جولائی 2004ء میں ’’9/11کمیشن رپورٹ ‘‘ شائع ہوئی جس میں،علاوہ اور باتوں کے، دعوٰی کیا گیا کہ افغانستان اور پاکستان میں دیرپااستحکام کے لئے مشرف حکومت اگر واحد امید نہیں تو سب سے بڑی امید ضرور ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی ہلچل کا تقاضا تھا کہ اس کی باگ ڈور کسی مردِ آہن کے ہاتھ میں ہو ۔ جب تک پاکستان ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘میں شامل تھا اور انتہاپسند قوتوں کے خلاف لڑنے پر تیار تھا، امریکہ کا فرض بنتا تھا کہ ’’اعتدال پسند روشن خیالی‘‘ کی علمبردار حکومت کو دیرپا اور جامع حمایت فراہم کرتا رہے۔
یہ اصطلاح مجھے تھوڑی دیر کے لئے موضوع سے ہٹنے کے لئے مجبور کر رہی ہے اور مجھے قدامت پسند سینیٹر بیری گولڈ واٹرکا قول یاد آرہا ہے جو اس تقریر میں دہرایا گیا تھا جو انہوں نے ری پبلکن صدارتی امیدوار نامزد ہونے کے موقع پر1964 ء میںکی تھی:’’میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی کے دفاع کے لئے انتہاپسندی کوئی گناہ نہیں۔ میں آپ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انصاف کے لئے جدوجہد میں اعتدال پسندی کوئی نیکی نہیں‘‘۔ عوامی جلسوں میں اپنی آخری آخری جو چند تقریریں میلکم ایکس نے کیں، ان میں سے ایک تقریر کے موقع پر میں بھی موجود تھا۔ اس تقریرمیں میلکم ایکس نے ان نظریات کا خوبصورتی سے دفاع کیا۔ ’’آزادی‘‘ کی تشریح پر موجود اختلافات سے قطع نظر ، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی مزاحمت کرنے والوں کی بھی یہی سوچ ہے گو بدقسمتی سے ان مزاحمت کاروں کی اکثریت سینیٹر بیری گولڈ کے اس تجزیئے سے اتفاق نہیں کریں گے جو انہوں نے 1981ء میں سینیٹ میں کی تھی ۔ اس تقریر میں انہوں نے اپنی جماعت کو ایک دانشمندانہ مشورہ دیا تھا جو واشنگٹن کی پشت پناہی سے بے دین روسیوں کے خلاف لڑنے والے افغان جنگجوئوں پر بھی صادق آتاتھا:
’’مذہبی معاملات پر کم ہی یا شائد بالکل سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ لوگ کسی بات پر اس قدر جذباتی نہیں ہوتے جتنے مذہب کے مسئلے پر۔ مسیح موعود، گاڈ ، اللہ یا اس ہستی کو کوئی کسی بھی نام سے پکاراجائے، و ہ کسی بھی بحث میں انسان کا موثر ترین سہاراثابت ہو سکتے ہیں لیکن کسی بھی موثر ہتھیار کی طرح خدا کا حوالہ بھی احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے۔مذہبی گروہ جو ہمارے ملک میں فروغ پکڑتے جا رہے ہیں، وہ مذہب کے نام پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال عقلمندی سے نہیں کر رہے۔وہ حکومتی رہنمائوں کو مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا نقطہء نظر سو فیصد تسلیم کیا جائے۔ آپ کسی مخصوص اخلاقی مسئلے پر ان مذہبی گروہوں سے اختلاف کرتے ہیں تو وہ شکایت کرتے ہیں، ووٹ نہیں دینے، پیسے نہیں دینے اور بعض اوقات ووٹ اور پیسے دونوں ہی سے انکار کی دھمکی لگاتے ہیں۔
سچ پوچھئے تو میں ان سیاسی مبلغین سے تنگ آ چکا ہوں جو ملک بھر میں بطور شہری مجھے یہ بتاتے پھرتے ہیں کہ اگر میں با اخلاق شہری بننا چاہتا ہوں تو فلاں فلاں پر یقین کروں۔ میں پوچھتا ہوں ایسا کہنے والے یہ ہیں کون؟ ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اپنے اخلاقی عقائد مجھ پر ٹھونسیں؟اور بطور قانون ساز مجھے اس وقت اور بھی غصہ آتا ہے جب ہر مذہبی گروہ اپنا آفاقی حق سمجھتا ہے کہ ہر بار سینیٹ میں ووٹ کے موقع پر وہ میرے فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لئے دھمکی لگائے۔ اگر انہوں نے ’’قدامت پسندی‘‘ کے نام پر اپنے اخلاقی نظریات تمام امریکیوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو میں قدم قدم پر انکی مزاحمت کروں گا۔‘‘
ایسے بھاشن اثر انگیز ثابت نہیں ہوئے۔ مذہبی بنیاد پرستی جلد ہی وائٹ ہاوس پر قابض ہو گئی اور اس کے اتنے ہی بنیادپرست دشمن نے وال اسٹریٹ اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا۔ ’’9/11کمیشن رپورٹ ‘‘ نے جومشورہ دیا تھا اسے کانگرس نے منظور کر لیا اور یوں انٹیلی جنس ریفارم اینڈ ٹیررازم ریفارم ایکٹ آف 2004(پی ایل 108-458)سامنے آیا۔ پاکستان کے حوالے سے سفارشات میں کہا گیا کہ پاکستان کے لئے پائیدار بنیادوں پر امداد کا منصوبہ تشکیل دیا جائے جبکہ صدر کو ہدایت کی گئی کہ وہ کانگرس کو سفارشات پیش کریں کہ اگر امریکہ دیرپا بنیادوں پر پاکستان کو امداد دے اور اس کے ساتھ ملوث رہے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ نومبر2005ء میں رپورٹ مرتب کرنے والے کمشنرز نے ایک جائزہ پیش کیا جس میں پاکستان کی انسدادِ انتہاپسندی کے لئے اقدامات کی امریکی حوصلہ افزائی کو سی گریڈ دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان ہنوز ایسا ملک ہے جو ’’دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور تربیت گاہ ہے‘‘۔ یورپ اور امریکہ میں پایا جانے والا یہ عمومی تاثر اکثر میڈیا میں منعکس ہوتا ہے اور دونوں خطوں میں سیاسی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔
ہڈسن اور ہُووَر کے سابق فیلو اسٹینلے کرٹز نے حال ہی میں لکھا’’ایک طرح سے عالمی اسلام ایک وسیع تر وزیرستان بن چکا ہے۔ ۔۔۔۔وزیرستان عالمی اسلام کے قبائلی جہادی جذبات جگانے کا محرک بن چکا ہے‘‘۔ نوقدامت پرست دانشوروں کی ایسی تحریریں اکثر پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔اس کتاب میں پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ان نوقدامت پرستوں جیسے لوگ اسّی کی دہائی میں عین اسی قسم کے نظریات کا اظہار کیا کرتے تھے اور ان دنوں قبائلی علاقے آزادی کی علامت تھے۔اکثر مغربی صحافی فرمانبرداری سے اس ’’ایڈوائس ‘‘ پر عمل کر رہے تھے کہ مجاہدین کو ’’فریڈم فائٹرز ‘‘ لکھنا ہے۔وہی لوگ اس خطے میں اب بھی آباد ہیں۔ روسیوں کوشکست دینے کے لئے یہ لوگ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے اب انہیں مٹا دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جو بدلا ہے وہ امریکہ کی عالمی ترجیحات ہیں۔ امریکہ جو نئی زبان استعمال کر رہا ہے اسکی وجہ بھی یہی ہے۔ امریکہ کے ریاستی دانشوروں (جو اہم تھنک ٹینکس یا تعلیمی وتحقیقی اداروں میں ملازم ہوتے ہیں) کے لئے یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ نئے نقطہ نظر اور سامراجی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھال لیں۔ موکل ریاستوں کے لئے البتہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ بھی انہی کی طرح پینترا بدل لیں۔ یوں اس بحران کی سمجھ آتی ہے جو پاکستان کی مغربی سرحد پر پیدا ہو گیا ہے۔
ایک زمانے میں سلطنتِ برطانیہ بھی اسی خطے میں پھنسی ہوئی تھی۔ ان کی نظر میں بھی وزیرستان برائی کا گڑھ تھا۔ اس کے نظریہ سازوں (اور بعد ازاں انکے پاکستانی نقالوں نے) اس نا ہموار خطے بارے بے شمار ادب تخلیق کیا جو خام انتھروپالوجی کی مثال تھا جس کا مقصد جنگ اور سامراجی غلبے کا جواز فراہم کرنا تھا۔ آج جو باتیں محض اسلام سے وابستہ کی جا رہی ہیں ،ان دنوں کہا جاتا تھا کہ وہ پشتونوں اور ان کے بعض ضدی قبائلوں کے خون میں ہیں۔ یہ مسٹر ٹیمپل ہیںجو 1855ء میں ایک سینئر سرکاری ملازم تھے، اپنے ساتھیوں کے سامنے اپنی رائے پیش کر رہے ہیں اور زبان و بیان ایسا ہے کہ جنرل کسٹر ضرور اس سے متاثر ہوتے:
’’یہ قبائل وحشی ہیں۔۔۔۔شائدنجیب وحشی۔۔۔۔جن میں اچھائی اور فراخدلی پائی جاتی ہے لیکن بہرحال بالکل جنگلی۔ ۔۔۔۔ان کی آنکھوں میں ایک ہی آفاقی فرمان نظر آتا ہے اور وہ ہے خون کے بدلے خون، تمام کافروں کے لئے نار و تلوار۔۔۔۔۔یہ ایک شہوانی نسل ہے۔۔۔۔بے حد حریص۔۔۔۔پرلے درجے کے چور اور غارتگر۔ ایک پٹھان ماں کی دعا ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا کامیاب ڈاکو بنے۔
۔۔۔انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ قرآن پر قسم کھائی جائے تو اسے توڑا نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔یہ لوگ تند خُو اور خونی ہیں‘‘۔1
یہ ایک اور مہذب سامراجی افسر مسٹر اِبٹسن ہیں جو 1881 ء میں رقمطراز ہیں:
’’حقیقی پٹھان غالباََ دنیا کی وحشی ترین نسل ہے جس سے ہمارا پالا پڑا ہے۔۔۔۔وہ خون کا پیاسا، بے رحم اور انتہا ئی انتقام جُو ہوتا ہے۔۔۔۔سچائی یا ایمان کا اسے کوئی علم نہیں۔۔۔۔اس کا جرم اسکی اپنی زبان سے ثابت ہوتا ہے،اس کے چند ضرب المثل ملاحظہ کیجئے :’’پٹھان کی دشمنی اُپلے کی طرح دہکی رہتی ہے‘‘، ’’دشمن سے پیار کے ساتھ بات کرتے رہو، آہستہ آہستہ اس کی جڑیں کاٹ دو‘‘۔
یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسکاٹ لینڈ والے بھی پٹھان دشمنی میں کم نہیں، چند سال بعد مسٹر میک گریگر نے یہ یاد دہانی کرائی:
’’ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دیگر پٹھانوں کی طرح وہ اپنے مطلب کے لئے کسی بھی قسم کی دروغ گوئی سے کام لے سکتے ہیں۔ پیسے کے لئے وہ کوئی بھی گھٹیا سے گھٹیا کام کر سکتے ہیں۔‘‘
جس مصنف نے یہ سارے حوالے دئے ہیں، خود اس کا کہنا ہے:
’’وزیری سنی العقیدہ مسلمان ہیں مگر دیگر پٹھان قبیلوں کی طرح وہ باقاعدگی سے مذہبی فرائض ادا نہیں کرتے۔ملّاں صرف مذہبی معاملات تک محدود ہے، سیاسی معاملات میں اس کا کوئی دخل نہیں، وزیری خاص کر جمہوری اور آزاد لوگ ہیںحتیٰ کہ ان کے مَلکوںکا بھی ان پر زیادہ اختیار نہیں‘‘۔1
بیسویں صدی کی افغان جنگوں نے سب تبدیل کر دیا، ملّاں بہت طاقتور ہو گئے مگر یہ بات آج بھی درست ہے،جیسا کہ برطانیہ کو بھی اندازہ ہو گیا تھا، کہ طاقت سے اس مسئلے کومستقلاً حل نہیں کیا جا سکتا۔برطانیہ کی جانشین ریاست نے بھی اس علاقے کو اسی انداز سے چلایا، پہلے تو یہاں کے قبائل کو 1948ء میں کشمیر میں لشکریوں کے طور پر بھیجا گیا اور پھر پہلی افغان جنگ 1979-89 ء میں انہیں لشکری قوت کے طور پر استعمال کیا۔ اسی پس منظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کا امریکہ سے کیا تعلق بنتا ہے۔
مثلاً یہ کہ 1947ء سے لیکر آج تک پاکستان کی خارجہ پالیسی ،اقتدار میں بھٹو کے آخری چند سال چلیں ایک استثناء ہو سکتے ہیں،کس کے مقاصد آگے بڑھاتی رہی ہے؟کیا ایسا ہے کہ کابینہ کے اہم وزیر، جرنیل، سفارت کار اور چند سرکاری افسر اپنی اعلیٰ کمان کو جُل دے کر براہِ راست واشنگٹن کو خبریں پہنچاتے تھے؟اگر یہ سچ ہے تو یہ کھیل ساٹھ سال سے کیوں جاری ہے؟یہ کہانی ایسی خوبصورت نہیں ہے۔
عظیم قائد نے دنیا کی نئی عالمی طاقت کو اپنا گھر کرائے پر دینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہے۔ ان کے ساتھی زیادہ ہوشیار اور تیز طرار تھے۔ جناح کی حوصلہ افزائی کے ساتھ پاکستان کے نئے حکمرانوں میں یہ شعور بیدار ہو چکا تھا کہ اگر زندہ رہنا ہے تو اپنا ملک کرائے پر دینا ہو گا۔ عام نیلامی تو غیر حقیقت پسندانہ تھی۔بولی دینے والا ایک ہی ممکنہ خریدار تھا۔وہ اس سطح پر خاصے راست باز تھے ۔ ابتدائی چند سالوں کے ’’انتظامی اخراجات‘‘ کے لئے دو ارب ڈالر وصول کرنے کے بعد انہوں نے واشنگٹن کو بتایا کہ اگر جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا ہے تو ’’آمدن کا کوئی مستقل ذریعہ ہونا چاہئے‘‘۔ یہ مطالبہ پاکستانی سیاست کا مستقل جزو ہے۔ 1947 ء میں امریکہ میں پاکستان کے لابی اسٹ کے طور پر بد زبان مگر چالاک بیوروکریٹ غلام محمد نے، جو ملک کے پہلے وزیرِ خزانہ کاکردار بھی ادا کر رہے تھے، چَیز نیشنل بنک آف نیو یارک کا انتخاب کیا۔ جناح نے اپنے ایک قابلِ اعتماد نائب ، لئیق علی،کو خط دے کر بھیجا جس میں بنک کے چئیرمین وَن تھُورپ۔ ڈبلیو۔ الڈریچ کو ملکی ضروریات بارے گاہ کیا گیا تھا۔ اس نے یہ خط غور سے پڑھا، خط کی زبان بہتر بنائی، کچھ تبدیلیاں تجویز کیں اور سرکاری طور پر اسے فوگی باٹم بھیج دیا۔
جب لئیق علی کی محکمہ خارجہ کے اہلکاروں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ملک کو اس وقت مغربی سرحد پر سویت خطرے کا سامنا ہے‘‘۔یہ بات احمقانہ انداز میں گھڑی گئی تھی اور محکمہ خارجہ کو بھی اس کا اندازہ تھا۔ جنگ کے ہاتھوں تباہ حال سویت اپنی توانائی سویت یونین کی تعمیرپر صرف کر رہا تھا یا مشرقی یورپ کے دفاع کو مضبوط بنانے پر۔ امریکہ مغربی یورپ اور جاپان کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ چین پر نظر رکھے ہوئے تھا جہاں آٹھویں روٹ فوج اشتراکی فتح کا نقارہ بجا رہی تھی۔پاکستان اور اسکی افواج کو خریدنے میں اس وقت کسی قسم کی دلچسپی موجود نہیں تھی۔ آفس فار نئیر ایسٹرن افئیرز کی ایک دفتری یاداشت اس ضمن میں بالکل بے لاگ تھی:’’اس طرزِ عمل سے یہ واضح تھا کہ پاکستان کے ذہن میں تھا امریکہ پر بنیادی فوجی ضروریات کے لئے انحصار، جس کا مطلب تھا کہ یہ نیا ملک امریکہ کی فوجی ذمہ داری بن جائے گا چنانچہ پاکستان کو ہمارا جواب نفی میں تھا‘‘۔
یہ بات لئیق علی کو سمجھا دی گئی مگر اس گولی کو میٹھا بنانے کے لئے سماجی ضروریات کی تکمیل کے لئے فوری قرضے کی پیشکش کی گئی۔ مایوسی کا شکار لئیق علی نے پوچھا کہ کیاکچھ مخصوص ترقیاتی منصوبوں کے لئے امداد مل سکتی ہے۔ جب لئیق علی کے امریکی مخاطب نے پوچھا کہ کیا کچھ منصوبوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے تو لئیق علی کا جواب تھا ان کے علم میں صرف ایک پیپر مل کا منصوبہ ہی ہے۔ اس منصوبے میں لئیق علی خود دلچسپی رکھتے تھے۔ وائے افسوس! دستاویزات میں اہل کاروں کے نجی ردِ عمل کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔واشنگٹن نے تو اتنا بھی نہیں کیا کہ پاکستان کی جانب سے اپنی فوجیں فروخت کرنے کی فراخدلانہ پیش کش کا جواب ہی دیدے۔
اس غیر متوقع انکار کے بعد عظیم قائد کے سفیر نے پوچھا کہ کیا بھارت سے آنے والے مہاجروں کو کمبل اور دوائیاں فراہم کرنے کے لئے کچھ پیسے مل سکتے ہیں۔ یہ درخواست بھی رد کر دی گئی البتہ یہ امکان ظاہر کیا گیا کہ امریکہ پاکستان کو منڈی کے بھائو سے کافی کم نرخوں پر فوج کا اضافی سامان بیچ سکتا ہے۔اس سارے عرصے میں لئیق علی عظیم قائد کو خط ارسال کرتے رہے کہ بات چیت کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔عظیم قائد کو پوری طرح یقین نہیں آیا۔ انہوں نے مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے برطانیہ نواز سیاستدان، جو بعد ازاں وزیرِ اعظم بھی بنے،سر فیروز خان نون، جو ترکی جا رہے تھے، سے کہا کہ وہ امریکی سفیر سے انقرہ میں ملاقات کریں اور تھوڑا دبائو ڈالیں۔
’’ڈارکنیس ایٹ نون‘‘ (انہیں بعد ازاں پاکستان ٹائمزسے ملنے والا لقب )پوری چابکدستی کے ساتھ اپنے کام میں جُٹ گئے اور مندجہ ذیل ’’خفیہ یاداشت ‘‘ تحریر کی جو اس قدر خام تھی کہ ان دنوںجارج۔سی۔مارشل کی قیادت میں کام کرنے والا نفیس محکمہ خارجہ اس پر سٹپٹایا بھی ہو گا اور مسکرایا بھی ہو گا:
’’پاکستان کے مسلمان کمیونزم کے خلاف ہیں۔ ہندوؤں کی ماسکو میں ایک سفیر ، مسز پنڈت، جو دہلی میں ہندو وزیر اعظم نہرو کی ہمشیرہ ہیں جبکہ ماسکو نے ہندو دارلحکومت دہلی میں اپنا سفیر مقرر کررکھا ہے۔ ہم پاکستانی مسلمانوں نے ماسکو میں کوئی سفیر مقرر کیا ہے نہ ہی ہمارے دارالحکومت کراچی میں ان کا کوئی سفیر ہے۔ ۔۔۔اگر امریکہ پاکستان کو مضبوط اور خودمختار ملک بننے میں مدد دے تو پاکستانی اپنی آزادی اور طرزِ زندگی کی حفاظت کرتے ہوئے آخری دم تک کمیونزم کے خلاف لڑیں گے۔‘‘
کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ لاچارگی میں نون نے ترک حکومت کو فوجی مدد کے لئے درخواست دی مگر ترکوں نے درخواست رد کر دی اور فوراََ امریکہ کو مطلع کیا۔ اس بے اعتنائی کی وجہ کوئی راز نہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور سویت یونین اس بات پر متفق تھے کہ اس خطے میں اگر کوئی ملک اہم ہے تو وہ بھات ہے۔ 1948 ء میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ بزور بازو حل کرنے کی کوشش کی۔ کشمیر بھارت کا مسلم اکثریتی صوبہ تھا مگر اس کے ہندو مہاراجہ نے لوگوں کی مرضی پوچھے بغیر بھارت کے ساتھ الحاق کر لیا۔ اس پر شدید ردِ عمل ہوا۔ قوم پرست رہنمائوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے نہرو نے وعدہ کیا کہ کشمیر میں استصواب ِ رائے ہو گا ۔یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہو ا۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ میں نے کشمیر پر تفصیل سے ایک اور جگہ لکھا ہے۔یہاں یہی کہنا کافی ہے کہ پاکستان نے انہی ’’وحشی قبائل‘‘ کو کشمیر فتح کرنے بھیجا جو آجکل شہ سرخیوں میں ہیں۔ ان دنوں وہ نظم و ضبط کے معاملے میں اور بھی پس ماندہ تھے۔ انکی قیادت تو پاکستانی فوجی کر رہے تھے مگر وہ کسی کی کم ہی سنتے۔ انکی بے قابو قبائلی انا۔۔۔۔راستے میں قتل وغارتگری، راہبائوں سے زیادتی۔۔۔۔کا نتیجہ عسکری لحاظ سے بہت برا نکلاکہ سری نگر پر حملے میں تاخیر ہو گئی۔ بھارتی دستوں نے سری نگر کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنا لیا، یہاں مزید دستے اتارے گئے اور لڑائی جلد ہی اختتام پزیر ہو گئی۔ طرفین کی فوجیں برطانوی جرنیلوں کی کمان میں تھیں اور وہ اس لڑائی سے تنگ آئے ہوئے تھے ۔وہ اس تنازعے کو بڑھاوا دینے پر تیار نہ تھے۔ لائن آف کنٹرول کھینچی گئی جس نے کشمیر کی غیر منصفانہ تقسیم کر دی۔ بھارت کے حصے میں اس حسین خطے کا وہ حصہ آیا جو اس کے وزیر اعظم کے الفاظ میں ’’برفانی سینہ ‘‘ تھا جبکہ پاکستان کو اس کا بچا کھچا ملا۔ وہ دن اور آج کا دن، دونوں ملکوں میں کشمیر کے مسئلے پر نیم مستقل بنیادوں پر تنائو چلا آ رہا ہے۔ سرد جنگ کے عروج پر بھی کہ جب پاکستان امریکہ کا قریبی حلیف بن چکا تھا، جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا،امریکہ کا کشمیر بارے رویہ پاکستان نواز نہیں تھا جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ جنوبی ایشیا میں اپنے طویل المدت مفادات قربان کرنے پر تیار نہیں۔1
پاکستان اپنی بولی لگوانے کی کوشش میں لگا رہا۔ جناح نے،جو برطانیہ کی لیبر حکومت کے شدید خلاف تھے، امریکی سفیر کو بتایا کہ امریکہ ’’برطانیہ کی باتوں میں نہ آئے‘‘ کہ وہ بھارت نواز ہے بلکہ امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ سویت توسیع پسندی کے خلاف اگر کوئی ملک اتحادی ہو سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ جناح نے،جوشائد رڈ یارڈکپلنگ کے ناول کچھ زیادہ ہی پڑھ گئے تھے، اس بات پر زور دیا کہ سویت ایجنٹ قلات اور گلگت میں موجود ہیں اور وہ بلوچستان میں کسی اڈے کی تلاش میں ہیں۔یہ محض انکے تخیل کی پرواز تھی۔ نیو یارک میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ ظفراللہ خان بھی اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ان کا طریقہ البتہ ٰ نسبتاََ نفیس تھا۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ بھارت بڑی طاقت تھا، انہوں نے امریکہ سے التجا کی کہ پاکستان کو مضبوط بنایا جائے، جس کے لوگ خلقی طور پر اشتراکیت کے دشمن ہیں، کہ سویت یونین خیبر کے رستے فوجیں بھیجنے کا سوچ رہا تھا، بھارت کا یہی بہترین دفاع تھا۔ یہ وَار بھی کارگر ثابت نہ ہوا البتہ پاکستان کی مستقل مزاجی بعد ازاں ضرور رنگ لائی۔
جنگِ کوریا (1950-53) کے دوران امریکہ بالآخر پاکستان کی طرف متوجہ ہوا اور آہستہ آہستہ پاکستانی فوج و نوکر شاہی کو اس خطے کے دفاعی بندوبست کا حصہ بنالیا۔ 1953 ء میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے، جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے تھے،کراچی میں جنرل موٹرز کے اسمبلی پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے رائے دی کہ ’’دوستی اور خیر سگالی پر مبنی تعلقات دیرپا بنیادوں پر استوار ہو سکتے ہیں‘‘۔
امریکہ نے جواباََ گندم ’’امداد‘‘ کے طور پر بھیجی۔ حقیقت میں یہ امداد امریکی حکومت کی اس سکیم کا حصہ تھا جو اندرونِ ملک قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لئے اضافی گندم میں کمی کے لئے بنائی گئی تھی۔ ساتھ ہی وزیرِ خارجہ جان فاسٹر ڈلس نے بیان داغ دیا کہ’’پاکستان ایشیاء میں آزادی کا سر چشمہ ہے‘‘۔ جواب میں پاکستانی وزیر اعظم نے خوشامدی سا بیان جاری کیا۔
ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز اور اسی گروپ سے تعلق رکھنے والے اردو اخبار ’’امروز‘‘ نے 27 جولائی 1953 کی اشاعت میں اپنے اداریوں میں اس کی شدید مذمت کی :
’’(پاکستانیوں) کے لئے وزیر اعظم کا یہ دعوٰی قبول کرنا مشکل ہو گا جو انہوں نے امریکہ کی طرف سے بھیجی گئی خوراک کی پہلی قسط وصول ہونے پر دیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ ’’جمہوریت اور آزادی کے آدرش کے حوالے سے ایک ہی زبان ‘‘میں بات کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کے لئے اُس تعلق کو تلاش کرنا خاصا مشکل ہو گا جو ان کے آزادی بارے آئیڈیل اور امریکی خارجہ پالیسی کے ٹھوس ثبوت کے طور پر دنیا بھر میں قائم اڈوں، دم توڑتی مغربی سلطنتوں اور مشرق میں موجود انکے کٹھ پتلی حکمرانوں کے لئے امریکی حمایت، کامنٹانگ اور رئی گینگ کی حمایت یا خلیجی معیشتوں پر وال اسٹریٹ کی گرفت کے مابین پایا جاتا ہے۔ پاکستانی یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ جمہوریت
پر مبنی سیاسی و سماجی نظام کے جو خواب انہوں نے دیکھے ہیں، انکا امریکہ میں دانشوروں پر جبر اور سیاہ فام لوگوں سے امتیازی سلوک یا انہیں ہلاک کرنے جیسی امریکی حقیقتوں کے مابین کون سی چیز مشترک ہے‘‘۔1
فوجی امداد اور دفاعی معاہدے ایک ساتھ آئے اور ان کے پیچھے پیچھے فوجی آ مریتیں بھی چلی آئیں۔ستمبر 1954ء میں پاکستان نے فلپائن اور تھائی لینڈ کے ہمراہ ساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائزیشن ( سیٹو )میں شمولیت سے بر سرِ عام یہ اعلان کر دیا کہ وہ خوشی خوشی امریکہ کا آلہ کار بن رہا ہے۔امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سیٹو میں شامل دیگر جنوب مشرقی مما لک تھے ۔ٹھیک ایک سال بعد ،ستمبر 1955ء میں پاکستان ایک اور مغربی تنظیم ،معاہدہ بغداد ،کا بھی رُکن بن گیا جس میں شاہ فیصل کا عراق، ایران، ترکی اور برطانیہ شامل تھے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ یہ سب پاکستان میں عام انتخابات کاایک بار بھی تکلف کئے بغیر کیا گیا۔ عوامی غصے کو جمہوری اظہار کا موقع نہیں دیا جا سکتا تھا۔ ’’ٹیکنیکل اسسٹنس: فائنل رپورٹ آف کمیٹی آف فارن ریلیشنز‘‘ کے عنوان سے امریکی سینیٹ کی جو سفارشات 12 مارچ1957ء میں شائع ہوئیں ، اس سے بھی اس شک کی تصدیق ہوتی ہے جو اکثر پاکستانیوں کے دل میں گھر چکا تھا:’’سیاسی نقطہء نگاہ سے دیکھا جائے تو امریکی امداد سے پاکستان کی مسلح افواج مضبوط ہوئی ہیں۔۔جو ملک کے اندر ستحکام کا واحد بڑا ذریعہ ہیں ۔۔ اور اس امداد کی وجہ سے پاکستان دفاعی معاہدوں میں شرکت پر مائل ہوا ہے‘‘۔
جولائی 1959ء میں جب جنرل ایوب نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تو پشاور کے قریب بڈا بیر کے مقام پر ایک انتہائی خفیہ امریکی فضائی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دیدی۔ اس اڈے کا مقصد سویت یونین کی جاسوسی تھی۔ اگلے سال مئی میں ، روسیوں نے پشاور سے اڑنے والا امریکی جاسوس طیارہ یو ٹو مار گرایا جبکہ اس کے پائلٹ گیری پاورز کو گرفتار کر لیا۔ جب امریکیوں نے جاسوس پروازوں کی تردید کی تو روسیوں نے امریکی پائلٹ پیش کر دیا۔ کہا جاتا ہے سویت رہنما نکیتا خروشیف ،جو اس وقت جنرل میکس ویل ٹیلر کی میزبانی کر رہے تھے،غصے میں میز پر چڑھ گئے اور چلائے’’تم امریکی کتوں کی طرح ہو۔ جہاں کھاتے ہو وہیں گند کرتے ہو‘‘۔خروشیف نے بعد ازاں پریس کانفرنس بلائی اور اعلان کیا کہ انہیں معلوم ہے یہ طیارہ پشاور کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوا، پشاور اب سویت نشانے پر ہے جس کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا گیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں کیسی سنسنی پھیلی اور زندہ دلانِ پشاور کا تو ذکر ہی کیا کہ کچھ تو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یہ خالی دھمکی تھی مگر اس سے پاکستان کی طفیلی حیثیت آشکار ہو گئی۔ چند سال قبل قائم مقام وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی سفارت خانے سے اس ہوائی اڈے کا دورہ کرنیکی اجازت مانگی تھی۔ انہیں شائستگی سے بتا یا گیا کہ اڈے میں داخلہ ممنوع ہے البتہ بیس کمانڈر انہیں کیفے ٹیریا میں کافی اور کیک پیش کرنے میں خوشی محسوس کریں گے۔ کئی سالوں بعد ایک جرنیل نے لکھا کہ کس طرح ’’پاکستان کو لگا کہ اس کے ساتھ امریکہ نے دھوکا کیا ہے کیونکہ پاکستان کو بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ اس کی سر زمین سے جاسوس پروازیں روانہ کی جا رہی ہیں‘‘۔ یہ بات لیکن سراسر غلط ہے۔ ایوب خان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ امریکی فضائی اڈہ مشرقِ بعید جانے والے عملے کے سستانے کے لئے کوئی آرام گاہ نہ تھا۔
یو ٹو کے اس واقعے کے بعد واشنگٹن میں پالیسی سازوں نے (جو ہمیشہ بھارت بارے زیادہ متفکر ہوتے ہیں) ایوب کو مشورہ دیا کہ برصغیر کو اشتراکیت سے محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ ’’مشترکہ دفاعی نظام ‘‘ ہے۔ جنرل نے اتفاق کیا اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے بات کی جنہوں نے سرد جنگ کے دوران بھارت کو غیر وابستہ رکھا۔نہرو نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ ’’ کس کے خلاف مشترکہ دفاع؟‘‘انہوں نے سرد مہری سے پوچھا۔
ایوب نے وہی کیا جو ان سے کہا گیا لہٰذا نعام کے طور پر 1961ء میں کیملوٹ سرکاری دورے پر بلایا گیا اور ان کا شاندار استقبال کیا گیا جو خاص خاص موکلوں کے لئے مخصوص ہے۔ صدارتی بُوٹ میں انہیں کینیڈی جوڑے کے پاس مونٹ ویرنن پہنچایا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور کہا’’ایشیاء میں اگر کوئی آپ کا ساتھ دے گا تو وہ پاکستان کے عوام ہیں بشرطیکہ آپ بھی ان کا ساتھ دیں‘‘۔ایک تو یہ بات درست نہ تھی دوسرا، ادھر پاکستان میں، عوام کی اصطلاح استعمال کرنے پر لوگوں نے برا منایا۔
اگلے سال پراسرا ر بھارت چین جنگ شروع ہو گئی جو چین نے اس متنازعہ علاقے کے حصول کی خاطر شروع کی جس کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ اس چھوٹی سی جنگ کا مقصد درحقیقت بھارت کے ذریعے سویت روس کو پیغام دینا تھا۔ یہ جنگ روس چین اختلافات کے آغاز کی علامت تھی گو اس وقت بہت کم لوگوں نے اسے اس نظر سے دیکھا۔ امریکہ کی نظر میں یہ چین کی طرف سے ’’بلا اشتعال جارحیت‘‘ تھی۔امریکہ اور برطانیہ نے بھارت کی افواج کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا۔ایوب کو غصہ تو آیا مگر وہ کر کچھ نہیں سکتے تھے۔ یہ تو دس سال بعد جب بیجنگ نے سر عام ماسکو سے ناطہ توڑا تو امریکہ نے چین کی طرف ہاتھ بڑھانے کا سنجیدگی سے سوچا۔اس عمل میں پاکستان نے میانجی والا کردار نبھایا ۔ پاکستانی رہنما یہ کردار ہمیشہ خوشی خوشی نبھاتے ہیں۔
جب یہ بات ایوب پر بھی واضح ہو گئی کہ امریکہ بھارت کے خلاف کسی عسکری تنازعے میں پاکستان کی پشت پناہی نہیں کرے گا تووہ کسی حد تک الجھن کا شکار ہو گئے۔ عوام دفاعی معاہدوں کے خلاف تھے۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان کی فوجی مدد بند کر دی۔ اس پابندی نے پاکستان کے فوجی۔بیوروکریٹک ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ باہمی تعلقات میں ایک نئے دور کا مطالبہ کرنے پر وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے اپنے نقطہء نگاہ کی بعد ازاں یوں وضاحت کی:
’’جب امریکہ نے یکطرفہ طور پر پاکستان کی امداد بند کر دی تو تمام باہمی و کثیرالملکی فوجی معاہدے ختم ہو گئے۔ رعایتِ باہمی کا خاتمہ ہو گیا تو معاہدے بھی خود بخود ختم ہو گئے۔ اس واضح صورتحال کے باوجود ایوب حکومت نے پاکستانی عوام کے حوالے سے اپنے بنیادی فرض کی ادائیگی میں سستی دکھائی اور معاہدے منسوخ نہیں کئے۔ حکومت نے پاکستان کی سا لمیت کو تو خطرے میں ڈالا مگر اسکی حفاظت کے لئے ذرہ برابر کوئی انتظام نہیں کیا۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان نے سرد جنگ سے وابستہ ذمہ داریاں اس شرط پر قبول کی تھیں کہ بدلے میں اسے فوجی امداد اور کشمیر پر سیاسی حمایت حاصل ہو گی۔ فوجی امداد تین سال پہلے بند ہو گئی جبکہ کشمیر پر حمایت کا اس سے بھی پہلے خاتمہ ہو گیا۔ کشمیر پر امریکی نقطہء نظر میںناقابلِ مشاہدہ تبدیلی اکتوبر 1959 ء میں سامنے آنے والے پہلے ہندچینی تنازعے کے وقت سے نظرآناشروع ہو گئی تھی۔ جب پاکستان اس تنازعے کو 1964 ء میں سلامتی کونسل کے سامنے لیکر گیا تو اس بابت شک کی کوئی گنجائش ہی نہ بچی۔ ایک ایسے موقع پر کہ جب پاکستان پانچ گنا بڑے جارح کے خلاف اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا، امریکہ نے پاکستان کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی۔تین سال تک پاکستان کواسلحے اور فاضل پرزہ جات کی فروخت پر مکمل پابندی رہی۔ ایک ایسے ملک کی حکومت جو تین دفاعی معاہدوں میں شامل ہو، اسلحے اور فاضل پرزہ جات کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی، بلیک مارکیٹ سے لیکر بدنام اسلحہ اسمگلروں سے رابطے کر رہی تھی۔ اس سارے مشکل دور میں ایوب خان نے ملک کو ان متروک معاہدوں سے نجات نہیں دلائی۔ اس کے برعکس ایوب خان نے پشاور میں امریکی اڈے کو 1969جولائی میںاس کا لیز ختم ہونے تک کام کی اجازت دی۔ ناٹو میں ستون کی حیثیت رکھنے والے ممالک کے لئے بھی یہ نا ممکن ہو گا کہ وہ یکطرفہ طور پر امریکہ یا کسی اور ملک کے لئے اس قدر بڑی فوجی ذمہ داریاں نبھائیں۔‘‘
یہ طویل اقتباس ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا سب سے قابل رہنما، جو ایسا کوتاہ فکر بھی نہیں تھا، ایک ایسے وقت میں کہ وہ اقتدار سے باہر ہے اور زندگی کے اس مرحلے میں ہے جب اسکی ترقی پسندی عروج پر ہے، یہ سوچ اس کے ذہن پر غالب ہے کہ بھارت بنیادی دشمن ہے۔1947 ء سے یہ سوچ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ اس سوچ نے ملک کے اندرونی نظام کو متاثر کیا اور عسکری سیاسی کلچر کو جنم دیا۔ 1969ء کی گرمیوں میں کراچی میں کلفٹن کے مقام پر بھٹو کی رہائش گاہ پر میری بھٹو سے طویل ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے اس بارے پوچھا اور نشاندہی کی کہ قومی شاونزم کسی ترقی پسند مقصد کو فروغ دینے میں کام نہیں آتی۔ یہ بھارت کے ساتھ 1965ء میں ہونے والی جنگ کے فوری بعد کی بات ہے ۔بھٹو نے اس جنگ کی زبردست وکالت کی تھی۔ ’’ملک پر حکمران اس فوج سے ہم بھلا اور
کس طرح نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس جنگ میں شکست نے فوج کو کمزور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک اب کامیاب ہو رہی ہے‘‘۔1 بھٹو انتہا درجے کی تُرش روئی کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن کیا واقعی وہ اپنی اس بات پر یقین بھی کرتے تھے؟ مجھے نہیں معلوم۔ نجی طور پر وہ نہرو کے زبردست مداح تھے ، نہرو کی ساری کتابیں پڑھ چکے تھے اور ایک کا تو انہوں نے اپنی خود نوشت میں حوالہ بھی دیا جو انہوں نے موت کی کوٹھڑی میں لکھی۔ شائد انہیں کسی حد تک اندازہ تھا کہ جناح نے ملک بنایا ہے قوم نہیں۔ پاکستانی قومیت کمزور جبکہ سندھی، بلوچی، بنگالی اور پشتون شناخت کہیں مضبوط تھی۔ بنگال تو جلد ہی علیحدہ بھی ہو گیا لیکن باقی ہنوز پاکستان کا حصہ تھے۔ پاکستانی شناخت کی تشکیل کی ایک ہی صورت تھی کہ بھارت یا ’’ہندو ‘‘دشمن ہو۔ یہ کوشش پنجاب سے باہر خام بھی ثابت ہوئی اور ناکام بھی۔ پنجاب میں بھی بہت سے لوگ اب کوئی اور نعرہ سننا چاہتے تھے کہ وہ ’’کشمیر خطرے میں ہے‘‘ والے نعرے ، جو اکثر سیاستدان گھٹیا شہرت حاصل کرنے کے لئے لگاتے تھے، اور ساقط شاونزم سے تنگ آ چکے تھے۔یوں ’’ بھارت دشمنی‘‘ کسی حقیقی سامراج مخالف قومیت کا متبادل بن گئی جبکہ بھارت کو کبھی بھی اس مسئلے کا سامنا نہیں کر نا پڑا۔ متنوع نسلی، لسانی اور ثقافتی روایات کے باوجود ،حالانکہ ان سب میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ خطے میں ان کااپنا مقام اور ایک اپنی دیومالا ہے، لوگوں کو کبھی بھارتی کہلانے میں کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں رہا ۔ کچھ وقتی استثنائیں ضرور تھیں۔۔۔پنجاب کے سکھ ، ناگا لینڈ کے قبائل۔۔۔مگر یہ مسائل حکمران اشرافیہ کی سیاسی حماقتوں کا نتیجہ تھے۔ بیوروکریٹ سے سیاستدان بننے والے پہلے جتھے کی تقاریر پڑھیں تو اندازہ ہو گا کہ بھارت کی نسبت ایک مستقل احساسِ کمتری پایا جاتا ہے۔اس احساسِ کمتری سے بچنے کے لئے وہ اس ذکر سے گریز کرتے کہ پاکستان کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کی بجائے قرونِ وسطیٰ کے مسلمان جنگجوئوں یا بعض اوقات مغل بادشاہوں سے رشتہ جوڑا جاتا ہے حالانکہ وہ نئے پاکستان کے لئے کوئی اچھا نمونہ نہ تھے کیونکہ ان کے ہاں مذہب اتنا اہم نہیں تھا ۔ اور تو اور متقی و پرہیزگار اورنگزیب ۔۔۔۔آخری عظیم مغل بادشاہ۔۔۔۔کی سامراجی فوج کی قیادت ہندو جرنیل کرتے تھے اور اورنگزیب نے مسجد کو ریاستی قوت کا سرچشمہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔سو 1947ء تک کی پاکستانی تاریخ ہندوستان سے مشترک نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے شاندار ماضی کی تاریخ کے طور پر رقم کی گئی۔
1962ء میں ہونے والی ہند چین جنگ کے بعد جب امریکہ بھارت سے قریب ہوا، پاکستان نے چین سے پینگیں بڑھانی شروع کر دیں۔ ایوب نے رچرڈ نکسن سے دس سال قبل 1964ء میں چین کا دورہ کیا۔ چینیوں نے جو ’’عوامی استقبال ‘‘ کیا وہ ایوب کے سر کو چڑھ گیا اور اپنے ملک میں حقیقی عوامی سرکشی کے ہاتھوں رخصتی کے لمبے عرصہ بعد تک دورہ چین کی و یڈیو دیکھا کرتے تھے۔واشنگٹن بہت خوش تو نہیں تھا مگر پاک چین تعلقات اس کے لئے مفید تھے ۔ سی آئی اے کے لئے کام کرنے والے پاکستانی کبھی کبھار چین میں جاسوسی بھی کرتے ۔ ان میں پی آئی اے کاایک پائلٹ بھی تھا، جسے میں ذاتی طور پر جانتا تھا، جو مسافر پروازیں لیکر چین جایا کرتا تھا۔ یہ تعلق دونوں کے لئے مفید تھا۔پاکستانی بیوروکریٹوں اور وزراء کی واشنگٹن میں ڈی بریفنگ ہوتی۔ حبیب جالب نے ’’مشیر‘‘ کے عنوان سے ایک طویل طنزیہ نظم لکھی جس میں مشیر صدر سے کہتا ہے:
میں نے اس سے کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
وقت کے ساتھ ساتھ چین کا نظام بھی الٹ پلٹ ہو گیا ۔ یہ نظام ایشیائی سرمایہ داری کا نمونہ بن گیا جسے پاکستان بخوشی قبول کرنا پسند کرے گا۔ بھارت کے ساتھ سرد جنگ ہمیشہ چلتی رہی۔ یہ سرکاری نقطہء نظر کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والا دھماکہ اس بحران کا نتیجہ نہیں تھا جو قیام پاکستان کے وقت سے اس ریاستی ڈھانچے میں پنہاں تھا بلکہ بھارت کی کارستانی تھی، سرکاری سوچ کا حصہ بن چکا ہے اور پالیسی سازی کی شکل میں ٹھوس شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس بات سے بہرحال تجاہل برتنا ممکن نہیں کو 1971ء میں چین ’’پاکستان کو بچانے‘‘ آیا نہ امریکہ جیسا کہ کچھ لوگوں نے پیش گوئی کی تھی اور بعض دیگر کو اسکی توقع تھی ۔دونوں نے اس کا خون بہنے دیا۔ بھارت میں غالب نقطہء نظر کیا تھا؟
کیا فاتح بھارتی قیادت مغربی پاکستان کو بھی مٹا دینے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی؟ اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔پہلی رائے اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی ہے جو انہوں نے 1984 ء میں اپنے قتل سے چند ماہ پہلے راقم کے ساتھ طویل آف دی ریکارڈ گفتگو میں بیان کی۔
میں ان دنوں ایک کتاب پر کام کر رہا تھا ۔کتاب کیلئے رسمی انٹرویو کے بعد مجھ سے سوال کرنے لگیں’’اب میری باری ہے آپ سے کچھ سوال پوچھنے کی۔ میں نے آپ کی کتاب پڑھی ہے (کین پاکستان سروائیوو؟)آپ کو معلوم ہے یہ جرنیل کس طرح سوچتے ہیں، کام کرتے ہیں۔ میرے لوگ مجھے بتا رہے ہیں کہ پاکستان ہم پر اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔ میرے دماغ میں پہلا خیا ل یہ آیا کہ بھارت پاکستان پر پیشگی حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ میں نے بے لاگ جواب دیا ، یہ نشاندہی کی کہ پاکستان امریکہ کی طرف سے مجاہدین کے معاملات چلانے میں مصروف ہے ایسے میں وہ دوسرا محاذ کھولنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ اس قدر لایعنی ہو گا کہ اعلیٰ کمان میں اگر کوئی سرپھرا اس بارے سوچے گا بھی تو امریکہ اسے ویٹو کر دے گا۔ انہوں نے اپنے سوال پر زور دیا اور میں جواباََ انکار کرتا رہا کہ ایسا کوئی منصوبہ موجودیا ممکن ہے۔1
’’مجھے حیرت ہے کہ آپ ایسا انسان بھی کہے کہ جرنیل منطق سے کام لینے والے انسان ہیں‘‘
میں نے قہقہہ لگایا۔ عجیب ستم ظریفی تھی۔ میں فوجی آمروں کی جنون کی حد تک مخالفت کرنے والا شخص پاکستانی فوج کا ’’دفاع‘‘ کر رہا تھا۔
’’لیکن ایسا کوئی حملہ اس قدر غیر منطقی ہو گا کہ پاگل پن ہو گا‘‘ ، میں نے جواب دیا۔’’اس کامطلب ہو گا کہ ریاست اور جرنیل خود کشی پر اتر آئے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کریں گے ۔میں یہ بات ایک ایسے شخص کے طور پر کہہ رہا ہوں جومکمل طور پر ان کے خلاف ہے اور اس وجہ سے ناپسندیدہ شخصیت ہوںکہ جرنیلوں نے بنگال میں جو کیا میں اس کے خلاف تھا‘‘۔
اس کے بعد بحث نے ایک دلچسپ موڑ لیا۔
’’اب میں آپ کو کچھ بتاتی ہوں‘‘،انہوں نے کہا۔’’یہ ہمارے جرنیلوں کے بارے میں ہے۔ پاکستان نے ہتھیار ڈال دیئے تو جنرل مانک شاہ اسی دفتر میں آئے اور سیلوٹ کیا‘‘۔بھٹو کی طرح مسز گاندھی بھی دوسروں کی نقل خوب اتارتی تھیں اور انکا انداز ِ گفتگوانسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیتا تھا۔ انہوں نے جو بتایا وہ میرے لئے کافی حیران کن تھا۔ سیلوٹ کرنے کے بعد مانک شاہ نے پوچھا کہ کیا فوجی کمان کو یہ اجازت ہے کہ وہ ’’کام انجام تک پہنچا دیں‘‘۔ اس کا مطلب تھا مغربی پاکستان کی سرحد پارکرتے ہوئے اس پر قبضہ۔ پاکستانی فوج کی پست حوصلگی کے پیشِ نظر اس مہم کا نتیجہ تو واضح تھا تا آنکہ چین یا امریکہ اس تنازعے میں مداخلت کر دیتے۔
’’یہ چونکہ بھارت ہے‘‘، مسز گاندھی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،’’میں نے جرنیل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کابینہ اس تجویز پر بحث کرے گی۔ ‘‘
اس کے بعد انہوں نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلایا۔
’’جب میں نے فوج کی درخواست بارے بات کی تو وزراء کافی پُرجوش دکھائی دیئے اور کچھ تو اس درخواست پر عمل درآمد کے حامی بھی تھے۔
جب اجلاس شروع ہوا تو میں اکیلی تھی۔جب اجلاس ختم ہوا تو متفقہ طور پر فائر بندی کا فیصلہ ہوا۔ میں آپ کو اس واقعہ سے یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ جرنیل بھارت میں بھی انتہائی غیر منطقی ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں تو وہ ملک چلا تے ہیں‘‘۔
میں نے وہی بات دہرائی جو پہلے کہہ چکا تھا اور یوں اس موضوع پر بات ختم ہوگئی۔اس کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ اسرائیلی پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر برق رفتار حملے کی پیشکش کر چکے ہیں بشرطیکہ بھارت ان کو اپنے فضائی اڈے مہیا کرے۔’’میں نے ان کی تجویز مسترد کر دی۔ میں نے ان سے کہا کہ اگرہم چاہیں تو ہم خود بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‘‘ہماری گفتگو کے اختتام پر بھٹو کا ذکر چلا ، ان کے دورہ شملہ پر بات ہوئی جو انہوں نے بنگلہ دیش میں جنگ کے بعد کیا اور یہ کہ وہ کس قدر نروس تھے۔ ’’جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تو میں خود جیل میں تھی۔ میں بہت پریشان ہوئی۔ اگر میں وزیر اعظم ہوتی تو یہ کبھی نہ ہونے دیتی‘‘۔ مسز گاندھی یہ بات پورے تیقن سے کہہ رہی تھیں۔
اگلے روز میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ایک مباحثے میں موجود تھا جس میں بیس کے قریب لوگ تھے اور زیادہ تر صحافی، سرکاری ملازم یا خفیہ اداروں کے لوگ تھے جو سویت یا امریکی لابی کی نمائندگی کرتے تھے۔ صدارت کرنے والے شخص نے کہا ’’ سنا ہے گذشتہ روزآپ کی ہماری وزیر اعظم سے بہت دلچسپ گفتگو ہوئی ہے۔ ہم اسی بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔دو گھنٹے تک وہ مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان کشمیر پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ میں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے تفصیل سے وضاحت کی کہ افغان مداخلت کے پیشِ نظر اور سندھ،بلوچستان ، سرحد کے بعض حصوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے بعض حلقوں میں ضیاء کی عدم مقبولیت کے باعث یہ ممکن نہیں۔ جنرل ضیاء کسی ایسی احمقانہ جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے جو وہ جیت نہیں سکتے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت بھارت سے صلح کے لئے بے چین ہیں اور کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بن بلائے چلے آ رہے ہیں۔وہاں موجود اکثر آلہ کار قائل نہ ہو سکے ۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر بھارت پیشگی حملے کا منصوبہ بنا چکا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتا لیکن انہیں کوئی مناسب بہانہ تلاش کرنا چاہئے کیونکہ اس بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ بھارت پر حملہ ہونے والا تھا۔
اس کہانی سے جڑا ایک اور دلچسپ واقعہ ہے ۔ لندن واپسی کے چند ماہ بعد میں نے یہ واقعہ بے نظیر بھٹو کو سنایا۔ انہوں نے توجہ سے میری بات سنی اور پھر گویا ہوئیں’’ آپ نے ان سے کیوں کہا کہ ہمارے جرنیل جنگ کی تیاری نہیں کر رہے؟‘‘اس لمحے انہیں دیکھ کرانکے والد یاد آئے۔ ان کا بھی خیال یہی تھا کہ سیاست پر فوج کی گرفت فوج کو جنگ میں شکست سے ہی ممکن ہے۔
مسز گاندھی سے ہونے والی گفتگو مجھے اور بھی وضاحت سے یاد آئی جب اکتوبر 1984ء میں وہ اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ ایک قاتل پاکستان میں قائم سکھوں کے تربیتی کیمپ جا چکا تھا۔ گو براہِ راست حملے کی بات تو نہیں ہو رہی تھی مگر بدلے کی خواہش فوج کے بعض حصوں میں ابھی باقی تھی۔ سکھوں کے ساتھ مسز گاندھی کے مسائل انکے اپنے کھڑے کئے ہوئے تھے۔ پاکستان نے سکھوں میں موجود بے چینی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھ دہشت گردوں کو تربیت دی۔کیا یہ ممکن ہے کہ سی آئی اے یا ڈی آئی اے کے بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں موجود آلہ کاروں نے خبر پہنچا دی ہو کہ بھارت سنجیدگی سے پاکستان پر ’’پیشگی حملے‘‘ کا منصوبہ بنا رہا ہے؟ ایسا ہونے کی صورت میںنہ صرف افغان آپریشن متاثر ہوتا بلکہ پاکستان کی فوجی آمریت بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتی۔ ممکن ہے اعلیٰ سطح پر ہونے والے خفیہ فیصلے نے واشنگٹن کو مجبور کیا ہو کہ بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان سے تربیت حاصل کرنے والے کسی تربیت یافتہ آدمی سے مروا دو۔ نئی دہلی کے اعلیٰ سرکاری اہل کاروں کا کم از کم یہی نقطہء نظر تھا ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نئے وزیر اعظم کو جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں پاکستان کا قاتلوں سے تعلق بتایا گیا ہے مگر اس رپورٹ کو اس خدشے کے پیشِ نظر عام نہیں کیا گیا کہ اس سے ایک مرتبہ پھر جنگی جنون پھیل جائے گا۔
2006 ء میں پاکستان گیا تو اس ضمن میں مجھے مزید ثبوت ملا۔ لندن واپسی کی پرواز میں میری ملاقات ایک پرانے شناسا سے ہو گئی۔ میں نے اسے باوردی پولیس والوں کے گھیرے میں دیکھ تو ہوائی اڈے کے لاونج میں ہی لیا تھا جب میں پی آئی اے کی پرواز میں سوار ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھ سے تھوڑے فاصلے پر وہ بزنس کلاس میں بیٹھ گیا ، جو بالکل خالی پڑا تھا ۔میں ایک ناول پڑھنے میں مگن تھا جب اس نے آکر حال احوال دریافت کرنا شروع کر دیا۔
’’پہچانا مجھے‘‘، وہ بولا۔
’’معاف کیجئے گا‘‘ میں نے جواب دیا،’’میں ۔۔۔۔‘‘
’’معاف تو میں نے اس وقت نہیں کیا جب آپ چھوٹے ہوتے تھے اب کیوں کروں؟ غور سے دیکھیں تو پہچان جائیں گے‘‘۔
میں نے ایسا ہی کیا۔ آہستہ آہستہ میرے ذہن میں ایک لڑکے کی تصویر ابھرنا شروع ہوئی جو میرے دوستوں کے اس گروہ میں ہوتا تھا جس کے ہمراہ میں ہمالیہ کے قدموں میں واقع نتھیاگلی میں گرمیوں کی چھٹیاںگزارا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے اس کی والدہ سب سے اچھا حلوہ بناتی تھیں اور اسی وجہ سے اس کا نام بھی یاد آ گیا۔ اس نے خوشی سے قہقہہ لگایا۔
’’آج کل کیا کر رہے ہو‘‘، میں نے پوچھا۔
’’جناب کو پتہ چلا تو مار ا جائوں گا‘‘۔
’’بتائو تو سہی‘‘
’’پہلے میں بھٹو کا سینئر سکیورٹی افسر تھا پھر ضیاء کا‘‘۔
’’ تم نے دونوں کے لئے کام کیا‘‘
’’ یہ میری نوکری کا تقاضا تھا‘‘۔
میں نے مایوسی سے آہ بھری۔ ’’پھر؟‘‘
اب وہ پہلے سے بھی بڑا انٹیلی جنس افسر تھا۔ دہشت گردی سے بہتر طریقے سے نپٹنے کے لئے ہورہی یورپ میں کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے جا رہا تھا۔
’’او بی ایل ابھی زندہ ہے؟‘‘
اس نے جواب نہیں دیا۔ ’’’جب تم جواب نہیں دو گے تو میں سمجھوں گا جواب ہاں میں ہے‘‘۔
میں نے دوبارہ سوال پوچھا ،وہ خاموش رہا۔
’’معلوم ہے وہ کہاں ہے؟‘‘
اس نے زبردست قہقہہ لگایا۔’’نہیں اور اگر معلوم بھی ہوتا تو کیا خیال ہے میں بتا دیتا‘‘۔
’’نہیں ۔لیکن میں نے سوچا پوچھنے میں کیا حرج ہے۔ کیا کسی کو معلوم ہے وہ کہاں ہے؟‘‘
اس نے کندھے اچکائے۔
میں نے اصرار کیا’’ہمارے شاندار ملک میں کچھ بھی راز نہیں ہوتا۔ کسی کو تو پتہ ہوگا ۔‘‘
’’ تین یا شائد چار لوگ جانتے ہیں۔ اندازہ لگالیجئے کہ وہ کون سے چار ہیں۔‘‘
میں نے اندازہ لگا لیا۔ ’’ اور واشنگٹن؟‘‘
’’ وہ اسے زندہ پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘‘
’’اور تمہارے لڑکے اسے مار نہیں سکتے۔‘‘
’’دیکھو دوست! ہم ایسی مرغی کیوں حلال کریں جو سونے کا انڈہ دیتی ہو؟‘‘
اس سرکاری افسر کا کہنا یہ تھا کہ جب تک اسامہ زندہ ہے ، یہ ضمانت موجود رہے گی کہ ڈالر آتے رہیں گے۔ بات میں جان تو تھی لیکن کیا یہ بات درست بھی تھی؟ میں نے بات کا رخ موڑ کر ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔ ضیاء کے قتل کی کبھی باقاعدہ تحقیقات کیوں نہیں ہوئیں؟ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن زیادہ کریدنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس کا اپنا خیال تھا کہ روسیوں نے قتل کیا۔ پاکستانی انٹیلی جنس میں یہ رائے ایسی حیرت کی بات نہیں۔ اکثر اس کا تعلق افغانستان سے جوڑتے ہوئے اسے ماسکو کا بدلہ قرار دیتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ فقط وہم ہے۔ میرے مخبر نے مجھے جو بتایا اس میں وزن ضرور تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ روسی بھارت کے ممنونِ احسان تھے (وہ احسان کیا تھا ، اس نے واضح نہیں کیا) اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی (اندرا کا بیٹا) نے ضیاء کا سر مانگا۔
’’ کیوں؟‘‘ میں نے بھر پور معصومیت سے پوچھا۔
’’ اپنی ماں کے قتل کے بدلے‘‘۔
مسز گاندھی کے قتل بارے یہ واحد نیم سرکاری تصدیق ہے جو آج تک مجھے ملی ہے۔
یہ سب تو تھا ماضی کا قصہ۔ ان دنوں دونوں ملکوں کو ایٹمی رتبے کا خبط سوار ہے ، اور خطرہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں برصغیر کے بڑ ے حصے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ یہ تجزیہ کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ’’جہادیوں ‘‘ کے ہاتھ لگ سکتی ہے کافی زہر اگیں ہے اور یہ باتیں دنیائے بلاگ تک ہی محدود نہیں۔اچھے خاصے سمجھدار لوگ احمقانہ بیان بازی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تین نمونے پیش کئے جا رہے ہیںاور بہت سے دیگر بیانات ان سے زیادہ غیر محتاط ہیں۔مینیجنگ دی ایٹم، ہاورڈ، کے میتھیو بَن کا کہنا ہے:
’’ماسکو کے وسط میں اگر ہر طرح سے مسلح دہشت گرد تھیٹر پر جمع ہو سکتے ہیں تو پاکستان کے کسی دور دراز علاقے میں واقع ایٹمی تنصیبات کے باہر کتنے لوگ جمع ہو سکتے ہیں؟جیسا کہ آپ کو معلوم ہے پاکستان وہ ملک ہے جہاں القاعدہ کی’’اچھی خاصی مسلح باقیات‘‘ متحرک ہیں اور ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان کی باقاعدہ فوج اور سرحد کے بڑے حصوں کو بیک وقت مفلوج کر سکتے ہیں۔ اگر القاعدہ بڑی تعداد میں ایسی تنصیبات کے باہر جمع ہو جائیں تو محافظ کیا کریں گے؟ کیا وہ مقابلہ کریں گے، مدد فراہم کریں گے؟ میرے لئے یہ ایک کھلا سوال ہے۔‘‘
سابق سی آئی اے آپریشنز ڈائریکٹر برائے ایشیاء آرٹ برائون کے نزدیک مشرف ایک ایسا اثاثہ ہیں جس کے بغیر شدید مشکلات جنم لے سکتی ہیں:
’’اگر مشرف کو اقتدار سے ہٹایا گیا،بالخصوص اگر مشرف کو ہلاک کر کے ا قتدار پر قبضہ کیا جاتا ہے تو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے لئے میں سمجھتا ہوں یقیناََ خدشات جنم لیں گے۔ کوئی بھی حکومت جس کے پاس ایسی کوئی صلاحیت ہو اور اس کا رہنما کسی خونی بغاوت میں مارا جائے تو ہمیں فکر لاحق ہو گی۔ پریشانی تجربہ گاہوں کی نہیں ہے کہ ان میں موجود مواد کو استعمال کرتے ہوئے کوئی چیز تیار کرکے باہر لانے میں وقت لگے گا۔ کسی موقع پر ہمیں خبر ملے گی کہ تیار ہتھیار جو پاکستانی اسلحہ خانوں میں موجود ہیں، وہ کسی دروازے سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے دشمن کے ہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ کے آرمز کنٹرول سیکشن سے تعلق رکھنے والے جوزف رابرٹس بھی اسی طرح سے پریشان دکھائی دیتے ہیں:
’’مجھے یہ پریشانی لاحق ہے کہ کسی دہشت گرد کو محض ایک بار مواد اور ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا ہے اور اس ہتھیار کو کسی امریکی یا دنیا کے کسی بھی شہر کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ ایسے کسی خطرے سے نپٹنے کے لئے ایک جامع حکمتِ عملی اپنانی ہے۔ ہم دو کلیدی عناصر پر زور دے رہے ہیں۔ ایک تو ہے پیش بندی۔ ہم دہشت گردوں کو ایٹمی ہتھیار اور عوامی پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایسے دیگر ہتھیاروں تک پہنچنے سے روکیں۔ہمیں حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی، جن پر زور و شور سے کام جاری ہے،جنکی مدد سے مثلاََ اس طرح کے مواد کی منتقلی کا پتہ چل سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس مواد کی ممانعت۔‘‘
ان بیانات میں ایٹمی تاریخ دان سکاٹ ساگن کے نظریات کا اضافہ کر لیجئے اور ایک نئی تصویر ابھرے گی:
’’پاکستان واضح طور پر سب سے سنجیدہ قلیل المدت خدشہ ہے۔ پاکستانی ہتھیاروں میں پرمیسیو ایکشنز لنکس (PALS)نصب نہیں ہیں جو دہشت گردیا کسی غیر متعلقہ شخص کو ان ہتھیاروں سے باز رکھ سکتے ہیں۔ جون 2001 ء میں پاکستانی حکام نے یہ بھی تسلم کیا کہ اگر کوئی ہتھیار چوری ہو جائے تو ایسے پیشہ ور افراد موجود نہیں جو مسروقہ مال کو ناکارہ بنانے یا برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔کوئی مخلصانہ
پرسنیل ریلائبیلٹی پروگرام (پی آر پی) بھی موجود نہیں ہے جس کا مقصد پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت پر معمور افسران اور حفاظتی عملے کے نفسیاتی استحکام اور اعتبار کو یقینی بنانا ہو۔اس کے بجائے ایٹمی ذمہ داریوں کی انجام دہی کیلئے تعینات سپاہیوں اور سائنس دانوں کے حوالے سے آئی ایس آئی نے فقط اتنی تفتیش کرنے کے بعد منظوری دی تھی کہ وہ بھارتی ایجنٹ نہیں ہیں۔‘‘
یوںہمیں یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ امریکہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی قیمت پر پاکستان کی فوجی قیادت کی حمایت کیوں کرتا ہے۔ اگر ہم ان دلائل کا باری باری جائزہ لیں تو وہ یا مضحکہ خیز معلوم ہوں گے یا بھارت اور اسرائیل پر بھی صادق آتے ہیں۔ سوچئے اگر چالیس انتہائی مسلح یہودی انتہا پسند وں کے ہاتھ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسرائیلی ہتھیار لگ جائیں تو؟یا یہ کہ ہندو بنیاد پرستوں کا کوئی چھوٹا سے گروہ بھارت میں یہی کر گزرے؟پاکستان کی طرح وہ پکڑے جائیں گے اور ان سے نپٹ لیا جائے گا۔ ان ملکوں میں سے کسی کی سکیورٹی فورس بھی منحرفین سے محبت بھرا سلوک کرنے کی وجہ سے مشہور نہیں۔ القاعدہ کی جن ’’اچھی خاصی باقیات‘‘کا ذکر میتھیو بَن نے کیا ہے تو عرض ہے کہ خفیہ اداروں کے اکثر تجزیوں کے مطابق ان کی تعداد پانچ سو سے کہیں کم ہے۔ پاکستانی فوج کی تعداد اس وقت پانچ لاکھ ہے۔
اگر مشرف استعفیٰ دیدیں یا انہیں صدارت سے ہٹا دیا جائے تو فوج کی اعلیٰ کمان کو رتی برابر فرق نہیں پڑے گا۔ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کا اختیار انہی کے پاس رہے گا ۔ جہاں تک سوال ہے کسی ’’دہشت گرد‘‘ کے ہاتھ ایٹمی ہتھیار لگ جانے کا تو اس کا امکان یلسن کے روس میں زیادہ تھا ،اس کے مقابلے پر آج کے پاکستان میں کہیں کم۔ مت بھولئے کہ پاکستان پہنچنے والا قابلِ انشقاق(سپلِٹ ایبل) مواد زیادہ تر مغربی یورپ سے آیا تھا۔ ساگن نے جن باتوں کی نشاندہی کی وہ کافی حد تک مناسب ہیں مگر ساگن نے اپنی کتاب 2003 ء میں لکھی تھی اور پاکستان کے سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ جن خامیوں کی بات ساگن نے کی تھی اب ان کو دور کر لیا گیا ہے اور امریکہ کو اس بارے میں علم ہے۔ ان راہوں کو مسدود کر دیا گیا ہے جن سے دوست ممالک کو ایٹمی صلاحیت فروخت ہو سکتی تھی۔
اس کتاب میں کسی اور جگہ بھی ذکر آ چکا ہے کہ جہادی اسی صورت ایٹمی ہتھیار تک پہنچ سکتے ہیں اگر فوج ایسا چاہے ۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستانی فوج تقسیم نہیں ہوتی اور پاکستانی فوج کی تقسیم کا امکان اس صورت میں بڑھ سکتا ہے اگر امریکہ افغان جنگ کو فروغ دینے کے لئے پاکستان کے بعض حصوں پر قبضہ کر لے یا پشتون دیہاتوں پر ’’دہشت گردوں ‘‘ کو پناہ دینے کے الزام میں منظم بمباری جاری رکھنے پر بضد رہے۔ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان پر امریکی دبائو کو بھی پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے جوڑا جاتا ہے۔ پاکستانی اہل کاروں کو بتایا گیا کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے دبائو میں کمی آ سکتی ہے۔
اوائل مارچ 2008ء میں ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک سٹڈیز شیریں مزاری نے انکشاف کیا کہ واشنگٹن نے پاکستان کو گیارہ مطالبات پر مشتمل فہرست ارسال کی ہے۔ مطالبات یہ تھے کہ امریکی فوجی عملے اور امدادی عملے کو پاکستان آنے جانے کے لئے ویزے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے، پاکستان بھر میں اسلحہ رکھنے اور اپنی وردی پہننے کی اجازت دی جائے، جاپان کی طرح امریکی شہریوں پر پاکستان میں بھی صرف امریکی قانون لاگو ہو گا۔ امریکیوں کو ،جیسا کہ اس وقت عراق میں ہے، بلا اجازت سب کچھ برآمد درآمد کرنے کی اجازت ہو گی۔ مزید براں وہ اپنی گاڑیوں اور جہازوں کی آزادانہ نقل و حمل کے ساتھ ساتھ اگر کسی کی جان یا مال کو ان کے ہاتھوں نقصان پہنچ جائے تووہ اسکی تلافی کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔
یہ مطالبات مستردکر دئے گئے۔ مزاری نے اپنی رپورٹ مندرجہ ذیل مشورے پر ختم کی:
’’جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج اور امریکی فوج کے مابین خوش خلقی اور مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جبکہ مسائل صرف سیاسی سطح پر پائے جاتے ہیں، انہیں سنجیدگی سے اس بابت دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔منطقی انداز سے مقامی دہشت گردی کے مسئلے سے بھر پور اور معتبر انداز میں نپٹنے کے لئے پہلا کام یہ ہو گا کہ اپنے اور امریکہ کے درمیان تھوڑا فاصلہ رکھا جائے۔ امریکی کہاوت ہے کہ ’’کوئی چیز مفت میں نہیں ملتی‘‘۔1
دو ماہ بعدشیریں مزاری کو شرمناک انداز میں محکمہ خارجہ نے نوکری سے فارغ کر دیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ پندرہ منٹ کے اندر اندر دفتر خالی کر دیں۔ انہیں اس وقت اور بھی زیادہ غصہ آیا جب امریکہ کے لئے نامزد ہونے والے پاکستانی سفیر حسین حقانی پھولوں کاگلدستہ لیکر انہیں خدا حافظ کہنے اور انکی برطرفی کے غیر مناسب طریقہ کار پر معافی مانگنے پہنچ گئے۔مزاری نے بے لاگ جواب دیا:’’مجھے معلوم ہے میرے آزاد نظریات نے اس امریکی لابی کو پریشان کر دیا ہے جس کا پی پی پی پر غلبہ ہے۔ اسی وجہ سے مجھے بر طرف کیا گیا ہے۔‘‘
اگر تو یہ صوبہ سرحد پر جزوی امریکی قبضے ایسے کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ہے تو اس کے نتیجے میں فوج کے اندر کوئی بڑا بحران جنم لے سکتا ہے جو پہلے ہی پاک افغان سرحد پر سینٹ کام کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنائو کا شکار ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بھیانک نتائج نکلیںگے۔
جہاں تک تعلق ہے ایٹمی ہتھیاروں کا تو مغرب کا دوہرا معیار مدد گار ثابت نہیں ہو رہا بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں اسے حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس اسلحے کا فائدہ پاکستان کو ہے نہ بھارت کو جو ایک مقدس اثاثے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت نے 1999ء میں 9.9ارب ڈالر دفاع کے لئے مختص کئے جو گذشتہ سال کی نسبت چودہ فیصد زائد تھا۔ جواباََ پاکستان نے اپنے بجٹ میں 8.5فیصد اضافہ کیا اور اس کا دفاعی بجٹ 3.3 ارب ڈالر ہو گیا۔ جنوبی ایشیاء دنیا کا مسلح ترین خطہ بن چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجوں کا شمار دنیا کی دس بڑی فوجوں میں ہوتا ہے۔ اگر فوجیوں کا موازنہ ڈاکٹروں سے کیا جائے تو تناسب 6:1کا بنتا ہے۔ دفاعی اخراجات کی بہت بڑی سماجی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
یہ دونوں ملکوں کے زبردست مفاد میں ہو گا کہ اگر ایٹم بموں پر لگنے والے اربوں کھربوں روپے سکول، یونیورسٹیاں یا ہسپتال بنانے اور دیہاتوں کو صاف پانی فراہم کرنے پر صرف کئے جائیں۔ وائے افسوس کہ جب بھی یہ دونوں ملک جھگڑتے ہیں تو منطق اس جھگڑے کاپہلا شکار ہوتی ہے۔جب کارگل کے برف زاروں میں جنگ جاری تھی تو تین ماہ کے اندر دونوں ملکوں کی طرف سے تیرہ مختلف موقعوں پر ایٹم بم کی دھمکی دی گئی۔ اس کے بعد بھارت میں نئے سرے سے دہشت گرد حملے ہوئے۔پاکستان نے تردید کی کہ اس کا کوئی کردار ہے مگر بھارت قائل نہ ہو سکا۔
13دسمبر 2002ء کو بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے خودکار رائفلوں، گرینیڈوں اور دھماکہ خیز مواد سے لیس پانچ فدائی حملہ آوروں نے سکیورٹی فورس کے ساتھ جاری رہنے ولی لڑائی میں نو لوگوں کو ہلاک جبکہ درجنوں کو زخمی کر دیا اور خود مقابلے میں مارے گئے۔ خوش قسمتی سے اس روز پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا۔ اگر اس حملے میں سیاستدان ہلاک ہو جاتے تو دو نوں ملکوں کے درمیان جنگ تقریباََ یقینی تھی۔
بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے جو اس وقت حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما تھے، دو اسلام پرست گروہوں ۔۔۔۔جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ۔۔۔۔پر انگلی اٹھائی جنہیں آئی ایس آئی نے بنایا اور انکی سرپرستی کرتی ہے۔ایڈوانی کا کہنا تھا یہ واقعہ ’’ پاکستان کی پشت پناہی سے جاری دہشت گردی کی بیس سالہ تاریخ میں بدد ترین واقعہ تھا ۔۔۔۔دہشت گرد اور ان کے سر پرست ۔۔۔۔بھارت کی ساری سیاسی قیادت کو ہلاک کر دینا چاہتے تھے۔‘‘یہ جوابی فوجی کارروائی کا دعوت نامہ تھا اور اس کے نتیجے میں بھارتی اشرافیہ میں سنجیدگی سے یہ زبردست بحث چلی کہ کیا بھارت کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود تربیتی کیمپوں کے خلاف کوئی حملہ کرنا چاہئے یا نہیں۔ شکر ہے وہ اس فیصلے سے باز رہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کو نشانہ بنانے والے گروہ صرف بھارت پر ہی حملے نہیں کر رہے تھے۔ وہ یقیناََ دونوں ملکوں کے مابین تنازع کھڑا کرنا چاہتے تھے۔وہ گیارہ ستمبر کے بعد مشرف کی غداری اور امریکہ کا ساتھ دینے پر ان سے متنفر تھے۔ ’’ہندو‘‘ بھارت سے انکی نفرت کوئی نئی بات نہ تھی جبکہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت سے اس کو مزید ہوا ملی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ وہ جنگ شروع کروانے میں کامیاب ہونے ہی والے تھے۔ اعلیٰ بھارتی فوجی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی تلاش میں واشنگٹن ایک ملک پر بم برسا سکتا ہے اور اس کی حکومت تبدیل کر سکتا ہے تو بھارت ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟منطق تو لاجواب تھی مگر اس پر عمل ہوتا تو بہت بھیانک نتائج ، بہت بڑے پیمانے پر نکلتے۔ پاکستانی حکمرانوں نے ایٹمی دھمکی لگائی: اگر انکی ملکی سا لمیت کو خطرہ ہوا تو وہ ایٹم بم استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ماحول ایک بدمزہ سرد مہری کا شکار ہو گیا۔
واشنگٹن نے بھارت کو یقین دہانی کرائی اور ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد پر دبائو ڈالا کہ وہ پسپائی اختیار کرے۔ 12 جنوری2003 ء کو مشرف نے ایک اہم تقریر کی۔ مشرف نے بھارت کو عدم جنگ، جنوبی ایشیاء کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے، پاکستان میں جہادی کیمپ بند کرنے اور پاک امریکہ تعلقات کو بالکل نئی جہت دینے کی بات کی۔ملک کے سخت گیر بنیاد پرست اخبارات نے شدید تنقید کی مگر باقی ملک میں سکون طاری رہا۔ یہ ہے حقیقت کہ عام پاکستانی ’’اسلامی بم ‘‘ کے خبط میں مبتلا ہے۔ پاکستان کے جہادی گروہ اکثر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ایک ایسی ضمانت کے طور پر لیتے تھے جس کے باعث ان کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ مزید نہیں۔ لازمی تھا کہ بھارت مثبت جواب دے اور یوں ایک ایسا سیاسی ماحول جنم لیتا جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوتا۔ بھارت اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ بھارتی ترجمان پیش پا افتادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’کم از کم ایٹمی برداشت‘‘ پر مُصر رہے اور عدم جنگ کا معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا۔
جنوبی ایشیاء کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی پاکستانی پیشکش رد کر کے بھارتی حکمرانوں نے اپنے ان دعوؤں کا بھرم آشکار کر دیا جووہ ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کے بارے میں کرتے ہیں۔ 26 جنوری 2002 ء کو یومِ جمہوریہ کے موقع پر اگنی میزائل کا تجربہ کر کے حماقت کو چار چاند لگائے گئے۔ یہ نہ صرف اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ دہلی ایٹمی اسلحہ کی تخفیف میں کتنا مخلص ہے۔
پاکستان کے خلاف بھرپور اور مختصر جنگ کے وکیل زیادہ تر اہلِ ثروت، شہری متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ غریبو ں کی اکثریت لڑائی نہیں چاہتی۔ انہیں معلوم ہے کہ بیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کے اس ملک کے لئے اس لڑائی کے کیا نتائج نکلیں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ جنگیں مہنگی پڑتی ہیں اور ان کا بوجھ غریب پر پڑتا ہے۔تیس کر وڑ بھارتی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ہائو ہو کرتے متوسط طبقے میں بھی جنگ کی خواہش کم ہو جائے گی اگر انہیں جنگ لڑنے کے لئے فوج میں بھرتی ہو کر خود جنگ میں حصہ لینا پڑے۔بن لادن کے مریدوں کے بر عکس یہ خیالی پلائو پکانے والے بنیاد پرست ہیں۔
دریں اثناء پاک بھارت فوجیں اسوقت مکمل چوکنا ہیں اور بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی پاک بھارت سرحد پر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ موجودقابل کاشت کھیت تو بالخصوص بارودی سرنگوں سے اٹے پڑے ہیں۔ مقامی دیہات کے باسی ان بارودی سرنگوں کو آنے والے کئی سالوں تک بھگتیں گے۔
نئی دہلی خود کو ایک ممکنہ عالمی طاقت تصور کرتا ہے۔ اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں نشست کی تمنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ اور فرانس ایسے چھوٹے چھوٹے یورپی ملک ایٹمی صلاحیت کے مالک ہو سکتے ہیں تو بھارت کیوں نہیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہو گا کہ ایٹمی تخفیفِ اسلحہ میں توسیع کی جائے اور یورپ اس کام میں پہل کرے۔ لگتا نہیں مغرب ایسا کرے گا۔ امریکی دفاعی بجٹ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسلحے پر کل عالمی بجٹ کا پچاس فیصد امریکہ خرچ کرتاہے۔ وہ پرانا دشمن تو رہا نہیں مگر پرانے دفاعی نظام آج بھی موجود ہیں۔ امریکی فوجی منصوبہ ساز آج بھی روس اور چین کو نشانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ جنگ یوگوسلاویہ سے پہلے اور بعد جو ناٹو میں توسیع کی تازہ لہر چلی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس ایٹمی اسلحے میں تخفیف کا پہلے سے زیادہ مخالف بن گیا ہے۔ جب ناٹو بحرِ اسود کی نگرانی کرے گا تو ’’شراکت داری برائے امن‘‘ چہ معنی دارد؟
یہی مسئلے کی جڑ ہے۔جب تک مغرب ایٹمی اسلحے میں تخفیف نہیں کرتا، اس کے پاس کوئی اخلاقی یا مادی جواز نہیں کہ دوسروں سے اس کا مطالبہ کرے۔ منطق کی بازو مروڑ کر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ لندن اور پیرس کو تو حق ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت کے مالک بنے رہیں مگر دہلی اور اسلام آباد کو یہ حق حاصل نہیں۔ پاکستان اور بھارت کو معلوم ہے کہ ایٹمی بارش اور تابکاری سرحدوںکی قائل نہیں۔ یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان ہتھیاروں کے اوّل استعمال کی طرف جائیں گی مگر یہ کوئی ضمانت نہیں ہے ان دونوں ممالک کے شہریوں کے لئے۔
ایسے میں کہ جب پاکستان کی تمام تر توجہ بھارت پر مرکوز ہے ، اس کے واشنگٹن میں موجود سینئر پارٹنر چاہتے ہیں کہ وہ مغربی سرحد پر توجہ دے۔اس بارے میں پہلے بھی مختصراََ بات ہوئی ہے مگر افغانستان پر امریکی قبضے کے پاکستان پر اثرات کا تقاضا ہے کہ خطے میں جنم لینے والی نئی ہلچل کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔
…٭…