شرون کمار ورما
منشی پریم چند ہندوستانی ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ منشی جی نے اردو فکشن کو ایک نیا رنگ، لہجہ اور موڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ان کی شخصیت، فن، تخلیقات، نظریہ حیات پر ہر زبان، خاص طور پر اردو، ہندی کے نقاد حضرات نے گہری توجہ دی ہے اور ان کی تخلیقات اور شخصیت کے حوالے سے اس دور، جس کی منشی جی نے بھرپور عکاسی کی ہے، کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں یہ کوشش ہیرو ورشپ، کہیں مذہبی جھکاؤ اور کہیں نظریاتی اختلافات سے متاثر ہوتی ہے۔ اردو اور ہندی زبانوں میں منشی جی پر بہت لکھا گیا ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن ایک ذہین اور بے لاگ نقاد ہیں۔ موصوف نے بھی منشی جی کی شخصیت اور فن کو ان کی تخلیقات اور حالات زندگی کے تناظر میں تجزیاتی،نفسیاتی اور معاشرتی زاویۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ نہ تو ہیرو ورشپ کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی بت شکنی برائے بت شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہوں نے نپے تلے انداز میں منشی جی کی تخلیقات کو نہایت باریک بینی سے پرکھا اور سمجھا ہے۔ جہاں وہ منشی جی سے اختلاف کرتے ہیں یا ان کی تخلیقات میں فنی خامی پاتے ہیں اس کا برملا اظہار نہایت مدلل ڈھنگ سے پوری ایمانداری اور نقادانہ بصیرت سے کرتے ہیں۔
منشی جی نے ایک ایسے وقت میں ادب میں حقیقت پسندانہ نظریہ اور انداز تحریر اپنایا جب دوسرے ادیب طلسماتی، تصوراتی اور رومانی کہانیوں اور داستانوں میں بھٹک رہے تھے۔ منشی جی دیہاتی زندگی کے دکھ، مصائب، جھیل کر اس آگ میں تپ کر آئے تھے۔ ایسے شخص کو جو ایماندار بھی ہو اور زندگی سے نبرد آزما بھی رہا ہو جس کی زندگی کا ہر لمحہ گھریلو پریشانیوں اور ضروریات کو پورا کر نے کی بھاگ دوڑ میں گزرا ہو جس نے اپنے ارد گرد آہیں، کراہیں، استحصال، ظلم، زیادتی، نا برابری دیکھی ہو، وہ رومانی کردار اور واقعات کہاں سے لاتا، وہ طلسماتی فضا تخلیق کر کے خود کو اور قارئین کو دھوکا کیسے دیتا، ایک سچا فن کار جھوٹ کیسے بولتا۔ اس نے زندگی کی کڑواہٹوں، تلخیوں اور ننگی سچائیوں کو کہانیوں کا روپ دے کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کچھ اس طرح کہ پڑھنے والا نہ صرف ان سے متاثر ہوا بلکہ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس کا علاج کیوں کر ممکن ہے۔ منشی جی نے چونکہ ایک نئی طرز ایجاد کی تھی اس لیے کہ ان کے سامنے نہ تو کوئی بنا بنایا ڈھانچہ تھا، نہ زبان و بیان کی سہولتیں اور نہ ہی فنی طور پر رہبری کر نے والا کوئی انداز تحریر۔ یہ سب انہیں خود ہی کرنا پڑا۔ وہ اپنی طرز کے خود ہی موجد تھے اس لیے کہیں کہیں جذباتی ہو کر یا غم و غصہ میں فنی خامیوں کا احساس دلاتے ہیں۔ ہمارے یہاں افسانہ اور ناول مغرب سے آئے ہیں۔ مغرب کی زندگی بہت تیز رفتار اور اپنی الگ شناخت اور اقدار رکھنے والی ترقی یافتہ (مادی طور پر) زندگی رہی ہے۔ ہمارے ادب میں خاص طور پر ناول کی روایت زیادہ مستحکم نہیں رہی۔ زیادہ وسیع کینوس پر کہانی بیان کرنا، کردار نگاری کے خارزار سے گزرنا اور ایک مربوط تاثر دینا آسان نہیں ہوتا۔ مختصر کو طوالت دے کر،کچھ وقتی واقعات و سانحات کی بنا پر ناول لکھے جا سکتے ہیں، لیکن وہ متاثر نہیں کرتے۔ کردار نگاری نہایت ہی مشکل فن ہے اور فن کار سے گہری نظر، تجزیاتی مشاہدہ اور فنی سوجھ بوجھ کی متقاضی ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو میں گنتی کے ناول ایسے ہوں گے جنہیں روسی، فرانسیسی اور انگریزی ناولوں کے مقابل رکھا جا سکے۔ ہمارا کلچر، مشرقی اقدار اور روحانیت بھی اس کے آڑے آتی ہیں۔ شاید اسی لیے اردو ناولوں میں مکمل کردار نہیں ملتے۔
شکیل الرحمن صاحب نے منشی جی کی فکشن، تخلیقات، کہانیوں اور ناولوں کا عمیق مطالعہ کیا ہے وہ تجزیاتی ذہن رکھتے ہیں۔ مغربی فکشن خاص طور پر ناول کے فن سے بہ خوبی آگاہ ہیں اس لیے وہ منشی جی کے ناولوں سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے مغربی ناولوں کے (لاشعوری) پس منظر میں جو خامیاں، منشی جی کے ناولوں میں پائی ہیں، ان کے اظہار میں وہ حق بجانب ہیں۔
منشی جی بذات خود ایک نیک، شریف، صلح کل، امن پسند، غریب انسان تھے اس لیے ان کی تمام تر ہمدردیاں ایسے ہی لوگوں سے رہی ہیں۔ وہ معاشرتی لوٹ کھسوٹ، غلامانہ زندگی اور ذہنیت، افسران اور جاگیرداری کی ملی بھگت اور اس سے پیدا ہونے والی بدعتوں، انسانی استحصال، غلط مذہبی رسومات، اندھ وشواس اور تعلیم کی کمی، ناخواندگی کے سخت خلاف تھے کہ ان سب نے مل کر ہندوستان خاص طور پر یوپی کے دیہات میں بسنے والے کسانوں، کھیت مزدوروں اور نچلے طبقہ کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ آدمی کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی تھی اس سماج میں۔ ان ہی سب باتوں کو لے کر منشی جی نے کہانیاں اور ناول لکھے ہیں۔ وہ زندگی میں مہاتما گاندھی، تالستائے، ٹیگور کے خیالات سے متاثر رہے۔ وہ کسی حد تک باغی تو تھے لیکن ایسے باغی بھی نہیں کہ چین اور روس کے انقلاب کی راہ اختیار کر لیتے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی اور اس کی مجبوریوں کے سبب سمجھوتہ پسند، اصلاح پسند اور سادہ دل انسان بن چکے تھے۔ ان کی شخصیت کے یہ رنگ پلٹ پلٹ کر ان کی تخلیقات میں در آتے ہیں۔ ان کی ترقی پسندی اسی حد تک تھی اور ان کی اس سوچ نے ان کی تخلیقات، خاص طور پر ناولوں کو فنی طور پر متاثر کیا ہے۔ وہ اپنے مقصد کی رو میں جذباتی ہو کر فن سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ پروفیسر موصوف نے اپنے مطالعہ میں ان کی شخصیت کے اس پہلو اور فنی کمزوریوں کی طرف کھل کر اشارہ کیا ہے۔ ہم اردو والوں کی خوش قسمتی ہے کہ پروفیسر شکیل الرحمن نے ایک نئے زاویہ سے بات کر کے تخلیقی سچ کڑوا ہی سہی سے روشناس کرایا ہے۔ وہ نہ تو پریم چند کے نام، مشرقی انداز فکر سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ جذباتی لگاؤ میں راہ سے بھٹک جائیں اور نہ ہی انہوں نے پریم چند کے خلاف لکھنے کی قسم کھائی ہے۔ یہ ایک بصیرت افروز، تنقیدی، علمی مقالہ ہے جس میں تقریباً ہر زاویہ سے منشی جی کے فن کو ان کی شخصیت کو ان کی تخلیقات کے پس منظر میں اور ان کی تخلیقات کو ان کی شخصیت اور فن کے پس منظر میں ایمانداری سے سمجھنے کی ادبی کوشش کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک کارنامہ ہے اور منشی جی کی ادبی کاوشوں کو سمجھنے کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کا پہلا جملہ ہی چونکا دینے والا ہے۔ لکھتے ہیں ’’منشی پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار نہیں۔‘‘ یہ غلط بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے پریم چند سے عقیدت رکھنے والوں کو یہ بات ناگوار گزرے لیکن یہ سچ ہے۔ پروفیسر موصوف نے منشی جی کے تمام ناولوں کے گہرے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ گؤدان کو چھوڑ کر منشی جی کے اکثر ناولوں میں فنی خامیاں، کردار نگاری میں سقم، مقصدیت کا بوجھل پن اور قصہ میں کہیں کہیں جھول پروفیسر موصوف کے بر اور شدہ نتائج کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا انداز تعمیری ہے۔ وہ اس بت کو توڑنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں جو پریم چند کے بھکتوں نے کھڑا کر دیا ہے اور یہ ایک صالح اور صحت مند ادبی قدم ہے۔ آج نہیں توکل منشی جی کے تخلیقی نظریہ اور فن کو سمجھنے کے لیے اسی طرز تنقید کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اگر ہمیں مغرب سے مستعار ان ادبی اصناف (افسانہ اور ناول) کو اپنے نظریات و خیالات کی ترویج کے لیے استعمال کرنا ہے تو مشرقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے ان فنی لوازمات اور پابندیوں کے دائرے کو قبول کرنا ہو گا جن سے کسی فن پارے میں زندگی، حسن اور جاذبیت پیدا ہوتی ہے، خاص طور پر ناول میں جب کردار نگاری بھی کرنا ہو معاشرہ کی اصلاح اپنی جگہ، قومی نظریہ ٹھیک سہی، لیکن ہر صنف ادب کے کچھ فنی تقاضے ہوا کرتے ہیں جن کی پاسداری ضروری ہو جاتی ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن نے منشی جی کے ناولوں میں عورت، بچے، سرکاری نوکر، انسان، مذہبی رسومات تقریباً ہر کردار پر نظر ڈالی ہے اور ان کے تئیں منشی جی کی ہمدردیاں، نفسیاتی مشاہدہ، زبان و بیان کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر کی ہیں۔ اس سے یہ تو ثابت ہو ہی جاتا ہے کہ پروفیسر موصوف نے پوری سنجیدگی سے یہ کام سرانجام دیا ہے۔ کوئی مجبوری، لالچ یا غصہ وغیرہ اس کا سبب نہیں تھا۔
بقول مصنف یہ مقالہ آج سے تقریباً چالیس برس پہلے ضابطۂ تحریر میں لایا گیا تھا۔ مسودہ کاغذات میں ادھر ادھر ہو گیا۔ پھر اچانک مل گیا اور اب ہمارے سامنے کتابی صورت میں موجود ہے۔ زیر نظر کتاب نہ صرف منشی جی پر کام کر نے والوں بلکہ ہندوستانی ادب کے طالب علموں کے لیے بھی مفید ثابت ہو گی۔ وہ ایک نئے زاویہ سے منشی جی کی تخلیقات کو سمجھنے کی کوشش کر پائیں گے۔ یہ ایک قابل تحسین اور مبارک باد کا حق دارا قدام ہے۔