،ایک بزرگ ،بھاری بھر کم ، پارسی خاتون جو عین میرے پیچھے کھڑی تھیں، اس بات سے بہت متاثر ہوئیں کہ ایک ہندو لڑکے کے باپ کا اسلامی نام تھا لہٰذا انہوں نے ’’ہائو سویٹ ‘‘ کہا تو صورتحال سنبھل گئی کہ سب لوگ مسکرانے لگے ، میرے کاغذات پر مہر لگا دی گئی اور کسٹم نے میرے سوٹ کیس کی تلاشی لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔میں اس مصمم ارادے کے ساتھ آیا تھا کہ سرحد پار جا کر عبدامتین اور ٹیپو بسواس کے گوریلا گروہ سے رابطہ پیدا کروں گا جو بنگالی بائیں بازو کا سب ے زیادہ تائیدی ،گویراوادی دھڑا تھا۔ ان کے ایک ہمدرد نے چے گویرا کی ’’گوریلا وارفئیر‘‘ کا بنگالی ترجمہ بھی کیا تھاجسے اب مکتی باہنی کے سپاہی بھی پڑھ رہے تھے جو سرکاری طور پر لبریشن آرمی تھی جس میں سابق بنگالی سپاہی اور پاکستانی فوج کے سابق بنگالی افسر بھی شامل تھے۔ متین اور بسواس کے جنگجو پبنہ کے علاقے میں سر گرم تھے جو گنگا اور برہم پترا کے درمیان بنگال کے قلب میں واقع تھا۔ اس کے علاوہ وہ صوبے کے شمال مشرقی ضلعوں،سلہٹ اور میمن سنگھ میں بھی متحرک تھے۔میمن سنگھ میں 1945-47 کے دوران تیباگا نامی بڑی کسان بغاوت دیکھنے میں آئی تھی جب کسان مالیئے میں کمی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ برصغیر میں یہ دیہی غریبوں کی سب سے جنگجو سماجی بغاوت تھی۔یہ روایت ہنوز موجود تھی۔ بنگالی گوریلوں کا بھیجا ہوا پیامبر مجھے کلکتہ میں ملا۔ اس کی عمر اٹھارہ سال سے زائد نہ ہو گی مگر اس کا اعتماد اور منصب اس کی کم عمری کے بر عکس تھا۔ اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ مزاحمت پھیل رہی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بلوغت آ رہی ہے اور مزاحمت کاروں نے چٹاگانگ اور کھلنا کے ساحلی شہروں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں بین الاضلاعی تجارت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ’’جلد ہی ہم سانتا کلارہ پر قبضہ کرنے والے ہیں ،پھر ہوانا کی باری ہے‘‘، اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اپنی شناخت کے اظہار کا اس نے اگر کوئی عندیہ دیاتو یہی تھا۔ ان دنوں مزاحمت میں مشغول گروہوں کے تنوع کے پیشِ نظر بہتر تھا کہ سیاسی الحاق بارے زیادہ پوچھ گچھ نہ کی جائے بالخصوص اگر کوئی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والا پنجابی تھا اسے اس سے باز ہی رہنا چاہئے تھا۔ اسے ہدایت ملی تھی کہ مجھے سرحد پارپہنچا دے جہاں سے دیگر لوگ مجھے آگے لے جانے کے ذمہ دار تھے۔ اس کا اصرار تھا کہ ہم کوئی اسلحہ ساتھ لیکر مت جائیں کہ بھارتی بارڈر پولیس تلاشی لے سکتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنا پستو ل پیچھے چھوڑ دیا۔ سرحد کی جانب جاتے ہوئے ہمیں سڑک پر جا بجا رکاوٹوں اوربھارتی فوج کے دستوں اور ٹینکوں کی نقل و حرکت بارے سائن بورڈز نظر آئے ۔ سرحد بند کی جا رہی تھی۔ ہمیں سیاسی کارکنوں کی طرف سے تنبیہہ ملی کہ اس جانب سے سرحد پار جانا نا ممکن ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مشن ختم کر دیا جائے۔ پیامبر اس موقع پر پُرسکون ہی رہا۔اس نے مجھے واپس کلکتہ کے ایک محفوظ مقام پر پہنچایا اور خود لوٹ گیا۔ مجھے اس کا صحیح نام معلوم نہیں ہو سکا۔ چند سال بعد ایک بنگالی دوست نے بتایا کہ اس کا انتقال ہو چکا ہے۔ کلکتہ کے وسط میں شکستہ مگر ماحول کے اعتبار سے انگریز دور کی یادگار، گریٹ ایسٹرن میں ایک روز ناشتے کی میز پر میں دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا کہ ٹائمز کے انگریز نامہ نگار پیٹر ہیزل ہرسٹ نے قریب آ کر مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے اوپر دیکھا، یوں ظاہر کیا کہ میں اسے نہیں جانتا اور دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔اس نے اصرار کیا کہ وہ میری آواز پہچان چکا ہے ، مجھے کامیابی سے بھیس بدلنے پر مبارک باد دی اور دھمکی لگائی کہ وہ میری موجودگی کا بھانڈا پھوڑ دے گا اگر میں نے اسے اس بابت خصوصی انٹرویو نہ دیا کہ میں وہاں کیا کر رہا ہوں۔ میں جال میں پھنس چکا تھا لہٰذا میں انٹرویو پر راضی ہو گیا۔ بعد ازاں اس نے مجھے بچ نکلنے کے لئے چوبیس گھنٹے دیئے اور پیچھا کرنے والوںسے نجات کے لئے اس نے لکھا کہ میں نے بہت بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہے اور دلی کی طرف جا رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں سیدھا ہوائی اڈے پہنچا اور لندن کے لئے روانہ ہونے والی پہلی پرواز پر سوار ہو گیا۔ اپنے انٹرویو میں میں نے ایک متحدہ سرخ بنگال کی خواہش کا اظہار کیا جو پورے خطے کے لئے روشنی کا مینار ہو ،جو ایسی چنگاری ہو جو سارے جنگل میں آگ لگا دے۔ ا ن دنوں الفاظ سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ہیزل ہرسٹ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ سرخ بنگال اسلام آباد سے بھی زیادہ دلی کے لئے پریشانی کا باعث بنے گا ۔ ہیزل ہرسٹ نے میری بات بالکل درست رپورٹ کی جو اس زمانے میں منفرد بات تھی۔ان آوارہ سوچوں نے گویا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا۔ مائو نواز گروہوں نے تو بالخصوص اس بات کو ’’پیٹی بورژوا قوم پرست ترمیم‘‘ قرار دیا۔ متحدہ سرخ بنگال کے امکان کوواشنگٹن بھی پشیمانی سے دیکھ رہا تھاجس کاخیال تھا کہ سرخ بنگال جنوبی ایشیاء کی ویتنامائزیشن کا باعث بن سکتا ہے۔ اس بات کا ثبوت وہ حیران کن اداریہ ہے، جسے دیکھ کر مجھے تو بہر حال خاصی خوشی ہوئی، جو نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا۔1
’’برصغیرپاک و ہند میں افراتفری بارے مسٹر علی کے ترقی پسندانہ وژن کو آسانی سے جھٹلانا ممکن نہیں۔۔۔۔مشرقی پاکستان میں طویل گوریلا جدوجہد کا اثر پڑوسی بھارتی ریاست مغربی بنگال پر پڑے گا جو پہلے ہی پاکستانی فوج کی دہشت گرد مہم سے پناہ حاصل کرنیوالے تیس لاکھ سے زائد مہاجروں کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے مضمحل ہے۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی پر زبردست دبائو ہے کہ وہ بھارت کے اندرونی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نپٹنے کے لئے مداخلت کریں۔ یقیناََ یہ بات کسی کے بھی مفاد میں نہیں کہ بنگالی ’’شعلہ ‘‘ایک ایسے عالمی تنازعے کو جنم دیدے جو تیزی سے بڑی طاقتوں کو ملوث کر لے۔نہ ہی یہ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ مشرقی پاکستان کی صورتحال کا مداوا نہ کیا جائے مبادا سارا برصغیر سیاسی انتشار کا شکار ہو جائے۔ طارق علی اور ان جیسوں کو ’’سنہری موقع‘‘ سے فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے تو صدر یحییٰ خان کو چاہئے کہ وہ جلد از جلداعتدال پسند شیخ مجیب اورعوامی لیگ کے ساتھ معاملہ طے کریں جس نے پچھلے سال دسمبر میں قومی و صوبائی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے ہیں۔ پاکستان کے لئے امریکی امداد،ماسوائے ریلیف کے، مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کے ساتھ ایسے کسی سمجھوتے سے مشروط ہونی چاہئے‘‘۔
یحییٰ خان اس کھیل سے اب باہر ہو چکے تھے۔ یہ بھارت کی وزیر اعظم مسز گاندھی تھیں جنہوں نے ہمیں ہمارے ’’سنہری موقع‘‘ سے محروم کیا۔ نئی دہلی پر واضح ہو چکا تھا کہ پاکستانی فوج صوبے پر زیادہ عرصہ تک قابو نہیں رکھ سکے گی اور اگر گوریلا جنگ جاری رہی تو عوامی لیگ کی قیادت زیادہ ترقی پسند عناصر کے ہاتھوں پٹ سکتی ہے لہٰذا 3 دسمبر 1971 ء کو بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کی سرحد پار کی، بھارتی دستوںکو نجات دہندہ کے طور پر خوش آمدید کہا گیا ، مقامی لوگوں نے بھارتی فوج کی ہر طرح سے مدد کی اور اس نے ڈھاکہ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ دو ہفتے کے اندر اندر بھارتی فوج نے ’’ٹائیگر‘‘ نیازی کو مجبور کر دیا کہ وہ اور انکی فوج ہتھیار ڈال دے۔ پاکستان اپنی نصف بحریہ، ایک چوتھائی فضائیہ اور لگ بھگ ایک تہائی بری فوج کھو بیٹھا۔مکمل شکست ہوئی تھی۔ چند ہفتے بعد شیخ مجیب کو ایک پاکستانی قید خانے سے رہا کر دیا گیا اور براستہ لندن ،ڈھاکہ روانہ کر دیا گیا۔ واشنگٹن کو خطرہ تھا کہ شیخ مجیب کی عدم موجودگی گڑ بڑ کو جنم دے سکتی ہے لہٰذا اس نے پاکستان پر شیخ مجیب کی جلد رہائی کے لئے دبائو ڈالا۔ شکست خوردہ قیادت کے پاس سوائے حکم کی بجا آوری کے کوئی اور رستہ نہ تھا۔ مشرقی پاکستان اب سات کروڑ افراد کا ملک بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ چند ہفتے بعد بھارتی فوج ملک سے نکل گئی اور نئے ڈھانچے کی تشکیل کا کام نئی ریاست پرڈال گئی۔
نومبر 1970 ء میں،پاکستانی فوج کے حملے سے ایک سال قبل، جس سمندری طوفان نے مشرقی پاکستان کو نشانہ بنایا اس میں لگ بھگ پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ فطرت جنگ کی نسبت مہربان ثابت ہوئی۔ شیخ مجیب کا اصرار تھا کہ تیس لاکھ افراد جنگ میں کام آئے۔ پاکستانی فوج نے ان اعداد و شمار پر شک کا اظہار کیا مگر خود سے بھی کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کئے۔ محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ بزر جمہر نے ،غالباً امریکی انٹیلی جنس کی معلومات کا سہارا لیتے ہوئے لکھا’’مارچ تا دسمبر (1971) دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ چالیس لاکھ خاندان ۔۔۔۔دو کروڑ افراد۔۔۔۔بظاہر بے گھر ہوئے جن میں سے نصف نے بھارت میں پناہ لی۔ دس لاکھ سے لیکر بیس لاکھ تک گھر جلائے گئے‘‘۔1
یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں جن کے سامنے تقسیم ہند کے دوران یا بنگال میں پڑنے والے 1943ء کے عظیم قحط کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی کم پڑ جاتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں جنرل اے۔ او۔ مٹھا نے امریکی فوج کی مدد سے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) تشکیل دیا تھا۔ اس کا مقصد تھا دشمن(بھارت) کی صفوں کے عقب میں خصوصی مشن سر انجام دینا۔ اس کے کمانڈو مارچ 1971ء سے کہیں پہلے مشرقی پاکستان بھیج دئے گئے تھے۔ اپنی خود نوشت میں جنرل مٹھا بتاتے ہیں کہ ایک نوجوان افسر کے طور پر جب وہ کلکتہ میں تعینات تھے تو انہوں نے قحط کے مارے لوگوں کو کس برے حال میں دیکھا۔یہی جرنیل جب جنگی مشین کا حصہ بنا تو اس نے خون کی ہولی کھیلنے کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈال دی اور جرنیلوں کو بری الذمہ قرار دیدیا۔
ادھر اسلام آباد میں جنرل حمید جن کے ذمے جنگ لڑناتھا،نے تمام افسروں کو جی ایچ کیو میں جمع کیا اور اپنی اعلیٰ قیادت کی جانب سے ان سے خطاب کیاجس میں ہتھیار ڈالنے اورآدھا ملک کھو دینے کی بابت وضاحت کی گئی۔تیس سال بعد، جنرل مٹھا، جن کے خیال میںیہ اجلاس بلانا ایک غلطی تھی مگر انہیں اس میں شریک ہونا پڑا، بتاتے ہیں کہ جب جنرل حمید نے سوالات کرنے کی دعوت دی تو کیا منظر تھا:
’’ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ میجر، کرنل اور بریگیڈئیر حضرات نے جنرل حمید پر چیخنا چلانا شروع کر دیا اور جنرل یحییٰ سمیت ان دونوں کو گالیاں دیں۔ان کی چیخ و پکار کا لبِ لباب یہ تھا کہ شکست کی وجہ تمام اعلیٰ افسروں کا زیادہ سے زیادہ زمین اور پلاٹ الاٹ کرانے کے چکر میں پڑے رہنا تھا۔ ۔۔۔۔حمید نے ان لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی جنرل حمید کی بات سننے پر تیار نہ تھا لہٰذا وہ اجلاس سے واک آئوٹ کر گئے‘‘۔1
جنرل گل حسن بھی اس اجلاس میں موجود تھے،انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا’’مجھے کسی حد تک یاد ہے کہ ایک مطالبہ جو مسلسل کیا جا رہا تھاوہ تھا تمام افسر میسوں میں شراب پر پابندی‘‘۔ انہیں یقین تھا کہ فوج میں موجود سازشیوں کا ایک گروہ ایس ایس جی کو استعمال کرتے ہوئے بھٹو کی نیویارک سے ، جہاں وہ سلامتی کونسل سے خطاب کے لئے گئے تھے، اسلام آباد واپسی پر گرفتاری یا قتل کا منصوبہ بنا رہا تھا ۔ گل حسن کے مطابق:
’’مجھے نہیں معلوم راولپنڈی میں ایس ایس جی سے کیا کام لینے کی تیاری کی جا رہی تھی مگر ایک بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کام ایس ایس جی کا نہ تھا کہ وہ بھٹو کو ہوائی اڈے پر سلامی پیش کرے۔ اگر یہ ڈرامہ کامیاب ہو جاتا تو یہ ڈھاکہ میں ہمارے فوجی اقدام کی نقالی ہوتا۔ مجھے نہیں معلوم کی صدر یحییٰ خان اس کھیل کا حصہ تھے یا نہیں۔ جنرل مٹھا ، اپنے قوی الاثر اختیارات کے باعث اس قسم کے منصوبے کو حرکت میں لانے کے حوالے سے اولین انتخاب ہو سکتے تھے۔ ۔۔۔فوج کا ڈسپلن تباہ ہونے کے قریب تھا اور انارکی کی بدبو فضائوں کو مکدر کر رہی تھی۔۔۔۔ایس ایس جی کی ایک کمپنی کو ایک ایسے کردا رکے لئے تیار کرنا جو کسی بھی طورسامرانہ نہیں تھا، گویا ایک ایسی حرکت تھی کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو جاتا تو ملک کا خاتمہ ہو جاتا۔‘‘
جنرل مٹھا نے اپنی خود نوشت میں ایسے کسی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جنرل گل حسن بھٹو کی قرم ساقی کر رہے تھی اور ’’جھوٹ بول رہے تھے‘‘۔ ایک بات جس کی وہ دونوں تردید نہیں کر سکے یہ تھی کہ ان کے عیش پرست صدر یحییٰ خان نے ہمالیہ ایسی سیاسی و فوجی شکست کی کمان کی ہے۔ جب یحییٰ خان پرانی ریاست کے انہدام کی تکمیل کرچکے تو ان سے اقتدار سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا۔ان کا دورِ اقتدارتین سال سے بھی کم تھا۔ اس نقصان بارے اعلیٰ عسکری قیادت میں بحث آج بھی جاری ہے اور اس تنازعے بارے ایک انتہا پسندانہ موقف یہ ہے کہ یہ سب بھارت کا کیا دھرا تھا اور پاکستان اس کا بدلہ کشمیر میں لے گا بشرطیکہ اسے افغانستان کی صورت ’’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ میسر آ جائے۔اس قسم کے نیم حکیمانہ نظریات کی بنیاد پر لئے گئے اقدامات کا نتیجہ ایک نئے 1971 ء کی صورت میں نکل سکتا ہے اور یوں ریاست اگر تباہ نہ ہوئی تو اس میں مزید شگاف ضرور پڑ سکتا ہے۔
جو پاکستان بچا اس کا کیا بنا؟ عوامی لیگ کی واضح انتخابی برتری نے بھٹو کو حیران کر کے رکھ دیا تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کا جو منصوبہ بھٹو نے بنا رکھا تھا وہ چکنا چور ہو گیا۔ وہ مغربی پاکستان کے غلبے کے سب سے سخت گیر چیمپین بن کر سامنے آئے، چھ نکات کی مخالفت جنون کی حد تک کی اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد پنجاب میں اپنے حامیوں کو جنگ پر تیار کرنے کے لئے زبردست شائونسٹ ماحول پیدا کیا۔
ستر کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نئی آئین ساز اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی لیکن چھوٹی سیاسی جماعتیں سرحد اور بلوچستان میں اچھی خاصی اکثریت لیکر منتخب ہوئیں تھیں اور بھٹو کو معلوم تھا کہ انکی حیثیت کسی بھی مخلوط حکومت میں زیادہ سے زیادہ کسی جونئیر پارٹنر کی ہو گی۔ اگر عوامی لیگ اکیلے حکومت بنانے کا فیصلہ کرتی تو بھٹو کی حیثیت محض مغربی پاکستان کے رہنما کی رہ جاتی۔ بھٹو نے پنجاب اورسندھ میں ایک ایسے ترقی پسند منشور کے ذریعے انتخاب جیتاتھا جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ زرعی اصلاحات کی جائیں گی، صنعتوں کو قومی ملکیت میں لیا جائے گا، سب کو روٹی کپڑا اور مکان ملے گا، سب کو مفت تعلیم ملے گی اور بائیس خاندانوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا جائے گا جو منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق ملک کے ستر فیصد صنعتی سرمائے، اسی فیصد بینکنگ، اور نوے فیصد انشورنس سرمائے کے مالک تھے۔ ان وعدوں کی پاسداری نا ممکن تھی۔ بائیں بازو کے مکمل طور پر گہنا جانے سے بھٹو وقتی طور پر سوشلسٹ کے بھیس میں سامنے آئے۔ڈاکٹر مبشر (پہلی پی پی پی حکومت میں وزیرِ خزانہ)،معراج محمد خان ، مختار رانا ایسے جہاندیدہ اور قابل لوگ جو اس دور میں بھٹو کے قریب تھے ، بعد ازاں بتاتے ہیں کہ ترقی پسند بیان بازی کی حقیقت ایک نقاب سے زیادہ نہ تھی جس کا مقصد اقتدار کا حصول اور اس کا تسلسل تھا۔ اس بیان بازی میں کبھی بھی سنجیدگی کا عنصر شامل نہیں تھا۔ بھٹو شروع شروع میں مغربی میڈیا میں ایشیاء کا فیدل کاسترو قرار دیئے جانے پر اکثر قہقہے لگاتے۔ایسے موازنے سے ان کی انا کو یقیناََ تسکین ملتی ہو گی مگر ان کا انقلاب کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ ان کے ذہن میں سنگاپور کی طرز پر لی کوان یئو والی سوشل ڈیموکریسی تھی۔ سنگاپور ایسی شہری ریاست مگر نئے،سکڑے ہوئے پاکستان کے لئے بھی کوئی ماڈل نہ تھی۔ بھٹو کی جماعت میںسب شامل تھے: جاگیردار، ٹھگ باز، وکیل، ایسے پیٹی بورژوا جو ادھر چل پڑتے ہیں جدھر کی ہوا ہو، اور وہ بے لوث طلباء جنہوں نے آمریت کا تختہ الٹا تھا۔ بھٹو کی انتخابی کامیابی کی ایک بڑی وجہ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کے ساتھ سمجھوتے تھے(سندھ میں ممتاز سندھی جاگیرداروں کے ساتھ، وہ خود بھی انہی میں سے ایک تھے، بھٹو کی سودے بازی خاصی شرمناک تھی)۔ ہاں البتہ پیپلز پارٹی اس حقیقی عوامی خواہش کی بھی عکاس تھی جو سماجی تبدیلی کے لئے شہر شہر گائوں گائوں موجود تھی اور اس خواہش کو پیپلز پارٹی نے تسخیر بھی کیا اور قرق بھی۔ بھٹو نے اپنی جماعت کو تبدیلی کا واحد ممکنہ ذریعہ بنا دیا اور پنجاب میں جاگیردار سیاست کی کمر توڑ دی۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ مزارعوں نے اپنے مالکوں کی مخالفت مول لیکر بھٹو کو ووٹ دیا۔
لاہور کے چائے خانوں میںمذاق سے کہا جاتا کہ ’’بھٹو کے ٹکٹ پر پاگل کتا بھی جیت جاتا‘‘ ۔ احمد رضا قصوری کے انتخاب سے یہ ثابت بھی ہو گیا ۔ یہ شخص بھٹو کے ابتدائی اورکج رو حامیوں میں سے تھا جو بعد میں وفاداری بدل گیا اور اپنے سابق رہنما پر قتل کا الزام لگا دیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ1969 ء میں بھٹو ایک شادی میں شرکت کے لئے لاہور آئے۔شادی میں ان کی آمد سے قبل کسی اردلی کی طرح احمد رضا قصوری کمرے میں داخل ہوئے اور اعلان کرنے لگے’’ براہ مہربانی کھڑے ہو جائیں، چیئرمین بھٹو پہنچنے والے ہیں‘‘۔ ا س حرکت پر وہاں خوب ہنسی پڑی اور خوب مغلظات بکے گئے۔
ان پہلے چند مہینوں میں جوش و خروش اس قدر زیادہ تھا اور سماجی تبدیلی کی خواہش اس قدر شدید تھی کہ بہت کچھ ممکن تھا۔ یہ کہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین کوئی صاحبِِ کشف نہیں تھے، اس کا اندازہ مشرقی پاکستان کی جانب ان کے رویئے سے ہوتا ہے۔ بھٹو کے انتخابی حلقے میں موجود سنجیدہ طبقاتی تنائو اور پارٹی تنظیم کے خالی پن کا مطلب تھا کہ اگر اسے کوئی متحد رکھ سکتا تھا تو قومی شاونزم کا سیمنٹ تھاجو اس پارٹی کے رہنما کے قائد کی زبان اور انداز سے جھلکتا تھا۔
جنگ ہار دینے والے جرنیل اور ان کے ماتحت افسر اس وقت سیخ پا ہوتے جب ہر نوع کے نقاد انہیں ’’شرابی جرنیل اور خون کے پیاسے کرنیل ‘ ‘کہہ کر پکارتے۔ وہ اکیلے ہی رنجیدہ نہیں تھے۔مغربی پاکستان کے وہ بیوروکریٹ، ریاستی ٹی وی کے کرتا دھرتا اور بعض دیگر لوگ جو قومی شاونزم کی ہائو ہو میں مصروف رہے تھے، وہ سب اب رنجیدگی کا شکار تھے۔ ٹھنڈے دماغ کے ساتھ واقعات کا جائزہ لینے کی بجائے وہ خواب و خیال کی دنیا میں پناہ گیر ہو گئے۔ گاہے گاہے وہ بے مہر ماحول سے نجات کے لئے فیض کی شاعری میں پناہ ڈھونڈتے ہاں البتہ وہ یہ احتیاط برتتے اور فیض کی ان تین دکھ بھری نظموں سے اجتناب کرتے جو فیض نے مشرقی پاکستان کے المئیے پر لکھیں ،ایک ایسی قوم کو آواز دینے کے لئے جس کی زبان کھو گئی تھی۔ ان تین میں سے دوسری نظم سچ اور درگزر کے لئے تلخ وشیریں التجا تھی:
تہ بہ تہ دل کی کدورت
میری آنکھوں میں امنڈ آئی توکچھ چارہ نہ تھا
چارہ گر کی مان لی
اور میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
اور اب ہر شکل و صورت
عالمِ موجود کی ہر ایک شے
میری آنکھوں کے لہو سے اس طرح ہم رنگ ہے
خورشید کا کندن لہو
مہتاب کی چاندی لہو
صبحوں کا ہنسنا بھی لہو
راتوں کا رونا بھی لہو
ہر شجر مینارِ خوں، ہر پھول خونیں دیدہ ہے
ہر نظر اک تارِ خوں، ہر عکس خوں مالیدہ ہے
موجِ خوں جب تک رواں رہتی ہے اس کا سرخ رنگ
جذبہ ء شوقِ شہادت ،درد،غیظ و غم کا رنگ
اور تھم جائے تو کجلا کر
فقط نفرت کا، شب کا،موت کا،
ہر اک رنگ کے ماتم کا رنگ
چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک
آبِ وضو
جن میں دُھل جائیں تو شائد دھل سکے
میری آنکھوں ،میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
فوج کو جب اندازہ ہوا کہ اس نے اپنا کتنا بڑا نقصان کر لیا ہے توزخم خوردہ فوجی قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو نامی نجیب سیاستدان سے رابطہ کیا تاکہ بچے کھچے ملک کے معاملات کو چلایا جا سکے اور وہ انہیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔اس موقع پر فوج کی ’’ نسبی آزدی‘‘ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ یہ کہ وہ کبھی پھر اقتدار کا رخ کریں گے، نا ممکن دکھائی دیتاتھا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تاریخ کسی سیاسی رہنما کو یہ موقع فراہم کرے کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے، اپنے ملک کے آنے والے کل پر کوئی نقش ،کوئی بصیرت ثبت کر دے۔ تاریخ نے بھٹو کو یہ موقع فراہم کیا۔ کیا بھٹو ایسا کریں گے؟
…٭…