بم دھماکے کے بعد فضا میں ہر طرف دھواں پھیل چکا تھا، حامد کی ٹیم کے لوگ زندہ تو تھے لیکن انتے بڑے دھمکاکے نے اُن کے دماغ شَل کر دیئے تھے جس کی وجہ سے وہ بے حس و حرکت زمین پر پڑے تھے اور اُن کے کانوں میں فقط سیٹیوں کی آواز آ رہی تھی۔
دھوئیں کے اندر سے دھندلا سا چہرہ نظر آیا، شاید کوئی آ رہا تھا، جب وہ شخص بالکل قریب پہنچا تو اس کے ہاتھ میں پستول تھی اور اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا کہ اسی وقت فائرنگ ہوئی۔
اغواء سے دو دن پہلے
دیوار کو توڑتے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک دیوار کے باہر کا حصہ ظاہر نہیں ہوا تھا ۔ دیوار چونکہ بہت مظبوط تھی اسی لئے توڑنے میں دو مہینے لگ گئے۔ دیوار توڑنے کی وجہ سے سردی کا موسم ہونے کے باوجود بلال اور جلال کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ بالآخر دیوار مکمل ٹوٹ گئی اور دونوں بھائی جیل سے باہر نکل آئے۔ باہر بہت سردی تھی اور ہر طرف دھند پھیلی ہوئی تھی۔ یخ بستہ ہواؤں کی لہر ان کے پورے جسم میں دوڑ گئی ۔ تھوڑی دیر پہلے تک پریشانی اور مسلسل دیوار توڑنے کی وجہ سے پسینے کے قطرے گراتے دونوں بھائی اب سردی میں ٹھٹھر رہے تھے۔ سرچ لائٹ سے نکلتی روشنی کی کرنیں جب دونوں بھائیوں پر اچانک پڑیں تو ہڑبڑا کر دونوں قریبی جھاڑیوں کی طرف بھاگ پڑے۔ انہیں لگا شاید جیل انتظامیہ کو ان کے فرار ہونے کا پتہ چل گیا ہے۔دونوں تھوڑی دیر جھاڑیوں میں چھپے رہے مگر نہ پولیس کی کوئی گاڑی باہر آئی اور نہ خطرے والی گھنٹی بجی۔ اصل میں سرچ لائٹ خودبخود ایک جگہ سے دوسری جگہ پھرتی رہتی تھی۔
جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے وہ دونوں آدھے گھنٹے بعد ایک کچی سڑک پر پہنچ گئے جہاں قریب چند گھر بھی تھے جن کے اندر سے مدھم مدھم روشنی بھی آ رہی تھی۔
ابھی تک وہ آیا کیوں نہیں، بلال غصے سے چلاتے ہوئے بولا۔ ابھی تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا بھئی، اگر وہ ابھی نہ آیا تو ہم پکڑے جا سکتے ہیں، جلال پریشان ہوتے ہوئے بولا۔
کیا وہ ہمیں دھوکہ تو نہیں دے رہا ، یا شاید وہ بھی پولیس کے ساتھ مل گیا ہو یا اس کی نیت بدل گئی ہو، اگر ایسا ہے تو وہ پولیس کو بھی یہیں ساتھ لے آئے گا کیونکہ اس جگہ کی معلومات صرف اسی کے پاس تھی، جلال پریشانی میں بولتا چلا رہا تھا کہ اس دوران دور سے آتی ہوئی گاڑی کی روشنی سڑک پر پڑی۔
دونوں سڑک کے پاس کی جھاڑیوں میں دوبارہ چھپ گئے۔ گاڑی ان کے بالکل قریب آ کر کچی سڑک پر رک گئی۔
لگتا ہے وہ آ گیا
بھائی مجھے تو کوئی گڑبڑ لگ رہی ہے ، پہلے تو اتنی دیر سے آیا اب پانچ منٹ سے گاڑی سے باہر ہی نہیں لگ رہا ، مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے، جلال پریشانی میں خود سے بولے جا رہا تھا۔
گاڑی کا دروازہ کھلا
شششش۔۔۔ چپ کرو، بلال جلال کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔
"بڑے بڑے بوٹ، لمبا سا جیکٹ، جینز شرٹ میں ملبوس، سر پہ ایک بڑا سا ہیٹ پہنے گاڑی کے اندر سے ایک شخص باہر نکلا۔
باہر آ جاؤ سب ٹھیک ہے ،وہ شخص بولا۔
اندھیرے اور سر پر ہیٹ ہونے کی وجہ سے اس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔
یہ تمہارے آنے کا وقت ہے، تم تھوڑی دیر مزید نہ آتے تو پولیس ہمیں ڈھونڈتے ہوئے یہاں پہنچ جاتی، جلال سردی سے کانپتے ہوئے اس شخص پر چلایا۔
پیچھے پولیس کی ناکا بندی تھی اسی لیے مجھے دیر ہو گئی، گاڑی کے اندر بیٹھتے ہوئے اس شخص نے دونوں بھائیوں کو بتایا ۔ لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب میرے ساتھ تم دونوں محفوظ ہو، جگہ کا بندوست بھی ہو چکا ہے وہاں کچھ دن تم لوگوں کو چھپ کر رہنا ہو گا تاکہ معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہو اس کے بعد پھر آگے کا کھیل شروع ہو گا۔
تقریباً سوا گھنٹے بعد وہ تینوں ایک چھوٹے سے فلیٹ نما خوبصورت سے مکان میں پہنچ گئے۔ ایک کمرے میں پہنچ کر ہیٹ پہنے اس شخص نے کوئی بٹن دبایا تو فرش کا ایک حصہ سرک گیا جس کے اندر وہ تینوں داخل ہو گئے، شاید یہ کوئی تہہ خانہ تھا یا چھپنے کے لئے کوئی safe house ۔ کمرہ تمام سہولیات سے مزین تھا۔ ہیٹ پہنے شخص نے ریمورٹ اٹھا کر سامنے لگی ٹی وی چلا دی جس پر پہلے سے ہی کوئی نیوز چینل لگا ہوا تھا اور اس پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔
"ہماری اطلاعات کے مطابق دونوں قیدیوں کو فرار ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دونوں قیدی سگے بھائی تھے اور قتل کے الزام میں دونوں کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی جس کو تین مہینے گزر چکے تھے۔ جیل حکام کو قیدیوں کے فرار ہونے کا علم ہوتے ہی پورے جیل میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا اور اردگرد کے تمام علاقوں میں ناکا بندی کر دی گئی ۔ جیل وارڈن کے مطابق بہت جلد قیدیوں کو گرفتار کر لیا جائے گا" ۔
موجودہ دن
سر ہم نے تو سمجھا تھا کہ آپ بلڈنگ کے اندر تھے اور بم دھماکے میں آپ بھی وہیں رہ گئے، حامد علی خان کے سہارے سے اٹھتے ہوئے ان افسروں نے پوچھا۔ ملئیے پروفیسر ڈاکٹر آزاد صاحب سے ، حامد نے اپنے ٹیم ممبران کو پروفیسر آزاد سے متعارف کراتے ہوئے کہا۔
سارے لوگ حیران تھے کہ اتنے بڑے دھماکے میں یہ دونوں آخر زندہ کیسے بچ گئے۔
میں آپ لوگوں کی حیرانگی کو ختم کئے دیتا ہوں، حامد نے پریشانی میں مبتلاء اپنے ٹیم ممبران سے کہا۔ آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے نا کہ ہم دونوں کو تو اندر ہونا چاہئے تھا اور وہاں پر دھماکے سے ہمارا بچنا ناممکن تھا۔ اصل میں جیسے ہی میں اندر گیا تو فائرنگ کی وجہ سے کمرے کی روشنی بند ہو گئی اور بلڈنگ میں مکمل تاریکی چھا گئی جس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور انہوں نے تاریکی میں اندھا دھند فائرنگ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے نائٹ گلاسز پہنے ہوئے تھے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے دونوں کو ٹانگوں پر گولیاں ماریں اور دونوں زخمی ہو گئے ۔ میں پروفیسر آزاد کو بندھے بم کو ناکارہ بنانے کی کوشش کے دوران غلط تار کاٹ بیٹھا اور ڈیڑھ گھنٹے رہنے والے بم کا وقت باقی صرف دو منٹ رہ گیا۔ میں نے کسی نہ کسی طریقے سے بم نکال کر پھینکا اور پروفیسر کو لے کر دروازے کے ذریعے بھاگتا ہوا باہر نکل آیا اور اسی دوران بم پھٹ گیا۔
تو سر وہ دونوں اغواء کار زندہ ہیں یا مر گئے، ایک افسر نے تجسس سے پوچھتے ہوئے کہا۔
اغواء کاروں کا نام سنتے ہی حامد بھاگتے ہوئے کمرے کے اندر گیا اور جیب سے ٹارچ نکال کر اُنہیں ڈھونڈنا شروع کر دیا کہ اسی دوران حامد کی ٹیم کے ایک افسر نے حامد کو بلاتے ہوئے کہا " سر یہ رہے دونوں" ۔
حامد وہاں پہنچا تو نیچے فرش پر دونوں کی لاشیں پڑیں تھیں جن کے چہرے دھماکے کی وجہ سے مسخ ہو کرناقابلِ شناخت ہو چکے تھے اور دھماکے سے پورے جسم پر عجیب و غریب قسم کے نشانات بن چکے تھے اور دونوں کی ٹانگوں پر گولیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ " افسوس میں ان دونوں کو زندہ پکڑنا چاہتا تھا " حامد نے مایوس ہوتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر تک بیک اپ اور ایمبولینس کی گاڑیاں وہاں پہنچ گئیں اور دونوں لاشوں کو مردہ خانے جمع کرا دیا گیا۔ آزاد کی گواہی اور شناخت نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ وہ دونوں جیل سے بھاگے ہوئے عمر قید والے قیدی تھے جو اپنی موت آپ مر گئے اور پروفیسر آزاد لوگوں کی دعاؤں کے نتیجے میں بالکل خیریت سے بازیاب ہو کر اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھے جہاں مشن کی کامیابی کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی اور ہزاروں لوگ پروفیسر آزاد کو خوش آمدید کہنے کے لیے جمع تھے۔ تمام نیوز چینلز پروفیسر آزاد کی بازیابی کی خوشخبری چلا رہے تھے اور ساتھ بتا رہے تھے کہ تھوڑی دیر بعد پروفیسر آزاد کی آمد کی براہ راست ویڈیو دکھائی جائے گی۔ پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ رافیعہ ابھی تک ہسپتال میں داخل تھی اسے وہیں پر یہ خوشی کی خبر سنائی گئی جسے سنتے ہی رافیعہ کے چہرے کے تاثرات کسی چھوٹے بچے کی طرح خوشی سے دمک اٹھے اور خوشی سے رافیعہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
جیسے ہی پروفیسر آزاد واپس پہنچے تو وہاں پر موجود ہزاروں لوگوں نے پروفیسر کی واپسی کی خوشی میں نعرے لگانا شروع کر دیئے اور فضا "آزاد زندہ باد آزاد زندہ باد" کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک یہی سلسلہ جاری رہا ، نعرے لگتے رہے، لوگ آزاد کے ساتھ ملتے رہے ، سیلفیاں بناتے رہے ، مبارک باد دیتے رہے اور یہ سارا کچھ میڈیا براہِ راست دکھاتا رہا ۔ پھر آزاد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ " میں آپ تمام لوگوں کا بے حد مشکور ہوں جو پچھلے کئی دنوں سے دن رات یہاں بیٹھ کر میری بازیابی کے لئے احتجاج کر رہے ہیں، میں گھروں میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری بازیابی کے لئے دن رات دعائیں کیں، میں حکومت کا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے حامد علی خان جیسے بہادر اور سمجھدار افسر کو یہ مشن سونپا۔ آخر میں آپ سب سے درخواست ہے کہ رافیعہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں وہ اس وقت ہسپتال میں ہے" ۔
یہاں سے پروفیسر آزاد کو سیدھا ہیڈکوارٹر لیجایا گیا جہاں پر ان سے اس سارے سانحے سے متعلق ساری تفاصیل ریکارڈ کروائی گئی سارے بیانات قلمبند کروائے گئے اور اس کے بعد پروفیسر آزاد رافیعہ کے پاس ہسپتال پہنچ گئے۔
اغواء سے ایک دن پہلے
پروفیسر آزاد رات کو اس جگہ سے گزرے گا ، یہاں سے آپ نے اس کو اغواء کرنا ہو گا، ہیٹ پہنے شخص نے جلال اور بلال دونوں بھائیوں کو آگاہ کیا۔
"اگر تم نے ہمیں کوئی دھوکہ دینے کی کوشش کی تو یاد رکھنا قتل کے الزامات تو ویسے ہی ہمارے سر پر ہیں، ہم نے تمہارا کم از کم قتل کر دینا ہے تاکہ قتل کا خالی الزام نہ ہو اور ہمیں بھی یہ احساس نہ رہے کہ ہم بغیر کسی جرم کے سزائے موت بھگت رہے ہیں"۔ جلال نے ایک بڑا بھاری بیگ اس ہیٹ پہنے شخص کو پکڑایا۔
اس میں پورے دس کروڑ روپے ہیں ، باقی کے دس کروڑ کام ہو جانے کے بعد، بلال نے اس شخص کو بتایا۔
پروفیسر آزاد کی بازیابی کے دس دن بعد
"یہ رہے تم دونوں کے نئے پاسپورٹ، نئی آئی ڈیز اور بحری جہاز کا ٹکٹ" ہیٹ پہنا ہوا شخص بولا۔
آپ نہ ہوتے تو ہم بے گناہ ساری زندگی جیل میں سڑتے رہتے ، بہت بہت شکریہ اور یہ رہے آپ کے باقی کے دس کروڑ روپے، بلال نے ایک بڑا سا بیگ اُس ہیٹ پہنے شخص کو تھماتے ہوئے کہا۔
Good bye forever.
سرخ رنگ کا خونصورت لہنگا پہنے، گلے میں ایک دلکش سا ہار، ہاتھوں میں سونے کے کڑے اور ناخنوں پر گلابی رنگ کا نیل پولش، رافیعہ دلہن کے روپ میں آج پروفیسر آزاد کو تاحیات قید کرنے کے لئے تیار تھی۔
پروفیسر آزاد نے کالے رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگ رہا تھا۔
سارے مہمان جمع ہو چکے تھے اور دونوں دلہا دلہن کو گفٹس کی صورت میں مبارکباد پیش کر رہے تھے کہ اسی دوران سر پر ہیٹ، لمبا سا جیکٹ اور لمبے بوٹ پہنے ایک مشکوک شخص ہال میں داخل ہوا، پستول کو جینز کے پیچھے چھپاتے ہوئے وہ پروفیسر کی جانب چل دیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ بھی تھا ۔
" شادی بہت بہت مبارک ہو پروفیسر صاحب" ہیٹ پہنے اُس شخص نے ہاتھ میں پکڑا وہ لفافہ پروفیسر کو تھماتے ہوئے کہا۔ پروفیسر آزاد نے لفافہ کھولا تو اس میں دس کروڑ روپے کا چیک تھا۔
"بہت بہت شکریہ حامد علی خان صاحب، اب آپ بھی شادی کر لیں" پروفیسر آزاد کی بات پر دونوں کھلکھلا کر ہنس دیئے۔ "
(ختم شد)