محمود واجد
اردو کے ایک بڑے نقاد کلیم الدین احمد نے جب کہا تھا کہ ہمارے یہاں تنقید محبوب کی موہوم کمر کی طرح ہے تو یقینی طور پر ان کی مراد فکشن کی تنقید نہیں تھی کہ اس کی وضاحتیں شاعری کے حوالے سے فراہم کی گئی تھیں۔ اردو فکشن (خاص طور سے ناول اور افسانے ) کو پوری ایک صدی کا سلسلۂ عمل مل چکا ہے لیکن آج بھی صورت حال یہ ہے کہ قابل ذکر تنقید لکھنے والوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور تخلیقی تنقید لکھنے والوں کے نام تو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر بھی پورے نہیں اترتے۔ تدریسی ضرورتوں کے تحت لکھی گئی تنقید ایک الگ چیز ہے جس کی تفصیل میں جانے کا ابھی وقت نہیں ہے۔ تشکیل پاکستان کے وقت مغرب اور مشرق میں ایک ایک جامعہ موجود تھیں مگر جامعہ کراچی جہاں کے شعبۂ اردو میں اٹھتے بیٹھتے آہ علی گڑھ اور واہ علی گڑھ کر نے والے موجود تھے بلکہ تا حیات موجود رہے، کچھ شیخ الجامعہ بھی ہوئے مگر اردو کے نصاب سے غیر مسلم ناموں کے اخراج یا تخفیف سے کم نظری ہی ثابت کر سکے۔ (کم از کم میرے بیس برسوں کے قیام کا تجربہ یہی بتاتا ہے ) خود ہمارے شاعر مشرق علامہ اقبالؔ پر منھ سے جھاگ نکال کر اور گردن پھلا کر بات کر نے والے بھول جاتے ہیں کہ ہندستان، ایران، روس اور جرمنی میں ان پر بے حد وقیع کام ہو چکے ہیں اور فیضؔ پر جیسے سمینار پٹنہ اور دہلی میں ہو چکے ہیں ویسے لاہور اور کراچی میں نہیں ہو سکے۔ عرض کر نے کا مفہوم صرف اتنا بتانا ہے کہ بڑا فنکار کسی خطۂ ارض تک محدود نہیں ہو سکتا۔ اس سے یہ بات بھی نکل آتی ہے کہ پریم چند کی فنی بصیرت پر کسی قابل قدر کام کی گنجائش کی توقع معروضی صورت حال میں ہمارے یہاں خوش فہمی سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
اردو کی نصف دنیا ہندوستان میں بھی ہم ایک سانس میں بیس اہم کتابوں کے نام پریم چند کے حوالے سے نہیں لے سکتے۔ دوسری طرف عملی صورت حال یہ ہے کہ پریم چند نے اردو فکشن (ناول اور افسانے ) کو مستحکم کیا۔ اس بات کی قطعی اہمیت نہیں کہ اردو میں کس نے پہلا ناول یا افسانہ لکھا۔ (ہاں تاریخ سازی میں اس سے کام لے سکتے ہیں )۔ اہم بات یہ ہے کہ کس نے بحیثیت فن پارہ اسے مستحکم کیا۔ اس سلسلے میں پہلا نام پریم چند کا آتا ہے۔ دیانرائن نگم مرتب ’’زمانہ‘‘ کانپور اردو افسانوں کے پہلے مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ (پریم چند) مطبوعہ 1908 پر اپنی رائے لکھتے ہیں :
’’اردو افسانہ نگاری کا ایک دلکش نمونہ پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں پانچ چھوٹے بڑے قصے جمع کیے گئے ہیں جو نہایت مؤثر اور دلفریب ہیں ...ان میں الفاظ کم اور مطلب زیادہ ہیں ...زبان کی صفائی، بیان کی روانی، فقروں کی چستی اور پلاٹ کی شیرازہ بندی... اردو میں ایسی تصنیف کے لیے ہماری آنکھیں دیر سے منتظر تھیں۔‘‘
لیکن خود پریم چند کا حال یہ ہے کہ انہی دیانرائن نگم کے نام ایک اور خط (1914) میں لکھتے ہیں :
’’مجھے ابھی تک یہ اطمینان نہیں ہوا کہ کون سا طریقہ اختیار کروں۔ کبھی تو بنکم کی نقل کرتا ہوں، کبھی آزاد کے پیچھے چلتا ہوں۔ آج کل ٹالسٹائی کے قصے پڑھ چکا ہوں تب سے اسی رنگ کی طرف طبیعت مائل ہے۔‘‘
یہ باتیں میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ یہ بتا سکوں کہ فکشن دراصل مغرب کی صنف ہے جسے ہم نے اپنی ضرورتوں کے تحت اپنا لیا اور جو جتنا جلد اس کے قریب پہنچ گیا وہ آگے نکلتا چلا گیا۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم، سجاد ظہیر اور احمد علی، اختر حسین رائے پوری اور عزیز احمد، منٹو اور بیدی، کرشن چندر اور غلام عباس،ممتاز، شیریں اور قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور مسعود اشعر، ممتاز مفتی اور احمد ندیم قاسمی، علی عباس حسینی اور سہیل عظیم آبادی، انور عظیم اور کلام حیدری، غیاث احمد گدی اور قاضی عبدالستار، سریندر پرکاش اور بلراج مین را، رشید امجد اور خالدہ حسین، محض چند نام ہیں جو بغیر کاوش کے ذہن میں آتے ہیں۔ ذرا سی توجہ سے بیسیوں نام اور لیے جا سکتے ہیں اور نئی نسل میں تو اتنے نام ہیں کہ ہماری انگلیاں بھی ناکافی ثابت ہوں گی۔ یوں بھی فہرست سازی فی الحال ہمارا مقصد نہیں ہے۔
پریم چند نے اپنی چھپن سالہ زندگی (1880 سے 1936)میں ’’عشق دنیا اور حب وطن‘‘ سے ’’دو بہنیں‘‘ تک کوئی ڈھائی تین سو افسانے اور ’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ سے ’’گؤدان‘‘ تک دس بارہ یا شاید چودہ ناول لکھے۔ (تعداد میں کوئی/ شاید کا مسئلہ اس لیے درپیش ہوا کہ انہوں نے اردو اور ہندی دونوں میں لکھنے کا کام کیا اور ابھی چھان پھٹک باقی ہے )۔ بہرحال وہ اردو میں فکشن کی تاریخ بنا گئے۔ تعین قدر کا کام تو تسلسل سے ہوتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن اردو کے ایک اہم نقاد ہیں جو بعض اسباب کی بنا پر اس طرح ہمارے سامنے نہیں آئے جس طرح ان کی تحریروں کے حوالے سے ان کا حق بنتا تھا۔ اس میں خود ان کے تسامح کا دخل بھی ہے۔ انیس سو ساٹھ میں لکھی گئی کتاب مسودوں میں گم رہی اور دستیاب ہوئی تو سنہ دو ہزار میں شائع ہوئی (چالیس برسوں کا حساب کون دے گا) اس سے پہلے ایک اور سانحہ ان کے ساتھ گزر چکا تھا کہ جب وہ پٹنہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے تو وہاں ’’نابغوں کا اجتماع‘‘ تھا جو اپنے آپ میں یکتا تھے۔ جب وہ دہلی اور کشمیر کی طرف نکلے تو وہاں نئے تھے اور ادبی طور پر قدم جمانے میں بڑا وقت لگا۔ پھر جو کچھ انہوں نے لکھا اس میں تخلیق شامل نہیں تھی کہ ایک بنیاد فراہم ہو جاتی۔ بہرحال ابھی ان کی کتابوں کی جو فہرست میرے سامنے ہے اس میں کلاسیکی ادب، غالبیات، جمالیات، فکشن، شاعری کی تنقید اور خود نوشت وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی تحریروں کا حوالہ اردو دنیا میں جمالیات کے حوالے سے تھا۔ اس میں بڑی متنوع لہروں کا خروش محسوس کیا جا سکتا ہے۔ فکشن میں ان کے تین اہم کام ہیں۔ ’’داستانِ امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا‘‘ ، ’’فکشن کے فنکار: پریم چند’‘ اور ’منٹو شناسی‘‘ ۔ فی الحال میری گفتگو فکشن والے پریم چند پر ہو گی جس کی تمہید میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔
تنقید میں شکیل الرحمن اپنی غیر معمولی موجودگی کا احساس پہلے ہی صفحہ پر دے چکے ہیں۔ جب کہتے ہیں :
’’فن میں خارجی سچائیوں میں حقیقتوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے، کہاں تک انہیں تخلیق کی صورت دی ہے اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔‘‘
اگلے ہی صفحہ پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہیں :
’’پریم چند کے افسانوں میں ناولوں سے زیادہ جذباتی اور تخیلی فضا ہے اور افسانوں میں خارجی قدریں فنی قدریں بن گئی ہیں۔ ناولوں کے کردار پورے طور پر اپنی نفسیات کے ساتھ نہیں ابھرتے، کرداروں کی تشکیل میں کمی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
اب پلٹ کر کتاب کے پہلے صفحہ کا افتتاحی فقرہ دیکھیے :
’’پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں بڑے ناول نگار نہیں۔‘‘
یہ بات شکیل الرحمن کے اپنے مطالعے اور تجزیے کے غیر معمولی اعتماد کی دلیل ہے۔ ایک دلچسپ مسئلہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ پہلے وہ ایک سوچی سمجھی رائے قائم کرتے ہیں پھر دلیلیں لے کر آتے ہیں۔ اس سے بات دلوں میں جاگزیں ہوتی ہے۔
پریم چند کے مطالعے سے دوسرا نتیجہ وہ یہ اخذ کرتے ہیں :
’’تمام باتوں میں داستانیت ملتی ہے۔‘‘
دلیل یہ دیتے ہیں کہ:
’’اسلوب بھی ابتدا میں داستانی اسلوب سے متاثر ہے ...مرصع زبان ملتی ہے، فضا نگاری، جزئیات نگاری اور تخیل نگاری میں داستانی رومان کی خصوصیتیں موجود ہیں۔ کرداروں کی مثالیت اور ان کے غیر فطری عمل...عبارتوں کی طوالت، تکلف و تصنع، مبالغہ آمیزی، فوق الفطرت، واقعات و کردار ...‘‘
اپنی باتوں کے ثبوت کے لیے مزید دلائل کے طور پر کہتے ہیں :
’’شرر، سرشار اور رینالٹ کے ناولوں اور انگریزی کے اردو ترجموں کو پڑھ چکے تھے۔۔۔ ٹیگور، سرت چندر، بنکم، چندر چٹرجی اور ٹالسٹائی کے تکنیکی معیار اور موضوعات سے بھی متاثر ہوئے تھے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ پریم چند کے ناولوں کی تنقید میں اپنے عصری نقادوں کی تحریروں سے نام لے کر اختلاف کرتے ہیں اور دلیلیں لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحیح تعین قدر نہیں ہو سکا۔ یہ بڑی جرأت کا کام ہے جو ہمارے نقادان ادب بہت کم کرتے نظر آتے ہیں۔
درج ذیل بعض مثالوں کو دیکھیے اور اہم ناولوں کے بارے میں نتائج کو پڑھیے۔ شاید کوئی اہم نکتہ دریافت ہو جائے۔
’’قدامت پسندی اور جدت پسندی کی کشمکش میں پریم چند کے جذبات کے بعض رنگوں کی پہچان ہوتی ہے۔‘‘ (’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ کے حوالے سے )
’’پریم چند کے اردو اور ہندی زبانوں کے نقادوں کو بیوہ کے المیہ اور کرداروں کا تجزیہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی المیہ اور انہی جذبوں میں ہندوستان کا معاشرہ ہے۔‘‘ (’’جلوۂ ایثار‘‘ کے حوالے سے )
’’انہوں نے جن بنیادی مسائل کو ابھارا وہ یقیناً بہت اہم ہیں۔ تخیلی طور پر بھی ان مسائل کو گرفت میں لینے کی کوشش کی لیکن تکنیکی خامیوں کے ساتھ اصلاحی نظریہ اتنا حاوی رہا کہ فنی صداقتیں کمزور ہو گئیں۔‘‘ (’’بازار حسن‘‘ کے حوالے سے )
’’پریم چند کی رومانیت اور ان کی فکر ناول کی ٹریجڈی میں نمایاں ہے ... ایک مکمل اچھا مختصر ناول ہے کہ جس میں تخلیقی شعور کا عمل ملتا ہے۔‘‘ (’’نرملا‘‘ کے حوالے سے )
’’فنکار نے خارجی مسائل کو داخلی قدروں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ فنکاری عروج پر ہے، پلاٹ کا ارتقاء متاثر کرتا ہے ... تکنیکی اعتبار سے ایک کامیاب ناول ہے۔‘‘ (’’گوشۂ عافیت‘‘ کے حوالے سے )
’’متوسط طبقے کی کھوکھلی زندگی ملتی ہے ... کشمکش اور الجھنوں کی تصویر کشی عمدہ ہے۔ اصلاحی نقطۂ نظر یہاں بھی ہے جس سے رومانیت مجروح ہوتی ہے۔ پلاٹ کی تشکیل میں مغربی ناولوں کی تکنیک پیش نظر رہی ہے۔‘‘ (’’غبن‘‘ کے حوالے سے )
’’ایک کمزور ناول ہے، کردار نگاری بھی کمزور ہے اور پلاٹ بھی اپنے غیر فطری پھیلاؤ سے الجھن پیدا کر رہا ہے ...وحدت اثر موجود نہیں ہے۔ قصے کا ارتقا میکانکی طور پر ہوتا ہے ... مقصد فن پر غالب ہے ... تکنیکی نزاکتیں کم ہو گئی ہیں۔‘‘ (’’میدان عمل‘‘ کے حوالے سے ) ’’نئی رومانیت کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کیا ہے۔ خارجی اور داخلی تصادم ہی اس ناول کا بنیادی حسن ہے۔ یہ رومانیت تصادم کو تخیل اور جذبے کی آنچ دیتی ہے۔ فرد اور معاشرے کا تضاد متاثر کرتا ہے ... کرداروں کا فطری ارتقا ہوتا ہے۔ بدلتی ہوئی قدروں اور افراد کی نفسیات پر فنکار کی گہری نظر ہے۔‘‘ (’’گؤ دان‘‘ کے حوالے سے )
میں نے ابتدا میں کلیم الدین احمد سے بات شروع کی تھی وہ بے سبب نہ تھی۔ دراصل میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ تنقید میں قطعیت بنیادی شرط ہے۔ اس روایت کو آگے بڑھانے میں شکیل الرحمن نے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ ان کے یہاں جوابی تنقید کو سہہ لینے کا بڑا دم خم نظر آتا ہے جو نیک فال ہے۔ اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن تعین قدر میں بددیانتی نہیں ملتی اور نہ اپنے کسی تعصب کو فیصلے کی راہ میں حائل ہونے دیتے ہیں۔ ’’چو گان ہستی‘‘ (ناول) کے بارے میں کہتے ہیں :
’’تجربوں کو پیش کر نے کا انداز زیادہ فنکارانہ ہے۔ تجربے وسیع بھی ہیں اور گہرے بھی۔ جزئیات اور احساسات کی اہمیت زیادہ ہے۔ تخلیقی فکر اور فنی اقدار کا تصادم متاثر کرتا ہے۔‘‘
ایک اور ناول ’’پردۂ مجاز‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’پریم چند کی رومانیت زیادہ ابھری ہے۔ پلاٹ کی پیچیدگی بھی توجہ طلب ہے ... فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کی پہچان ہوتی ہے ...کرداروں کے احساسات اور جذبات محسوس بنے ہیں ... زندگی کی پراسرار کیفیتوں کو سمجھنے کا ایک رجحان ملتا ہے۔‘‘
مکمل دس ناولوں کا تجزیہ شکیل الرحمن کو ممتاز مقام پر کھڑا کر دیتا ہے۔ مثبت اور منفی رخوں کی نشان دہی انہیں واضح نشان اختصاص عطا کرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہزاروں صفحے کے کام کو بیس صفحوں میں کس طرح سمیٹا گیا ہے۔ اپنی بات کو ثابت کر نے کے لیے انہیں چھوٹا بہرحال نہیں دکھایا گیا ہے۔
افسانوں کے سلسلے میں پریم چندکو شکیل الرحمن پہلے ہی فقرے میں بڑا کہہ دیتے ہیں۔ وضاحت میں انہوں نے بہت بڑا حصار کھینچاہے اور کوئی 185 صفحے وقف کیے ہیں۔ نئے گوشے دریافت کیے ہیں جن پر اپنے کسی نقاد کی نظر نہیں گئی تھی مثلاً تیسرے آدمی کا تصور، عورت کے کئی پہلو،بچے کا ذہن، کھلاڑی پن کی موجودگی، المیہ کردار کی دروں بینی، تکنیک کا تنوع اور اسلوب کی بوقلمونی وغیرہ۔
میں نے ابتداً عرض کیا تھا کہ تخلیقی تنقید لکھنے والوں کا فقدان فکشن کی تنقید کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ ممتاز شیریں اور حسن عسکری کسی حد تک یہ کمی پوری کرتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی کو بھی شامل کر لیجئے گویہ جانبداری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ افتخار جالب اور وہاب اشرفی کے یہاں بھی خاصے امکانات تھے مگر ان لوگوں نے اپنے آپ کو دوسری طرف زیادہ مصروف رکھا۔ شمیم حنفی اور ابوالکلام قاسمی نے بعض مثبت اشارے دیے مگر دور تک نہیں چل سکے۔ گوپی چند نارنگ پوری طرح اہل تھے مگر بعض انجمنوں / تحریکوں کی پشت پر کھڑے ہونے کے سبب کشش ثقل بدل گیا۔ شکیل الرحمن دیر سے سہی چلے تو ٹھیک تھے مگر دوسری زمینوں کو زیادہ وقت دے بیٹھے۔ اعتماد تو انہیں مل گیا مگر وہ نہیں جس کے وہ حقدار تھے۔ اسے المیہ ہی کہیے مگر آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
جب وہ کہتے ہیں کہ تیسرے آدمی کا تصور افسانے میں عمل اور رد عمل کی زنجیر مرتب کرتا ہے تو ذہن کی بعض گرہیں کھلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہ تیسرے آدمی کی واضح نشان دہی بھی کرتے ہیں اور فن کے لیے اس کی موجودگی کو لازمی بھی قرار دیتے ہیں۔ ایک حوالہ دیکھیے کہتے ہیں :
’’افسانوی کلچر کے مطالعے میں مرکب اور پیچیدہ واقعات کا مطالعہ تیسری شخصیت کے بغیر ممکن نہیں۔ احساسات، جذبات، رویہ، مختلف ہیجانات اور جبلتوں کے اظہار اور حسیاتی کیفیتوں کے تجزیے کے لیے تیسری شخصیت کا سہارا ضروری ہے اس لیے کہ وہی مختلف رجحانات پیدا کرتا ہے، جذبات کے اظہار پر اثر انداز ہوتا ہے، کرداروں کے عمل اور رد عمل کو متاثر کرتا ہے اور واقعات و پلاٹ میں تیزی، نوکیلا پن پیدا کرتا ہے۔‘‘
مثال میں مجموعہ ’’پریم چالیسی‘‘ میں افسانہ ’’گھاس والی‘‘ کے کردار چین سنگھ کو انجام کار نفسیات کے پہلو سے متصف کرتے ہیں۔ ’’دو سکھیاں‘‘ کا بھون داس گپتا بھی ایک اور تیسرا آدمی ہے جو الفاظ کی زنجیر کو حربے کے طور پر استعمال کرتا ہے مگر انجام کا ر دل کا اچھا ہونے کے سبب سرخرو ہوتا ہے۔ ایک اور مجموعہ ’’زاد راہ‘‘ میں شامل ’’حقیقت‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو تیسرے آدمی کو منقلب ہوتے ہوئے دکھلاتا ہے۔ گویا تیسرا آدمی ایک منجمد کردار نہیں متحرک اور افسانے کی جان ہے۔ تیسرے آدمی کے جذبات کی کتھارسس کو شکیل الرحمن مختصر افسانے کا حسن قرار دیتے ہیں۔ دیگر حوالوں سے تیسرے آدمی کو تیسری طاقت کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ افسانے میں اختصار اور دلکشی کا سبب بھی اس تیسرے آدمی کا وجود ہے۔ یہ ایک نیا نکتہ ہے جو توجہ طلب ہے۔
عورت کے حوالے سے پریم چند کے یہاں (افسانوں میں ) بڑی متنوع تصویریں بنتی نظر آتی ہیں۔ نفسیات تو سر فہرست ہے ہی ان کے پیکر بڑے متنوع محسوس ہوتے ہیں۔ نرگسی، سرشار، شادی شدہ، بیوہ، طوائف نفسی رشتوں میں متصادم، بازار ادب کی گرمی کے لیے نقاد شکیل الرحمن نے دو بھر پور باب مختص کیے ہیں جن میں بے شمار مثالیں فراہم کی گئی ہیں اور نظریے کی تجسیم کے لیے کھلے کھلے اشارے موجود ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اتنے کم عرصے (مختصر زندگی) میں پریم چند نے اتنا کچھ کیونکر کیا اور شکیل الرحمن اتنی ساری مثالوں کے لیے تخلیق کے ایک ایک حرف سے گزر نے کی کوشش کی۔
بچے کی نفسیات پریم چند کے تخلیقی عمل کا ایک اور زاویہ فراہم کرتا ہے جو ابتداً مغرب کے بعض شاہکاروں سے متاثر و مماثل ہے لیکن انجام کار اپنی زمین پر پاؤں پڑتے نظر آتے ہیں۔ نفسیاتی نکتے کی بازیافت میں شکیل الرحمن کا ذہن پریم چند سے آگے قلانچیں بھرتا نظر آتا ہے اور مثالیں واضح اشاروں اور نشانوں سے فراہم کی گئی ہیں۔
کھلاڑی پن کے عنوان سے پریم چند کے یہاں تجزیے کا ایک اور نکتہ تلاش کیا گیا ہے۔ خود پریم چند نے کہا تھا کہ ’’دنیا ایک تماشا گاہ اور کھیل کا میدان‘‘ ہے اور یہ کہ ’’ہم سب کے سب کھلاڑی ہیں‘‘ اور یہ بھی کہ ’’نگاہ جیت پر رہے، پر ہار سے گھبرائے نہیں ...‘‘ ،’’ہار جیت تو زندگی کے ساتھ ہے۔‘‘ ’چو گان ہستی‘‘ اور ’’گؤدان‘‘ کی شکل میں اس موضوع پر ناولوں کا حوالہ دے چکے اب افسانوں میں ’’منگل سوتر‘‘ سے ’’کفن‘‘ تک بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
المیہ کرداروں کے حوالے سے پریم چند کے ایک شاہکار تو ’’کفن‘‘ کے گھیسو اور مادھو ہیں ہی جن کی نفسیاتی اور نظری توجیہ شکیل الرحمن کرتے ہیں لیکن جب حقیقت کے بطن سے جذبے کا ورود دیکھتے ہیں تو بے اختیار واہ کرتے ہیں۔ ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کے میر و مرزا( فرماں روائے لکھنؤ اور قدر دان) کے مکالمے المیے کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن کہتے ہیں کہ ’فضا نگاری، میں پریم چند نے اپنی فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔ ‘
تکنیک کے حوالے سے اردو فکشن کی واحد خاتون نقاد ممتاز شیریں بہت کم عمری میں ہم سے جدا ہو گئیں مگر بڑی ہمہ گیر اور گہری باتیں خاص طور سے مغرب کے حوالے سے ہمارے نقادوں کے سامنے رکھ گئیں مگر تاحال اس کام پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ افسانے کے تجزیے کے عمل کی فہرست میں اس کام کو تو شامل کر لیتے ہیں مگر وضاحت میں کہیں قابل ذکر پیش رفت نہیں ملتی۔ شکیل الرحمن نے اپنی سی کوشش کی ہے اور پریم چند کے کئی افسانوں کو مغربی افسانوں کے فارم کے قریب بتایا ہے۔ فضا آفرینی اور بے تکلفی کو اس کی اضافی صفت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’واقعہ کی روح تخئیل کے سہارے علامتی بن گئی ہے۔‘‘ رومانیت میں فلسفیانہ آہنگ کو بھی تلاش کیا ہے اور افسانے کی روح میں داخل ہونے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ ابتداً عبارتوں میں بھی نئی جہتیں تلاش کر نے کی جد و جہد میں بھی مبتلا پریم چند کو دکھایا ہے۔ واحد متکلم کی تکنیک بھی توجہ طلب محسوس کی ہے۔ خط اور ڈائری کی تکنیک بھی برتنے کی کوشش ملتی ہے اور مکالمے بھی تکنیک کا حصہ بنتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات وحدت تاثر (جو افسانے کی جان ہے ) بھی گہرا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ تجربہ اور تکنیک کی ہم آہنگی دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ چھوٹی باتوں سے بڑی باتوں کا اخراج ایک الگ پیش رفت ہے۔
اسلوب کے حوالے سے مستند بات STYE IS THE MAN والی ہے۔ شکیل الرحمن کہتے ہیں :
’’پریم چند کے فن میں تصادم کی مختلف صورتیں اور سطحیں ملتی ہیں جن سے اسلوب متاثر ہوا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تجربہ اور تکنیک کی ہم آہنگی اور جذبی کیفیت نے اسلوب خلق کیا ہے۔‘‘
بے شمار افسانوں کی مثالیں دی ہیں اور اسلوب کی کئی جہتیں تلاش کی ہیں۔ اسلوب تیکھا اور موجود ہونے کی نوید بھی دی ہے۔ شدت و رفعت کو بھی محسوس کیا ہے۔ تاثر کی وحدت پر یہاں بھی زور دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ برآمد کیا ہے :
’’پریم چند کا اسلوب ان کے مزاج اور افتاد طبع کا سانچہ ہے جو تجربہ اور تاثر کا عمدہ امتزاج پیدا کرتا ہے۔ انداز بیان منطقی اور متوازن ہے، الفاظ احساسات اور جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی ایک منطقی اور متوازن ذہن کی غمازی کرتے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں شکیل الرحمن فراخ دلی سے افسانوں سے مثالیں فراہم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’’اسلوب نئی وسعتیں پیدا کرتا ہے۔‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ شکیل الرحمن کو پریم چند کے یہاں نئی رفعتوں کی سمت نمائی کی داد یقینی ملنی چاہئے۔ میری خواہش ہے کہ اردو کے نئے افسانے پر بھی اتنی توجہ انہیں صرف کرنی چاہئے کہ اس کے خد و خال نمایاں ہو سکیں تاکہ ہم نئے جہانوں کی خبروں سے زیادہ مرصع ہو سکیں!
آخر میں میں عرض کروں گا کہ میری تمام معروضات سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ پریم چند بلاشبہ اردو کے بڑے افسانہ نگار ہیں اور یہی بات شکیل الرحمن ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں ان کی کامیابی سے خوش ہونا چاہئے!
(کراچی، پاکستان)