حقانی القاسمی
تخلیق کی داخلی ساخت سے جو پورٹریٹ پریم چند کاشکیل الرحمن نے بنایا ہے، وہ اس سے قطعی مختلف ہے جو اکثر ’تنقیدی کتبوں ‘ میں آویزاں نظر آتا ہے۔
شکیل الرحمن کے بنائے ہوئے پورٹریٹ میں پریم چند اپنے شخصی نشانات.... . قوسین، علامات،اقتباس، وقف خفیف کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس میں محشر خیال، اور شہر آرزو، دونوں کے رنگ شامل ہیں۔
صورت اور معنی کے تلازماتی اشتراک سے پریم چند کی یہ تصویر بہت خوب صورت بن گئی ہے اور ’کاغذ ی پیرہن‘ میں نقش فریادی کی جستجو نے اسے ایک اور زاویہ عطا کر دیا ہے۔
پریم چند کی یوں تو یک رخی تصویریں بہت ساری ہیں، مگر وہ تصویر جس میں پریم چند اپنی شخصیت کی سطحوں، داخلی تصادم، جذباتی، نفسیاتی کیفیات کے ساتھ نظر آئیں، ’تنقید‘‘ میں گم ہو کر رہ گئی تھی۔
شکیل الرحمن نے اس پریم چند کو تلاش کیا ہے جس کی زندگی صحیفہ اخلاق نہیں ہے اور نہ ہی جس کی شخصیت ایک سیدھی لکیر ہے :
’’شخصیت سیدھی لکیر نہیں ہوتی، یہ لکیر ٹیڑھی ہوتی ہے اور لکیر کے اندر کئی سطحیں اٹھتی محسوس ہوتی ہیں .... .‘‘
شکیل الرحمن نے پریم چند کی زندگی میں ٹیلوں، پہاڑوں، گہری کھائیوں اور غاروں کا پتہ لگایا ہے، اس طرح ایک نیا پریم چند سامنے آیا جو نقادوں کے ’مثالی پیکر‘ سے مختلف ہے اور جو تشنگی، تلخ تجربے سے گزرا ہے۔ جو ایک موبی ڈک ہے اور یہی پریم چند شکیل الرحمن کو پسند ہیں :
’’جو اپنی خوبیوں اور کمزوریوں اور اپنی نفسیاتی کیفیتوں اور نفسیاتی عوامل سے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘
شکیل الرحمن نے پریم چند میں وہ کچھ دیکھا اور محسوس کیا جو دوسروں کو دور دور تک نظر نہیں آیا کہ یہ بھی دراصل Retina کے Cells پر منحصر ہے۔ مونالیزا کی مسکراہٹ محسوس کر نے کے لیے بھی خصوصی خلیے کی ضرورت ہوتی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی سائیکی اور شعور سے ایک مضبوط رشتہ قائم کیا، ان کے جذبہ و ذہن کی ساری سطحوں کو مس کیا تبھی پریم چند ان پہ منکشف ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ انکشافی منزل ان لوگوں کو نہیں مل سکتی جو خود اپنے وجود سے رشتہ قائم کر پانے میں ناکام رہتے ہیں۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے ذہن کی روحانیت تک رسائی حاصل کی ہے۔ ذہن کی وہ آتما جس سے پریم چند کے فن کی تخلیق و تشکیل ہوئی، اسے اپنی گرفت میں لینا آسان نہیں ہے۔ پریم چند کی تخلیق کے Epicentre تک ہر کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی کہ ذہنی خلیے کا انجماد تجسس کی را ہوں کو مسدود کر دیتا ہے اور پریم چند کے باب میں یہ بھی عجب المیہ ہوا کہ ایک سیدھے سادے ہندوستانی اسکول ماسٹر کی تخلیق کے اسرار و رموز، عصر جدید کے جید پروفیسر ان بھی سمجھنے سے قاصر رہے تو پھر معمولی درجے کے پروفیسران کی بساط ہی کیا ہے۔ اسی لیے وہ منشی پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت، تاریخ اور تہذیب ہی تلاش کرتے رہ گئے۔ خارجی عوامل پر نگاہ کو اس قدر مرکوز کر دیا کہ داخلی کشمکش اور تصادم کو فراموش کر بیٹھے اور اس طرح ایک بڑا فنکار چھوٹے فریم میں قید ہوتا گیا۔ شکیل الرحمن کی یہ شکایتیں بجا ہیں کہ:
’’منشی پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت ملتی ہے اور اس ملک کا گاؤں ملتا ہے، اردو تنقید کے لیے یہ کافی ہے۔‘‘
.... .... .... .... ....
’’صرف مقصدیت، مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد، طبقاتی زندگی کے نقوش، عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریکوں اور گاندھی ارون سمجھوتہ کی اہمیت کو سمجھانا یقیناً ادبی تنقید کا کام نہیں ہے۔‘‘
’’معاشرت اور گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز اور تاریخی اور معاشرتی قدروں پر بحث ہونے لگتی ہے۔ طبقاتی مفاد، عدم تعاون، ارون گاندھی سمجھوتہ، آزادی کی تحریک اور دوسری باتوں کا ذکر کر کے عموما ان کے ناولوں کو اونچا اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نقاد عموماً یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ یہ خارجی حقائق ہیں اور فن میں خارجی سچائیوں اور حقیقتوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔‘‘
.... .... .... .... ....
’’ایسی تحقیق و تنقید سے قاری سخت قسم کے فشاردم یا ہائی پرٹینشن ( Hypertension) کا شکار ہو جائے تو کوئی تعجب نہیں! اردو تنقید میں ایسی مصنوعی تخم ریزی کے نتائج اچھے نہیں نکلے ہیں۔‘‘
شاید اسی تعجب،تخم ریزی اور تنقیدی نارسائیوں کی وجہ سے شکیل الرحمن کو ’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس تعیین قدر کی بھی جس سے پریم چند کی تخلیقی تقدیر ہنوز محروم تھی۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے ذہنی ارتعاش، تخلیق کی داخلی سطحوں کو مس کرتے ہوئے صرف موضوع کے مد و جزر یا فن کی فنتاسی کو مرکز و محور نہیں بنایا بلکہ متن کے محیط اور لفظ کے لعل و گہر کو بھی تلاش کیا۔ لفظ کی حرکیات و حیاتیات سے اپنے تجزیہ کا رشتہ جوڑ کر ایک نئے پریم چند کی جستجو کی اور اپنے تجزیاتی نتائج کو یوں واضح کیا:
پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار نہیں۔
فن مقدم ہے، موضوع نہیں۔
اصلاحی نظریہ حاوی ہو جاتا ہے، فنکاری دب جاتی ہے۔
موضوعات اور خارجی حقیقتوں کا بیان آرٹ نہیں بن سکتا۔
خارجی حقائق اصل نہیں ہیں، خارجی سچائیاں بدلتی رہتی ہیں۔
اصلاحی مقصد سے ناول بڑا نہیں ہو جاتا۔
کسی ناول کی اہمیت محض اس بات سے نہیں بڑھ جاتی کہ اس میں عہد اور وقت کی حقیقت مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتی ہے۔
پریم چند کے ناول میں کرداروں کی تشکیل میں کمی ہے۔
کرداروں کا فطری ارتقا نہیں ہوا۔
مکالموں میں تصنع ہے۔
پریم چند کے ہاں فنی نقائص موجود ہیں۔
پریم چند جب بھی ماہر اخلاقیات بنے ہیں، فکشن میں ان کا المیہ سامنے آیا ہے۔
سپاٹ حقیقت پسندی سے جذباتی حقیقت پسندی زیادہ اہم ہے۔
المیہ کے داخلی حسن کی تلاش ضروری ہے۔
***
یہ شکیل الرحمن کی تنقید کے واضح خطوط اور نکات ہیں اور انہی نکات کی روشنی میں انہوں نے پریم چند کے پورے تخلیقی نظام کا اکسراتی مطالعہ کیا ہے اور اپنے مطالعات کی اساس نفسیات اور دیگر نئے سائنسی علوم پر رکھی ہے۔ پریم چند کی تخلیقی تو انائیوں اور تحرکات کے سارے سلسلوں کے لمس سے انہوں نے اپنی تنقید کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے اور اس طرح نقد شکیل سے پریم چند کی متحرک، متنوع افسانوی کائنات روشن ہوئی ہے اور پریم چند کی تمام تخلیقی لہریں، شکیل الرحمن کی تنقیدی فکر کا حصہ بن گئی ہیں اور یہی لہریں پریم چند کے احساس و اظہار کے داخلی حسن کو نمایاں کرتی ہیں۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے تخلیقی انعکاسات کو آئینہ نقد میں دیکھا ہے اور من و عن تعبیر کا فریضہ ادا کیا ہے۔ آئینہ سے الگ نہ کوئی تصویر، نہ کوئی تفہیم، نہ تعبیر پیش کی ہے۔ فنی یا جمالیاتی جہتیں جس طرح روشن ہوئیں، اسے اسی طرح اپنی تنقید کے عکس بیں میں اتار دیا۔
’فکشن کے فنکار ‘ میں پریم چند کی جو تخلیقی صورتیں نمایاں ہوئی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ:
پریم چند کے افسانوں میں جذباتی، تخیلاتی فضا ہے جب کہ ناول اس فضا سے محروم ہیں۔
فنی اور تعمیری نقائص پریم چند کے ناولوں میں موجود ہیں۔
طوالت اور غیر منطقی اور غیر نفسیاتی ارتقا سے ان کے بعض ناول اچھے بننے سے محروم رہ گئے۔
پریم چند نے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تیسرے آدمی اور تیسری شخصیت کو دیکھا ہے اور اس کے کردار کی مختلف جہتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
پریم چند کے رومانی ذہن نے جو صنم کدہ خلق کیا ہے، اس میں عورت کے مختلف متحرک پیکر ملتے ہیں۔ افسانوں میں نرگسی عورتیں بھی ہیں اور شاداب محبت سے سرشار لڑکیاں بھی۔ شادی شدہ عورتوں کی بت پرستی بھی ملتی ہے اور بیوہ عورتوں کی ویران زندگی بھی، طوائفیں بھی ہیں اور نفسیاتی کشمکش میں گرفتار لڑکیاں بھی۔
پریم چند بچوں کے ذہن اور ان کی نفسیات کے بھی ایک بڑے فنکار ہیں۔
اردو افسانوں کے المیات پر تیز اور گہری روشنائی سے دستخط کر کے پریم چند نے اردو فکشن میں پہلی بار المیہ کے حسن کا شعور بخشا ہے۔
پریم چند کے بہترین افسانے وہی ہیں کہ جن کا انجام مختصر اور جہت دار ہے
تکنیک کا حسن و جمال مرکزی خیال اور واقعات اور پیشکش میں ہے
پریم چند کا اسلوب عجمی اور ہندی روایات کے خوب صورت امتزاج کو پیش کرتا ہے۔
ان کا اسلوب جذباتی مطابقت اور جماوٹ Consistency کا احساس دیتا ہے۔
پریم چند کا اسلوب ان کے مزاج اور افتاد طبع کا سانچہ ہے جو تجزیہ اور تاثر کا عمدہ امتزاج پیدا کرتا ہے۔
عبارتوں میں صفائی اور نفاست بھی ہے، بہاؤ اور تیزی بھی ہے، صوتی دلآویزی اور سحر طرازی بھی متاثر کرتی ہے۔
افسانوں کے مکالمے فطری اور نفسیاتی ہیں۔ مکالموں سے فضا کی تشکیل ہوتی ہے اور کرداروں کے تحرک کا احساس ملتا ہے۔
مکالموں میں ہر جگہ بے ساختگی ہے، فطری رنگ و آہنگ متاثر کرتے ہیں۔ طبقاتی لب و لہجے پر کڑی نظر ہے۔
پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کرداروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے۔
فنی اعتبار سے پریم چند کے مختصر افسانے بنگلہ اور مغربی افسانوں کے فارم سے قریب ہیں۔
***
یہ ہے کہ فکشن کے فنکار پریم چند کا ماحصل.... . اور شکیل الرحمن کے تنقیدی تجسس، دید و دریافت کا ایک نیا منطقہ۔
یہ پریم چند کی نئی قرأت اور نئی تفہیم ہے۔ ان جملوں میں پریم چند کی تخلیقیت کی جملہ جہتیں وابعاد روشن ہیں۔ پریم چند کے متن کی مخفیات تک رسائی نے شکیل الرحمن کی پریم چند تنقید کو انفراد واعتبار عطا کیا ہے۔ ان کا پورا تنقیدی عمل تلاش اور تجسس سے عبارت ہے یہی وجہ ہے کہ مکمل پریم چند کو دریافت کر نے میں وہ کامیاب رہے ورنہ اکثر تنقیدوں میں پریم چند ٹکروں، میں یا خانوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’فکشن کے فنکار پریم چند‘ میں ناول نگاری، افسانے کا فن، تیسرا آدمی، عورت، بچے کا ذہن، کھلاڑی پن، المیہ کردار ، تکنیک، اسلوب، شخصیت جیسے عنوانات کے ساتھ شکیل الرحمن نے تجزیاتی محاکمہ پیش کیا ہے۔
***
ناول نگاری کے باب میں شکیل الرحمن کے خیالات چونکانے والے ہیں۔ انہوں نے اپنیاس سمراٹ، پریم چند کے بارے میں یہ لکھ کر کہ وہ بڑے ناول نگار نہیں ہیں، اس پورے تنقیدی فریم ورک کو منہدم و مسمار کر دیا ہے جس میں پریم چند ایک بڑے ناول نگار کے طور پر پروجیکٹ کئے گئے تھے۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے ناولوں (ہم خرماں و ہم ثواب، جلوہ ایثار، بازار حسن، نرملا، پردۂ مجاز، گوشہ عافیت، غبن، میدان عمل، چو گان ہستی، گؤدان) کا فنی اور تکنیکی تجزیہ کرتے ہوئے معاصر نقادوں کے برعکس نتائج کا استخراج کیا ہے اور چند ایک ناولوں کو چھوڑ کر بیشتر کو فنی اعتبار سے کمزور قرار دیا ہے۔ میدان عمل، جلوہ ایثار، بازار حسن، ان کی نظر میں کمزور ہیں اور اس کی منطقی وجوہات بھی ہیں۔
بازار حسن، تو اس لیے کمزور ہے کہ:
’’غیر ضروری باتوں کی تفصیل سے ناول کا حسن بہت حد تک زائل ہو گیا ہے۔ آخری حصے میں چونکہ اصلاحی نظریہ حاوی ہے اس لیے اسلوب بھی جذباتی ہو گیا ہے اور اکثر مقامات پر پریم چند جیسے بڑے فنکار کا اسلوب نہیں ملتا۔ اسلوب سطحی ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘
اور ’’میدان عمل‘‘ میں :
’’کردار نگاری بھی کمزور ہے اور پلاٹ بھی اپنے غیر فطری پھیلاؤ سے الجھن پیدا کرتا ہے۔ داستانی رنگ آمیزی اور کرداروں کی فطرت میں اچانک غیر معمولی تبدیلی سے تاثر کم ہو گیا ہے۔ وحدت اثر موجود نہیں ہے۔ قصے کا ارتقا میکانکی طور پر ہوتا ہے۔ طویل غیر فطری مکالمے بھی کبھی کبھی حد درجہ بوجھل بن جاتے ہیں، مقصد فن پر غالب ہے۔‘‘
علی ہذا القیاس، وہ تمام ناول جن میں یہ فنی نقائص ہیں وہ شکیل الرحمن کے خیال میں کمزور ہیں۔ نرملا ایک اچھا ناول ہے کہ اس میں تخلیقی شعور کا عمل ملتا ہے۔ کرداروں اور خصوصاً طوطا رام اور نرملا کے ذہنی تصادم اور کشمکش سے المیہ پیدا ہوتا ہے جو متاثر کرتا ہے، آئیڈیل ازم یا مثالیت پسندی اور حقیقت نگاری کی آمیزش متاثر کرتی ہے۔ کرداروں کا ارتقا ہوتا ہے۔ چو گان ہستی اور گؤدان اچھے ناول ہیں کہ اول الذکر میں تخلیقی فکر اور فنی اقدار کا تصادم متاثر کرتا ہے۔ اور ثانی الذکر میں خارجی اور داخلی تصادم ہے۔ اور بقول شکیل الرحمن: ’’گؤدان کے ذریعہ اردو فکشن میں جو کتھارسس ہوئی ہے اس کی حیثیت مسلم ہے۔‘‘
پریم چند کے ناولوں کے محاسن و معائب بیان کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے ان نقادوں کو ہدف تنقید بنایا ہے جنہوں نے صرف پس منظر پہ اپنی نظر کو مرکوز رکھا اور حقیقت نگاری کے میکانکی تصور میں ہی الجھ کر رہ گئے۔ کرداروں کی جبلی اور نفسیاتی سچائی کو نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے ایک بہت ہی معنی خیز سوال اٹھایا ہے کہ ’’کسی ادبی کارنامے میں میونسپلٹی کی سیاست زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا مرکزی کردار کی خود پسند طبیعت۔‘‘
***
شکیل الرحمن کی متجسس طبیعت نے پریم چند کے افسانوی کینوس میں ایک نئی کائنات اور کیفیت بھی تلاش کر لی ہے اور وہ ہے تیسری شخصیت،یہ وہ جہت ہے جس کی پریم چند تنقید میں وضاحت تو دور، اشارت بھی نہیں ملتی۔ شکیل الرحمن نے نہ صرف یہ کہ اس تیسری شخصیت کی معنویت اور اہمیت کو اجاگر کیا ہے بلکہ اس سے جڑی ہوئی ایک ایسی سچائی کا انکشاف کیا ہے جس کی طرف عموماً ناقدین کی توجہ ہی نہیں گئی اور وہ بڑی سچائی یہ ہے کہ ’’فکشن کا اصل ہیرو عموماً یہی ہوتا ہے۔‘‘ یہ بیان ہیرو کے روایتی تصور پر ایک ضرب کاری ہے۔ فکشن کے اصل ہیرو کی تلاش کے اس عمل نے شکیل الرحمن کی فکشن تنقید کو ایک نیا تحرک اور زاویہ بخشا ہے۔ فکشن کے ہیرو کی نقلیب سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ افسانے کی تفہیم و تعبیر میں بھی تقلیبی عمل کی ضرورت ہے۔ فکشن کا ہیرو وہی نہیں ہے جو ہمارے روایتی سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے بلکہ وہ بھی ہے جو بادی النظر میں اینٹی ہیرو نظر آتا ہے۔ شکیل الرحمن کے خیال میں کہانی کی کشمکش اور کشش دونوں کا انحصار اس تیسری شخصیت پر ہے۔ یہ کہانی کا سب سے مضبوط، متحرک اور موثر فاعلی عنصر ہے۔ کیونکہ یہی ’’جذبات کے اظہار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کرداروں کے عمل اور رد عمل کو متاثر کرتا ہے اور واقعات و پلاٹ میں تیزی، نوکیلا پن اور تیکھا پن پیدا کرتا ہے۔‘‘
قصہ آدم کی رنگینی اسی کے دم سے ہے یہ نہ ہو تو ’’سماجی زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔‘‘
شکیل الرحمن نے پریم چند کی کہانیوں میں اس تیسرے آدمی کو تلاش کیا ہے اور اس کے عمل ورد عمل کی روشنی میں نفسیات، جذبات اور حسیاتی کیفیات کا مطالعہ کیا ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے مختلف افسانوں میں تیسرے آدمی، کو اس کے مکمل نفسیاتی، جذباتی کوائف کے ساتھ تلاش کیا ہے۔ گھاس والی، میں چین سنگھ، دو سکھیاں، میں بھون داس گپتا، نئی بیوی میں سترہ سالہ لڑکا جگل، مالکن میں جوکھو، ستی، میں راجہ، نگاہ ناز میں روپ چند ہے جو کہ گوپال کی بیوی کامنی سے محبت کرتا ہے اور آزاد خیال کا منی بھی اس پر فریفتہ ہے اور اس طرح دیگر کہانیوں (سہاگ کا جنازہ، انتقام، وفا کی دیوی، لعنت، حسرت، ترشول) میں تیسری شخصیت موجود ہے۔ شکیل الرحمن نے تیسرا آدمی کو کہانی میں ایک مرکزی حیثیت دی ہے کیونکہ اسی سے کہانی آگے بھی بڑھتی ہے۔ اور اسی سے کہانی میں تناؤ اور تاثر پیدا ہوتا ہے۔ بہت تفصیل کے ساتھ تیسری شخصیت پر مختلف افسانوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور اس کردار کی نفسیاتی نقاب کشائی بھی ہوئی ہے۔ ایسا ہی ایک افسانہ ہے نئی بیوی.... . یہ افسانہ دور جدید سے بھی ہم آہنگ ہے۔ پریم چند نے بہت پہلے جس نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ کیا تھا، آج وہی کیفیت مشرق و مغرب دونوں معاشرت میں موجود ہے۔ نئی بیوی، میں تیسرا آدمی، ایک سترہ سالہ لڑکا جگل ہے جو ۵۴ سالہ لالہ ڈنگامل اور ان کی نئی بیوی آشا کے درمیان آ جاتا ہے۔ آشا اپنے شوہر میں ذرا بھی کشش محسوس نہیں کرتی بلکہ جگل سے دلچسپی لیتی ہے۔ وہ آشا جو اپنے شوہر کے کہنے کے باوجود سنگار نہیں کرتی، معمولی کپڑوں میں رہتی ہے مگر جگل کے آتے ہی آشا میں تبدیلی آتی ہے، اس کی خواہش پر خوب صورت ساڑیاں پہنتی ہے اور موتیوں والاہار بھی، خود کو زیورات سے آراستہ کرتی ہے۔ لالہ جی سمجھتے ہیں کہ ان کی باتوں کا اب اثر ہو رہا ہے۔ جب جگل یہ کہتا ہے کہ’’آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں۔ تو آشا کے سارے جسم میں رعشہ سا آ جاتا ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ بوڑھے مہاراج کے آنے کے بعد جگل چلا جائے۔ آشا اور جگل دونوں دن بھر باورچی خانے میں بیٹھے اشاروں اور کنایوں میں باتیں کرتے ہیں اور جذباتی رشتہ قائم ہونے لگتا ہے ایک روز بوڑھے شوہر کا مسئلہ سامنے ہے دونوں اپنی باتیں اشاروں میں کر رہے ہیں کہ لالہ جی آ جاتے ہیں۔ آشا یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ لالہ کھانے کھا کر چلے جائیں گئے، تم ذرا آنا۔‘‘
آج کی جدید اصطلاح میں آشا ایک Cougarہے۔ امریکہ، برطانیہ میں عورتوں کی رومانی، جنسی ترجیحات کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ Cougar کی تعدا د بڑھ رہی ہے۔ پریم چند کی یہ پرانی کہانی، نئی بیوی، اپنی کیفیت کے اعتبار سے بالکل نئی لگتی ہے اور یہ بقول شکیل الرحمن :’’جنس یا سیکس کے موضوع پر پریم چند کی نمائندہ کہانی ہے۔‘‘
شکیل الرحمن نے اس طرح اور بہت سے ایسے کرداروں کی نقاب کشائی کی ہے جو کہانی میں تیسرا آدمی، کی حیثیت سے موجود ہیں اور یہ تیسرا آدمی:
’’خواجہ اہل فراق بھی ہے اور خضر راہ بھی، رقیب بھی ہے اور دوست بھی.... .‘‘
شکیل الرحمن نے اس باب میں المیہ اور طربیہ کرداروں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور المیہ کو طربیہ، طربیہ کو المیہ میں تبدیل ہوتے ہوئے بھی دکھایا ہے۔
***
شکیل الرحمن نے پریم چند کے نگارخانہ کی عورتوں کی نفسی کیفیات، جذبات و ہیجانات کے حوالے سے بھی تفصیلی بحث کی ہے۔ پریم چند نے مختلف وضع قطع، کردار و نفسیات کی عورتوں سے اپنی افسانوی کائنات کو جو تنوع عطا کیا ہے، اس کی تصویر شکیل الرحمن کی تنقید میں نظر آتی ہے۔ پریم چند کی کہانیوں میں بیوہ، بانجھ عورتیں بھی ہیں جن کی اپنی آرزوئیں اور خواہشات ہیں، جہاں داروغہ کی سرگزشت، کی لیلی عاشقوں کی دنیا آباد کرتی ہے، وہیں حسن و شباب کی شردھا اپنے شوہر کی لاش کو بوسہ دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی کہانیوں میں نرگسی نسائی کردار بھی تلاش کیے ہیں، روپ کماری ایسا ہی ایک نرگسی کردار ہے۔ بازیافت، کی عورت بھی نرگسی ہے اور اس کی نرگسیت کی پرواز اتنی بلند ہے کہ وہ یہ کہنے لگتی ہے ’’میں اب کسی دوسرے کے لیے نہ جیتی تھی اپنے لیے جیتی تھی۔‘‘ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’میں، کی ایسی آواز اردو فکشن میں پہلی بار سنائی دیتی ہے۔‘‘
زاد راہ، کی مس پدما بھی ایک نرگسی کردا رہے، فرائیڈ جس کا معبود ہے ’’جس کی جنسی جبلت کا تحرک اور اس تحرک کی حرارت توجہ طلب ہے۔‘‘ سہاگ کا جنازہ اور دیوی کی ارمیلا، آشا نرگسی عورتیں ہیں اس طرح کے اور کردار بھی پریم چند نے خلق کیے ہیں اور اس باب میں پریم چند کا کمال ہنر بقول شکیل الرحمن یہ ہے کہ ’’عورتوں کے جلال و جمال کو طرح طرح سے پیش کیا ہے۔ مختلف عورتوں کے چہروں اور جسمانی اوصاف کے ذریعہ کرداروں کی ذہنی کیفیات و عوامل کو نمایاں کیا ہے۔‘‘ اور ایک بہت پتے کی بات شکیل الرحمن نے یہ بھی لکھی ہے کہ ’’آوازوں کے آہنگ کے تئیں بھی پریم چند بیدار نظر آتے ہیں۔‘‘ یہ بڑا اہم اور نفسیاتی نکتہ ہے جس کی طرف صرف اور صرف شکیل الرحمن نے ہی اشارہ کیا ہے۔
ان کہانیوں میں پریم چند ایک مکمل فیمنسٹ نظر آتے ہیں۔ ان میں عورتوں کی Dilemma کی تصویر بھی ہے اور ان کی انفرادیت سے آگہی بھی اور عورتوں کا Facelessness بھی۔ پریم چند کی عورتیں صرف رومانٹک کرانیکل کے پیرامیٹرز میں محصور نہیں ہیں بلکہ ایسی عورتیں بھی ہیں جو احتجاج کرتی ہیں۔
شکیل الرحمن کا یہ بیان فیمنزم اور فیمنٹی کے تئیں پریم چند کے تصور کو واضح کرتا ہے۔
’’پریم چند عورتوں کے جسمانی، اخلاقی، اور نفسیاتی وجود کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ گوشت پوست کی عورتیں اپنے حسن، اپنی بدصورتی اور اپنے کردار کی خوبیوں اور خامیوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ حساس بھی ہیں،احتجاج بھی کر سکتی ہیں۔ شوہر سے محبت اور نفرت بھی کر سکتی ہیں۔ اپنے حسن کی تعریف سن کر متوالی ہو سکتی ہیں۔ اپنی جسمانی خصوصیات پر آئینے کے سامنے بیٹھ کر گھنٹوں غور کر سکتی ہیں۔‘‘
شکیل الرحمن نے اس باب میں پریم چند کے ذہن کی رومانی،جمالیاتی جذباتی جہتیں روشن کی ہیں اور ایک ایسے پریم چند کو پیش کیا ہے جو عورتوں کے باطنی جذبات، احساسات، کشمکش اور تصادم سے پوری طرح آگاہ ہے اور الوہی تضادات Contradictions) (Divine کے مجسم معجزہ یعنی عورت کو مکمل طور پر سمجھنے کی قوت رکھتا ہے۔
m
شکیل الرحمن نے پریم چند کی کہانیوں کی روشنی میں بچوں کی نفسیات، حالات کا نفسیاتی رد عمل، اس کے اثرات اور حسی تصورات کے حوالے سے اچھی بحث کی ہے۔ پریم چند کے ہاں بچوں کے کردار کی اچھی کہانیاں بھی تلاش کی ہیں مگر اس نتیجہ کے ساتھ کہ ’’بچوں کی جذباتی زندگی کی بہت اچھی کہانیاں پریم چند نہیں سنا سکے۔‘‘
پریم چند کی کہانی ’’قزاقی‘‘ کا بچہ، بوڑھی کاکی کی لاڈلی، اور عیدگاہ کا حامد جو کھلونے، مٹھائی کے بجائے اپنی دادی کے لیے ’ دست پناہ‘ خریدتا ہے۔ یہ ایسے معصوم کردار ہیں جن کے ذریعہ پریم چند نے معصوم ذہنوں میں روشنی کے چراغ جلائے ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’پریم چند کے افسانوں میں بچوں کے نفسیاتی عمل اور رد عمل کے بعض دلکش مرقعے ملتے ہیں۔ ٹیگور، مارک ٹوئن، ہنری جیمس، ہانس اینڈرسن، طالسطائی، پیرولاٹ، چارلس لیمب، جیمس بیری،لیوس کیرول، کیلنگ اور دوسرے فنکاروں کی طرح پریم چند نے بھی بچوں کی نفسیاتی زندگی اور ان کی دنیا کو پیش کیا ہے۔‘‘
m
المیہ میں حسن کی تلاش بھی شکیل الرحمن کے تنقیدی تجسس کا ایک نیا منطقہ ہے اور کرداروں کی تفہیم کی ایک نئی منطق بھی۔ پریم چند کی کہانیوں کے المیہ کرداروں کی سائیکی کا معاشرتی عوامل اور تحرکات کے متناقص سے رشتہ جوڑ کر ایک اور نئی جہت پیدا کر دی ہے۔ المیہ کرداروں کے حوالے سے کفن کے گھیسو اور مادھو کو انہوں نے بطور مثال پیش کیا ہے اور ان دونوں کرداروں کی نفسیاتی کیفیات کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ’کفن ‘کو اردو کا شاہکار کہا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ’جذباتی آسودگی حاصل کر نے کا یہ انداز اردو فکشن میں غیر معمولی ہے۔ پریم چند نے انسانی فطرت کی جس طرح نقاب کشائی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ کفن فن کا ر کے وژن اور فنکارانہ دروں بینی کا ایک ناقابل فراموش نمونہ ہے۔ ‘
یہ المیہ کردار اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ اس میں انسانی فطرت کی ایک نئی جہت روشن ہوئی ہے۔ مادھو کی بیوی بدھیا جب مر جاتی ہے تو اس کے کفن کے لیے پانچ روپے جمع ہوتے ہیں۔ مگر مادھو اور گھیسو دونوں نیا کفن کے بجائے اس پیسے سے شراب پیتے ہیں۔ مچھلیاں کھاتے ہیں، ناچتے گاتے ہیں۔ ان کی منطق یہ ہے کہ ’کفن تو لاش کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔ ‘
پریم چند کی کہانیوں میں ایسے المیہ کرداروں کی کثرت ہے، کفارہ کا مراری لال، گھاس والی کاچین سنگھ، لعنت کے کاؤس جی، دست غیب کے جیون داس یہ سب المیہ کردا رہیں اور پریم چند نے ان کرداروں کے ذریعہ المیہ کے جوہر کو نمایاں کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے ایسے المیہ کرداروں کی بابت پریم چند کے فنی رویے کو یوں واضح کیا ہے :
’’پریم چند کے افسانوں میں کہیں کرداروں کے عمل سے فضا المناک بنی ہے اور کہیں المناک فضا سے کرداروں کی زندگی ویران اور المناک بن گئی ہے۔ ڈرامائی کشمکش اور تصادم اور شخصیت کے داخلی دباؤ، دفاعی میکانیت سے المیہ کرداروں نے ایک معیار قائم کیا ہے۔‘‘
المیہ کی جمالیات یقیناً ایسا پہلو ہے جسے اکثر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں مگر شکیل الرحمن نے غم میں بھی نشاط کا عنصر تلاش کر لیا ہے اور اس طرح شاعری کے نشاط غم یا غالب کے نشاط غم کو فکشن میں المیہ کی جمالیات یا المیہ کا حسن کی شکل میں پیش کیا ہے۔ المیہ میں جو تحرک اور تاثر ہے، اس کی کیفیت اور شدت سے قاری کو روشناس کیا ہے۔
***
تکنیک، تخلیق کار کی تو انائی اور تنوع دونوں کا اشاریہ ہے اور اس باب میں پریم چند نہایت خوش نصیب ہیں کہ اپنے افسانوں میں تکنیکی تشکیل کی مختلف صورتیں خلق کی ہیں اور تکنیکی سطح پر ان کا طرہ امتیاز بقول شکیل الرحمن یہ ہے کہ :
’’ان کے کسی افسانے کے متعلق یہ کہنا آسان نہیں کہ کہانی یوں نہ ہوتی یوں ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔‘‘
پریم چند نے ابتدائیہ اور اختتامی لمس کے لیے جو تکنیک استعمال کی ہے، وہ کہانی کی فضا اور مزاج کے موافق ہے، کہانی کا آغاز کیسا ہو، انجام کیسا ہو، ابتدا، انتہا دونوں ہی سطح پر وہ جمالیاتی پہلوؤں کا خیال رکھتے ہیں۔ کہانی ڈائری کی تکنیک میں لکھی ہو یا مکتوب نگاری کی شکل میں یا ڈرامائی اسلوب یا انداز میں، انہوں نے قاری کو اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا،بلکہ زنجیر کو طلسم میں قاری کو باندھے رکھا ہے۔ ان تکنیک پر ذاتی اور جذباتی کیفیتوں کا عکس نظر آتا ہے۔ اس طرح پریم چند اپنی تکنیک کے ذریعہ بھی کرداروں کی داخلی دنیا اور باطنی کوائف سے قاری کو روشناس کر دیتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں میں تکنیک کا جمال نظر آتا ہے۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے تجربے اور تکنیک کی ہم آہنگی اور جذبی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’تکنیک کا حسن و جمال مرکزی خیال اور واقعات و پیشکش میں ہے۔ نفسیاتی مشاہدوں سے تکنیک کے حسن میں اضافہ ہوا ہے۔ کفن، مس پدما، حسرت، سکون قلب، بازیافت، دو بہنیں، شطرنج کی بازی، اکسیر، نیور، بڑے بھائی صاحب،طلوع محبت اور لعنت وغیرہ میں نفسیاتی مطالعے اور مشاہدے سے تکنیک کاجمال نکھرا ہے۔‘‘
تکنیکی تنوع میں بھی پریم چند کا فنی حسن پنہاں ہے۔ اس کا احساس شکیل الرحمن کے اس تجزیے سے ہوتا ہے جو پریم چند کی تکنیک سے متعلق ہے۔
m
پریم چند کے دھنک رنگ اسلوب کے تجمیلی عناصر پر بھی شکیل الرحمن نے نہایت مربوط، منضبط گفتگوکی ہے اور ان کے اسلوبیاتی تنوع و تحرک کو مثالوں سے منور کیا ہے۔ ان کے اسلوبیاتی تجدد اور تو انائی میں عبارتوں کی صفائی، صوتی دلآویزی، عمدہ تشبیہات، مقولے، محاورات کی مہک اور خوشبو کا بھی عمل دخل ہے۔ یہ ان کے اسلوب میں نگینے کی طرح جڑ گئے ہیں۔ اسلوب میں اشاریت بھی ہے، داستانویت بھی ہے جو طلسم ہوشربا کی عطا ہے اور اساطیریت بھی ہے اور لفظیات کا انتخاب تو ایسا ہے کہ اسلوب میں زندگی کی لہر سی دوڑ گئی ہے۔ محاوروں مقولوں کے استعمال نے تو کہانی کے حسن کو دوبالا اور لفظ کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ اسلوب کے حسن نے بھی پریم چند کی کہانیوں میں جادوئی، طلسماتی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی اسلوبیاتی سحر طرازی کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ تشبیہات میں طلسمی کیفیات اور مقولے میں ایک جہاں فکر آباد ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے اپنے اندر رفعت اور بلندی کا آہنگ لئے ہوئے ہیں :
بڑوں کے پاس دولت ہوتی ہے، چھوٹوں کے پاس دل ہوتا ہے۔
تاریکی خوف کا دوسرا نام ہے۔
انصاف!یہ کتابی عالموں کا ایجاد کیا ہوا گورکھ دھندہ ہے۔ دنیا میں اس کا وجود نہیں۔
مذہب کا تعلق ایمان سے ہے نہ کہ نمود سے۔
آنکھوں کو حسن سے ازلی تعلق ہے۔
گھورنا مردوں اور لجانا عورتوں کی عادت ہے۔
یہ محض جملے نہیں، زندگی کے بیش قیمت حقائق ہیں، جو مشاہدوں اور تجربوں کے بعد اس طرح سے لفظوں میں ڈھلتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات کے گہرے مطالعہ اور مشاہدے سے خلق کیے جاتے ہیں۔ پریم چند کے ہاں ایسے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی سچائیاں سما گئی ہیں۔
پریم چند نے اپنا اسلوب خلق کیا ہے جس میں قوت بھی ہے، شدت بھی، شیرینی بھی ہے، شوخی بھی.... .، فصاحت و بلاغت بھی ہے اور طبقاتی لب و لہجہ بھی۔ عربی، فارسی، ہندی تینوں کا خوب صورت امتزاج بھی ہے۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کی اسلوبیات کا مکمل اور متوازن تجزیہ کرتے ہوئے ان کے اسلوب کو منفرد اور اردو اسالیب کی ایک مضبوط کڑی قرار دیا ہے۔
’’پریم چند کا اسلوب اردو اسالیب کی عمدہ روایتوں سے متاثر خود ان روایات کی ایک مضبوط کڑی بن گیا ہے۔ یہ اسلوب نئی وسعتیں پیدا کرتا ہے۔ تخلیقی تجربوں کے بطن سے جنم لے کر تجربہ اور ہیئت کی ایک عمدہ وحدت کا احساس بخشتا ہے۔ منفرد آنچ اور آہنگ سے جو پرکاری اور سادگی پیدا ہوئی ہے، اس میں ہلکی شراب کا نشہ سا ہے۔‘‘
***
شکیل الرحمن نے پریم چند کو ان کی تخلیق کے اوج،موج، تلاطم کے آئینے میں ہی نہیں دیکھا اور پرکھا ہے بلکہ ان کے شخصی مد و جزر اور نفسی کیفیات کی روشنی میں بھی دیکھا ہے۔ ان تاثرات و عوامل کو مد نظر رکھا ہے جو مسائل اور محرومیوں کی وجہ سے ان کے ذہنی وجود کا لاینفک حصہ بن چکے تھے۔ تنہائی، تلخی، تصادم، تناؤ جس کی زندگی کا لازمہ ہوں، کیا اس کی تخلیق پراس کے اثرات نہیں ہوں گے ؟
شکیل الرحمن نے دھنپت رائے سے پریم چند بننے کی داستان کو بھی اپنی تنقید کا مرکز و محور بنایا ہے۔ ۳۱!جولائی ۱۸۸۱ء میں بنارس کے لمہی میں ایک کائستھ گھرانے میں پیدا ہونے والا دھنپت رائے کب پریم چند بنا اور کس طرح بنا ؟ یہ کتنوں کوپتہ ہے۔
’’کون جانتا تھا کہ تمباکو والے کی دکان میں کوئی دھنپت رائے پریم چند بن رہا ہے۔‘‘
اور جب یہ دھنپت رائے، پریم چند بن گیا تو ماضی کی پرچھائیاں بھی اس کی تخلیق اور تخیل کا حصہ بن گئیں۔ ماضی کے تجربات و حوادث نے ان کے تخیل کو تحرک عطا کیا.... . اور اس طرح ’قزاقی‘ سوتیلی ماں جیسی کہانیاں وجود میں آئیں .... . اور بھی بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جن میں پریم چند کا شخصی اور نفسی عکس نظر آتا ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی شخصیت اور فن کے ارتباطی لمس کو محسوس کیا ہے۔ ان کا خیال صحیح ہے کہ :’’صرف اخلاقی اصولوں، مقصدیت کے عام تصور اور اصول پرستی کے عام معیار سے کسی بڑے کی شخصیت اور فن کا تجزیہ ممکن نہیں۔‘‘ اس لیے پریم چند کی زندگی انہیں ہموار میدان کی طرح نظر نہیں آتی، اس میں انہیں نشیب و فراز دکھائی دیتے ہیں اور ان کی شخصیت داخلی تصادم میں گرفتار رہی ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں ماں کی ممتا سے محرومی، پہلی بیوی سے نفرت اور شیورانی دیوی سے شادی۔ معاشی الجھنیں .... .کیا یہ سب کسی تخلیق کار کے تناؤ کا باعث نہیں ہیں .... . بہر حال اتنا تو طے ہے کہ پریم چند کی تخلیق کے اسرار کو ان کی شخصیت کی تفہیم کے بغیر بھی سمجھ پانا آسان ہے مگر یہ پریم چند کی مکمل تفہیم نہیں کہلا سکتی۔
پریم چند ایک بڑا فن کار تھا اردو کا بھی، ہندی کا بھی (جب کہ وہ تیرہ سال کی عمر تک ہندی بالکل نہیں جانتے تھے ) جس کی کہانیاں کسی ’کال‘ میں ’قید‘ نہیں کی جا سکتیں۔ ہر عہد کا آہنگ ہے ان کے افسانوں میں۔ ان کی قدیم عبارت میں بھی جدید اشارت ہے۔ گلوبلائزیشن سے قبل لکھی گئی کہانیوں میں بھی محیط الارضی کے عناصر نمایاں ہیں۔ ان کی کہانیوں میں ہندوستان کی معاشرت اور تہذیب ہی نہیں ہے بلکہ ہر عہد کی عبارتیں ہیں۔ ایسے عظیم فنکار کی تفہیم کے لیے ایک بڑا تنقیدی فریم ورک بھی چاہئے .... . اور المیہ یہ ہوا کہ پریم چند کا نہایت محدود سطح پر مطالعہ کیا گیا، زیادہ تر تنقیدیں تشریحی بن کر رہ گئیں۔ پریم چند کی داخلی شخصیت کے آہنگ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی.... . اس لیے ایک نامکمل تشنہ پریم چند لوح تنقید پہ جھلملاتا رہا.... .
شاید تنقید کی اسی تاریکی کے سبب طلوع ہوئی ’فکشن کے فنکار پریم چند‘ جیسی کتاب جس میں شکیل الرحمن نے پریم چند جیسے تخلیق کار کے پورے ذہنی وجود کا اکسراتی مطالعہ کیا اور مطالعہ کی اساس علوم کی نئی شاخوں پر رکھی جس سے آگہی کی نئی منزلیں روشن ہوئیں اور ان علوم کے اطلاقی عمل سے جہاں ان کی تنقید کو تو انائی نصیب ہوئی، وہیں شکیل الرحمن کے اسلوب کے آہنگ، لفظوں کی نغمگی اور موسیقیت نے قرأت میں نئی کیفیت پیدا کی اور نشاط بھی۔ مگر یہ کتاب صرف مدح نہیں بلکہ قدح بھی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی تخلیقی تو انائیوں اور تحرکات کے سارے سلسلوں کا لمس حاصل کیا ان کے دروں کی تابش، تجلی اور حرارت کے ذریعہ مکمل پریم چند کو آخر دریافت کر ہی لیا.... . اس لیے بلا لیت و لعل کہا جا سکتا ہے کہ ’فکشن کے فنکار، پریم چند ‘ تنقید کی ایک نئی صبح ہے یا نئی صبح کی نوید ہے مگر یہ کتاب صرف پریم چند کی فکشن نگاری سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ مجموعی اردو فکشن کی تنقید ہے۔ پریم چند تو اس تنقید میں ایک علامت کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس مرکزی علامت کے حوالے سے شکیل الرحمن نے فکشن تنقید کے تلازمات کا فنکارانہ اظہار و اکتشاف کیا ہے۔
اظہار و اکتشاف کی یہی وہ روشنی ہے جس کی آرزو میں پریم چند کی آخری شب بھی گزر گئی.... . ۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء کی آخری شب جب پریم چند کی مضطرب روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
(ذہنی انتشار اور شکستہ سطروں سے ترتیب دیا گیا ایک مضمون)
Email : [email protected]
Cell : 9873747593