” تو اٹھ جا ! یہ میری چئیر ہے ۔” تابندہ مطیع کو بازو سے پکڑ کر زبردستی کر سی سے اٹھانے کی کوشش کررہی تھی ۔
” کیوں ؟ تو گھر سے لائی ہے کیا ؟” مطیع حاضر جوابی سے بولا ۔
” اس سے تجھے کیا ؟ ” تابندہ جھٹ سے بولی۔
” تم دونوں پھر سے کیوں لڑ رہے ہو؟ ” افصہ جھنجھلائی ۔
” یار ! یہ میرا پیچھا کررہی ہے ۔ جہاں بھی جاتا ہوں میرے پیچھے پیچھے آجاتی ہے ۔” مطیع برگر کھاتے ہوئے شرارت سے بولا ۔
” بس کرو یار ! دیکھو ماہی اتنے ٹائم بعد آئی ہے ۔” صبار کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔
” Let them fight۔۔۔. مجھے اچھا لگتا ہے ۔” حمائل جوس کا سپ لیتے ہوئے مسکرائی ۔ وہ بہت عرصہ بعد اپنے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کے کھارہی تھی ۔
” میں ماہی کے ساتھ بیٹھوں گی ۔ اٹھ میری چیئر سے ۔” تابندہ مطیع کی جان بخشنے پرراضی نہیں تھی ۔
” تو میرے پیچھے کیو ں پڑی ہے یار؟ سب کہتے ہیں میں ہینڈ سم ہوں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تو میرے پیچھے پاگلوں کی طرح پھرتی رہے ۔” مطیع بڑے مزے سے برگر کھاتے ہوئے بولا ۔
” ایکسکیوزمی ! شکل دیکھی ہے اپنی ۔ برگر کھا کھا کر خود برگر بن گیا ہے اور اگر اسی سپیڈسے کھاتا رہا ناں تو بہت جلد تو موٹاپے کا ورلڈ ریکارڈ بنا دے گا ۔” تابندہ مطیع کی کرسی کا پشت پکڑے کھڑی رہی ۔
” او میڈم ! میرے حسن کی تعریف کر کے خود کو نہ تھکائیں ۔ پورا شہر جانتا ہے کہ میں کتنا پیارا ہوں ، مطیع بدستور کھاتا رہا ۔
” وہ تو دکھ رہا ہے ۔” تابندہ نے مطیع کو غصے سے گھورا ۔
” تھینک یو ، تھینک یو ۔” وہ تابندہ کے سامنے تھوڑا جھک گیا تو وہ غصے سے چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔
” اوہ ۔ سوری آئی ایم لیٹ ۔” کامل آتے ہی کر سی پر ڈھیر ہو گیا ۔
” Its ok ، عاد ت ہے تیری ۔” صبار نے طنز کیا ۔
” ہائے ماہی !کیسی ہے یار؟ تو بالکل گم ہو گئی ہے ۔” حمائل کو دیکھتے ہی کامل مسکراتے ہوئے بولا ۔
” آئی واز بزی۔” حمائل نے بہانہ بنایا۔
“ہا ں بھئی ! اب تو آپ مالی بن گئی ہیں ۔ بزی ہی رہیں گی ۔” مطیع نے طنز کیا ۔ سب ہنسنے لگے۔
“ہاں ماہی ! ایک ہی یونیورسٹی میں ہوکر بھی تو مہینوں بعد ہم سے ملنے آئی ہے ۔” افصہ نے سموسہ کھاتے ہوئے کہا ۔
” میں اور کامل بھی روز یہاں آتے ہیں ۔ ہم سب مل کے کھاتے ہیں یہاں ۔”
“ایک دوسرے کو ۔” مطیع جلدی سے بول پڑا۔
“ہاں ۔تم دونوں تو خیر یہی کرتے ہو۔” افصہ نے جواب دیا ۔
حمائل پھر سے اپنے دوستو ں کے ساتھ مل بیٹھ کے واقعی کھل اٹھی تھی ۔
” جنتا ٹائم میں نے تم لوگوں سے الگ گزارا اب مجھے اندازہ ہو گیا کہ میر ا وہ ٹائم ضائع ہوگیا ۔ آج کے بعد میں ہر روز یہاں آکے تم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گی تاکہ مجھے بھی لگے کہ میں زندہ ہوں ۔” اس نے جاتے جاتے اپنے دل میں طے کر لیا ۔
” میں روز تجھے دیکھتا تو شاید کبھی نہ جان پاتا کہ مجھے تجھ سے محبت ہے ۔ کیفے ٹیریا سے باہر جاتے ہوئے صبار نے سوچا تھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
رات کا کھانا کھاتے ہی وہ اماں کے پاس گیا تھا ۔اس کا بہت دل کرتا کہ وہ جاکر ان کے پاس بیٹھے ان سے باتیں کرے لیکن وہ کمزور اور بے بس سی عورت تو کسی بھی زاویے سے ان کی ماں نہیں لگتی تھی۔
” کل چلے جاؤ گے؟” وہ تخت پر بیٹھی کوئی تسبیح پڑھتے پڑھتے رکیں ۔
” جی کل شام سات بجے کی فلائٹ ہے ۔” وہ ان کے پاس ہی نیچے قالین پر بیٹھ گیا ۔
” آپ کو دیکھ کر پرانی اپنائیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ آپ کے گود میں سر رکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ بس آپ کو دیکھتا ہوں تو دل کٹ سا جاتا ہے ۔” اس نے اپنی ماں کی سانولی رنگت دیکھ کر سوچا ۔ وہ بہت رنجیدہ ہوتا تھا اپنی ماں کی خاموش آنکھوں میں پانی کی لہریں دیکھ کر ۔
” باپ کی شکل دیکھنے تو نہ آسکے ۔ میر ی موت پر بھی نہیں آؤ گے کیا ؟”
” یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں اماں ؟ میں آپ کے پاس ہوں ۔” وہ ان کے اور بھی قریب جاکر بولا۔ اس نے ان کے دبلے ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیے ۔ اس نے محسوس کیا کہ ان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ یہاں سے جاؤں گا تو ایک مہینہ بعد امتحان ہو گا میرا ۔ اس کے بعد چھٹی ہو گی تو آؤں گا اماں!”
” ہاں ۔ میں تمہیں روک نہیں سکتی ۔ تمہارے ابا کی خواہش تھی کہ تم بڑے آدمی بن جاؤ ۔” وہ نگاہیں جھکائے ہوئے تھیں ۔
” اماں !دکانوں کو کون دیکھے گا؟”
” علی کو اللہ رکھے۔ وہ دیکھ رہا ہے ۔ پہلے بھی بہت مدد کرتا تھا تمہارے ابا کی ۔” وہ بولیں۔ اصغر خاموش رہا۔
” اماں! میں کچھ مانگوں تو دیں گی؟
” کیا؟” انہوں نے حیرت سے اصغر کو دیکھا ۔
” میر ی پرانی والی اماں ۔ ” اصغر کی اس بات سے نہ جانے کیا ہو گیا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ۔ اصغر کے کندھے پر سر رکھ کر وہ اتنا روئیں کہ اس کا گریبان تر کر گئیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
“امی جی کہاں ہیں ؟ ” دوپہر کا کھانا و ہ عموماًامی جی ، شہروز اور منزہ کے ساتھ کھاتی تھی۔ ابو جی چوں کہ آفس سے شام کو آتے تھے اسی لیے وہ انہیں ڈنر یا پھر اگلی صبح ناشتے کی میز پر ہی دیکھ پاتی تھی ۔لیکن اب تو اسے ان کی ذات، ان کی موجودگی یا غیر موجودگی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی تھی اس لیے ان کے ہونے یا نہ ہونے سے بھی اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا ۔
” مسز قاسم نے نیا پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔women’s health and safety compaign خالہ اسی مہم کی ہیڈ ہیں ۔اسی سلسلے میں بلوچستان گئی ہوئی ہیں ۔ ” منزہ نے کھانا کھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔
” Do you really mean it..? ” وہ نوالہ منہ میں ڈالتے ڈالتے رکی ۔
” ہاں ۔ لیکن اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے فیٹی ماں ؟” شہروز بہت نارمل انداز میں کھاتے ہوئے بولا ۔
” i mean وہ بلوچستان چلی گئیں اور مجھے پتا تک نہیں ۔” وہ ناراضی سے بولی ۔
” تو پتا لگانا چاہیے تھا ناں ۔” شہروزاس کی طرف دیکھے بنا بے نیازی سے بولا ۔
” مجھے پتا تھا کہ وہ ایسے اچانک چلی جائیں گی ۔مجھے بنا بتائے ۔۔۔” اس نے کھانے سے ہاتھ روک لیے۔
” میری تو کوئی Importance ہی نہیں ہے ۔” وہ جذباتی ہو گئی ۔
” فارگاڈ سیک حمائل! اس میں Importance کی بات کہاں سے آگئی ؟” شہروز کھاتے کھاتے رکا ۔
” ٰimportanceکی بات ہے ۔ آپ سب مجھے neglect کرتے ہیں۔ میں آپ میں سے کسی کے لیے Importantنہیں ۔” اس کی آواز بھرا گئی۔
” ایسا نہیں ہے ۔تم بات کو غلط سائیڈ پر لے کے جارہی ہو ۔” شہروز اب سنجیدگی سے اس کی طرف متوجہ تھا۔
” کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس فرینڈز کے علاوہ کوئی اور relation ہی نہیں ہے ۔” شہروز کی بات سنے بغیر وہ رنجیدہ لہجے میں بولی ۔ نہ جانے کیا ہو گیا تھا ؟ اس کا دل ایک ذراسی بات پر بھر آیا تھا ۔
” شٹ اپ تمہیں اگر ایسا لگتا ہے تو ٹھیک ہی لگتا ہے کیوں کہ تم نے فرینڈز کے علاوہ باقی relationships کو ٹائم ہی کب دیا ہے ؟”شہروزاچانک برہم ہو گیا ۔
But we still consider you a child میں حیران ہوں تمہیں ہو کیا گیا ہے ؟ ہر بات پر غصہ اور rudeness ۔۔۔۔” شہروز کی آواز اچانک اونچی ہو گئی ۔ منزہ حیرانی اور قدرے پریشانی سے اس سارے منظر کو دیکھ رہی تھی۔
” And I just don’t understand کہ آپ سب کو کیا ہو گیا ہے ؟” اس کی آنکھوں میں آنسو، آواز میں شکایت اور لہجے میں ناراضی تھی ۔ وہ کرسی سے اٹھ کر ڈائیننگ روم سے باہر چلی گئی ۔
اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ اند ر سے لاک کردیا اور وہیں پر بیٹھ کر رونے لگی ۔شہروز نے زندگی میں شاید پہلی بار اس کے ساتھ اس قدر سخت لہجے میں بات کی تھی ۔
وہ خود حیران تھا کہ وہ اتنا غصہ کیوں ہو گیا تھا ؟ حمائل تو ہمیشہ سے بہت ہی بے دھڑک اور قدرے بگڑی ہوئی تھی لیکن شہروز نے تو ہمیشہ اس سے بچوں کی طرح سمجھا تھا ۔ وہ کچھ بھی کہتی ، شہروز نے اس کی باتوں اور اس کی حرکتوں کو کبھی مائنڈ نہیں کیا تھا ۔ وہ اس کی لاڈلی بہن تھی جس کو وہ جب چاہتا خوب دل کھول کے چھیڑ سکتا تھا، لیکن کافی عرصے سے وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھنے لگی تھی ۔ غصہ ہونے لگی تھی ۔ کھانا چھوڑ دیتی تھی ۔ یہاں تک کہ چیخنے چلانے سے بھی گریز نہیں کرتی تھی ۔ اسے کیا مسئلہ تھا وہ سمجھ نہیں پارہاتھا اور اسی ناسمجھی میں آج اس نے غیر ارادی طور پر حمائل کو ڈانٹا ۔
” خود کی فیلنگز کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ دوسرے کی بھی فیلنگز ہیں اور اگر وہ روزانہ سے کوئی غیر معمولی حرکت کرے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انسان ڈسٹرب ہے ۔” ڈائیننگ روم سے نکلنے وقت منزہ نے اسے سمجھایا تھا ۔
” I think آپ کو حمائل سے سوری کہہ دینا چاہیے۔اس کی سچوئشن کو سمجھنا چاہیے ۔ شاید اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو ۔” اس کے ذہن میں مسلسل منزہ کی باتیں گھوم رہی تھیں اور اس نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل درست تھا ۔
شہروز کو بہر حال حمائل کے پاس جا کر اس کو منانا تھا ۔
” میرا بھائی کتنا کیئرنگ تھا۔ تبھی تو وہ دونوں مجھے لکی کہتی تھیں ۔لیکن بھائی کا یہ attitude اسی منزہ علی کی وجہ سے ہے ۔” اس نے آنسو پونچھتے ہوئے بے بسی سے سوچا۔
زندگی کے سفر میں ایک موڑ سا آتاہے جب آپ کو بہت ساری اہمیت، بہت سارا پیا ر چاہیے ہوتا ہے ۔ اس سے کہیں زیادہ ،جو آپ کو مل رہا ہوتا ہے اور اسی محبت اور اہمیت کی لالچ میں آکر آپ اس کو پانے کی ضد کرتے ہیں۔ آپ روتے ہیں۔ اپنوں سے لڑتے ہیں لیکن وہ آپ کا نقطۂ نظر سمجھ نہیں پاتے اور آپ مزید پیار کے چکر میں اپنی پرانی اہمیت اور پیار بھی کھو دیتے ہیں۔
حمائل اصغر دیوار سے ٹیک لگائے ، قالین پر ٹانگیں پھیلائے کسی بھکاری کی مانند بے بس اور تہی دست لگ رہی تھی ۔ وہ جذباتی سی لڑکی بار بار غصے سے اپنی آنکھوں سے بہنے والے گرم گرم قطروں کو پونچھتی لیکن پھر سے اس کی آنکھیںبھر آتیں ۔ اشکوں کا قطرہ آنکھ سے بہ نکلتا ۔ وہ اسے پونچھتی اور پھر ایک اور آنسو۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام کے پانچ بج رہے تھے ۔ اصغر کے جانے کی تیاریاں ہو چکی تھیں، اسے ائیر پورٹ کے لیے جلدی نکلنا تھا ۔
” بھائی !”عرینہ اس کے سینے سے لگ کر بہت سارا روئی ۔وہ بے بسی سے عرینہ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھا ۔۔وہ جانتا تھا اگروہ بولے گا تو رود ے گا ۔
دینا ایک طرف سر جھکائے کھڑی تھی ۔ بے یقینی سی تھی دکھ ساتھا اور ایک خفیف سا در د۔۔ جو دل کے کہیں بہت ہی پاس سر اُٹھا رہا تھا ۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا اصغر عرینہ کو خود سے الگ کر رہا تھا ۔ اس نے پھر سے نظریں جھکا لیں ۔ اسے یاد آیا وہ دوپہر کو اس کے کمرے میں آیا تھا جب وہ کمرے میں اکیلی تھی لیکن دینا نے آنکھیں بند کرلی تھیں ۔ اصغر کو لگا وہ سورہی ہے ۔ تھوڑی دیر اس کودیکھتے رہنے کے بعد وہ خاموشی سے باہر گیا تھا ۔ اور اس کے جاتے ہی اشکوں کے کتنے سمندر تھے جو آنکھوں سے بہ کر تکیے میں جذب ہوئے تھے ۔
اس نے اوپر دیکھا اصغر مرینہ کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے مسکرانے کی کوشش کررہا تھا کہ مرینہ رودی ۔ اصغر نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر کر اس کے آنسو خشک کیے ۔ دینا نے آنکھیں بھینچ لیں ۔نہ جانے کیوں اسے تکلیف سی ہوئی تھی ؟ یوں جیسے سوئی چبھ گئی ہو یا پھر پیروں میں کوئی کانٹا ۔۔۔ در د کی ایک لہر سی اس کے وجود میں دوڑ گئی ۔
مرینہ اور اماں سے ملنے کے بعد اصغر اس کی طرف آیا تو دینا نے سرجھکا لیا ۔ وہ اس کو مضبوط سمجھتا تھا ۔وہ اس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی ۔
” تم مت جاؤ خدارا۔میں بڑی تکلیف میں ہوں ۔” اس نے زور سے آنکھیں بھینچ لیں ۔ اشکوں کو کسی صورت نہیں بہنا چاہیے ۔
” تم نہ جاؤ۔ خدا کے لیے نہ جاؤ۔ اگر تم چلے گئے تو میرا خواب ٹو ٹ کر بکھر جائے گا ۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی ۔ خدا کے لیے نہ جاؤ ۔”
اصغر کی طرف دیکھے بنا وہ کمرے کی طرف بھاگی تھی ۔ سب حیرت سے دینا کو جاتا دیکھتے رہے۔ اصغر جانے کو مڑا ۔ اپنا بیگ کندھے سے لٹکا کر وہ باہر نکل گیا ۔ باہر جا کر اس نے کتنی بار اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کی تھی ۔ جاتے جاتے وہ اپنادل پیچھے چھوڑ گیا تھا جس سے وہ سوچا کرتا تھا ،جس سے وہ فیصلے لیا کرتا تھا ۔ جس سے دینا کو یاد کیا کرتا تھا۔ اب وہ دل دینا کے پاس تھا ۔وہ کمرے کی طرف خالی ہاتھ نہیں بھاگی تھی ۔ اصغر کا سینہ چیر کر اس میں سے دل نکال کر لے گئی تھی اور اب وہاں بے پناہ درد سر اٹھا رہا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ کلاس سے نکلی ہی تھی کہ صبار کا فون آگیا ۔
” ہیلو ایس بی ! کیا حال ہے ؟”
” سب ٹھیک ہے ۔ ماہی ! کیا تو مجھ سے مل سکتی ہے آج؟ ایک ضروری بات کرنی ہے ۔” وہ سنجیدہ تھا ۔
” ہاں ۔ میں آرہی ہوں تم لوگوں سے ملنے ۔کیفے ٹیریا میں ملتے ہیں ۔” حمائل طے شدہ انداز میں بولی ۔
” نہیں ۔ نہیں ۔ میں تجھ سے اکیلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔”
” تو پھر کہاں ملیں ؟”
” تو اس وقت کہاں ہے ؟”
” میں سینٹرل لائبریری کے سامنے والے لان میں ۔” وہ چلتے چلتے رک ۔
” تو ایک کام کر یہاں آجا ۔ میں یہاں تیرا waitکرتی ہوں ۔ ” وہ لان میں جا کر ایک بنچ پر بیٹھ گئی ۔
” okay, I am coming ” فون بند ہوتے ہی وہ پورے دل سے مسکرایا ۔” I don’t know ” کہ تو کیسا react کرے گی ؟
وہ کسی سے کچھ بھی کہے بغیر حمائل سے ملنے چلا گیا ۔
” سوری یار ! مجھے waitکروایا ۔ ” وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔ حمائل رسٹ واچ میں ٹائم دیکھتے دیکھتے رہ گئی ۔
” چھوڑ یہ سب۔۔۔ بات کیاہے ؟ وہ مکمل طور پر صبار کی طرف متوجہ ہوگئی ۔
” ایساکیا ہے جو تو اکیلے میں کہنا چاہتا ہے ؟
” کل تو آدھی رات تک پریکٹس کررہا تھا ،میڈم کو پرپوز کرنے کی اور اب دیکھتے ہی زبان بند ہو گئی ؟” صبار نے دل ہی دل میں خود کو ملامت کیا ۔Speak up۔۔۔SB!! speak up!” ” اس نے خودہی کو حوصلہ دیا ۔
” ایس بی! what’s this? ! میں کب سے wait کررہی ہوں کہ توکچھ بولے گا لیکن لگتا ہے تیری زبان کٹ گئی ہے ۔ لکھ کے دے دے اگر بول نہیں سکتا ۔” حمائل نے اسے ٹوکا تو وہ چونک گیا ۔
” یار ماہی ! بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔” وہ ہکلایا ۔
” بات کیا ہے ؟ وہی تو میں پوچھ رہی ہوں ۔” وہ جھنجھلائی۔
” تو ایسے دیکھے گی تو میں ۔۔ یار! میں نروس ہورہا ہوں ۔” وہ سٹ پٹا گیا ۔
” میں تجھے بچپن سے جانتی ہوں ۔ میرے سامنے کچھ بھی بولتے وقت کبھی تو نروس ہوا ہے ؟ اب بول بھی دے ایس بی !”
” وہ میرے پاپا جاپان میں ہیں ۔”
” I knowایس بی !”
” ممی اکیلی ہوتی ہیں ۔”
” تو نے مجھے یہ کہنے کے لیے یہاں بٹھایا ہے ؟” وہ ناراض ہو کر اٹھنے لگی ۔
” نہیں ۔ نہیں ۔wait. wait” ” وہ ہڑبڑا کر کھڑا ہوگیا ۔
” توممی کی بہو بن جا ۔نہیں ۔ نہیں ۔آئی مین،آئی لو یو!” اس نے حمائل کا ہاتھ تھام لیا ۔
” ایس بی !!؟؟؟حمائل کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا، وہ آنکھیں پھاڑے صبار کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ۔
Tell me ” “آج فرسٹ اپریل تو نہیں ۔” اس نے صبار کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
” NO ۔ ماہی ! لِسن پلیز ۔ دیکھ ! مجھے نہیں پتا۔۔ لیکن یار ! جب تو سامنے ہوتی ہے ناں تو لگتا ہے جیسے دل میں گٹار بج رہا ہے یا پھر چرچ کی بیل کی طرح تیز بیل ۔۔۔” وہ مسکرا رہا تھا ۔
” تجھے دیکھ کے ناں دل میں الارم بجنے لگتا ہے اور یہ alramکسی اور کو دیکھ کر نہیں بجتا ۔ اب تو ہی بتا دے یہ سب کیاہے ؟
” تجھے فوبیا ہو گیا ہے ۔” وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بولی ۔
” کیسا فوبیا۔۔۔؟” وہ حیران ہو گیا ۔
” وہ تو ہی طے کر لے ۔ فی الحال تو گھر جا کے ریسٹ کرتوتھک چکا ہے ۔” وہ اس کا کندھا تھپتھپا کر چلی گئی۔ صبار دیدے پھاڑے حیرت سے حمائل کو جاتا دیکھتا رہا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کچھ حقیقتیں کسی قدر تلخ ہوتی ہیں ۔ کچھ سچائیاں جب سامنے آتی ہیں تو سب کچھ برباد کر کے رکھ دیتی ہیں ۔ کاش میں کبھی عرینہ کی ڈائری نہ پڑھتی ۔ کاش مجھے کچھ پتہ نہ چلتا ۔ رات گئے وہ آم کے پیڑ کے نیچے سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔” میں ۔۔۔۔ مرینہ کو بتادوں کہ وہ مجھ سے ۔۔۔؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے ۔” میں سب سچ سچ بتا دوں گی اسے ۔ بہن ہے وہ میری ۔ سمجھ جائے گی ۔ ” اس نے” آنسو پونچھ لیے ۔
” واہ بھئی ! دماغ سے سوچنے والی دل والوں میں شامل ہونے لگی ہے ۔ خواب دیکھنے لگی ہے ۔ اسے اپنے اندر سے ایک طنزیہ آواز سنائی دی۔” تو میں کیا کروں؟ بھول جاؤں اس شخص کو ؟ اس کی محبت کو؟ بھول جاؤں کہ میں اس کی طاقت ہوں ؟ بھول جاؤں کہ وہ میرے سامنے رویا تھا ؟” اس نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ دیا ۔
” لیکن مرینہ بھی تو بہن ہے میری ۔اس سے اس کی محبت نہیں چھین سکتی میں ۔ مجھے اس کی خوشی میں خوش ہونا ہے ۔” اشکوں کی لڑیا ں رواں تھیں۔
” میں بھی تو اس کی بہن ہوں ۔میری خوشیوں کابھی وہ اتنا ہی خیال رکھتی ہے جنتا میں اس کی خوشیوں کا رکھتی ہوں ۔میں بتا دوں گی اسے ۔ بتادوں گی کہ اصغر کو مجھ سے محبت ہے ۔ مجھے یقین ہے وہ بھول جائے گی ان کو ۔” اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر آنکھیں بھینچ لیں ۔دل و دماغ کی بحث سُن سُن کروہ تھک چکی تھی ۔اس نے ٹانگیں پھیلا دیں ۔ ” کاش کوئی آکر میری ٹانگیں دبا دے ۔ ” اس نے دعا مانگی ۔ ” کل مرینہ کو سچ بتا دینے کے بعد میرے ذہنی بوجھ کے ساتھ ساتھ میری جسمانی تھکن بھی ختم ہو جائے گی ۔ اس نے ٹانگیں سمیٹ لیں ۔ ” میں اس کا بہت خیال رکھوں گی ۔وہ جو مانگے گی میں اسے دے دوں گی ۔ بس وہ مجھ سے میری محبت نہ لے ۔ میں جانتی ہوں وہ سمجھ جائے گی ۔” اس نے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں خشک کرلیں اور اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
لان میں ایک ایک پودے کا جائزہ لیتے ہوئے وہ گلاب کے پھول کے پاس آ کررکی اور پھر وہیں پہ گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔
” میرے پاپا جاپان میں ہیں ۔” اس کے کانوں میں صبار کی آواز لہرائی ۔
” میری ممی اکیلی رہتی ہیں ۔” اس کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ چھا گئی ۔”تو ممی کی بہو بن جا ۔” وہ ہنسنے لگی ۔
آئی مین آئی لو یو ۔” وہ گھاس پر سے اٹھ گئی ۔
” آئی مین آئی لو یو۔” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا ۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔
” آئی لو یو ۔” اس نے زیر لب دہرایا ۔ یہ الفاظ کتنے سیدھے سادے سے تھے لیکن ان میں کتنا سرور تھا ۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔
” زندگی میں محبت کا ہونا ضروری ہے ۔محبت کے بغیر تو رشتے کھوکھلے ہوتے ہیں ۔” اس نے سمجھ داری سے سوچا۔ اچانک اسے اپنی ماں یاد آگئی۔ ” صبار کی محبت میرے لیے بہت ضروری ہے ۔ ننگے پیر گھاس پر چلتے ہوئے اس نے طے کیا ۔” میں مزید اپنی زندگی میں کھوکھلے رشتے نہیں چاہتی ۔ ” اس کا انداز فیصلہ کن تھا ۔
وہ سیدھی اپنے کمرے کے اندر گئی تھی ۔صبار کو فون ملا کر اس نے موبائل کا ن سے لگا لیا ۔ اس طرف گھنٹی بج رہی تھی ۔ حمائل کا دل مزید زور زور سے دھڑکنے لگا ۔ اس نے آنکھیں بند کردیں ۔
” ہیلو؟” صبار کے انداز میں سوال تھا ۔ اسے شاید امید نہیں تھی کہ وہ اس سے رابطہ کرے گی ۔
” ہاں ۔ ہیلو ! ایس بی ۔” وہ چونک سی گئی ۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں ۔ ” کیا حال ہے تیرا؟ ” وہ اپنی کیفیت چھپانا چاہ رہی تھی ۔
” میں ٹھیک ہوں ۔ تو بتا ۔ ” وہ زیادہ بولنے سے ڈر رہا تھا ۔
” مجھے بھی فوبیا ہو گیا ہے ۔” و ہ مسکرائی ۔
” میں سمجھا نہیں ۔ کیسا فوبیا ؟” وہ انجان بننے کی کوشش کررہا تھا ۔
” میرے دل میں بھی گٹار بجنے لگا ہے ۔ چرچ کی تیز گھنٹی یا پھر الارم” ۔۔۔۔ تو ہی بتاد ے ۔ کیا ہے یہ سب؟”
” فوبیا!” صبار نے قہقہہ لگا یا ۔حمائل کھل کھلا کر ہنسی ۔
” سٹوپڈ ! میر ی محبت کو فوبیا کا نام دے دیا تو نے ۔”
” مجنوں تو تو ہے نہیں جو عشق کا نام دوں ۔”
” اور اگر بن گیا تو۔۔۔؟”
” تب دیکھا جائے گا۔” اس نے آنکھیں بند کر کے دیوار سے ٹیک لگا لیا ۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے گلاب کی پنکھڑیاں اس پر برس رہی ہوںیا پھر وہ بہت دور فضا میں کہیں اڑرہی ہو ۔ سفید بادلوں کے بیچ۔۔۔۔ یہ جو کچھ بھی تھا، بڑاحسین تھا ۔ وہ دیر تک موبائل کان سے لگائے خاموشی سے صبار قاسم کی آواز سنتی رہی ۔ اس کی محبتیں سمیٹی رہی اور ان محبتوں پہ صرف اسی کاحق تھا ۔ وہ چاہتیں صرف اور صرف حمائل اصغر کی تھیں جس میں منزہ علی کا کوئی حصہ نہیں تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
صبح اس کی آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ مرینہ کالج چلی گئی ہے ۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتی بستر سے اٹھی۔”اونہہ۔ نماز بھی قضا کردی میں نے ۔” اس نے خود کوکوسا ۔
” میرا مرینہ سے جلد از جلد بات کرنا بہت ضروری ہے کہیں سوچتے سوچتے وقت ہی نہ نکل جائے ۔” وہ غسل خانے کے اندر چلی گئی ۔
” آج وہ کالج سے آئے گی تو میں اس سے بات کر لوں گی ۔” ا س نے وضو کرتے وقت بڑی آسانی سے سوچا ۔
” دن کی شروعات ہی بنا نماز کے” ۔۔۔ اسے نماز قضا ہونے کاملا ل تھا ۔” اشراق پڑھ لوں گی۔” اس نے دلْ میں طے کیا ۔
” یااللہ ! میں نے فجر قضا کر دی ۔ اس کے لیے معاف فرما ۔۔ میں اپنے دن کا آغا ز تیرے ہی نام سے کرتی ہوں ۔ مجھ سے کبھی ناراض مت ہونا ۔ میرے راستے کی مشکلیں آسان فرما ۔آمین ۔ ” جائے نماز بچھا کر وہ نماز پڑھنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
“بھئی! ہمیں بھی بتا دو کہ یہ اظہار محبت کہاں پہ ہواتھا ۔؟ مطیع نے پتہ چلتے ہی صبار اور حمائل کو چھیڑنا شروع کر دیا ۔
” کیوں؟ تجھ سے مطلب؟” حمائل نے کیفے ٹیریا کے اندر جاتے ہوئے کہا ۔
” وہ میں کہہ رہا تھا کہ وہاں ایک تاج محل بنالیں ۔چندے کی رقم سے ۔۔۔”
” فارگاڈ سیک مطیع!چھوڑ بھی دے اب یہ بات ۔ ” افصہ نے مطیع کو ٹوکا ۔
” میں نے پکڑی کب ہے ۔ ؟” وہ معصومیت سے بولا ۔
کیوں بھابی جی !”” کیا کھا نا ہے آپ نے ؟ وہ حمائل کی طرف متوجہ ہوا ۔
” تو بکواس کرے گا تو تھپڑ ماروں گی ۔”حمائل نے مطیع کو گھورا۔
” یا اللہ ! پناہ۔۔۔ ” مطیع کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دور ہٹ گیا ۔
” شادی کے بعد تو تجھے تھپڑ ہی پڑنے والے ہیں یا ر! کیوں نہ ابھی سے رولیں ابھی تیرے آنسو پونچھنے کو تو میں ہوں ۔ بعد میں کیا پتا ؟” وہ صبار کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔
” تو میر ی جگہ رولے ۔میں تب تک کھالیتا ہوں ۔” صبار نے مطیع کے کان میں کہا اور کیک کھانے لگا ۔
” میری زندگی کا یہ part میرا ہے ۔ مکمل میرا اور مجھے کی کسی کے ساتھ share نہیں کرنا ۔ ” اس نے کرسی پربیٹھتے ہوئے اپنے ہنستے بولتے دوستوں کو دیکھا اور مزے سے سینڈوچ کھانے لگی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
“کیسا رہا آج کا دن ؟” دینا نے عرینہ اور مرینہ کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے پوچھا ۔
” جیسے باقی دن ہوتے ہیں ، ویسا ہی لیکن تو کیوں پوچھ رہی ہے ۔؟”
” ایسے ہی پوچھ لیا ۔” دینا نے نگاہیں جھکالیں ۔
” بینگن کا بھرتہ کس نے بنایا ہے ۔؟”
” میں نے ۔۔۔ مرینہ کو بہت پسندہے ناں اس لیے ” ۔
” اوہو ! اتنی خاطر مدارت ؟” کیا بات ہے جی ؟ ” عرینہ نے غور سے دیناکو دیکھا ۔
اے بلور انی ! میری بات سن لے ۔ یہ چالاک عورت تیرے لیے اتنا کچھ مفت میں نہیں کررہی ۔ کچھ نہ کچھ تو ہے ۔” عرینہ کے انداز میں شرارت تھی ۔
” آپ کا مطلب ہے دال میں کچھ کالا ہے ۔؟ “مرینہ نے بھی حصہ لیا ۔
” بے وقوف ! کچھ بھی بولتی رہتی ہو ۔” دینا کے ہاتھ کانپنے لگے ۔ اپنی یہ کیفیت چھپانے کے لیے وہ کچھ فاصلے پر پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
“عرینہ ! تم بہت تھکا دیتی ہو مجھے۔ کتنی بار کہا ہے غسل خانے میں کپڑے یوں نہ پھیلایا کر و لیکن تم کسی کی بات سنتی ہی کہاں ہو ؟”
وہ جلد ی سے غسل خانے کے اندر چلی گئی ۔ عرینہ کے کپڑے سلیقے سے لٹکانے کے بعد آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ۔ اس نے حیرت سے اپنے چہرے کو دیکھا ۔”کیا میں خود غرض ہوں ؟” اس نے اپنے چہرے پر اپنے ہاتھ پھیرے ۔” اپنی محبت مانگنا کیا میرا حق نہیں ؟” اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ “کیامرینہ کو یہ بتانا کہ اصغر کو مجھ سے محبت ہے ۔ غلط ہے ؟ ” اس نے آنکھیں کھول دیں ۔
” اس کو سچائی سے آگاہ کرنا کیا میرا فرض نہیں ؟” وہ بے یقینی سے بڑبڑائی ۔” وہ ایک ادھورا خواب دیکھ رہی ہے ۔ کیا میں اسے اس خواب سے نہ جگاؤں؟ اسے بے خبرہی رہنے دوں ؟” اس کی آنکھوں سے اشکوں کی ایک رو پھسلی ۔” میں کیا کروں آ خر؟” اس نے دیوار سے ٹیک لگا لیا ۔” اصغر !” وہ سسکنے لگی ۔ اس کی بند آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے بہ بہ کر اس کے گالوں کو تر کررہے تھے ۔ ” میں کیسے سمجھاؤں ان کو کہ میں خود غر ض نہیں ہوں ؟” وہ نڈھال سی بیٹھتی چلی گئی ۔ ” کاش میں کوئی فیصلہ لے پاتی ۔ کاش مرینہ کو بتانا آسان ہوتا ۔” وہ سسکتی رہی ۔
” دینو! باہر نکل آ اندر سورہی ہے کیا ؟” عرینہ کی آواز آئی ۔
وہ جلدی سے اُٹھی ۔ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں پانی بھر بھر کر اس نے اپنے چہرے پر دے مارا اور دوپٹے سے منہ پونچھتی ہوئی وہ باہر نکلی۔
” کیا ہوا ہے تجھے ؟ تیرا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے ؟” عرینہ کے لہجے میں تشویش تھی ۔
” کچھ نہیں ۔” عرینہ کو مختصر سا جواب دے کر وہ برتن اُٹھا کر لے جانے لگی ۔
” میر ی سچائی اور میری ایمان داری میری عمر بھر کی کمائی ہے اور تم نے میری اسی کمائی پر انگلی اٹھائی ہے ۔” وہ باہر آگئی ۔ اپنی عمر بھر کی اس کمائی کو ایک محبت کے بدلے نہیں لٹا سکتی ۔ کاش یہ باتیں میں تمہارے بھائی کو سمجھا سکتی ۔ وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئی ۔
” اور وہ ایک محبت میری زندگی کا حاصل ہے ۔ کاش یہ بات میں اپنی بہن کو سمجھا سکتی ۔” اس نے بے بسی سے سوچا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شہروز بھائی نے حمائل سے معافی مانگ لی۔ امی کا کئی بار فون آیا ،وہ کئی بار معذرت کر چکی تھیں اور حمائل یہ جان کر بہت خوش ہوئی کہ وہ اسے بہت یاد کررہی تھیں ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ وہ اپنی زندگی میں خوش تھی لیکن منزہ اب بھی اسے کانٹے کی طرح چبھتی تھی ۔اپنے باپ کی ایک جھلک اب بھی اس میں غصہ اور نفرت بھر دیتی تھی ۔ لیکن اس کے پاس جینے کی ایک بڑی وجہ بھی تھی ۔ وہ صبار قاسم کی محبتوں اور چاہتوں کا محور تھی ۔ صبار کی محبت وہ واحد چیز تھی جو اسے منزہ علی کے ساتھ بانٹنی نہیں پڑتی تھی جو پوری کی پوری اسی کے حصے میں آئی تھی اور وہ مغرور سی لڑکی اس محبت کو پاکر واقعی خوش تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پورا ایک مہینہ گزر گیا لیکن وہ مرینہ سے بات نہ کرسکی ۔ جب بھی وہ اس کے سامنے ہوتی، دینا کا دل کرتا وہ اسی لمحے سچ اگل دے لیکن کوشش کے باوجود وہ حوصلہ نہ کر پائی ۔ کبھی کبھی اسے اپنا آ پ خود غرض لگتا تو کبھی وہ خود کو منافق سمجھنے لگتی ۔ اس کے دل اور دماغ میں جنگ جاری تھی ۔ کبھی دماغ کی بات درست لگتی تو کبھی دل صحیح بات کہتا۔ اسی شش و پنچ میں وہ یہ فیصلہ ہی نہ کر پا ئی کہ اسے کیا کرنا چاہیے ۔
مرینہ کو سچ بتانا اگر مشکل تھا تو اصغر کو چھوڑ دینے کا تصور بھی تکلیف دہ تھا۔ کبھی اسے مرینہ کو سچائی بتا دینا صحیح لگتا تو کبھی غلط ۔۔۔ اور وہ بڑی بے بسی سے اس صحیح اور غلط کے بیچ جھول رہی تھی ۔