المیئے کا جنم
آغاز بہت برا تھا۔ تین منحوس مہینوں تک ایک متنوع، بے منطق جوش نے ہندوستان کے کئی حصوں کو اپنی گرفت میں لئے رکھا۔ شمالی اور مشرقی ہندوستان۔۔۔۔پنجاب اور بنگال۔۔۔۔میں زبردست خون خرابہ ہوا کہ ایک دوسرے کے گلے کاٹتے ہوئے ہندو، مسلم اور سکھ اس بڑے دن، 14 اگست کی تیاری کر رہے تھے جب دم توڑتی سلطنت نے جلدی میں ہندوستان کو تقسیم کر دینا تھا۔ خوشی تو کوئی کم کم ہی منا رہا تھا کہ شمالی اور مشرقی ہندوستان میں بدحواسی کا شکار دونوں طرف کے لوگ لاشوں کی گنتی میں مصروف تھے اور ان گھروں بارے سوچ رہے تھے جنہیں وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ سرحد کے دونوں جانب مہاجروں کے ریلے شہروں میں پناہ گیر ہو رہے تھے۔دہلی اور دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے کچھ مسلمان تو آتے ہی پاکستان سے مایوس بھی ہوگئے اور مایوسی میں واپسی کا رُ خ کر رہے تھے ۔ واپس پہنچ کر انہیں پتہ چلتا کہ ان کے گھر بار تو کسی اور کے قبضے میں جا چکے ہیں۔ نئے پاکستان کے پُرانے ریلوے اسٹیشن ایسے لوگوں سے اٹے پڑے تھے جو دنیا کی نظر میں مر چکے تھے۔ زمین پر پڑے ان لوگوں کے فرشی بستر خون ، پیشاب اور غلاظت سے لت پت تھے۔سب بھوک کا شکار تھے۔کچھ ہیضے کا شکار ہو چکے تھے۔ باقی پیاس کے مارے بلک رہے تھے۔ اور سہولتیں تو کجا، مہاجر کیمپ ہی ناکا فی تعداد میں تھے۔فیصلہ ساز افراد اندازہ ہی نہیں لگا پائے کہ کس بڑے پیمانے پر مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ مستقبل بارے کوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل تھا۔
سرحد کے اُس پار بھی یہی صورتحال تھی۔ اب جو حصہ مغربی پاکستان بن چکا تھا، ہندو اور سکھ وہاں سے بھارت چلے گئے تھے۔ آبرو ریزی کے واقعات معمول بن چکے تھے۔ تینوں مذہبوں کے پیروکار باقاعدگی سے دس تا سولہ سالہ لڑکیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ کتنی جانیں ضائع گئیں؟ کتنے بچے لا پتہ ہوئے؟ کتنی عورتیں اغوا ہوئیں؟ ہلاکتوں بارے مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق دس سے بیس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ صحیح اندازہ کسی کو بھی نہیں۔ ایک قبر میں پورا خاندان سما جاتا ہو اور چتائیں جل رہی ہوں تو اعداد کا شمار ممکن نہیں رہتا۔دورِ حاضر میں ایسے واقعات کے لئے نسلی صفائی اور جینوسائڈ کی اصطلاحات استعمال ہو تی ہیں۔ 1947-48 ء میں اسے ’ فرقہ وارانہ تشدد ‘ کا نام دیا گیا۔
مذہبی اور نسلی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم عوماََ باہمی نقصان دہ تشدد کو جنم دیتی ہے لیکن اُس وقت کے سیاستدانوںکو ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔نئے ملک کے رہنما محمد علی جناح یا قائداعظم1گو چالاک وکیل تھے مگر حیرت کا امر ہے کہ انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے دلائل کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا۔
مئی 1946 ء آ چکا تھا مگر جناح کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بننے والی مسلم ریاست لا محالہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا باعث بھی بنے گی کہ ان دونوں صوبوں میں تین مذاہب کے ماننے والے لگ بھگ برابر تعداد میں موجود تھے ۔ گو مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ جناح کی دلیل تھی کہ ان دو صوبوں کی تقسیم کے ’تباہ کن نتائج نکلیں گے‘۔بات بالکل درست تھی مگر اسے ایک خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کوتو تسلیم کر لیا جائے مگر سوچا جائے کہ ان دو صوبوں کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہو گی۔عظیم قائد کے ذہن میں ایک ایسے پاکستان کا تصور تھا جو بھارت جیسا ہو گا مگر فرق صرف یہ ہو گا کہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہو گی۔ انہوں نے اس سوال پر کبھی غور نہیں کیا کہ ہندو اور سکھ کس طرح ایک اور مذہبی اکثریت کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار ہو جائیں گے کہ جب خود انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جب مہاجرین کے ریلے آنے لگے تو کراچی میں مسلم لیگ کی قیادت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اب وہ بھارتی مسلمانوں سے کہہ رہی تھی کہ پاکستان سب مسلمانوں کے لئے نہیں بنا، یہ فقط مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے لئے ہے۔ دہلی اور اُتر پردیش کے مسلمان وہیں رہیں جہاں ہیں۔ اس نقطہء نظر کا بے باک اظہار پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کر رہے تھے جو خود اُتر پردیش کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اصل میں یہ کہہ رہے تھے کہ مذکورہ علاقوں کے درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے کے لوگ پاکستان کا رُخ نہ کریں۔ کسی نے اس بات پر توجہ نہ دی۔ دہلی اوردیگر علاقوں سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان پہنچتے رہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ’علیحدہ ملک‘ والی بات کو نچلے طبقوں نے سنجیدگی سے لیا تھا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ریاست تو صرف جاگیرداروں کے لئے بنی ہے۔ ایسا نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنے آبائی دیہات چھوڑ دینے پر تیار تھی۔ خون خرابے، کچھ جو ہوئے اور کچھ جن کا خوف تھا، نے لوگوں کے پاس کوئی اور متبادل ہی نہیں چھوڑا تھا۔
قدامت پرست مسلمانوں کی تخلیق کی ہوئی مسلم لیگ کا قیام 1906 ء میں اس وقت عمل میں آیا جب مسلمانوں کے ایک مندوب نے برطانوی وائسرائے لارڈ منٹو سے ملاقات کی درخواست دی جو قبول ہو گئی۔ اس مندوب نے سلطنتِ برطانیہ سے وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے مسلمانوں کے لئے نوکریوں میںحصہ اور جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کے پیچھے پیشہ ور مسلمانوں کایہ خوف چھپا تھا کہ کھلے مقابلے میں وہ ہندو اکثریت کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے تا آنکہ انگریز سرکار مثبت امتیازی سلوک پر راضی ہو جائے۔ مسلم لیگ کی سیاست اس کی سماجی ساخت کی طرح رنگ برنگی تھی۔ 1940ء میں کہیں جا کر اس نے قرار دادِ لاہور منظور کی جس میں مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر اس قرارداد میں بھی سب مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا کہ ایسا ہونا نا ممکن سمجھا جا رہا تھا۔
گونا گوں خواہشات کے تصادم کا نتیجہ بعض اوقات یہ نکلتا ہے کہ جو چیز جنم لیتی ہے اس کی خواہش کسی نے بھی نہیں کی ہوتی۔بہترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ مطلوبہ چیز سے مشابہ ہو سکتی ہے۔ بد ترین صورت میں وہ بے معنی ضمنی پیداوار کے سوا کچھ نہیںہوتی۔ ہوا یوں کہ 14 اگست 1947ء کی صبح حیرت کا شکار کچھ لوگ بیدار ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ وہ ایک نئی مسلمان ریاست پاکستان کے کرتا دھرتا ہیں۔ یہ لوگ کراچی میں جمع تھے جو ان دنوں اس ملک کا دارلحکومت تھا۔ کبھی یہ شہر سندھ کے ماہی گیروں کا ایک چھوٹا سا گائوں تھا ۔ یہاں رائل انڈین نیوی کے ایک حصے نے ڈیرے ڈال دیئے اور یوں بڑھتے بڑھتے یہ شہر اور اس کی آبادی کافی پھیل گئی۔ ان کرتا دھرتا لوگوں میں سے شائد ہی کسی کو یقین تھا کہ ایک دن سچ مچ ایسا ہو جائے گا۔نجی سطح پر وہ ایک دوسرے سے چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ تصورِ پاکستان تو کافی حد تک سودے بازی کے لئے ایک مہرہ تھا کہ جس کے ذریعے آزادی کے بعد ہندوستان میں بڑی مسلم اقلیت کے لئے قانونی تحفظات حاصل کرنا تھا۔
واقعات نے ایک اور راستہ چُنا۔ اب انکے پاس ایک ملک تھا۔ ان لوگوں کی اکثریت تو موقع پرست مسلمان جاگیرداروں پر مبنی تھی جو خوشی خوشی انگریز سرکار سے ساز باز کرتے رہے اور مسلم لیگ میں انکی آمد نئی نئی ہوئی تھی۔ عد م استعمال کے باعث ان کے ذہنی خلیئے زنگ آلود ہو چکے تھے۔ بھلے وقتوں میں ان کے لئے سوچ بچار کا کام ’عظیم‘ سامراجی نوکر شاہی کیا کرتی تھی۔ ان کا کام تو یہ تھا کہ اوپر سے جو حکم ملا اُسے اپنے ماتحتوں تک پہنچا دیا۔ حقیقی آزادی سے پالا پڑا تو ان کا دیوالیہ پن آشکار ہو گیا۔ آنے والے سالوں میں ان کی اکثریت نے منطق کو بالکل ہی خدا حافظ کہہ دیا ، طاقت کا سہارا لینا شروع کر دیا اور بوالہوس جرنیلوں کی پشت پناہی شروع کر دی جو اقتدار کے بھوکے تھے البتہ گاہے گاہے یہ سیاستدان کمزور جمہوریت کا رونا بھی رو لیتے گو جمہوریت کو کبھی حقیقی موقع دیا ہی نہیں گیا۔ اس کی وجہ سب پر عیاں تھی۔ نئے ملک کے ڈھانچے میں ایک تضاد پنہاں تھا۔ مغربی پاکستان اور اس کے مسلم اکثریتی صوبوں ۔۔۔۔پنجاب، سندھ، بلوچستان، سرحد ،بلوچستان۔۔۔۔اوربنگال سے علیحدہ ہونے والے مسلم اکثریتی مشرقی پاکستاں کومتحد رکھنے کا واحد جواز مذہب تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایسی ریاست وجود میں آئی جو دو مختلف جغرافیائی حصوں پر مشتمل تھی جبکہ ان دو حصوں کے مابین جغرافیائی ہی نہیں ثقافتی، سماجی اور نسلی فرق کے علاوہ زبان کا بھی فرق تھا۔ اگر کوئی چیز دونوں کو جوڑتی تھی وہ یا مذہب تھا یا قومی ایئر لائن۔ اس مصنوعی ڈھانچے پہ مستزاد یہ کہ ’طاقت کے مرکز‘ اور ملک کی اکثریت کے مابین ہزار میل پر مبنی عدو بھارت کا علاقہ تو تھا ہی ،’طاقت کے مرکز‘ میں موجود فوج اور نوکر شاہی بنگالی اکثریت کو کسی نوآبادیاتی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اردو کو نئی ریاست کی قومی زبان بنانے کی لایعنی کوشش اس وقت ترک کرنا پڑی جب غصے سے بپھرے بنگالیوں کے ہجوم 1948 ء میں جناح کے پہلے اور آخری دورہ ڈھاکہ کے موقع پر توڑ پھوڑ پر اتر آئے۔ پنجابیوں کے بر عکس بنگالی اس بات کی اجازت دینے پر تیار نہیں تھے کہ ان کی زبان کو دوسرے درجے کی زبان بنادیا جائے۔پاکستان کے ابتدائی سالوں میں اس ملک کے نئے حکمرانوں نے یہ گھٹیا کوشش جاری رکھی کہ عوام کی اکثریت کو ملک کی تقدیر کا فیصلہ نہ کرنے دیا جائے۔جناح کے وارثوں کا رہنما اصول یہ بن گیا کہ بنگالیوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین سازی کا عمل دس سال تک التوا میں پڑا رہا ۔ خدشہ یہ تھا کہ بالغ رائے دہی کے اصول پر عمل کیا گیا تو بنگالی اکثریت فائدے میں رہے گی۔
دریں اثناء ایک اور ’عنصرِ اعظم‘ متحرک ہو چکا تھا: ریاستہائے متحدہ امریکہ نے سلطنتِ برطانیہ کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔امریکہ کی ضروریات برطانیہ سے مختلف تھیں، اس کا طریقِ کار یہ تھا کہ فرمانبردار سیاستدانوں اور جرنیلوں کے ذریعے بالواسطہ حکومت کرو ۔جوں جوں وقت گزرتا گیا توں توںبرطانیہ کی طرح امریکی تقاضے بھی بڑھتے گئے۔ پاکستان کی حقیقی ضروریات کے معروضی جائزے کا سوال تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ برطانوی پیشرو کی طرح امریکہ کے مفادات بالاتر تھے۔
اُس دو ر کا اب جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہندوستان میں سامراجی نوکر شاہی کا ایک موثر حصہ ’مسلم تہذیب بمقابلہ ہندو تہذیب ‘ کا نظریہ پیش کر رہی تھی تا کہ ’دو مختلف قوموں‘ کی مانوس بنیاد پر علیحدگی کو پروان چڑھایا جا سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم میں فیصلہ کن کردار دوسری عالمی جنگ نے ادا کیا۔ جنگ کے دوران جب سلطنتِ برطانیہ کا مرکز اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا، مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی جماعت ،کانگرس نے فوری آزادی کا مطالبہ کر دیا تا کہ ایک آزاد ہندوستان یہ فیصلہ کرے کہ اسے جنگ میں حصہ لینا ہے یا نہیں۔ انگریز بہادر نے اس درخواست پر سیخ پاہوتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ کانگرس نے بہ حقارت انگریز کے ساتھ تعلقات منقطع کر لئے اور اس کے اداروں کا مقاطعہ کر دیا۔راج کو مزید غصہ آیا جب فروری 1942 ء میں سنگا پور پر جاپانی قبضے کے بعد گاندھی نے اگست میں ’ہندوستان چھوڑ دو تحریک ‘ کا نعرہ بلند کیا اور یہ تحریک شروع کر دی۔ برطانوی حکومت کی یہ پیش کش کہ جنگ کے اختتام پر ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی، گاندھی نے اس کاٹ دار جملے کے ساتھ مسترد کر دی کہ یہ ’دیوالیہ ہوتے بنک سے بلینک چیک لینے ‘والی بات ہے۔ گاندھی کو کافی حد تک یقین تھا کہ ایشیاء میں برطانیہ کو شکست ہو سکتی ہے لہٰذا عین ممکن ہے آزادی کے لئے جاپان کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑیں۔
اس کے بالکل بر عکس ، مسلم لیگ نے کبھی بھی انگریز سرکار کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اس نے ڈٹ کر جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دیا۔ برطانیہ نے بھی اس حمایت کی قیمت بہ صورتِ جنس ادا کی۔ پاکستان درحقیقت مسلم لیگ کو شکریئے کے طور پر ایک بہت بڑا تحفہ دیا گیا تھا۔ اگر کانگرس مسلم لیگ والی حکمتِ عملی اپناتی تو نتائج عین ممکن ہے مختلف ہوتے۔ یہ مفروضہ بہرحال مسحور کن حد تک خیالی ہے۔ ایک بار جب تقسیم کا فیصلہ ہو گیا تو تقسیم کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر تحریک کی دھیمے سے حوصلہ شکنی کی گئی۔ قبل از تقسیم کے بیس ماہ بارے جس پہلو پر بہت کم بحث ہوتی ہے وہ ہے ہڑتالوں کی ایک لہر جس نے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور طبقہ ہر قسم کی تقسیم پر حاوی ہو گیا۔ پنجاب میں مسلمان کسان مسلمان جاگیرداروں کے خلاف صف آراء تھے۔ اہم ترین ہڑتال فروری 1946ء میں ہونے والی جہازیوں کی بغاوت تھی جس نے رائل انڈین نیوی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ۔ ایک بار تو ان ہڑتالوں کی یاد تازہ ہو گئی جنہوں نے 1917ء کے انقلابِ روس اور لینن کی بالشویک پارٹی کی فتح کا راستہ ہموار کیا تھا۔ بحری جہازوں پر قبضہ ہو گیا ا ور ہڑتال بمبئی سے کراچی اور مدراس تک پھیل گئی۔ رئیر ایڈمرل گاڈ فرے نے اپنے ہی جنگی بحری جہازوں پر بمباری کی دھمکی دی مگر یہ خالی خولی دھمکی تھی۔ ہڑتالی کمیٹی میں مسلم ،سکھ اور ہندو سب شامل تھے۔ سب متحد تھے۔ اس کے بعد سیاستدانوں نے کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ کانگرس اور مسلم لیگ،دونوں نے انگریز سرکار کا ساتھ دیا اور ہڑتال ناکام بنانے میں کردار ادا کیا۔ نہرو خاصے ناخوش تھے۔ ان کا اپنے فیصلے بارے کہنا تھا ’یہ ایک مشکل انتخاب تھا‘۔
جناح نے جہازی باغیوں سے جو اپیل کی اس میں فرقہ وارانہ رنگ نمایاں تھا:’’میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ وہ باز آ جائیں، مزید کوئی مصیبت کھڑی نہ کریں تا آنکہ ہم اس مشکل صورتحال سے نپٹنے کے قابل ہو جائیں‘‘۔ جہازیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے عام ہڑتال ہوئی جس نے بمبئی کو بند اور صنعت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ برطانوی قیادت میں دستوں اور پولیس نے گولی چلائی جس میں پانچ سو شہری ہلاک ہو گئے۔ سیاستدان شرمسار تھے مگر سخت تنقید سے کنی کترا رہے تھے۔ شاعر ساحر لدھیانوی نے سوال اٹھایا:
اے رہبرِ ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے ، کون مرا۔1
جہازیوں کی شورش کے علاوہ تین سو سپاہیوں نے جبل پور میں بغاوت کر دی۔ اسی سال مارچ میں گورکھا سپاہیوں نے ڈیرہ دون میںعلم بغاوت بلندکر دیا۔ اپریل میں دس ہزار پولیس والے ہڑتال پر چلے گئے۔ ان ہڑتالوں نے گاندھی کو پریشان کر کے رکھ دیا اور ہندو مسلم اتحاد پر مبنی ان ہڑتالوں کو گاندھی نے ’غیر مقدس گروہ بندی ‘ قرار دیدیا۔ گاندھی کا کہنا تھاکہ ان ہڑتالیوں کی حمایت کا مطلب ہے ’ہندوستان کو گنواروںکے ہجوم کے حوالے کر دینا۔میں ایسے کسی انجام سے دوچار ہونے کے لئے ایک سو پچیس سال زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ میں اس کی بجائے جل مرنا پسند کروں گا‘۔1 طبقاتی تنائو میں تیزی نے برصغیر کی قسمت طے کرنے میں مدد دی۔ اب سب کو جلدی تھی کہ کہیں صورتحال تینوں ۔۔۔۔برطانیہ، کانگرس اور مسلم لیگ۔۔۔۔کے قابو سے باہر نہ ہو جائے۔ سودے بازی جلدی میں طے پائی۔
کچھ وکیل اور کچھ کاروباری پیشہ افراد ( جو عظمت سے زیادہ اثر و رسوخ اور دولت میں اضافہ چاہتے تھے)مسلم لیگ کو سرمایہ اور دماغ فراہم کرتے آ رہے تھے مگر کبھی بھی تنظیم ان
افراد کے اختیار میں نہیں رہی تھی۔ اہم رہنما گو تراش خراش میں جدید تھے مگر مزاجاََ قدامت پسند۔2
بہت کم تھے جنہوں نے کبھی سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لیا ہو یا کبھی کسی مزدور کسان تنظیم کی تشکیل میں کوئی مدد دی ہو۔ اس بات کا اندازہ انہیں بھی تھا کہ انکی قوم پرست ساکھ موجود نہیں ، انہوں نے دکھاوے کے چند احتجاج منظم کئے۔ اہلِ برطانیہ کی رخصتی سے کچھ قبل یومِ راست اقدا م اس کی ایک مثال تھا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے چند گھنٹے جیل میں گزارے ۔ باقی زندگی وہ اس قربانی کا چرچا کرتے رہے۔
لندن میں تقسیم کے موقع پر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پرلیبر کابینہ سنجیدہ موڈ میں جمع تھی اور اس کا ایک ہنگامی اجلاس جاری تھا۔ اجلاس کی صدارت وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کر رہے تھے اور اجلاس کا واحد مقصد ہندوستان میں بڑھتے ہوئے بحران پر غور کرنا تھا۔ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان شکستہ حال دکھائی دے رہے تھے۔ہندوستان کے بدن کو کاٹ دینے سے جو لہو بہہ رہا تھا اسے روکنے کے لئے آخری لمحے میں کی گئی بھاگ دوڑ بے سود ثابت ہو رہی تھی۔ اجلاس کی کارروائی کے متن میں درج ہے کہ’ مسٹر جناح بہت تلخ اور اٹل دکھائی دے رہے تھے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ کی نظر میں وہ ایک ایسے شخص کی مانند تھے جو قتل کیا جا رہا ہو اور اس قتل سے بچنے کے لئے خود کشی پر آمادہ ہو‘۔ یقیناََ وہ اکیلے نہیں تھے۔ کانگرس رہنمائوں نے دیگر بہت سے متبادل رد کر دیئے تھے لہٰذا جناح کے پاس اب کوئی اور چارہ ء کار بھی تو نہیں تھا۔
مارچ 1946 ء تک جناح کسی با عزت سمجھوتے پر تیار تھے مگر بے بصارت اور مغرور کانگرسی رہنما (گاندھی جو اس ضمن میں ایک قابلِ عزت استثناء تھے،نے یہ تجویز دی کہ جناح کو متحدہ ہندستان کا پہلا وزیرِ اعظم بنا دیا جائے) ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور پھر موقع ہمیشہ کے لئے ہاتھ سے نکل گیا۔ جناح نے چند سال پہلے بھانپ لیا ہوتا تو وہ اس سارے تجربے سے ہی گریز کرتے۔ جناح کی بنائی ریاست میں غبارِ قیس کبھی برباد ہوا ہی نہیں۔ جناح پرجوش نوجوانوںکے ایک ہجوم میں گھرے ہوئے تھے ۔ یہ نوجوان ’نئی روح‘ کی مالا جپتے مگر کبھی واضح نہ کر سکے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ وقت کے گھڑیال کی سوئیاں اب پیچھے گھمانا ممکن نہیں رہا۔ اس بات کی البتہ اشد ضرورت ہے کہ اس گھڑیال کی سوئیاں جنوبی ایشیاء کے وقت کے مطابق کر دی جائیں۔
پاکستان کا جنم اس کے حامیوں کی نظر میں عظیم کامیابی تھی مگر ’عظیم کامیابی‘ اگر کبھی ایسی کوئی چیز رہی ہو، کو گلے لگانے کا خطرہ اسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب وہ ماضی میں دفن ہو۔ اکثر جدید ریاستوں کو اپنی شناخت قائم کرنے کے لئے کئی دہائیاںلگ جاتی ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے بزور بازو شناخت مسلط کرنے کی کوشش میں نئی ریاست کا حصہ بننے والے خطوں کی شناخت کو بے وقعت کرنا شروع کر دیا۔ پنجابی، بنگالی، پشتون، سندھی اور بلوچ گو زیادہ تر مسلمان تھے مگر مذہب ثقافتی طور پر اہم سہی،انکی شناخت کا صرف ایک حوالہ تھا۔ یہ شناخت اتنی قوی نہ تھی کہ دیگر تمام شناختوں پر حاوی ہو جاتی۔ تاریخی لحاظ سے ،زیادہ تر ان قومیتوں کے لئے اسلام لازمی طور پر رسومات کا ایک مجموعہ تھا۔ اسلا م رگِ جذبات کو چھیڑتا ۔لوگ محسوس کرتے کہ وہ ایک وسیع تاریخی عمل کا حصہ ہیں۔ کسانوں کی نظر میں سچے عقیدے کا شارح ملاّں نہیں عظیم صوفی شاعر تھے جن کی شاعری ہر خطے میں پڑھی اور سراہی جاتی۔ نئی ریاست کی ابتدائی دہائیوں میں مذہب ہر گز بھی کوئی نظریہ نہیں تھا ماسوائے چند ملائوں کے یا دو چھوٹی سی جماعتوں کے جن کا ذکر گذشتہ باب میں آ چکا ہے یعنی رجعت پسند جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام۔ ان جماعتوں اور بعض دیگر نے بھی، آفاقیت کی بات کرتے ہوئے علیحدہ مسلم ریاست کی مخالفت کی اور جناح کو کافر اعظم قرار دیا اور کہا جاتا ہے کہ یہ فتوٰی جناح کے لئے خاصا تفننِ طبع کا باعث بنا۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ دونوں گروہوں نے جلد ہی نئی صورتحال سے سمجھوتہ کر لیا ۔ ثانی الذکر سیکولر، کمیونسٹ اور لبرل عناصر کے ساتھ ساتھ ہر ایسے شخص کے خلاف ’نظریہ پاکستان‘ کے رکھوالے بن گئے جو یہ سمجھتے تھے کہ معاملات بگڑتے جا رہے ہیں۔
تقسیم کے گھائو وہ ہاتھ نہیں بھر سکتے تھے جنہوں نے یہ گھائو لگائے تھے۔ اکثریت کے کرب کا بیان شاعروں اور ناول نگاروں کی ذمہ داری بن کر رہ گیا۔ اس ضمن میں تین اہلِ قلم کا کام لا زوال ہے۔ ایک تو فیض احمد فیض (1911-84)تھے۔ فیض، پابلونبرودا اور ناظم حکمت پر مبنی ترقی پسند شاعروں کی تکون کو بیسویں صدی میں بے حد سراہا گیا۔ تینوں شاعر قید اور جلا وطنی کے تجربے سے گزرے۔ فیض عہد ِ جدید میں جنوبی ایشیاء کے عظیم شاعروں میں سے تھے۔ مادری زبان پنجابی تھی مگر شاعری اردو میں کی۔ ’صبح آزادی‘ اگست 1947ء میں ہونے والے قتل عام کے کچھ ہی عرصہ بعد منظوم کی گئی جس میں ہر سُو پھیلے دکھ،مایوسی اور غصے کی تصویر کشی کی گئی ہے:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں ،بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت ِ نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
جگر کی آگ، نظر کی امنگ،دل کی جلن
کسی پہ چارہ ہجراں کا کوئی اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا ،کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو خبر ہی نہیں
ابھی گرانی ء شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
سعادت حسن منٹو ((1912-55 برصغیر میں پیدا ہونے والا اردو کا سب سے زیادہ با صلاحیت افسانہ نگار تھا۔ منٹو نے ہلاکتوں کا اور بھی زیادہ مفارقت کے ساتھ جائزہ لیا۔ فیض کی طرح منٹو نے بھی کربناک واقعات کو عظیم ادب میں ڈھال دیا ۔ منٹو نے کسی جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے پُرجوش مفارقت کے ساتھ لکھتے ہوئے 1947ء کے موسمِ سرما کو مکمل پاگل پن سے تعبیر کیا۔ منٹو کے نزدیک یہ انسانی فطرت کا بحران تھا اور اخلاقی روش و کردار میں زبردست گراوٹ تھی جس نے تقسیم بارے منٹو کی کہانیوں کی ساخت تشکیل دی۔ شمالی ہندوستان کو تقسیم سے
چند ماہ قبل جس خوف نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اس نے اکثر لوگوں کو بری طرح متاثر کیا۔1
منٹو کی کہانیاں اس صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
منٹو نے لاہور میں وفات پائی۔ اس وقت میری عمر گیارہ سال تھی۔ میری کبھی منٹو سے ملاقات نہیں ہوئی مگر ہمیشہ میری خواہش رہی ہے کہ کاش منٹو سے ملاقات ہوئی ہوتی۔ منٹو کی آخری تصاویر میں اس کی اداسی نمایاں ہے۔ وہ تھکا تھکا سا دکھائی دیتا ہے جو ناخوشی اوربگڑے ہوئے جگر کا نتیجہ ہے۔ پہلے کی تصاویر میں ایک شرارتی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ روشن آنکھیںجن کی گستاخی موٹے چشمے کے باوجود نمایاں ہے،گویا اخلاق کے ٹھیکیداروں ، دھرم وادی سیاست کرنے والوں اور ترقی پسند تحریک کے کومیساروں کا تمسخر اڑا رہی ہوں۔ لگتا ہے منٹو ان سب سے کہہ رہا ہو ’جتنا برا کر سکتے ہو، کرو۔ مجھے کوئی پروا نہیں‘۔وہ ’سوشلسٹ حقیقت نگاری‘ کے نام پر دوسروں کو خوش کرنے یا طے شدہ اصولوں کی پاسداری میں قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔
تقسیم کے فوری بعد منٹو نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ لکھا۔یہ افسانہ لاہور کے ایک پاگل خانے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ جب شہروںکے شہر مذہبی بنیادوں پر نسلی صفائی کاشکار ہو رہے ہوں تو پاگل خانے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ انتقالِ اقتدار کے ذمہ دار بیوروکریٹ پاگل خانے کے ہندو اور سکھ مریضوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں زبردستی ہندوستان کے پاگل خانوں میں بھیج دیا جائے گا۔ پاگل خانے کے مکین بغاوت کر دیتے ہیں۔ وہ جانے پر تیار نہیں اور انہیں زبردستی ٹرک پر بٹھا کر ہندوستان روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ان میں ایک سکھ بھی ہے جو اس قدر دل گرفتہ ہوتا ہے کہ پاک بھارت سرحد پر جان دے دیتا ہے۔ جب حقیقی دنیا میں اس قدر پاگل پن کا اظہار ہو رہا تھا تو منٹو کو پاگل خانہ نارمل محسوس ہونے لگا۔منٹو نے بعد ازاں لکھا:
’’آج میرا دل افسردہ ہے۔ ایک عجیب سا اضمحلال اس پر چھایا ہوا ہے۔ چارساڑھے چار سال پہلے جب میں نے اپنے دوسرے وطن بمبئی کو خیر باد کہا تھا تو میرا دل اس طرح مغموم تھا ۔مجھے وہ جگہ چھوڑنے کا صدمہ تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کے بڑے پُر مشقت دن گزارے تھے۔ ملک کے بٹوارے سے جو انقلاب برپا ہوا، اس سے میں ایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیا مگر اس طرح کہ مایوسی کو میں نے اپنے پاس تک نہیں آنے دیا۔ ‘‘
فیض کا تعلق اس خطے سے تھا جو پاکستان بن گیا۔ منٹو نے ہندوستان سے یہاں ہجرت کی۔ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والی امرتا پریتم ((1919-2005ان دونوں سے کم عمر تھی۔ امرتا پریتم کی پیدائش پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر گوجرانوالہ میں ہوئی مگر اس نے تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ امرتا کے والد ایک سکول میں پڑھاتے تھے اور مشقِ سخن بھی کرتے تھے۔ امرتا نے پنجابی (سکھوں کی مذہبی زبان) میں شاعری کی۔امرتا کا پہلا شعری مجموعہ سترہ سال کی عمر میں ہی شائع ہو گیا اور اسے خاصی پزیرائی بھی ملی۔ وہ لاہور اور اپنے مسلمان دوستوں کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی مگرتاریخ کے بے رحم دھارے نے اسے نئی سرحد کے پار پہنچا دیا۔ تقسیم کا موضوع امرتا پریتم کی تحریروںمیں نمایاں رہا۔تقسیم کے ہاتھوں گھائل امرتا پریتم نے وارث شاہ (1706-98)کو آواز دی۔پنجاب کے اس پریمی صوفی کوّی کی ’ہیر‘ ناممکن محبت، پدرانہ جبر اور زبردستی کی شادی کا قصہ ہے۔ پنجاب کے دونوں حصوں میں اسے آج بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے اور اسی تواتر کے ساتھ اسے سٹییج کیا جاتا ہے جس طرح شیکسپئیر کے کھیل۔ امرتا نے تقسیم کو ایک ایسے زہر کے طور پر پیش کیا جس نے مشترکہ ثقافت کو تباہ کر دیا:
اج آکھاں وارث شاہ نوں
کتوں قبراں وچوں بول
تے کتاب ِ عشق دا
کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی
توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں
تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا
تک اپنا پنجاب
اج بیلے وچھیاں لاشاں
تے لہو دی بھری چناب
شاعروں اور ادیبوں نے پاکستان میں موجود بے چینی کو ہوا دی۔ انہوں نے قیادت کے خود ساختہ بھرم کا پردہ چاک کیا مگر بے سود۔ مسلم لیگ نے محمد اقبال مرحوم(1877-1938) کی وراثت کو اپنی اجارہ داری بنا لیاجو گذشتہ نسل سے تعلق رکھنے والے عظیم شاعر تھے۔ وہ ہائیڈل برگ سے فارغ التحصیل اور جرمن فلسفے سے متاثر تھے جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ آخری عمر میں مابعد الطبعیات کی طرف کیوں مائل ہو گئے۔ اقبال نے اسلام بارے خوب لکھا۔ وہ دین کے منکر تو نہیں تھے مگر مذہبی بھی ہرگز نہیں تھے۔وہ پنجاب کے صوفی شعراء کی روایت کے مطابق ملّا کا تمسخر اڑاتے تھے۔ جب وہ زندہ تھے تو ملّاؤں نے انہیں ’کافر‘، ’زندیق‘ اور ’دہریا‘ کہا۔ انکی وفات کے بعد انہوں نے اقبال کی ممی بنا کر نئی ریاست میں ایک ایسے رہنما کا درجہ دے دیا جو قائد اعظم کا ثقافتی ہم منصب ہے اور یوں اقبال کی شاعری کا اثر محدود کرتے ہوئے اقبال کو تجدیدِ مذہب کا ایک پرچارک بنا کر رکھ دیا۔ ہم جو پاکستان کی ابتدائی دہائیوں میں سنِ بلوغت کو پہنچے، ہم اقبال کے اس قسم کے تصور کے باعث اقبال سے بیگانہ ہو گئے۔ یہ تو بعد میں جا کر معروف ادبی نقاد سبطِ حسن نے ہمیں ہماری جہالت پر ڈانٹ پلائی اور سکھایا کہ اقبال کی شاعری اور ’پوشیدہ نظموں ‘ کو سراہنے کی ضرورت ہے۔ایسی ہی ایک نظم آج بھی بر محل ہے گو یہ ایک اور دور کی عالمگیریت بارے تھی جو موجودہ دور کی عالمگیریت سے مختلف تھی :
خود بدانی بادشاہی قاہری ست قاہری در عصرِ ما سوداگری است
تختہء دکاں شریکِ تخت و تاج از تجارت نفع و از شاہی خراج
آں جہاں بانے کہ ہم سوداگر است برز بانش خیر و اندر دل شر است
کشتنِ بے حرب و ضرب آئین او ست مرگہا در گردشِ ماشین اوست
شاعروں کی پوشیدہ اور عیاں تنقید کے ساتھ ساتھ اس نئے ملک کو سنجیدہ مسائل کا بھی سامنا تھا۔ سامراجی والد کی عدم موجودگی میں یہ ملک کس طرح چلے گا؟ اس کی عالمی ترجیحات کیا ہیں اور سب سے اہم یہ بات کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر بھارت نے زیادہ تر مشترکہ ریاستی اثاثوں پر اپنا حق جتایا۔ سرکاری ملازمین کا بھی مسئلہ تھا۔ سلطنتِ برطانیہ کی میراث کے دو اہم اثاثے ،نوکر شاہی اور فوج کو کون چلائے گا؟ جناح کے کچھ ساتھی مغل عہد کا ایک مشہور واقعہ بڑے شوق سے دہرایا کرتے تھے۔ مغل عہد کو مسلم دورِ حکومت کا عروج سمجھا جاتا ہے باوجود اس کے کہ لگ بھگ سارے مغل بادشاہ شراب، عورت اور چرس کے رسیا تھے اور انہیں بطور ماڈل مسلمان پیش کرنا ذرا مشکل ہو گا۔ کہا جاتا ہے ایک مغل بادشاہ نے ایک معروف عالم کو دربار میں بلایا اور اسے قاضی کا عہدہ پیش کیا۔ عالم نے جواب دیا ’’ جہاں پناہ ! میں اس عہدے کے قابل نہیں ہوں‘۔ بادشاہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے۔ عالم نے جواب دیا’ذرا سوچئے کہ میرا جواب سچ پر مبنی ہے یا جھوٹ پر۔ اگر تو یہ سچ ہے تو اسے تسلیم کر لیجئے۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو ذرا سوچئے کیا یہ مناسب ہے کہ ایک جھوٹے شخص کو اس اچھے شہر کا قاضی بنا دیا جائے‘‘۔
نئی ریاست میں چند ہی لوگ تھے جنہوںنے یہ اقرار کیا ہو کہ وہ اس عہدے کے قابل نہیں جس پر وہ براجمان ہیں۔یہ ریاست آخر بنی ہی اس لئے تھی کہ وہ ہر قسم کی نوکری ہندو وں اورسکھوں سے مقابلہ کئے بغیر با آسانی حاصل کر سکیں۔ اب یہ ان کا فرضِ منصبی بن گیا کہ اس بات کا خیال رکھیں کہیں مسلمان آبادی کے نچلے طبقوں سے کوئی تعلیم حاصل کر کے اقتدار پر ان کی اجارہ داری کو نہ للکار دے ۔یہ سلسلہ بہ احتیاط آج بھی چلایا جا رہا ہے۔
آزادی کے فوری بعد جو چند مہینوں کا نازک وقت تھا اقتدار میں موجود اکثر لوگ اس دورا ن بھی اپنے مفادات بارے ہی سوچ رہے تھے۔نوجوان پاکستانیوں کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ صورتحال بہت بگڑ چکی ہے لیکن سنہرا دور بھی تو کبھی نہیں آیاتھا۔
عظیم قائد، جناح کی مثال لیجئے۔ ریاست کونیکٹیکٹ کا ایک یانگی، پال ۔ایچ۔ النگ جسے نئے ملک میں پہلا امریکی سفیر بنا کر بھیجا گیا، اس کی بھیجی ہوئی خفیہ رپورٹ سے جناح کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔ اپنی تقرری کی اسناد پیش کرتے ہوئے النگ نے اپنے میزبان کو بتایا کہ امریکہ ’کو ان مشکلات کا اندازہ ہے جو ایک نئے ملک کو درپیش ہوتی ہیں ‘اور یہ کہ امریکہ ’پاکستان کو درپیش گونا گوں مسائل بارے ہمدردانہ رویہ رکھتا ہے‘۔ اس ہمدردی کی بلا شبہ ایک حد تھی: جوائنٹ چیف آف سٹاف نے حقارت کے ساتھ حکومتِ پاکستان کی وہ درخواست رد کر دی تھی جس میں فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے دو ارب ڈالرکی مدد مانگی گئی تھی۔
بہرحال امریکی سفیر کو جناح اور انکی ہمشیرہ فاطمہ کے ساتھ پکنک کی دعوت دی گئی۔ اس خیال سے کہ اہم ریاستی مسائل زیر بحث آئیں گے، النگ خوب تیار ی کے ساتھ اپنے میزبان بہن بھائی سے، سینڈزپِٹ میں ان کے ساحلی گھر کے پاس گورنر جنرل کی لانچ پرملا۔بحث خاص قسم کی تعمیرِ قوم کے گرد گھومتی رہی۔جناح بارے مشہور تھا کہ وہ وضعدار،کافی نفیس اور صحیح ایڈورڈین جینٹل مین ہیں جن کا کبھی سفلی کاروباری سرگرمیوں یا آزادی کی عوامی تحریکوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔وہ آداب کا خاص خیال رکھتے۔ فاطمہ جناح ایسی نہیں تھیں۔ دبلی پتلی، تفکرات سے بھرا لمبا چہرا۔ فاطمہ کو معلوم تھا کہ ان کے بھائی کی زندگی ختم ہونے والی ہے لہٰذا مستقبل کی پیش بندی کرنی چاہئے۔ جناح کی اہلیہ 1929ء میں وفات پا گئی تھیں اور بیٹی کی ایک پارسی سے شادی کے بعد باپ بیٹی میں تعلقات منقطع ہو چکے تھے۔ گھر گرہستی فاطمہ کی ذمہ داری بن چکی تھی۔ پگڑیوں والے بہرے مہمانوں کو چائے اور کوکمبرسینڈوچ پیش کر رہے تھے اور جناح یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ نئے امریکی سفارت خانے اور عملے کے لئے جگہ کی تلاش کا کام کیسا جا رہا ہے۔النگ نے جواب دیا کہ انہوں نے ایک عبوری بندوبست کر رکھا ہے اور سب ٹھیک جا رہا ہے:
اس کے بعد جناح اور انکی ہمشیرہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے گھر ’فلیگ اسٹاف‘ کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس بارے انہوں نے مجھے کچھ دن پیشتر بتایا تھا کہ وہ برائے فروخت ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ’ فلیگ اسٹاف‘ کی دستیابی بارے علم ہونے سے قبل ہی ہماری نمبر 1بونس روڈ پر ایک سفیر کی رہائش گاہ خریدنے کے سلسلے میں بات چیت چل رہی ہے اور یہ بات چیت اب ایسے مرحلے پر ہے کہ پیچھے ہٹنا ممکن نہ ہو گا۔
اس کے بعد جناح نے پوچھا کیا سفارت خانے کے دیگر افراد کے لئے ’فلیگ اسٹاف ‘ خریدنا مناسب نہ ہو گا۔ میں نے جواباََ کہا کہ ہم نے اس امکان پر بھی یقیناََ غور کیا تھا مگر ہمارے ماہرِ تعمیرات کا کہنا تھا کہ وہ اتنی بڑی عمارت کے ماتحت عملے کے لئے خریدنے کا کوئی جواز نہیں دے پائے گا۔ میں نے مزید بتایا کہ ہم دراصل چند چھوٹے گھر یا فلیٹس خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ جناح ہمیں ’فلیگ اسٹاف ‘ایسی ایک دو بڑی کوٹھیوں کی تفصیلات بھیجنا چاہتے تھے۔ مجھے بہر حال اندازہ ہو گیا کہ مسٹر جناح اور ان کی ہمشیرہ اس بات پر مایوس ہوئے کہ ہم ’فلیگ اسٹاف‘ خریدنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
اس کے بعدجلد ہی بابائے قوم ستمبر 1948ء میں وفات پا گئے۔ النگ کا چند ماہ قبل کہیں اور تبادلہ ہو گیا۔ النگ کی رخصت سے چند ہفتے قبل، متفکر محکمہ خارجہ نے تکریم کی نشانی کے طور پر جناح کے لئے ایک چھوٹا سا تحفہ بھیجا۔ بارہ انچ قطر کے چار پنکھے فلیگ اسٹاف بھیجے گئے، جنہیں قبول کر لیا گیا۔ سروے کرنے والے سفارتی عملے کا کام بیکارنہیں گیا۔
نہ تو یہ اس نئے ملک کے لئے کوئی شاندار آغاز تھا نہ ہی پاک امریکہ تعلقات کے لئے۔ آنے والے سالوں میں ’فلیگ اسٹافنگ‘ اپنے عروج پر پہنچی۔ اوپر کی کمائی کے لئے فوجی افسروں اور سیاستدانوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ دریں اثناء حکمران اشرافیہ نے اس بات پر سکھ کا سانس لیا کہ واشنگٹن کی جنت میں انہیں بطور خادم داخلے کی اجازت مل گئی ہے اور یہ کہ ان کا ملک ایک ایسے بر اعظم میں امریکی باجگزار بن گیا ہے جو بیسویں صدی کا زیادہ تر عرصہ نوآبادیاتی جنگوں اور انقلابات سے دوچار رہا۔ملٹن کا شیطان اس بات کا قائل تھا کہ ’جہنم کی حکمرانی جنت کی غلامی سے بہتر ہے‘۔ پاکستانی حکمرانوں نے ثابت کیا کہ دونوں کام بیک وقت ممکن ہیں۔
جناح پاکستان کے گورنر جنرل تو بن گئے مگر انہوں نے کبھی کوئی معقول سیاسی تنظیم نہیں بنائی کجا یہ کہ کوئی عوامی جماعت تشکیل دیتے۔ بھارت کے متحدہ صوبے تو پاکستان میں شامل ہی نہیں تھے جن کے مسلم متوسط طبقے کی ترجمانی وہ کرتے تھے۔ مغربی پاکستان تشکیل دینے والے صوبوں میں تو وہ کافی حد تک ایک اجنبی تھے ۔انہوں نے بس یہ کیا کہ صوبائی جاگیرداروںکو اپنی جماعت کے نمائندے نامزد کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی حکمران طبقے کے پاس کوئی ایسی سیاسی جماعت نہ تھی جو عوام کو قابو میں رکھ سکے، اس کے باعث کہ مسلم لیگ ایسے بدعنوان اور جھگڑالو ناکردہ کاروں کا گرو بن گئی جو اسے مستقل بدنام کر رہے تھے۔پاکستان لہٰذا شروع سے ہی ماضی میں راج کی بھر پور وفادار ی کرنے والی نوکر شاہی اور فوج کے زبردست تسلط میں آ گیا ۔دونوں شعبوں کی قیادت کاتعلق مخصوص اشرافیہ سے تھا جسے سلطنتِ برطانیہ نے خود چنا تھا اور تربیت دی تھی۔پاکستان میں تقسیم کے بعد پہلے دس سال سول نوکر شاہی کو سیاسی برتری حاصل تھی۔سی ایس پی یا سول سروسز آف پاکستان پانچ سو افراد پر مشتمل ایک مربوط طبقہء امراء تھاجو ملک پر حکومت کر رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دور کے دو اہم سربراہ، غلام محمد ((1951-55اور اسکندر مرزا(1955-58) آئے ہی بیوروکریسی سے تھے۔ ان دونوں نے علامتی پارلیمنٹ میں اس قدر جوڑ توڑ کیا کہ اس کی وقعت ہی ختم ہو گئی تا آنکہ 1958 ء میں فوجی بغاوت کی راہ ہموار ہو گئی اور یوں جنرل ایوب منصبِ صدارت پر براجمان ہو گئے۔
اس بات کے پیشِ نظر کہ پاکستان مذہب کے نام پر بنا تھا، نئے سوالات نے جنم لیا۔ نئی ریاست کی نیچر کیا ہو گی؟ کیا ایک مذہب کے پیروکاروں کے لئے بنائی گئی ریاست غیر مذہبی ہو سکتی ہے؟ جناح پوری طرح سیکولر تھے۔ 11اگست 1947 ء کو آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی:
’’ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا یا آخری، سب کے حقوق ومراعات اور فرائض مساوی ہیں، قطع نظر اس کے کہ کس کا کس فرقے سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے تو آپ جس قدر ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہ ہو گی۔ ہمیں اس جذبے کے ساتھ کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت ، ہندو فرقے اور مسلمان فرقے ۔۔۔۔بطور مسلمان بھی تو آپ پٹھان ، پنجابی، شیعہ ،سنی وغیرہ ہیں۔۔۔۔کے یہ چند در چند زاویئے معدوم ہو جائیں گے ۔ اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکتِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو ، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ،ہندو رہے گا، نہ مسلمان، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے ، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے‘‘۔
یہ کوشش کہ مسلم قومیت کو مذہب سے کاٹ دیا جائے صیہونیت سے مماثلت رکھتی ہے۔بن گورین، گولڈامیئر، موشے دایان اور یہودی ریاست کے دیگر پُرجوش بانی مذہبی نہیں تھے۔یہ بات کافی حد تک مسلم لیگ کے رہنمائو ں کے بارے میں بھی درست تھی۔یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور مجلسِ احرار ایسی زیادہ سنجیدہ مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے مطالبے کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی۔ کانگرس سے ملحق مجلس کی بنیاد 1929 ء میں رکھی گئی تھی۔اس کے ایک اہم بانی رہنما ابوالکلام آزادنے پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ انڈین نیشنل کانگرس کے رہنما اور نہرو کے قریبی دوست بن گئے۔ احراری متحدہ قومیت کے حامی تھے اور ایک عرصے سے کانگرس کے ساتھ تھے مگر اس کے اہم رہنما مولانا آزاد سے علیحدہ ہو کر پاکستان چلے آئے۔مولانا مودودی کی طرح احراری بھی جناح سے متنفر تھے۔ جناح ان سے انکی پونجی چھین رہے تھے۔ ان مذہبی جماعتوں کے نزدیک سیکو لر مسلم قوم پرستی پر مبنی ریاست ’شیطان کی تخلیق‘ تھی۔
اسلامی جماعتوں کے مراکز موجودہ بھارت میں تھے۔ اگر تو وہ مستقل مزاج تھے تو انہیں بھارت میں رک جانا چاہئے تھا اور وہاں عالمی مسلم خلافت کے نظریئے کی تبلیغ جاری رکھنا چاہئے تھی۔ایسا نہیں تھا کہ کسی کے چلے آنے سے بھارت مسلمانوں سے خالی ہو جاتا،ہندو بنیاد پرست چاہے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔ مولانا آزاد ایسے بعض معزز مسلمان رہنما بھارتی حکومت میںشامل تھے ۔ دہلی کے مسلمانوں کو ہجرت سے باز رکھنے کے لئے مولانا آزاد نے ان سے جو خطاب کیا اس نے لوگوں کو رُلا دیا:’ آپ اپنا یہ شہر ، اس کا چاندنی چوک چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد نے جو کچھ تعمیر کیا ااُسے آپ چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں‘۔ مودودی اور احراریوں نے مگر پاکستان کا انتخاب کیا۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد انہوں نے ٹھان لی کہ وہ پاکستان کو تمام غیر اسلامی اثرات سے پاک کر دیں گے اور ان اثرات کی بھی کوئی کمی نہ تھی ۔ ان کا آغاز تو قائد اعظم سے ہوتا تھا۔ یوں ملک کی روح کے لئے ایک لمبی جنگ کاآغاز ہوا۔ اسلام پرستوں نے عقیدے کا میدان چنا۔ انہوں نے غیر مسلموں پر توجہ نہیں دی کہ وہ کافر تھے لہٰذا اس بکواس کی پروا کئے بغیر کہ وہ برابر کے شہری ہیں ،ان کے ساتھ غیر مسلم والا سلوک ہی ہونا چاہئے۔ کوئی بھی مذہبی گروہ ماڈل اسلامی ریاست کے خاکے پر متفق نہ تھا البتہ اکثر مذہبی گروہوں کے نزدیک سعودی عرب اکثر رجعتی سنی گروہوں کی نظر میں ایک نمونہ کی صورت موجود تھا۔ شیعہ علماء حضرت محمدؐ کے دور کی بات کرتے مگر ریاست کے کردار اور اس کو چلانے والوں کے کردار بارے کوئی اتفاقِ رائے سامنے نہ آ سکا۔ مولانامودودی کے پیروکار، احراری اور دیگر چھوٹے مذہبی گروہ اگر متفق تھے تو اس بات پر کہ مسلم لیگ کی قیادت چند کافروں کے ہاتھ میں ہے اور ملک کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان مرتدہیں لہٰذا انہیں پھانسی دی جائے۔ کیوں؟ کیونکہ، ان لوگوں کا کہنا تھا، ظفر اللہ خان احمدی ہیں اور فرقہ احمدیہ اور احمدیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے کے بعد یہ حضرات اب اس بات پر تُلے بیٹھے تھے کہ نئی ریاست سے اظہارِ وفاداری کے لئے جو خالص نہیں، اس پرہائیڈروکلورک تیزاب سے چھڑکائو کیا جائے۔
احمدیہ فرقے کے خلاف مہم قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی اور ملک پر قبضے کے لئے حکمران طبقے اور مولویوں کے مابین طویل ڈوئل کا یہ پہلا مظاہرہ تھا۔اسلامی تاریخ میں ’مرتد فرقوں ‘اور اصلاحی تحریکوں کی حضرت محمدؐ کی وفات کے فوری بعد سے کوئی کمی نہیں رہی۔انیسویں صدی میں ایک خود ساختہ مہدی سوڈان کی عوامی تحریک کے رہنما کے طور پر سامنے آیا۔اس نے گوریلا فوج تشکیل دی اور برطانیہ کو 1885 ء میںخرطوم کے مقام پر شکست دی۔ بے چارہ جنرل گورڈن اس عمل میں شہید ہو گیا۔
احمدیہ فرقے کے بانی مرزا غلام احمد برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کا قطعاََ کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ 1835 ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ مرزا غلام احمد کے دادا جرنیل تھے جنہوں نے معروف سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں جنگیںلڑیں۔ ایسے میں کہ جب برصغیر میں مذہبی تنازعات عام تھے جبکہ اسلام کو مسیحی مشنریوں کے علاوہ آریہ سماجیوں (ہندو اصلاحی تحریک) کا سامنا تھا ، مرزا غلام احمد ایک مذہبی عالم بن کر سامنے آئے۔وہ اسلام کے ابتدائی دور بارے فارسی اور عربی زبان میں لکھی کتابوں میں کھو گئے۔ انہوں نے اپنا نقطہء نظر وضح کیا جسے انہوں نے چار جلدوں پر مبنی ایک طویل تحریر میں بیان کیا۔ اپنے نقطہ ء نظر کے دفاع میں انہوں نے اور بھی کئی چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں ۔ ان میں مسلم فلسفے پر ایک کتاب بھی تھی جس نے ٹالسٹائی کو بہت متاثر کیا۔اس میں حیرت کیسی اگر ان کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد وجود میں آگئی۔ وہ کوئی ایلمر گانٹری نہیں تھے۔ ان کا یہ نقطہء نظر کہ ہندوستان میں اسلام کی روح بھلا دی گئی ،محض رسومات باقی ہیں، حقیت کے کافی قریب تھا۔ اگر تو وہ صرف عالمانہ کام تک محدود رہتے تو وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک مقبول شخصیت بن کر ابھرتے مگر کسی مذہب میں بالکل ڈوب جانے کا نتیجہ ہالوسینیشن کی صورت میں نکلتا ہے۔ جان آف آرک اور ٹریسا آف اویلا اس کی مثالیں ہیں۔1882 ء میں مرزا غلام احمد نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ان پر وحی نازل ہوئی ہے کہ ان کے ذمے ایک خاص کام کی تکمیل ہے۔ یہ خطرناک علاقے میں گھسنے والی بات تھی کہ اس طرح اسلامی روایت ہی کو چتائونی دیدی گئی تھی۔ اسلامی روایت کے مطابق صرف بانیٔ مذہب کو یہ رتبہ حاصل تھا۔ مرزا غلام احمد البتہ بضد رہے اور وحی کے وصول کنندہ کے طور پر انہوں نے اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ کیا کہ ان کے اس رتبے کو تسلیم کیا جائے۔
مرزا غلام احمد کے مطابق انہیں جو وحی نازل ہوئی وہ یہ تھی: عیسیٰ ابنِ مریم نے صلیب پر جان دی تھی نہ ہی وہ اوپر اٹھا لئے گئے تھے بلکہ انہیں چند بہادر پیروکاروں نے صلیب سے اتار لیا تھا، اتارنے کے بعد ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی اور انہیں فلسطین سے فرار کروا دیا۔وہ کشمیر پہنچ گئے جہاں انہوں نے ہنسی خوشی ایک صحت مند اورطویل زندگی گزاری اور قدرتی موت کے باعث اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ بات خاصی سخت تھی مگر وحی کا اختتام خاصا سرئیل(surreal) ہے۔
عیسیٰ کا فلسطین سے فرار اور کشمیر میں جلا وطنی کا مطلب ہے کہ ان کی دوبارہ آمد نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عیسیٰ کی خصوصیات کا حامل کوئی اور انسان پیغمبرِ اسلام کے ماننے والوں میں ظاہر ہو گا۔اس کے ظاہر ہونے کا وقت آ چکا تھا۔ مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ وہ شخص وہ خود ہے لہٰذا اسے مسیح موعود کے طور پر تصور کیا جائے اور اسی مرتبے کے مطابق اس کی تکریم کی جائے۔ اس نے خود کو امام مہدی بھی قرار دیا۔ امام مہدی کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق وہ قیامت سے پہلے نجات دہند ہ کے طور پر ظاہر ہوں گے۔ مرزا غلام احمد نے کہا وہ منطق سے جہاد کرے گا اور اسلام کے مخالفوں کو تشدد کی بجائے دلیل سے شکست دے گا۔
اسلام کے مرکزی دھاروںنے فتووں کی بارش کر دی مگر احمدیہ فرقہ کے پیروکاروں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔1901 ء میں احمدیہ ایک مختلف فرقے کے طور پر رجسٹر ہو گیا۔ 1908ء میں بانی کی وفات کے بعد ایک اور عالم نے بطور خلیفہ ان کی جانشینی سنبھال لی۔ خلیفہ کی وفات کے بعد ، مرزا کے بیٹے مرزا بشیر تنظیم کے سربراہ بن گئے ۔ ایسی صورتوں میں جیسا کہ عموماََ فرقوں میں ہوتا ہے، دھڑے بندی ہو گئی۔ ایک گروہ جس نے تعلیمات کو تو تسلیم کیا مگر نبوت کا دعوٰی ماننے سے انکار کر دیا ،انہوں نے لاہور میں اپنا گروہ تشکیل دے لیا۔ 1947ء میں ان کے اپنے اندازوں کے مطابق، دونوں دھڑوں کے پیروکاروں کی تعداد ملا کر دو لاکھ بنتی تھی۔ احمدی بیرونِ ممالک اپنے تبلیغی جوش و خروش کے لئے مشہور ہوئے۔احمدی طائفے مشرقی اور جنوبی افریقہ میں خاصے متحرک ہوئے اور وہاں انہیں کچھ کامیابی بھی ملی۔ پڑوسی ملک ایران کے بہائیوں کی طرح احمدی بھی اپنے فرقے کے لوگوں کا خیال رکھتے ۔ ان میں تعلیم کی اوسط باقی ملک کی نسبت زیادہ تھی۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کا کوئی رکن بھوکا یا بے گھر نہ ہو۔ ہر شعبہء زندگی میں ان کی نمائندگی موجود تھی۔ان کی انسان نوازی کے بے شمار ایسے لوگ بھی قائل تھے جو ان کی مذہبی تشریحات سے اتفاق نہیں بھی رکھتے تھے۔ شاعر علامہ اقبال جو بہت سے دیگر لوگوں کی نسبت اسلامی تاریخ اورر فلسفے کی زیادہ فراست رکھتے تھے، احمدیہ فرقے کی علمیت سے متاثر تھے اور انہوں نے بعض میدانوں میں ان کے ساتھ مل کر کام کیا۔
اسلام پرست گروہوں نے ان کے خلاف متشدد مہم کا آغاز کر دیا۔ ان کے اجتماعات پر حملے کئے۔ ایک احمدی میجر کو ہلاک کر دیا۔ظفراللہ خان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس بات کی تکرار کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اس سب کی روک تھام کرنا اتنا مشکل نہیں تھا مگر موقع پرستی کی ماری پنجاب مسلم لیگ کی قیادت بھی اس ہائو ہو میں شامل ہو گئی۔ ان میں ممتاز دولتانہ بھی تھے جو آکسفورڈ کے فارغ التحصیل تھے اور جوانی کے زمانے میں اشتراکیت سے بھی تھوڑا بہت دل بہلاتے رہے۔ دولتانہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پولیس گھری ہوئی احمدیہ کمیونٹی کو کوئی تحفظ فراہم نہ کرے۔ 1953 ء میں گمبھیر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ۔احمدیوں کی دکانوں اور مساجد پر حملے ہوئے اور کچھ احمدی ہلاک ہو گئے۔ نو سال کی عمر میں پاگل پن کا میں نے پہلی بار مظاہرہ دیکھا۔ لاہور میں ہمارے اپارٹمنٹ تلے باٹا کی دکان تھی جس کا مالک ایک احمدی تھا اور اس کا بیٹا میرے ساتھ سکول میں پڑھتا تھا۔ سکول سے واپسی پر ایک روز میں نے دیکھا کہ کچھ مسلح غنڈے اس دکان کو لوٹ رہے ہیں ۔ گو کوئی زخمی تو نہیںہوا مگر یہ تجربہ خاصا ڈراونا تھا۔
غصے کے مارے صوبائی گورنر نے فوج بلا لی۔ لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ جنرل اعظم نے فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیدیا۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر بحران ختم ہو گیا۔ مولانا مودودی اور بعض دیگر افراد پر مقدمہ چلا ۔ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا ہوئی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔
ان واقعات کی تحقیقات کے لئے عدالتی انکوائری بھی ہوئی۔انکوائری کی سربراہی جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے کی۔ اس انکوائری کی جو رپورٹ شائع ہوئی ، میں اکثر یہ کہہ چکا ہوں، اپنے طور پر ایک کلاسیک اور جدید دور کے سیاسی ادب کا شاہکار ہے۔ اگر کبھی سنجیدہ ریاستی نظامِ تعلیم وجود میں آتا ہے تو اس رپورٹ کو نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ دونوں ججوں نے متحارب مکتبہء فکر کے علماء سے اور مختلف گروہوں سے پوچھا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ ہر نیا جواب ججوں کی بے اعتباری میں اضافہ کر دیتا اور اس کی جھلک ان کی رپورٹ میں بھی ملتی ہے۔ تمام گروہ اس بات پر متفق تھے کہ سیکولر ریاست کی اجازت نہیں اور غیر مسلم برابر کے شہری نہیں ہو سکتے۔ اسکے نتیجے میں نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا:
لہٰذا یہ سوال کہ کوئی مسلمان ہے یا نہیں ،بنیادی اہمیت کا حامل ہے چنانچہ ہم نے بہت سے سر کردہ علماء سے مسلمان کی تعریف دریافت کی کیونکہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو اس بابت نہ صرف ان کے ذہن میں یہ واضح ہونا چاہئے کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ ان کے نزدیک مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ یہ دعوٰی کہ کوئی شخص یا کمیونٹی دائرہ اسلام سے خارج ہے تو پھر مدعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے مسلمان کون ہے۔ انکوائری کا یہ حصہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا اور اگر اس سادہ سے مسئلے پر ہمارے علماء کے اندر اس قدر ابہام پایا جاتا ہے تو کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ پیچیدہ مسائل پر کیاصورت ہو گی ۔۔۔۔۔
علماء نے جو متنوع تعریفیں پیش کیں اس بارے ہم اس کے سوا کیا کہیں کہ اس بنیای سوال پر کسی ایک صاحبِ علم کی رائے دوسرے سے نہیں ملتی۔ ان صاحبانِ علم کی طرح اگر ہم کوئی تعریف پیش کریں اور وہ ان اصحاب سے مختلف ہو تو ہم مشترکہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر ان علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو تسلیم کر لیا جائے تو دیگر تمام علماء کے مطابق کافر قررار پائیں گے ۔1
احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ عوامی یاداشت سے محو ہو چکا تھا ۔ کسی حکومت نے اسے سنجیدہ نہیں لیا اور احمدیوں کے خلاف دھمکیوں کا سلسلہ دم توڑ گیا۔ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے مشترکہ حزبِ اختلاف کے گھیرے میں آنے کے بعد 1974 ء میں مذہبی جماعتوں کے خلاف دائو کے طور پر ان کے تین پرانے مطالبے مان لئے: شراب پر پابندی، جمعے کی سرکاری چھٹی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا۔ یوں بزدلانہ انداز میں ہتھیار ڈال دینے کا مطلب تھا ان مطالبات کو پہلے پیش کرنے والی قوتوں کی جیت۔ احمدی بھارت، برطانیہ، جرمنی یا مشرقی افریقہ میں تو مسلمان ہیں مگر پاکستان میں نہیں۔ پاکستانی طبیعات دان ڈاکٹر عبدالسلام واحد نوبل انعام یافتہ مسلمان سائنس دان ہیں۔ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے گذشتہ جملہ درست نہیں ہے۔
جس پاکستان کا خواب جناح نے دیکھا تھا ، اس پاکستان کا سفر کبھی شروع ہی نہیں ہو سکا۔جغرافیائی طور پر اس پاکستان نے مشرقی پاکستان کی قتل گاہوں میں دم توڑ دیا۔ستر فیصد پاکستانی 1971ء کے بعد پیدا ہوئے۔ کمزور یاداشت کی بیماری عام ہے۔ بہت کم کو احساس ہے کہ کیا ہوا یا یہ کہ کیاکبھی ایک اور طرح کا ملک بھی یہاں موجود تھا۔اس ملک کا نام چوہدری رحمت علی کی تخلیق تھا جو ہندوستانی مسلمان تھے اور تیس کی دہائی میں لندن میں مقیم تھے۔ لگتا ہے ان کے پاس کافی فارغ وقت تھا۔ انہوں نے ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں کے ابتدائی حروف کو ترتیب دیا: پ سے پنجاب، ا سے افغانستان، ک سے کشمیر، س سے سندھ۔ بد قسمتی سے پاک کا مطلب ’صاف‘ بھی ہے مگر دلچسپ بات ہے کہ اس میں بنگال یا بلوچستان کے لئے ب شامل نہیں۔ کیا فوج کے غلبے میں چلنے والا پاکستان پھر ٹوٹ سکتا ہے اور اگر پاکستان ٹوٹا تو خطے پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ ایک نئی تقسیم کس کے مفاد میں ہو گی؟جنہیں اپنی تاریخ کا علم یا سمجھ نہیں ہوتی، ان کے مقدر میںہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کودہرائے۔ آنے والے صفحات میں ایک بہتر مستقبل کی امید میں ماضی اور حال کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
…٭…