شفیق احمد شفیقؔ
شکیل الرحمن کا نام اور کام اتنا روشن اور تابناک ہے کہ ان کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک با شعور، وسیع المطالعہ اور اعتدال پسند نا قد ہیں۔ بہت سی تنقیدی، تجزیاتی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ میرے پیش نظر ان کی وہ کتاب ہے جس کو انھوں نے ۱۹۶۰ء میں لکھا تھا مگر اس کی اشاعت ساٹھ سال بعد ہوئی یعنی ۲۰۰۰ء میں یہ منظر عام پر آئی۔ اور اس کی اشاعت پذیری کے آٹھ سال بعد میں اس پر تجزیاتی مطالعہ پیش کر نے بیٹھا ہوں۔
میں نے اس سے پہلے کئی مواقع پر اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ ہر دور کی اپنی کچھ خاصیتیں ہوتی ہیں۔ یہ خاصیتیں ہی اس کی شناخت ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس دور کی بیشتر سچائیاں بھی پچھلے ادوار سے تھوڑی بہت مختلف ہوتی ہیں۔ ایک زمانے میں انسان کارواں اور قافلے کی صورت میں دور دراز علاقوں کا سفر کرتا تھا،یہ ایک سچائی ہے۔ پھر اس نے بیل، گھوڑے، گدھے، ہاتھی اور دیگر جانوروں پر سواری شروع کی، یہ بھی متعلقہ دور کی ایک صداقت ہے۔ پھر انسان بیل گاڑی، گدھا گاڑی، گھوڑا گاڑی کو سفر اور بار برداری کے لئے استعمال کر نے لگا۔ اسی طرح اب ترقی کرتے ہوئے تیز رفتار ریل گاڑی، ٹرک، کار، بحری جہاز اور ہوا سے بھی تیز رفتار طیارے بنا لیے ہیں۔ پیدل سفر، جانوروں کی سواری، بیل، اونٹ اور گدھا گاڑی وغیرہ اپنے اپنے زمانے کی صداقتیں ہیں جو بدلتی رہی ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ صداقتیں بدلتی ہیں تو اس میں خفا ہونے کی کوئی بات نہیں۔ بہ ایں ہمہ ایک صداقت یہ بھی ہے جو معروف نا قد شہزاد منظر ہمیں بتا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے :
’’ہمارے ناقدین زیادہ تر اردو شاعری اور شاعروں کے بارے میں لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اردو ادب میں شاعری بہت متمول اور اس کی روایت بہت قدیم ہے اور پھر شاعری پر لکھنا اس لیے بھی آسان ہے کہ اس کے بارے میں پہلے سے ہی بہت کچھ معلوم ہوتا ہے، جب کہ افسانوی ادب کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ اردو میں افسانے کی تاریخ تقریباً نوّے (۹۰) سال اور ناول کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے۔ ہمارے ناقدین نے زیادہ تر شاعری کے بارے میں لکھا ہے۔ اس لیے شاعری کی تنقید کی روایت بہت تو انا ہے۔ اس کے بر عکس فکشن کی تنقید کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
(تنقیدی مجموعہ ’’علامتی افسانے کے ابلاغ کا مسئلہ‘‘ صفحہ ۵ )
فکشن خصوصاً افسانے کی تنقید کے بارے میں اوپر کے اقتباس میں شہزاد منظر نے جوبات کہی ہے وہ اس وقت کی صداقت ہے۔ لیکن اب صداقت بدل چکی ہے، حالات اور ادبی رویے بدل چکے ہیں اور اب ناول، ناولٹ، ڈرامے، افسانے اور انشائیے نہ صرف شوق سے پڑھے جا رہے ہیں بلکہ ان پر کتابیں، تحقیقی مقالے اور تجزیاتی مضامین بھی لکھے جا رہے ہیں۔ اب کہانی اور افسانے کی تنقید لکھنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جانے والی نہیں ہے۔ بلکہ اب ان کی ایک طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے۔ اب شاعری کی طرح افسانہ نگاری اور افسانہ نگاروں پر بھی انتقادی اور تجزیاتی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے اب لمحۂ موجود کی سچائی وہ نہیں جسے شہزاد منظر نے نشان زد کیا ہے۔ کیوں کہ اب فکشن پر قلم اٹھانے والوں کی کمی نہیں۔ اس بات کا ایک ثبوت شکیل الرحمن کی زیر نظر کتاب ’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ ہے۔
پریم چند کی ناول نگاری
یہ کتاب اپنے اندر کئی جہتیں رکھتی ہے۔ اس کی سطور اور بین السطور میں تقابلی مطالعہ، تحقیقی عرق ریزی، جمالیاتی انسلاک، انتقادی ذہانت، تجزیاتی بصیرت اور اصابت رائے کے در یچے کھلے ہوئے ہیں۔ جن سے شکیل الرحمن کے تنقیدی رویے کے متنوع اور خوشگوار اوصاف کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ فکشن کے ناقدین میں اب ایک اہم مقام حاصل کر چکے ہیں۔ امیر خسرو، میر، غالب جیسے نا بغۂ روز گار شخصیات کی شاعری کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ یقیناً دوسروں سے ہٹ کر لکھا۔ انھوں نے تحقیقی بصیرت، تجزیاتی اپج کا اس اعتماد کے ساتھ مظاہرہ کیا اور تخلیقی فعالیت کی پر اسرار کیفیتوں کے کمال اور جمال کو اس فنکارانہ انداز سے اپنے تجزیے کی رگوں میں تازہ خون کی طرح رواں دواں کر دیا کہ یوں محسوس ہوا جیسے شکیل الرحمن بس شاعری کی تنقید لکھنے اور اس کی پر اسرار کیفیتوں اور حِسیتوں ہی کے راز داں ہیں۔ اس باب میں یقیناً ان کے کام کا لوہا مانا گیا۔ مگر وہ تو تنقید میں اعتدال کے شروع ہی سے قائل رہے ہیں، انتہا پسندی کو کبھی قابل اعتنا تصور نہیں کیا۔ میں ان کے اس وصف کے بارے میں اپنے ایک مضمون ’’شکیل الرحمن کی میرؔشناسی‘‘ میں یہ لکھ چکا ہوں کہ:
’’شکیل الرحمن یقیناً قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے اپنے جذبے اور قلم دونوں کو پوری طرح قابو میں رکھا ہے اور ناقدانہ معیار و وقار کو کہیں مجروح ہونے نہیں دیا ہے۔ ایک مخصوص سلامت روی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے تجزیاتی فرائض سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کی ہے۔ بعض لوگ دوران تنقید بہک جاتے ہیں اور دور کی کوڑی لانے کے زعم میں اس تنقیدی اخلاص و انہماک کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے متوازن اور با معنی تنقید عبارت ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی تحریریں سننے میں تو کسی حد تک گوارا لگتی ہیں مگر قراء ت کے دوران ان میں موجود فکری انتشار اور سطحیت بد مزگی پیدا کرتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ شکیل الرحمن کی تنقیدی روش اور چلن ان تمام بے راہ رویوں سے پاک ہے۔ وہ اپنے تجزیاتی عمل کے دوران اپنے موضوع سے منسلک بھی دکھائی دیتے ہیں اور اس میں منہمک بھی پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ناقدانہ رویہ اپنے موضوع سے انصاف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘
یہ تو ہے ان کے تنقیدی اور تجزیاتی رویے میں معتدل اور متوازن رہنے کی بات۔ مگر میں ان کی ایک اور اعتدال پسندی کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ابھی میں نے سطور بالا میں عرض کیا تھا کہ اس بھر پور اور مضبوط بنیادوں میں انھوں نے شاعری کی تنقید کے نمونے پیش کیے کہ لگا جیسے ان کی سطوت تنقید صرف شاعری کی اقلیم تک قائم ہے۔ مگر جناب انھوں نے انتقادیاتی اعتدال کے دوش بدوش اصناف کی تنقید کے حوالے سے بھی اپنے معتدل اور ہمہ جہت نقاد ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا اور پریم چند جیسے اہم ترین افسانوی ادب کے قلمکار کے فن، فکر، اسلوب، کردار نگاری، ماحول آشنائی کو نشان زد کرتے ہوئے اور خارجی و داخلی شواہد کی مدد سے اپنے مطالعات کے حاصلات کو جس طرح زیر بحث کتاب میں پیش کیا ہے اسے بلا مبالغہ بہت اہم اور منفرد کام کہا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران پریم چند کی فکری وفنی مطالعاتی وادی کی سیاحت کا بھر پور موقع ملتا ہے۔ مصنف نے افسانہ نگار کے کرداروں کی حرکات و سکنات، چال چلن، نفسیاتی پیچ و خم کو بڑی باریک بینی کے ساتھ گرفت میں لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مکالموں کے حوالے سے اور ماحول آشنائی کے تناظر میں بھی ان کے تجزیے اور تنقید بڑی حد تک اختراع کادرجہ رکھتی ہے۔ اس کے دوش بدوش انھوں نے پریم چند کے ناولوں اور کہانیوں کے کرداروں کی دروں بینی، خارج بینی اور ذہنی کشمکش کا بڑی چابک دستی کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔
شکیل الرحمن نے اس کتاب میں یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ پریم چند ناول نگار اتنے بڑے نہیں جتنے بڑے وہ افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے اس باب میں صرف رائے کا اظہار ہی نہیں کیا ہے بلکہ ناولوں کے تجزیوں اور اس میں موجود کردار نگاری اور کرداروں کی نفسیاتی دنیا کو بھی ہمارے سامنے منعکس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پہلے پریم چند کی ناول نگاری کا تجزیہ پیش کیا ہے جو ۲۰ صفحات پر محیط ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے اردو کے ناقدوں کی بے توجہی کا بھی گلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے زیادہ توجہ پریم چند کے ناولوں پر دی ہے۔ ان کی افسانہ نویسی کی طرف ان کا خیال بہت کم گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے :
’’...بنیادی طور پر افسانے کے فنکار ہیں۔ پریم چند کے ساتھ اگر ان کے ناولوں کے کردار سامنے آتے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک ان کے افسانوں کی اہمیت کا گہرا احساس پیدا نہیں ہوا ہے۔ اردو کے نقادوں نے عموماً ناولوں کی جانب زیادہ توجہ دی ہے۔ ایم۔ اے۔ اردو کے نصاب میں پریم چند ایک ناول نگار کی حیثیت ہی سے ملتے ہیں۔‘‘
افسانوں کے تجزیے کی بات تو دور کی ہے وہ اردو کے ناقدوں کی ان تنقیدوں سے بھی مطمئن نظر نہیں آتے جو منشی پریم چند کے ناولوں پر لکھی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن ناولوں پر تنقید لکھی گئی ہے ان میں دروں بینی اور جوہر نبوغ کی پر اسرار کیفیات کو اہمیت دینے کا فقدان ہے۔ بقول ان کے بڑی بڑی سیاسی تحریکوں سے ناول کے موضوع کو جوڑ کے اور اسی تناظر میں ان کے کرداروں کا مطالعہ پیش کر کے ناولوں کو اونچا بتانے سے تنقید اور تجزیے کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
شکیل الرحمن نے اپنے اس مقالے میں ان کے ناولوں کا خود بھی تجزیہ کیا ہے، کرداروں کے خصائص اور علتوں کو نشان زد کیا ہے، ان ناولوں کے کرداروں کے ذہنی مطالعے کا منظر نامہ بھی ہمیں دکھایا ہے اور ماجرائیت کے ساتھ ساتھ سماجی حقائق سے کرداروں کے تصادمات اور ان سے پیدا ہونے والی صورت حال کو بھی پیش کیا ہے اور ان کا اپنے طور پر تجزیہ بھی کیا ہے۔ جا بجا مختلف ناولوں پر بحث کے دوران دیگر ناقدین کے تجزیے کی جھلکیاں دے کر تقابلی تنقید کی عالمانہ روایت کو مستحکم کر نے اور انتقادی فضا کو سنجیدگی کا جوہر عطا کر نے کی بھی کوشش ملتی ہے۔ شکیل الرحمن کو جہاں جہاں پریم چند کے ناولوں میں خوبیاں نظر آئی ہیں انھیں بھی اجا گر کیا ہے اور جہاں جہاں کمزوریاں محسوس کی ہیں ان پر بھی استدلال کے ساتھ بحث و تمحیص سے کام لیا ہے اور تنقید کے تقاضے پورے کیے ہیں۔
کتاب کے مصنف نے پریم چند کی تخلیقی کار کر دگی کا تفصیلی پس منظر پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پریم چند نے کس کس کی تحریروں سے اثر قبول کیا تھا، قصہ چہار درویش اور طلسم ہوش ربا اور دوسری داستانیں ان کے پیش نظر تھیں۔ رینا لٹ، رتن ناتھ سرشار اور عبدالحلیم شرر کے ناول اور انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی چیزیں بھی ان کی نظروں سے گزری ہیں۔ بنکم چٹرجی، طالسطائی، ٹیگور اور سرت چندر کے موضوعات اور تکنک کو بھی پریم چند نے اپنے اندر جذب کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی اظہار کیا ہے کہ ابتدا میں ان کی تحریروں میں داستان کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ خاص طور سے خیال آرائی اور رومانیت کی چھاپ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قصوں میں مافوق الفطرت کردار ، غیر حقیقی وقوعات، اوہام پرستی اور تصوراتی ماحول کے ساتھ ساتھ داستان کی طرح مبالغہ آرائی، تصنع، تکلف اور لمبی لمبی عبارتیں ملتی ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں پریم چند کے پہلے طویل قصے ’’اسرارِ معبد‘‘ کو خصوصی طور پر حوالہ بنایا ہے۔ اس کا مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے تجزیہ کیا ہے۔ ان کے تجزیاتی دلائل اور برہان اتنے مضبوط اور حقائق پر مبنی ہیں کہ ان کے بیشتر خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ شکیل الرحمن ’’اسرارِ معبد‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’یہ قصہ ہر لحاظ سے کمزور ہے، اسے ناول کہنا بھی غالباً مناسب نہ ہو گا۔ ’’فسانۂ آزاد‘‘ جیسا طویل قصہ ہے، اس کی کہانی کا کوئی معیّن رُخ نہیں ہے، جیسے جیسے ذہن میں باتیں آتی گئی ہیں لکھتے گئے ہیں۔ عریاں نگاری بھی کی ہے، داستان نگاری کی طرح پلاٹ کی تشکیل کے قائل نظر نہیں آتے، اگر چہ بعض کرداروں کے جذبات میں نظر ملتی ہے لیکن کہانی میں کسی قسم کی کوئی گہرائی یا پیچیدگی نہیں ہے، قصے کے کردار سماجی زندگی کے نمائندے ہیں اور لکھنے والے کی روح کسی قدر بے چین محسوس ہوتی ہے لیکن ان کے باوجود اسے قصوں میں کوئی جگہ حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘
جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ان کو جہاں جہاں عیوب دکھائی دیئے ہیں ان کا برملا اظہار کیا ہے اور جس جس ناول میں انھیں اچھائیاں ملی ہیں ان کو بھی فراخدلی کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔ لہٰذا انھوں نے ’’اسرارِ معبد‘‘ پر اس لئے سخت تنقید کی کہ اس میں داستانی رومانیت اور وقوعات کے چربے کے با وصف داستان کی جو اہم خوبیاں ہوتی ہیں وہ نا پید ہیں۔ یعنی’’نقل بمطابق اصل‘‘ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پریم چند نے جہاں جہاں داستان کے اچھے اثرات کو اپنے اندر جذب کر کے اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے وہاں وہاں وہ سر خرو ہوئے ہیں۔ بہ ایں ہمہ شکیل الرحمن پریم چند کے ناولوں کو اردو کے بڑے ناولوں میں شمار نہیں کرتے۔ رقمطراز ہیں :
’’داستان کی رومانیت سے پریم چند نے جو اچھے اثرات قبول کیے انھیں ’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ ،’’جلوۂ ایثار‘‘ ،’’بیوہ‘‘ ، ’’نرملا‘‘ ، ’’پردۂ مجاز‘‘ ، ’’بازارِ حُسن‘‘ ، ’’چو گانِ ہستی‘‘ ، ’’میدانِ عمل‘‘ اور ’’غبن‘‘ میں پایا جا سکتا ہے۔‘‘ ان ناولوں میں رومانی انداز نظر ملتا ہے، کرداروں کو جذبات کا پیکر بنانا، ان کی بعض انفرادی خصوصیات سے دلچسپی لینا، واقعات سے تجس اور بے چینی کو بڑھانے کی کوشش، افراد کی جذباتی پیچیدگیوں کو بعض سطحوں پر سمجھانا، جذباتی کشمکش اور اضطراب کی تصویر کشی۔۔۔ یہ باتیں اہم ہیں، حقائق زندگی اور معاشرتی قدروں کا احساس موجود ہے، طبقاتی زندگی کے نشیب و فراز ملتے ہیں، لیکن یہ بڑے ناول نہیں، ان کی تاریخی اہمیت زیادہ ہے۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے پریم چند کے دس ناولوں کا تجزیہ اختصار مگر مربوط انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے کافی محنت، لگن اور تجسس کے ساتھ ان ناولوں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کا حاصل مطالعہ اس کتاب کی وساطت سے ہم تک پہنچایا ہے۔ ’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ ، ’’جلوۂ ایثار‘‘ ، ’’بیوہ‘‘ اور ’’بازارِ حُسن‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے بارے میں کہا ہے کہ :
’’ان ناولوں کا فطری ارتقا نہیں ہوتا، اصلاحی نقطۂ نظر حاوی نظر آتا ہے، طویل مکالمے پریشان کن بن جاتے ہیں۔ مکالموں میں تصنع فطری کیفیتوں کو ابھر نے نہیں دیتا۔ سنسنی خیز واقعات سے بھی کوئی تاثر نہیں ملتا... بات یہ ہے کہ پریم چند جب چاہتے ہیں فطری اور داخلی تبدیلی دکھا دیتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی پس منظر نہیں ہوتا، فنکار اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ فنی نقطۂ نظر سے انھیں کوئی مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ پریم چند کے مطالعے میں تاریخی منزلوں کو سمجھنے کے لیے ان کا ذکر ضروری ہے۔‘‘
’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات صرف تین سطور میں پیش کیے ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ میں آریا سماجی خیالات اور مندروں کے تماشے غور طلب ہیں۔ قدامت پسندی اور جدت پسندی کی کشمکش میں پریم چند کے جذبات کے بعض رنگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ پریما ؔ کی خاموش محبت اور دان ناتھ کی رقابت میں یہ رنگ موجود ہے۔‘‘
ان تین سطروں میں ’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ ناول پر کوئی تنقید نہیں ہے۔ جب کہ مندرجہ بالا اقتباس سے بھی اوپر کے اقتباس میں شکیل الرحمن کی جو عبارت پیش کی گئی ہے اس میں بھی دس ناولوں کی تعریف کے ساتھ ساتھ ’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ کی بھی توصیف کی گئی ہے۔
’’جلوۂ ایثار‘‘ کے بارے میں توصیف کم تنقید زیادہ ہے اور اس سے زیادہ ہدایتیں جو انھوں نے اردو اور ہندی کے ناقدین کو دی ہیں۔ مثلاً اصلاحی نقطۂ نظر کے تجزیے سے زیادہ پریم چند کے اردو اور ہندی زبانوں کے نقادوں کو بیوہ کے المیہ اور کرداروں کا تجزیہ کرنا چا ہئے تھا۔ اسی المیہ اور انہی جذبوں میں ہندوستان کا معاشرہ ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ناول ’’بیوہ‘‘ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے دو جملے تعریف کے لکھتے ہیں تو اگلے ہی جملے میں تنقید کبھی ناول پر اور کبھی ان ناقدین پرجوا س سے قبل اس ناول پر اپنا تجزیہ پیش کر چکے ہیں۔ جیسے :
’’کسی ناول کی اہمیت محض اس بات سے نہیں بڑھ جاتی کہ اس میں عہد اور وقت کی حقیقتیں مختلف صورتوں میں نمایاں ہوئی ہیں،’’بیوہ‘‘ میں قدیم اور جدید قدروں کے تصادم کے پس منظر میں کرداروں کے جذبات کے تصادم کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ پلاٹ کی بنیادی خصوصیت جذبوں کا تصادم ہے، مذہب، رسم و رواج، معیشت اور معاشرہ سب پس منظر میں ہیں اور پس منظر ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ادبی تنقید کا کام نہیں ہے، امرت رائے، پریم چند کا آئیڈیل کردار ہے جو ’’ٹائپ‘‘ بن گیا ہے، اس کا ذہن مطالعے کا مستحق ہے۔ اس لے ذہن میں المناک واقعات ہیں (بیوی اور بچے کی موت) قدروں کا تصادم، گہری سنجیدگی ہے، یہ کردار ٹائپ ہونے کے باوجود اکثر اپنے جذبات سے پہچانا جاتا ہے، جذبات اس پر غالب نہیں ہوتے، پریما ؔکی نفسیاتی کشمکش بھی توجہ طلب بنتی ہے، عورت کے روپ میں کئی خصوصیات کے ساتھ ابھرتی ہے، بیوہ ہے لیکن دیوی نہیں رہتی، المیہ کردار بن جاتی ہے شوہر کی موت کے بعد اندرونی ویرانی کا احساس دیتی ہے، کملا پرشاد کی باتیں سن کر اس کی بے قراری توجہ چاہتی ہے۔‘‘
’’بازار ِحُسن‘‘ پر بہت تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور مجموعی طور پر تجزیے کا میزان توصیف کی جانب جھکا ہوا ہے۔
’’پردۂ مجاز‘‘ پر مختصر تجزیہ پیش کیا ہے مگر سوائے ایک مقام کے از ابتدا تا انتہا اس ناول کی تعریف کی گئی ہے۔ مثلاً رومانیت ابھری ہے‘‘ ...پلاٹ کی پیچیدگی توجہ طلب ہے‘‘ ...مقصد فن پر غالب نہیں ہے‘‘ ...’’کئی فنی کمزوریوں کے باوجود ناول نئی رومانیت کی اچھی تصویر ہے۔‘‘ ...’’کرداروں کا ارتقا ہوتا ہے‘‘ زندگی کی پر اسرار کیفیتوں کو سمجھنے کا ایک رجحان ملتا ہے ... ’’اسلوب کی رومانیت میں بھی کشش محسوس ہوتی ہے۔‘‘
’’نرملا‘‘ کا تجزیہ تین صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ناول کے بارے میں دیگر ناقدین کی آراء کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جن باتوں کی کمی ناقدین نے محسوس کی ہے دراصل انھیں کے فقدان ہی سے ناول ’’نرملا‘‘ اہمیت اختیار کرتا ہے۔ آگے چل کر مزید رقمطراز ہیں۔ ’’پریم چند نے المیہ کو، سماجی عمل، کی صورت میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور یہی اس ناول کا حسن ہے۔‘‘ صرف یہی نہیں اس ناول کی وکالت کرتے ہوئے ڈاکٹر قمر رئیس کے ان خیالات سے اختلاف کیا ہے جو انھوں نے ناول ’’نرملا‘‘ کے بارے میں پیش کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے ’’نرملا‘‘ کی اس حد تک حمایت کی ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر قمر رئیس سے یہ بھی گلہ کیا کہ ’’اسے ایک ہلکا پھلکا ناول کہہ کر رہ گئے۔‘‘ گویا شکیل الرحمن ناول ’’نرملا‘‘ کو ’’ہلکا پھلکا‘‘ ناول نہیں سمجھتے بلکہ بھاری بھر کم اور دقیق بحث کا متقاضی تصور کرتے ہیں۔ اس ناول کی توصیف میں ان کا آخری جملہ ’’اس مختصر ناول میں معاشرے کا تضاد فنکارانہ طور پر پیش ہوا ہے۔‘‘
انھوں نے ناول ’’گوشۂ عافیت‘‘ کی بھی شروع سے آخر تک تعریف کی ہے اور ناقدوں کو مشورہ دیا ہے کہ کہاں کہاں انھیں اس ناول کے تجزیے کے دوران توجہ دینی چاہئے تھی۔ اس ناول پر اظہار خیال کے دوران پہلے پیرا گراف کے آخر میں یہ لکھا ہے :
’’سمجھوتہ بازی، شخصی اصلاح اور گنا ہوں پر نادم ہونے کی باتیں ملتی ہیں، یہ پریم چند کی بنیادی کمزوریاں ہیں، جو کئی ناول میں فنی اقدار کو مجروح کرتی ہیں۔ جذبات میں ایسی باتوں کا پر چار کر نے لگتے ہیں۔‘‘
البتہ ’’ہم خرماں وہم ثواب‘‘ ، ’’جلوۂ ایثار‘‘ ، ’’بیوہ‘‘ اور بازارِ حُسن‘‘ کی طرح ناول ’’میدانِ عمل‘‘ کو بھی اعلی معیاری ناول قرار نہیں دیا ہے۔ بلکہ خاصی تنقید کی ہے۔
’’چو گانِ ہستی‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے پریم چند کی رائے سے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ:
’’گؤدان‘‘ کی تخلیق سے قبل پریم چند نے ’’چو گان ہستی‘‘ کو اپنا بہترین ناول سمجھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ کئی لحاظ سے ’’چو گانِ ہستی‘‘ ، ’’گؤدان‘‘ سے عمدہ ناول ہے۔‘‘
اسی طرح ’’گؤدان‘‘ پر جب لکھتے ہیں تو شروع سے آخر تک اس کی توصیف اسی طرح کرتے ہیں جس طرح ایک بڑے ناول کی کرنی چاہئے۔ وہ اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اتنی تعریف کرتے ہیں کہ اس ناول کو قاری ایک بڑا ناول سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک رخ تو یہ ہے اور دوسرا رخ یہ ہے :
’’فنی اور تعمیری نقائص پریم چند کے ناولوں میں موجود ہیں۔ طوالت اور خیر منطقی اور غیر نفسیاتی ارتقا سے ان کے بعض ناول بہت اچھے بننے سے محروم ہو گئے ہیں۔ واقعات میں کسی قسم کی کوئی طلسمی گرفت محسوس نہیں ہوتی۔ غیر ضروری تفصیلات اور پیچیدگیوں سے تعمیر ماجرا کو صدمہ پہنچتا ہے۔ عزیز احمد نے درست کہا تھا کہ ’’پریم چند اخلاقی، معاشی، ذہنی، نفسیاتی ہر قسم کی اصلاح ہر فرد اور ہر کردار پر اس طرح زبردستی عائد کرتے ہیں کہ نفسیات اس کی متحمل نہیں ہوتی۔‘‘ (صفحہ۲۹)
شکیل الرحمن کے تجزیوں کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پریم چند ناول نگار تو ہیں مگر بڑے ناول نگار نہیں۔
انتقادی اصولوں میں ایک اصول یہ ہے کہ جب کسی فن پارے کا تجزیہ کرنا مقصود ہو تو یہ نظر میں رہنا چاہئے کہ زیر بحث فن پارے کی تخلیق کب ہوئی؟ جس زبان و ادب میں اس فن پارے کی تخلیق ہوئی وہ اس زبان و ادب کا ابتدائی دور تھا یا متوسط دور یا مابعد متوسط دور سے اس کا تعلق ہے یا وہ پارہ اس زبان کے عہد زریں میں معرض وجود میں آیا۔
منشی پریم نے جب یہ ناول لکھے تو اس صنف کی روایت غیر مستحکم تھی۔ اردو ناول ابھی اپنے خدوخال اور ڈھانچے کو مکمل طور پر تشکیل نہیں دے پایا تھا۔ چند لوگ تھے جو ناول نویسی کی طرف مائل تھے اور اپنی تخلیق بساط کے مطابق ناول کی شکل و صورت اور نک سک کو جمال و کمال، تکنیک و تدوین اور اسلوب کی چمک دمک دینے میں کوشاں تھے۔ انھیں میں پریم چند بھی تھے جو بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ناول لکھ رہے تھے۔ پریم چند کے سامنے اردو میں کوئی مکمل، جدید اور ہرخامی سے پاک کوئی ناول کی مثال موجود نہیں تھی۔ خاص طور سے ان خامیوں سے پاک کوئی نمونہ نہیں تھا جو شکیل الرحمن کو پریم چند کے ناولوں میں نظر آئیں اور جن کو انھوں نے سختی سے اپنی گرفت میں لیا ہے۔ البتہ دوسری زبانوں کے ناولوں اور افسانوں کے نمونے ان کے پیش نظر رہے ہوں گے۔ مگر تخلیقی تکنیک کے انجذاب کا عمل دقت طلب ہی نہیں وقت طلب بھی ہے۔ کسی دوسری زبان و ادب سے استفادہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسری زبانوں کے شہ پاروں کو ہو بہو پیش کر دیا جائے بلکہ ان میں سے کچھ چیزوں کو لے کر اپنی روایتوں کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی سہل کام نہیں۔ اس کام میں وقت تو لگتا ہی ہے مگر اس میں نا کامی کے امکانات بھی ہوتے ہیں بلکہ زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر منشی پریم چند کی ناول نویسی کا مجموعی جائزہ نہ انھیں نا کام ثابت کرتے ہیں اور نہ ان کے ناولوں کا معتدبہ حصہ مایوس کرتے ہیں۔
میں تنقید اور احتساب میں رعایت کا قائل نہیں ہوں مگر اصول اور تقاضوں کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر، تہذیبی تناظر اور ثقافتی اقدار کو سامنے رکھ کر تخلیق کی پرکھ اور جانچ کا قائل ہوں۔ ۱۹۶۰ء میں جس قسم کے ناول لکھے جا رہے تھے وہ یقیناً پریم چند کے زمانے کے ناولوں سے مختلف اور عصری ماحول شناسی کے لحاظ سے بہت جدید تھے۔ لہٰذا ان جدید ترین ناولوں کو سامنے رکھ کر اگر پریم چند کی ناول نگاری کا تجزیہ کیا جائے گا تو نتیجہ حوصلہ افزا نہیں نکلے گا۔ ہر تخلیق کو اس کے عہد کے چوکھٹے پر رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ اس صنف کی روایت اور ترقی کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ شکیل الرحمن نے پریم چند کے ناولوں کو بڑے ناول ماننے سے انکار کیا ہے مگر جا بجا تنقید کے دوش بدوش بہت فراخدلی کے ساتھ توصیف بھی کی ہے۔ لیکن انھوں نے یہ کہیں نہیں بتایا کہ بڑے ناول کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں ؟ پہچان اور معیار کیا ہیں، وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے کوئی ناول بڑا ناول کہلاتا ہے اور نہ کوئی مثال پیش کی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ شکیل الرحمن نے بڑی جانفشانی کے ساتھ ناول نگار پریم چند کو پڑھا اور ان کو بڑا ناول نویس نہ مانتے ہوئے بھی وہی اہمیت اور احترام عطا کیا ہے جو ایک بڑے لیکھک کو ملتا ہے۔ ان سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر ان کے اخلاص، امنگ، ترنگ اور للک سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی ان کی تنقید کی بلندی اور ان کی شخصیت کی بڑائی ہے۔
پریم چند کی افسانہ نگاری
زیر نظر کتاب ’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ میں انھوں نے زیادہ تفصیل اور زیادہ انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پریم چند کے افسانوی فن کی تنقید اور تجزیے کا ایمانداری سے حق ادا کر دیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں کے مطالعے اور تجزیے ایسی وقت نظری کے ساتھ پیش کیے ہیں کہ اس سے پہلے ایسی عرق ریزی کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔ اس قسم کی کوشش اس بات کو نشان زد کرتی ہے کہ وہ صرف شاعری ہی کے نباض نہیں بلکہ فکشن کے بھی گہرے رمز شناس ہیں۔
انھوں نے پریم چند کی افسانہ نگاری کے فن کا تجزیہ عام روش سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔ یہ بڑا مشکل اور عرق ریزی کا کام تھا جسے شکیل الرحمن نے اپنی مستقل مزاجی، انہماک، تجسس، مطالعاتی تحمل و تصرف اور کچھ کر دکھانے کے جذبے کے توسط سے آسان کر لیا ہے۔
شکیل الرحمن کی نقد نگاری کی جو سب سے بڑی اور نمایاں شناخت ہے وہ جمالیاتی فلسفے سے گہرا ربط رکھنا، اس سے منسلک رہ کر اپنے خیالات پیش کرنا اور ساتھ ہی ساتھ فلسفۂ جمالیات کی جدید و قدیم اقدار اور افعال کی آبیاری میں مگن رہنا ہے۔ انھوں نے نہ صرف جمالیات کو اپنے انتقادیات کی رگوں میں سرایت کر دیا ہے بلکہ اس موضوع پر توجہ سے کام بھی کیا ہے۔ انھوں نے جمال پرستی اور جمال آرائی پر بہت وافر انداز میں لکھا ہے۔ اس شعبے سے متعلق ان کے تحقیقی اور تنقیدی کارناموں کو اردو کے قد اور ناقدین نے سراہا بھی ہے۔ ان کی زیر نظر کتاب کی تنقیدی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ انھوں نے اپنی تنقید میں کئی طرح کے تجربے کیے ہیں اور ان تجربوں میں انھیں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے بر صغیر کی قدیم و جدید روایتوں کو کھنگال کران میں موجود کام کے عناصر کو اپنا یا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی ادب، فلسفہ، سائنس، سماجیات اور دیگر علوم سے بھی خود کو بہرہ اور رکھا ہے۔ ان کے یہاں تنقیدکے مختلف رویے اور مکاتب فکر کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ بہت نمایاں سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انھوں نے ان کی نقل کر نے کی کوشش کی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ ان کی تنقید بہت انفرادیت کی حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن جن زبان و ادب اور علوم کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے ان کو اپنے اندر جذب کر کے ان کے امتزاج اور اپنی استعداد کو ملا کر ایک نئی اور بڑی حد تک اچھوتی روش اور اسلوب کی تخلیق کی ہے۔ ان کے یہاں تنقید کا امتزاجی رجحان ملتا ہے۔ انھوں نے جس فنکارانہ اور عالمانہ انداز میں منشی پریم چند کے افسانوں کے اجزاء سے بحث کی ہے اور جس عمق میں جا کر پریم چند کے تخلیقی جواہر پاروں کی بظاہر نا یافت خصوصیات کو یافت کے منطقے پر متمکن کیا ہے وہ ان کے تنقیدی اُپج کا کمال ہے۔ انھوں نے نفسیات، بشریات، جنسیات، عمرانیات، لسانیات اور ساختیات جیسے شعبوں کے عمیق مطالعہ کو کام میں لاتے ہوئے افسانوں اور ان کے کرداروں نیز موضوعات کا تجزیہ کر نے کی کوشش کی ہے وہ ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے۔ خاص طور سے جمالیاتی رنگ و روغن نے ان کی تنقید کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔
انھوں نے ’’ادبی قدریں اور نفسیات‘‘ (پہلی کتاب)‘‘ ہند اسلامی جمالیات‘‘ ، ’’غالب کی جمالیات‘‘ ، ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ ، ’’میرشناسی‘‘ ، ’’تصوف کی جمالیات‘‘ ، ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘ ، ’’مولانا رومیؔ کی جمالیات‘‘ ، ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ ، ’’ہندوستان کا نظام جمال :بدھ جمالیات سے جما لیاتِ غالب تک‘‘ ، ’’اقبال اور روشنی کی جمالیات‘‘ ، ’’محمد اقبال‘‘ ، ’’ابوالکلام آزاد‘‘ ، ’’چراغِ دیر‘‘ ، ’’قرآن حکیم : جمالیات کا سر چشمہ‘‘ ، ’’آشرم‘‘ (آپ بیتی)، ’’دربھنگے کا جو ذکر کیا‘‘ ، (دوسری آپ بیتی) ’’اخترالایمان:جمالیاتی لیجنڈ‘‘ ، ’’فیض احمد فیض: المیہ کی جمالیات‘‘ ، ’’منٹو شناسی‘‘ ، ’’داستان امیر حمزہ اور طلسم ہو شربا‘‘ اور ’’کبیر‘‘ ان کی چند تصانیف کے نام اور ان کے ادبی و انتقادی کارناموں کے حوالے ہیں۔ ان کی نقد نگاری میں جمالیات کی وہی حیثیت ہے جو لذیذ کھانے میں نمک کی ہے۔ اعلی ترین مرغّن کھانے میں ہزاروں روپے صرف کر دیں اس سے متعلقہ جتنی چیزیں ڈال دیں، اگر اس میں نمک نہ ہو تو نہ صرف پیسہ برباد ہو گا بلکہ کھانا بھی بد مزہ اور بے کیف ہو جائے گا اور کھانے والے بھی بے مزہ ہو جائیں گے۔ نمک کی تو یہ اہمیت ہے کہ آٹا گوندھتے وقت بھی اس کا استعمال عمل میں آتا ہے۔ ’’آٹے میں نمک کے برابر‘‘ والی بات اس کا ثبوت ہے کہ آٹے میں نمک ڈالا جاتا ہے۔ میں نے تو بعض گھروں میں یہ بھی دیکھا ہے کہ میٹھی چائے میں بھی ہلکا سا نمک ڈال دیتے ہیں جس کے سبب اس کا ذائقہ عام چائے کے ذائقے سے مختلف ہو جاتا ہے۔ شکیل الرحمن کے تجزیہ و تنقید کا ذائقہ بھی اس سبب دوسروں سے مختلف ہے کہ اس میں جمالیاتی قدروں کا بہت سلیقے کے ساتھ اہتمام موجود ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ادب، مصوری، سنگ تراشی، موسیقی، مجسمہ سازی، باغبانی اور تعمیرات میں جمالیات کا عمل دخل نا گزیر ہو تا ہے اور اس کے بغیر اس شعبے کا کوئی بھی شاہکار صحیح معنوں میں شاہکار نہیں کہلا سکتا۔ اس طرح جو تخلیق کار، تخلیق کاری کے ہنر اور اس کے حسن کی ماہیت کے رمز شناس ہیں وہ اپنے فن پاروں میں حسن کاری کا خصوصی لحاظ رکھتے ہیں۔ لیکن شکیل الرحمن کا معاملہ اس باب میں مختلف ہے۔ ان کے یہاں جمالیات کا عمل دخل اس درجے پر ہے کہ وہ جمالیات کی جمالیات کی بھی کھوج لگا لیتے ہیں۔
ان کے یہاں تہذیب، ثقافت، تاریخ، مذہب، نفسیات، تصوف، جنسیات، لسانیات کی بھی جمالیات ہے۔ وہ جمالیات کا مطالعہ، وژن، فکر، تمثیل، امیجز، طبقے، فرقے، شخصیت، روشنی، اجالے، خوشبو، نسل، علم الاصنام، المیے اور طربیے میں بھی کرتے ہیں۔ وہ تو تخلیق کاری کے گریز پا لمحوں اور سوتی جاگتی ساعتوں کو بھی جمالیات کی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ وہ صرف خارجیت کے قائل نہیں بلکہ داخلیت کی سیاحت کو بھی ناگزیر تصور کرتے ہیں۔ وہ کسی دور کے صرف سماجی، سیاسی اور دیگر صورت حال ہی کو پیش نظر نہیں رکھتے بلکہ اس عہد کے انسانوں کا بھی مشاہدہ بہت عمیق اور وسیع تناظر میں کرتے ہیں اور ان کے بیرونی منظر ناموں کے ساتھ ساتھ ان کے اندرونی موسموں اور رُتوں کو بھی دیکھتے اور پر کھتے ہیں۔ ان کے ملنے جلنے، گفتگو کرنے، سوچنے سمجھنے، باہمی رویے، لین دین، بود و باش، محبت و نفرت، خواہشات و تشویقات، شکست و فتح، اخلاص و مروت، حسد و بغض، کامیابی و نا کامی، غریبی و امیری جیسے اجزائے حیات کو بھی اپنی تنقیدی جمالیات کی کسوٹی پر کستے ہیں۔ وہ کرداروں کا ذہنی مطالعہ اور موازنہ ایک مخصوص زاویے سے پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کن کن شعبوں کے کن کن فنکاروں نے اپنی زمین کی خوشبو، آب و ہوا، فن تعمیرات، موسیقی اور دیگر تہذیبی و ثقافتی قدروں کو کہاں تک اپنے اندر جذب کیا ہے اور ان کا انطباق کس طرح اپنے فن کی رگوں میں دوڑا کر کیا ہے۔ مثلاً غالب کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ہند مغل جمالیات کا وہ طرز احساس کہ جس نے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو کے ساتھ اپنی تازگی، نئے پن اور انوکھے پن کا احساس حضرت امیر خسرو کی موسیقی، تاج محل کی تخلیق اور میر تقی میر کی شاعری میں دیا تھا، غالب کی شخصیت سے جذب ہو کر انتہائی متحرک صورت میں نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور ایک کلچر کی جمالیاتی تکمیل کا احساس بخش دیتا ہے۔‘‘ (مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات۔ ص ۴۲۰)
ہندوستان میں نئے تہہ دار اور ہمہ گیر نظام جمال کی تشکیل کے حوالے سے جب گفتگو کرتے ہیں تو وسط ایشیا سے لے کر چین، عراق، مصر، ایران اور دیگر بہت سے ملکوں تک کی جاندار اور صحت مند روایتوں کی اہمیت اور اثر ونفوذ کو تسلیم کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ اس ہمہ گیر نظام جمال کے اجزائے ترکیب میں ان خطوں کے بھی اثرات موجود ہیں۔ ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’ہندوستان میں جس نئے تہہ دار اور ہمہ گیر نظام جمال کی تشکیل ہوئی اس میں وسط ایشیا، چین، ایران، عراق، مصر اور دوسرے کئی ملکوں کی اعلی اور افضل روایات شامل تھیں۔‘‘
اس اقتباس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کا نظریۂ حسن وکمال اور فلسفۂ جمالیات محدود نہیں ہے بلکہ یہ علاقائی حصاروں اور جغرافیائی دائروں سے آزاد ہے۔ انھوں نے قرآن اور ابوالکلام آزاد کی تفسیر’’ترجمان القرآن‘‘ میں بھی جمالیات کی کرشمہ سازیوں کو نشان زد کیا ہے۔
میں شاید بہت زیادہ تفصیل میں چلا گیا ہوں، یہ تفصیل اس لیے غیر ضروری نہیں ہے کہ اس کی وساطت سے میں یہ ب اور کرانا چاہتا ہوں کہ جو ناقد خطوں خطوں اور ملکوں ملکوں کی تہذیب و ثقافت، روایات، موسیقی اور دیگر شعبوں تک رسائی حاصل کر کے جواہر پارۂ جمالیات کی کشید کر سکتا ہے، اس نے پریم چند کے افسانوں، ان کے کرداروں، وارداتوں، نفسیاتی الجھنوں اور خوش رنگ تمناؤں کی لہو پیر ہنی کے سانحوں کے تجزیوں کے دوران اپنی نقد نگاری کو سیدھا اور سپاٹ کیوں کر رکھا ہو گا۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوں کو جس وسیع اور عمیق تناظر میں دیکھنے اور جانچنے کی کوشش کی ہے، وہ بزبان حال اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہاں بھی ان کا رویہ غیر جمالیاتی اور بے رنگ نہیں ہے۔ یہاں بھی وہ اسی طرح تنقیدی سولہ سنگھاروں کے ساتھ موجود ہیں جس طرح دوسرے فن پاروں کی پرکھ کے دوران موجود ہوتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے منشی پریم چند کے افسانوں کو دوسرے نقد نگاروں کے انداز نقد سے ہٹ کر اپنے خاص زاویوں سے پڑھا ہے اور پرکھا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک ایک کر کے تمام افسانوں کا غور و خوض کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ تمام افسانوں کے کرداروں کی مماثلت اور مطابقت، مفاہمت اور مخالفت، تفاوت اور قربت کا منظر نامہ تیار کیا ہے۔ موضوعات اور وقوعات کو گہری نظر سے دیکھا اور نوٹ کیا ہے، ان میں بھی جو تنوع ہے ان کو بھی اور جو یکسانیت ہے ان کو بھی نشان زد کیا ہے۔ کرداروں کی خارج بینی(Extrovertive) اور نفسی مشاہدہ (Introspective) کا بہ نظر غائر مطالعہ کر کے مماثل اور مخالف عناصر کو موازنہ کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ماحول آشنائی، وارداتی شناسائی، منظر نگاری، اضطراری کیفیت، تحمل و تکلف، بغاوت اور وفاداری کے ہزار رنگوں کو اپنی شخصیت میں جذب کیا ہے۔ پھر انھوں نے افسانوں کے براہ راست تجزیے پیش کر نے کے بجائے تمام افسانوں کے کرداروں کو دیکھا ہے اور مثالیں دے دے کر اپنے تجزیے میں جانداری اور جانکاری پیدا کی ہے۔
شکیل الرحمن نے ذیل کے عنوانات کے تحت پریم چند کی شخصیت، فن، موضوعات، وقوعات اور دیگر اجزا کو سمیٹ کر اپنے تجزیے کا گھر اور گھروندہ تعمیر کیا ہے۔ جس میں تازہ ہوا کی آمد کے لیے دریچے بھی ہیں اور جدید انتقادی لہجے اور اسلوب کے لیے دروازے بھی کھلے ہیں۔
(۱) تیسرا آدمی(۲) نفسیاتی تصادم اور جذباتی تکمیل (۳) الفاظ کی زنجیر (۴)شیش محل (۵) دہقانی (۶) پرچھائیں (۷) جال (۸) تعلیم یافتہ (۹) تیسری طاقت (۱۰) عورت۔ ۱) (۱۱) عورت۔ ۲ (۱۲) بچے کا ذہن (۱۳) بچے کی عقیدت (۱۴)ہیرو پسندی(۱۵) جذباتی تجزیہ (۱۶) ہمدردی اور غرور (۱۷) غیر محسوس متحرّک قوت (۱۸) ذہن کی چوٹ اور معصوم ارتفاعی اظہار (۱۹) جذباتی رد عمل (۲۰) المیہ (۲۱) کھلاڑی پن (۲۲) المیہ کردار (۲۳) تکنیک (۲۴) اسلوب۔
ہر عنوان پر گفتگو کرنا مشکل ہے۔ کیوں کہ یہ وقت طلب مرحلہ ہے، اس طرح ایک اور کتاب تیار ہو جائے گی جس کا متحمل میں سر دست خود کو نہیں پاتا۔ یہ مضمون ویسے بھی خاصا طویل ہو گیا ہے۔
زیر بحث کتاب ’’فکشن کے فنکار۔۔ پریم چند‘‘ کے حوالے سے ’’تیسرا آدمی‘‘ ان کی دریافت ہے۔ اس تیسرے آدمی میں اتنی تہہ داری، اتنا تنوع، اتنی وسعت اتنا عمق اور اتنی فکری و فنی تازگی ہے کہ قاری حیران رہ جاتا ہے۔ یہ تیسرا آدمی کہیں شرکا پیکر ہے تو کہیں شر سے خیر میں بدل جاتا ہے، وہ کہیں عاشق بننے کی کوشش کرتا ہے مگر ویلین بن کر رہ جاتا ہے۔ کہیں معاملہ فہم ہے تو کہیں معاملے کو بگاڑنے والے کے روپ میں نمودار ہوتا ہے۔ انھوں نے ایک منفرد انداز میں تیسرے آدمی کو ایک مرکز بنا کر ہر کہانی کو پر کھا ہے۔ انھوں نے پریم چند کے افسانوں کے موضوعات سے بھی بحث کی ہے تو اسی تیسرے آدمی ہی کے حوالے سے کی ہے۔ انھوں نے بڑی منطقیت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ معاشرے کے ہر شعبے میں اس تیسرے آدمی کی ’’شخصیت‘‘ کا عمل دخل کسی نہ کسی حیثیت میں رہتا ہے، بعض موقع پر تو اس کے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔ یہ گاؤں اور شہر دونوں جگہوں پر موجود ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا ہے تو ہم آپ خود اس تیسرے آدمی کی شخصیت کو تخلیق کر لیتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہمدرد اور بہی خواہ کے روپ میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ہمدمی اور دوستی کا پیکر بھی ہوتا ہے۔ کبھی یہ تیسرا آدمی اتنا بے لگام ہو جاتا ہے کہ سماج اس سے تنگ آ جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ خود بھی معاشرے سے بیزار ہو جاتا ہے۔ جب وہ منفی صورت میں سامنے آتا ہے تو تباہی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ یہ خوشامدی بھی ہوتا ہے اور سازشی بھی۔ مصلحت کیش بھی ہوتا ہے اور معاندانہ روش بھی اختیار کرتا ہے۔ غرض اس ایک ’’تیسرے آدمی‘‘ میں تیس ہزار آدمی کی جلوہ سامانی ہوتی ہے۔ گھریلو زندگی میں دلچسپی لیتا ہے تو فتنہ پردازی، رقابت، فریب کاری اور گھناؤنی حرکتوں کی ایسی ایسی مثالیں پیش کرتا ہے کہ خوشگوار تعلقات کی چادر میں درک، محبت کے پاکیزہ جذبات میں ملاوٹ، قربت میں فاصلے، یقین میں گمان، پرامن اور پرسکون ماحول میں بد امنی اور ہلچل کو مہمیز لگاتا ہوا پایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے بچھائے ہوئے جال، ڈھالی ہوئی خود غرضی کی زنجیر اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی رت بدل بھی جاتی ہے اور اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ انھوں نے پریم چند کے افسانے ’’دو سکھیاں‘‘ کے کردار بھونؔ موہن داس گپتا، ونود (پد ما کا شوہر) اور پد ما کے خارجی اور داخلی رویوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بھون کا تیسرا آدمی ہونا ثابت کیا ہے کہ وہ کس ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ونو د اور پدما کے باہمی رنجشوں کو مزید بڑھانے اور اپنے لیے راستہ ہموار کر نے کی کوشش کرتا اور کس طرح اسے شکست فاش ہوتی ہے۔ بھون کس انداز سے لفظوں کی زنجیر پھینکتا ہے، اور کس طرح یہ زنجیر ٹوٹتی چلی جاتی ہے، مکالموں اور پدما کی خود کلامی کی وساطت سے واضح کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
اگر میں تنہا ہوتی تو کبھی نہ روتی، مگر بھون کے سامنے اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی۔‘‘
شکیل الرحمن لکھتے ہیں :
’’یہ تیسرا آدمی اسی لمحے کی تلاش میں ہوتا ہے۔‘‘
’’بھون نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ نا حق اس قدر غم کرتی ہیں، مسٹر ونود خواہ آپ کی قدر نہ کریں مگر دنیا میں کم از کم ایک ایسی ہستی بھی ہے جو آپ کے اشارے پر جان تک نثار کر سکتی ہے۔ آپ جیسا گراں بہار تن پا کر دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو اپنی قسمت پر نازاں نہ ہو گا، آپ قطعی فکر نہ کریں۔‘‘
شکیل الرحمن فرماتے ہیں : ’’پدما بھون کی باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا، اپنی نفسیاتی پیچید گیوں کو اچھی طرح سمجھ رہی تھی، بھونؔ کی یہ بات اسے سخت نا گوار گزرتی ہے۔ غصے سے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے، تیسرا آدمی پدماؔ کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور پدما کو اپنی ذات سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔ سوچتی ہے :
’’ابھی شادی ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا اور میری یہ حالت ہو گئی کہ دوسروں کو مجھے بہکانے اور مجھ پر اپنا جادو چلانے کا حوصلہ ہو رہا ہے۔‘‘
شکیل الرحمن لکھتے ہیں :
’’خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ آنسو پونچھتے ہوئے (بھون سے ) کہتی ہے :‘‘
’’میں آپ سے معافی کی خواستگار ہوں، ذرا آرام کر نے دیجئے،‘‘
شکیل الرحمن لکھتے ہیں :
’’یہ تیسرا آدمی اس نازک اور غنیمت لمحے کو جانے دینا نہیں چاہتا، لہٰذا اپنے الفاظ کی زنجیر پھینکتا ہے :‘‘
’’ہاں ہاں، آپ آرام کریں، میں بیٹھا رہوں گا۔‘‘
شکیل الرحمن رقمطراز ہیں : ’’زنجیر کی ایک کڑی اس طرح ٹوٹتی ہے۔‘‘
’’جی نہیں، آپ مہربانی فر ما کر تشریف لے جائیں، اس طرح مجھے آرام نہ ملے گا۔‘‘
شکیل لکھتے ہیں :
’’وہ زنجیر اس طرح پھر آگے بڑھتی ہے :‘‘
’’بہت اچھا آپ آرام کریں، میں شام کو آ کر دیکھ جاؤں گا۔‘‘
شکیل الرحمن لکھتے ہیں :
’’دوسری کڑی بھی ٹوٹ جاتی ہے :‘‘
’’جی نہیں، آپ کو تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں ...‘‘
شکیل الرحمن بتاتے ہیں :
’’اس طرح باقی دوسری کڑیاں بھی ٹوٹنے کو تیار ہیں، تیسرا آدمی ہمت کر کے کہتا ہے :
’’اچھا تو میں کل آؤں گا، شاید راجہ صاحب بھی تشریف لائیں۔‘‘
’’نہیں، آپ لوگ میرے پیغام کا انتظار کریں، بغیر بلائے نہیں آیئے گا۔‘‘
شکیل الرحمن رقمطراز ہیں :
’’باقی ساری کڑیاں اس چوٹ سے ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ تیسرے آدمی کے سامنے پدما ایک معمہ بن جاتی ہے۔ چلا جاتا ہے لیکن دو تین بار آ کر پھر اسی ماحول کا خواہش مند نظر آتا ہے، پدما ملنے سے صاف انکار کر دیتی ہے اور تیسرا آدمی ہلچل پیدا کر کے گم ہو جاتا ہے۔‘‘
شکیل الرحمن نے بڑی تفصیل سے اس تیسری شخصیت کا تعارف کرایا ہے، اس کے خصائص بیان کیے ہیں اور اس کے ایک رنگ میں سو رنگ دکھانے کی ماجرائیت بیان کی ہے۔ ان سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں مگر یہ تحریر و تعارف پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں یہاں ان کے طویل مقالے سے صرف ایک اقتباس پر اکتفا کروں گا تاکہ آپ اس ’’تیسرے آدمی‘‘ کی شخصیت کے بارے میں خود شکیل الرحمن کے اپنے الفاظ میں جان سکیں :
’’تیسرا آدمی‘‘ ، ’’خواجہ اہل فراق‘‘ بھی ہے اور ’’خضر راہ‘‘ بھی، رقیب بھی ہے اور دوست بھی، اس کی دوستی اور رقابت دونوں سے قصۂ آدم رنگین بنتا ہے۔ کشمکش اور تصادم کے بغیر زندگی اور فن دونوں کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوتا اور اسی کے لہو کی گرمی سے یہ کشمکش بڑھتی ہے، ہم اسے ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے اس لیے بھی کہ ہیرو کے روایتی تصور کو ابھی تک عزیز رکھے ہوئے ہیں، یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو عموماً یہی ہوتا ہے۔ ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وہ کچھ اور لمحوں کو کشمکش اور تصادم کے قریب کرتا رہے، اس کی شکست سے اگر دوستی، خلوص اور محبت کی شکست ہو گئی تو ہمیں دکھ بھی ہوتا ہے اور اگر رقابت، دشمنی اور جارحانہ عمل کی شکست ہوئی تو ہمیں ذہنی اور نفسیاتی سکون ملتا ہے، محسوس ہو یا نہ ہو ہر شخص کسی نہ کسی لمحے تیسری شخصیت کا روپ اختیار کرتا ہے، در اصل ہم اس کی شخصیت میں اپنی بعض جبلتوں، بنیادی ہیجانات اور جذبات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ان جبلتوں، جذبوں اور ہیجانوں کے اظہار کو دیکھ کر شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی ذات سے دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی جذباتی زندگی کی تکمیل کے خواہش مند ہوتے ہیں۔‘‘
شکیل الرحمن مغربی ادب میں بھی اس تیسرے آدمی کو تلاش کرتے ہوئے شیکسپئیر کے ڈرامے ’’رومیو اور جیولیٹ‘‘ میں پیرسؔ اور ’’جولیس سیزر‘‘ میں مارکس انٹیونی کو تیسرے آدمی کے روپ میں پاتے ہیں بلکہ خود بروٹس بھی بعد کو تیسرے آدمی کا روپ دھار لیتا ہے۔ ان کایہ کہنا حقیقت افروز ہے کہ ’’بن ہُر‘‘ ، ’’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘‘ ، برادر کراموزوف‘‘ ، ’’مادام بواری‘‘ اور اردو ادب میں ’’خدا کی بستی‘‘ ، ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور دیگر ڈراموں، ناولوں اور افسانوں میں تیسرے آدمی کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اسی حوالے سے ان کا یہ خیال درست ہے کہ بعض کہانی یا ناول میں کرداروں کے عمل اور رد عمل میں اس تیسرے آدمی کی شناخت کبھی کبھی دشوار ہو جاتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا سہل نظر نہیں آتا کہ کسے ’’تیسرا آدمی‘‘ کہا جائے، فکشن میں تیسرا آدمی دراصل ایک تحریک کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک ہی ڈرامہ یا کہانی میں یہ کئی کرداروں کا مقدر ہو جاتا ہے۔ کچھ کردار کبھی اس حالت میں اپنے آپ کو پاتے ہیں کہ خود سے الجھ جاتے ہیں۔ البتہ پلاٹ کے تناظر اور ماجراؤں کی وسعت کے ساتھ ساتھ تیسرے آدمی کی وقعت و اہمیت اجاگر ہوتی جاتی ہے۔ اس کی شخصیت کی پیچ در پیچ تہیں کھلتی جاتی ہیں۔
اسی طرح شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانے ’’گھاس والی‘‘ میں موجود تیسرے آدمی یعنی چین سنگھ کا...رویہ، خواہش، جوش، تکبر کا... بڑی خوبصورتی اور موثر انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے۔ چین سنگھ زمیندار ہوتا ہے اور مال و دولت میں کھیلتا رہتا ہے۔ اس کے بارے میں شکیل الرحمن نے اپنے مخصوص تبصرے اور افسانے سے اقتباسات کے ذریعہ بتایا ہے کہ کس طرح چین سنگھ ملیا اور اس کے شوہر مہا بیر کے درمیان آ جاتا ہے اور کس طرح وہ ملیاؔ کو اپنے جال میں پھنسا نے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ملیاؔ کے ایک جملے سے اس کی شخصیت بدل کر رہ جاتی ہے۔ وہ جارحیت، دھول دھپہ اور پیش دستی کے بجائے بہت نرم اور بڑی حد تک ہمدردانہ برتاؤ کر نے لگتا ہے۔ ملیاؔ کی محبت اس کے دل میں زندہ تو رہتی ہے مگر اسے حاصل کر نے کی خواہش نہیں رہتی بلکہ اس کی تمنا یہ رہتی ہے کہ ملیا گھاس کاٹنا ترک کر دے اور بیچ بازار میں اسے بیچنا بھی چھوڑ دے اور گھر میں سکون و اطمنان کے ساتھ اپنے شوہر مہابیر کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ اس لیے وہ مہا بیر کی مالی مدد کرنا چاہتا ہے اور ملیا کے پتی مہا بیر سے کہتا ہے :
’’میری ایک صلاح مانو، عزت ہماری اور تمہاری ایک ہے، تم مجھ سے ایک روپیہ روز لے لیا کرو، بس، جب بلاویں تو یکہ لے کر آ جاؤ، تب تو تمہاری گھر والی کو گھاس لے کر بازار نہ آنا پڑے گا، بولو منظور ہے۔‘‘
چین سنگھ کی ان باتوں پر شکیل الرحمن نے ایک ماہر نفسیات کی طرح اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اس جملے میں حسرت بھی ہے اور آرزو بھی، اذیت کو لذت آمیز مسرت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اب دھندلی روشنی میں ملیاؔ کی مٹتی ہوئی تصویر اطمینان سے دیکھ رہا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی شخصیت کے ’’چڑھاؤ اور اتار‘‘ کردار کی نفسیاتی الجھن اور اس کی جذباتی زندگی کی تکمیل کی خواہش پریم چند کے فن کی عظمت کا ثبوت ہے۔‘‘
چین سنگھ سے ملتا جلتا ایک اور ’’تیسرا آدمی‘‘ پریم چند کی کہانی ’’نگاہِ ناز‘‘ میں بھی موجود ہے۔ روپ چند اگر چہ شادی شدہ ہوتا ہے اور کئی بچے کا باپ بھی۔ کافی پڑھا لکھا اور نامور آدمی ہوتا ہے مگر وہ کامنی ؔپر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتا ہے۔ کامنی بھی شادی شدہ ہوتی ہے مگر روپ چند سے تعلقات ہموار کر لیتی ہے۔ اسے اپنی وفا کا یقین دلاتی رہتی ہے۔ مگر جب ایک رات کامنی کے بلانے پر روپ چند پچھلے دروازے سے داخل ہوتا ہے تو کامنی کا بڑا بھائی اسے دیکھ لیتا ہے اور ہا تھا پائی کے بعد اسے چور سمجھ کر پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔ روپ چند عدالت میں بتاتا ہے کہ وہ کامنی کے بلانے پر اس کے گھر گیا تھا وہ چور نہیں ہے اور یہ کہ اس کے اور کامنی کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن جب محبت میں آزمائش کا وقت آتا ہے تو بد نامی سے بچنے کے لیے کامنی عدالت میں ایسا بیان دیتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روپ چند اس کے لیے ایک اجنبی ہے جو چوری کے غرض سے اس کے گھر میں داخل ہوا تھا اور پکڑا گیا۔ لیکن عدالت کی کار روائی کے دوران افسانہ ’’گھاس والی‘‘ کے ’’تیسرے آدمی‘‘ چین سنگھ کی طرح روپ چند کے دل میں بھی کامنی کی محبت اور بڑھ جاتی ہے اور اس کے بدنام ہو جانے کا خیال آ جاتا ہے۔ اور سماجی بندھنوں میں جکڑی ہوئی عورت پر اسے رحم آ جاتا ہے اور اس کو بچانے کے لیے وہ اپنے خط و کتابت کے بیا ن پر مضبوطی سے قائم نہیں رہتا اور کامنی کے بیان کی تردید نہیں کرتا اور سارا الزام خود پر ڈال کر پانچ سال کی قید با مشقت کی سزا قبول کر لیتا ہے۔ لیکن پریم چند نے اپنی تخلیقی فعالیت اور جوہر نبوغ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں ’’تیسرے آدمی‘‘ (چین سنگھ اور روپ چند ) کا فنی ارتقا و مختلف ماحول اور ماجراؤں میں کیا ہے۔ لیکن محبت اور وفاداری کی عظمت کی پاس داری دونوں کی شخصیت کا قابل قدر حصہ ہے۔
’’نگاہ ناز‘‘ کا تجزیہ بے شک شکیل الرحمن نے محنت اور دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔ کہانی کے ماحول،کرداروں کی ذہنی کیفیات اور وقوعات کی تجزیاتی عکاسی بھی بہت انہماک سے کی ہے، مگر ایک چیز ان سے نظر انداز ہو گئی جہاں ان کی تنقید کی سرچ لائٹ نہ پہنچ سکی۔ افسانہ ’’نگاہِ ناز‘‘ کی مکمل ماجرائیت اور صورت حال کو نگاہ میں رکھیں تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ روپ چند، کامنی اور اس کے شوہر گوپال کی ازدواجی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک مکمل ’’تیسرا آدمی‘‘ کا کردار بن کر سامنے آتا ہے۔ مگر اس میں خود کا منی بھی شریک ہے کیوں کہ معاشقہ ایک طرفہ نہیں ہوتا۔ جب کہ ’’دو سکھیاں‘‘ میں بھونؔ موہن داس گپتا... ونو د اور پدما۔۔ کی ازدواجی زندگی میں مکاری سے داخل ہونا چاہتا ہے جسے پدما پسند نہیں کرتی اور تیسرے آدمی کو نا کامی ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ زمینداری اور طاقت کے زعم میں ...ملیاؔ اور مہابیرؔ... کے بیچ دیوار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ جسے ملیا سختی سے مسترد کر دیتی ہے بلکہ اس تیسرے کی شخصیت ہی بدل جاتی ہے۔ اس کے برعکس روپ چند...گوپال اور کامنی ...کے درمیان زبردستی اور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے درمیان نہیں آ جاتا اور نہ اسے پدما اور ملیا کی طرح کامنی مسترد کرتی ہے۔ بلکہ وہ اس حد تک روپ چند پر ریجھ جاتی ہے کہ اپنے شوہر کو نظر انداز کر دیتی ہے بلکہ بے وفائی پر اتر آتی ہے۔ افسانہ یہ بتا رہا ہے کہ بے وفائی اور مصلحت کوشی کامنی کی فطرت کا حصہ ہے۔ بے وفائی کا یہی رویہ کامنی عدالت میں اپنے آشنا روپ چند کے خلاف بیان دے کر اختیار کرتی ہے۔ اس طرح کامنی خود ’’تیسرے آدمی‘‘ کی حیثیت سے نمایاں ہوتی ہے۔ روپ چند تو ’’تیسرا آدمی‘‘ بن کر بھی تیسرا آدمی نہیں رہتا بلکہ بھونؔ موہن داس گپتا اور چین سنگھ کی طرح محبت پر قائم رہ کر وفاداری کی مثال بن جاتا ہے۔ جب کہ کامنی کا کردار آخر وقت تک ’’تیسرے آدمی‘‘ ہی کا رہتا ہے۔ وہ بھی افسانہ ’’ستی‘‘ کے ’’تیسرے آدمی‘‘ راجہؔ کی طرح اپنے آپ کو بدل نہ سکی۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شکیل الرحمن ’’نگاہِ ناز‘‘ کے اس تیسرے آدمی کو اپنی ’’نگاہِ تنقید‘‘ کے دائرے میں نہ لے سکے۔ جو بہت ضروری تھا۔ خود پریم چند نے اس افسانے کا عنوان اسی لئے رکھا تھا کہ وہ کامنی کے کردار کو نشان زد کرنا چاہتے تھے۔
سب سے دلچسپ تیسرا آدمی پریم چند کے افسانے ’’حقیقت‘‘ میں موجود ہے۔ اس میں ایک ہیرو ایک سچا عاشق رقابت کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔ امرت اور پور نما ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے مگر پور نما کے والدین ایک مغرور، بد مزاج اور بوڑھے شخص کے قرضدار ہوتے ہیں لہٰذا قرض کے دباؤ کے سبب پور نما کے والدین اس کی شادی اسی بد مزاج اور مغرور آدمی سے کر دیتے ہیں۔ اس طرح امرت کی آشاؤں کا محل زمین بوس ہو جاتا ہے۔ بعد میں وہ بھی شادی کر لیتا ہے مگر وہ پور نما کو بھلا نہیں پاتا۔ جب کہ عمر دراز شوہر سے شادی کے بعد وہ ایک مشرقی لڑکی ہونے کے تحت صبر کر لیتی ہے اور اپنی اسی بے آرزو زندگی کو آرزو مند بنا کر اس بوڑھے شوہر کے کئی بچے کی ماں بن جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ پور نما بیوہ ہو جاتی ہے تو امرت کو اطمینان ہوتا ہے اور وہ پھر ماضی کے جنگل میں گھومتا ہوا پچھلی محبتوں کے رنگین دنوں کو تازہ کر لیتا ہے۔ مگر پور نما اب سب کچھ بھول چکی ہے۔ بس وہ خود کو ایک مرحوم پتی کی بیوہ پتنی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی ہے۔ اسے اب امرت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ امرت کی تجدید محبت کی کوشش نا کام ہو جاتی ہے۔ ایک بار پھر اس کی تمناؤں کی دنیا اجڑ جاتی ہے۔ مگر اس میں یہ تیسرا آدمی ایسا ہے جسے مظلوم کہا جا سکتا ہے۔ اس کی رقابت سے قاری کو نفرت نہیں ہو تی بلکہ ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اس کے بارے میں شکیل الرحمن کا یہ کہنا بہت صائب ہے کہ ’’پریم چند نے انسان کی جبلت اور نفسیات کو گہرائیوں میں اتر کر ٹٹولا ہے۔ اس سے یہ تیسرا شخص ایک یاد گار کردار بن گیا ہے۔ امرتؔ جب (ہیرو یا ایک سچے عاشق سے ) تیسرا آدمی بنتا ہے تو پورنماؔ کے جذبوں سے ہم آہنگ تصور کر نے لگتا ہے اور یہی اس کا المیہ ہے۔‘‘ ( کہانی کا نہیں کردار کا )۔
یوں تو پریم چند پر کام ہوا ہے اور کتا بیں بھی شائع ہو ئی ہیں مگر ان پر دو کتابیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو قمر رئیس کی کتاب جوان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ہے اور دوسری کتاب شکیل الرحمن کی زیر بحث کتاب ہے۔ انھوں نے مختلف افسانوں سے اہم اہم اقتباسات بھی دئیے ہیں اور ان کی خوبیوں کو اجا گر بھی کیا ہے۔ مثلاً لعنت، قہر خدا، نیور، زیور کاڈبہ، آشیاں برباد، خانہ داماد، فریب لاٹری، سر پر غرور، راجپوت کی بیٹی، بیٹی کا دھن، دھوکا، پچھتاوا، شعلہ حسن، بانگ سحر، بوڑھی کا کی، ہولی کی چھٹی، زادِ راہ، مزار آتشیں، بڑے بابو، فکر دنیا، تحریک، بانکا زمیندار، اندھیر، جلوس، بازیافت، شطرنج کی باز، طلوع محبت، ستیہ گرہ، مسافر، دودھ کی قیمت، وفا کی دیوی اور دو بہنیں جیسے افسانوں سے انھوں نے جو اقتباسات دئیے ہیں ان سے پریم چند کے فن سے ان کی والہانہ شیفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن اس شیفتگی میں جانبداری نہیں، مروت نہیں، رعایت کا شائبہ نہیں اور نہ تنقیص کی سرحد کو چھوتی ہوئی بے جا تنقید کی کوشش ملتی ہے۔ جیسا کہ اس مقالے کی ابتدائی سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اعتدال اور توازن نہ صرف اس کتاب میں موجود ہے بلکہ یہ ان کی تنقید کی پہچان بھی ہے۔
شکیل الرحمن نے نہ صرف پریم چند کے افسانوں کا جم کر اور جانفشانی سے تجزیاتی مطالعہ مختلف تنقیدی رویوں کی آمیزش کے ساتھ کیا ہے بلکہ فن کے ساتھ فن کار کو بھی اپنے انتقادی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ اور شخصیت کے عنوان سے پریم چند کی زندگی، بچپن، ماحول، تعلیم، تربیت، تہذیب، ذہنی نشو و نما، فکری ارتقا، ادبی ذوق، مطالعاتی دنیا، نفسیاتی کیفیات، تنہائی کی یورش، محرومی اور دکھ کی نشتر زنی، ہیرو پسندی، تشنگی، قزاقی کا معاملہ اور اس سے متعلقہ دیگر باتیں، پہلی شادی، دوسری شادی، گاؤں اور شہری زندگی، علالت، افسری سے اجتناب، عزیزوں کی سنگ دلی اور مالی تنگی وغیرہ جیسے اہم گوشوں پر کچھ اپنی معلومات اور تحقیق کی روشنی میں کچھ داخلی اور خارجی حوالوں سے اور کچھ دوسروں کی تحقیق اور تحریر کے تنا ظر میں پریم چند کی حیات اور فنی کائنات کے ہر کونے اور گوشے کو اپنے فن، فکر اور انتقادیات سے اجالنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
(کراچی، پاکستان)