فیلڈ مارشل
اکتوبر 1958ء میں عظیم قائد کی وفات کے دس سال بعد ، ان کے بنائے ہوئے سیاسی نظام کو پہلا جھٹکا لگا۔واشنگٹن کی پشت پناہی سے پاکستانی فوج نے جمہوریت پر شب خون مارا اورر مارشل لاء لگا دیا۔ چند ماہ بعد ایک مشاعرہ ہوا جس میں اکثر شعراء نے محبت بھری نظمیں سنانے پر اکتفا کیا۔ استاد دامن کی باری آئی تو انہوں نے پرندوں کے چہچہانے پر نظم سنانی شروع کر دی۔مجمع میں سے لوگوں نے آوازیں لگائیں’’خدارا! کچھ کہئے‘‘۔اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ فی البدیہہ نظم کی صورت نکلا:
پاکستان اچ موجاں ای موجاں
جدھر ویکھو فوجاں ای فوجاں
وسیع مجمع نے تحسین کے ڈونگرے برسائے مگر استاد دامن کو چند گھنٹوں بعد پولیس نے گرفتار کر لیا اور وہ ہفتہ بھر حوالات میںرہے۔ پاکستان بدل چکا تھا۔
یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ ملک قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا کہ عظیم قائد کی موت ہو گئی۔ انہوں نے جانشین کے طور پر اپنے پیچھے زمیندار اشرافیہ۔۔۔۔بعض صورتوں میں ان زمینداروں نے مذہب کا لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہوتا(پیر،مخدوم وغیرہ)۔۔۔۔کو چھوڑا جو کبھی کبھار یہ سوچنے بیٹھ جاتی کہ تیر تُکے سے کام کیسے چلانا ہے۔ نئے حکمرانوں کو جلد ہی دو تضادات کا سامنا تھا ،ایک تو خاصا سنجیدہ تھا۔
پہلا تضاد تو اس ملک کا جغرافیہ تھا۔ ایک تو یہ دو حصوں میں بٹا ہواتھا، مغربی اور مشرقی۔ دونوں کے درمیان ایک ہزار میل کے رقبے پر مشتمل بھارت تھا۔ ملک کے دونوں حصوں کے مابین مذہب کے سوا کچھ مشترک نہ تھا اور بعض اوقات تو مذہب بھی نہیں تھا۔اگر تو اسلام کی بنیاد پر قومیت وجود میں آ سکتی تھی (جیسا کہ مسلم لیگ کا اصرار تھا اور ابتدائی طور پر مذہبی جماعتیں اس سوچ کے خلاف تھیں) تو پھر اس کا سب سے بڑا امتحان یہی تھا۔ ملکی آبادی کا ساٹھ فیصد مشرقی پاکستان میں رہتا تھا ۔ ان لوگوں کی اپنی زبان تھی، اپنی روایات، ثقافت، بود و باش اور معیاری وقت تھا۔پاکستانی فوج اور نوکر شاہی کا بڑا حصہ یا تو تعلق ہی مغربی پاکستان سے رکھتا تھا یا اس حصے میں تعینات تھا۔ وجہ سیدھی سی تھی۔ پنجاب بالخصوص سکھوں سے انیسویں صدی میں ہونے والی جنگوں کے خاتمے کے بعد راج کا ’بازوئے شمشیر‘ تھا۔ مقامی سپاہ کا ایک بڑا حصہ معاشی لحاظ سے بر صغیر کے پس ماندہ ترین علاقوں سے آتا تھا کہ جاگیرداروں کے استحصال کا شکار غریب کسانوں کے لئے فوج کی نوکری ترقی کا ایک زینہ تھی۔ انگریزوں نے فوجی بھرتی کو باقاعدہ دیہی علاقوں تک محدود رکھا ہوا تھا۔ وہ شہری پیٹی بورژوا زی کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے، بسیار گو اور بے اعتبارے بنگالی اس پرت کی بہترین نمائندگی کرتے تھے لہٰذا انگریز انہیں فوج میں نہیں گھسنے دیتے تھے۔
1933 ء میں اسکاٹ لینڈ کے نشیبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بہادر جنگجو سر جارج میک منن (1869-1952) نے’ ’مارشل ریسز آف انڈیا‘‘ کے عنوان سے ایک نادر کتابچہ رقم کیا جس میں برٹش انڈین آرمی میں بھرتی کے طریقِ کار بارے جابجا سامراجی جواز پیش کئے گئے ہیں:
ایک تو وہ سر گرم پرانے دراوغے تھے جو سپاہی بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے بھارتی فوج میں افسر بن گئے یا بھارتی جاگیردار نوجوان تھے جنہیں ہم جانتے تھے جو فوج میں افسر بھرتی ہوئے۔ یونیورسٹیوں کے چالاک نوجوا ن اس نوکری کے اہل نہیں تھے۔۔۔۔ فوجی افسروں کو بہت پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ روشن خیال طبقے کے لوگ فوج میں افسر کے عہدوں پر نہیں پہنچیں گے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران اس قانون میں نرمی پیدا کی گئی جب مصلحت کا تقاضا تھا کہ پڑھے لکھے لوگوں پر فوج کے دروازے کھول دیئے گئے حتیٰ کہ بہت سے ناپسندیدہ عناصر (بشمول کمیونسٹ ۔ سویت روس پر ہٹلر کے حملے کے بعد)کو جلدی میں بھرتی کیا گیا تاکہ ہندوستان اور برطانیہ کی جنگی کوششوں کو تقویت پہنچائی جا سکے۔ بعد از جنگ جب فوج کو وحش و زوائد سے پاک کرنے کا عمل شروع ہوا تو اس پرت سے نجات حاصل کر لی گئی۔ کچھ رضاکارانہ طور پر فوج چھوڑ گئے۔ باقی بچے تو سرگرم دراوغے اور جاگیردار اشرافیہ۔
دوانِ جنگ برٹش انڈین آرمی بری طرح ہِل کر رہ گئی۔سنگاپور پر جاپانی قبضہ ہوا تو برطانیہ کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا۔قوم پرستی کی وبا سے بچائو کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی تھی ۔بہت سے افسر اور سپاہی ( ان میں سے بعض کا تعلق ’مارشل ریسز‘ سے تھا) جو جاپانی قید میں پہنچے وہ بھگوڑے ہو گئے ۔ انہوں نے انڈین نیشن آرمی تشکیل دی ۔ جس فوج کے ہاتھوں وہ قید ہوئے اسی کے شانہ بشانہ اس غلط قوم پرستانہ منطق کے ساتھ انگریز فوج کے خلاف لڑنے لگے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔جدیدسلطنتیں ہوں یا قدیم ، ان کے دوست نہیں ہوتے۔ ان کے صرف مفادات ہوتے ہیں۔ تقسیم کے دوران سامنے آنے والے سماجی تنازعے نے شمال سے تعلق رکھنے والے افسروں کی سوچ پر بھی اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے بہیمانہ قتلِ عام دیکھا مگر وہ اسے روکنے سے قاصر تھے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سامراجی حاکم کو خدشہ تھا کہ منقسم وفاداریوں کے نتیجے میں فوج تقسیم ہو سکتی ہے اور اگر فوج فرقہ وارانہ انداز میں تقسیم ہو گئی تو پھر خیر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قتل عام روکنے کے لئے فوجی مداخلت کی حو صلہ افزائی نہیں کی گئی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ فوج نے سرحد کے دونوں طرف مہاجروں کو تحفظ فراہم کر دیا۔
فوج کو بھی پھر مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا۔ دونوں فوجوں کی قیادت کے لئے دو علیحدہ علیحدہ عسکری ڈھانچے تشکیل دئے گئے اور ان دونوں کے اوپر عارضی طور پر ایک برطانوی جرنیل بٹھا دیا گیا۔ پاکستانی فوج نے نوآبادیاتی روایات میں تسلسل برقرار رکھنے کی خاطر پہلے تو جنرل سر فرینک میسروی اور ان کے بعد نوآبادیاتی عہد کا تجربہ رکھنے والے سر ڈگلس گریسی کو فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ مزید براں پانچ سو برطانوی افسر نئی پاکستانی فوج کو تقویت پہنچانے کے لئے یہیںرک گئے۔ اس کارن کچھ حلقوں میں ناراضی پیدا ہو گئی۔1950 ء میں قوم پرستانہ رجحانا ت رکھنے والے ہم خیال افسروں (بشمول ایک جرنیل ، اکبر خان ) اور مٹھی بھر کمیونسٹ دانشوروں نے مغرب نواز حکومت کا تختہ الٹ دینے کے منصوبے پر غور کیا۔ اس کچے پکے منصوبے کا انکشاف ہو گیا اور منصوبہ ساز (بشمول شاعر فیض احمد فیض، ادبی نقاد سبطِ حسن اور سجاد ظہیر) جیل بھیج دئے گئے جبکہ ننھی منی سی کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔
برطانوی فوج میں ہندو اور سکھ دستے تو تھے مگر ایسے دستے نہیں تھے جن میں صرف مسلمان ہوں ۔ اس فیصلے کی وجہ 1857ء میں ہونے والی برطانیہ مخالف سرکشی تھی جس کی ذمہ دار سامراجی حکومت کی نظر میں فقط مسلمان اشرافیہ تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سرکشی ہندوستان کے نئے فاتحین کے خلاف قوم پرستانہ بغاوت تھی جس میں ہر نوع کے ہندوستانی نے حصہ لیا۔
بھرتی کا یہ طریقِ کار تقسیم کے بعد بھی کافی عرصہ جاری رہا۔پاکستانی فوج میں کسی بنگالی کو کم ہی بھرتی کیا جاتا تھا۔ اس حکمت عملی میں تبدیلی ستر اور اسّی کی دہائی میں لائی گئی جب کسی حد تک اسلامائزیشن کا عمل کامیاب ہوا گو اس کامیابی کے سیاسی نتائج تباہ کن ثابت ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں جیسا کہ آئندہ ایک باب میں جائزہ لیا جائے گا۔
فوج کے پہلے پاکستانی سربراہ میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی تھیں جن کا ذکر میک منن نے کیا تھا۔ جنرل ایوب دراز قد ، مونچھ بردار اور مضبوط جثے کے مالک تھے۔ وہ آزمائے ہوئے لوگوں میں سے تھے۔ جنرل ایوب کے والد رسالدار میجر تھے ۔ایوب خان اپنے افسران کی نظر میں قابلِ بھروسہ اور فرمانبردار افسر تھے۔ انہوں نے اس اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ پہلے وہ برطانیہ کے وفادار رہے اور بعد ازاں فوجی سیاست میں وہ ہمیشہ امریکہ کے وفادار رہے۔ یہ محض قسمت تھی کہ وہ بغیر محنت کئے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ گئے:ہوا یوں کہ آزاد سوچ اور ذہین شخص کی شہرت رکھنے والے جنرل افتخار نے جنرل گریسی کی جگہ لینا تھی مگر وہ 1949 ء میں ایک فضائی حادثے کا شکار ہو گئے۔اگر یہ کہا جائے کہ نئی پاکستان فوج میں فقط جنرل ایوب ہی ایک ایسے مقامی افسر تھے جو برطانیہ نواز، تنگ نظر اور حکم کے غلام تھے تو غلط ہو گا۔ ان کے تربیت یافتہ ہم عصروں کی اکثریت ایسی ہی تھی۔ ان کے بھارتی ہم منصبوں بارے بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ بعد از آزادی ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے جرنیلوں کی تحریر کردہ لفاظی اور خود ستائشی سے پُر سوانح عمریوں کا مطالعہ طبیعت پر بھی گراں گزرتا ہے اور وقت کا بھی ضیاع ہی ثابت ہوتا ہے۔ ان کتابوں کے مطالعے سے البتہ یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ جرنیلوں کی نفسیات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک سنہری دور ماضی کا وہ عہد تھا جب لنچ کے ساتھ جِن لیٹ ( جن کاک ٹیل) یا شام ڈھلے گورے افسران کی رفاقت میں وہسکی میسر تھی۔ یہ کہ گوروں کے لئے مخصوص کلبوں کی رکنیت انہیں آزادی کے بعد ہی نصیب ہو سکی، ان جرنیلوں کے لئے زیادہ اہم نہیں۔وہ سماجی نسل پرستی کے عادی ہو چکے تھے۔ گوروں کی ماتحتی میں ان کے شانہ بشانہ لڑائیاں ان لوگوں کی زندگی کا وہ گراں قدر سرمایہ تھا جسے وہ باقی زندگی سنبھال کر رکھتے۔ ایوب خان ،مثلاََ،مقامیوں کے اس پہلے پہلے گروہ سے تعلق رکھتے تھے جسے اس وقت سینڈ ہرسٹ بھیجا گیا جب فوج کی ’انڈینائزیشن‘ ضروری ہو گئی۔ ایوب خان بعد ازاں عمر بھر فخر سے بتاتے رہے کہ وہ ’’ کارپورل بننے اور ٹُو اسٹرائپس حاصل کرنے والے پہلے غیر ملکی کیڈٹ تھے‘‘۔
حکمران پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت بھی انگریز ی خدمت گزاری کرتے کرتے جوان ہوئی تھی۔اپنے سرپرستوں کی طرح یہ لوگ بھی عام آدمی کو حقارت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھتے۔اس میں حیرت کیسی اگر رخصت ہو جانے والی سامراجی طاقت کے حقیقی وارث،سول بیوروکریسی اور فوجی افسر سیاستدانوں کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ اس ضمن میں بھارت سے فرق بالکل واضح تھا۔ بھارت میں سیاسی قیادت تین دہائیوں کی قوم پرست جدوجہد اور جیل کی لمبی مشقت کاٹنے کے بعد سامنے آئی تھی۔ کسی جرنیل یا سول بیوروکریٹ کی یہ جرأت نہ تھی کہ کانگرس کی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والے کسی رہنما کو چتاونی دے۔ اگر جناح زندہ رہتے تو ممکن ہے وہ ان دو اداروں۔۔۔۔فوج اور نوکر شاہی ۔۔۔۔ پر اپنی اتھارٹی قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے جنہوں نے مسلم لیگ کو ہر سطح پر گہنا کر رکھ دیا تھا لیکن جناح کے نائب ، وزیر اعظم اور قائدِ ملت لیاقت علی خان ، جو خود ایک مہاجر تھے، کے پاس نہ تو اپنی جماعت کے اندر یہ اتھارٹی تھی نہ ملک کے اندر۔پنجابی جاگیردارجو مسلم لیگ پر حاوی تھے اور مکمل اختیار حاصل کرنے کے لئے بے چین، لیاقت علی خان کو اپنے عروج کی راہ میں غیر ضروری رکاو ٹ خیال کرتے تھے ۔ اس بارے میں شک کی کم ہی گنجائش ہے کہ ان جاگیرداروں نے ہی لیاقت علی خان کو اس وقت قتل کروا دیا جب وہ راولپنڈی کے میونسپل پارک میں ایک بڑے جلسے سے اکتوبر 1951 ء میں خطاب کر رہے تھے۔ قاتل سید اکبر کو پولیس افسر نجف خان کے حکم پر پولیس نے موقع پر ہی گولی مار دی۔نجف خان ایک اعلی ٰ پولیس افسر تھا جو اس وقت کے آئی جی خان قربان علی خان کا چلتا پرزہ تھا جبکہ خان قربان علی خان پنجاب کے جاگیردار سیاستدانوں کے قریب تھا۔
لیاقت علی خان کا قتل اس گہری خلیج کا غماز تھا جو مقامی اشرافیہ ا ور جمنا پار سے مسلم مادرِ وطن آنے والے مہاجر ’مداخلت کاروں‘ کے مابین پیدا ہو چکی تھی۔ صاحبِ حیثیت مہاجر تو بعد ازاں پاکستان آنے کے فیصلے پر پشیماں ہوئے مگر جومراعات یافتہ طبقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے ان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ انہیں ان کے شہروں اور دیہاتوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔یہ کہ مہاجر عمومی طور پر اپنے بے علاقہ میزبانوں کی نسبت زیادہ متمدن اور تعلیم یافتہ تھے گویا ایک نئے تنازعے کا باعث بن گیا۔ مہاجروں کی نوکر شاہی پر مضبوط گرفت تھی جس نے ناراضی کو جنم دیا۔ان کی زبان کے تصنع اور ان کے آداب کا مذاق اڑایا جاتا جبکہ جواباََ مہاجروں کے لئے کور مغز اور بے ہنگم سندھی و پنجابی سیاستدانوں کے لئے حقارت کو چھپانا مشکل ہو تا۔ لیاقت علی خان کا بے رحمانہ قتل گویا ان کے مہاجر ساتھیوں کو تنبیہہ تھی۔ پیغام بالکل سیدھا سا تھا: تم لوگوں کو یہاں بادل ناخوشی برداشت کیا جا رہا ہے جبکہ یہ ملک ہمارا ہے۔ یہ تھی’ ’ برصغیر میں مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ وطن‘‘ کی حقیقت۔ اصل مصیبت تو ابھی نازل ہونا تھی۔
جب لیاقت علی خان قتل ہوئے ، ایوب خان لندن میں تھے ۔ بعد ازاں ایوب خان نے ، نسبتاََ ظاہر داری کے ساتھ ، نئے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اور انکی کابینہ کے ساتھ ملاقات میں لگنے والے دھچکے کا ذکر یوں کیا:’’کسی ایک نے بھی لیاقت علی خان کا نام نہیں لیا نہ ہی میں نے کسی کے منہ سے ہمدردی یا پچھتاوے کا کوئی لفظ سنا۔اسی طرح گورنر جنرل غلام محمد بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ ملک نے ایک اہم اور قابل وزیر اعظم کھو دیا ہے۔ ۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ لوگ کس قدر بے رحم ، سفاک اور خود غرض ہو سکتے ہیں۔۔۔۔مجھے خاص کر یہ تاثر ملا گویا یہ لوگ مطمئن تھے کہ ایک ایسے شخص سے نجات مل گئی جو انہیں قابو میں رکھ سکتا تھا‘‘۔
یہ کہ ملک کے ُکہنہ سیاستدان زار و قطار نہیں روئے ،ایک طرح قابلِ تعریف ہے۔ اپنے ساتھی کے قتل کی منظوری دینے کے بعد آنسو بہانا زبردست منافقت کے زُمرے میں آتا۔ یہ بات مگر قابل ِ یقین نہیں کہ ایوب خان کو ان کی خفیہ کے سربراہ نے قاتل کا پتہ نہ بتلایا ہو۔ اگر ایسا ہے تو ایوب خان نے اسی وقت کوئی اقدام کیوں نہ اٹھایا اور سرکش سیاستدانوں پر عام انتخابات کے لئے زور کیوں نہ ڈالا؟ بات یہ ہے کہ وہ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا، جو جرنیل ریٹائر ہونے کے بعد سینئیر بیوروکریٹ بن چکے تھے، کے ساتھ مل کر سیاسی سازشوں میں مشغول تھے۔ سکندر مرزا ساز باز کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ سیاسی قیادت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ذہنی تنزلی کا شکار اور بد زبان بیوروکریٹ ساتھی غلام محمد کو کرسی سے ہٹا کر 1955 ء میں خود گورنر جنرل بن گئے۔
1954 ء میں سکندر مرزا مشرقی پاکستان کے گورنر تھے۔ جب بنگالیوں نے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کی حکومت گرا دی تو گورنر نے منتخب حکومت کو ہٹا کر پورے مشرقی پاکستان میںگورنر راج نافذ کر دیا۔ملک توڑنے اور سیاست کی ملٹرائزیشن کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔ یہ ایک افسوسناک باب ہے جس بارے میں نے ایک اور جگہ تفصیل سے لکھا ہے۔1 یہاں بہ اصرار یہی کہنا کافی ہے کہ ملک کے مشرقی بازو میں اجنبیت کا احساس کافی پہلے شروع ہو گیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ گہراہوتا گیا۔بنگالیوں کے ساتھ پنجاب کے فوجی افسروں اور سرکاری افسروں کے تعصب میں نوآبادیاتی دور کے انگریز تعصب کی جھلک ملتی تھی۔
جیسا کہ سکندر مرزا کے جانشینوں کے ساتھ بھی بعد میں ہوا، حد سے زیادہ خود اعتمادی سکندر مرزا کی سیاسی موت کا باعث بن گئی۔ سکندر مرزا نے ایک آئین تشکیل دیا جس میں پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا جبکہ وہ ملک کے پہلے صدر بن گئے۔ سکندر مرزا اور ایوب خان نے مل کر پاکستان کو امریکی باجگزار کے طور پر کردار کو ادارے کی شکل دی۔ پاکستان معاہدہ بغداد اور سیٹو کا رکن بن گیا جن کا مقصد دونوں خطوں میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔1953-54 ء کے لئے فوجی امداد کے پروگرام جبکہ جنوبی کوریا، جنوبی ویت نام اور تھائی لینڈ سمیت ’’فری ورلڈ‘‘ میں پاکستان کی شمولیت بارے ایوب خان نے واشنگٹن سے براہ راست بات چیت کی تھی۔ سعادت حسن منٹو اس صورتحال سے محظوظ ہو رہے تھے۔ منٹو نے’ ’انکل سام کے نام خط‘‘ کے عنوان سے نو طنزیہ خطوط تحریر کئے ۔چوتھا خط منٹو نے اپنی وفات سے ایک سال قبل اکیس فروری 1954 ء کو تحریر کیا:
’’چچا جان۔آداب و نیاز
ابھی چند روز ہوئے میں نے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا تھا اب یہ دوسرا لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جوں جوں آپ کی پاکستان کو فوجی امداد دینے کی بات پکی ہو رہی ہے میری عقیدت اور سعادت مندی بڑھ رہی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کوہر روزخط لکھا کروں۔
ہندوستان لاکھ ٹاپا کرے آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرور کریں اس لئے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو اس لئے کہ یہاں ملّا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو آپ سب سے پہلے ان ملّاوں کو مسلح کیجئے گا ان کے لئے خالص امریکی ڈھیلے خالص امریکی تسبیحیں اور خالص امریکی جائے نمازیں روانہ کیجئے گا۔استروں اور قینچیوں کو سر فہرست رکھیئے گا ۔خالص امریکی خصاب لاجواب کا نسخہ بھی اگر آپ نے ان کو مرحمت کر دیا تو سمجھئے پو بارہ ہیں۔
فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان ملّاوں کو مسلح کرنا ہے ۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں مگر آپ کی ساری رمزیں سمجھتا ہوں لیکن عقل کی یہ ارزانی آپ ہی کی سیاسیات کی عطا کردہ ہے (خدا اسے نظر بد سے بچائے) ۔
ملاوں کا یہ فرقہ امریکی سٹائل میں مسلح ہو گیا تو سویٹ روس کو یہاں سے اپنا پاندان اٹھانا ہی پڑے گا جس کی کلیوں تک میں کمیونزم اور سوشلزم گھلے ہوتے ہیں۔
امریکی اوزاروں سے کتری ہوئی بسیںہوں گی۔ امریکی مشینوں کے سلے ہوئے شرعی پیجامے ہوں گے۔ امریکی مٹی کے ان ٹچڈ بائی ہینڈ قسم کے ڈھیلے ہوں گے ،امریکی رحلیں اور امریکی جائے نمازیں ہوں گی۔ بس آپ دیکھئے گا چاروں طرف آپکے نام کے تسبیح خواں ہوں گے‘‘۔ 1
جب مصر پر اینگلو فرنچ اسرائیلی حملہ ہوا تو پاکستان کے غلام حکمرانوں نے اس کی حمایت کی۔ یہ حمایت بالکل غیر ضروری تھی ۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان حکمرانوں کو توقع تھی کہ امریکہ اس مہم جوئی کا نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ دے گا مگر امریکہ نے ایسا نہیں کیا۔جمال عبدالناصر کے ملک، مصر، پر حملے کی حمایت کرنے پر عوام مشتعل ہو کر ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے ۔ دلچسپ بات ہے کہ جماعتِ اسلامی نے ان مظاہروں میں بالکل حصہ نہیں لیا۔ سیاسی جماعتوںنے سکیورٹی معاہدوں سے دستبرداری اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ مطالبے مقبول ِعام تھے۔ سکندر مرزا اور ایوب خان کو فکر لاحق تھی کہ اپریل 1959 ء میں ہونے والے ملک کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں کہیں ایسی مخلوط حکومت نہ قائم ہو جائے جو سکیورٹی معاہدوں سے دستبرداری کا علان کرتے ہوئے پڑوسی ملک بھارت کی طرح غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دے۔ امریکہ ایسے کسی امکان کے پیشِ نظر اور بھی زیادہ بے چین تھا لہٰذا اس نے فوجی بغاوت کی حوصلہ افزائی کی۔
ہمیشہ سے متکبر سکندر مرزا کا خیال تھا کہ وہ اکیلے ہی یہ کھیل رچا لیں گے اور ایوب خان کی حیثیت اس کھیل میں ثانوی نوعیت کی ہو گی۔ وہ فوج کی خود مختاری بارے درست تجزیہ نہ کر سکے۔ محض اس وجہ سے کہ ایوب خان نے اب تک سکندر مرزا کے ہر اقدام کی حمایت کی تھی،سکندر مرزا کا خیال تھا کہ وہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔ سکندر مرزا کی تحریک پر فوج نے 7 اکتوبر 1958 ء کو اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک کابینہ تشکیل دی گئی جس میں جرنیل حاوی تھے جبکہ کچھ سویلین بھی تھے جن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ان میں امریکہ کے دیرینہ ایجنٹ محمد شعیب تھے جن کے پاس خزانہ کا قلمدان تھا، منظور قادر تھے جو اعلیٰ پائے کے وکیل تھے جنہیں وزیر ِ خارجہ مقرر کیا گیااور ایک غیر معروف نوجوان سندھی ذولفقار علی بھٹو کو تجارت کا قلمدان سونپا گیا۔ مغرب کا ردِ عمل حوصلہ افزا تھا جبکہ نیو یارک ٹائمز نے گو آئین کی معطلی پر اظہار مذمت کیا مگر امید افزائی کے ساتھ:
’’پاکستان میں صدر مرزا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا مقصد اور خواہش ایک مناسب وقت کے اندر عمدہ، ایماندار اور جمہوری حکومت کا قیام ہے۔ ان کی نیک نیتی پر شک کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی‘‘۔1
تین ہفتے بعد تین جرنیل صدر سے ملے اور انہیں ان کی سیاسی موت کا پیغام سنایا۔ سکندر مرزا کو سخت دھچکا لگا اور وہ ہمیشہ کے لئے ملک چھوڑ گئے، لندن میںسیاسی پناہ لی اور یہیں ان کا انتقال ہو گیا۔
جنرل ایوب خان ملک کے پہلے فوجی آمر بن گئے۔ چھ ماہ کے اندر اندر تمام سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینز پر پابندی لگادی گئی۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اخبارات کے سب سے بڑے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کو حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس حکومتی اقدام پر نہ تو فرمانبردار پاکستانی پریس نے کوئی چوں چاں کی اور نہ ہی ان کے مغربی ہم منصبوں نے۔ اگست 1959ء میں وزارت ِ تعلیم نے ایک خفیہ حکم نامہ جاری کیا ۔اس حکم نامے کا مقصد تھا ’’ ملک میں کمیونسٹ ادب کی گھس بیٹھ کو روکنا اور ملک میں اس کی اشاعت اورتقسیم کاری کی روک تھام‘‘۔ تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ’’ سکول، کالج، یونیورسٹی کے کتب خانوں میں موجود کتابوں کا جائزہ لیںاور اس امر کو یقینی بنائیں کہ تمام قابلِ اعتراض مواد وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے‘‘۔ اسلام پرستوں نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا اور اس اعلان کو سراہا۔آمریت کے زیرِ سایہ پاکستان فری ورلڈ کا ا ور بھی پختہ رکن بن گیا۔ جنرل ایوب نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ جہاں تک آپ لوگوں کا تعلق ہے، اس ملک میں صرف ایک سفارت خانہ اہم ہے: امریکی سفارت خانہ‘‘۔ نیشنل سکیورٹی کونسل (این ایس سی) کی متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد جس میں ’’اہم امریکی تنصیبات کی پاکستان میں موجودگی‘‘ کا ذکر تھا، من و عن امریکی پالیسی ٹھہری جس کے تحت پاکستان میں فوجی قبضے کو مکمل حمایت فراہم کی گئی:
’’سیاسی عدم استحکام جو گذشتہ حکومتوں کی خصوصیت تھی ،جس کے باعث پاکستان میں امریکی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھیں، اب اس کی جگہ کسی حد تک ایک مستحکم فوجی حکومت ہے۔۔۔۔موجودہ استحکام کے پیشِ نظر، جو اگرچہ حکمِ حاکم کے نتیجے میں ہی آیا ہے،مسئلہ اب قلیل المدت دبائو، جس کے تحت ہمیں ایک کے بعد دوسرے بحران میں انفرادی سیاستدانوں سے معاملہ کرنا پڑتا تھا، والا نہیں رہا بلکہ ہمیں طویل المدت بنیاد پر پاکستان کی صلاحیتوں کو دیکھنا ہو گا۔۔۔۔ہم اس بات پر خصوصی زور دے رہے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کو اس کی معاشی و سماجی اصلاحات میں ہمدردانہ دلچسپی اور مدد کا یقین دلائیں‘‘
یہ سیدھا سیدھا معاملہ تھا فوری امریکی مفادات کو دیگر تمام معاملات پر ترجیح دینے کا۔۔۔۔پرانے وقتوں سے سامراج کا طریق کار۔ فوجی آمریت کے حق میں این ایس سی کے اس بیان کے بر عکس ایک انتہائی سنجیدہ تبصرہ بھی میز پر موجود تھا۔محکمہ خارجہ کے آفس آف انٹیلی جنس اینڈ ریسرچ انالسز نے دسمبر 1958 ء میں ایک انتہائی خفیہ رپورٹ مرتب کی تھی جس میں کھل کر فوجی آمریت کی حمایت کے بد نتائج پر بات کی گئی تھی:
’’ایک طویل فوجی دورِ حکومت، جیسا کہ ایوب خان کے ذہن میں ہے، صوبائی اور طبقاتی تنائو کو تیز کر سکتا ہے۔ امکان ہے کہ اس سے دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں، وکلاء اور متوسط طبقے کا بڑا حصہ مایوس ہو سکتا ہے کہ یہ حلقے پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ یا لاطینی امریکہ کی کسی آمریت میں ڈھلتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ یہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کا جمہوری اعمال نامہ بھارت کا مقابلہ کر سکے۔۔۔۔۔صرف جمہوری نظام کے تحت ہی زیادہ آبادی والا مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے بیوروکریٹک اور فوجی وزن کا مقابلہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔فوجی غلبے کے تحت سیاسی آزادیوں کی لمبے عرصے تک بیخ کنی مشرقی پاکستان میں تنائو اور بے چینی کو اس سطح پر لے جا سکتی ہے کہ دونوںبازووں کا اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔‘‘
پاکستان کے اندر جن لوگوں نے یہ دلائل پیش کئے انہیں ’’بھارت نواز غدار‘‘ اور’ ’اشتراکی ایجنٹ‘‘ کہا گیا۔ ایوب خان جو جلد ہی خود ساختہ فیلڈ مارشل بن گئے، جمہوریت بارے اس تجزئے سے متفق نہ تھے۔ انہوں نے جمہوریت کی ایک منفرد تعریف پیش کی۔ ریڈیو پر اپنے شروع شروع کے ایک خطاب میں فوجی آمر نے اپنے حیرت زدہ’’ہم وطنوں‘‘ کو مطلع کرتے ہوئے کہا ’’ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جمہوریت گرم موسموں میں پروان نہیں چڑھ سکتی۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ہاں برطانیہ ایسا سرد موسم ہو‘‘۔
اس طرح کے بیانات کے باوجود مغرب میں ایوب خان کی مقبولیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ امریکی اور برطانوی پریس کی پسندیدہ شخصیت بنے ہوئے تھے۔ معروف اداکارہ کرسٹین کیلر ایوب خان کے ظاہری حسن سے بے حد متاثر ہوئی (دونوں نے 1961 ء میں کامن ویلتھ پرائم منسٹرز کانفرنس کے موقع پر کلائیوڈن کے تالاب میں ایک ساتھ چھلانگ لگائی)جبکہ نیو اسٹیٹسمین کے درویش صفت کنگسلے مارٹن نے خوشامدانہ انٹرویو شائع کیا۔دریں اثناء، حزبِ اختلاف کی آواز دبائی جا رہی تھی اورسیاسی قیدی تشدد کا شکار بن رہے تھے۔
1962ء میںایوب خان نے فیصلہ کیا کہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کرے۔ انہوں نے وردی اتاری، مقامی لباس زیبِ تن کیا اور کسانوں کے ایک جلسے میں جہاں جاگیردار اپنے مزارعوں کو زبردستی لائے تھے،اعلان کیا کہ ملک میں جلد ہی صدارتی انتخابات ہوں گے اور اس امید کا اظہار کیا کہ لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔نوکر شاہی نے کنونشن مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت شکیل دی اور موسمی بٹیرے اس جماعت میں شامل ہو گئے۔ انتخابات 1965 ء میں ہوئے ،جس میں فقط بنیادی جمہوریتوں کے ارکان کو ووٹ کا حق حاصل تھا اور کامیابی یقینی بنانے کے لئے دھاندلی کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ایوب خان کی مدِ مقابل فاطمہ جناح ( عظیم قائد کی معمر بہن) نے زبردست انتخابی مہم چلائی مگر بے سود کہ ان دنوںخاندانی تعلق ہنوز اتنے اہم نہیں بنے تھے۔ چند بیوروکریٹ جنہوں نے انتخابی نتائج کی ’’نوک پلک درست‘‘ کرنے سے انکار کر دیا، انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی پیشکش کر دی گئی۔
دریں اثناء اس غیر قانونی حکومت کے لئے مغربی حمایت بدستور جاری رہی۔ اس ضمن میں اہم دلیل یہ دی جاتی کہ ملک ’’معاشی ترقی‘‘ کر رہا ہے جس کے نتیجے میںدیہی معیشت کی جگہ شہری معیشت وجود میں آ رہی ہے اور یوں ملک میں جدت کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ محمد شعیب کا کم از کم یہی نقطہ نظر تھا جو امریکہ کے اس قدر قریب تھے کہ بعض اوقات پاکستانی کابینہ کے اجلاس کی روئیداد، محمد شعیب کے تجزئے سمیت ،واشنگٹن کو پہلے ملتی اور ارکانِ کابینہ کو بعد میں۔امریکہ سے آئے معروف علمی ستارے شعیب کی کھل کر حمایت کرتے۔ ہاورڈ سے آئے گستائو و پاپانیک نے ریاستی سرپرستی میں قائم ہونے والے کاروباری اداروں کی بھرپور حمایت کی جنہیں بعد ازاں نجی اداروں کے حوالے کیا جا سکتا تھا ۔ انہوں نے ’’فری مارکیٹ اکانومی‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھاکہ ’’پہل اور رکاوٹ کے امتزاج سے ایک ایسا ماحول جنم لیتا ہے جس میں کامیابی اس فرد کو ملتی ہے جو بے رحم ہو۔۔۔۔جس کااقتصادی چلن مغرب کے اندر انیسویں صدی میں ہونے والی صنعت کاری کے دوران سامنے آنے والے اپنے ہم منصب ڈاکو نوابوں ایسا ہو‘‘۔ ۱ڈاکو نواب تو یہ تھے مگر اپنے یورپی ہم منصبوں کے بر عکس ان کو ایک ایسے مالیاتی اور معاشی نظام کی حمایت حاصل تھی جو زر عی پیدوار کے منافع کو سبسڈیز کے ذریعے مینوفیکچرنگ میں پہنچا دیتا ہو۔اس کے نتیجے میں جو تقسیم کاری ہوتی وہ کسان کی قیمت پر ہوتی مگر کسی کو کم ہی اس کی فکر تھی۔
امریکی ماہرینِ معیشت پاپانیک کا نقطہء نظر ہی دہراتے رہے کہ’’ صنعت اور صنعت کار پیدا کرنے کے لئے زبردست معاشی نا ہمواری ضروری ہے‘‘ کہ اس طرح جو معاشی نشو نما ہو گی اس کے نتیجے میں ’’ کم آمدن والے طبقات کے لئے حقیقی بہتری آئے گی‘‘۔بعد ازاں ، عالمگیریت کے عہد میں، اس سوچ کو ٹرکل ڈائون افیکٹ کا نام دیا گیا۔یہ نہ اس وقت کامیاب ہو سکا نہ اب ہو رہا ہے۔ زیادہ آمدن والے شہری گروہ کوئی ٹیکس ادا نہ کرتے اور غیر قانونی طور پر اپنی آمدن بیرونِ ملک منتقل کر دیتے۔ غیر زرعی پیداواری شعبے میں بہت کم سرمایہ کاری ہو سکی، اور تو اور حکومت کے اپنے تشکیل دئے ہوئے سرکاری منصوبہ بندی کمیشن نے مغربی پاکستان کی شہری اشرافیہ کی بری عادات کا ماتم کیا۔
آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ معیشت کِیتھ بی گریفن جو پاکستان کو درپیش معاشی مسائل سے بخوبی واقف تھے ، نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں دکھایا گیا کہ زرعی شعبے سے منتقل کی گئی بچتوں کا 63 سے83 فیصد غیر پیداواری فضولیات یعنی اندھی دولت کے نتیجے میں جنم لینے والے طرزِ زندگی پر لٹا دیا جاتا ہے۔ گریفن نے نشاندہی کی کہ مغربی پاکستان میں ’’ان بچتوں کا ممکنہ سرپلس اگر خرچ ہو رہا تھا تو مزید خریداری پر، مزید زیورات پر، مزید ایسی تعیشات پر جو دیرپا استعمال میں رہ سکیں جبکہ اس کے نتیجے میں رئیل اسٹیٹ اور زرعی اراضی کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ۔ اس کی وجہ سے ان کے مالکان اپنا سرمایہ ان میں سے نکال رہے تھے۔ یہ سرپلس اکثر پر تعیش گھر بنانے پر صرف ہو رہا تھا یا اس کے نتیجے میں پہلے سے مصروف بازاروں اور سڑکوں پر پرچون کی ایک نئی دکان کھل رہی تھی‘‘۔1
نیدر لینڈ ہاورڈ گروپ جن بڑی معاشی نا ہمواریوں کو تسلیم کر رہا تھا اس کے نتیجے میںپورے ملک کے اندر نئی تقسیم پیدا ہو رہی تھی۔ ملک کے مغربی حصے میں اشرافیہ بے شرمی کے ساتھ دولت کی نمائش کرتی۔ اس پر تنقید کی بھی کوئی کمی نہ تھی مگر کم ہی نقاد تھے جنہوں نے اس گہرے ہوتے ہوئے سنجیدہ تفاوت کو دیکھا جو مشرقی اورمغربی بازو میں جنم لے رہا تھا۔
بنگالی یقینا اس صورتحال سے خوش نہ تھے۔ اکثریت ہونے کے باوجود سیاسی طور پر سزا کاٹنے کے علاوہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ پٹ سن سے ہونے والی آمدن بالخصوص جنگ کوریا کے دوران ہونے والے تجارتی توازن میں بہتری کا فائدہ صرف مغربی پاکستان اٹھا رہا ہے۔ مشرقی اور مغربی حصے میں اس فرق نے بنگال میں قوم پرستانہ تحریک کی بنیاد فراہم کی۔ قوم پرست عوامی لیگ کا مطالبہ گویا یہ تھا کہ اگر بنگال کو نمائندگی نہ ملی تو بنگال سے کوئی ٹیکس بھی نہیں ملے گا۔
فیلڈ مارشل کے دورِ حکومت کی دسویں سالگرہ آئی تو خوشامدی روشن فکر ٹولے اور کم نظر نوکر شاہی نے دس سالہ جشن ِترقی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ وزارتِ اطلاعات نے ایک کتاب کی صورت بگل بجانے کا فیصلہ کیا۔ سوچ یہ تھی کہ پاکستان کے فوجی مدبر کی سوانح عمری شائع کرنے سے عالمی سطح پر اس کے جائز ہونے کے لئے مزید جواز مہیا ہو سکے گا۔ ایوب خان کی سوانح ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز: اے پولیٹیکل بائیوگرافی ‘‘ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیراہتمام 1967 ء میں شائع ہوئی ۔ مغربی پریس میں اسے خوب سراہا گیا جبکہ اندرونِ ملک حکومتی اختیار میں چلنے والے ذرائع ابلاغ میں بھی خوشامدانہ ہائو ہوُ کا بازار گرم ہو گیا۔1
سوانح عمری کی اشاعت آمر کی بڑھتی ہوئی عدم مقبولیت سے منسلک تھی۔1965 ء میں بھارت کے خلاف ایک فوجی مہم برے انجام سے دوچار ہو چکی تھی۔ ایسے معاملات میں ہمیشہ احتیاط سے کام لینے والے ایوب خان بھارت کے خلاف حملے بارے ہچکچا رہے تھے۔بھٹو اور بعض سینئر جرنیلوں نے ایوب خان کو قائل کر لیا کہ پیشگی حملے کے نتیجے میں بھارتی ششدر رہ جائیں گے، یوں آپریشن گرینڈ سلام کے نتیجے میں 1947ء سے متنازعہ اور منقسم صوبے کشمیر کو بھی آزاد کروایا جا سکے گا جس پر دونوں ملک اپنا حق جتاتے ہیں۔ آخر کار ایوب خان نے منظوری دیدی۔ بھارت اس حملے پر ششدر رہ گیا اور پاکستانی افواج اپنے سٹریٹیجک مقاصد حاصل کرنے کے قریب تھیں مگر سنجیدہ نوعیت کی آپریشنل اور تنظیمی خامیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیش قدمی رک گئی۔ یوں بھارت کو وقت مل گیا کہ اپنے دستوں کو متحرک کر سکے اور پاکستان کو اس نے پسپائی پر مجبور کر دیامگر دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کے بعد۔ بھارتی فتح کے بعد ساٹھ پاکستانی ٹینک صحیح سالم حالت میں بھارتی قبضے میں جا چکے تھے۔ایوب خان تاشقند جانے پر مجبور ہو گئے جہاں سویت وزیر اعظم الیکسی کوسی جن نے دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ کروا دیا۔ ذولفقار علی بھٹو نے ، جو اب سیماب صفت وزیر خارجہ کی شہرت حاصل کر چکے تھے،اس کے فوری بعد استعفیٰ دیدیا اور الزام لگایا کہ معاہدہ تاشقند میں خفیہ شقیں بھی شامل ہیں جو کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت سے غداری کے مترادف ہیں ۔بعد میں پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا مگر عوامی جلسوں میں یہ بات کارگر ہتھیار کا کام دیتی تھی۔
سال بعد جب میں نے بھٹو سے پوچھا کہ انہوں نے ایوب کو ایک ایسی جنگ پر مجبور کیوں کیا جو جیتی ہی نہیں جا سکتی تھی تو بھٹو کے جواب نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا:’’اس خبیث آمریت کو کمزور کرنے کا یہ واحد طریقہ تھا۔ بہت جلد اس غیر قانونی حکومت میں دراڑیں پڑ جائیں گی‘‘۔ بھٹو اس وقت تک اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور 1966ء میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) کی بنیاد رکھ دی گئی۔1
1967ء میں بھٹو نے ملک بھر میں بڑے بڑے عوامی جلسوں سے خطاب شروع کر دیا اور گرفتار کر لئے گئے۔ان کا اعتماد عروج پر تھا۔ انہیںخوب معلوم تھا کہ جیل میں ان کی کوٹھڑی کے اندر جاسوسی آلات نصب ہیں لہٰذا وہ اپنے وکیل محمود علی قصوری کے ساتھ ملاقاتوں میں فوج کو اشتعال دلاتے۔’’مغربی پاکستان کے گورنر کے طور پر جنرل موسیٰ کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ہم اسے لنگی پہنا کر گلی گلی بندر کی طرح نچائیں گے‘‘ ایک ایسی اشتعال انگیزی ہے جو قابلِ اشاعت ہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مخالفت کے پیشِ نظر حکومت نے فیصلہ کیا کہ عوام کی توجہ ہٹانے کا بندوبست کیا جائے۔ اکتوبر 1968 ء میں کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’ڈان‘‘نے حکومتی پریس سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ایک ہی شمارے میں فیلڈ مارشل کی 69 تصاویرشائع کیں ۔شہریوں کو بتایا گیا کہ کراچی میں، جہاں بوتل میں ملنے والے دودھ کے فقط تین آئوٹ لیٹ تھے، صارف چاہے تو ببل اپ، کینیڈا ڈرائی، سِٹرا کولا، کوکا کولا، ڈبل کولا، پیپسی کولا، پیری کولا، فانا، ہوف مینز مشن یا سیون اپ کا انتخاب کر سکتا ہے۔لاہور سے شائع ہونے والے سرکاری اخبار’’ پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایک رپورٹر نے کسی فیشن شو بارے یوں پھوہڑ پن کا مظاہرہ کیا :
’’ملبوسات کی نمائش کرتے ہوئے ماڈل خواتین نے جب آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی کیٹ واک کا چکر کاٹا تو نفیس ہجوم نے دل کھول کر داد دی۔حاضرین نے جن تخلیقات کو خوب سراہا ان میں ’’رومانٹیکا‘‘، ’’راجاز رین سَم‘‘، ’’ سِی نیِمف‘‘، اور ’’ ہیلو آفیسر‘‘ شامل ہیں۔ ۔۔۔۔ایلیگینزا 69نرم و درشت کا امتزاج تھا‘‘
تعلقاتِ عامہ کے ضمن میں کئے گئے یہ سب اقدامات تباہ کن ثابت ہوئے۔ 7نومبر1968ء کو طلباء نے راولپنڈی اور ڈھاکہ میں سڑکوں پر جو مظاہرے کئے اس پر حکومت بھی حیران رہ گئی اور وہ خود بھی۔وہ جمہوریت کی بحالی اور آزادی کا مطالبہ کر تے ہوئے مارٹینیکن شاعر ایمے
سیزرے کے الفاظ یاد دلا رہے تھے:
نومبر کی ایک شام تھی
اچانک خاموشی صدائوں سے گونج اٹھی
ہم نے حملہ کر دیا تھا، ہم غلام
جن کے پائوں گوبر سے لت پت،ہم صابر سموں والے جانور
جلد ہی ملک کے دونوں حصوں میں طلباء ایکشن کمیٹیاں تشکیل پانے لگ گئیں۔ یورپ اور امریکہ والے گلیمر سے تہی یہ’’اَن فیشن ایبل 68‘‘ تھا۔ اس کا کردار بھی مختلف تھا۔برطانیہ اور امریکہ تو کجا ،پاکستانی طلباء اور مزدوروں کے اقدامات اور اقتدار پر حقیقی قبضے کے درمیان خلیج فرانس یا اٹلی کی نسبت بھی کہیں کم تھی ۔ پاکستان میں کسی قسم کے جمہوری ادارے موجود نہ تھے۔ سیاسی جماعتیں کمزور تھیں۔تحریک ان جماعتوں سے زیادہ طاقتور تھی۔
سرکشی کا پھیلائو حیران کن تھا:7نومبر 1968ء سے لیکر 26مارچ 1969ء تک پانچ ماہ جاری رہنے والی اس تحریک میں مشرقی و مغربی بازو میں دس سے پندرہ ملین لوگوں نے حصہ لیا۔ ریاست نے روایتی جبر سے کام لیا۔بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں جبکہ آمریت نے پویس کو حکم دیا کہ ’’بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے‘‘۔ ابتدائی چند ہفتوں میں بے شمار طالب علم ہلاک ہوئے۔ اگلے دو ماہ میں مزدور، وکیل، چھوٹے دکاندار، طوائفیں اور سرکاری کلرک بھی مظاہروں میں شامل ہو گئے۔ آوارہ کتے جن پر ’’ایوب‘‘ لکھا ہوتا مسلح سپاہیوں کا خصوصی نشانہ بن گئے۔
یہاں بھی یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ ملک کے دونوں حصوں میں جبر کا پیمانہ مختلف تھا۔مغربی پاکستان میں چند سو ہلاکتیں ہوئیں۔ بنگا ل میں دو ہزار ہلاکتیںہوئیں جوپنجاب ،سندھ، سرحد اور بلوچسان میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں سے زیادہ تھیں۔اس سرکشی کا ایک خوبصورت پہلو یہ تھا کہ نیچے سے جنم لینے والے دبائو کے نتیجے میں اتحاد قائم ہوا۔ جب مغربی پاکستان میں کوئی طالب علم ہلاک ہوتا تو اظہارِ عقیدت اور یکجہتی کے لئے ڈھاکہ کی طالبات ننگے پائوںخاموش مارچ کرتیں۔ متحدہ پاکستان کی تاریخ میں ان چھ ماہ کے دوران واحد ایسا موقع آیا تھا کہ دونوں حصوں کے عام لوگوں نے خود کو ایک دوسرے کے قریب محسوس کیا۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے۔مارچ تا مئی 1969 ء میں تین ماہ تک ملک کے دونوں حصوں میںچپہ چپہ گھوما۔ چھوٹے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔طالب علم رہنمائوں، آمریت مخالف سیاستدانوں، شاعروں اورٹریڈ یونین رہنمائوں سے ملاقات کی۔ لوگ خوش تھے۔ ملک میں اس قدر رجائیت نہ تو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں آئی نہ اس کے بعد۔
ان چند مہینوں کے دوران پاکستانی عوام بلا خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔1947 ء سے جو کچھ دبا دیا گیا تھا اب باہر نکل رہا تھا۔ تحریک میں خوش مزاجی کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ صدیوں سے پنجابی لفظ چمچہ ایسے لوگوں کے لئے استعمال ہوتا آیا ہے جو حاکموں کے ٹٹ پونجئیے ہوں۔اس کی شروعات کیسے ہوئی ،معلوم نہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انگریزوں کی آمد کے بعد یہ اصطلاح عام ہوئی۔ مقامی حاکم جو نزاکت کے ساتھ اپنی انگلیوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے ، انہوں نے چمچے کانٹے کا استعمال شروع کر دیا۔ اس اصطلاح کا آغاز کسی بھی وجہ سے ہوا ہو، ہوا یوں کہ حکومت نواز سیاستدان اور بیوروکریٹ کہیں بھی جاتے ،ان کا استقبال چمچوں کے ساتھ ہوتا ۔ چمچہ کتنا بڑا یا چھوٹا ہوتا ،اس کا انحصار اس بات پر ہوتا کہ وہ شخص خود کو کتنی اہمیت دیتا یا یہ کہ عوام کی نظر میں (اور عوامی اندازے عموماََ درست ہوتے) وہ حکومت یاامریکہ کی کتنی چاپلوسی کرتا۔جب ایوب اور وزراء آتے تو بازار سے ملنے والے چمچوں کے علاوہ گھر میں بنائے گئے چمچے جھانجھ کی طرح لہرائے جاتے جس سے جلسوں کی کارروائی میں جان پڑ جاتی۔
میں مشرقی پاکستان میں جن جلسوں میں شریک ہوا ، وہ تو خاص کر پُرجوش تھے۔ میں اپنی آنکھوں سے اس خلیج کو دیکھ رہا تھا جو ملک کے دونوں حصوں کو جدا کر رہی تھی۔ میری دلیل تھی کہ صرف ایک رضاکارانہ سوشلسٹ اور جمہوری فیڈریشن ہی ملک کو بچا سکتی ہے۔ آج یہ سوچ کوئی یوٹوپیا معلوم ہوتی ہے مگر ان ہنگامہ خیز دنوں میں ہر چیز ممکن دکھائی دیتی تھی۔
اپریل 1969ء کی ایک گرم اور حبس بھری شام کو مجھے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کے لئے لے جایا گیا۔ جلسہ کیمپس میںموجود امتالا کے پیڑ تلے ہو نا تھا۔اس علامتی جگہ پر کئی سیاسی تحریکوں نے جنم لیا تھا۔یہاں طلباء نے کئی پُرجوش تقاریر کیں اور آمریت سے پنجہ لڑانے کا فیصلہ کیا۔وہ مجھے اردو میں بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ایک بڑی اکثریت کے ووٹ سے (جن میں سنڈے ٹائمز کے نکولِس ٹومالِن بھی شامل تھے) فیصلہ ہوا کہ میں انگریزی میں بات کروں گا اور کج روی سے یہ رائے دی گئی کہ آئندہ موقع کے لئے میں بنگالی سیکھوں۔ بنگالی خوبصورت زبان ہے اور میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ زبان سیکھوں گا حالانکہ میں کافی حد تک جانتا تھا کہ آئندہ کی نوبت کم ہی آئے گی۔ سیاسی جبلت مجھ سے یہ کہہ رہی تھی کہ بنگالی قوم پرستانہ جذبات کا فوج کے ہاتھوں خون ہونے والا ہے، کنفیڈریشن تو دور کی بات وہ ملک تباہ کر دیں گے مگر معقول سی خودمختاری پر بھی راضی نہ ہوں گے۔میں نے اس روز یہ بات کھل کر طلباء کے سامنے بیان کی۔ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو کیوں نہ پوری آزادی کے لئے جدوجہد کی جائے؟ اپنا ملک لے لو۔ اگر ایسا بغیر وقت ضائع کیا گیا تو خون خرابے سے بچا جا سکتا ہے۔ وہاں خاموشی چھا گئی۔ حاضرین حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اُس پار سے، وہ بھی ایک پنجابی، ’’آزادی‘‘ کی بات کر رہا تھا۔اس کے بعد انہوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔مجھے کندھوں پر اٹھائے وہ میری موٹر تک چھوڑ آئے۔
اس روز جب مجھے قوم پرست مگر کٹر پارلیمینٹیرین عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب سے ملاقات کے لئے لے جایا گیا تو ’’لال سلام‘‘ کی گونج ہنوز میرے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ مارچ 1965 ء میں عوامی لیگ نے شیخ مجیب کی صورت میں اس وقت سب کو ششدر کر کے رکھ دیا جب انہوں نے علاقائی خودمختاری کے لئے چھ نکات پیش کئے (جن کا ذکر اگلے باب میں آئے گا)۔مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حزبِ اختلاف کے سیاستدان اس قدر حیران ہوئے کہ انہوں نے ایوب عہد کے سب سے چالاک بیوروکریٹ الطاف گوہر کو ان چھ نکات کا مصنف قرار دیدیااور ان کے خیال میں اس کا مقصد حزب ِاختلاف کو تقسیم کرنا تھا۔
یہ بنگالی قوم پرستوں اورمغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے بیچ دراڑکا آغاز ثابت ہوا۔یہ دراڑ وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی گئی ۔ایوب مخالف تحریک کے دوران ہونے والی مشترکہ جدوجہد وقتی تھی۔ شیخ مجیب کو معلوم تھا کہ میری ہمدردیاں بائیں بازو کے ساتھ تھیں اور یہ کہ میں بنگالی کسان رہنما مولانا بھاشانی کے قریب تھا جو چند ہفتے قبل مجھے بنگالی دیہاتوں اور چھوٹے شہروں کا دورہ کرانے لے گئے تھے۔ مولانا بھاشانی نے اس دورے کے دوران مجھے اپنی ان ملاقاتوں بارے بتایا جو چین میں انہوں نے چو این لائی سے کیں۔ ان ملاقاتوں میں چو این لائی نے مولانا بھاشانی سے کہا کہ ایوب خان کو کمزور نہ کیا جائے کہ ایوب خان چین کے دوست ہیں۔ پاکستانی مائونوازوں نے وفاداری کے ساتھ اس ہدایت پر عمل درآمد کیا مگر مولانا بھاشانی کو اندازہ تھا کہ اس ہدایت پر عمل کا مطلب سیاسی موت ہے۔ مولانا تحریک میں شامل تو ہو گئے مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ شیخ مجیب نے مجھے یاد دلایا کہ میں نے انہیں حال ہی میں چانگ کائی شیک سے تشبیہہ دی تھی اور مائو کی جانب سے ایوب خان کی پُشت پناہی بارے کچھ بُڑبُرائے ۔ خیر انہوں نے گرمجوشی سے میرا استقبال کیا اور سیدھے مطلب کی بات پر آ گئے۔
’’کیا وہ درست ہے جو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ نے آج کہا ہے‘‘۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو یقین ہے وہ طاقت کا استعمال کریں گے۔ کس قدر یقین ہے؟‘‘
میں نے وضاحت کی کہ میرے یقین کی بنیاد کوئی ایسی با وثوق اطلاع نہیں جو مجھے حکمرانوں سے ملی ہو نہ ہی اس کی بنیاد یہ ہے کہ میں حکمرانوں کی نفسیات کو سمجھنے کا دعویدار ہوں ۔ اس یقین کی وجہ صرف ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ مشرقی بنگال کی بنیادی برآمدات مغربی پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ہیں۔خود مختاری کا مطلب ہے کہ مغربی پاکستان کا مالیاتی اختیار ختم ہو جائے گا۔ شیخ مجیب نے غور سے میری بات سنی مگر لگ رہا تھا کہ وہ قائل نہیں ہوئے۔ شائد ان کا خیال تھا کہ وہ فوجی جرنیلوں کے ساتھ سودے بازی کے ذریعے اقتدار تک پہنچ جائیں گے۔ ان کی جماعت مغرب نواز تھی اورحال ہی میں انہوں نے واشنگٹن اور سکیورٹی معاہدوں سے قربت کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ عین ممکن ہے شیخ مجیب کی یہ سوچ ہو کہ واشنگٹن فوج کو سودے بازی پر مجبور کر سکتا ہے۔بعد ازاں جب نکسن اور کسنجر نے اسلام آباد کے حق میں ’’جھکائو‘‘ کا فیصلہ کیا تو شیخ مجیب کے لئے اسے ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ انہیں لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔
1968 ء کی تحریک بھرپور طریقے سے سیکولر، قوم پرست اور سامراج مخالف تھی۔ جماعتِ اسلامی کا طلباء ونگ کبھی کبھار طاقت کے زور پر جلسے الٹنے کی کوشش کرتا۔ ملتان اور راولپنڈی میں میرے دو جلسے الٹانے کی کوشش بھی ہوئی مگر ایسے موقعوں پرجمعیت والے ان طلباء کے ریلے میں بہہ جاتے جو ’’سوشلزم آوے ای آوے‘‘سے ملتا جلتا کوئی نعرہ لگا رہے ہوتے یا ’’مودودی مردہ باد‘‘ کی صدا بلند کر رہے ہوتے۔ دوسرا نعرہ اسلام پرستوں کے اہم رہنما ا ور فقیہہ بارے تھا جن کی سرپرستی سعودی عرب کا شاہی خاندان کرتا اور موصوف امریکہ کے کٹر حامی تھے۔
ویت نام جنگ نے پاکستان کے ہرسماجی طبقے کی رگ کو چھیڑ دیا تھا اور شاعر حبیب جالب کے ساتھ میں جس بھی جلسے میں جاتا وہاں ان کی اس نظم پر انہیں خوب دداد ملتی:
اے دنیا کے حق پرستو
خاموش کیوں ہو بولو
انسانیت کی بقاء ہے
ویت نام جل رہا ہے
اس کے بعد جالب پاکستانی حکمرانوں کی طرف متوجہ ہوتے اور انہیں تنبیہہ کرتے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ویت نامی جنگ ان تک بھی پہنچ جائے گی اور’’بارود بھرے بادل تمہارے سروں پر برسیں گے‘‘۔
اموات کے تفصیلی جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس بڑے پیمانے پر عوام متحرک ہوئے۔ نومبر 1968ء 4اموات 1000 سے زائد گرفتاریاں۔ دسمبر1968ء11اموات اور 1530 گرفتاریاں۔جنوری 1969ء57 اموات اور 4710گرفتاریاں، 1424زخمی۔ فروری 1969ء47اموات، 100گرفتاریاں، 12زخمی۔ مارچ1969ء90 اموات، 356 گرفتاریاں، 40 زخمی۔ یہ اعداد وشمار حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے پریس نوٹس پر مبنی ہیں اور حکومتی اعداد و شمار بارے عموی تاثر تھا کہ ان میں تعداد کم کر کے بتائی جاتی ہے۔فوجی قیادت کو اب یہ بات سمجھ آ چکی تھی کہ اجتماعی جبر تحریک توڑنے میں ناکام رہا ہے ۔ عوام کے دل سے موت کا خوف جاتا رہا۔جب ایسا ہو تو انقلاب کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
پنجاب میں ریلوے مزدوروں نے ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ دیں تا کہ فوجی دستوں کی نقل و حمل روکی جا سکے ۔ مشرقی پاکستان میںتھانوں پر حملے ہوتے اور اسلحہ خانے نشانہ بننے لگے۔ ایک ہفتے بعد جی ایچ کیو میں موجود جرنیل اداس چہروں مگر واضح ہدایات کے ساتھ اپنے فیلڈ مارشل سے ملے۔ فیلڈ مارشل نے ہتھیار ڈال دیئے۔ اِسی روز ایوب خان کے استعفیٰ کا اعلان کر دیا گیا۔ ایوب خان کے جانشین ، یحییٰ خان (پنجابی کے ایک خاص تلفظ میں اسے’’ یے یے‘‘ کہا جائے گا)نے اقتدار سنبھال لیا اوراعلان کیا کہ ملک کے پہلے عام انتخابات اکتوبر 1970 ء میں ہوں گے(مشرقی پاکستان میں آنے والے سمندری طوفان کے باعث یہ انتخابات دسمبر میں ہو سکے)۔ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ڈھول بجا تے، جھنڈے لہراتے، خوشیاں مناتے لوگوں کے گروہ سڑکوں پر نکل آئے اور ایوب کی رخصتی کا خیر مقدم کیا جو ، جیسا کہ بھٹو نے بعد میں لکھا، فیلڈ مارشل سے بھی اوپر کسی عہدے پر براجمان ہونے کا سوچ رہے تھے:
ایوب خان کے ’سنہرے دور‘ میں ایک معروف شخصیت کی جانب سے یہ تجویز آئی کہ وہ پاکستان میں وراثتی بادشاہت نافذ کر دیں ااور خود ملک کے پہلے بادشاہ بن جائیں۔ ایوب خان نے اس تجویز کو سنجیدگی سے لیا۔ انہوں نے تجویز کا جائزہ لینے کے لئے نواب کالا باغ اور مجھ پر مبنی دو رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ ہم نے اس تجویز کو اس کے خاکے سمیت ہفتے بعد یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ وہ اس تجویز کو بالکل فراموش کر دیں۔ایوب خان نے اپنی آبزرویشن میں اسے ’’بہتر صلاح‘‘ قرار دیا البتہ ساتھ یہ بھی اضافہ کر دیا :’’یہ ایسی بری تجویز بھی نہیں‘‘۔1
سینڈ ہرسٹ کا تربیت یافتہ یہ خوش مزاج افسر، سیکولر زاویہ نگاہ کا حامل، پرانی شراب کا رسیا، احکامات بجا لانے کا عادی ،وائے ا فسوس، ضرورت سے زیادہ ترقی پا گیا تھا۔اب وہ جا چکا تھا۔واشنگٹن پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور اسکے اپنے کرتوت اس کے زوال کا سبب بنے تھے۔ اور اب کیا ہو گا؟تین سال قبل ہی پینسلوینییا یونیورسٹی کے کارل وان ووریز نے، جو سیاسیات کے پروفیسر تھے، پاکستان بارے اپنی 341 صفحات پر مبنی کتاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا:
’’صرف چھ سال پہلے محمد ایوب خان نے ریاستِ پاکستان کے معاملات اپنے ہاتھ میں لئے تھے۔ اس دوران انہوں نے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ملک کے ٹوٹ جانے کا خطرہ جو 1958 ء میں سر پر منڈلا رہا تھا اب گویا ٹل چکا ہے‘‘۔1 کم از کم ایک جملہ درست تھا۔
…٭…