سائرہ غلام نبی
فکشن دراصل حقیقی ادب یعنی خواب اور خواہش سے جڑے ہوئے حقائق کی فنی پیشکش یا صورت گری کا نام ہے۔ زندگی کی پیچیدگی، گہرائی، گیرائی اور جمالیاتی قدروں کا احساس کسی بھی کامیاب فن پارے میں موجود ہوتا ہے اور فنکار اگر پریم چند کے قد اور کاٹھ کا ہو تو یہ کام اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پریم چند پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اردو کی شعری تاریخ میں غالبیات اور اقبالیات کی طرح اردو نثر میں پریم چندیات کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے جس کا ہمیں خیرمقدم کرنا چاہیے۔
ذرا پیچھے ادبی نظریے کی طرف دیکھئے تو بہت جلد ادب برائے ادب سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے ادب برائے زندگی کی پیشکش مختلف اصناف میں ہونے لگی تھی، بالخصوص فکشن بہت جلد دھڑکتی ہوئی زندگی کے احساس سے آشنا ہو گیا تھا۔ پہلے ناول اس کے بعد افسانے میں زندگی کا تحرک در آیا تھا۔ باہر کے ادب پر نظر ڈالیے تو نئی روشنی لانے میں ڈی، ایچ لارنس، مارسل پروست، ہار ڈی، ٹالسٹائی، ورجینا و ولف، جیمس جوائس، ایلن پو، چیخوف، موپاساں، اوہنری، کا فکا، کامیو، سارتر، ہیمنگوے، بورخیس وغیرہ نے اپنے اپنے انداز میں فکشن کو زندگی کی کثیر الجہات رخوں سے روشناس کرایا۔ اسی طرح فن کی تنقید بھی تخلیقی انداز میں .... .... .. فکر و فن کے پیمانے وضع کر نے لگی۔ ڈی ایچ لارنس نے ناول نگاری اور بعد ازاں فکشن فن اور تکنیک پر، ایڈگر ایلن پونے افسانے اور اس کی تکنیک پر توجہ مرکوز کی اور فکشن کے فنی معیار کی ادبی تعریف بھی متعین کر دی گئی۔ واضح رہے کہ ادبی نظریے اور تنقیدی نظریے میں بڑا فرق ہے۔
مغرب کی طرح اردو فکشن میں بھی ناول اور افسانے نے تخلیقی سطح پر ذرا دیر سے سہی سفر شروع کیا اور نذیر احمد، شاد عظیم آبادی، رشیدۃ النساء، حلیم شرر، ہادی رسوا وغیرہ نے ناول کو بطور صنف متعارف کروایا اور پھر باضابطہ مغربی ادب سے واقف اور متاثر فکشن لکھنے والوں کا ایک کارواں ہے، جو پریم چند سے قرۃ العین حیدر تک بہت آگے جاتا دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے یہاں بیسویں صدی نے جیسے ہی دروازے پر دستک دینا شروع کیا تو فکشن کی باضابطہ ابتدا اور پھر تبدیلی کے عمل میں تیزی آنا شروع ہوئی۔ خوابیدہ معاشرت سے نیند ٹوٹی تو اردو فکشن نے کھلی آنکھوں سے ارد گرد دیکھنا شروع کیا اور بہت جلد اسے نظر آیا کہ استحصالی قوتیں یکجا ہو رہی ہیں۔ سیاست کی کارفرمائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ معاشی ناہمواریاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ باطن کی دریافت شروع ہو چکی ہے اور سائنسی ترقیوں کی کرشمہ سازیاں براہ راست سماج و افراد کو متاثر کر رہی ہیں۔ افراط و تفریط نے عجیب مسئلہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ جمالیات کا جوہر اختصاص کے ساتھ محسوس کر کے اردو فکشن میں ناول اور افسانے کی راہ ہموار ہونے لگی۔
اسی دور میں دھنپت رائے نے ابتداً نواب رائے الہ آبادی بعد ازاں پریم چند کے قلمی نام سے فکشن کی تخلیق کاری شروع کر دی تھی۔ پریم چند اردو فکشن کے لیے سماجی تاریخ کے ان گنت موضوعات کو اپنی تخلیقات کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ اپنی مشاہداتی قوتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے سماج کی ظاہری اور باطنی صورت حال کو واضح کر نے کی طرف آتے ہیں۔ حقیقی زندگی اور سچے واقعات سے پیوست ہو کر گویا زندگی کو تحریر کر نے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال بھی دلچسپ ہے کہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی نئے مسائل سے نئے موضوعات اخذ کئے جا رہے تھے۔ ایک طرف سجاد حیدر یلدرم رومانیت اور نئی بیداری کے زیر اثر فکشن کی آبیاری کر رہے تھے۔ ان ہی کے متوازی خطوط پر پریم چند، حقیقی واقعات اور براہ راست اظہار کی نئی روایات کو جنم دے رہے تھے۔ گویا زندگی سے دوبدو آنکھ ملانے کا حوصلہ پا رہے تھے۔ وہ ’روح عصر‘ سے آگہی رکھتے ہوئے فن کو نئی معنویت دے رہے تھے۔ پریم چند نے کوئی درجن بھر ناول اور تقریباً تین سو افسانے چھپن سال کی عمر تک تحریر کئے۔ ناول میں انہوں نے پچھلی روایات سے گریز کیا اور نئی روایت کی بنا ڈالی اور دیہات کی زندگی اور کسانوں کے مسائل بیانیہ اسلوب میں فنکاری سے پیش کئے۔ جلوہ ایثار، بازار حسن، نرملا، پردۂ مجاز، گوشۂ عافیت، چو گان ہستی اور گؤ دان ناول کی تاریخ میں اہم حیثیت کے حامل قرار پائے۔
اسی طرح پریم چند نے اردو افسانے کی گویا نئی بنیاد رکھی۔ ابتداً انہوں نے رومانی تخیلاتی افسانے تحریر کیے۔ اپنے آئیڈیل کرداروں پر لکھا پھر وہ سماجی اور معاشرتی اصلاح کی طرف آئے۔ پھر بالکل سامنے آ کر سیاسی موضوعات پر مبنی افسانے تحریر کر نے لگے۔ یہاں تک کہ ’’کفن‘‘ جیسا افسانہ تخلیق کیا۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ برصغیر کی حکومت برطانیہ نے ضبط کر لیا تھا۔ اگر چہ اس مجموعے کے افسانوں کی ابتدائی فضا داستانی تھی مگر حب الوطنی کے جذبے کو کبھی نہیں بھولے۔ بعد میں براہ راست سماجی کجروئیوں کو تحریر کر نے لگے بلکہ زندگی کی تنقید فکشن میں لکھنے لگے۔ یہیں سے ترقی پسندی کی باقاعدہ تحریک شروع ہوتی ہے۔ گویا فکشن میں ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے ان کی قدر متعین ہوئی۔
پریم چند کے کام کی افادیت کے پیش نظر ان پر کام بھی بہت ہوا اور ادبی تجزیہ نگاروں نے خصوصی توجہ کی۔ تقریباً تمام قابل ذکر فکشن کے نقادوں نے ان کے ناولوں اور افسانوں پر طبع آزمائی کی ہے اور ایک بڑا سرمایہ جمع ہو گیا ہے۔ نقاد شکیل الرحمن کو ایک اختصاص یہ حاصل ہے کہ انہوں نے پریم چندکو’بڑا افسانہ نگار کہا، بڑا ناول نگار نہیں۔ ‘
دوسری طرف ایک اور طرح سے دیکھئے تو ڈی ایچ لارنس نے ناول کے بارے میں دیکھا اور ایڈگر ایلن پونے افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ افسانے کے اصول وضوابط بھی وضع کئے۔ اسی طرح اردو ناول نگاری وافسانہ نگاری کی تنقیدی نگارشات میں خود اس کے تخلیق کاروں نے حصہ لیا۔ مولوی کریم الدین، شاد عظیم آبادی، نذیر احمد، شررؔ، سرشار، رسوا اور پھر خود پریم چند نے اپنے کئی دیباچوں اور مختلف مضامین میں اپنی تنقیدی اور فنی بصیرت کا ادارک کرایا ہے۔ البتہ ’’پریم پچیسی‘‘ کی دوسری اشاعت پر اس افسانوی مجموعہ پر امتیاز علی تاج نے مقدمہ لکھا.... .... .. یہ پریم چند کے فن پر پہلی تنقید کہی جا سکتی ہے۔
اسی طرح بعض اہم ناقدوں کے ساتھ قمر رئیس، پریم چند کے اہم نقاد تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مضامین پریم چند کو بھی مرتب کیا اور اپنا اختصاص پریم چند کے مطالعے کو بنا لیا۔ یہ شاید سجاد ظہیر کی صحبت کا اثر ہو۔ لکھنے کو تو عبدالماجد دریا آبادی،فراق گورکھپوری، وقار عظیم، علی جواد زیدی، آغا عبدالحمید، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، جعفر رضا، پرکاش چندر گپت، انور سدید اور نہ جانے کتنے نقادوں نے پریم چند پر تنقیدی مقالات تحریر کیے مگر حالیہ برسوں میں پریم چند کے حوالے سے شکیل الرحمن کا نام سامنے آیا۔
شکیل الرحمن کی مختصر سی کتاب پریم چند فکشن کے فنکار جو 1960 میں لکھی گئی اور 2000 میں طبع ہوئی ہے، بہت اہم ہے۔ اس کتاب میں پریم چند کی تخلیقات اور داخلی شخصیت کا دلچسپ انداز میں تجربہ کیا گیا اور جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تصنیف کی وجہِ جواز اس کے پہلے مضمون کے ابتدائی صفحات ہیں جن میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ منشی پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں یا بڑے ناول نگار، اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے مصنف نے پریم چند کے کرداروں تکنیک، اسلوب وغیرہ کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا بھی جائزہ لیا ہے جو بے حد دلچسپ اور معلومات کا خزینہ ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ پریم چند بطور ناول نگار نصابی طور پر ایم اے کے کورس میں پڑھائے جاتے ہیں (خود میں بھی پڑھ چکی ہوں ) اسی سوال کے تحت شکیل الرحمن نے اس کتاب کے پہلے ہی مضمون میں پریم چند کے ناولوں کے بارے میں ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے :
’’منشی پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت ملتی ہے اور اس ملک کا گاؤں ملتا ہے۔ اردو تنقید کے لیے یہ کافی ہے، آئینے کی تلاش ہو جاتی ہے۔ اپنی معاشرت اور گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز اور تاریخی اور معاشرتی قدروں پر بحث ہونے لگتی ہے۔ نقاد عموماً یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ یہ خارجی حقائق ہیں اور فن میں خارجی سچائیوں اور حقیقتوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے، کس حد تک انہیں فنی تخلیق کی صورت دی ہے اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔‘‘
شکیل الرحمن نے یہ سوالات اٹھا کر ان کے ناولوں پر ایک نئے پہلو سے بحث کا آغاز کیا ہے اور انہوں نے جستہ جستہ پریم چند کے ناولوں کا تذکرہ، تبصرے کے طور پر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ناول بڑے نہیں، البتہ ان کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ البتہ ’’گؤدان‘‘ اور اس کا بنیادی کردار ’ ہوری‘ انہیں سماجی زندگی کے المیے پر نمائندہ کردار نظر آتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ پریم چند کے افسانوں میں ناولوں سے زیادہ جذباتی، تخیلاتی فضا ہے اور افسانوں میں خارجی قدریں فنی قدریں بن گئی ہیں۔ ناولوں کے کردار پورے طور پر اپنی نفسیات کے ساتھ نہیں ابھرتے، کرداروں کی تشکیل میں کمی محسوس ہوتی ہے۔
ان کے تجزیے کی روشنی میں طلسم ہوشربا، چہار درویش اور دوسری لکھنوی اور دہلوی داستانوں کی رومانیت ان کے ناولوں میں نظر آتی ہے۔ ان کی شخصیت کے مطالعے سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ پریم چند اپنی عمر کے ابتدائی دور میں ’’ہیرو پسندی‘‘ میں مبتلا تھے۔ رام لیلا کے رام سیتا اور لچھمن انہیں آئیڈیل کردار نظر آئے تھے اور وہ اکثر تنہائی سے اکتا کر ایک دکان پر طلسم ہوش ربا سننے جاتے تھے۔ ہم شکیل الرحمن کے اس تجزیے کی تائید میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ بچپن کے اثرات شخصیت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پریم چند نے تخیلاتی ہیرو پسندی کو ناول کے پھیلے ہوئے کینوس پر پیش کیا اور ان کرداروں کا رابطہ حقیقی سماج سے ٹوٹ ٹوٹ گیا۔ یوں وہ سچائی کی قبیح صورت کو اجاگر نہیں کر سکے۔
اس کتاب کی روشنی میں مصنف نے افسانوں کی خصوصیات کو واضح کرتے ہوئے کرداروں کو علیحدہ علیحدہ عنوانات کے تحت تحریر کیا ہے۔ اس سلسلے کا سب سے اہم اور دلچسپ مضمون ’’تیسرا آدمی‘‘ ہے۔ دراصل یہ ’’تیسرا آدمی‘‘ فکشن کا سب سے زیادہ ایکسپلائٹ کر نے والا استحصالی کردار تو ہے ہی، معاشرے کا بھی غیر معمولی کردار ہے۔ اس کی کارفرمائیاں یوں بھی عمومی طور پر نظر آتی ہیں۔ مشاہدے کے مطابق یہ کردار ہر فرد کے درون میں چھپا ہوا ہے اور موقع دیکھ کر ظاہر ہو جاتا ہے۔ فکشن میں اس آدمی کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ پلاٹ اس کے افعال کے تحت آگے بڑھتا ہے اور کہانی دلچسپ موڑ مڑتی ہے۔ کہیں کہیں تو یہ کردار مرکزی کرداروں سے زیادہ ابھر جاتا ہے اور اپنے آپ کو زور و شور سے منوا لیتا ہے۔ مصنف نے اس معتوب شخص کو پریم چند کے پیش کردہ افسانوں میں تلاش کیا ہے۔ اس کی نفسی کیفیات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اس شخص کو بہت محبت اور خلوص سے دریافت کیا ہے۔ گویا بعض اجزاء سے ترتیب دے کر اس دلچسپ کردار کو پیش کیا گیا ہے۔ شکیل الرحمن اس کی نفسیات جانتے ہوئے ایک ہمدرد نقاد دکھائی دیتے ہیں اور قاری کی ہمدردیاں اس کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں جو کہ متعصب ہے۔ اس مضمون میں جین سنگھ، بھون داس گپتا، جگل جوکھو، راجہ وغیرہ بطور تیسرا آدمی آتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے ان کرداروں کا تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ ہمارے ذہن سے روایتی ’ولن‘ کہیں دور چلا جاتا ہے اور وہ شخص سامنے آتا ہے جو اس معاشرے کا فعال رکن ہے اور اس کی فطرت کو ماحول نے تشکیل دیا ہے اور وہ اپنا فطری کردار اپنے کام یا جواز کے مطابق ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اس مضمون کا مطالعہ کسی افسانے کی طرح دلچسپ محسوس ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن اس آدمی کی دریافت میں فطرت انسانی کے نباض دکھائی دیتے ہیں۔ ہمدردانہ شعور کے باعث نفسیات نگاری پر ان کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے اور قاری ایک پر لطف احساس سے دو چار ہوتا ہے۔
اسی طرح کے دو مضامین میں ’عورت‘ کے مختلف پہلوؤں کو پریم چند کے افسانوں میں تلاش کیا ہے۔ وہ عورت جو کہیں محبوب کی محبت میں سرشار ہے تو کہیں آپ اپنی ذات کی اسیر، کہیں نوخیز جذبوں سے بھرپور، کہیں نوبیاہتا، کہیں بیوہ، کہیں ماں تو کہیں طوائف، ان کرداروں کے ساتھ ساتھ ’عورت‘ کے کئی رشتوں اور ان کی نفسیاتی کشمکش کو بہت توجہ سے دیکھا اور جانچا ہے۔ انہوں نے پریم چند کے مطالعے سے اس ’عورت‘ سے متعارف کروایا ہے جو ایک شخصیت رکھتی ہے، اس کی ذہنی ساخت، رویے، افعال بشریت کے تقاضوں کے تحت استوار ہوتے ہیں۔ مصنف کے تجزیے کے مطابق پریم چند کے اکثر زنانہ کردار نرگسیت کا شکار ہیں۔ جہاں اسے اپنے آپ سے، اپنی صورت سے لگاؤ ہوتا ہے۔ شوہر پرستی اور مرد پر انحصار کر نے والے اس معاشرے میں عورت کی نرگسیت سچائی کی علامت کے طور پر ابھرتی ہے۔ شکیل الرحمن اس عورت کو دریافت کر کے کہتے ہیں کہ اردو فکشن میں ایسی آواز پہلی بار سنائی دیتی ہے۔ دراصل مصنف پریم چند کے افسانوں سے ایسی آواز پہلی بار سنائی دیتی ہے۔ دراصل مصنف پریم چند کے افسانوں سے اس عورت کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں جو اپنا وجود رکھتی ہے، نفس رکھتی ہے، خواہشات رکھتی ہے، چاہے نرگسیت ہی سہی خود کو منوانے کی شدید آرزومند ہے۔
اسی عنوان کے تحت دوسرے معنوں میں پریم چند کے افسانوں کے بطون میں اتر کر عورت کے فطری اور نفسیاتی خد و خال کی جانچ کرتے ہیں۔ یہاں اس عورت کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جو یا تو خود کسی کے عشق میں مبتلا ہے یا پھر کسی کو اپنے حسن کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ اس جذبے کے تحت اپنے تمام جذبوں کو عیاں کرتی ہے۔ نفرت، لالچ، حسد، غصہ، حقارت، فریب تک مخصوص پس منظر میں سے جھانکتے ہیں۔ شکیل الرحمن کی تحقیق کے مطابق عورت کی تصویر کے تمام پہلو پہلی بار مکمل طور پر اردو فکشن میں نظر آتے ہیں۔
حیات انسانی کا سب سے خوبصورت اور دلچسپ دور اس کا بچپن ہوتا ہے۔ جب کائنات کی معصوم ہستی اپنی فطرت میں مکمل ہوتی ہے۔ اس معصوم اور حساس پیکر کو پریم چند نے اپنے کئی افسانوں میں توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ بچوں کے جذبات اور احساسات کو پریم چند نے نہایت خوبی سے لکھا ہے۔ اسی کتاب میں پریم چند کو بطور شخصیت پڑھتے ہوئے یہ صورت حال واضح ہوتی ہے کہ اپنی شخصیت کے کتنے ہی پہلو اس کردار میں موجود ہیں۔ بچے کی تنہائی، ڈر، ممتا سے محرومی خود پر بیتی ہوئی ہر کیفیت کو انہوں نے بچے کے قالب میں ڈھالا ہے اور کئی بھرپور کہانیاں خلق کی ہیں۔
اس کتاب میں آگے چل کر شکیل الرحمن نے پریم چند کے المیہ کرداروں، تکنیک، اسلوب جیسے عنوانات کے تحت افسانوں کی خصوصیات کو نمایاں کر نے کی کوشش کی ہے البتہ مضمون، اسلوب میں انہوں نے پریم چند کے فن میں تصادم کی مختلف صورتیں اور سطحیں دریافت کی ہیں جن سے پریم چند کا اسلوب متاثر ہوا ہے۔
اس کتاب کے آخر میں پریم چند کی شخصیت پر بھی مضمون ہے۔ مصنف ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا ذیلی عنوانات کے تحت مطالعہ کرتے ہیں۔ دراصل شکیل الرحمن نے پریم چند کے فن اور ان کی شخصیت کو ایک ہی تصویر کے دو رخ کے طور پر دیکھا ہے۔ یقیناً فنی تخلیق کسی بھی فنکار کی شخصیت کا انعکاس کرتی ہے۔ شکیل الرحمن نے اس پریم چند کی شخصیت کا خاکہ کھینچا ہے جو ان کی کسی بھی تخلیق کا کوئی اہم کردار ہو سکتا ہے۔ ان کے بچپن کے حالات و واقعات نے ان کی شخصیت میں جو بنیادی کردار ادا کیا ہے، دراصل وہی ان کے فن میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ گویا پریم چند نے زندگی کی تجسیم کی کوشش کی ہے اور فکشن کو زندگی جیسا بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دراصل شکیل الرحمن نے اس کتاب میں اس پریم چند کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے جو سیدھا، سچا اور براہ راست ہے اور ہمارے دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ یہ شکیل الرحمن کی اردو فکشن کی تنقید میں یہ خصوصی عطا ہے۔ ہمیں اس نظر کی قدر کرنی چاہیے۔