گو قدامت کے اعتبار سے دہلی کا پایہ بلند ہے، مگر شاہی میں لکھنؤ پر بھی ایک ایسا رنگ آیا ہے جس کا نظیر چشم فلک نے کم دیکھا ہے۔ دہلی کے نصیب جاگے کہ اُس میں پھر ایسا جشن ہمایوں ہوا۔ کبھی کسی تقریب پر لکھنؤ کو بھی یاد کیا جائے تو کیا عجب ہے، سردست اپنے خیال کو گذشتہ صدی کے اوائل کی طرف لے جائیے اور ایک عالی خاندان انگریزی خاتون کے چشم دید حالات اس کی ایک سہیلی کی زبانی سنیے۔ ہائے ہائے کیا کیا لوگ تھے اور کیا کیا صورتیں تھیں جو خاک میں مل گئیں! جہاں آج لکھنؤ کا سب سے خوبصورت پارک ہے، وہیں کسی زمانہ میں محلات شاہی تھے اور ان میں آئے دن وہ دھوم دھام اور جلوس نظر آتے تھے، جن میں سے ایک کا بیان درج کیا جاتا ہے۔ آج وہاں سبز سبز گھاس ، سرخ سرخ سڑکیں، چھوٹے چھوٹے خوشنما پودے اور کہیں کہیں لالہ و گل بہار دے رہے ہیں، مگر:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
اکتوبر 1828ء
میری ایک معزز دوست جو آج کل لکھنؤ میں مقیم ہیں، بادشاہ کے جشن تخت نشینی کی کیفیت اس طرح لکھتی ہیں : اٹھارہ اکتوبر کو بادشاہ کی تخت نشینی کی سالگرہ تھی اور میں بھی اس مبارک رسم میں شریک ہوئی تھی۔ اس تقریب کے اختتام کے بعد ہم سب بادشاہ کی والدہ کے محل میں گئے، جہاں تمام بیگمات اور شہزادیاں آج مدعو تھیں۔ کہاریاں ہمارا تام جھام اٹھا کر محل میں لے گئیں، دروازہ کے قریب اُردا بیگیوں اور مغلانیوں کی ایک چھوٹی سی پلٹن مردانہ لباس پہنے، ہاتھوں میں سونے اور چاندی کے عصا لیے ہماری تعظیم کے لیے صف بستہ کھڑی ہوئی تھی۔ بادشاہ بیگم صاحبہ (نصیر الدین حیدر کی والدہ) بہت سادہ پوشاک پہنے تھیں اور کسی قسم کا زیور بھی ان کے بدن پر نہ تھا۔ شاہ متوفی کی ایک اور بیگم جو بہت کم سن اور خوبصورت تھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، مگر اس کا لباس بھی بہت سادہ تھا؛ کیونکہ یہاں کے دستور کے مطابق بیوہ عورتیں مکلف پوشاک اور زیورات سے احتراز کرتی ہیں۔ بادشاہِ حال کی بیگمات نہایت قیمتی اور نفیس پوشاکیں زیب بدن کیے ہوئے تھیں اور بیش بہا جڑا ؤ زیورات سے لدی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک بیگم بالخصوص ایسی حسین تھیں کہ میں نے اپنی یاد میں ہندوستان یا انگلستان میں کہیں ان سے زیادہ خوبصورت عورت نہیں دیکھی۔ بادشاہ آج کل ان پر بہت فریفتہ ہیں اور ان کی شادی بھی حال ہی میں ہوئی ہے۔ ان کا سن قریب بارہ 12 برس کے ہوگا، ہاتھ پاؤں بہت چھوٹے چھوٹے اور نازک ہیں،اعضا کے تناسب کے علاوہ نقشہ ایسا سڈول ہے کہ میں نے اس سے زیادہ دلآویز اور دلکش چہرہ کبھی نہیں دیکھا اور ان کو دیکھ کر میرا خیال بار بار مور شاعر کی مشہور ہیرواِن “لالہ رخ” کی طرف جاتا تھا۔ ان کی حرکات اور طرز نشست سے غایت درجہ کی مسکینی، حیا پروری اور حجاب مترشح تھا۔ پوشاک سرخ کمخواب کی تھی اور بال بال میں موتی پروئے ہوئے تھے۔ زلفیں شانوں پر بکھری ہوئی تھیں اور پیشانی پر ایک چھوٹا سا جھومر آویزاں تھا جس میں بڑے بڑے موتی اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ کانوں میں بہت سی بالیاں تھیں جن میں بے شمار زمرد، لعل و موتی جڑے ہوئے تھے۔ گلے میں متعدد موتیوں کی مالاؤں کے علاوہ ہار اور کنٹھے تھے جو اُن کے حسن کو دوبالا کرتے تھے۔ نتھ میں دو بڑے بڑے موتی اور ان کے بیچ میں ایک بیش قیمت زمرد آویزاں تھا۔
پشواز اس قدر بھاری تھی کہ کئی پیش خدمتیں اسے سنبھالے ہوئے تھیں۔ جس کونچ پر یہ بیگم صاحبہ متمکن تھیں، اس کے گرد کئی خواصیں اس غرض سے استادہ تھیں کہ دوپٹہ کو درست کرتی رہیں، کیونکہ ذرا سی حرکت سے موتی کمخواب کے بھاری دوپٹہ میں الجھ جاتے تھے۔ اِن سے اور بیگمات بہت حسد کرتی ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ بادشاہ اور ان کی والدہ دونوں اِن پر ازبس مہربان ہیں۔ بادشاہ نے انھیں “نواب تاج محل بیگم” کا خطاب عنایت کیا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ خود نور جہاں بھی اس سے زیادہ حسین اور جمیل نہ ہوگی۔
ایک اور نئی بیاہی ہوئی بیگم بھی ان کے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ ایک انگریزی سودا گر کی بیٹی ہے، اس کی شکل صورت بہت معمولی ہے مگر یہاں کی مستورات اسے بہت خوبصورت تصور کرتی ہیں۔ اس کی پوشاک تاج محل کی پوشاک سے بھی زیادہ پر تکلف تھی اور اس کی پیشانی پر بھی ایک بہت بیش قیمت مرصّع جھومر الماس کا تھا۔ اس زیور کی شکل ہلال سے بہت مشابہت رکھتی ہے( )۔ یہ بیگم خاص تعلیم یافتہ ہے، یعنی اپنی مادری زبان انگریزی کے علاوہ اردو فارسی بھی اچھی طرح لکھ پڑھ لیتی ہے؛ لیکن جب ہم نے اس سے انگریزی میں ہم کلام ہونا چاہا تو اس نے جواب دیا کہ میں اب انگریزی بھول گئی ہوں۔ سنا جاتا ہے کہ بادشاہ اس سے انگریزی پڑھتے ہیں۔ تاج محل سے شادی ہونے سے پیشتر بادشاہ اسے نہیں چاہتے تھے۔ باوجودیکہ یہ دونوں بیگمیں برابر ایک ہی کونچ پر بیٹھی ہوئی تھیں، جوشِ رقابت ان دونوں میں اس درجہ بڑھا ہوا ہے کہ مطلقاً آپس میں بول چال نہیں ہوئی۔ نواب ملکہ زمانی بیگم جو صاحب اولاد ہونے کی وجہ سے بہت اقتدار رکھتی ہیں، اس صحبت میں شریک نہ تھیں۔ ہم خود ان کے محل میں ملاقات کے لیے گئے۔ خاندان مغلیہ کی شاہزادی جس سے کہ شاہ متوفی نے بادشاہ حال کی بچپن میں شادی کی تھی، اپنے محل میں نظر بند ہے۔ بادشاہ ان سے بہت کشیدہ خاطر بھی سنا جاتا ہے کہ ان کے حسن و جمال کو ان میں سے کوئی بیگم نہیں پہنچتی۔
نواب وزیر اودھ کے بادشاہ ہونے کی اصلی کیفیت یہ ہے کہ نواب سعادت علی خاں کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مرزا غازی الدین حیدر نے اپنے نائب آغا میر کے صلاح و مشورہ سے شاہ دہلی کی اطاعت سے انحراف کیا اور سرکار انگلشیہ کی اجازت لے کر اپنی قلمرو میں سونے اور چاندی کا سکہ اپنے نام سے جاری کیا۔ غازی الدین حیدر کے دراصل کوئی لڑکا نہ تھا، صرف ایک بیٹی تھی جو اپنے چچا زاد بھائی سے منسوب ہوئی۔ اُس کے لڑکے کا نام محسن الدولہ ہے اور وہی دراصل اصلی وارث تاج و تخت ہے۔ بادشاہ نے بجائے اس کے کہ اپنے نواسے کو اپنا جانشین مقرر کرتے، یہ ظاہر کیا کہ نصیرالدین حیدر جو ایک حرم کا لڑکا تھا ان کا اصلی لڑکا ہے۔ یہ شخص آج کل بادشاہ ہے، انگریزی حکام اس کے حسب و نسب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ شاہ حال کی وفات پر جانشینی کا ضرور تنازع ہوگا، کیونکہ بجائے اصلی وارث فریدوں بخت مناجان کے ایک لڑکے کو جسے کیوان جاہ کا خطاب دیا ہے وارث مقرر کرنا چاہتا ہے۔ نواب منتظم الدولہ حکیم مہدی علی خاں آج کل وزیر اعظم ہیں۔ حاضری کے وقت بھی ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ حاضری کے بعد بادشاہ کا پیچوان نواب کے سامنے لایاگیا، یہ بڑی بھاری عزت تصور کی جاتی ہے کیونکہ رعایا میں سے کوئی شخص بادشاہ کے سامنے حقہ نہیں پی سکتا۔ حاضری کے بعد بادشاہ دوسرے کمرے میں گئے، یہاں پر رزیڈنٹ نےحسب دستور بادشاہ کی دستار اتار کر تاج شاہی ان کے سر پر رکھا اور بادشاہ تخت پر جلوس فرما ہوئے۔
آج تاریخ جلوس کی سالگرہ ہے۔ کیوان جاہ بڑا لڑکا جس کی عمر چودہ برس کی ہے، ایک بد شکل نیچ قوم کا لڑکا معلوم ہوتا ہے، اس کے حرکات و سکنات سے بھی کم اصل ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے بادشاہ کو نذر دی اور چار پانچ خلعت، رقوم، جواہر، مرصع تلوار، ڈھال اور خچر، ہاتھی، پالکی وغیرہ اسے عنایت ہوئے۔ اس کے بعد فریدوں بخت جو ایک شکیل تیز طبع ہونہار لڑکا معلوم ہوتا ہے نذر لے کر گیا، اس کو بھی اسی طرح کا سامان خلعت میں مرحمت ہوا۔ اب نواب حکیم مہدی پیش ہوئے، دستار مع سر پنچ مرصع شال وخلعت عطا ہوا، انھوں نے نہایت ادب سے جھک کر تسلیمات عرض کی۔ جب محسن الدولہ وارث حقیقی نذر دینے کے لیے آگے بڑھے تو بادشاہ کا چہرہ مکدر معلوم ہوتا تھا اور اس کے چہرہ پر افسوس اور رنج کی علامت نمایاں تھی۔ محسن الدولہ بہت وجیہ خوبصورت جوان ہے اور نہایت ذکی اور تیز فہم ہے۔ مجھے یہ امر بہت ناگوار معلوم ہوا کہ اصلی وارث ایک نامنصفانہ رواج کی پابندی کے سبب سے غیرمستحق شخص کو نذر دے اور اپنا بادشاہ تسلیم کرے۔ اور اس رسم کے اختتام کے وقت جواہرات کی بوچھاڑ ہوئی، رزیڈنٹ کی اور میری آستین پر چند جواہر آپڑے تھے، میں نے رزیڈنٹ کو آستین جھٹکتے ہوئے دیکھ کر اس کی تقلید کی اور جواہرات زمین پر پھینک دیے؛ شاہی خواصوں نے سب جواہرات سمیٹ کر باہم تقسیم کرلیے۔ اس بوچھاڑ میں زمرد، پکھراج، نیلم اور ہیرے تھے۔ کیسی قیمتی اور تعجب خیز بخشش ہے۔