کیا پاکستان کو ری سائیکل کیا جا سکتا ہے؟
فروری 2008 ء میں امریکہ کے ایک معزز تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن ، واشنگٹن ڈی سی نے اخلاقی استغراق کی ایک مشق کا انتظام کیاجس کا عنوان تھا’’پاک امریکہ اسٹریٹیجک تعلقات۔‘‘جو پینل اس موقع پر موجود تھا وہ پرانے دوستوں پر مشتمل تھا اور نئی پلورل ازم کا آئینہ دار تھا۔یہاں موجود دو فوجی فلسفہ دانوں میں ایک تو تھے جنرل انتھونی زنی جو کبھی امریکی سینٹ کام کے سربراہ تھے۔ دوسرے پاکستان کی بری فوج کے سابق سربراہ جنرل جہانگیر کرامت تھے جو کبھی امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ یہ دونوںرچرڈ آرمیٹیج کے دائیں بائیں بیٹھے تھے، جو کبھی محکمہ خارجہ کی نمائندگی کرتے تھے اور موصوف نے ، جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے،گیارہ ستمبر کے بعد بعض حلقوں میں مشرف کو یہ دھمکی دے کر خاصی شہرت حاصل کی کہ وہ پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔ ایک نفیس شخص اور سلطنتِ امریکہ کے وفادار جنرل کرامت ،جنہوں نے اقتدار پر قبضے کی کوشش نہیں کی، فوری طور پر سمجھ گئے کہ بروکنگز کے پلیٹ فارم پر ان سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔اسٹریٹیجک تعلقات ساٹھ سالہ شاد ی میں آنے والے لازمی تنائو، جس کا خاکہ اس کتاب میں میں نے پیش کرنے کی کوشش کی، سے متعلق نہیں تھے بلکہ فوری امریکی ضروریات سے متعلق تھے جنہوں نے سالہا سال سے پاکستان کی حکمت عملی متعین کی۔
جنرل کرامت نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا’’ خواتین و حضرات ! پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے اس طرح کے سوال پوچھے جا رہے ہیں: پاکستان کی مغربی سرحد پر کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے، پاکستان اس بارے میں کیا کر رہا ہے۔‘‘انہوں نے یہ وضاحت کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ صورتحال پیچیدہ ہے ، بڑھتی ہوئی مزاحمت پاکستان کے سر نہیں تھوپی جا سکتی جبکہ روایتی قبائلی مَلک ہلاک کئے جا چکے ہیں اور انکی جگہ جنگجو لے چکے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ پاکستان کی خودمختاری سے مت کھیلا جائے کہ یہ کھیل الٹا پڑے گا ۔انہوں نے ’’زبردست مستقبل کے حامل اسٹریٹیجک تعلقات ‘‘پر زور دیتے ہوئے بات ختم کی۔
جنرل زنی نے سرپرستانہ انداز میں بات کی اور اس طرزِ گفتگو کی انتہائی بری مثال نظر آئے۔ انہوں نے کہا وہ پاکستانی فوج کو بخوبی جانتے ہیں۔ ان کا پہلا تعلق اس بٹالین سے بنا جو نوے کی دہائی کے آغاز میں صومالیہ میں لڑنے آئی اور اس نے مشکل حالات کے باوجود بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ ہندوستانی سپاہیوں کو انیسویں صدی میں چین کے اندر تائی پنگ بغاوت کچلنے پر شاباش د یتے ہوئے اس طرح کی بات جنرل چارلز گورڈن بھی کہہ سکتے تھے ۔ جنرل زنی جنرل کرامت کو بخوبی جانتے تھے اور بخوشی حاضرین کو بتا رہے تھے ’’جنرل کرامت لیون وَرتھ بلکہ یہ کہنا چاہئے لیون وَرتھ ہال آف فیم سے فارغ التحصیل ہیں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ اس نوع کا تعلق اور اس نوع کا ابلاغ ہی تھا جس نے ایک دوسرے سے گفت و شنید اور ساتھ کام کرنے میں، سیاسی ما حول کے باوجود، آسانی پیدا کی۔‘‘جنرل زنی نے پُر جوش انداز میں بتایا کہ جب کارگل جنگ کے دوران وہ 1999 ء میں پاکستان گئے تو کس طرح سب نے خیال رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی جنرل بل کلنٹن کی طرف سے دیئے گئے الٹی میٹم سے مسلح ہو کرپاکستان پہنچے تھے: بھارتی علاقہ خالی کر دو ورنہ! محکمہ خارجہ میں جنوب ایشیائی ڈیسک پرکام کرنے والے ایک اہل کار، ڈینس کُکس بتاتے ہیں کیا ہوا:
کارگل مہم پر حیران اور مایوس امریکی حکومت نے جو زبردست ردِ عمل دکھایا وہ اُسکی نسبت کہیں شدید تھا جس کا اظہار جانسن انتظامیہ نے 1965 ء کی کشمیر جنگ کے دوران ظاہر کیا تھا۔ صدر کلنٹن نے نواز شریف کو فون کیا اور زور دیا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائیں ساتھ ہی جنرل زنی کو اسلام آباد بھیجا تا کہ وہ یہی پیغا م براہ راست وزیر اعظم کے علاوہ جنرل پرویز مشرف کو بھی پہنچائیں جو جنرل کرامت کی جگہ لے چکے تھے۔ پاکستان کے اس دعوے کو ردکرتے ہوئے کہ پاکستان کارگل کارروائی میں براہِ راست ملوث نہیں اور یہ کہ مجاہدین اس کے اختیار میں نہیں، امریکی جنرل نے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ گھس بیٹھ کرنے والوں کو لائن آف کنٹرول کے اس پار واپس بلائیں۔ امریکہ توکجا جب چین بھی پاکستان کی حمایت کرنے پر تیار نہ تھا ، اسلام آباد عالمی سطح پر مکمل طورپر تنہا رہ گیا تو اس نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا۔1
یہ خاص مقصد کے لئے منعقد کیا گیا ایک دوستانہ اجلاس تھا لہٰذا جنرل زنی کوئی بد مزگی پیدا نہیں کر نا چاہتے تھے۔ زنی نے جنرل کرامت کے اس موقف کی تائید کی کہ مغربی سرحد کے حوالے سے پاکستان پر زیادہ دبائو نہ ڈالا جائے۔ پہلے ہی پاکستان کے بہت سے فوجی کام آ چکے تھے۔ زنی نے ایسا کہا تو نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوجیوں اور مرسنریز کی نسبت پاکستانی فوجی افغان سرحد پر جاری جنگ میں زیادہ بڑی تعداد میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستانی فوج جان بوجھ کر اپنے جانی نقصان کو کم کر کے بیان کرتی ہے۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ 2004 ء تا 2006 ء کے عرصے میں وزیرستان میں ہونے والی فوجی مہم میں اس کے ایک ہزار فوجی کام آئے۔ 2007 ء میں جب میں پشاور گیا تو مقامی صحافیوں نے بار باربتایا کہ درحقیقت تین ہزار سے زیادہ ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔
اِس شو میں اس وقت جان پڑی جب رچرڈ آرمیٹیج نے مائیک سنبھالا۔ سفارتی نزاکتوں سے دامن بچاتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان افراتفری کا شکار ہے، 1947ء سے ہی افراتفری کا شکار ہے، پاکستان ایک نہیں چار ملکوں پر مبنی ہے ( یہ اس کے چار صوبوں کی طرف اشارہ تھا) بلکہ وزیرستان میں القاعدستان کی صورت پانچواں ملک بھی موجود ہے۔ اس ضمن میں امریکی ذمہ داری ان کے خیال میں جزوی تھی اور امریکی مداخلت کو انہوں نے فقط ایک سویت افغان جنگ تک محدود کر دیا:’’ہمیں اچھی طرح پتہ تھا ہم اس وقت پاکستان میں کیا کر رہے تھے اور ہمیں اچھی طرح پتہ تھا ہمارے چلے جانے کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا۔ یہ کوئی راز کی بات نہ تھی۔‘‘دوسرے الفاظ میں انہیں معلوم تھا کہ انہوں نے ملک مذہبی گروہوں اور آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ’’ٹشو پیپر‘‘ کی طرح استعمال کر رہے تھے (جیسا کہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈینس کُکس کو بتایا)۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ پاکستان کو ’’کنڈوم‘‘ کے طور پر استعمال کر رہے تھے جیسا کہ ایک ریٹائر ڈ اور تلخ جرنیل نے میرے لئے ’’اسٹریٹیجک تعلقات‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے بتایا۔اس کتاب میں بار بار میں یہ کہہ چکا ہوں کہ1955ء کے بعد سے پاکستان کی اندرونی و بیرونی حکمتِ عملی کا تعین امریکی ترجیحات کے پیشِ نظر ہوتا تھا۔اس طویل کھیل کا نقطہء عروج افغان جنگ تھی۔ اس تجربے سے پاکستانی فوج اس قدر خوش ہوئی کہ اس نے اسے کشمیر اور کارگل میں بھی دہرایا ور یہ بھول گئی کہ ’’کنڈوم‘‘ آخر ’’کنڈوم‘‘ ہوتا ہے۔
اہم بات ہے ، کرامت اور زنی کی طرح ،آرمیٹیج نے بھی کہا کہ امریکی دَستوں کو پاکستان کے اندر کارروائی کی اجازت کے لئے پاکستانی حکومت پر دبائو نہ ڈالا جائے ۔واشنگٹن میں اس بابت اندرونِ خانہ ایک سال سے بحث چل رہی تھی۔ صدارتی امیدوار بارک اوبامہ نے ایک غیر ذمہ دارانہ مداخلت کی تھی۔انہوں نے سرِ عام فوجی معاملات میں اپنی نا اہلی ثابت کی جب انہوں نے سخت گیر موقف رکھنے والوں کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کے اندر حملوں کی بات کی۔ آرمیٹیج نے کہا کہ انکی نظر میں افغانستان کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک مستحکم اور جمہوری پاکستان پر ہے مگر ایسی جموریت نہیں جو وینزویلا میں ہے۔ وینزویلا بارے جملہ کسنا بالکل غیر ضروری تھا لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آرمیٹیج کے ذہن پر آج کل کونسا دوسرا خبط سوار ہے۔ لگتا ہے ان باتوں کا وائٹ ہاؤس پرکوئی اثر نہیں پڑا۔ 12 اپریل 2008 ء کو امریکی صدر نے اے بی سی نیوز کو مطلع کیا کہ دنیا کا خطر ناک ترین ملک عرا ق ہے نہ افغانستان بلکہ پاکستان ہے کیونکہ وہاں القاعدہ موجود ہے جو امریکہ پر حملے کی تیاری میں مصروف ہے۔ منطق واضح ہے مگر بات کھل کر نہیں کہی گئی: پاکستان کے اندر ممکنہ مداخلت کے لئے عوامی رائے عامہ کو تیار کرنا۔ جاسوسی طیارے کافی نہیں۔ جو اصل مسئلہ ہے اس کا ذکر نہ آرمیٹیج نے کیا نہ ریٹائرڈ جرنیلوں نے ۔ مسئلہ ہے افغانستان میں جنگ اور کابل میں انتظامی مسائل، جہاں معاملات ایک ایسی حکومت کے ہاتھ میں ہیں جسے امریکہ کی پوری حمایت ا ور سر پرستی حاصل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ دونوں ملکوں کا مستقبل ایک دوسرے پر منحصر ہے لیکن جیسا کہ 2008 ء میں ہونے والے پاکستانی عام انتخابات نے ثابت کیا اور جیسا کہ ہم میں سے بعض لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ مذہبی جماعتوں اور گروہوں کو ہی زیادہ حمایت حاصل نہیں کجا مسلح جدجہد کرنے والے جہادی جتھے۔ آپریشن اِنڈیورِنگ سٹرام سے پیدا ہونے والا بحران پاکستان میں مصیبت کھڑی کر رہا ہے اور پاکستانی فوج کے حوصلے پست کر رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل واشنگٹن اور کابل میں ہے ۔ اسلام آباد اور یورپی یونین تو محض وفادار اتحادی ہیں جن کے پاس بحران حل کرنے کے لئے کوئی زیادہ اختیارات نہیں ہیں۔
ہندوستان میں خود کو سب سے اہم سمجھنے والے انگریز وائسرائے ،لارڈ کرزن کی یہ بات مشہور ہے کہ ’’وزیرستان میں للو پتھو سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔جب تک فوجی اسٹیم رولر ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہیں پھیرا جاتا، امن قائم نہیں ہو گا۔ میں البتہ وہ شخص نہیں جو یہ مشین حرکت میں لانا چاہے گا۔‘‘یہ توقع کرنا کہ پاکستان ایسا کرے گا اور اس عمل میں ایک ایسے خطے میں اپنے ہی ہزاروں لوگوں کو ہلا ک کر دے گا جہاں سے وہ سپاہی بھرتی کرتا ہے، اسے خود کشی کے راستے پر گامزن کرنے کے مترادف ہے۔ مضبوط ترین عسکری قیادت بھی ایسے حالات میں شائد نظم و ضبط برقرار نہ رکھ پائے۔
اگر امریکہ نے براہِ راست ایسا کرنے کی کوشش کی تو پاکستانی فوج تقسیم ہو جائے گی۔ بہت سے جونئیر افسر فرار ہو کر پہاڑوں کا رخ کریں گے اور مزاحمت کا حصہ بن جائیں گے۔ فوجی قیادت کو مسلسل یہ خبریں ملتی رہتی ہیں کہ بڑی تعداد میں فوجی دستے اپنے سے کہیں چھوٹے گوریلا گروہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اسے یہ احساس ہے کہ صوبہ سرحد میں جاری جنگ اس کے دَستوں میں مقبول نہیں۔ فوجی اس لئے ہتھیار ڈال رہے ہیں کہ وہ ’’امریکی جنگ‘‘ نہیں لڑنا چاہتے اور اپنے ہم مذہبوں کو ہلاک نہیں کر نا چاہتے۔ جونئیر افسر قبل از وقت ریٹائر منٹ لے رہے ہیں تاکہ وہ افغان سرحد پر دوبارہ تعیناتی سے بچ سکیں۔ اگر آج یہ صورت ِحال ہے تو پاکستان میں براہ ِراست فوجی مداخلت کے بعد کیا صورتِ حال ہو گی۔
تا دمِ تحریر عراق جنگ کا خرچہ تین ٹریلین ڈالرتک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں مکمل جنگ کے لئے اس سے کہیں زیادہ درکار ہوں گے۔ اگر پاکستانی فوج نے پیسہ اور ا سلحہ لیکر، بہ الفاظِ لارڈ کرزن، اسٹیم رولر بننے کا فیصلہ کیاتو ’’ایٹمی بٹن پر جہادی انگلی‘‘کا جو حوالہ مغرب دیتا ہے ، وہ پیشگوئی سچ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ میں گذشتہ باب میں کہہ چکا ہوں کہ اس بحران سے نپٹنے کا راستہ صرف اس کا علاقائی حل ہے۔
آرمیٹیج نے یہ تو تسلیم کیا کہ ملک میں مذہبی بنیاد پرستی کو زیادہ حمایت حاصل نہیں مگر زور دیا کہ ملک میں قیادت اور گورننس کا بحران ہے ۔ انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ جنرل مشرف کا کوئی واضح متبادل نہیں:
بد قسمتی سے مرحومہ بے نظیر بھٹو کے پاس بطور منتخب رہنما موقع تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ بلا وجہ انہیں دبئی میں اتنے سال نہیں گزارنے پڑے جبکہ مسٹر نواز شریف کے بھی اپنے مسائل تھے۔ میں زیادتی نہیں کرنا چاہتا مگر ایک مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ کوئی قابلِ قدر امیدوار موجود نہیں۔
میرا اپنا بھی یہی خیال ہے مگر مندرجہ ذیل نقطہ معترضہ کے ساتھ۔ بحران سے نپٹنے کے لئے اگر کوئی فوجی تلاش کیا گیا تو کام بالکل ہی ٹھپ سمجھئے۔ اپنے پیشرو کی طرح کرسی پر بیٹھا ہوا موجودہ شخص بالکل ناکام ہو چکا ہے جیسا کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر بروکنگز کے ایک اور ماہر ، اسٹیفن کوہن نے ،جو پاکستانی معاملات پر نظر رکھتے ہیں، فنانشل ٹائمز کی ویب سائٹ پر الیکشن سے قبل میرے ساتھ ایک بحث میں زیادہ زیرکی کا مظاہرہ کیا:
میں یہ کہوں گا کہ اب مشرف کو زیادہ تر امریکی ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے آگے امریکی فوج ہے جسے پاکستان میں موجود طالبان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۔۔۔میرے خیال سے بہتر ین صورت میں تو یہ ہو گا کہ مشرف کو اس مرکب کی طرف سے راستہ فراہم کیا جائے گا جس میں ایک طرف تو فوج شامل ہے ، جس کے لئے مشرف اب باعث ِ شرمندگی ثابت ہوں گے، دوسری جانب غیر ملکی حمایتی ،بشمول امریکہ ،شامل ہیں لیکن چین اور یورپ والوں کو بھی احساس ہے کہ پاکستان کو موثر اور مربوط قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو درپیش مسائل سے نپٹ سکے جن میں ایک اہم مسئلہ بڑھتا ہوا تشدد ہے۔
کوہن کی یہ بات تو سچ ہے مگر بہت سے امریکی تجزیہ نگاروں کی طرح وہ اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ مسلسل امریکی مداخلت کے نتیجے میں پاکستانی سیاست کا قدرتی ارتقاء بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاست اوسط درجے کے ،داغدار سیاستدانوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جنہوں نے آج تک ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش کم ہی کی ہے اور جن کو اگرکوئی ہنر آتا ہے تو وہ ہے اپنی روٹی سینکنے کا۔مشرف نے اپنی موت کے پروانے پر اسی وقت دستخط کر دئیے تھے جب انہوں نے ایک ایسے ہی سیاسی دھڑے ۔۔۔۔گجرات کے چوہدری۔۔۔۔کے ساتھ اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے سمجھوتہ کیا۔یہ سمجھوتہ اس بات کا اعلان تھا کہ ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
اس کے باوجود اگر پاکستان میں اقتدار کی سیاست کے موجودہ گھن چکر کو توڑا جائے تو ایک نئی تحریک یا جماعت سامنے آ سکتی ہے جو موجودہ سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی لے آئے۔ ایک مثال تو قائم ہو چکی ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وکیلوں کی تحریک شروع ہو جائے گی اور ملک کے جج روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تنہائی کا شکار ایک فوجی حکومت کو لامحدود اختیار دینے سے انکار کر دیں گے؟یہ اس وقت ہوا جب آمریت بدنام اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں غیر موثر ہو چکی تھیں۔ اپنی محدودیت کے باوجود عدلیہ نے خلاء کو پورا کیا۔ ایک غیر مقبول اور بدعنوان حکومت کے خلاف آئینی درخواست قبول کرنے کا جو وقت چیف جسٹس نے منتخب کیا وہ بالکل مناسب تھا۔ ان کے اقدامات نے عوام کو سیاست میں متحرک کر دیا اور یوں 2008 ء میں حزبِ اختلاف کے لئے انتخابات میںجیت کی راہ ہموار ہو گئی۔
اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ فروری 2008 ء کے انتخابی فاتحین۔۔۔۔بے نظیر کے شوہر اور شریف برادران۔۔۔۔ آزمودہ کار نا اہل ہیں۔ ان کی سیاسی جماعتوں میں گھٹن آمیز بزدلی اور جی حضوری کا ماحول ہے جس میں سمجھوتے بازی اور سودے بازی کا اختیار صرف جماعت کے قائد کو حاصل ہے۔عالمگیریت کا شکار اس دنیا میں کہ جب سیاسی اختلافات نہ ہونے کے برابر ہیں، ان کے جیتنے کی بڑی وجہ، جیسا کہ اب مغرب میں بھی ہو رہا ہے، یہ تھی کہ رائے دہندگان حکومتِ وقت سے نجات چاہ رہے ہوتے ہیں۔ مشرف میں خوش فہمیاں دم توڑ چکی تھیں۔ ان کے کاسہ لیس غیر مقبول ہو چکے تھے۔ جب فوج کے سربراہ نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اجازت نہیں دی تو دھاندلی بہت احتیاط سے کی گئی تا کہ بے نظیر کی امریکہ کے ساتھ ہونے والی سودے بازی متاثر نہ ہو اور کسی جماعت کو اکثریت نہ ملنے پائے۔
بے نظیر بھٹو نے مشرف کا جونئیر پارٹنر بن کر کام کرنے کی حامی بھری تھی اور ،ضرورت پڑنے پر، مشرف کے پسندیدہ گجراتی چوہدریوں کے ساتھ کام کرنے پر بھی رضامندی کا اظہار کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی تازہ ترین سفیر اینا پیٹر سن نے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد بے نظیر کے شوہر آصف زرداری کو طلب کیا اور ،یقیناََ سفارتی زبان میں، کہا کہ انہیں نہ صرف اپنی بیوی سے پیپلز پارٹی ورثے میں ملی ہے بلکہ انکی سیاسی وراثت بھی ان کے حصے میں آئی ہے۔زرداری پر دبائو ڈالنے کے لئے مشرف کے پراپیگنڈہ بازوں نے ذرائع ابلاغ میں خبریں جاری کروائیں کہ پاکستان اور یورپ میں انکے خلاف بد عنوانی کے مقدمات ختم نہیں ہوئے۔ صرف انکی بیوی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ ویسے گھٹیا بات تھی کہ میا ں بیوی نے مل کر سب کچھ کیا تھا لہٰذا اگر بیوی کو معافی ملی تو خاوند کو بھی ملنی چاہئے تھی لیکن کوئی بھی معاملہ اتناسیدھا نہیں ہوتا جتنا وہ نظر آتا ہے۔ آخر کار، پاکستان میں مقدمات ختم کر دئے گئے۔
ملک کو ری سائیکل کیا جا سکتا ہے اور اسے جدت کی راہ پر بھی گامزن کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے بڑے پیمانے پر ملک کے ڈھانچے میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اگر پاکستان کے مسائل کو مذہبی انتہا پسندی، وزیرستان میں دوہرے اقتدار اور ایٹمی ہتھیاروں تک محدود کر دیا جائے تو یہ حقائق سے آنکھیں چرانے اور دشمن کے ہاتھ میں کھیلنے والی بات ہے۔ جیسا کہ میں اس کتاب میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ سب مسائل غیر اہم نہیں ہیں مگر اِن مسائل کی وجہ یہ ہے کہ سالہا سال سے امریکہ کی فرمانبرداری کی جا رہی ہے۔ عدم توازن بالکل واضح ہے۔ 2001 ء میں جب امریکہ کو دوبارہ اس ملک سے دلچسپی پیدا ہوئی تو قرضہ جات اور دفاع پر ملکی اخراجات کا دو تہائی صرف ہو رہا تھا۔۔۔۔بالترتیب 257 ارب روپے اور 149 ارب روپے۔۔۔۔جبکہ کل محاصل 414.2 ارب روپے تھے۔ ایک ایسا ملک جس کا سرکاری نظامِ تعلیم ایشیاء میں بد ترین شمار ہوتا ہو۔۔۔۔70 فیصد عورتیں اور41 فیصد مرد ان پڑھ ہیں۔۔۔۔جہاں ملک کی نصف آبادی کے لئے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہوں وہاں ترقیاتی بجٹ کی مد میں فقط 105.1 ارب مختص کئے گئے۔
نوے کی پوری دہائی میں آئی ایم ایف سول حکومتوں کوڈانٹ پلاتا رہا کہ وہ ری سٹرکچرنگ کے وعدے پورے نہیں کر پائیں۔اس کے بر عکس 1999ء کے بعد سے ’’ کفایت شعاری کے لئے کئے گئے اقدامات سے عوام کیلئے پیداہونے والی مشکلات کے باوجود‘‘ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے مشرف کی بھر پور تعریف کی گئی۔ بے ہنگم پھیلتے ہوئے شہروں کی کچی آبادیوں اور دیہی علاقوں میں ۔۔۔۔جہاں ابھی بھی ملک کی 67.5 فیصد آبادی رہتی ہے۔۔۔۔غربت اور مایوسی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔56 ملین پاکستانی، جو ملکی آبادی کا تیس فیصد بنتے ہیں، غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مشرف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس تعدادمیں15 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب ،جہاں ملک کی ساٹھ فیصد آبادی رہتی ہے، ملک کے چاروں صوبوں میں سیاسی و معاشی لحاظ سے غالب حیثیت رکھتا ہے۔ فوج اور نوکر شاہی پر پنجابی چھائے ہوئے ہیں اور جو کچھ بھی ترقیاتی کاموں کے لئے موجود ہوتا ہے اسے مقامی منصوبوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ سندھ جہاں 23 فیصد ملکی آبادی رہائش پزیر ہے اور بلوچستان جہاں 5 فیصد آبادی بستی ہے، فنڈز، پانی اور بجلی کی کمی کا شکار رہتے ہیں جبکہ سرحد کی معیشت کا انحصار ہیرویٔن کی دولت پر بڑھتا جا رہا ہے۔
مستقل امریکی باجگزار بنے رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس کی بجائے اگر کچھ تبدیلیاں لائی جائیں توا یشیاء کے بعض دیگر حصوں کی طرح تیز رفتار معاشی ترقی ممکن ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ ریاستی سطح پر جمہوری اداروں کو بھی مضبوط بنایا جا سکتا ہے:
اوّل، سنجیدہ زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں کے اندر معاشی و سیاسی قوت تقسیم ہو سکے، غربت میں کمی آئے، کسانوں اور کسان کو آپریٹوز کو سبسڈی دی جائے۔ یورپ اور امریکہ میں ،عموماََتیسری دنیا کے کسانوں کی قیمت پر، زبردست سبسڈی دی جاتی ہے۔ پاکستان کے چھوٹے کسان کو سبسڈی بہت ہی مفید ہے مگر اشرافیہ ایک ایسے عالمی نظام سے جڑی ہوئی ہے جس میں منڈی کو ترجیح حاصل ہے لہٰذا ایسا کوئی منصوبہ مشکل ہے۔زمین کی ملکیت چند ہاتھوں میں محدود ہے۔20 فیصد کے پاس 35 ایکڑ سے زائد زمین کی ملکیت ہے۔10 فیصد ایسے ہیں جن کی ملکیت 100 ایکڑسے زائد ہے۔ سندھ میں 86 فیصد، بلوچستان میں 78 فیصد، پنجاب میں 74 فیصد اور سرحد میں 65 فیصد گھرانے زمین کی ملکیت سے محروم ہیں۔ملک کی سترہ کروڑ آبادی میں 55 فیصد بے زمین ہے۔ یہ عدم مساوات دیہی علاقے میں غربت کی اصل وجہ ہے۔
مسئلہ نظام میں ہے۔ معیشت کی پیداواری بنیاد محدود ہے۔ کپاس ، جس کی پیدوار پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، پہ زبردست انحصار ہے یا کم سرمایہ کاری پر مبنی ٹیکسٹائل کی صنعت ہے جس پر تکیہ ہے۔پانی کی فراہمی محدود ہے، مٹی کی زرخیزی میں کمی آ رہی ہے جبکہ سیم تھور میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ نقصان دہ وہ سماجی رشتے ہیں جو دیہی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ کم زرعی پیداوار کا مداوا فقط زرعی اصلاحات ہیں لیکن خاکی ریاست اور جاگیردار کے گٹھ جوڑ نے ایسا ناممکن بنا رکھا ہے جیسا کہ ا کانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے:
تبدیلی کے رستے میں صرف یہ بات رکاوٹ نہیں کہ سٹیٹس کو ان امیر جاگیرداروں کووارے میں ہے جو اس شعبے میں ہی نہیں صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں بھی حاوی ہیں۔ بڑے زمیندار قابلِ کاشت اراضی کے چالیس فیصد اور نہری نظام کے بڑے حصے پرقابض ہیں۔ عالمی بنک سمیت دیگر آزاد اداروں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود چھوٹے کاشت کاروں کی پیداوار بہتر ہے۔ یاد رہے جاگیردار ٹیکس دینے کے معاملے میں پیچھے، قرضے لینے میں آگے اور قرضے لوٹانے میں پیچھے ہیں۔1
کمزور معیشت کو کئی دہائیوں سے فوجی ڈھانچہ بھی چوس رہا ہے۔ ’’سکیورٹی وجوہ‘‘ کی بنیاد پر اس کے بجٹ کی تفصیلات پیش نہیں کی جاتیں۔ ایک سطر میں کل رقم بتا دی جاتی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی منتخب ادارے کا یہ اختیار بہت محدود رہا ہے کہ وہ فوج کے معاملات کی جانچ پڑتال کر سکے۔ شہریوں کو کچھ معلوم نہیں کہ 2.5ارب ڈالر کس طرح بری فوج(550,000 کی تعداد، دو ہزار ٹینک، دو آرمڈ ڈویژن)، فضائیہ(دس لڑاکا اسکوارڈن اور ہر اسکوارڈن میں چالیس جنگی جہاز نیز فرانسیسی اور امریکی میزائل نظام) اور بحریہ (دس بحری آبدوزیں، آٹھ فریگیٹس) میں تقسیم ہوتے ہیں کجا یہ معلوم ہو سکے کہ ایٹمی اسلحے اور ڈِیلیوری سسٹم پر کتنا خرچ ہو رہا ہے۔
ایسے میں وزارت ثقافت کا یہ نعرہ سرئیل اسٹ نہیں تو مضحکہ خیز ضرور نظر آتا ہے: گرواینڈ گلوبلائز۔اس نعرے کا مفہوم یہ ہے کہ برازیل کی طرح زمین کے بڑے بڑے حصے عالمی زرعی کمپنیوں کو بیچ دئے جائیں جبکہ کاشت کاروں کو ٹھیکے پر کام کرنے والا ملازم بنا دیا جائے۔وفاقی وزارتِ خزانہ کے ایک اہل کار کا یہ بیان حال ہی میں اخبارات کی زینت بنا’’زرعی اصلاحات کا دور گزر چکا ۔ اب حکومت نج کاری، لبرلائزیشن اور ڈی ریگولیشن کے ذریعے روزگار کے مواقعے پیدا کرنا چاہتی ہے۔ منصوبہ بندی کے لئے لکھی جا رہی اگلی دستاویز میں زرعی اصلاحات کا کوئی منصوبہ زیر ِبحث ہی نہیں لایا جا رہا۔‘‘اس بے رحم نئی سوچ نے پرانی طرز کے جاگیرداروں کو نئی زندگی دی ہے۔ سندھ میں ،مثلاََ، جاگیردار عدالتیں لگاتے ہیں،سیاست پر حاوی ہیں، اپنی جاگیروں پر مطلق العنان حکمران بنے رہتے ہیں اور اپنے ہی انداز میں اس بات کا بندوبست کرتے ہیں کہ ہاری بھوکا نہ مر جائے ۔ممتاز بھٹو (بے نظیر کے چچا) جیسے بعض جاگیردار تو سرِ عام کہتے ہیں کہ انکی جاگیروں پر کام کرنے والے ہاری ،جو ابتدائی سرمایہ دارانہ عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں جس کا موقع عالمگیریت پیش کر رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے یہ جاگیردار زمین کی تقسیم کے تیسرے متبادل بارے تو کبھی سوچیں گے بھی نہیں۔
زرعی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا سماجی ڈھانچہ تشکیل دینے کی فوری ضرورت ہے جو عوام کی اکثریت کے لئے قابلِ عمل ثابت ہو۔ اس کے لئے تین شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے: تعلیم ۔صحت ،اور سستے گھر۔ تعلیم اور صحت تو کسی بھی حکومت کی اسٹریٹیجک ترجیح ہونی چاہئے۔ 2007-8 میں اقوامِ متحدہ نے جو اعداد و شمار جاری کئے ان کے مطابق ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس پر پاکستان کا نمبر 177 ممالک کی فہرست میں 136واں تھاجو کہ سری لنکا ، بھارت، مالدیپ اور برما سے بھی نیچے تھا۔ ناخواندگی میں درحقیقت اضافہ ہو گیا ہے اور ہوتا رہے گا تا آنکہ اس میں کمی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔پرائمری سکول میں نام درج کرانے والے بچوں کی شرح، جو یقیناََ بڑھا چڑھا کر بتائی جاتی ہے، 53 فیصد ہے جو جنوبی ایشیاء میں سب سے کم ہے۔ مجھے اسلام آباد میں بتایا گیا کہ وزارتِ تعلیم ایسے اساتذہ کو تنخواہیں دیتی ہے جو ملازم ہی نہیں، ایسے سکولوں کی عمارتوں کے اخراجات ادا کئے جاتے ہیں جہاں کوئی پڑھتا ہی نہیں۔ اس طرح کے اور بھی گھپلے ہیں جن کی وجہ سے شائع شدہ اعداد و شمار بڑے دکھائی دیتے ہیں۔سرکاری طور پر بھی تو تعلیم پہ جی ڈی پی کا 2.4 خرچ کیا جاتا ہے جو نیپال سے بھی کہیں کم ہے۔ پرائمری تعلیم کی اس زبوں حالت کے باوجود سالانہ مختص ہونے والے بجٹ کا پچاس فیصد استعمال نہیں ہو سکتا کیونکہ نظام میں گنجائش ہی نہیں ہے۔ اکثر چھوٹے شہروں میں سکولوں کی عمارتیں خستہ حالت میں ہیں یا خالی پڑی ہیں جبکہ اساتذہ کی تعداد محدود۔اس صورتحال کے پیشِ نظر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہت سے غریب خاندان اپنے بچوں کو مدرسوں کے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں جہاں انہیں رہنے اور کھانے پینے کے علاوہ پڑھنے کا بھی موقع ملے گا اور پڑھائی سرکاری سکولوں سے تو بہتر ہی ہو گی۔ نجی تعلیمی ادارے مہنگے بھی ہیں اور انکی طبقاتی بنیاد بھی ہے۔ اگر غریب کے بچے کو کہیں سے ادھار یا مالی مدد بھی مل جائے تو اسے داخلہ نہیں ملتا۔ پاکستانی معاشرے میں اس خامی کی ذمہ دار 1947 ء کے بعد آنے والی ہر حکومت ہے۔اس ضمن میں بھٹو، باپ بیٹی، ضیاء اور مشرف سے کسی طور بہتر ثابت نہیں ہوئے۔ عمدہ معیار او رریاستی نظامِ تعلیم جس میں انگریزی لازمی مضمون ہو (ملائشیا کی طرح) ایک ایسا اقدام ہوگا جس کی ہر صوبے میں زبردست پزیرائی ہو گی اور ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔
تعلیمی مواقع تو شائد محدود سے ہوں مگر غریب کے لئے صحت کی کوئی سہولت نہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہر دس ہزار افراد کے لئے دس ڈاکٹر اور ایک ڈینٹسٹ ہے جبکہ سائکاٹرسٹ تو پانچ سو سے بھی کم ہیں حالانکہ اس ملک میں ذہنی الجھنوں اور ذہنی صدمے کا شکار لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خوراک کی کمی، سانس کی بیماریاں ، ٹی بی اور ایسی بے شمار بیماریاں جن کا علاج ممکن ہے، عام پائی جاتی ہیں۔ ہر گیارھواں شخص ذیابیطس کا مریض ہے۔ سہولتوں کی کمی ، پاکستان کے لگ بھگ ایک چوتھائی ڈاکٹر امریکہ میں کام کرتے ہیں، کے پیشِ نظر اگر سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھی جائے تو وہ شرمناک ہے۔ اکثر ڈاکٹر نجی ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں یا اپنا کلینک چلاتے ہیں جہاں صرف امیر وں کا علاج ہوتا ہے۔ اعداد و شمار تو میسر نہیں مگر لاہور،کراچی اور اسلام آباد میں ایسے جدید نجی ہسپتالوں کی تعداد سو کے قریب ہو گی۔
بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے جبکہ غریبوں کو دوائی میسر نہ ہونا ایک مستقل لعنت ہے۔ یہ المیہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ فرور ی 2008 ء میں جب نئی حکومت بنی تو اس نے اپنی جن بیس ترجیح وزارتوں کا اعلان کیا ان میں ’’صحت اور ہیومن ڈویلپمنٹ‘‘ کی وزارتیں شامل نہ تھیں۔
جہاں تک تعلق ہے رہائش کا تو حکومت یا حاضر سروس سرکاری ملازموں کورہائش فراہم کرتی ہے یا فوج کو۔چھاونیوں میں زمین کی نجکاری سے البتہ یہ ہوا ہے کہ شہر کے مضافات میں نئی فوجی آبادیاں وجود میں آ رہی ہیں۔
نظامِ عدل بھی امیر کے حق میں ہے۔ چیف جسٹس کے گرد ہونے والے حالیہ واقعات اپنی جگہ، پاکستان میں ججوںکی اکثریت بزدل، فروگزار، متلون، متعصب اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بد عنوان ثابت ہوئی ہے۔ ضیاء آمریت نے ان کو اتناخوفزدہ کر دیا کہ وہ اطاعت گزاری پر اتر آئے۔ضیاء کے سویلین جانشینوں نے سیاسی بنیادوں پر اپنے حامی تعینات کئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں انصاف اندھا نہ رہا ۔ ترازو میں روپے تولے جاتے۔ بلا شبہ کچھ با عزت استثناء بھی تھیں۔ ملک میں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جائیداد یا کارپوریٹ مقدمات میں سینئر وکیل سے جب اسکی فیس پوچھی جاتی تو سیدھا سادہ سا جواب ملتا آپ کتنے جج خریدنے پر تیار ہیں۔
سپریم کورٹ کی حالیہ ایکٹوازم جس کے نتیجے میں ملک کے واحد عدالتی بحران نے جنم لیا، اس محاذ پر امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے۔ یہاں یہ بات البتہ یاد رکھنی چاہئے کہ بوسیدگی ابتدائی سطح پر جنم لیتی ہے۔ عدالتی اصلاحات، بشمول عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں مکمل علیحدگی، ایک غیر فعال ریاست کو بحال کرنے کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ ’’غیر قانونی‘‘ آمدن کا راستہ روکنے کے لئے مناسب تنخواہیں بھی ضروری ہوں گی۔ مشرف کے برطرف کردہ چیف جسٹس اور جج ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے۔ اگر اس مسئلے پر پیپلز پارٹی کے اپنے اندر اور نواز شریف کے ساتھ اختلافات طے بھی کر لئے جائیں تو بھی جو خامیاں نظام میں موجودہیں ،دور نہیں ہوں گی۔
مشرف آمریت اکثر اس بات پر اتراتی تھی کہ اس نے ملکی تاریخ میںپہلی بار ذرائع ابلاغ کو آزادی دی ہے۔ یہ بڑ جزوی حد تک درست تھی۔ پاکستان کے دو پہلے فوجی آمروں نے میڈیا کی آزادی کو بری طرح کچلا۔ بھٹو بھی آزادی صحافت کے کوئی بڑے حامی نہ تھے نہ ہی نواز شریف تھے۔ گو بے نظیر نے اخبارات کے معاملات میں مداخلت نہیں کی مگر وہ اور انکے شوہر پی ٹی وی والوں کو مسلسل ہدایات جاری کیا کرتے تھے اور سرکاری ٹی وی کے لئے ان ہدایات کو نظرانداز کرنا مشکل تھا۔ اس کے برعکس مشرف نے اپنی صدارت کے ابتدائی دور میں ، جب وہ پُر اعتماد تھے، ٹیلی وژن پر ریاستی اجارہ داری ختم کی۔ مواصلاتی لہروں کو آ زاد کر دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے نئے چینل سامنے آئے جن پر بڑھیا قسم کی رپورٹنگ اور تجزیوں کا معیار ان کے بھارتی اور برطانوی ہم منصبوں کی نسبت بہت بہتر ہوتا۔ مست و مغرور مشرف نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انہیں آزادی صحافت سے کوئی خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ پاکستان کے لوگ سرکاری ٹی وی پر خبر نامے سے زیادہ کیبل پر بھارتی ٹی وی اور خبریں زیادہ دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پرانے براڈ کاسٹنگ نظام کی اصلاح سے مقامی سرمایہ دار کو فائدہ ہو گا جبکہ غیر ملکی چینلز کے ساتھ صحتمندانہ مقابلہ جنم لے گا اور ہوا بھی یہی۔
جنرل مشرف البتہ پاکستانی صحافیوں کی ، جن کا ایک بڑا حصہ ماضی کی آلائشوں سے پاک نئی نسل پر مبنی تھا، سچ تلاش کرنے کی صلاحیت کا درست اندازہ نہ کر سکے۔ ملک کی تقسیم ایسے تاریخی بحران پہلی بار کھل کرز یرِ بحث آئے اور جرنیلوں کو مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ لازمی با ت تھی کہ ابتدائی آزادی کے بعد سنسر شپ لاگو کرنا پڑا۔ 2007ء میں جب ایمر جنسی لگی تو وکلاء تحریک کی میڈیا کوریج اس کا ایک اہم ہدف ٹھہرا۔ ملک کا سب سے بڑا چینل ،جیو، کئی ماہ تک نہ دیکھا جا سکا۔ حکومت نے ایسے ضابطے متعارف کروائے جنہوں نے نیوز براڈکاسٹنگ کو نقصان پہنچایا۔ مشرف کا اصرار تھا کہ نیوز چینلوں کو اگر نشریات دکھانی ہیں تو ایک ضابطہ اخلاق پر دستخط کرنا ہوں گے جس کے مطابق مشرف اور حکومتی اہلکاروں کا مذا ق اڑانے والے صحافیوں کو جرمانے اور قید کی سزائیں دی جا سکتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’’میڈیا کو احتجاج نہیں کرنا چاہئے۔ میڈیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دینا چاہئے۔‘‘وہ سی این این اور بی بی سی کا سوچ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے۔
نئی حکومت کی وزیر اطلاعات نے اپریل 2008 ء میں اعلان کیا کہ نئی حکومت نئی قانون سازی متعارف کروانے والی ہے جس کے تحت میڈیا کو آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔
پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسی کا باہمی رشتہ کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ ایک ایسی خارجہ پالیسی کے بجائے جس کا انحصار بڑی طاقتوںپر ہو،ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس کا مرکز و محور جنوبی ایشیاء اور عالمی معاملات پر مشترکہ جنوب ایشیائی حکمت عملی ہو۔یورپی یونین کی طرز پر، مگر زیادہ مربوط انداز میں ، جنوب ایشیائی یونین تشکیل دی جائے تو طویل المدت بنیادوں پر یہ پورے خطے کے حق میں ہو گا۔ ایک ایسے عہد میں کہ جب امریکہ ریاستوں کی تقسیم اور کوسوو، کروشیا یا کردستان ایسی جگہوں پر موکل قوم پرستی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، علاقائی اتحاد و یگانگت کے نتیجے میں یہ ہو گا کہ کشمیر اور تامل تنازعے کو بغیر کسی کشیدگی کے حل کیا جا سکے گا، فوجی اخراجات میں کمی کی جا سکے گی اورخطے کے سبھی ملکوں میں معیارِ زندگی بہتر بنایا جا سکے گا۔ اس طرح پورے خطے کے سیاسی وزن میں اضافہ ہو گا جبکہ چین اور امریکہ سے بہتر بنیادوں پر تعلقات قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ جنوبی ایشیاء کو ان دو بڑی طاقتوں میں بفر کا کردار ادا کرنے کی بجائے بحیثیت ایک مضبوط اور آزاد خطہ اپنے طور پر کردار ادا کرنا چاہئے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس ضمن میں ایک اہم عنصر ہیں۔ اس کی ایک علامت مکران کے ساحل پر گوادر کی بندر گاہ پرہونے والی چینی سرمایہ کاری ہے جس نے ایک چھوٹی سی بندرگاہ کو بہت بڑی بندر گاہ میں بدل دیا ہے۔ کابل پر قبضے کے چار ماہ بعد چین کے نائب وزیر اعظم وُو بانگ اُو22 مارچ 2002 ء کو پاکستان آئے تاکہ اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ سکیں۔اس سال کے اختتام پر جب یہ بندر گاہ تیار ہو جائے گی تو خطے میں گوادر سب سے بڑا ڈیپ سی پورٹ ہو گا۔ یہاں چین کو خلیج فارس کے پاس آئل ٹرمینل میسر آ جائے گا جہاں سے اسکی توانائی کا دو تہائی حصہ پورا ہوتا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کے کچھ تجزیہ کار اس بات پر پریشان ہیں کہ گوادر کی صورت چین کے پاس ایک ایسا بحری اڈہ دستیاب ہو جائے گاجہاں سے وہ فوراََ بحر ہند میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ پریشانیاں دو طرفہ ہیں۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجوں اور امریکی اڈوں کی شکل میں امریکہ چین کی سرحد پر پہنچ گیا ہے اور بیجنگ تنائو کا شکار ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپریل 2005 ء میں چینی وزیر اعظم پاکستان آئے اور بائیس معاہدوں پر دستخط کئے جن کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیناتھا۔ایک سال بعد مشرف نے بیجنگ کا دورہ کیا۔ سرکاری ایجنڈہ تو تجارت اور انسدادِ دہشت گردی تھا مگر افغانستان کے ساتھ ساتھ توانائی کی ضرورتوں کے لئے ایٹمی تعاون کے لئے پاکستان کی خواہش پر بھی ضرور تفصیلی بات ہوئی ہو گی۔پاکستان کی فوج میں اکثریت کی نظر میں چین ’’قابلِ بھروسہ‘‘ دوست ہے ، واشنگٹن کی نسبت زیادہ قابل ِ اعتبار اسٹریٹیجک ساتھی۔ واشنگٹن تو گاہے بگاہے فوجی پابندیاں لگاتا رہا ہے اور آخری بار تو یہ پابندیاں گیارہ ستمبر کے بعد اٹھائی گئیں۔
اسلام کا جو حالیہ خبط مغرب کو لاحق ہوا ہے اس کا تعلق گیارہ ستمبر سے کم اور تیل سے زیادہ ہے کہ تیل کے بڑے ذخائر اس زمین تلے پائے جاتے ہیں جس پر مسلمان آباد ہیں۔اسلام کی تشریح کرتے وقت مغربی تجزیہ نگاروں کو اسے اسی طرح دیکھنا چاہئے جیسا کہ وہ ہے: ایک عالمگیر مذہب جو بہت متنوع ہے۔بطور مذہب اور ثقافت اس میں متنوع مقامی روایات گھل مل چکی ہیں جو سینیگال سے لیکر انڈونیشیا ، جنوبی ایشیاء سے جزیرہ نما عرب تک اور مراکش سے چین تک اتنی ہی مختلف ہیں جتنے مختلف یہ ملک ہیں۔
اس میں کہکشاں کے سبھی رنگ شامل ہیں اور اس کا کلچر آج بھی پھل پھول رہا ہے۔سعودی عرب، مصراور انڈونیشیا نے بیسویں صدی کے تین بہترین ناول نگار پیدا کئے: عبدالرحمن منیف، نجیب محفوظ اور پراموئدیا آنتا تور۔ جنوبی ایشیاء نے غالب، اقبال اور فیض ایسے منفرد شاعروں کو جنم دیا ہے۔ سینیگال اور ایران نے بامقصد فلم سازی سے نوازا ہے اور ان فلموں کا مقابلہ یورپ کی فلموں سے کیا جا سکتا ہے جبکہ اکثر فلمیں تو معیار میںہالی ووڈ سے بہتر ہوتی ہیں۔اگر بیسویں صدی میں ایسی باتوں کی نشاندہی کر نی پڑ رہی ہے تو اس سے مغرب کی کوتاہ فکری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جسے اپنے مفاد کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا اور اس دنیا کے بارے میں اسے کوئی خبر ہی نہیں جس پر تہمتیں لگاتا رہتاہے۔
سیاسی میدان تاریک ہے مگر اس کی وجوہات ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے انڈونیشیا۔ کبھی یہاں دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی بھی تھی جس کے ارکان اور ہمدردوں کی تعداد دس لاکھ تھی۔ اس جماعت کے کارکنوں کو جنرل سہارتو نے عہد حاضر کے اسلاموفُوبز کے ساتھ مل کر مٹایا۔1
عراقی کمیونسٹوں کا صفایا کس نے کیا جنکی قیادت میں شیعہ،سنی، یہودی اور عیسائی سب شامل تھے؟ صدام حسین نے جنہیں امریکی پشت پناہی حاصل تھی۔ جبر، اشتراکی نظام کے انہدام اور معاشی بنیا دپرستی نے مسلم دنیا میں ایک خلاء پیدا کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگوں نے مذہب سے رجوع کیا۔ فروری 2008 ء میں نیویارک ٹائمز میں مضامین کا ایک سلسلہ شائع ہوا۔ اس میں بتایا گیا کہ کس طرح مصر میںمتوسط طبقے کے بے روزگار نوجوان مسجد کا رخ کر رہے ہیں۔ کسی حد تک یہ بات پاکستان بارے بھی درست ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے مذہب درد میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
جہاں تک سیاسی اسلام کا تعلق ہے، اس میں بھی کئی دھارے ہیں۔ترکی میں ناٹو کے اسلام پرست، دل و جان سے نیو لبرل ہیںاور مغرب میں مقبول ہیں۔ مصر کے اخوان المسلمین بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کر نے میں اتنی ہی خوشی محسوس کرے گی مگر ہو سکتا ہے فلسطین کے سوال پر اتفاق نہ کرے آخر غزہ بالکل پڑوس میں واقع ہے۔ دیگر جگہوں پر بھی نئی طاقتیں اور نئے چہرے سامنے آ رہے ہیں جن میں کچھ قدریں مشترک ہیں۔ مقتدیٰ، ہانیا، نصراللہ، احمدی نژاد: سب لوگ اپنے اپنے علاقوں میں غریب لوگوں کو منظم کر کے اوپر آئے ہیں۔ ۔۔۔بغداد اور بصرہ، غزہ اور جنین، بیروت اور سیدون، تہران اور شیراز۔
مغرب کے حمایت یافتہ شلابیوں، علویوں، ہریریوں،اور کرزئیوں ۔۔۔۔۔سب کے سب بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے کروڑ پتی، دھوکے باز بنکار، سی آئی اے کے کاسہ لیس۔۔۔۔سے فرق صاف واضح ہے۔ اس عہد کے افتادگان خاک کی ان گلیوں اور جھونپڑیوں میں،جو تیل کی دولت سے گھری ہیں، ریڈیکل ہوائیں چلنے لگی ہیں ۔جب تک یہ ریڈیکل ازم قرآن سے متاثر ہے، اس کی محدودیت واضح ہے۔ سامراجی لالچ اور گماشتہ فرمانبرداری سے خیرات اور یکجہتی کا جذبہ یقیناََ بہتر ہے لیکن جب تک تعمیرِ نو کی بجائے سماجی تسکین کا سامان مہیا کرتے رہیں گے توامکان یہی ہے کہ موجودہ نظام کا حصہ بن جائیں گے۔ ایسے رہنما ابھی سامنے نہیں آئے جو قومی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہوکر اتحاد اور خود اعتمادی کو فروغ دے سکیں۔
جی ہاں! القاعدہ موجود تو ہے مگر اس کی اہمیت کو مغرب بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ القاعدہ گاہے گاہے دہشت گرد حملے کرکے معصوم افراد کو ہلاک کرتی ہے مگر امریکی طاقت کو اس سے کوئی سنجیدہ خطرہ درپیش نہیں ہے۔ القاعدہ کا تواُن نوآبادیاتی مخالف تحریکوں سے موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا جو افریقہ اور ہند چینی میں سامنے آئیں اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی نیندیں حرام کر دیں۔ موجودہ ہلا گلا مشرقِ وسطیٰ میں وہاں سامنے آ رہا ہے جہاں امریکی سامراج لگ بھگ گذشتہ بیس سال سے پوری طرح گھس بیٹھ نہیں کر سکا: مغربی کنارہ، بعث وادی عراق، خمینی کا ایران۔ امریکہ اس خطے میں کہیں اور لنگر انداز ہے ۔۔۔۔مصر، سعودی عرب، خلیجی ریاستیںاور اُردن۔ ان ممالک میں ، مسلمان ہونے کے باوجود، امریکہ کے روایتی موکلوں نے علاقائی مسائل حل کرنے کے لئے ہمیشہ فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان اگر اس گروہ کا حصہ بنا رہا ہے تو اسکی قیمت اس نے خود چکائی ہے۔
’’عالمگیر اسلام ‘‘ کو ’’وسیع تر وزیرستان‘‘ قرار دینا، جیسا کہ بعض مغربی تجزیہ نگار کر رہے ہیں، سنگین حماقت ہو گی کیونکہ ہو صرف اتنا رہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ، ناٹو کی مسلط کردہ جنگ سے سنجیدہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، نیو طالبان سرحد پار کرکے پاکستان پہنچ رہے ہیں جہاں ان کو حمایت مل رہی ہے۔ اس عمل کو ’’عالمگیر اسلام ‘‘ قرار دینا اسی قدر درست ہے جس قدر دوسری جنگِ عظیم میں ہونے والی یہودیوں کی نسل کشی کو ’’عالمگیر مسیحیت‘‘ قرار دینا۔
برنارڈ لوئس اکثر یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ مسلم دنیا کے لئے امریکہ ایک قربانی کا ایسا بکرا بن چکا ہے جس کے سر تمام مسائل اور زوال کی ہر وجہ منڈھ دی جاتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب، شام اور کسی حد تک لبنان کے سوا، عرب دنیا پر مغرب کا مکمل فوجی و معاشی قبضہ ہے، ایسی دلیل بالکل بودی دکھائی دیتی ہے۔ القاعدہ کے بانی سعودی عرب اور مصر میں پروان چڑھے جنہیں افغانستان میں جہاد کے لئے بھیجا گیاا ور اس کام کی نگرانی زبیگنیو برژنسکی کر رہے تھے جو 2008 ء میں امریکہ کی صدارتی مہم میں بارک اوبامہ کے مشیر ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے ہیں اور اسکی وجہ مذہب سے زیادہ پیسہ تھا۔سعودی سلطنت کا لیکن امریکہ سے بھی قریبی تعلق ہے۔ برنارڈ لوئس کو یقینا پتہ ہوگا کہ شاہ فیصل کی نظر میں ناصر اور بے دین اشتراکیوں کو شکست دینے کے لئے مذہب ہی وہ ہتھیار تھا جسے سعودی سماجی نظام کا مرکزی ستون بنا کر دشمن کا قلع قمع کیا جا سکتا تھا۔اسلام کو خطرہ لاحق تھا اور اسے ہر قیمت پر بچانا مقصود تھا۔ واشنگٹن میں ان کے حامی اس پر خوش تھے اور انہوں نے مغرب کو تیل کی فراہمی پر وہ پابندی بھی قبول کر لی جو فیصل نے1973 ء کی جنگ کے بعد لگائی، اس کے بعدآج تک دوبارہ کوئی ایسی کوشش نہیں ہوئی۔
1980ء میں جب سعودی عرب میں تیل پوری طرح قومی ملکیت میں لے لیا گیا تب بھی امریکہ کی عسکری و سیاسی اشرافیہ نے اپنا عہد نبھایا کہ سعودی حکومت کی حفاظت ہر قیمت پر کی جائے گی۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں سعود ی عرب اپنی حفاظت کیوں نہیں کر سکتا؟جواب: کیونکہ اہلِ سعودمستقل اس خوف کا شکار ہیں کہ جس طرح 1952ء میں مصر اور چھ سال بعد عراق میں ترقی پسند قوم پرست اقتدار پر قابض ہو گئے تھے، وہ سعودی عرب میں بھی اقتدار چھین سکتے ہیں، ایسی کسی بغاوت سے بچنے کے لئے اہلِ سعودنے فوج اور فضائیہ کا حجم اتنا نہیں بڑھنے دیا کہ وہ بغاوت کاخطرہ بن جائیں۔مغرب کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے جو اسلحہ خریدا ، وہ صحرائی گوداموں میںپڑا گل سڑ رہا ہے۔
اواخرستر اور اسّی کی دہائی میں ، ڈیڑھ دہائی تک، سعودی خرچے پر پاکستان بڑی تعداد میں اپنے دستے سعودی عرب بھیجتا رہا تا کہ ممکنہ اندرونی شورشوں کے خلاف سعودی خاندان کی حفاظت کی جا سکے۔ پہلی جنگِ خلیج سے قبل امریکی فوج یہاں آ کر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی تک وہیں ہے۔ سعودی عرب اور قطر میں قائم امریکی فضائی اڈے عراق پر حملوں کے لئے استعمال ہوئے۔ آزادی کا ہر بھرم کھل گیا۔ سعودی شہزادوں کی امریکہ سے فقط اتنی التجا تھی کہ اس بات کو خفیہ رکھا جائے حالانکہ یہ کوئی راز کی بات نہ تھی۔سعودی عرب سے عراق روانہ ہونے والے امریکی طیاروں کی ٹی وی کوریج نہیں کی گئی۔
’’قربانی کا بکرا‘‘ والی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک ’’نیا‘‘ نظریہ بھی سامنے آیا ہے جو خوش کرنے کی غرض سے ایسے مسلمانوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جو امریکی درسگاہوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جدوجہد امریکہ اور اسلام کے درمیان نہیں بلکہ اسلام کے اپنے اندر ہے۔مطلب یہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکہ اپنے حمایتیوں کی پشت پناہی اور حمایت کر رہا ہے جبکہ وہ قوتیں جو موکل والے کردار کو پسندنہیں کرتیں ، وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بایاں بازو اور قوم پرست چونکہ ختم کئے جا چکے ہیں ، یہ کام اب مختلف نوع کے اسلام پرست کر رہے ہیں۔ القاعدہ ایک ایسا ہی گروہ ہے مگر اسلامی برادری کا ایک چھاٹا سا گروہ۔ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ اسلام کبھی بھی متحد نہیں رہا۔1
یہی وجہ تھی کہ قرونِ سطیٰ میں سسلی اور ہسپانیہ سے ہاتھ دھونے پڑے۔ واحد موقع جب اسلام اپنی فوجیں متحد کرنے میں کامیاب ہوا وہ تھا کرد سلطان صلاح الدین ایوبی کے زیرِ قیادت بارھویں صدی میں صلیبیوں سے القدس واپس لینے کے لئے اور اس شہر کو پھر سے تینوں الہامی مذاہب کا شہر بنا دیا تھا۔
’’اسلام‘‘ سے توقع کرنا کہ وہ یک آواز ہو کر بولے اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا عیسائیت، یہودیت، ہندو مت یا بدھ مت سے یک آواز ہو کر بات کرنے کی توقع احمقانہ ہے۔ حال ہی میں جو اسلامی تحریکیں ابھری ہیں اور ان کے بعض دھڑے انتہا پسند ہیں، یہ سب تو عالمی تاریخ کے گذشتہ پچاس سا ل کی پیدا وار ہیں۔یہ وہ مرحلہ ہے جو اگر مسلمان ممالک پر غیر ملکی قبضہ ختم ہو جائے تو،بشمول وزیرستان ، گزر جائے گا ۔دنیا میں کہیں بڑے مسائل ہیں۔ امریکی خارجہ حکمتِ عملی کی ناکامی کا الزام اسلام کے سر تھونپنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا سرد جنگ کے دوران مذہب کا استعمال تھا کہ جب پہلی بار امریکہ نے بھی مذہب سے وفاداری پر اصرار کیا۔ وجہ واضح تھی۔ بے دین اشتراکی دشمن کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لئے تیسری دنیا میںمذہب کا سہارا لیا جا رہا تھا۔ صدر ٹرومین نے سویت یونین کے خلاف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ 1952 ء میں امریکی سپریم کورٹ نے خود سے بالا تر ایک ہستی کو بھی مانا جب اس نے تسلیم کیا کہ ’’ ہم مذہبی لوگ ہیں جن کے ادارے ایک بالا ہستی پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘عیسائیت کی بجائے مذہب کا لفظ استعمال ہوا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا تھا۔ صدر آئزن ہاورنے 1954 ء میں یہ سب باتیں پھر سے دہرائیں:’’ہماری حکومت اس وقت تک بے معنی ہے جب تک اس کی بنیاد عمیق مذہبی عقیدے پر نہیں ہے۔۔۔۔مجھے اس سے غرض نہیں کہ وہ کیا ہے‘‘۔1 پاکستان کے علاوہ مصر اور انڈونیشیا ایسے ممالک میں یو ایس آئی ایس کھل کر اخوان المسلمین اور جماعتِ اسلامی یا انکے طلباء محاذوں کی مدد کر رہا تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ عمل افغان جنگ کے دوران عروج پر پہنچا جب واشنگٹن کی پشت پناہی سے جنرل ضیاء نے جہادی گروہ تخلیق کئے، انہیں مسلح کیا اور انہیں تربیت دی تاکہ وہ افغانستان کے بے دینوں کے خلاف جنگ کر سکیں۔ اُن دنوں وزیرستان ’’وسیع تر ردِ اشتراکیت‘‘ گنا جاتا تھا۔امریکہ ہاتھ جھاڑ کر علیحدہ ہو گیا یا کم از کم اس کا خیال تھا کہ وہ علیحدہ ہو گیا ہے۔اس بے لذت وراثت کا بوجھ پاکستانی کندھوں پر آن پڑا۔ پھر گیارہ ستمبر کسی جوابی مُکے کی طرح پڑا اور اس وقت جارج بُش کا یہ دعویٰ کہ گیارہ ستمبر معصومیت پر برائی کی طرف سے حملہ تھا، درحقیقت غلط تھا۔ گیارہ ستمبر تو وہ فصل تھی جو کسی اور عہد میں بوئی گئی تھی۔
2003 ء میں پاکستان کے ایک طویل دورے کے بعد میں نے لکھا:
فوج اس وقت واحد حکمران ادارہ ہے۔ اس کا ملک پر مکمل غلبہ ہے۔ یہ کب تک جاری رہ سکتا ہے؟۔۔۔۔افسر طبقے میں شمولیت اب ایک ایسی مراعت نہیں رہ چکی جو کبھی صرف زمیندار طبقے کے لئے مخصوص تھی۔ افسروں کی ایک بڑی تعداد شہری پس منظر رکھتی ہے اور وہ مختلف النوع کے دبائو یا اثرات سے اسی طرح متاثر ہوتی ہے جس طرح ان کے سویلین ہم مرتبہ۔ مراعات نے انہیں وفادار بنائے رکھا ہے لیکن جس عمل نے سیاستدانوں کو تباہ کیا وہ جاری ہے۔ ماضی قریب میں یوں تھا کہ نواز شریف یا ان کے بھائی، بے نظیر یا ان کے شوہر، بڑے سودوں میں حصہ مانگتے تھے ، اب بڑے سودے جنرل مشرف کے دفتر میں طے پاتے ہیں۔
بلا شبہ بڑی۔۔۔۔حتیٰ کہ فوجی۔۔۔۔سطح کی بد عنوانی طویل اقتدار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی بشرطیکہ فوجی آمریت نے مناسب حد تک عوام کو خوفزدہ کر رکھا ہو اور اسے واشنگٹن کی ٹھوس حمایت حاصل ہو جیسا کہ انڈونیشیا میں سہارتو آمریت سے ثابت ہوتا ہے۔ کیا مشرف اس قسم کی آمریت بارے سوچ سکتے ہیں؟ انکی آمریت کا دارومدار تین قوتوں کے تال میل پر منحصر ہے۔ اول، فوج اندرکس قدر یگانگت موجود رہتی ہے۔ تاریخی طور پر تو فوج کبھی بھی۔۔۔۔افقی یا عمودی طور پر۔۔۔۔تقسیم نہیں ہوئی جبکہ افغانستان کے مسئلے پر ایک سو اسّی ڈگری کا موڑ کاٹنے پر بھی ، چاہے اس کے لئے کوئی بھی میٹھی گولی دی گئی، اس کا نظم و ضبط متاثر کن ہے۔یہ نا ممکن نہیں کہ کسی دن کوئی محبِ وطن اسی طرح ملک کو اس کے نئے آمر سے نجات دلا دے جس طرح ایک دن جنرل ضیاء کو بہاولپور بھیج دیا گیا تھا لیکن اندریں حالات اس کے امکانات کم ہیں۔ طالبان کا ہاتھ چھوڑ دینے کی ذلت سہہ جانے کے بعد عسکری قیادت اس قابل ہو چکی ہے کہ پینٹا گون سے آنے والے کسی بھی حکم کی تعمیل کر سکے۔
فوجی حکومت کی پارلیمانی حزبِ اختلاف بارے کیا خیال ہے؟ تمام تر دھاندلی کے باوجود اکتوبر 2002 ء کے انتخابی نتائج مشرف کے لئے پریشان کن تھے مگر پارلیمنٹ میں غلبہ رکھنے والی جماعتوں سے مشرف کے خلاف بغاوت کی کم ہی امید ہے۔ شریف اور بھٹو قبائل کی موقع پرستی ناقابلِ بیان ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں حاوی اسلام پرست اتحاد شور تو بہت مچاتا ہے لیکن اصول پسندی میں دوسروں سے بہتر نہیں ۔۔۔۔پیسے اور مراعات اس کے احتجاج کو فوراََ خاموش کر دیتے ہیں۔عوام میں زبردست بے چینی ہے مگر قومی سطح پر اسکے اظہار کے لئے کوئی چینل موجود نہیں۔ یہ سوچا تو جا سکتا ہے کہ نواز شریف اور پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدر کے دوران جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کے پیشِ نظر وہ ہمیشہ کے لئے اعتبار کھو چکے ہیں مگر تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آمریت میں دراڑیں پڑیں تو ترقی پسند متبادل کی عدم موجودگی میں لالچی گدھ پھر سر اٹھائیں گے۔
تیسری قوت امریکی آقا ہیں۔مشرف کو یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ بھی وہی کردار دا کریں گے جو کبھی صوبے دار ضیاء الحق نے کیا تھا۔ پاکستان کو سامراجی آلہ کار کے طور پر افغانستان سے نکال دیا گیا تھا جبکہ اسے کشمیر میں مداخلت سے منع کر دیا گیا تھا۔ اگر شمالی سرحدوں پر پاکستان کے کردار کو جامدکر دیا گیا ہے تو اس کی وجہ سے امریکہ کے لئے اسکی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کابل میں کٹھ پتلی حکومت قائم کر کے واشنگٹن نے زبردست سیاسی سرمایہ کاری کی ہے جس کی حفاظت، جنرل ٹومی فرینکس کے الفاظ میں، ’ ’آئندہ کئی سال تک‘‘امریکی دستے کریں گے ۔ اسامہ اور ان کے نائبین کے لئے جاری امریکی تلاش کا تو ذکر ہی کیا۔ دونوں مقاصد کے حصول میں پاکستان کا کردار اہم ہے اور اس کی اشرافیہ اسی طرح کی التفات، نجی و سرکاری، کی توقع کر سکتی ہے جو تھائی فوج پر ہند چین میں سالہا سال تعاون کرنے پر نچھاور کی گئی تھیں۔ اس کے باوجود امریکہ عملیت پسند ہے ۔خوب جانتا ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھی کابل میں اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں اتنے ہی سود مند آلہ کار ثابت ہوئے جتنا ضیاء الحق ۔اندرونی محاذ پر مشرف کے پائوں ڈگمگائے تو انہیں بغیر آنسو بہائے تنہا چھوڑ دیا جائے گا۔امریکہ کے پاس جنگ جاری رکھنے کے لئے بے شمار آلہ کار ہیں۔ ان آلہ کاروں سے نجات کے لئے پاکستان کو
1969 ء ایسی کسی غیر معمولی صورتحال کی ضرورت ہے۔1
واقعات نے اس تجزئے کو غلط ثابت نہیں کیا ماسوائے ایک بات کے۔ عدالتی سرکشی کی صورت جو خوشگوار مگر غیر متوقع سرپرائز ملا ، اسکی پیش گوئی کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا۔اس کا اثر یہ ہوا کہ امیدیں تازہ ہو گئیں اور اس تحریک کی میڈیا کوریج نے مشرف کو بے نقاب کر دیا۔اب انہیں جبر اور سویلین نقاب کا ایک مرکب درکار تھا لہٰذا اب بے نظیر کے ساتھ امریکہ کے طے کرائے ہوئے سمجھوتے کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ ملک میں انکی ساکھ اب ختم ہو چکی تھی جبکہ ایمر جنسی کا نفاذ ان کے حامیوں کے لئے آخری تنکا ثابت ہوا۔ بے نظیر کے قتل نے انکی عدم مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد جلد ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
فروری 2008 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں سو خامیاں سہی مگر وہ مشرف کے لئے بھی ایک دھچکا ثابت ہوئے اور اسلام پرستوں کے لئے بھی جو اپنے مضبوط قلعے سے سیکولر اے این پی کے ہاتھوں شکست کھا گئے ۔ اے این پی دو بار برطرف ہونے والے اور پشتونوں کو عدم تشدد اور سامراج سے لڑائی کا سبق دینے والے باچہ خان کے وارث ہیں۔ 342 کے ایوان میں 120 نشستیں لیکر پی پی پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس کے عین بعد90 نشستوں کے ساتھ نواز لیگ تھی جبکہ اے این پی کو 13نشستیں ملیں۔ مشرف نواز مسلم لیگ کو51 نشستیں ملیں جبکہ ایم کیو ایم کو25 نشستیں ملیں۔ شکست بالکل واضح تھی۔ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو اور بھر پور شکست ہوتی بالخصوص کراچی میں ایم کیو ایم کو، جہاں بدمعاشی اور تشدد کا کھلے عام استعمال ہوا۔ اسلام پرست اتحاد کو چھ نشستیں ملیں اور اگر جماعت نے بائیکاٹ نہ بھی کیا ہوتا تو یہی صورتحال ہوتی۔
بے نظیر بھٹو کے قتل تک انتخابی مہم بے جان تھی۔ نظریاتی سطح پریا عالمی و ملکی مسائل پر بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات نہ ہونے کے برابر تھے۔ پیپلز پارٹی ایک زمانہ ہوا اپنی پاپولزم کو خیر باد کہہ چکی ہے۔ باہم جڑے مسائل میں ایک تو مشرف کی صدارت تھی اور دوسرا
ایمر جنسی کے دوران چیف جسٹس سمیت برطرف ہونے والے دیگر ججوں کی بحالی۔ججوں کی بحالی کے مسئلے پرپیپلز پارٹی تقسیم تھی۔ اس جماعت کے ایک پرانے پنجابی رہنما اعتزاز احسن ججوں کی بحالی کے لئے چلنے والی تحریک کے مرکزی قائدین میں شمار ہوتے تھے۔ رنڈوے بھٹو کو البتہ اسی عدلیہ نے کئی سال تک پابندِ سلاسل رکھا چنانچہ انہیں اس سے نفرت تھی۔ اپریل 2008 ء میں ہونے والے ایک پارٹی اجلاس میں انہوں نے اپنے نظریات اعتزاز احسن پر واضح کئے۔
اس بات سے قطع نظر کہ اے این پی ، پیپلز پارٹی کی طرح ، واشنگٹن سے غیر دوستانہ تعلق نہیں رکھتی، سرحد میں اسکی انتخابی فتح نے ہم ایسے بعض افراد کی بات کو درست ثابت کیا۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک اور ایٹمی طاقت پاکستان پرجہادیوں کے فوری قبضے کا کوئی خطرہ نہیں ۔اگر بش انتظامیہ یا ان کی جانشین انتظامیہ میں موجود نیو کانز چاہتے ہیں کہ قیامت بارے انکی پیش گوئیاں سچ ثابت ہو جائیں تو انہیں صرف اتنا کرنا ہو گا کہ پاکستان کے بعض حصوں پر قبضہ کر لیں، اسکی ایٹمی تنصیبات تباہ کر ڈالیں اور ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر دیں۔ عراق میں جاری قیامت مشرق کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ یقینا یہ معقول تجویز نہیں۔
خوشی سے چُورپی پی پی کے سیاستدان اور مسلم لیگ کے فاتح سیاستدان فوراً ہی مخلوط حکومت بنانے پر رضامند ہو گئے اور وزارتیںبھی تقسیم کر لیں۔ اپنے کردار کے عین مطابق، نواز شریف نے ، جو خود تو پارلیمنٹ تک نہیں پہنچے، یا تو اپنے قابلِ بھروسہ ساتھیوں کو مستقبل کی اہم ذمہ داریاں سونپیں یا رشتہ داروں کو۔ اپنی مرحوم بیوی کی بخشی ہوئی طاقت استعمال کرتے ہوئے زرداری نے وزیر اعظم کا انتخاب کیا۔ جلاوطنی کے دوران بے نظیر نے ایک بے ضرر سے ، فرمانبردار قسم کے سندھی جاگیردار کو اپنا قائم مقام بنا رکھا تھا۔ توقع یہی کی جا رہی تھی کہ وہ پی پی پی کے امیدوار ہوں گے۔ مخدوم امین فہیم، پیر و سیاستدان گویا الہام و سیاست کا مجموعہ، کسی بھی طرح کوئی سوشل لبرل نہیں۔ پاکستانی معیار کے مطابق بھی یہ منفرد بات ہے کہ ان کے چاروں بہنوئی قرآن ہیں۔ مخدوم خاندان برصغیر میں اول اول آنے والے ان مسلمانوں سے سلسلہ ء نسب جوڑتا ہے جو محمد بن قاسم کے پیادے بن کر آئے اور 711 ء میں سندھ پر قابض ہو گئے۔ اسلام میں چونکہ پہلے پہل ، شریعت کی تشکیل سے پہلے،خواتین وراثت میں برابر کی حقدار ہوتی تھیں اور انہیں حصہ ملتا بھی تھا ، سندھ میں بھی یہ روایت شروع ہو گئی۔ اس روایت پر عمل کرنے والے جاگیردار خاندان کی جائیداد بچانے کے لئے لڑکیوں کی شادی خاندان میں ہی کرتے مگر یہ اتنا آسان نہ تھا اور بعض اوقات خاندان سے باہر شاد ی کی وجہ سے زمین تقسیم ہو جاتی۔ ایک عجیب و غریب حل نکالا گیا ۔ حل یہ تھا کہ لڑکیوں کی شادی قرآن سے کر دی جائے۔ اس طرح ان کا کنوارا پن باقی رہتا جو پاکیزگی کو جنم دیتا اور ان خواتین کے پاس ایسی باطنی قوتیں آ جاتیں جس سے روح کو بالیدہ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے بڑھ کر یہ کہ جائیداد پر مردوں کا قبضہ قائم رہتا۔ پی پی پی رہنما کی چار بہنوں نے جو مسئلہ کھڑا کیا تھا اسے اسی طرح مقدس طریقے سے حل کیا گیا۔
جغرافیائی و سیاسی بنیادوں پر زرداری نے امین فہیم کے خلاف فیصلہ کیا۔ انہوں نے سوچا کہ ایک پنجابی ملک کے معاملا ت چلانے کے لئے مناسب رہے گا لہٰذا ایک اور پیر سیاستدان کا صوفیوں سے بھرے شہر ملتان سے انتخاب کیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی تھے وہ انتخاب جُو ایک ایسے سیاستدان ہیں جو وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اسی نوع کے سیاستدان ہیں جیسے انکے بہت سے ہم عصر۔ گیلانی کی صلاحیتوں کو پہلے ضیاء الحق نے دریافت کیا، نواز شریف کی طرح، اور وہ آمریت کے پسندیدہ بن گئے ۔ آمریت کو تقویت پہنچانے والی کئی کمیٹیو ںمیں خدمات سر انجام دیں۔ضیاء کی موت کے بعد گیلانی مسلم لیگ کے وفادار حامی تھے مگر نواز شریف سے اختلافات ہو گئے تو پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ تب سے پیپلز پارٹی میں ہیں اور چوہدریوں کی طرف سے جماعت بدل کر انکی جماعت میں شامل ہونے کی پیش کش قبول نہیں کی۔ پارٹی جب اقتدار سے باہر تھی، اس دور میں پارٹی سے وفاداری کو پی پی پی کے ان داتا نے خوب نوازا۔
مشرف کے کاسہ لیسوں کی انتخابی شکست کا فوری ا ثر یہ ہوا کہ عام شہریوں کی مایوسی اور ترش روئی تھوڑی دیر کے لئے دور ہو گئی۔ لگا کہ حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ مگر زیادہ دیر نہیں چلا۔ جوش و خروش جلد ہی غصے میں بدلنے لگا۔ کچھ سیاستدانوں کی قرم خوردہ زبانیں پھر چلنے لگیں۔ فاتحین کو دو بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ پہلا تو تھا عدلیہ۔ نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ اگر انکی جماعت منتخب ہو گئی تو وہ ایمرجنسی کے دوران چیف جسٹس اور برطرف کئے گئے دیگر ججوں کو انکی سابقہ حیثیت میں بحال کر دے گی۔انتخابی جیت کے فوری بعد رنڈوے بھٹو اور نواز شریف نے بھور بن میں ملاقات کی ۔ سرِ عام اعلان کیا گیا کہ ججوں کی بحالی اولین ترجیح ہو گی اور نئی حکومت کے حلف اٹھاتے ہی تیس دن کے اندر اندر یہ کام تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ملک بھر میں خوشی منائی گئی۔ 3 نومبر 2007 ء کے بعد سے ، انتخابات کے بعد تک ، چیف جسٹس افتخار چوہدری مشرف آمریت کی قید میں تھے، ان کے گھر کے گردخار دار تاریں لگا کر انہیں محصور کر دیا گیا تھا جبکہ دروازے پر مستقل پولیس کا پہرا تھا۔ گھر کا فون کاٹ دیا گیاتھا جبکہ موبائل کو منجمد کر دینے والے آلات کی مدد سے جام کر دیا گیا۔انکی حمایت کرنے والے ججوں اور وکلاء کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ ان میں سے ایک، اعتزاز احسن نے نیو یارک ٹائمز کے ادارتی صفحات پر بُش انتظامیہ کے خلاف 23 دسمبر 2007 ء کو یوں طعن زنی کی:
امریکہ میں لوگ سوچتے ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسند کیوں جیت رہے ہیں۔ انہیں پوچھنا یہ چاہئے کہ صدر مشرف سول سوسائٹی کو اتنی کم عزت کیوں دیتے ہیں ۔۔۔اور اس کے باوجود انہیں امریکی اہل کاروں کی حمایت کیو ںمل جاتی ہے؟
وائٹ ہاوس اور محکمہ خارجہ کی ہر بریفنگ میں ججوں کی بر طرفی اورقید کے ذکر سے احتراز برتا جاتا ہے۔ دریں اثناء، دنیا بھر کے وکلاء نے آئین اور قانون کی پاسداری کے لئے چلنے والی اس جرأتمندانہ تحریک پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے بے شمار تنظیموں کے ذریعے اپنے پاکستانی ساتھیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ ان میں، اگر صرف امریکہ کی بات کی جائے ، امریکن بار ایسوسی ایشن، نیو یارک اور نیو جرسی سے لیکر لوسیانا، اُوہیوو اور کیلی فورنیا تک مقامی و ریاستی بارز جبکہ قانون کی تعلیم دینے والے معرف ادارے ہاورڈ اور ییل لاء اسکلولز شامل ہیں۔
مقید چیف جسٹس کی مسلسل پزیرائی ہو رہی ہے اور ان کی خدمات کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ہاورڈ نے انکو اپنے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جو نیلسن منڈیلا یا برائون بمقابلہ بورڈ آف ایجوکیشن کیس لڑنے والی ٹیم کو ملا۔ ’’نیشنل لاء جرنل‘‘ نے انہیں اپنا لائر آف دی ائیر قرار دیا۔نیو یارک سٹی بار ایسوسی ایشن نے انہیں اعزازی رکنیت کے منفرد اعزاز سے نوزا۔ ان تمام باتوں کے باوجود مشرف حکومت کوئی نرمی دکھانے پر تیار نہیں۔
نئی حکومت نے ججوں پر تمام پابندیاں ہٹانے اور انہیں فوری طور پررہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔عمومی طور پر سمجھا گیا کہ یہ انکی بحالی کی طرف ایک قدم ہے۔ مشرف اور واشنگٹن میں انکی پشت پناہی کرنے والوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ جان نیگرو پونٹے نے (اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر کی وساطت سے ) نئی حکومت کو بتا یا کہ اگر چیف جسٹس اور انکے ساتھی بحال ہو گئے تو مشرف کو قانونی طریقے سے بر طرف کیا جا سکتا ہے جو ناقابل ِقبول ہے۔ انہیں اقتدار میں موجود رہنا چاہئے کم از کم جتنی دیر جارج بُش وائٹ ہاوس میں موجود ہیں۔ مشرف کی رخصتی دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے لئے دھچکا سمجھی جائے گی۔
یوں سیاسی عمل تیز ہو گیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے شریف برادران کے ساتھ تضادات کھل کر سامنے آ گئے۔اس کے فوری بعد دبئی میں مشرف کی موجودگی میں بے نظیر کے آلہ کاروں کی جو ملاقات امریکی اہل کاروں سے ہوئی اس میں ان آلہ کاروں سے کہا گیا کہ اس سودے بازی کو یاد کیجئے جو وطن واپسی سے قبل مسز زرداری نے امریکہ کے ساتھ کی تھی۔ ان دنوں آصف زرداری ان معاملات سے دور رکھے گئے تھے لہٰذا انہیں تفصیلات بارے کچھ علم نہیں تھا۔
آصف زرداری کی اپنی پریشانیاںہیں۔ جس نیشنل ری کونسیلیشن آرڈی ننس (این آر او) کے تحت بد عنوان سیاستدانوں کو معافی ملی تھی وہ بے نظیر اور مشرف کے مابین سودے بازی کا حصہ تھا۔ یہ این آر او انتہائی نا پسند کیا گیا اور سپریم کورٹ اس کی قانونی حیثیت بارے سماعت شروع ہی کرنے والی تھی۔ زرداری کو اس بارے میں علم تھا اور پھر یورپی عدالتوں میں بھی ان کے خلاف مقدمات تھے جنہیں از سرِ نو شروع کیا جا سکتا تھا لہٰذا وہ مان گئے۔ اسی دوران امریکی اہل کاروں نے چیف جسٹس کو عالمی عدالت میں تمام مراعات کے ساتھ اعلیٰ تعیناتی کی بھی پیشکش کی اور امریکی درسگاہوں میں تعیناتی کی بھی۔ چیف جسٹس کا ان کو جواب تھا کہ وہ ان میں دلچسپی نہیں رکھتے۔اپریل 2008ء میں زرداری اور نواز شریف کی لندن میں اختلافات ختم کرنے کے لئے ملاقات ہوئی۔ دونوں اپنے قابلِ بھروسہ نائبین کے ہمراہ ملاقات کے لئے آئے۔ نواز شریف کے دائیں بائیں دو منتخب نمائندے موجود تھے۔ دو غیر منتخب لوگ اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ،رحمن ملک اور حسین حقانی ( اول الذکر عاجز درباری، ثانی الذکر واشنگٹن کے ساتھ رابطے کا اہم ذریعہ) زرداری کے برابر بیٹھے تھے۔ ججوں کی بحالی پر کوئی اتفاقِ رائے نہ ہو سکا اور اتحاد میں دراڑیں نمودار ہو گئیں۔ اپنے سینئر ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشور کے بعد نواز شریف نے اس مسئلے پر وزارتیں چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان میں یہ منفرد بات تھی کہ سیاستدان اصول کی خاطر کرسی چھوڑ دیں۔ ملک میں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ زرداری کے اقدام نے ججوں کی بحالی چاہنے والوں کو شدید ناراض کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے بعض اپنے رہنما مشرف سے معانقے پر ناراض ہوئے۔زرداری کو رہنما بنا کر وہ طاقت اپنے ہاتھ سے کھو چکے تھے۔ پارٹی محافظ کے طور پر بھٹو خاندان نے پارٹی کے اندر کسی کی شناخت بننے ہی نہ دی لہٰذا اس کے اندر کوئی بھی گروہ ایسا نہ تھا جو آزادانہ کوئی سیاسی پروگرام تشکیل دے سکے۔ پی پی پی کے سیاستدان بھٹو خاندان کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ اس کے بغیر کوئی قدم ہی نہ اٹھا سکتے تھے۔ افسوس کا مقام ہے۔ میں پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ بھٹو خاندان اپنا تاریخی کردار ادا کر چکا ہے۔ اگر پی پی پی اس کا بُوس سے پیچھا چھڑا لے تو جمہوریت کا بھلا ہو گا چاہے اسکی وجہ سے اس کے رہنمائوںاور کارکنوں کو سیاسی بے حسی سے نپٹنے اور متحرک ہونے میں کچھ سال لگ جائیں۔ دریں اثناء ، معاملات زرداری اور ان کے مشیروں کے ہاتھ میں ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی اور پارلیمنٹ میں موجود پی پی پی کے نمائندوں کو ربر سٹمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کلیدی فیصلے تو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وقتی طور پر یہ بش کو بھی وارا کھاتا ہے اور مشرف کو بھی۔ انکی رخصتی کے بعد کیاہو گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
1969 ء کے بعد عدلیہ کے دفاع میں شروع ہونے والی مہم فوجی من مانیوں کے خلا ف قومی سطح کی پہلی تحریک تھی۔ مشرف کو چیلنج کرنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملک کی عزتِ نفس بحال کر دی تھی۔اس کے سیکولر کردار نے اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا کہ ملک پر جہادی قبضہ کرنے ہی والے ہیں۔ جج لیکن امریکہ اور یورپ کے حکمران حلقوں میں اتنے مقبول نہ تھے کہ ان حلقوں میں نیو سامراجی سوچ کا غلبہ ہے جبکہ جنگ اور قبضے کا خبط پایا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں پاکستانی جج معاون ثابت نہیں ہو سکتے تھے۔ ’’گڑبڑ‘‘ چیف جسٹس کو ایمرجنسی اختیارات کے ذریعے بر طرف کر کے مشرف نے اپنے زوال کو تیز کیا۔ غریبوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے باعث بعض لبرل مغربی اخبارات انہیں ’’جوڈیشل ایکٹوسٹ‘‘ یا ’’فائر برینڈ‘‘ قرار دیتے ۔
واشنگٹن اور اس کے تحادیوں کی نظر میں افغان جنگ اور اس میں پاکستان کا مرکزی کردار اہم بات ہے ۔ باقی ہر چیز توجہ ہٹانے والی بات ہے۔ افغانستان میں چلنے والے طوفان بارے نو منتخب سیاستدانوں کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ مارچ 2008ء میں امریکی سپیشل آپریشنز کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل ایرک ۔ٹی۔اولسن پاکستانی فوج سے مذاکرات کے لئے اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کو منتخب رہنمائوں کے ساتھ گول میز کانفرنس کا مطالبہ کر کے سب کو حیران کر دیا۔ ملکی تاریخ میں یہ اس نوعیت کا پہلا مطالبہ تھا۔ اولسن نے سیاستدانوں سے پوچھا کہ ضرورت کے وقت امریکہ کی طرف سے پاکستانی حدود میں گھس بیٹھ بارے ان کا کیا خیال ہے۔کسی بھی سیاستدان نے اس کی حمایت نہیں کی اور کھل کر اس بات کی مخالفت کی۔ سرحد کے سب سے سینئر سول افسر الد عزیز نے اولسن کو بتایا:’’یہ بہت خطر ناک بات ہو گی۔ اس سے جنگجوئوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ پشتونوں کے لئے یہ آزادی کی جنگ بن جائے گی۔ وہ کہیں گے کہ ہمیں قتل کیا جا رہا ہے۔ امریکہ ہمارا دشمن ہے۔‘‘
نواز شریف نے سرحد میں امریکی دستوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کی ہلاکت کی مخالفت کی ۔ ان کا خیال تھا کہ وزیرستان میں جنگجوؤں سے مذاکرات اور فوج کی مرحلہ وار واپسی سے ہی پاکستان کے بڑے شہروں پر دہشت گردحملے روکے جا سکتے ہیں۔پیپلز پارٹی مبہم تھی مگر پاکستان کے اندر ناٹو کے چھاپوں کی اس نے بھی مخالفت کی۔ سرحد میں اے این پی کے رہنما، جو ابھی تک افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے حامی تھے، بھی امریکہ کو بلینک چیک دینے کے حق میں نہ تھے۔وہ بیت اللہ محسود کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے جو جنوبی وزیرستان میں طالبان نواز ملیشیا کا رہنما ہے ۔ سی آئی اے نے بے نظیر کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام محسود پر لگایا مگر بے نظیر کے بعض اپنے قریبی ساتھی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔دو سینئر اے این پی رہنمائوں ، اسفند یار ولی ( باچہ خان کے پوتے ) اور افراسیاب خٹک کوجان نیگرو پونٹے اور مشیر برائے قومی سلامتی اسٹیفن ہیڈلی سے ملاقات کے لئے واشنگٹن طلب کیا گیا۔ یک نکاتی ایجنڈا تھا: سرحد پار چھاپے۔ واشنگٹن ایسے پاکستانی سیاستدان تلاش کرنے کا تہیہ کئے بیٹھا تھا جو ان چھاپوں کی حمایت کریں۔ اے این پی کے دونوں رہنمائوں نے انکار کر دیا۔ خٹک نے بعد ازاں نیو یارک ٹائمز کو بتایا’’ہم نے ان کو بتایا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کی مداخلت بہت بڑی حماقت ہو گی۔ اس سے ایسا ماحول پیدا ہو گا جس سے دہشت گردوں کی حمایت میں اضافہ ہو گا۔‘‘گورنر سرحد، اویس غنی ،دلچسپ بات ہے انہیں مشرف نے تعینات کیا تھا ، بھی یہی خیالات رکھتے ہیں:’’پاکستان اپنے مسائل سے نپٹ لے گا۔ آپ اُس پار افغانستان کو سنبھالیں۔ پاکستان خود مختار ملک ہے۔ ناٹوافغانستان میں ہے۔یہ وقت ہے کہ ناٹو کچھ سپاہیانہ جوہر دکھائے۔‘‘
18 مئی کو گویا یہ بتانے کے لئے کہ امریکہ منتخب سیاستدانوں کی سوچ پر زیادہ پشیمان نہیں، باجوڑ ایجنسی کے علاقے ڈماڈولہ میں امریکی ڈرون سے حملہ کیا گیا جس میں درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکہ نے دعوٰی کیا کہ اس نے ایک ’’اہم رہنما‘‘ کو نشانہ بنایا اور اسے ہلاک کر ڈالا۔ پی پی پی کے پرانے رہنما اور باجوڑ ایجنسی سے رکن ِاسمبلی اخوندزادہ چٹان نے پریس کانفرنس بلائی اور ’’معصوم لوگوں‘‘ کو ہلاک کرنے پر امریکہ کی شدید مذمت کی۔ پی پی پی کے مقامی رہنمائوں نے انکی مکمل حمایت کی جب انہوں نے مسلسل یہ اصرا رکیا کہ’’ میزائل حملے کے خلاف احتجاج کافی نہیں۔ پاکستان امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرے اور اس کا سفیر ملک سے فوراََنکال دے۔‘‘
چٹان نے کہا ایک واضح طریقِ کار سامنے آ رہا ہے۔ جوں ہی پاکستانی حکومت اور مقامی جنگجو دیرپا امن کے لئے بات چیت شروع کرتے ہیں ، ناٹو پاکستان کے اندر قبائلی علاقوں کو نشانہ بنا کر معصوم شہریوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن کو ان کارروائیوں سے باز رہنے کے لئے کہا جبکہ قبائلی رہنمائوں ، جنگجووں، پاکستانی فوج اور نئی حکومت سے درخواست کی کہ تمام اختلافات کو بھلا کر ’’غیر ملکی جارحیت‘‘ کے خلاف متحد ہو جائیں۔ پی پی پی کے اندر یہ اختلاف ظاہر کرتا ہے کہ زرداری کا عروج اتنا محفوظ نہیں جتنا وہ سمجھ رہے ہیں۔ یہ اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ متواتر حکومتوں کی طرف سے قبائلی علاقوں کورسمی طور پر باقی ملک سے علیحدہ رکھنا نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں اور دیگر تنظیمیں یہاں کام نہیں کر سکتیں اور سیاسی اختیار قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جس کے عموماََ بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔افغان سرحد پر ہونے والے واقعات ہی کافی تھے اوپر سے ملک کوآٹے اور بجلی کے بحران نے گھیر لیا جس کے نتیجے میں ہر شہر شدید مسائل میں گھرا نظر آتا ہے۔ افراطِ زر قابو سے باہر ہو چکا ہے اور مئی 2008 ء میںپندرہ فیصد تھا۔ گیس جس پر اکثر گھروں میں روٹی پکتی ہے، کی قیمت میں پچھلے سال کی نسبت تیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔ گندم جو خوراک کا بنیادی جزوہے ، کی قیمتوں میں نومبر 2007 ء کی نسبت بیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ دنیا میں خوراک کے ذخائر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے ۔ایسے میں پاکستان کو ایک اضافی مسئلے کا سامنا ہے۔ گندم کی بھاری مقدار افغانستان سمگل کر دی جاتی ہے تا کہ ناٹو کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ غریب تو شدید متاثر ہوا ہی ہے، سفید پوش خاندان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
مستقل آمریتوں اور بد عنوان سیاستدانوں کے ملک میں سیاست دل شکن تو ہے ہی مگر کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ ایک تو یہ ہوا ہے کہ خطے میں ایک پرانے مسلم عہدِ حکومت کے ادب میں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ مندرجہ ذیل کہانی پہلی بار سولہویں صدی کے ایک قصہ گو نے کہی تھی۔ 2007 ء میں مجھے کسی نے لاہور میں سنائی۔ تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ یہ کہانی پاکستان کے موجودہ حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے:
ایک شخص نائب قاضی کے فیصلے سے مطمئن نہ ہوا تو نائب قاضی نے تنگ آ کر اس شخص سے کہا کہ وہ قاضی کے پاس شکایت لیکر چلا جائے۔ اس شخص نے جواب دیا’’قاضی آپ کا بھائی ہے، وہ میری کہاں سنے گا۔‘‘نائب قاضی نے کہا’’تو پھر مفتی کے پاس چلے جائو۔‘‘ اس آدمی نے جواب دیا’’ وہ آپ کا چچا ہے۔‘‘ نائب قاضی نے کہا ’’ تو وزیر کے پاس چلے جائو۔‘‘ وہ شخص بولا ’’ وزیر آپ کا دادا ہے ۔‘‘ نائب قاضی نے کہا ’’ تو پھر بادشاہ کے حضور چلے جائو۔‘‘ اس آدمی نے جواب دیا ’’ آپ کی بھتیجی کی بادشاہ سے منگنی ہوئی ہے۔‘‘ نائب قاضی کو سخت غصہ آیا ۔ وہ بولا’’تو پھر جہنم میں چلے جائو۔‘‘ اس آدمی نے جواب دیا ’’وہاں آپ کے والدِ محترم کی حکومت ہے۔ وہ مجھے کہاں چین سے بیٹھنے دیں گے۔‘‘
پاکستان کے طنز نگار، شاعر اور لکھاری عموماََ زبان بندی قبول نہیں کرتے۔ وہ قوم کا اجتماعی ضمیر ہیں اور ان کے بغیر زندگی سچ مچ بہت بوجھل ہو جائے۔ شکستوں کے دور میں بھی فتح انکی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتی۔ شاعر اور ناول نگار فخر زمان پی پی پی کے پرانے کارکن ہیں۔ ضیاء دور میں انہوں نے قید بھی کاٹی۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر تیار نہیں:
وہ تصویر کیسے بنا سکتا ہے، جس کی آنکھیں چلی جائیں؟
وہ مجسمہ کیسے تراش سکتا ہے،جس کے ہاتھ کا ٹ دیئے جائیں؟
وہ کوئی دُھن کیے بنا سکتا ہے، جس کی سماعتیں چلی جائیں؟
وہ گا کیسے سکتا ہے، جس کی زبان کاٹ دی جائے؟
وہ نظمیں کیسے لکھ سکتا ہے، جس کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہوں؟
وہ رقص کیسے کرسکتا ہے، جس کے پائوں پا بہ زنجیر ہوں؟
گھُٹے ہوئے نتھنوں کے ساتھ کوئی پھولوں کی خوشبو کیسے سونگھ سکتا ہے؟
یہ سب لیکن ہوا ہے:
ہم نے تصویریں بنائیں ، آنکھوں کے بغیر
ہم نے مجسمے تراشے ،ہاتھوں کے بغیر
ہم نے دُھنیں بنائیں ،سماعتوں کے بغیر
ہم نے گیت گائے، بے زبانی کے باوصف
زنجیروں میں بندھے ہاتھوں سے ہم نے نظمیں لکھیں
پا بہ زنجیر ہم نے رقص کیا
پھولوں کی باس ہمارے گھُٹے ہوئے نتھنوں میں اترتی رہی۔
٭٭٭