ایک سراب بعنوان ’’اچھی‘‘ جنگ
بش۔چَینی عہد اختتام کو پہنچنے والا ہے مگر انکی جگہ لینے والوں کے لئے، عراق میں ہزیمت اٹھانے کے باوجود، یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ اس امریکی جن کو بوتل میں بند کر دیں جو باہر نکل چکا ہے۔چَینی کی خارجہ پالیسی کا نعرہ تھا’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردی کرنے کے لئے ہمارے خلاف‘‘۔ اس حکمتِ عملی کے اطلاق کا مطلب تھا کہ جو ریاستیں امریکی چھتر چھایا تلے نہیں آتیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جائے، انہیں تنہا کر دیا جائے یا انہیں جارحیت کا نشانہ بنا دیا جائے۔
2004ء میں جب عراق کے اندر بحران سنگین ہو گیا تو افغان جنگ مقابلتاََ ’’اچھی جنگ‘‘ قرار پائی۔ اس جنگ کو اقوامِ متحدہ نے جواز فراہم کیا تھا۔۔۔۔گو جب قرار داد منظور ہوئی ،بمباری جاری تھی۔۔۔۔اور اسے ناٹو کی حمایت حاصل تھی۔ اگر عراق پر کچھ تکنیکی مسائل نے جنم لے لیا تھا تو انہیں افغانستان میں حل کیا جا سکتا تھا۔ پہلے سپین کے ژاپا تیرو، پھر اٹلی کے پرودی نے اور ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کے رَڈ نے عراق سے دستے نکالنے کی تلافی اس طرح کی کہ انہیں افغانستان بھیج دیا۔1 فرانس اور جرمنی وہاں اپنے امن مشن یا تہذیب کے فروغ میں اپنے کردار پر اترا سکتے تھے۔ سکینڈے نیویا والوں کے لئے یہ جنگ ایک خوشگوار احساس کا سبب تھی۔
دریں اثناء مین ہٹن میں ہلاک ہونے والے 2,746 افراد سے سو گنا زائد افغان شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔بے روزگاری ساٹھ فیصد ہے۔ دورانِ زچگی یا نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پوست کی پیداوار گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے جبکہ ’’نیو طالبان‘‘ سال بہ سال طاقت پکڑتے جا رہے ہیں۔ 2006 ء کے اواخر میں سی آئی اے نے جو سفارشات پیش کیں ، ان میں بھیانک صورتحال کی تصویرکشی کی گئی۔ ان سفارشات میں کرزئی حکومت کو بلا کا بدعنون قرار دیتے ہوئے اسے طالبان کی مدافعت کے حوالے سے نا اہل قرار دیا گیا۔1ایسے مغربی تجزیہ نگاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ناکامی کے امکانات کی بات کر رے ہیں لیکن جنہوں نے اس حماقت کی حمایت کی تھی انہیں اس کی ذمہ داری کا بوجھ بھی بانٹنا چاہئے۔
افغانستان میں ’’حالات بگڑ جانے‘‘ کے حوالے سے دو دلائل ، جو عموماََ باہم منطبق ہو جاتے ہیں، پیش کئے جاتے ہیں۔ لبرل مداخلت کاروں کا تو اس بارے میں دو حرفی جواب ہوتا ہے:’’ناکافی مداخلت‘‘۔2 بش ،چَینی اور رمز فیلڈ نے جو حملہ کیا وہ ’’ارزاں ‘‘ تھا۔ پینٹا گون جن ’’لائٹ فُٹ پرنٹس‘‘ کی بات کر رہی تھی اس کا مطلب تھا کہ 2001-2ء میں دستوں کی تعداد مناسب نہ تھی۔ ’’تعمیرِ نو‘‘ کے لئے مناسب امداد فراہم نہیں کی گئی۔ گو کافی دیر ہو چکی ہے مگر حل یہ ہے کہ مزید دستے اور مزید پیسے بھیجے جائیں، کابل میں امریکی سفیر کے بقول ’’کئی سال‘‘ تک ’’کئی ارب‘‘ ڈالر چاہئیں۔1حالات بگڑ جانے کی بابت دوسرا جواب کرزئی، وائٹ ہاوس اور عموماََ مغربی ذرائع ابلاغ پیش کرتے ہیں۔ یہ جواب ایک لفظ میں پیش کیا جا سکتا ہے: پاکستان۔ یہ دونوں دلائل منطقی نہیں ہیں۔بغداد میں خود کش حملوں میں اضافہ ہوا توافغانستان۔۔۔۔’’سلامتی‘‘ کے حوالے سے اپنی ساکھ قائم کرنے کے لئے مشتاق ڈیموکریٹس کی نظر میں۔۔۔۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ’’اصل محاذ ‘‘قرار پایا ۔ 2008 ء کے انتخابات سے قبل ہر امریکی صدارتی امیداوار نے اس کی حمایت کی جبکہ سینیٹر بارک اوبامہ تو وائٹ ہاوس پر دبائو ڈال رہے تھے کہ جب بھی ضروری ہو پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کر دیا جائے۔
15مارچ2007ء کو ،مثلاََ، اوبامہ نے این بی سی کو بتایا’’اگر آپ دیکھیں کہ اسوقت افغانستان میں کیا ہو رہا ہے تو آپ کو نظر آئے گا کہ طالبان زور پکڑ رہے ہیں، القاعدہ طاقتور ہو رہی ہے۔ ہم نے افغانستان میں جو اچھی شروعات کی تھیں،ہم ان کو جاری نہیں رکھ سکے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے وہاں سے بے شمار وسائل کو عراق منتقل کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ عراق سے فوجوں کو نکال کر کہیں اور تعینات کیا جائے اور افغانستان اس ضمن میں ایک منزل ہونی چاہئے۔‘‘چند ماہ بعد ، یکم اگست کو امریکی جھنڈے کے مناسب پس منظر میں کھڑے ہو کر انہوں نے وُڈرو ولسن سنٹر سے واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر ضرورت پڑجائے تو وہ امریکی دستوں کو یہ اجازت دیدیںگے کہ وہ پاکستانی حدود میں گھس کر َسرچ۔اینڈ ۔ڈِسٹرائے کارروائی کریں:’’یہ بات مجھے واضح کر لینے دیجئے۔ پہاڑوں میں وہ دہشت گرد چھپے بیٹھے ہیں جنہوں نے تین ہزار امریکیوں کو ہلاک کیا۔ وہ دوبارہ حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ زبردست غلطی تھی جب 2005 ء میں القاعدہ قیادت کا اجلاس ہو رہا تھا اور ہم کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ اگر ہمارے پاس کسی اہم ہدف کے بارے میں ایسی خفیہ معلومات ہیں کہ جنکی بنیاد پر کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے اور صدر مشرف ایسا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، تو ہم ایسا کر گزریںگے۔‘‘
انکی زبردست حریف، سینیٹر ہیلری کلنٹن اتنی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھیں۔ انکے ایک زبردست حامی ، کونیکٹیکٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرِس ڈاڈ نے اسی روز (وائٹ ہاوس نے بھی) اوبامہ کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا’’ ایسا کوئی تاثر دینا کہ امریکہ ایک ایٹمی طاقت کو غیر ضروری اور سرِ عام اشتعال دلائے ،انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک بات ہے۔‘‘ایک ہفتے بعد ہیلری کلنٹن نے اپنے حریف کو بھی مات دیدی اور اس خدشے کا اظہار کیا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار جہادیوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں:
’’ میرے خیال سے صدارتی دوڑ میں شامل افراد کو مفروضوں پر بات نہیں کرنی چاہئے۔ ہو سکتا ہے ہم کاروائی کے قابل خفیہ معلومات ملنے پر یہی حکمتِ عملی اپنائیں مگر یاد رکھیں قابلِ کارروائی معلومات کے حوالے سے ہمارے تجربات ایسے اچھے نہیں رہے۔ ۔۔۔میں لیکن یہ سمجھتی ہوں کہ ایسا کوئی پیغام مشرف کو ارسال کرکے مشرف حکومت کو غیر مستحکم کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی جو ایسے اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف جان ہتھیلی پر رکھے لڑ رہے ہیں جو طالبان اور القاعدہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یاد رکھئے پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ القاعدہ کے حامی پاکستان کی باگ ڈور سنبھال لیں اور ایٹمی ہتھیار اِن کے ہاتھ لگ جائیں۔ سو آپ بڑی بڑی باتیں سوچ تو سکتے ہیں مگر ایسی باتیں کہئے مت اگر آپ صدارتی دڑ میں شامل ہیں کیونکہ اس کے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہم اس موقع پر ایسا نہیں چاہتے۔‘‘
چین ،ایران اور روس بھی افغانستان پر قبضے کے حامی ہیں گو ان کی حمایت کا درجہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ روس تو افغانستان کے معاملے میں، اسکی اذیت سے تسکین بھی محسوس کرتا ہے۔افغان جنگ میں حصہ لینے والے روسی فوجی اس بات پر حیران ہیں کہ امریکی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیںجو کبھی ان سے سر زدہوئیں تھیںباوجود اس کوشش کے کہ اس تنازعے کو انسانیت کے سب سے بڑے تنازع کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود افغان جنگ میں حصہ لینے والے روسی فوجی، بالخصوص ہیلی کاپٹر پائلٹ، افغانستان میں لشکری بننے پر تیار تھے۔ دو درجن روسی اس وقت اس علاقے میں سرگرداں ہیں جسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔
افغان جنگ شروع ہوئی تو اسے ۔۔۔بشمول لارا بُش اور چیری بلئیر۔۔۔۔ ’’افغان عورتوں کی آزادی‘‘ کے لئے جنگ قرار دیا گیا۔ اگر تو واقعی ایسا ہو تا تو یہ تنازع ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر جاتا کہ یہ دنیا کی پہلی سامراجی جنگ ہوتی جس کا مقصد آزادیٔ نسواں ہوتا۔ لیکن یہ درست بات نہ تھی۔ تلخ حقیقتوں نے اس جھوٹ کا پول جلد ہی کھول دیا جس کا مقصدیہ تھا کہ امریکی شہریوں اور بچوں کو یہ برا نہ لگے کہ کسی دوسرے ملک پر بمباری ہو رہی ہے(اس کے باوجود جینا بش قائل نہ ہو سکیں، انہوں نے ڈینیل پرل کی بیوہ کو بتایا کہ وہ افغانستان میں بمباری کے خلاف تھیں)۔افغان عورتوں کی تنظیمیں جو تصویر ناٹو کے مقبوضہ ملک بارے پیش کرتی ہیں ،وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ روسی دور میں عورت کی حالت کہیں بہتر تھی۔
تاریخی طور پر تو ایسا ہوا کہ ملک کی حالت بہتر بنانے کے لئے افغان اشرافیہ کے روشن خیال حصے نے جب بھی کوئی کوشش کی، سلطنتِ برطانیہ نے اسے سبوتاژ کیا۔ انیسویں صدی سے تمام انتظامی و سیاسی قوت اور تمام زمین بادشاہ ، اشرافیہ اور قبائلی سرداروںکے ہاتھ میں تھی۔ بادشاہ افغان یکجہتی کی علامت تھا ۔ بیرونی طاقتوں سے تعلقات اس کی ذمہ داری تھی مگر اس کی موثر حکومت پشتون علاقوں تک ہی محدود تھی۔ آبادی کی اکثریت کاشت کاری کرتی تھی یا بھیڑ بکریاں پالتی تھی جبکہ دستکار، تاجر، ہنر مند اور کاروباری لوگ کابل، ہرات، قندھار اور غزنی ایسے قرونِ وسطیٰ کے شہروںمیں آباد تھے۔
انیسویں صدی میں ملک پر قبضے کی دو برطانوی کوششیں جزوی طور پرناکام رہیں۔ 1893 ء میں دوسری فوجی مہم کی پسپائی کے بعد ملک کی خارجہ پالیسی برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی جبکہ اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ ملک زار کے روس اور برطانوی ہند کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ ہو گا۔ساتھ ہی ایک اور دھچکا اس بفر کو یہ لگا کہ برطانیہ نے پہاڑوں کے بیچ ڈیورنڈ لائن کی صورت ایک لکیر کھینچ دی جو افغانستان کی نیم مستقل سرحد بن گئی۔ ڈیورنڈ لائن کا مقصد ایک طرف تو یہ تھا کہ پشتون قبائل کو کمزور کر کے انکی ممکنہ سیاسی قوت میں کمی کی جائے اور دوسری جانب برطانوی ہند کو مضبوط کیا جائے۔ بزور ِطاقت نافذ ہونے والے اس معاہدے کی عمر سو سال تھی ۔ یہ مدت گزر جانے کے بعد ڈیورنڈ لائن کوختم ہونا تھا اور یہ زمین افغانستان کو واپس مل جانی تھی مگر اس معاہدے کی اس تشریح کو پاکستان تسلیم نہیں کرتا۔
بیسویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے بعد ترکی کے کمال اسٹ انقلاب اور زار شاہی کے خاتمے پر روسی انقلاب کی شکل میں غیر ملکی اثرت بالواسطہ طور پر مرتب ہوئے۔بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اصلاح پسند بادشاہ امان اللہ نے ایک آئین تشکیل دیا جس میں منتخب پارلیمنٹ اور عورتوں کو ووٹ کا حق تفویض کیا گیا۔برطانیہ نے ٹی ۔ ای۔ لارنس ’’آف عریبیہ‘‘ کو درآمد کیا تاکہ قبائلی بغاوت کے ذریعے بادشاہ کا تختہ الٹا جاسکے۔ قبائل کے قدامت پرست سرداروں کو بغاوت پر مائل کرنے کے لئے جو پراپیگنڈہ کیا گیا اس میں ملکہ ، جوحقوقِ نسواں کی کسی قدر حامی تھیں، کی ایسی جعلی تصاویر تیار کی گئیں جن میں انہیں تیراکی کے لباس میں پیش کیا گیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جمود طاری رہا اور کم ہی کسی کو امید تھی کہ یہاں جمہوریہ قائم ہو سکے گی کجا کوئی ترقی پسند تبدیلی۔ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ ہلکے سے قوم پرست تھے۔ برطانیہ کو شدید ناپسند کرتے تھے اور اس وجہ سے انہوں نے 1945 ء تک مسولینی اور ہٹلر سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔
ظاہر شاہ ،جو اپنے جانشینوں کی نسبت کم آمرانہ تھے، کو 1973 ء میں ان کے کزن دائود نے ایک محلاتی سازش کے ذریعے ہٹا دیا اور بادشاہ کو اطالوی رویرا میں پناہ لینا پڑی ۔اس موقعے پر اکثر مبصرین کا خیال تھا کہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اس ملک نے حیران کن حد تک پیش قدمی کی ہے۔ اجارہ دھند معیشت اور محصور در خشکی (لینڈ لاکڈ)ہونے کے باعث اس ملک کا بیرونی امداد پر زبردست انحصار تھا جبکہ دولتمند اشرافیہ اور اکثریت کے بیچ زبردست طبقاتی خلیج پائی جاتی تھی۔ ایک کابل کے سوا جدت شہروں تک بھی نہیں پہنچ سکی تھی۔ پانچ سال بعدد ائود بھی اپنے سابق اتحادیوں کے ہاتھوں اس وقت فارغ ہو گئے جب کمیونسٹوں کی قیادت میںبغاوت ہو گئی۔ درانیوں کا اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا۔ نئی حکومت بھی دلدل میں پھنس گئی۔گرتی ہوئی اس حکومت کو بچانے کے لئے 1979 ء میں سویت روس نے سرخ فوج بھیج دی ۔یہ بات بالکل واضح تھی کہ سویت فوج کی آمد کے خلاف ہولناک ردِ عمل ہو گا اور کئی دہائیوں تک یہ خطہ ہل کر رہ جائے گا۔ ایسے لوگ البتہ کم ہی تھے جو یہ دیکھ پائے کہ ایک ایسا ملک جو کبھی امریکی اتحادی تھا، اس برق رفتاری سے نہ صر ف اس قدر شدید دشمن بن جائے گا بلکہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی ہنگامہ کھڑا کر دے گا جو پہلی کارروائی میں بھی اہم حیثیت کا حامل تھا اور موجودہ کارروائی میںبھی۔
اکتوبر 2001 ء میں جب بمباری کا آغاز ہوا تو میں نے مندرجہ ذیل منظر نامہ پیش کیا تھا:
’’۔۔۔۔طالبان بری طرح گھر چکے ہیں اور تنہا ہو چکے ہیں۔ شکست انکا مقدر بن چکی ہے۔ دو اہم سرحدوں پر ،ایران اور پاکستان ان کے خلاف صف آراء ہیں۔ ممکن نہیں کہ طالبان چند ہفتوں سے زیادہ گزار جائیں۔ ظاہر ہے کہ طالبان کے کچھ دستے پہاڑوں میں پناہ لیکر اسوقت کا انتظار کریں گے کہ جب مغربی قوتیں واپس چلی جائیں گی اور نئی حکومت بنے گی جس کی تشکیل کے لئے اسّی سالہ ظاہر شاہ کو اٹلی میں ان کے پُر آسائش رومن گھر سے نکال کر کابل کے کھنڈرات میں روانہ کیا جائے گا۔
مغرب کا حمایت یافتہ شمالی اتحاد طالبان کی نسبت کم مذہبی ہے مگر ہر معاملے میں اس کا ریکارڈ طالبان ایسا ہی گھناؤنا ہے۔گذشتہ چند سالوں میں شمالی اتحاد نے ہیرویٔن کی منڈی سنبھال رکھی ہے اور یوں بلئیر کا یہ دعوٰی ایک مذاق معلوم ہوتا ہے کہ یہ منشیات کے خلاف بھی جنگ ہے۔
یہ رائے ایک مذاق سے زیادہ نہیں کہ شمالی اتحاد طالبان کی نسبت بہتر ہے۔ ان کی پہلی جبلت یہ ہو گی کہ اپنے مخالفوں سے انتقام لو۔ یہ اتحاد البتہ ٰ گلبدین حکمت یار کے علیحدہ ہونے سے کمزور ہوا ہے جو کبھی مغرب کے پسندیدہ ’’مجاہدِ آزادی‘‘ تھے ۔ وائٹ ہاوس اور ڈائوننگ سٹریٹ میں انہیں ریگن اور تھیچر خوش آمدید کہا کرتے تھے۔
اس شخص نے اب کافروں کے خلاف طالبان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقامی اور علاقائی مخاصمتوں کے پیشِ نظر افغانستان کو موکل ریاست کے طور پر چلانا آسان کام نہ ہوگا۔ جنرل مشرف پہلے ہی پاکستانیوں کو بتا چکے ہیں کہ شمالی اتحاد کے غلبے میں بننے والی حکومت ان کو قابلِ قبول نہ ہو گی۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ انکی فوج دس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے شمالی اتحاد کے خلاف لڑ رہی ہے۔
پاکستانی فوج میں (عرب فوجوں کے بر عکس) کبھی کپتانوں اور کرنیلوں نے بغاوت نہیں کی۔ ہمیشہ جرنیلوں نے بغاوت کی اور فوج کو ، عموماََ مالِ غنیمت کی تقسیم سے، متحد رکھا۔
یہ سوال البتہ قابلِ بحث ہے کہ اب بھی ایسا کیا جا سکے گا۔اس کا انحصار کافی حد تک موجودہ جنگ کے نتیجے پر ہے۔ اکثر پاکستانیوں کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان اپنے ملک میںاکیلے رہ گئے اور انہیں وہاں شکست ہوئی تو وہ پاکستان کا رخ کریں گے جہاں وہ پاکستان کے شہروں اور اس کے سماجی ڈھانچے کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیں گے۔ پشاور، لاہور،کراچی اور کوئٹہ بالخصوص آسان ہدف ہوں گے۔ اس وقت مغرب، ’’کامیابی‘‘ حاصل کر چکنے کے بعد، اس کشا کش سے آنکھیں بند کرلے گا جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے گا۔
جہاں تک تعلق ہے اس کارروائی کے مجوزہ ہدف کا۔۔۔۔بن لادن کی گرفتاری۔۔۔۔اسے حاصل کرنا آسان نہ ہوگا۔ وہ پامیر کی پہاڑیوں میں محفوظ ہیں اور وہاں سے غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ فتح کا اعلان بہر حال کر دیا جائے گا۔ مغرب اپنے شہریوں کی کمزور یادداشت پر بھروسہ کرے گا۔ چلیں فرض کیجئے بن لادن کو گرفتار کر کے مار دیا جاتا ہے۔ اس سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو کیا مدد ملے گی؟ دیگر افراد گیارہ ستمبر کے واقعات کو مختلف انداز سے دہرانے کی کوشش کریں گے۔1
ان دنوں مغرب کی ساری قیادت، شائد ہی کوئی استثناء ہو، قائل تھی کہ بمباری اور قبضہ جائز اور درست ہے۔
جن تجزیہ نگاروں کو حقیقت کا علم ہے وہ اس بات کو متنازعہ نہیں سمجھتے کہ ’’اچھی جنگ‘‘ اب بری بن چکی ہے ۔مسائل سے کیسے نپٹا جائے،ا س بارے میں کوئی متفقہ حل موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں جو مسائل درپیش ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ناٹو کا مستقبل کیا ہو گا جو اس وقت اوقیانوس سے ہزاروں میل دور ایسے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جہاں کے باسی قابضین کو ایک ابتدائی موقع دینے کے بعد اپنی غلطی کا احساس کر چکے ہیں اورقبضے کے شدید مخالف بن چکے ہیں۔2003ء کے اوائل ہی میں امریکی کونسل برائے خارجی امورنے جو سفارشات تیار کرنے کا حکم دیا تھا، ان میں مستقبل کی مایوس صورت حال کی تصویر کشی کر دی گئی تھی:
’’طالبان اور اس کی اتحادی القاعدہ کی شکست کو انیس ماہ گزر چکے ہیں مگر ہنوز افغانستان اس امریکی ہدف سے دور ہے جس کے مطابق اسے ایک ایسی مستحکم، خود مختار ریاست بننا تھا جو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ ہو۔سچ تو یہ ہے کہ اگر امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا اور اقتصادی بحالی کا کام شروع نہ ہو سکا تو جنگی سالاروں کے غلبے میں انارکی واپس آ جائے گی جو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے لئے شدید دھچکا ہو گا۔ ٹاسک فورس کے خیال میں اس سے بچائو کا طریقِ کار یہ ہے کہ امریکہ صدر حامد کرزئی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امن عامہ میںبہتری کے ساتھ ساتھ سفارتی اور معاشی بحالی کے لئے اپنی حمایت میں اضافہ کرے۔گو کرزئی کی یہ کوشش ہے کہ اپنے اختیارات کا دائرہ کار کابل سے باہر تک بڑھا دیں مگر ان کے پاس وہ وسائل نہیں ہیں جس سے ہٹ دھرم جنگی سالاروں اور ملک کے بیشتر حصے پرقابض علاقائی سرداروں کی اطاعت کو یقینی بنا سکیں۔ افغانستان میں 9000 امریکی دستوں کی موجودہ حکمتِ عملی کا مطلب ہے کہ کرزئی علاقائی جنگی سالاروں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ 100,000 افراد پر مبنی مضبوط ملیشیا سے ہتھیار ڈلوا سکتے ہیں۔ افغان حالات میں ،جہاں امریکی فوج بنیادی فوجی طاقت ہے، یہ غلط طرزِ عمل ہے کہ اس طرح کابل، جہاںانٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (اساف) کے 4,800دستے حفاظت پر معمور ہیں،سے باہر سلامتی کے لئے شدید خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘
پانچ سال بعد ، 28 فروری 2008ء کو، نائب صدر ڈِک چَینی کے کٹر حامی ، ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ایڈمرل مائیکل میک کونل سینیٹ آرمڈ سروس کمیٹی کو بتا رہے تھے کہ امریکی حمایت یافتہ حامد کرزئی ملک کے تیسرے حصے سے بھی کم جبکہ طالبان گیارہ فیصد حصے پر حکمرا ن اور ہر جگہ موجود ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ کیا سرکشی پر قابو پایا جا سکا تو ایڈ مرل کا جواب زیادہ تسلی بخش نہیں تھا:’’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ سرکشی جنوب میں جاری ہے جبکہ مشرق اور شمال میں اس کے اندر اضافہ ہوا ہے۔‘‘بحران کی شدت کے پیشِ نظر کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ اس آپریشن کا دائرہ کار بڑھا دے اور اس کا طریقِ کار بدل دے؟
فورٹ رِلے ،کنساس، میں یقیناََ اس قسم کی سوچ پائی جاتی ہے جہاں مارچ 2008 ء میں چنیدہ امریکی فوجی اور اکتیس افغان فوجی تربیت پا رہے تھے۔ افغان فوجی امریکی دستوں میں ’’ثقافتی حساسیت‘‘ جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔وائس آف امریکہ کی خبر کے مطابق’’تربیت ایک فرضی افغان گائوں میں ہو رہی ہے جہاں وقتی اداکار ، جن کی اکثریت افغانستان نژاد امریکیوں پر مشتمل ہے،گائوں کے فرضی باسیوں اور امریکی فوجیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فوجیوںکا کام ہے کہ وہ احتیاط سے گائوں میں داخل ہو کر جنگجو کے گھر کی نشاندہی کریں ا ور گلی میں آتے جاتے کسی شخص کو گزند نہ پہنچائیں۔۔۔۔ لیفٹیننٹ کرنل جان ناگی، جنہوں نے شورش سے نپٹنے کے لئے فوجی ہینڈ بُک بھی لکھی ہے، کہتے ہیں کہ افغان لوگوں بارے بہتر جانکاری القاعدہ اور طالبان کو شکست دینے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔1
ایسے میں لیکن کیا ہو گا اگر افغان لوگ یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیں کہ قبضہ ان کے مفاد میں نہیں ہے اور وہ مزاحمت کاروں کی حمایت جاری رکھیں؟ شورش سے نپٹنے والے ماہرین کے دماغ میں تو شائد یہ سوال نہ آئے لیکن پینٹاگون کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
اس جنگ کا ابتدائی ہدف تو یہ تھا کہ اسامہ کو زندہ یا مردہ گرفتار کیا جائے اور القاعدہ کے اڈے تباہ کر دئے جائیں۔ گیارہ ستمبر سے پہلے مغرب میں طالبان کے خلاف ایسی شدید مخاصمت نہیں پائی جاتی تھی۔ گیارہ ستمبر کے فوری بعد بھی پاکستانی حکام سے کہا گیا تھا کہ اگر طالبان القاعدہ کے رہنمائوں کو حوالے کر دیں تو طالبان حکومت کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ ملّا عمر نے اس بنیاد پر اسامہ کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا کہ ایک تو وہ مہمان ہیں دوسرے امریکہ پر حملوں سے اسامہ کے تعلق کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا۔ ملّا عمر البتہ امریکہ سے گفت و شنید جاری رکھنے کے حق میں تھے جیسا کہ 9/11کمیشن کی سفارشات میں بتایا گیا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل اس بات پر بحث کر ہی تھی کہ کیا گیارہ ستمبر کو عراق پر حملے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن جب ملّا عمر نے بات نہیں مانی تو پھر افغانستان پر توجہ دینے کے سوا چارہ نہ رہا۔یہ ملک نفرت، خوف اور بدلے کے طوفان میں گھر گیا۔ پاکستان نے جب سرکاری طور پر امریکہ کا ساتھ دے دیا تو کابل میں طالبان حکومت بغیر کسی بڑی جدوجہد کے ختم ہو گئی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ طالبان کے جیالے حامی اس برق رفتاری سے فرار کیوں ہوئے۔ پاکستان نے براہ راست تصادم سے منع کر دیا اور آئی ایس آئی کے چند منحرفین کے با وصف پاکستان کی بات مان لی گئی۔ملّا عمر کے اڑیل دھڑے نے ازخود یہ فیصلہ کیا کہ وہ پہاڑو ں میں چھپ کر انتظار کریں گے۔یوں کابل با آسانی فتح ہو گیا اور بی بی سی کے نامہ نگار کے پیچھے پیچھے شمالی اتحاد کے قہرمان بھی شہر میں داخل ہوگئے۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ ’’فتح ‘‘حاصل کرنے میں پاکستان کے کردار کو اجاگر نہیں کیا۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ سپیشل فورس کے دستوں اور سی آئی اے کے ’’ماہرین‘‘ نے افغانستان کو آزاد کرایا اور یہاں کامیابی کے بعد اب انہیں عراق بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ ہر سطح پر انتہائی غلط پیش بینی تھی۔ ایک بار جو صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس پر پردہ ڈالنا بھی ممکن نہ رہا تو سابق امریکی سفیر سرِ عام کہنے لگ گئے کہ وسائل کم ہیں، فوج ناکافی ہے، پیسے نہیں ہیں۔ اپریل 2002ء میں امریکی صدر نے دنیا کو بتایا:’’ہم مضبوط ہیں، ہمارا ارادہ مصمم ہے، ہم باز آنے والے نہیں۔۔ہم اپنے مقصد کی تکمیل تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
اسی ماہ مہاجروں کی ایک نئی لہر تاریخ کے جبر سے پناہ لینے کے لئے ہجرت کر گئی اور طالبان کے درمیانے درجے کے کارکن پاکستان آ گئے تاکہ اپنی صف بندی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں۔افغانستان کے افغان امریکن پرو قونصلر زلمے خلیل زاد نے نئی حکومت کی تشکیل کا مشکل کام شروع کیا۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ پر انی نوآبادیاتی طاقتوں کی طرح، امریکیوں (یا افغان امریکیوں ) کی ایک پوری نسل کو بلا کر اس ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیدی جاتی۔ ایسا کیا بھی جاتا تو مقامی اتحادیوں کی ضرورت پھر بھی پڑتی۔ خلیل زاد کو معلوم تھا کہ شمالی اتحاد کے بغیر ملکی معاملات نہیں چلائے جا سکتے لہٰذا قبضے کا جواز فراہم کرنے کے لئے جو نعرے بازی کی گئی تھی ،خلیل زاد نے اس میں کمی کی۔
خلیل زاد کا تشکیل دیا ہوا اتحادکسی ہشت پا کی طرح تھا جس کی آنکھ حامد کرزئی تھے۔حریف گروہ جن کے مابین فقط طالبان دشمنی مشترکہ قدر تھی، کابل پر قابض ہو گئے ۔ ان کے نمائندوں کو ہر سطح پر کھپانا بھی اہم تھا۔ ایسے میں مشکل تھا کہ کوئی قائم مقام حکومت قائم کی جائے۔ دریں اثناء امریکی فوج سویت اڈوں میں قیام پزیر ہو گئی اور بندی خانوں میں ایک مرتبہ پھر تشدد کا شکار ہونے والے قیدیوںکی چیخیں گونجنے لگیں۔ ’’شکاگو بوائز‘‘ پنوشے کے چلی میں قبرستان کا سکون لیکر آئے تھے۔ ’’برکلے مافیا‘‘ سہارتو کے انڈونیشیا میں ’’مائیکرو اکنامک استحکام‘‘ کے نقیب بن کر آئے۔کیا کابل پر نازل ہونے والا این جی او ٹڈی دل ایسا کوئی کارنامہ سر انجام دے پائے گا؟ پنوشے اور سہارتو نے حزبِ اختلاف کوخون میں نہلا دیا ۔ انڈونیشیا میں دس لاکھ لاشیں گریں۔ افغانستان کو اس طرز پر غلام نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ ایک تو قباہلی غلبے پر مبنی اس کا سماجی ڈھانچہ اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ دوم، رسمی غیر مرکزیت، جس کی نمائندگی شمالی اتحاد کرتا ہے۔ افغانستان میں موجودہ بد نظمی 1993 ء میں صومالیہ کے اندر اٹھائی جانیوالی ہزیمت سے مشابہ ہے۔
طالبان حکومت سعودی عرب کی وہابی ریاست کی ’’خالص ترین‘‘ شکل تھی۔ بے رحم اور جابرانہ طالبان حکومت نے بہر حال ایک ایسے ملک میں امن ضرور قائم کر دیا جو 1979 ء سے بیرونی و اندرونی جنگوں کا شکار تھا۔ہر کسی کا یہ کہنا تھا کہ ملک میں جنسی زیادتی کی وبا، زیادتی کرنے والوں کی سرِ عام پھانسی کے نتیجے میں ختم ہو گئی حالانکہ طالبان کے ایک ریڈیکل فیمن اسٹ حلقے کا خیال تھا کہ ایسے مجرموں کو پھانسی دینے کی بجائے انہیں خصی کر دینا کافی ہے۔ ہیرویٔن میں کمی کی کوشش بھی کی جارہی تھی اور اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔ اقتصادی محاذ پر وہابی اسلام عصرِ حاضر کے مقبول نیولبرل نظام سے مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے۔حرف بہ حرف ترجمہ کیا جائے تو آزاد تجارت کے حق میں قرآنی آیات مل جاتی ہیں۔ طالبان وفد نے جب ٹیکساس میں یونوکول (جو اب شیوران کا حصہ ہے) کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا تو انکی بھر پور عزت افزائی کی گئی۔ 13دسمبر 1997ء کو لندن کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے سرخی جمائی :
Oil Barons Court Taliban in Texsas
(تیل کا کاروبار کرنے والے سیٹھ ٹیکساس میں طالبان کو رام کرنے میں مصروف)
اخبار نے اپنے قارئین کو مطلع کیا کہ باریش مہمان ’’امریکی کمپنی کے ساتھ دو ارب ڈالر کا معاہدہ کرنے پر تیار ہیں جس کے تحت جنگ سے تباہ حال ملک کے طول و ارض میں ایک پائپ لائن بچھائی جائے گی‘‘۔ آگے چل کر اخبار پر اسرار انداز میں بتاتا ہے کہ ’’اسلامی جنگجو کسی گفت و شنید کے بجائے ٹیکساس کی روایتی مہمان نوازی کے نتیجے میں یہ معاہدہ کرنے پر تیار ہوئے ہیں۔۔۔۔روایتی شلوار قمیض اور افغان واسکٹ میں ملبوس،ڈھیلی ڈھالی سیاہ پگڑی باندھے اس اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ چار روزہ قیام کے دوران وی آئی پی سلوک کیا گیا۔‘‘تراش خراش کے فرق کے باوجود معاہدہ بہر حال معاہدہ ہوتا ہے اور اس موقع پر جو تصاویر کیمرے میں محفوظ بنا لی گئیں انہیں بعد میں مائیکل مُور نے اپنی دستاویزی فلم ’’فارن ہائیٹ نائن الیون‘‘ میں امر بنا دیا۔پائپ لائن کا منصوبہ طالبان کے شکوک و شبہات کی وجہ سے تاخیر کا شکار نہیں ہوا۔ یہ تو مقابلے پر روس سے آنے والی پیشکش تھی جسے تہران کی حمایت بھی حاصل تھی جس نے دیر کرا دی۔ اس کے باوجود امریکی تیل کمپنی کو اپنی کامیابی کا یقین تھا اور وہ حتمی معاہدہ کرنے ہی والی تھی کہ جہاز جڑواں میناروں سے جا ٹکرائے۔
طالبان کی جانشین حکومت سے لوگوں کو توقع تھی کہ وہ امن و امان تو طالبان جیسا ہی مہیا کرے مگر جبر اور سماجی بندشیں نہ ہوں، سانس لینے کی آزادی ہو۔ جو سامنے آیا اس نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
کمی پیسے کی نہ تھی۔ مسئلہ مغرب کا بنایا ہوا تعمیرِ نو کا منصوبہ تھا: خلقی طور پر یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جو اوپر سے مسلط کیا گیا اس کے تحت ایک ایسی فوج کی تشکیل مقصو دتھی جس کا کام ملکی دفاع کے بجائے غیر ملکی طاقتوں کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو قابو میں لانا تھا۔ ایک ایسی سول انتظامیہ کی تشکیل جس کے دائرہ کار میں صحت، تعلیم اور منصوبہ بندی شامل نہ ہو ں بلکہ یہ کام این جی اوز سے لیا جائے گا جن کے ملازم مقامی لوگوں کی نسبت بہتر تنخواہ لیں گے اور یہ ملازم مقامی آبادی کے بجائے سمندر پار اپنے حکام کو جواب دہ ہوں گے، اور ایک ایسی حکومت جس کی خارجہ پالیسی امریکی خارجہ پالیسی کا عکس ہو۔ ستمبر 2006 ء میں کابل میں تعینات ایک جرمن نامہ نگار نے اپنے ملک ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں وضاحت کی گئی کہ مغرب کے خلاف یہاں اتنی دشمنی کیوں پائی جاتی ہے اور مزاحمت کا ساتھ دینے والے افغانوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ قابضین، اگر وہ کسی طوائف کو بھی لائیں تو اس کا خرچہ اپنے دفتر کو ڈال دیتے ہیں، جب دولت کی نمائش کرتے ہیں اور دوسری طرف افغان ہیں جو غربت کا شکار ہیں تو غصہ جنم لیتا ہے۔ اس پر مستزاد کابل میں ہفتہ وار تعطیل کے موقع پر ہونے والی ضیافتیں:
’’صبح کے وقت مغربی شہری درجنوں کی تعداد میں ایسی گاڑیوں میں وزارتوں کے دفاتر میں پہنچائے جاتے ہیں جو ان کے ڈرائیور چلا رہے ہوتے ہیں۔ دوپہر کے وقت ان کو ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں وہاں سے واپس گھر پہنچایا جاتا ہے۔ غیر ملکی شہر میں نئے رواج لیکر آ ئے ہیں: جینز کا فیشن ہے گو عورتوں کی اکثریت ابھی بھی برقعہ پہنتی ہے۔ ہر جمعرات کو، افغانستان میں ہفتہ وار چھٹی شروع ہونے سے پہلے، یو این ایچ ایس۔۔۔۔اقوامِ متحدہ کی ہوائی سروس۔۔۔۔میں ایسے مسافروں کا زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جو صوبوں سے کابل آنا چاہتے ہیں کہ یہ پارٹی ٹائم ہے!د ارلحکومت کے کہنہ محلوں میں برلن اور نیو یارک ایسی اشوب گرانہ عیاشی ہوتی ہے۔
ایک فرنچ شپنگ کمپنی کی طرف سے دی گئی چوغہ ضیافت میں مردوں نے ، اپنے کپڑے اتار دیئے،مصنوعی لارل ہار پہنے اور چادروں میں لپٹے رومن بادشاہوں کی طرح چہل قدمی کرتے نظر آئے۔ کسی کنسلٹنگ فرم کی طرف سے منعقد کی گئی ایک گارڈن پارٹی میں پو پھوٹنے تک ہلا گلا مچایا اور پیچھے دیواروں پر اونٹوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں‘‘۔1
یہ حیرت انگیز استعماری تکبر ہے کہ آپ کو نظر ہی نہ آئے کہ ایک ملک پر قبضہ ہے ، قبضے کو چاہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جائز ہی قرار کیوں نہ دیا ہو، اور اس ملک کی خودمختاری کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں کوئی حکومت کس طرح جائز قرار پا سکتی ہے؟قبضے کے دو ماہ بعد،27 نومبرتا5دسمبر 2001ء، بون کانفرنس میں اس بارے میں کوئی بحث نہ ہو سکی اور یہ کانفرنس اقتدار میں شراکت کا مسئلہ حل کرنے میںلگ گئی۔حقائق سے بے خبر جرمن وزیر خارجہ جاشکا فشر نے جرمن وفاق کی طرز پر وفاقی حل پر زور دیا تاکہ علیحدگی پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی ہو سکے مگر یہ مسئلہ تو درپیش تھا ہی نہیں۔سوال تو یہ تھا اقتدار کس کے پاس ہو گا،اس کا مرکز کہاں ہو گا۔مغرب کی توجہ حاصل کرنے کے لئے شمالی اتحاد نے 2002-3 میں کرزئی کے خلاف تین مرتبہ بغاوت کی ۔ وہ تو ناٹو نے ان کا راستہ روک دیا کہ عوام کی نظر میں انکی حکومت کا جواز فراہم کرنا ممکن نہ ہوتا۔
حقائق بالکل واضح تھے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد چار مسلح گروہ مضبوط علاقائی قوت بن کر ابھرے۔گیس سے مالا مال، وسط ایشیائی ریاستوں، از بکستان اور تاجکستان کے پڑوس میں ، ازبک جنگی سالار رشید دوستم سامنے آئے جن کا دارلحکومت مزارشریف تھا۔ پہلے وہ کمیونسٹوں کے اتحادی تھے، پھر طالبان کے ساتھ مل گئے۔آج کل ناٹو کے ساتھ ہیں۔ اپنی آ خری وفاداری کا اظہار انہوں نے سینکڑوں عرب اور طالبان قیدیوں کو ہلاک کر کے دیا۔
دوستم کے قریب ہی، ملک کے کوہستانی شمال مشرقی حصے میں،جہاں زمرد، لاجوَرد اور پوست کی بہتات ہے، یہاں مرحوم احمد شاہ مسعود نے تاجکوں پر مبنی تنظیم تشکیل دی جو شاہراہ سالنگ پر سویت دستوںپر شب خون مارتے ۔ سویت قبضے کے دوران یہ سڑک کابل کو تاشقند سے ملاتی تھی۔ طالبان مخالف گوریلا رہنمائوں میں مسعود سب سے متحرک رہنما تھے، جن کی شائد تعریف کے زیادہ ہی پل باندھ دیئے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ پنج شیر سے تھا۔روس مخالف جنگ کے دوران مسعود کو پیرس میں بہت پزیرائی ملی ۔انہیں عموماََ ایک تنو مند،رومانوی، کمیونسٹ دشمن چے گویرا بنا کر پیش کیا جاتا جو عوامی رہنما ہے۔ اس بات کا ذکر کم ہی کیا جاتا کہ وہ برہان الدین ربانی کی جماعت اسلامی کے رکن تھے اور اکثر سماجی مسائل پر ان کا نقطہء نظر انتہائی رجعتی تھا۔ ان دنوں اسلام پرست گروہ مغرب کے اتحادی تھے لہٰذا ایسی باتیں معمولی خامی سمجھی جاتی تھیں۔
گیارہ ستمبر سے دو روز قبل اگر مسعود کو ہلاک نہ کر دیا جاتا تو طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ نئی حکومت میں سربراہی کے متوقع امیدوار تھے ۔ فرانسیسی حکومت نے ان کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ جاری کیا جبکہ ناٹو نے کابل کا ہوائی اڈہ انکے نام منسوب کر دیا۔مسعود لیکن ایسے قابلِ
بھروسہ موکل ثابت نہ ہوتے جیسے باہر سے لائے گئے حامد کرزئی ثابت ہوئے۔ اس سوال پر بحث کی مکمل گنجائش موجود ہے کہ کیا مقامی گوریلا رہنما ملک پر دیرپا غیر ملکی قبضے اور ملک میں امریکی فوجی اڈے قائم کرنے پر راضی ہو جاتا۔مسعود برہان االدین ربانی کی جماعت کے عسکری بازو کے سربراہ تھے۔یہ جماعت عبدالرسول سیاف کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتی تھی۔1973 ء میںکابل یونیورسٹی میں یہ دونوں قانونِ شریعت پڑھاتے تھے۔دونوں کی تحریکوں نے بال و پر نکالے اور 1993ء تک دونوں کو سعودی عرب سے پیسے ملتے رہے۔ اس کے بعد ثانی الذکر نے دھیرے دھیرے طالبان کی حمایت شروع کر دی۔ مسعود نے طالبان کے دور میں نیم خودمختار ی قائم رکھی۔ اپنے مغربی حامیوں کی نظر میں وہ مردانگی کا نمونہ تھے۔افغانستان میں یہ تاثر البتہ موجود نہیں تھا۔ ان کے زیر انتظام علاقوں میں عورتوں سے زیادتی اور ہیروئن کی تجارت عام بات تھی۔ انکے حامی اسوقت حکومت میں موجود ہیں مگر وہ اتنے قابلِ بھروسہ نہیں جتنی کرزئی اور ناٹو کو اس بات پر پریشانی لاحق ہے۔
مغرب میں ،پڑوسی ملک ایران کی چھتر چھایا تلے، ہرات کا تاریخی شہر واقع ہے جو کبھی علم اور تہذیب کا مرکز تھا ۔ یہاں شاعر، فنکار اور عالم آباد تھے۔ یہاں تین صدیوں تک اہم کتابیں لکھی گئیں اور انکی نقش ونگاری کی گئی۔ ان کتابوں میں معراج نامہ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب پیغمبرِ اسلام کی مسجد اقصیٰ سے معراج کے لئے روانگی اور اس سفر کے دوران ان سزائوں کا بیان ہے جن کا منظر حضرت محمدؐ نے اس سفر کے دوران دیکھا۔ کچھ یورپی عالموں کا خیال ہے کہ اس کتاب کے لاطینی ترجمے نے دانتے کو متاثر کیا۔ اس کتاب میں اکسٹھ تصاویر کی نقاشی کی گئی ہے اور ہر نقاشی پیغمبرِ اسلام سے محبت کا خوبصورت اظہار ہے۔ ان کے نقوش وسط ایشیائی ہیں اور وہ ایک ایسے جادوئی گھوڑے پر سوار ہیں جس کا سر نسوانی ہے۔ جبرائیل اور آدم کے ساتھ ملاقات کا منظر ہے، جنت کے دروازے پر منتظر حوروں کو دکھایا گیا ہے۔ ایک منظر میں جہنم کے اندر آبِ انگور پینے والوں کو ملنے والی سزا کاحال بیان کیا گیا ہے۔ یہ حیرتناک نقاشی اوہیگر رسم الخط میں ملک بخشی کی خطاطی سے مزین ہے۔
ایسی کسی تخلیق کے لئے جس ثقافت کی ضرورت تھی ،موجودہ ہرات یا اس کے قرب و جوارکا اس سے کوئی تعلق نہیںجہاں جنگی سالار اسمعٰیل خان کا حکم چلتا ہے اور اکثریت ہزارہ لوگوں کی ہے۔ انقلابِ ایران سے متاثر ہونے والے فوج کے سابق کپتان کو اس وقت راتوں رات شہرت ملی جب 1979 ء میں انہوں نے ماسکو نواز حکومت کے خلا ف ایک فوجی بغاوت کی قیادت کی۔ تہران کی پشت پناہی سے اسمعٰیل خان نے ایک مضبوط تنظیم بنائی جس میں سب شیعہ گروہ متحد کر دیئے اور یہ تنظیم روسیوں کے لئے ان کے قیامِ افغانستان کے دوران مسلسل دردِ سر بنی رہی۔ یہاں سے ہجرت کرنے والے ہزاروں افراد کو (یہاں فارسی زبان کا ایک لہجہ بولا جاتا ہے) ایران میں پناہ، نوکری اور تربیت دی گئی۔ 1989-92کے عرصے میں یہ علاقہ مطلق العنان انداز میں چلایا گیا۔ اسمعٰیل خان کی سخت گیری اور بدمعاشیوں نے کئی حامیوں کو برگشتہ کر دیا ۔ ٹیکس کی زیادتی اور زبردستی کی فوجی بھرتی نے کسان خاندانو ںکو اشتعال دلایا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا، اسمعٰیل خان کی حمایت ختم ہو چکی تھی۔ ہرات پر بغیر کسی جدوجہد کے قبضہ کر لیا گیا۔ اسمعٰیل خان اور ان کے حامی ایران چلے گئے اور وہیں اپنا وقت کاٹا تاآنکہ اکتوبر 2001ء میں ناٹو کے زیر سایہ انکی واپسی ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے افغانستان اور عراق پر قبضے میں خفیہ مدد دی ۔ اس طرح ایران نے اپنے دو دشمنوں سے نجات حاصل کر لی۔ عراق میں یہ حکمتِ عملی زیادہ کامیاب رہی کہ وہاں گرین زون حکومت میں ایران نواز جماعتوں کو کافی حصہ ملا۔ افغانستان میں صورتحال مختلف تھی۔ یہاں 27فیصد تاجک ہیں، ازبک اور ہزارہ بالترتیب 8 اور 7 فیصد جبکہ 54فیصد پشتون ہیں جو پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ مشرق اور جنوب میں آباد ہیں۔ پہلی افغان جنگ (1979-92)کے دوران تین گروہ تھے جنہیں غلبہ حاصل تھا ۔ جوں ہی ان کا کابل پرقبضہ ہوا، ہندووں اور سکھوں پر مبنی چھوٹی سی اقلیت ۔۔۔۔جو زیادہ تر دکاندار اور تاجر تھے۔۔۔۔بے گھر ہو گئی۔ کچھ ہلاک ہو گئے۔ دس ہزار کے قریب مہاجر ہو کر بھارت پہنچے۔
آئی ایس آئی کے اثاثے، گلبدین حکمت یار کو سعودی سرپرستی بھی حاصل رہی ۔ ان کو اس خیال سے پالا پوسا گیا کہ وہ کابل پر قبضہ کریں گے مگر ان کا سامنا مسعود اور دیگر لوگوں سے ہو گیا۔ جہاد ختم ہو چکا تھا اور اب جہادی ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔اقتدار کی اس بھیانک جنگ نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اس کا تعلق مذہب سے ہرگز نہیں تھا۔ آخر سب مسلمان ہی توتھے۔ خطرہ عقیدے کو نہیں،مسئلہ منشیات کی تجارت کا تھا۔
دریں اثناء قابض فوجوں کو سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔امریکی اور برطانوی دستوں کی سفاکی نے افغان آبادی کو ان سے برگشتہ کر دیا جبکہ ’’فتح‘‘ کا لفظ افغان سماعت کے لئے سمع خراشی کے سوا کچھ نہ رہا۔2003-4ء آتے آتے طالبان جنگجو دھڑے زبردست مزاحمت کر رہے تھے۔ فوجی گاڑیوں پر حملے ہو رہے تھے، کبھی کبھار کوئی ہیلی کاپٹر مار گرایا جاتا جبکہ مخبروں کو سزا دی جا رہی تھی۔ ناٹو کی جوابی کارروائی میں شہری بڑی تعداد میں نشانہ بنے جس کے نتیجے میں قبضے کے خلاف نفرت مزید بڑھی۔ کچھ استثنائیںاپنی جگہ مگر مغربی ذرائع ابلاغ میں ایسے واقعات کا ذکر نہیں آیا۔ ٹائم میگزین (گو وہ اکیلا نہیں تھا) ناٹو کی من گھڑت کہانیاں تسلسل کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیا ۔ اس کی ایک مثال ٹِم میک گِرک کا مراسلہ ہے جو 28 مارچ2005ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اس مراسلے میں مراسلہ نگار نے ہر اس مفروضے کا سہارا لیا ہے جس سے سرکاری تاویل کو درست ثابت کیا جا سکے:
’’گذشتہ ماہ تک جنگجوئوں کیخلاف امریکی فوجی کارروائی کے نگران میجر جنرل ایرک اولسن کا کہنا ہے کہ ’’طالبان زوال پزیر قوت ہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔طالبان ایک عرصے سے زوال کا شکار ہیں۔ ۔۔۔صورتحال کیوں بدلی؟ اس کا یک حرفی جواب ہے: تعمیرِ نو۔ ۔۔۔گذشتہ اکتوبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات اہم تھے۔۔۔۔اولسن نے ٹائم کو بتایا کہ ’’یہ انتخابات طالبان کے لئے اخلاقی و نفسیاتی شکست تھی۔‘‘۔۔۔طالبان شکست خوردہ قوت ہیں۔۔۔۔قندھار میں تعینات امریکی دستوں کے ترجمان میجر مائرز کا کہنا ہے’’2004میں طالبان کی جماعت 2003ء کی نسبت چھوٹی تھی‘‘۔۔۔۔کابل میں ، کرزئی کا خیال ہے کہ طالبان کے حوصلے اس قدر پست ہیں کہ وہ عام معافی کا سوچ سکتے ہیں۔ جلد ہی کرزئی ملّا عمر اور اعلیٰ درجے کے سالاروں کو چھوڑ کر سب طالبان کے ساتھ ’’صلح‘‘ کا اعلان کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ سیدھا سیدھا پراپیگنڈہ تھا، اس کا احساس ٹائم کے مدیروں کو ہوچکا ہو گا۔ ایک سال سے بھی کم عرصہ ہوا تھا کہ 26فروری 2006ء کو طالبان نے ڈِک چَینی پر اسوقت حملہ کیا جب وہ باگرام کے ’’محفوظ‘‘ ہوائے اڈے (کبھی یہ اتنا ہی محفوظ سویت ہوائی اڈہ تھا)کا دورہ کر رہے تھے۔چَینی کے بچ جانے کی وجہ سے امریکی ٹیلی وژن پر اس وقت ایک تنازع کھڑا ہو گیا جب ’’رئیل ٹائم‘‘ کے میزبان بِل میہر نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اسی ہفتے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی ویب سائٹ سے وہ کمنٹس ہٹا دئے گئے ہیں ’’کیونکہ ان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ ڈِک چَینی پر حملے کی ناکامی پر پچھتاوے کا ظہار کیا گیا تھا۔‘‘ میہر کا کہنا تھا ’’مجھے یقین ہے اگر ڈِک چَینی اقتدار میں نہ ہوتے تو کئی لوگوں کو بلا وجہ اپنی جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑتے۔۔۔۔میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر وہ مارے جاتے تو اورلوگ، مزید لوگ زندہ بچ جاتے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔‘‘کسی یورپی ٹی وی پر کوئی دانشور ایسی کوئی بات کرنے کی جرأت نہ کرتا کہ وہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ سے اس قدر خوفزدہ تھے۔
باگرام ہوائی اڈے پر کام کرنے والے بیس افراد، ایک امریکی فوجی اور ایک مرسنری (’کنٹریکٹر‘) ڈِک چَینی پر حملے میں ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ ہی کافی تھا امریکہ کے نائب صدر کو یہ سمجھنے کے لئے کہ افغانستان میں کس درجے کی ناکامی کا سامنا ہے۔ 2006 ء میں اموات کی شرح بڑھ گئی اور ناٹو کے ساٹھ سپاہی کام آئے۔ یہ لوگ گرائے گئے کسی ہیلی کاپٹر میں سوار تھے یا جنہیں اب نیو طالبان کہا جا رہا تھا، ان کے ساتھ لڑائی میں کام آے۔ اپنے افغان دشمنوں سے لڑائی میں امریکہ کواب کئی ایسے مسائل کا سامنا تھا جو باہم متصل تھے۔ پہلا مسئلہ تو ’’تعمیر نو‘‘ میں ناکامی تھا۔ جب طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو افغانستان یا کہیں اور کم ہی کسی نے آنسو بہائے ہوں گے لیکن ا مریکی بڑھک بازی نے جو امیدیں جگائی تھیں ان پر بھی جلد ہی پانی پھر گیا۔جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ باہر سے لاکر جس اشرافیہ کو مسلط کیا گیا تھا وہ غیر ملکی امداد کا بڑا حصہ ہڑپ کر جائے گی جبکہ بدعنوانی اور اقرباء پروری کے لئے وہ اپنے ہی ڈھانچے تعمیر کرے گی۔ اس کے علاوہ این جی اوز تھیں۔ اگر کوئی قبضے کا حامی بھی تھا تو ان این جی اوز سے تنگ تھا۔ کرزئی حکومت بلاشبہ ان سے ناراض تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ غیر ملکی امداد حکومتی ذرائع سے آنی چاہئے۔ ان غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف غصہ ساری افغان آبادی میں پایا جاتا تھا۔ ایک ایسا سماج جس میں استحکام ہی موجود نہیں تھا، وہاں ’’سول سوسائٹی‘‘ کی تعمیرمیں، جس کا دعوٰی این جی اوز کر رہی تھیں، کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ مزید یہ کہ ان این جی اوز کو جو وسائل میسر تھے ،وہ مستقل لوگوں کو اشتعال دلا رہے تھے۔ ایک تجربہ کار اور جانکاری رکھنے والے امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ’’این جی اوز ایسے بے شمار نوجوانوں کو متعلقہ کمیونٹی میں لیکر آئی جن کی تنخواہ بہت زیادہ تھی جہاں وہ اپنی اچھی تنخواہ اوربڑی گاڑی کی نمائش کرتے۔ اس سے بھی بد تر یہ کہ وہ غربت اور مقامی انتظامیہ کی ناہلی کو اجاگر کرتے جس کے نتیجے میں مقامی نمائندے کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہو جاتی ‘‘۔1
اس میں حیرت کیسی اگر جنگجوؤں نے انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا اور انہیں اپنی حفاظت کے لئے کرائے کے فوجیوں کا بندوبست کرنا پڑا۔
’’امداد اور بحالی‘‘ کے لئے افغانستان کو ملنے والے انیس ارب ڈالر اکثریت کی تکالیف دور کرنے کے لئے استعمال ہوئے ہوں، اس کا ثبوت کم ہی ملتا ہے۔ بجلی کی فراہمی پانچ سال پہلے کی نسبت آج زیاہ بری حالت میں ہے۔ ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے ’’ایسے میں کہ جب غیر ملکی اور امیر افغان نجی جنریٹرز کی مدد سے اپنے ایئر کنڈیشنر، گرم پانی کے ہیٹر، کمپیوٹر اور سیٹلائٹ ٹی وی چالو رکھ سکتے ہیں، عام کابلی کے پاس گرمیوں میں پنکھا چلانے کے لئے بجلی ہے نہ سردیوں میںہیٹر چلانے کے لئے‘‘۔2نتیجہ اس کا یہ ہے کہ سینکڑوں افغان ہر سال سردی سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی، افغان ’’تعمیر نو‘‘ کے نتیجے میں ابھی تک ایک کٹھ پتلی صدر سامنے آ یا ہے جس کو اپنی حفاظت کے لئے کرائے کے غیر ملکی فوجیوں پرانحصار کرنا پڑتاہے، ایک بدعنوان اور توہین آمیز پولیس فورس قائم ہوئی ہے، ’’غیر فعال‘‘ عدلیہ، مجرموں کی ایک نئی پرت اور بڑھتے ہوئے سماجی و معاشی بحران نے جنم لیا ہے۔مغرب کے اپنے ماہرین اور ادارے اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ کہنے کے لئے بہت ہمت چاہئے کہ افغان مسائل کا حل یہی ہے۔
ستمبر 2005ء میں جلدی میں انتخابات کروائے گئے جن پر بے شمار خرچہ اٹھا اور اس انتخاب کے لئے تعلقاتِ عامہ کی امریکی فرموں سے مدد لی گئی۔ بڑا حصہ رینڈن گروپ آف واشنگٹن ڈی سی کے حصے میں آیا جسے کئی ملین کے ٹھیکے ملے۔ انتخابات ،جزوی طور پر، مغرب کی رائے عامہ کے لئے کرائے گئے لیکن تلخ حقائق جلد ہی ’’فِیل گُڈ‘‘ عنصر پر حاوی ہو گئے۔ کچھ علاقوں میں پولنگ بُوتھ ناٹو کے دستوں کی حفاظت میںتھے اور کچھ جگہوں پر شمالی اتحاد کے۔زور زبردستی کی کئی خبریں آئیں ۔ باغلان، کاپیسا اور ہرات صوبوں کے رہائشیوں نے افغان خبر رساں ادارے پیجواک کو بتایا کہ پولنگ ایجنٹس، عملہ اور پولیس اہل کار انہیں مخصوص امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتے رہے۔کرزئی نے صدارتی محل میں بنائے گئے ایک مخصوص پولنگ بوتھ میں ووٹ ڈالا۔
نتائج ایسے نہیں تھے کہ ملک کے اندر ناٹو افواج کی موجودگی کی حمایت میں اضافہ ہوتا۔ گو بارہ ملین افراد کو رائے دہی کا حق تھا لیکن فقط چا ر ملین نے یہ حق استعمال کیا۔ انتخابی عمل سے قبل ہونے والا تشدد اس عمل کے لایعنی ہونے کی علامت تھا۔نو منتخب صدر حامد کرزئی اپنے تنہا ہونے کی علامت بھی تھے اور بقاء کی انسانی جبلت کے بھی کہ اپنی حفاظت کے لئے انہوں نے اپنے لسانی پشتون گروہ کا ایک بھی شخص تعینات نہیں کیا۔ حفاظت کے لئے کرزئی کی خواہش تھی کہ ٹرمینیٹر کے ہم شکل امریکی مرینز مہیا کئے جائیں ۔انکی خواہش پوری کر دی گئی۔ انکی جگہ بعد میںایسے محافظوں نے لے لی جو نجی کمپنیوں کے ملازم تھے۔
ستمبر 2006ء میں ، ان انتخابات کے ٹھیک ایک سال بعد جنہیں مغربی میڈیا نے خوب سراہاتھا، امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا جو اپنے ہدف سے خاصا قریب تھا۔ اسی ماہ سی آئی اے نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں صورتحال کو مایوس کن بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کرزئی اور انکی حکومت پرلے درجے کی بد عنوان ہے اور اس قابل نہیں کہ طالبان کے خلاف افغانستان کا دفاع کر سکے۔ کابل میں امریکی سفیر، رونالڈ۔ ای۔ نیو مان نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ امریکہ کے لئے ’’ انتخاب کرنا مشکل‘‘ ہے:شکست سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ’’کئی سال‘‘ تک ’’کئی ارب‘‘ خرچ کئے جائیں۔1 نیو مان کی طرح افغانستان پر قبضے کی ابھی بھی جو حلقے حمایت کرتے ہیں۔۔۔۔ان میں شمالی امریکہ اور یورولینڈ کی بڑی سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ شامل ہیں۔۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور مغربی یورپ کے اندر ریاست سازی ہوئی، اگر وہی عمل افغانستان میں دہرایا جائے تو یہ ملک مستحکم ہو سکتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اگر سامراجی حکومت سلطنتِ برطانیہ کی طرز پر استوار کی جائے تو کامیابی مل سکتی ہے۔ دونوں دلائل بودے ہیں۔ کیا افغانستان کو مارشل پلان کے طرز پر ہونے والی مداخلت سے محفوظ بنایا جا سکتا تھا جیسا کہ ایسے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے جنہیں یہ شکایت ہے کہ وائٹ ہاوس نے مناسب امداد فراہم نہیں کی؟ یقینا اگر سکول بنائے جاتے جہاں تعلیم مفت ملتی، ہسپتال بنائے جاتے جہاں علاج مفت ہوتا، غریبوں کے لئے ارزاں نرخوں پر گھر فراہم کئے جاتے اور 1989 ء میں سویت دستوں کی واپسی کے بعد جو ڈھانچہ تباہ ہوا، اگر اسے دوبارہ تعمیر کیا جاتا تو ملک میں استحکام آ سکتا تھا لیکن نہ امریکہ نہ اس کے یورپی یونین والے حامی ایسے کسی منصوبے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ تو معمول کی استعماری حکمتِ عملی کی نفی تھا۔مارشل پلان ایک منفرد ردِ عمل تھا جو ایسے وقت سامنے آیا جب ایک خوفناک جنگ نے نظام میں لوگوں کا اعتبار ہی ختم کر دیا۔ مارشل پلان اشتراکی خطرے سے مغربی یورپ کو محفوظ بنانے کے لئے سامنے آیا تھا۔ یہ ایک مخصوص منصوبہ تھا جو اس سے پہلے کبھی سامنے آیا نہ اس کے بعد:پہلی بار ایک فاتح قوت (امریکہ) نے اپنے اقتصادی حریف کی جان بچائی تا کہ ایک ایسے دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے جس کا اقتصادی نظام اس وقت ایک چیلنج بن کر سامنے آیا تھا۔ افغانستان تو ایک بالکل مختلف معاملہ تھا لہٰذا اسے روایتی نوآبادیاتی انداز میں لیا گیا۔ ایسی کہانیاں گھڑنے والے، جو عموماََ اہل برطانیہ خود ہی ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ برطانیہ کے ’’اچھے‘‘سامراجی نمونے کو پیشِ نظر رکھا جائے اور خام،سفاک امریکی سامراجی ماڈل سے پرہیز کیا جائے۔ بے چارے افغان اس فرق کو دیکھنے سے قاصر ہیں ۔انہیں بہت پہلے سمجھ آ گئی تھی کہ برطانوی بلا شبہ اچھے منتظم ہو سکتے ہیں مگر سفاکی میں وہ اوقیانوس کی دوسری جانب موجود اپنے چچا زاد بھائیوں سے کم نہیں ۔ یہ نقطہ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور ہندوستان میں بار بار ثابت ہوا۔ مقبوضہ جات میں ترقی کی بابت برطانیہ کی تاریخ بھی اتنی ہی سیاہ ہے۔ 1947 ء میں جب برطانیہ ہندوستان سے واپس گیا تو ملک کی پچاسی فیصد معیشت دیہی تھی جبکہ ’’اطفالِ نصف شب ‘‘ کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ نوآبادیاتی وراثت کا خلاصہ کیمبرج اکنامک ہسٹری آف انڈیا ، جلد دوم،سی 1757تاسی1770 ،میں خوب بیان کیا گیا ہے:
’’سرمائے کی ساخت (این ڈی پی کا 6 فیصد)فی کس آمدن میں تیز رفتار بہتری کے لئے ناکافی تھی۔یہ ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت بیس فیصد کم تھا۔ خوراک کی اوسط موجودگی، معیار اور مقدار کے لحاظ سے، نہ صرف کم تھی بلکہ بار بار کے قحط افسوسناک انداز میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ خوراک کا وجود ہی خطرے سے دوچار رہتا۔ ناخواندگی 84 فیصد تک تھی جبکہ 6سے 11 سال کی عمر میں بچوں کی اکثریت (60فیصد) سکول نہیں جاتی تھی۔ وبائی امراض(ملیریا، ہیضہ، چیچک) عام تھے۔ صحتِ عامہ کی سہولیات اور صفائی کی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے شرح اموات (27 فی 1000)بہت بلند تھی۔ غربت ، جہالت اور بیماری کے مسائل مختلف علاقوں اور گروہوں کے مابین وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث اور بھی گمبھیر ہو جاتے۔‘‘
رُوری اسٹیورٹ برطانوی مقبوضہ عراق میں نوآبادیاتی منتظم کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ عراق اور افغانستان میں قابضین کی حماقتوں پر سیخ پا ہیں۔ ان قدیم ملکوں میں این جی اوز کی لائی ہوئی سول سوسائٹی انہیں ہرگز متاثر نہیں کرتی۔ مثلاً وہ کہتے ہیں:
خارجہ پالیسی کے ماہر آپ کو بتائیں گے کہ غریب ممالک میں قانون کی حکمرانی ، متحرک سول سوسائٹی، آزاد میڈیا، شفاف نوکر شاہی کی کمی ہوتی ہے۔۔۔۔بڑے عالمی اداروں کے ملازم اکثر رونا روتے ہیں کہ افغان، عراقی یا کینیا کے لوگ ’’منصوبہ سازی‘‘ نہیں کر سکتے، ’’عمل درآمد‘‘ نہیں کر سکتے۔
بدترین شکل میں یہ رویہ نسل پرستی، جہالت پر مبنی، مغرورانہ کہلائے گا لیکن ان مسائل کی ایسی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں جو ایسی فاسد نہیں۔ بطور سفارت کار میری ’’حقیقت پسندی‘‘ کو سراہا جاتا اگر میں اپنے ملک کو کچھ تنقیدی مراسلے ارسال کر دیتا۔اب اگر کوئی این جی او کے لئے کام کرتا ہو تو مجھے پتہ چلتا ہے کہ ڈونر مقامی معاشرے کے منفی پہلووں پر زوردینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔۔۔۔افغانی اور عراقی عموماً واقعی بہادر، فراخدل، اختراع کے ماہر اور آبرومند ہوتے ہیں۔ان کے سماجی ڈھانچوں نے صدیوں کی غربت، غیر ملکی ساز باز اور سالہا سال جاری رہنے والی جنگیں اور جبر کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ اس ڈھانچے نے انہیں اس قابل بنایا کہ بڑی سے بڑی آفت سہہ جائیں۔ اس بات کا لیکن اقرار کرنا یا تو بلا کی رومان پسندی کہلاتا ہے یا مربیانہ قرار پاتا ہے۔
اس کے باوجود اگر خانہ جنگی اور سرکشی کے ہوتے ہوئے عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں تعمیر نو کا کام کرنا ہے تو ایسی روایتی اقدار کی نشاندہی اور ترویج کرنا ہو گی اور ایسی بعض اقدار کو استعمال میں لانا ہو گا۔ ۔۔۔ہو سکتا ہے عالمی برادری کو یہ اچھا محسوس نہ ہو۔ ایک ایسا رہنما جو امن و امان بحال کر سکے، متحارب گروہوں میں صلح کروا سکے، اپنے لوگوں کی خواہشات کو کوئی شکل دے سکے ، وہ ہو سکتا ہے اتا ترک زیادہ اور امریکی صدر کم دکھائی دے۔ یہاں آمریت کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا۔ حقیقی ترقی کی پائیداری کا انحصار لوگوں کی بے قابو خواہشات پر ہونا چاہئے۔ اس کام میں افغانستان کے وہ لوگ بھی اسی طرح شامل کئے جائیں جو قدامت پسند ہیں اور وہ بھی جو آزاد فکر ہیں ۔ان متنوع خواہشات کو مطلق العنان ریاست کے پر پیچ اختیارات سے بھی بچایا جائے اور غیر ملکی امداد کے گھٹن آمیز اثرات سے بھی۔1
اسٹیورٹ کی تحریر میں سامراجی رومان پسندی پائی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ بہت ساری تلخ مایوسیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اگر سکون کے ساتھ ، فلسفیانہ انداز میں سوچا جائے تو فوراََ سمجھ آجائے گی کہ غیر ملکی امداد فقط گھٹن آمیز نہیں بلکہ غیر ملکی موجودگی گھٹن آمیز ہے۔ ہمیشہ ہی ایسے ہوتا رہا ہے۔
بعض اوقات اگر کسی شہر کے ارتقاء کی مدد سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو کافی مدد ملتی ہے۔ کابل کی مثال لیجئے جہاں تین ہزار سال سے بیشمار حملے اور قبضے ہوئے ۔ کچھ حملہ آور خوش فہم بھی تھے۔ سمندر سے چھ ہزار فٹ کی بلندی پر ،ایک وادی کے دامن میں آباد یہ شہر عیسائیت کی آمد سے پہلے موجود تھا۔ صدیوں سے یہ شہر ہمجوار تہذیبوں کے ملاپ کا مقام تھا کیونکہ ایسے درے یہاں سے گزرتے تھے ۔ مقدونیہ کے سکندر اعظم سے لیکر سلطان محمود، چنگیز خان، بابر اور کئی غیر معروف فاتحین ہندوستان جاتے ہوئے کابل میں کچھ عرصہ ڈیرے ڈال کر پڑے رہے۔ بابر کو اس شہر سے محبت تھی۔ جنوب کی جانب پیش قدمی سے قبل وہ اس شہر کو کئی سال اپنا دارلحکومت بنا کر بیٹھا رہا۔ مغلیہ سلطنت کے بانی، بابر کو زراعت سے بہت دلچسپی تھی۔ اس نے وسیع پیمانے پر زمین کو سیراب کرنے کا بندوبست کیا، باغ اور باغیچے لگوائے جنہیں نہروں سے سیراب کیا جاتا اور یوں شہر کے گرم موسم اور گرد آلود فضا کو قابل برداشت بنا دیا۔
یہ شہر قرونِ وسطیٰ میں مغل طرز ِتعمیر کا شاہکار تھا۔ سترھویں صدی کے مغل گورنر علی مردان خان نے، جو معروف ماہر تعمیرات اور انجنئیر توتھا ہی رفاہ عامہ کے کاموں کی وجہ سے بھی مشہور تھا، یہاں چار چھلہ (چار کونوں والا)بازار تعمیر کروایاجس پر چھت بھی موجود تھی۔یہ بازار ان بازاروں کی طرز پر تعمیر کروایا گیا جو مسلم شہروں میں پائے جاتے تھے یا کہیں اب بھی پائے جاتے ہیں، جن میں قاہرہ، دمشق، بغداد، پالرمو اور قرطبہ شامل ہیں۔ا س طرح کی کوئی چیز دہلی یا لاہور میں تعمیر نہیں ہوسکی۔1842 ء میں اس بازار کو جان بوجھ کر سکاٹش جرنیل جارج پولاک کی ’’کیفری سپاہ‘‘ نے تباہ کر ڈالا (اس سپاہ کو بد ترین قاتل،لٹیرا اور غارتگر سپاہ قرار دیا جاتا ہے اگرچہ اس دوڑ میں مقابلہ سخت ہے)۔بہت سے شہروں میں شکست کھانے کے بعد جب انگریزوں کو کابل خالی کرنا پڑا تو انہوں نے شہر کے نقشے سے اس بازار کو مٹا ڈالا۔
ڈیڑھ سو سال بعد ، روسیوں کے انخلاء کے فوری بعد، جنہوں نے اپنے دستوں اور دیگر عملے کے لئے پرانے شہر کے قریب بے روح، کثیرالمنزلہ عمارات تعمیر کی تھیں، متحارب افغان جنگی سالار اور اسلامی گروہ اس شہر کو قریب تھا کہ مٹا ہی ڈالتے۔ ستر کی دہائی میں شہر کے وسط میں تعمیر ہونے والا بازار،جادِ میوند، 1992-96 کے دوران کھنڈر بنا دیا گیا۔ افغانستانی نژاد امریکی ماہر ِتعمیرات اجمل میوند ی بتاتے ہیں کہ تاریخ نے کابل کو کس طرح بدلا ہے:
کابل کی سب سے بڑی تباہی 1992 سے لیکر 1996ء کے عرصے میں ہوئی جب 1989ء میں سویت فوجیں واپس چلی گئیں اور کابل پر 1992ء میں متحارب گروہوں کا قبضہ ہو گیا۔ دورانِ جنگ کابل کی شناخت مسلسل تبدیل ہوتی رہی۔کابل جو کبھی ایک جدید شہر تھا وہ ایک حملہ آور فوج کا فوجی و سیاسی ہیڈ کوارٹر بن گیا، پھر یہ کٹھ پتلی حکومت کی مسند ِ اقتدار کی شکل اختیار کر گیا، جس کے بعد اس نے متحارب دھڑوں میں جاری لڑائی کے محاذ کی صورت اپنا لی اور اس لڑائی نے دوتہائی آبادی کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد مذہبی تعصب نے اسے اپنی تجربہ گاہ بنا لیا اور شہری زندگی کے آخری نشان تک مٹا ڈالے ،پھر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف بن گیا، اس کے بعد عالمی پشت پناہی سے ہونے والی امن کوششوں کے لئے محفوظ گزرگاہ کی شکل اختیار کی اور آج کل یہ عالمی یونی لیٹرل ازم کے نئے مرحلے کی علامت ہے۔1
ناٹو کی رخصتی کے بعدکابل کیسا دکھائی دے گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر چار سو نمودار ہوتی کچی آبادیاں مستقبل کا پتہ دے رہی ہیں۔ اگر کوئی ’’پلینٹ آف سلَمز‘‘ کے ورلڈ ٹور پر نکلا ہو توکابل یقیناََ سیاحوں کی توجہ کا اہم مرکز ہو گا۔1
دریں اثناء ملک کو جو گمبھیر مسائل درپیش ہیں اس میں طرزِ تعمیر کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ امریکی موجودگی کا بڑا اظہار اس کی فوجی قوت ہے ۔ اسکی فضائی قوت ہے جسے اُس وقت ’ ’بَگ ڈیڈی‘‘(بڑے ابا) کہا جاتا ہے جب خوفزدہ امریکی سپاہی خطرناک علاقوں کا رخ کرتے ہیں لیکن بڑے ابا اس وقت اتنے شفیق نہیں رہتے جب عام شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق کرنا ہو۔ اصل مسئلہ مغربی غرور نہیں جو بہرحال بہت بد نما ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں کیا متبادل ہو سکتا ہے جہاں مغربی مداخلت کے نتیجے میں اسی قسم کی مزاحمت نے جنم لے لیا ہے جو سویت اور برطانوی مداخلت کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ کوئی آسان حل موجود نہیں مگر یہ بات بہر حال واضح ہے کہ دوہرے معیار پر انحصار کرنے والی ’’عالمی برادری‘‘ کو افغان عوام مسئلے کا حصہ سمجھتے ہیں۔2
افغانستان میں پوست کے شہوت انگیز کھیتوں میں لہلہاتے مہنگے پھولوں کے گرد بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ ناٹو نے ہیرویٔن کی تجارت میں کمی کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ یہ ممکن بھی کیسے تھا؟کرزئی کے حامی، گو اُن کی تعداد زیادہ نہیں، اپنی تجارتی سرگرمیوں پر پابندی لگتے ہی ساتھ چھوڑ جاتے۔ پوست کی کاشت پر کسان کا انحصار کم کر نا ہے تو آئندہ کئی سال تک زراعت اور گھریلو صنعت کو زبردست ریاستی مدد کی ضرورت ہو گی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ہیرویٔن کی آمدن اس غریب ملک کے جی ڈی پی کا 52 فیصد ہے جبکہ زرعی شعبے میں کاشت ہونے والی پوست کا حصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ کرزئی کے چھوٹے بھائی احمد ولی کرزئی پر مستقل یہ الزام لگ رہا ہے۔۔۔۔اور اسی استقلال کے ساتھ اس کی تردیدبھی کی جاتی ہے۔۔۔۔کہ وہ ملک کے امیر ترین منشیات فروش ہیں۔2006 ء میں جب پاکستانی صدر کے ساتھ ایک ملاقات میں کرزئی نے شکایت کی کہ پاکستان اپنی سرحد پر سمگلنگ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو مشرف نے سکون سے جواب دیا کہ کرزئی صاحب کو اپنے بھائی کی سمگلنگ پر روک لگا کر پہلے ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔ امریکہ کے ان دو اتحادیوں کے درمیان نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
منشیات کے علاوہ اشرافیہ کی بدعنوانی بڑا مسئلہ ہے جو ہر ماہ کینسر کی طرح بڑھ جاتی ہے۔ مغرب سے تعمیر نو کے لئے آنے والی امداد سے اس کو استعمال کرنے کے ذمہ داران نے اپنے لئے کوٹھیاں تعمیر کر لی ہیں۔ 2002 ء کے اوائل ہی میں ایک بہت بڑا ہاوسنگ سکینڈل سامنے آ گیا ۔ کابل کے مہنگے ترین علاقے میں وزراء نے اپنے نام بھی پلاٹ الاٹ کرا لئے اور اپنے حامیوں کو بھی پلاٹ الاٹ کر دیئے۔ قبضے کے بعد جب قابضین اور این جی اوز کے ملازمین نے غریبوں کی نظروں کے سامنے شاندار کوٹھیاں تعمیر کیں تو کابل میں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
پھر یہ کہ مزاحمت کا سامنا ہے۔صوبہ قندھار،صوبہ ہلمند اور صوبہ اروزگان کے ان بیس ضلعوں پر ’’نیو طالبان‘‘ کا قبضہ ہے جہاں ناٹو دستوں نے امریکی فوجیوں کی جگہ لے تھی۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ان علاقوں میں بے شمار سرکاری اہل کار مزاحمت کاروں سے ملے ہوئے ہیں۔ صورتحال قابو سے باہر ہے جیسا کہ ملک میں متحرک مغربی خفیہ اداروں کو معلوم ہے۔ جب قبضے کا آغاز ہو اتھا تو وزیر خارجہ کولن پاول نے کہا تھا کہ ان کے ذہن میں پانامہ کا ماڈل ہے:’’حکمتِ عملی یہ ہونی چاہئے کہ پورے ملک میں فوج، پولیس اور دیگر ذرائع سے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے جائیں۔‘‘افغانستان بارے کولن پاول کی معلومات یقیناََ محدود تھیں۔ پینتیس لاکھ کی آبادی والا پانامہ کجا اور تین کروڑ کی آبادی والا افغانستان کجا جو جغرافیائی طور پر بھی مکمل طور پر مختلف تھا۔ ملک پر صرف فوجی قبضے کی کوشش کے لئے دو لاکھ فوج چاہئے۔فتح حاصل کرنے کے لئے آٹھ ہزار امریکی فوجی روانہ کئے گئے۔ چار ہزار ’’امن دستے‘‘ جو دیگر ممالک نے ارسال کئے ،وہ یا تو کابل سے ہی نہیں نکلے یا شمالی فغانستان ایسے محفوظ علاقوں میں جاکر بیٹھ گئے ۔جرمنی والے پولیس فورس تشکیل دینے یں مصروف ہو گئے۔ اٹلی والے ’’افغان عدلیہ کی تربیت ‘‘ کرنے لگے کہ ان میں کوئی رگِ ظرافت بھی نہیں پائی جاتی۔ انگریز، جن سے امریکیوں سے بھی زیادہ نفرت کی جاتی ہے، ہلمند جا کر پوست کے کھیتوں کے درمیان جا بیٹھے۔ مزاحمت کو روک تو سکتے نہیں تھے لہٰذا انہوں نے اسے خریدنا شروع کر دیاتا آنکہ کرزئی نے اس حکمتِ عملی کو ویٹو کر دیا۔
کولن پاول کی جہالت نے علاقائی اور لسانی پیچیدگیوں میں بھی اضافہ کیا۔ قبضے کے فوری بعد ،اسلام آباد میں ہونے والے بند کمرے کے ایک اجلاس میں ان کے لئے یہ ممکن نہیں ہو رہا تھا کہ قومیت اور نظرئیے میں فرق قائم کر سکیں ۔ مسلسل طالبان اور پشتون کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے شائستگی کے ساتھ تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ کمرے میں موجود دفترِ خارجہ کے دو اعلیٰ اہل کار پشتون تو ہیں مگر طالبان یقیناََ نہیں ہیں۔
آخر میں یہ بات کہ معاشی حالات میں کسی قسم کی بہتری کے بغیر ناٹو افواج نے اکثر افغان شہریوں کو نشانہ بنایا جس کے خلاف 2006 ء میں کابل کے اندر متشدد امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ کچھ مقامی افراد کی نظر میں جو کام گیارہ ستمبر کے بعد القاعدہ کے خلاف ایک پولیس کارروائی سمجھی جا رہی تھی وہ اب پورے خطے میں مکمل سامراجی قبضے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ نیوطالبان زور پکڑ رہے ہیں۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ انکی فر قہ و ارانہ مذہبی تعلیمات کو پزیرائی مل رہی ہے بلکہ اس لئے کہ قومی آزادی کے لئے میسر وہ واحد متبادل ہیں۔ بھاری قیمت چکانے کے بعد روسیوں اور انگریزوں کو گذشتہ دو صدیوں کے دوران پتہ چلا کہ افغان قبضہ برداشت نہیں کرتے۔
اندھا جبر لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان قوتوں کی حمایت کریں جو مزاحمت کر رہی ہیںبالخصوص دنیا کے ایک ایسے حصے میں جہاں بدلے کی ثقافت بہت مضبوط جڑیں رکھتی ہے۔ جب ایک پوری کمیونٹی کوخطرہ درپیش ہو تو یکجہتی جنم لیتی ہے باوجود ان خامیوں کے جو مزاحمتی قوت میں پائی جاتی ہیں۔ طالبان سے نفرت کرنے والے بے شمار افغان ناٹو کی ناکامی اور اسکے دستوں کی چیرہ دستی سے اس قدر نالاں ہیں کہ وہ ہر قسم کی مزاحمت کا ساتھ دیں گے۔ اسی سے جڑا ہوا ایک مسئلہ وہ فوجی ہیں جو نجی کمپنیوں کے ملازم ہیں اور جنہیں ناٹو کی مدد کے لئے رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ کسی فوجی کمانڈر کو جوابدہ نہیں۔ ہمدردی رکھنے والے تجزیہ نگار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا ’’برتائو، شراب نوشی اور کابل کے چکلوں کی سرپرستی (امریکی فوجیوں کے لئے دونوں سختی سے ممنوع ہیں)عوامی غصے اور احتجاج کو جنم دے رہے ہیں‘‘۔1اس بات میں جنسی زیادتی کے واقعات، شہریوںکی غیر قانونی ہلاکتیں، بلا امتیاز گھر گھر تلاشی اور مرد فوجیوں کے ہاتھوں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا اضافہ بھی کر لیجئے۔ یوں عزت اور وقار کے لئے ایک ایسی پیاس نے جنم لیا ہے جسے حقیقی آزادی ہی بجھا سکتی ہے۔
متوسط درجے کے طالبان کارندے جو 2001 ء میں پاکستان چلے گئے تھے، اگلے سال اپنی صفیں درست کر کے ہلکی پھلکی مزاحمت شروع کر چکے تھے ۔ پاکستانی مدرسوں اور مہاجر کیمپوں سے بھی انہیں کچھ نیا خون مل گیا۔ 2003 ء آتے آتے ان کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا۔ شروع شروع میں زابل، ہلمند، غزنی،پکتیا اور قندھار میں گائوں کی مسجد کا ملّا حمایت کر رہا تھا ۔پھر شہروں میں بھی حمایت ملنے لگی۔
2004 ء کے بعد سے جب امریکی جاسوس طیاروں اور پاکستانی فوج نے پاکستان کے پس ماندہ قبائلی علاقوں پر حملے شروع کئے تو بڑی تعداد میں وزیری نوجوان ہتھیار اٹھانے پر مائل ہونے لگے۔ 2006 ء میں یہ خبریں آنے لگیں کہ جن ملّاؤں نے پہلے کرزئی کے اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا اب وہ غیر ملکیوں اور حکومت کے خلا ف صف آرا ہو رہے تھے جبکہ قبضے کے خلاف جہاد کے لئے صدائیں شمال مغرب میں موجود تخار اور بدخشان ایسے صوبوں سے بھی آنے لگیں۔
حال ہی میں جو قابلِ اعتماد معلومات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق مزاحمت کو سب سے زیادہ حمایتی ان ’’گروہوں سے ملے ہیں جنہیں مقامی انتظامیہ یا فوجوں نے مخالف بنایا۔‘‘قندھار، ہلمند اور اروزگان میں کرزئی کے کاسہ لیسوں ۔۔۔۔ضلعی وصوبائی گورنروں، سکیورٹی اور پولیس کے سربراہان۔۔۔۔نے مقامی لوگوں کے خلاف امریکی دستوں سے کارروائیاں کروا کر اگر مشتعل نہیں بھی کیا تو اپنی لوٹ مار اور بدمعاش سے لوگوں کو ضرور مشتعل کیا ہے۔ ایسے میں طالبان ہی تھے جو نجات دہندہ تھے۔ اسی رپورٹ کے مطابق خود طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی فضائیہ کی بلا امتیاز بمباری سے بھاگ کر پناہ گیر کیمپوں میں پہنچنے والے لوگ ان کے لئے تازہ خون حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہیں۔ 2006 ء میں قندھار کے تاجر اور چھوٹے کاروباری افرد بھی تحریک کی حمایت کرنے لگے اور اس سال مزاحمت کاروں نے ایک چھوٹا سا ’’ٹیٹ افینسیو‘‘ بھی منظم کیا۔ شہروں میں نیوطالبان کی بڑھتی ہوئی حمایت کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے سخت گیر مذہبی احکامات میں کچھ نرمی کر دی ہے۔ کم از کم مردوں کی حد تک۔ داڑھی کی شرط یا موسیقی پر پابندی نہیں لگائی۔پراپیگنڈہ بھی بہتر بنایا ہے۔ معرف گلوکاروں کے سی ڈی اور ٹیپ تیار کرائے ہیں۔ اسی طرح عراق،لبنان اور فلسطین میں امریکی و اسرائیلی مظالم کے ڈی وی ڈی تیار کرائے گئے ہیں۔
طالبان کا دوبارہ ظہور لہٰذا، جس طرح گاہے بگاہے واشنگٹن دعوٰی کرتا ہے، اس وجہ سے نہیں ہوا کہ اسلام آباد سرحدوں کی مناسب حفاظت نہیں کر رہا یا اس نے طالبان سے ’’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘‘ رابطے ختم نہیں کئے۔ 2001 ء میں جب آئی ایس آئی نے پسپائی میں اہم کردار ادا کیا تو طالبان تحریک پر اسکی پہلے ایسی گرفت نہیں رہی کہ اب یہ تحریک پہلے کی نسبت منتشر اور اس کا پھیلائو کہیں زیادہ ہے۔ اس تحریک کے لئے امریکی قبضہ سب سے بڑابھرتی افسر ثابت ہوا ہے۔ ناٹو کی ناکامی لہٰذا پاکستان کے سر نہیں منڈھی جا سکتی۔ یہ روایتی استعماری ہتھکنڈہ ہے کہ اندرونی مسائل کا الزام ’’بیرونی عناصر‘‘ کے سرتھونپ دیا جائے: کرزئی اس کام کے ماہر ہیں۔ افغان عدم استحکام نے الٹا پاکستان کے لئے مسائل پیدا کئے ہیں۔ دو سرحدی صوبوں میں صورتحال بگڑ گئی ہے۔ افغانستان کی پشتون آبادی کا ہمیشہ پاکستان کی پشتون آبادی سے قریبی ناطہ رہا ہے۔ موجودہ سرحد انگریز نے قائم کی مگر اس کے آر پار آنا جانا ہمیشہ ہی لگا رہا۔ ٹیکساس طرز پر یا اسرائیلی طرز پر ان پہاڑوں میں دیوار تعمیر کرنا ،وہ بھی دو ملکوں کو تقسیم کرتی ہوئی پچیس سو کلومیٹر سرحد کے ساتھ ساتھ ، نا ممکن ہے۔مسئلے کا حل سیاسی ہے فوجی نہیں اور یہ اس خطے میں تلاش کیا جا سکتا ہے واشنگٹن یا برسلز میں نہیں۔ کوہِ ہندوکش کی برفیلی ہوائوں نے مقامی مصلحین کو بھی منجمد کر دیا اور غیر ملکی حملہ آوروں کو بھی۔ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ امن کے لئے ایک ایسا عمل شروع کیا جائے جو اساسی طور پر اس ملک کے جغرافیئے اور لسانی بنت کی ضمانت دے۔ وہ لوگ جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ صرف پیسہ چاہئے جس سے قبائلی سرداروں کو ، انگریزوں کی طرح، خریدا جا سکے، درحقیقت افغان صورتحال سے نا آشنا ہیں۔ مزاحمت شدت اختیار کرتی جا ہی ہے۔ آج کل نیو یارک ٹائمز میں افغانستان بارے الزبتھ روبن کے مراسلے شائع ہو رہے ہیں۔ اگر ان کا موازنہ اسی اخبار میں چالیس سال قبل جنوبی ویت نام بارے شائع ہونے والے مراسلوں سے کیا جائے تو بے شمار مماثلت پائی جائے گی۔ روبن، ویت نام میں ہالبر سٹام کی طرح، اس بات پر پریشان ہیں کہ ناٹو کس بڑی تعداد میں عام شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے:’’آسمان سے افغانستان پر برسنے والی دھات کی مقدار انسان کو پریشان کر کے رکھ دیتی ہے۔ جنور ی تا ستمبر 2007 ء کے دوران ایک ملین پونڈ جبکہ پورے 2006 ء میں یہ مقدار نصف ملین تھی۔‘‘ اس کے بعد وہ صوبہ کنہٹر میں ہونے والی لڑائی کا حال بتاتی ہیں جہاں افغان گوریلوں کے حملے حیران کن تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔ امریکی دستے اپنے عارضی مرکز کے باہر ہی حملے کی ضد میں آ گئے:
گولیاں ہمارے سامنے مٹی میں ٹکرا رہی تھیں۔ کیرنی دھکیلتے ہوئے مجھے ایک چھپر میں لے گیاجہاں ایک افغان روٹی پکا رہا تھا۔ کچھ مزید گولیاں برسائی گئیں۔فوجی اسے ’’ون شاٹ فریڈی ‘‘کہتے ہیں۔ وہ مزاحمت کاروں کو ہلاک کرتا ہے اور اسکی بندوق کے محصول ، اسکے طریقہ کار، اسکی شناخت بارے ہر کسی نے ایک تھیوری بنا رکھی ہے۔ اسے لیکن کبھی کیرنی کے اسکاوٹ پکڑ سکے ہیں نہ ہی کوئی شیڈو۔ دی۔ ڈرون۔ چھپر میں اتفاقاََ میری بازو میں کیل چبھنے سے خون بہنے لگا ۔ خون دیکھ کر میں نے سوچا کہ اگر مجھے فریڈی اور اس کے ساتھیوں کے ہمراہ لمبا عرصہ رہنا پڑے تو مجھے بھی گائوں کے ہر باسی کے منہ میں چاقو ایسی تیز زبان نظر آئے گی اور میں بدلے بارے خواب دیکھوں گی۔1
ان دنوںافغانستان میں امریکی اسٹریٹیجک ہدف کا مرکز و محور فقط یہ ہے کہ عراق میں غداری کرنے والے یورپی اتحادیوں کو نظم و ضبط کا پابند بنایا جائے جبکہ کچھ نئے حامیوں کا امتحان لیا جائے۔ مارچ 2008 ء میں ناٹو کے جنرل سیکرٹری جاپ شیفر افغانستان میں تعینات اہلِ کروشیاکی تعریف کے پُل باندھ رہے تھے:’’کروشیائی شمولیت، دیگر پارٹنرز کی طرح، بہت اہم ہے۔ناٹو کے دروازے پر دستک دینے والے ممالک کی جانچ کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے وہ ملک محض سلامتی درآمد نہیں کر نا چاہتا بلکہ ہمارے سنگ سلامتی برآمد بھی کرے۔ کروشیا بلا شبہ ایک ایسا ملک ہے جس کا ریکارڈ سلامتی برآمد کرنے کے حوالے سے اچھا ہے۔ میں نے اپنے مونٹونیگرن دوست سے بات کی ہے اورمجھے خوشی ہے کہ وہ بھی اس عمل میں شریک ہو چکے ہیں۔‘‘
جرمن جوابھی تک افغان پولیس کو تربیت دے رہے ہیں، انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہو گی کہ آج جن نوجوان افغانوں کو ’’قوم سازی کی ٹرانس اٹلانٹک حکمتِ عملی کے طریقہ کار ‘‘بارے تر بیت دے رہے ہیں وہ کل ناٹو کے خلاف ہی استعمال نہ ہو جیسا کہ عراق میں ہوا جہاں تازہ تربیت یافتہ افسران کو جب حکم ملا کہ اپنے لوگوں پر گولی چلائیں توان میں سے بہت سارے دوسری طرف مل گئے۔
یہ بات تو طے ہے کہ القاعدہ رہنمائوں کی گرفتاری تو ناٹو قابضین کا اہم ہدف نہیں ہو سکتا۔ اگر آئی ایس آئی القاعدہ رہنمائوں کو پکڑ کر واشنگٹن کے حوالے بھی کر دے تو ناٹو کی واپسی نہیں ہو گی۔ اس جارحیت کو ’’دفاعی جنگ‘‘ قرار دینا عالمی قانون کے ساتھ مذاق ہے ۔ ایک چھوٹے سے عرب گروہ کی جانب سے ایک کامیاب حملے کا بہانہ بنا کر عالمی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاء میں امریکی فوج کی گھس بیٹھ کا بندوبست کیا گیا۔
یہ ہے اصل وجہ جس کے باعث مغربی رائے ساز اس بات پر متفق ہیں کہ قبضہ نہ صرف جاری رہنا چاہئے بلکہ اس میں توسیع ہونی چاہئے ۔۔۔۔’’کئی ارب ڈالر ،کئی سال تک۔‘‘وجوہات افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں نہیں واشنگٹن اور برسلز میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اکانومسٹ نے بخوبی خلاصہ بیان کر دیا ہے:’’شکست صرف افغانوں کے لئے ہی نہیں ناٹو، اور یہ بات یقیناََزیادہ اہم ہے، کے لئے بھی زبردست دھچکا ہو گی۔‘‘ہمیشہ کی طرح افغان مفادات کوعالمی طاقتوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ مئی 2005 ء میں واشنگٹن نے کابل میں اپنے نامزد کردہ شخص کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کے مطابق امریکہ کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عرصے تک اپنی بہت بڑی افواج افغانستان میں تعینات رکھ سکتا ہے۔امریکہ محض ’’جمہوریت کے فروغ اور گُڈ گورننس‘‘ کے لئے اس نا مہربان اور بے آسائش ملک میں مستقل فوجی اڈے قائم نہیں کر رہا۔ اس کی وضاحت تومارچ 2008 ء میں جاپ شیفر نے خود ہی بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے خطاب کرتے ہوئے کر دی: فوجی تنصیبات اور ممکنہ طور پر ایٹمی میزائل ایک ایسے ملک میں نصب کرنے کا سنہری موقع جو چین، ایران اور وسط ایشیاء کا ہمسایہ ہو، ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس سے بھی اہم یہ بات کہ افغانستان عالمی نظام پر مغرب کی سیاسی گرفت کو توسیع دینے کے لئے ایک ایسا نقطہ بن گیا ہے جو مغربی قوتوں کو متحد کر سکتا ہے۔ ایک طرف، یہ کہا جاتا ہے،کہ افغانستان امریکہ کو عراق میں ہونے والی ناکامی سے پیچھا چھڑانے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اتحادیوں کو قائل کرنے میں مدد دیتا ہے کہ وہ وہاں زیادہ کردار ادا کریں۔ دوسری طرف، جیسا کہ اوبامہ اور کلنٹن کا اصرار ہے، امریکہ اور اتحادیوں کے مابین’’افغانستان کی بابت مقصد کے حوالے سے زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ افغانستان میں استحکام پیدا کرنے میں امریکی قیادت تلے ناٹو کی حتمی کامیابی اس اتحاد کی یگانگت کے ساتھ ساتھ ناٹو کے مستقبل کا تعین کرنے میں امریکی کردار کو بھی متاثر کر سکتی ہے‘‘۔1 پھر چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کے مدِ نظر ناٹو کے منصوبہ ساز ایک وسیع مغربی اتحاد کی بات کر رہے ہیں۔ ناٹو کبھی یورو اٹلانٹک خطے پر ہی توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ اکیسویں صدی میں اسے ایک ایسا اتحاد بنایا جا رہا ہے جو ’’یورو اٹلانٹک ہو مگر جو اپنی سرحدوں کے باہر تک استحکام کی ضمانت دے سکے‘‘:
’’اس دنیا میں طاقت کا مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ایشیا پیسیفک خطہ دنیا میں متحرک اور مثبت اضافوںکا باعث بنا ہے مگر وہاں آنے والی برق رفتار تبدیلی نہ تو مستحکم ہو سکی نہ ہی کسی مستحکم ادارے کی شکل اختیار کر سکی ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، یورپ اور شمالی امریکہ والوں ، اور ان کے تعمیر کئے ہوئے اداروں کی اسٹریٹیجک ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ راستہ دکھائیں۔۔۔۔اس دنیا میں سلامتی کا موثر ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے پاس اہلیت اور جائز ہونے کا جواز نہ ہو۔2
مصنف کا مزید کہنا ہے کہ مغرب کے تعمیر کئے ہوئے عالمی نظام کو بچانا ہے تو ٹرانس اٹلانٹک تعلقات میں ’’نئی روح پھونکنی‘‘ ہو گی: ’’منظم سلامتی اور مغرب کے بغیر ایشیائی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
ابھی تک تو یہ خواہشات محض خواب ہیں۔ کرزئی نے افغانستان میں امریکہ کو اڈے دینے کا معاہدہ کیا تو پورے ملک میں مظاہرے ہوئے ۔ یہ اس بات کی نشاندہی تھی، اگر ایسی کسی نشاندہی کی مزیدضرورت تھی، کہ ناٹو کو واپسی پر کرزئی کو ساتھ ہی لے جانا پڑے گا۔ ازبکستان کا ردِ عمل یہ تھا کہ امریکہ اپنے اڈے اور عملے کو اس ملک سے واپس لے جائے۔روس اور چین نے غیر رسمی طور پر زبردست اعتراض کیا اور پہلی مرتبہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سر زمین پر مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ دونوں ملکوں کے مابین صلح کی بڑی وجہ ’’افغانستان اور وسطی ایشیاء میں مستقل امریکی اڈوں بارے خدشات ہیں۔‘‘پھر ایران نے یہ کیا کہ برآمدی ڈیوٹی بڑھا دی جس کے نتیجے میں ہرات کے اندر تعمیراتی کام بالکل رک گیا۔ کرزئی نے منت سماجت کی تو ایران کی تجویز تھی کہ ایک معاہدے پر دستخط کئے جائیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ملک پابند ہوں گے کہ انکی سر زمین ایکدوسرے کے خلاف جا سوسی کے مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس پر دستخط کرتے ہوئے کرزئی کا منہ کیسے لٹکا ہو گا۔
واشنگٹن کے پاس انتخاب محدود ہے ۔ پسندیدہ حل یعنی بلقان کی طرز پر افغانستان کے حصے بخرے کر کے لسانی باجگزار ریاستیں مقاصدپورا نہ کر سکیں گی۔ اہلِ کوسوو اور یوگوسلاویہ کی دیگر قومیں خوشی خوشی موکل قومیتیں بننے پر تیار تھے مگر یہاں ہزارہ قوم ایران کی سرپرستی بخوشی قبول کر لے گی اور پھر ایران بھی تو افغانستان کی تقسیم کے حق میں نہیں۔ روسی اور ان کے وسط ایشیائی اتحادی بھی حامی نہیں جو تاجکوں کو حمایت دیتے ہیں۔ امریکی خفیہ اداروں کے کچھ اہل کار غیر رسمی طور پر اس تجویز پر غور کرتے رہے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کا خاتمہ کر کے پشتون قبائل کو متحد کر دیا جائے اور ان پر مبنی ایک ریاست بنا دی جائے مگر اس سے پاکستان اور افغانستان اتنے غیر مستحکم ہو جائیں گے کہ نتائج کی خبر کسی کو بھی نہیں۔ ایسی کسی تجویز بارے بہر حال دونوں ملکوں میں کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچ رہا۔
اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو پھر دوسرا متبادل، جو قابلِ ترجیح بھی ہے اور قابلِ عمل بھی، واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ ناٹو افواج کی واپسی سے قبل یا فوری بعد ایک علاقائی معاہدہ جس میں آئندہ دس سال کے لئے افغانستان کے استحکام کی ضمانت دی جائے۔ پاکستان، بھارت، ایران، روس اور ممکنہ طور پر چین ایک ایسی قومی حکومت کی ضمانت، اور اسے حمایت دے سکتے ہیں جو افغانستان کی لسانی اور مذہبی بقاء کو یقینی بنائے۔ ملک کی تعمیرِ نو اور لوگوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے ایک سنجیدہ سماجی و معاشی منصوبہ ایسے کسی اقدام کے لئے پہلی شرط ہے۔
یہ نہ صرف ملک کے مفاد میں ہو گا بلکہ افغان عوام بھی اسے اسی نظر سے دیکھیں گے جو دہائیو ںسے جاری جنگ اور دو غیر ملکی قبضوں کے بعد شل ہو چکے ہیں۔ناٹو قبضے نے ایسے کسی بندوبست کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ اس کی قابلِ پیشگوئی ناکامی نے طالبان کو زندہ کر دیا ہے اوربہت سے غریب افغانوں کو انکے پرچم تلے متحد کر دیا ہے۔ ناٹو کی واپسی سے امن کا کوئی سنجیدہ عمل شروع ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو بھی اس کا فائدئہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس کے فوجی رہنما ’’اسٹریٹیجک گہرائی‘ کی احمقانہ سوچ سے باہر آ جائیں ، بھارت کو دشمن سمجھنے کی بجائے اسے ایسا علاقائی تعاون تعمیر کرنے کے لئے ممکنہ ساتھی سمجھیں جس کے ذریعے متنازعہ امور کو حل کیا جا سکے۔ کیا پاکستان کے فوجی رہنما اور سیاستدان اس قابل ہیں کہ ماضی کو بھلا کر ملک کو آگے لے جائیں؟کیا وہ امریکی چھتر چھایا سے باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
دریں اثناء افغان عدم استحکام پاکستان کی سرحدوں میں گھس رہا ہے۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل کو بھی یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ یہ معاملہ زیادہ عرصہ جاری رہا تو کیسے کیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن میں تقریر کرتے ہوئے حال ہی میں جاپ شیفر نے ایک سوال کے جواب میں کہا’’ اگر پاکستان اور سرحد میں عدم استحکام کا مطلب ہے کہ اس سے افغانستان میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو اسکے بالکل بر عکس بات بھی اتنی ہی درست ہے۔۔۔۔ہمیں یہ رائے بدلنا ہو گی کہ پاکستان مسئلے کا حل نہیں اور پاکستان کو مسئلہ بنا کر پیش کرنے والا رویہ ترک کرنا ہو گا۔ ۔۔۔پاکستان کی مدد اور حمایت کیلئے جو ہو سکتا ہے ہمیں کرنا ہو گا۔۔۔۔میری کوشش ہے کہ جوں ہی وہاں نئی حکومت بنے میں اسلام آباد جائوں ، صدر سے بات کروں، حکومت سے بات کروں اور اس امکان کا جائزہ لیا جائے کہ کس طرح سرحد کے آر پار عدم استحکام کم کرنے کے لئے سیاسی مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘
26 مارچ 2008 ء کو حلف لینے والی نئی حکومت نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ وزیرستان کے جنگجووں سے مذاکرات کر نے پر تیار ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری سے ملنے کے لئے جب محکمہ خارجہ کے نمائندے جان نیگرو پونٹے اور رچرڈ باؤچر اسلام آباد پہنچے تو انہیں گرم جوشی سے خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار دی نیوز نے اداریہ شائع کیا :’’چچا سام، برائے مہربانی اب بس کیجئے۔‘‘ ادارئیے میں ملک کے اندر امریکی مداخلت پر زبردست تنقید کی گئی تھی۔ نواز شریف نے خاصا تنقیدی رویہ اپنایا اور ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے حوالے سے نیگروپونٹے سے کوئی وعدے کرنے اور کسی قسم کی کوئی ضمانت دینے سے گریز کیا۔نواز شریف نے پریس کو بتایا ’’ اگر امریکہ دہشت گردوں سے نجات چاہتا ہے تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے دیہات اور شہروں پر بمباری نہ کرے۔ ہم اس بات پر خوش نہیں کہ ہمارا ملک جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ ہم جنگجوؤں سے بات چیت کریں گے تا کہ اس سلسلے کو روکا جا سکے۔‘‘پاکستان کی منتخب حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں کسی معاہدے کے بغیر اس کے لئے اپنی مغربی سرحد پر اپنے قبائلی علاقوں کو مستحکم کرنا مشکل ہو گا۔
در حقیقت امریکہ کی اسٹریٹیجک ضرورت تو یہ ہے کہ خطے کو غیر مستحکم کیا جائے۔ اگر خطے کے لوگ ان سامراجی خواہشات کو پورا نہ ہونے دیں تو کیا ان کے ملکوں کی طرح انہیں بھی تحلیل کرنے کے بعد نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا؟
…٭…