کیسی رہی تیری ڈیٹ ؟” لیزا نے اس کی طرف آ کر مسکراتے ہوئے پوچھا اور اسے کمرے کے اندر لے گئی ۔
” شمعون آیا ہے آج ۔” لیزا کا چہرہ کھلا ہواتھا ۔
” اچھا ۔” عرینہ نے مختصر اً کہا۔ اس کو بھلا شمعون کے آنے یا جانے سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی ؟ بلکہ نہ جانے کیوں شمعون کا ذکر اس کو بے چین سا کر دیتا تھا ۔
” آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ شمعون کو بہت یاد کررہی تھیں تو ممی نے کال کرکے بلالیا اسے۔” لیزا نے تفصیل پیش کر دی ۔ وہ جواباًخاموش رہی ۔
” لیزا اس کے لیے جوس لے آئی اور تھوڑی دیر بعد اسے لینے ابا آئے تھے ۔
” تیری اور علی کی ملاقاتیں بڑی مشکل ہیں یار ! کہہ دے اسے کہ جلد شادی رچالے ۔” کمرے سے نکلتے ہوئے لیزا نے مذاق کیا ۔
” تو کچھ بھی بولتی ہے بدتمیز! ” عرینہ نے لیزا کو ڈانٹا ۔
” یہ یہاں کیوں آئی ہے اور یہ علی کون ہے ؟ مجھے پریشان کرنے کے لیے ممی کی بیماری کیا کافی نہیں ہے ؟آ خر میں کروں تو کروں کیا ؟” اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑے شمعون نے افسردگی سے سوچا اور کمرے کے اندر چلا گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
صبح اس کی آنکھ کُھلی تو اس نے دیکھا کہ منزہ فجر کی نماز پڑھنے میں مصروف ہے ۔
” منافق اگر نماز کے اتنے پابند ہوتے ہیں تو پھر میں کبھی نماز نہیں پڑھوں گی ۔ ” اس نے تلخی سے سوچا اور دوبارہ آنکھیں بند کرلیں ۔
دو گھنٹے بعد دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تھی ۔ اس نے دیکھا گھڑی سات بجا رہی تھی ۔ وہ جلد ی سے اٹھ کر واش روم کے اندر گھس گئی۔ نہانے کے بعد وہ سیدھی لان کی طرف گئی تھی ۔ اس کو پودوں سے بے انتہا لگاؤ تھا لیکن منزہ علی کی نفرت دھیرے دھیرے اس کی ہر محبت اور ہر رشتے کی جگہ لے رہی تھی ۔ اس کا ایک ایک رشتہ اس سے جانے انجانے میں منزہ کی وجہ سے چھنتا جارہا تھا ۔ یہاں تک کہ ہفتوں گزر جاتے اور وہ لان میں لگائے ہوئے اپنے پودوں کو دیکھنے تک نہ جا پاتی ۔بس منزہ علی ، حمائل اصغر کے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوا ر کی مانند تھی ۔ اس نے جھرجھری لی اور اس کیاری کی جانب بڑھ گئی جس میں اس نے پچھلے مہینے سرخ گلاب کے پودے لگائے تھے ۔
” مجھے مالی بننا ہے ۔” اسے یاد آیاکہ جب وہ کلاس تھری میں تھی، تب ٹیچر نے پوری کلاس کے بچوں سے باری باری پوچھا تھا کہ وہ کیا بنیں گے ؟ اور اپنی باری پر حمائل نے جو جواب دیا تھا اس پر پوری کلاس کے بچوں اور ٹیچر سمیت سب نے قہقہہ لگایا تھا اور حمائل نے حیرت سے سب کو دیکھا تھا ۔
” بھلا ان کو پودوں کی اہمیت کا کیا پتا ؟ پودے کتنے اچھے ہوتے ہیں ہماری ہر بات سنتے ہیں ۔ ہم اگر ان پر غصہ بھی کریں تو ناراض نہیں ہوتے ۔” اس نے بڑی عقل مند ی سے سوچا تھا ۔
” اور اگر آج بھی مجھ سے کوئی پوچھے کہ مجھے کیا بننا ہے ؟ تو میرا جواب ہو گا کہ میں مالی بنوں گی۔ پودوں کی دوست۔۔۔” مسکراتے ہوئے وہ گلاب کے پودے کی طرف بڑھ گئی ۔گلاب کی پنکھڑیوں پر پڑے شبنم کے قطرے اس نے اپنی انگلیوں میں جذب کر لیے اور آگ کی طرف بڑ ھ گئی ۔ ننگے پیر گھاس پہ چلنا اس کو بڑا لطف دے رہا تھا ۔وہ خود کو کتنی آزاد اور کس قدر ہلکا محسوس کررہی تھی ۔
کافی دیر تک لان میں اپنے لگائے ہوئے پودوں کو دیکھ کر ان کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب گئی تھی ۔ جہاں منزہ علی تھی اور اس کا منافق باپ ۔۔۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔اسے پھر سے گرمی لگنے لگی تھی ۔ اس کو اندر ہی اندر جلانے والی گرمی ۔۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ جل جل کے راکھ بن جائے گی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” علی بھائی آئے تھے عرینہ بجیا سے ملنے کالج ۔۔۔ میں نے بھجوادیا ان کو علی بھائی کے ساتھ ۔ بے چارے! بڑے نروس ہورہے تھے ۔” مرینہ نے کالج سے آتے ہی دینا کو سارا واقعہ ایک ہی سانس میں سنا دیا ۔
” آئیڈیا میرا تھا ۔” دینا نے اس کے سامنے کھانا رکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔
” ہیں؟؟؟” وہ اپنے منہ میں نوالہ ڈالتے ڈالتے رک گئی ۔
” جی ہاں! ایسے اچھے اچھے آئیڈیاز میرے ہی دماغ میں بنتے ہیں ۔ وہ یہاں آئے تھے ، عرینہ سے بات کرنا چاہتے تھے ۔”
” اچھا!!!” مرینہ کی دل چسپی ختم ہو گئی تھی ۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ کسی کو اتنی دلچسپ خبر دے اور سہرا کسی اور کے سر ہو ۔۔۔ اس کو تو مزہ تب آتا تھا جب وہ کوئی بھی دلچسپ خبر بجیا کو سناتی اور وہ بڑی دلچسپی سے اس کی بات سنتی لیکن یہاں تو معاملہ الٹ تھا ۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی ۔
کھانا کھا کر وہ اپنے پلنگ پر لیٹ گئی اور دینا کھانے کے برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف چلی گئی ۔
” میں کسی بڑے زمین دار یا پھر ڈاکٹر ، انجینئر سے شادی نہیں کروں گی بلکہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کے مالک سے شادی کروں گی، جو ہر روز مجھے اپنے ہوٹل لے جا کر اچھے اچھے کھانے کھلائے ۔” آنکھیں بند کیے وہ مزے سے سوچتی رہی اور سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ دینا دروازے میں کھڑی بڑی دھیمی آواز میں کسی سے بات کررہی تھی ۔
” جی ۔ میں بتا دوں گی اسے آپ فکر نہ کریں ۔ میں اسے لے کر آؤں گی ۔” اپنی بات مکمل کر کے دینا کمرے کے اندر آگئی۔
” آپ کس سے بات کررہی تھیں ؟” اس نے جمائی لیتے ہوئے پوچھا ۔
” علی بھائی سے ۔کہہ رہے تھے کل آپا کی شادی پر عرینہ کواپنے ساتھ ضرور لے آنا ۔” دینا نے مرینہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا ۔
” یہ بتائیں کہ انہوں اپنی ڈیٹ کے بار ے میں کچھ بتایا ؟ ” وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ کتنا مزہ آتاتھا اسے نئی نئی اور دلچسپ خبریں سننے اور سنانے میں ۔
” وہ بے وقوف خاموش رہی سارا وقت ۔ علی بھائی کچھ زیادہ خوش نہیں لگ رہے تھے ۔” دینا نے تفصیل بتا دی ۔
” عرینہ بجیاخاموش رہی؟ ناممکن ہے ۔ آپ کو سننے میں غلطی ہوئی ہو گی ۔ مجھے تو یقین نہیں آتا کہ وہ کبھی خاموش رہ سکتی ہیں ۔”
” یقین تو مجھے بھی نہیں آتا ۔”
” یقینا ان کو نیند آرہی ہو گی ۔”
” کیا مطلب؟”
” یہی کہ وہ صرف نیند میں ہی خاموش ہوتی ہیں ۔
مرینہ کی اس بات پر دینا نے قہقہہ لگایا تھا، لیکن ساتھ ہی وہ بڑی حیر ت سے سوچ رہی تھی۔
“عرینہ حمید ! تم اتنی الٹی کیوں ہو ؟یہاں پر زبان بند رکھنی ہوتی ہے وہاں تم بے دھڑک سب کچھ بول لیتی ہو اورجہاں پر بولنا تھا وہاں تم خاموش رہی ؟” وہ اٹھ کر کمرے سے نکل آئی اور مرینہ دوبارہ لیٹ کر بڑی بے چینی سے عرینہ کا انتظار کرنے لگی ۔
” وہ تم سے کتنی محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ شاید تمہیں نہیں ہے لیکن میں جانتی ہوں ۔” اور پھر نہ جانے کیوں اس کا ذہن اصغر کی طرف چلا گیا تھا اور وہ اچانک اُداس ہو گئی تھی کیوں کہ اصغر سے اس کی فون پر بہت کم اور مختصر سی بات ہو تی تھی۔
وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ اوپر والی منزل پر اصغر کا کمرہ تھا شاید اس لیے ۔۔۔ اور اس کے کمرے کی دیوا ر پر لگی فریم میں اس کی وہ تصویر۔۔ اس کے جانے کے بعد تو دینا نے اس تصویر کو کبھی نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا ۔
تھوڑی دیر وہاں رک کر وہ واپس نیچے آگئی تھی ۔
” تم آگئیں ؟”کمرے میں آکر اس نے عرینہ کو پکارا اور اپنے ہونٹوں پر ایک مصنوعی سے مسکراہٹ سجالی۔
” ہاں ۔ ” بڑا مختصر جواب دیا گیا تھا ۔
” کیا ہوا ؟ ” تم شرما کیوں رہی ہو؟” دینا نے اسے چھیڑ ا۔
” میں کیوں شرماؤں گی ؟” اس نے دینا کو بُڑ بُڑاتے ہوئے گالی دی اور کمرے کے اندر چلی گئی۔ اسے شرمانے سے نفرت تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کبھی شرمائے ۔ بالکل ویسے جیسے مسرورہ شرمایا کرتی تھی ۔
” تو پھر پورے راستے اور کھانے کے دوران خاموش کیوں تھی ؟ دینا اس کے پیچھے پیچھے کمرے کے اندر گئی۔ دینا کی اس بات پر عرینہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو ” تمہیں کیسے پتا” لیکن کچھ بھی پوچھنے کے بجائے اس نے اپنا بے دھڑک انداز برقرار رکھا ۔ ” کیوں کہ کہنے کو کچھ تھا نہیں ۔” اس نے اپنا بیگ ٹیبل پر رکھااور پلنگ پر پلتی مار کر بیٹھ گئی ۔
” اتنی مشکل سے تو موقع ملا تھا بات کرنے کا، پتا ہے میں نے بڑی ماں سے جھوٹ بولا کہ تمہارا بڑا مشکل ٹیسٹ ہے اور تم لیزا کے ساتھ پڑھائی کررہی ہو ۔” دینا اب اسے احساس دلا رہی تھی کہ خاموش رہ کر اس نے غلطی کی ہے ۔
” تو تجھے کیا ضرورت تھی جھوٹ بولنے کی” ؟ وہ اب یونیفارم سمیت پلنگ پر دراز ہو گئی تھی ۔
” اسے دیکھو یہ تمہارا انتظار کرتی دوبارہ سو گئی ہے ۔” دینا نے بات بدل دی۔ عرینہ کو سمجھانا فضول تھا۔
” یہ کمینی بھی اٹھ کر میرا دماغ خراب کرے گی ۔ یہ دونوں مجھے کسی فلم کی ہیروئن سمجھتی ہیں ۔ چاہتی ہیں کہ میں جلد سے جلد ہیرو سے محبت کا اظہار کردوں ورنہ وہ بے چارہ میرے عشق میں پاگل ہو جائے گا ۔” اس نے آنکھیں بند کر کے سوچا ۔
” میں تمہیں محبتوں کی اہمیت کیسے سمجھاؤں؟” دینا نے بے بسی سے سوچا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” فیٹی ماں ! کس ٹائم ہے تمہاری پارٹی ؟ ” شہروز نے اپنے گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے حمائل سے پوچھا۔
” I am not going to the party ” اس نے معنی خیز انداز میں کہا اور بریڈ پر جام لگانے لگی۔
” کیوں ؟ شہروز سے پہلے ابو نے سوال کر ڈالا ۔
” کیوں کہ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ۔” ان کو جواب دیتے ہوئے وہ باوجود کوشش اپنے لہجے کی خشکی نہ چھپا سکی ۔
بریڈ کا ایک سلائس اٹھا کر وہ اپنی کرسی سے اٹھی اور پیر پٹختی ہوئی باہر کو چل دی ۔
” دن بہ دن ضدی ہوتی جارہی ہے ۔” امی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ۔
” اتنی صبح صبح تمہارا یہ غصہ ،یہ ناراضی اور یہ سخت سا رویہ مجھے پورا دن سوچنے پر مجبورکرے گا کہ آخر ہوا کیا ہے ؟ مہینوں ہو گئے اس ناراضی کو ۔۔۔ پر میں وجہ نہیں ڈھونڈ پایا ؟ ” بڑی بے بسی سے سوچا گیا تھا ۔” تم بہت بے خوف ہو حمائل! اپنے باپ سے کوئی ایسے بات کرتا ہے ۔” منزہ حیرت سے سوچتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھی اور کمرے کی طرف چل دی ۔” پہلے وہ پینٹنگز تو نکا ل لوں ۔” وہ ڈریسنگ روم کے اندر گئی تو اس نے دیکھا حمائل اپنے بال کنگھی کررہی تھی ۔ منزہ الماری کی طرف بڑھ گئی ۔ حمائل بالکل بے نیاز رہی ۔ منزہ الماری کھو ل کربڑے سلیقے سے اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز نکا ل نکال کر فرش پر رکھتی گئی لیکن وہ پینٹنگز نہ ملیں جو وہ ڈھونڈ رہی تھی ۔
” یااللہ ! ” وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔” یہیں تو رکھی تھیں کہاں گئیں؟” وہ بُڑبُڑائی ۔ حمائل کے پورے بد ن میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی ۔ اپنے بالوں کو جلد ی سے بند کرکے وہ تیزی سے واش روم کے اندر گھس گئی ۔ اس نے خود کو آئینے میں بہ غور دیکھا اس کو اپنے چہرے پر خوف کے سائے لہراتے نظر آنے لگے ۔ ” نہیں ۔ میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔۔۔” اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ بڑ بڑائی اور پھر وہ ہنسنے لگی تھی ۔ وہ اتنی ہنسی کہ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا ۔ وہ سنک پکڑے ہنستی رہی ۔ پھر اس کیلئے کھڑا رہنا مشکل ہو گیا ۔ وہ فرش پر بیٹھ کر ہنسنے لگی ۔ وہ اتنی ہنسی کہ اس کے جبڑے دکھنے لگے ۔
ہنستے ہنستے نڈھال ہو کر وہ اٹھی اور یونیفارم بد ل کر واش روم سے نکل گئی ۔
” حمائل ! تم نے تو میری وہ پینٹنگز ۔۔۔” منزہ نے اپنی پینٹنگز واپس الماری میں رکھتے ہوئے حمائل سے پوچھنے کی کوشش کی ۔
” چوری تو نہیں کی ؟ یہی کہنا چاہتی ہونا ں تم ؟” حمائل نے منزہ کی بات کاٹ کر کاٹ دارلہجے میں کہا ۔ “مس آرٹسٹ ! مجھے ان فضول پینٹنگز وینٹنگز کا کوئی شو ق نہیں۔” اس کے لہجے میں بے پناہ حقارت تھی۔
” نہیں حمائل ! میرا مطلب ۔۔۔ ” منزہ اپنی صفائی میں بولنے لگی۔ اسے حمائل کے اس روپ سے بے انتہا خوف آتا تھا ۔۔
” مجھے تمہارے مطلب میں بھی کوئی انٹرسٹ نہیں ۔” وہ منزہ کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی ۔
” اور یہ ۔۔یہ rubbishہٹا دو میرے کمرے سے ۔۔۔
Did you get that? ” وہ الماری سے منزہ کی پینٹنگز نکال کر پھینکنے لگی ۔
” یہ میرا کمرہ ہے۔” وہ چلائی تھی ۔ منزہ حیران و پریشان حمائل کو دیکھتی رہی ۔
” حمائل ! پلیز Don’t do this۔۔۔.میں میں معافی مانگتی ہوں تم سے پلیز ۔۔۔ ایسا مت کرو۔” وہ اس کی منتیں کر رہی تھی۔ حمائل کانپتی ہوئی الماری کے پاس سے اٹھ گئی تھی ۔ وہ خود اپنی حالت پر حیران تھی ۔ نہ جانے یہ اسے کیا ہو گیا تھا ۔
” یہ منزہ علی مجھے پاگل کر دے گی۔” اس نے تاسف سے سوچا نہ جانے کتنے مہینوں کی بھڑاس تھی جو آج نکل گئی تھی ۔
” کیا ہورہا ہے یہاں ؟ ” امی نے کمرے میں آ کر پوچھا ۔ ان کے چہرے پر حیرت اور پریشانی کے آثار تھے ۔ یقینا انہوں نے حمائل کی چیخیں سن لی تھیں۔
” حمائل کیا ہوا ؟” وہ حمائل کی طرف بڑھ گئیں ۔
” Nothing۔۔۔ ” حمائل ان سے نظریں نہ ملا سکی ۔
” منزہ کیا ہوا بیٹا ؟ تم رو کیوں رہی ہو ؟ وہ بدحواسی میں منزہ کے پاس گئیں، جو فرش پر بکھری اپنی پینٹنگز کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔”
“منزہ ! بیٹا ۔۔ کس نے توڑ دیں یہ پینٹنگز ؟ انہوں نے منزہ کی فریم شدہ پینٹنگز کے کانچ کو فرش پر بکھرے دیکھا تو گھبرا گئیں ۔ منزہ کے آنسو کسی چھری کی مانند ان کے دل کو کاٹ رہے تھے۔ منزہ کو فرش سے اٹھا کر انہوں نے سینے سے لگا لیا ۔
” یہ تم نے کیا کر دیا حمائل ؟” ان کا لہجہ سخت تھا ۔
” یہ میرا کمرہ ہے ۔ میں اس میں جوبھی کروں میری مرضی” ۔۔۔ اس کے اند ر بے رُخی تھی ۔
” تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟” وہ بے بس ہو گئیں ۔
” کچھ بھی نہیں ۔” اس کا انداز اب بھی سخت تھا ۔
” یہ میر ی بھانجی ہے ۔ میری اکلوتی بہن کی اکلوتی نشانی ۔۔۔” ان کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔ حمائل نے چاہا وہ چلا چلا کر ان کو بتا دے کہ وہ عورت آپ کی بہن نہیں دشمن تھی اور اس کی بیٹی میری دشمن ہے، لیکن وہ جس حقیقت کا سامنا خود نہیں کر سکتی تھی اس کے بارے میں اپنی امی کو کیسے بتاتی؟
” امی جی ! ااپ نہیں سمجھیں گی۔” بڑے دھیمے انداز میں کہہ کر اس نے میز پر سے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی ۔
ڈرائیور گاڑی کاگاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
” گاڑی سٹارٹ کرو ۔ ہم آل ریڈی لیٹ ہیں ۔” گاڑی کے اندر بیٹھتے ہوئے اس نے ڈرائیو ر سے کہا ۔
” لیکن منزہ بی بی تو۔۔۔”
” وہ نہیں جارہی آج ۔۔۔” اس کے لہجے میں سختی تھی ۔ ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو اس نے سیٹ کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں بھینچ لیں ۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی ۔آج امی نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ڈانٹا تھا اور وہ بھی منزہ علی کی وجہ سے ۔۔۔ اس کی بند آنکھیں بھیگنے لگیں ۔ اس نے اپنی ماں کو منزہ علی کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے دیکھا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” کیا کچھ کھایا آپ نے ؟ اور کیا کیا باتیں ہوئیں ؟ مرینہ نے چائے پیتے ہوئے عرینہ سے پوچھا۔
” تجھے کیوں بتاؤں؟ ” عرینہ کے لہجے میں بے نیازی نمایاں تھی ۔
” ہائے کتنا انتظار کیا میں نے آپ کا ۔۔۔۔” وہ روٹھ گئی ۔
” یہ لاکٹ ملا ہے گفٹ میں ۔” عرینہ نے اپنے بیگ سے لاکٹ نکال کر مرینہ کو تھما دیا ۔
” اس کادھیان کسی اور طرف لگ جائے تو میں اس کے سوالوں سے بچ جاؤں ” اس نے بسکٹ چائے میں ڈبوتے ہوئے سوچا ۔
” واہ۔ کتنا خوبصورت ہے ۔” مرینہ نے دل کھول کر تعریف کی ۔دینا بھی پاس آ کر لاکٹ دیکھنے لگی ۔
” تجھے پسند ہے تُو لے لے ۔” عرینہ نے مزے سے چائے پیتے ہوئے مرینہ سے کہا ۔
” نہیں عرینہ ! یہ تمہیں تحفے میں ملا ہے ۔ یہ تم ہی رکھو۔” دینا نے مرینہ کے ہاتھ سے لاکٹ لے کر ڈبے میں رکھا اور ڈبہ عرینہ کو تھما دیا ۔
” میں تجھے نہیں دے رہی ۔میری بلی کو اگر یہ پسند ہے تو میں کیسے نہ اس کو یہ دوں ؟ ”
” لیکن یہ تمہیں تحفے میں ملا ہے ۔”
” اور اب میں اس کو تحفے میں دے رہی ہوں ۔ ” عرینہ نے لاکٹ کا ڈبہ مرینہ کے ہاتھ پر رکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
” تھینک یو !” مرینہ نے اچھل کر عرینہ کو گلے لگا لیا اور پھر اٹھ کر لاکٹ اپنی الماری میں رکھا تھا ۔
تمہاری یہ بے رخی تمہیں کہیں لے نہ ڈوبے ۔” دینا نے تاسف سے سوچا اور اس رات سب کے سوجانے کے بعد عرینہ خاموشی سے اٹھ کر مرینہ کی الماری کے پاس آئی تھی ۔ الماری کھول کر اس نے وہ لاکٹ نکالا تھا ۔ تھوڑی دیر ہلکی سی روشنی میں اسے دیکھنے کے بعد اس نے دل سے لگا یا تھا اور پھر واپس ڈبے میں بند کر کے الماری میں رکھا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اتنے ہنگامے کے بعد تو ہ کالج جانا ہی نہیں چاہتی تھی لیکن خالہ کا دل رکھنے کے لیے وہ کالج جانے کو تیار ہو گئی تھی ۔ جو دو پینٹنگز وہ اس نمائش کے لیے لے جانا چاہتی تھی وہ پورے گھر میں ڈھونڈنے سے نہیں ملیں ۔
” تم کوئی اور پینٹنگز لے جاؤ بیٹا ! تمہاری تو ساری پینٹنگز بہت اچھی ہیں ۔ ” خالہ کے انداز میں ندامت تھی۔ وہ واقعی بہت شرمندہ تھیں ۔ مجبوراً منزہ نے اپنی تین پینٹنگز اٹھا لیں اور خالہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
” ہماری سو سائٹی ممبر مسز کلشو م کے گھر دعوت ہے ۔ میں آج وہاں جارہی ہوں ۔ لیکن پہلے تمہیں ڈراپ کر دوں گی ۔” مرینہ نے راستے میں اسے بتایا، وہ جواباً خاموش رہی۔
” ہماری سوسائٹی ہیڈ کے ساتھ آج میٹنگ بھی ہے ۔ میری واپسی دیر سے ہو گی ۔” انہوں نے کہا، و ہ خاموش رہی ۔
” حمائل کادوست صبار۔ا س کی مدر ہماری ہیڈ ہیں ۔” انہوں نے تفصیل بتا ئی ۔ وہ بہ دستور خاموش رہی تھی۔
” واپسی میں مجھے دیر ہو جائے گی ۔ بیٹا! تم حمائل کے ساتھ آجانا” ۔خالہ کی اس بات پر منزہ نے نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔
” وہ منہ پھٹ ہے بیٹا !لیکن دل کی بری نہیں ہے ۔ یہ تو تم جانتی ہو ۔” وہ حمائل کی صفائی میں بولیں تو منزہ نے ان سے نظریں ہٹا کر سوچا ۔ ” جن کی زبانیں ہر وقت زہر اگلتی ہوں ان کے دلوں میںزہر کیسے جمع ہو سکتا ہے خالہ ؟”لیکن وہ خاموش رہی ۔ اس کم ہمت لڑکی کے لیے ایسی بات سوچنا بھی بہت بڑی بہادری تھی ۔
” آپ فکر نہ کریں ۔ میں واپسی میں حمائل کے ساتھ آجاؤں گی ۔” گاڑی سے اترتے وقت اس نے کہا ۔
” تم بہو اس عورت کی پرچھائی ہو جو میری بہن اور تمہاری ماں تھی ۔ میری بجیا ۔۔۔۔ جس کے چہرے سے کبھی میں اس کی خوشی یا اداسی کا اندازہ نہ لگا پاتی ۔ جس کا چہرہ ہمیشہ راضی بہ رضا رہتا تھا ۔بالکل تمہاری طرح ۔۔۔۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے جیسے وہ تمہارے روپ میں میرے سامنے کھڑی ہے۔ تم ہو بہو اس کی تصویر ہو ۔ لیکن میری بیٹی، وہ کس پہ گئی ہے ؟” اور اچانک ان کا دماغ برسوں پہلے کسی بھولے بسرے کردار کو یاد کرنے لگا ۔
” عرینہ بجیا” ان کی ریڑھ کی ہڈ ی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
انہوں نے آنکھیں بھینچ لیں ۔ وہ دو مختلف ذہنیت اور فطرت والی ان کی دو بڑی بہنیں آج کس روپ میں اس کے سامنے کھڑی تھیں؟۔ وہ جو بہت صاف گو تھی کس قدر خاموشی سے ان سب کی زندگیوں میں زہر گھول کر چلی گئی اور دوسری جس قدر خاموش تھی اس سے کہیں زیادہ خاموشی سے وہ ان سب کی خاطر قربان ہوئی تھی ۔ان کا دم گھٹنے لگا ۔ انہوں نے جلدی سے گاڑی کے شیشے کھول دیے ۔ اس واقعے کو گزرے اکیس سال ہو گئے تھے لیکن کچھ زخم جب ایک لمحے میں ہرے ہو جائیں تو کافی دیر تک تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” تم یہ لاکٹ پہن کے نہیں جانا کل آپا کی شادی میں ۔ علی بھائی نے دیکھ لیا تو ان کو بہت برا لگے گا۔” دینا نے مرینہ کے ہاتھ سے لال رنگ کا ڈبہ لیتے ہوئے واپس الماری میں رکھا اور خود کپڑے بدلنے غسل خانے کے اندر چلی گئی ۔
” تو پھر اس لاکٹ کا میں کیا کروں؟ کھانے کی چیز بھی تو نہیں ہے کہ کھا جاؤں۔” اس کا چہرہ اچانک بجھ سا گیا تھا ۔
بھئی! میں تو اپنے ہوٹل کے مالک سے کہوں گی کہ مجھے اگر گفٹ دینا ہے تو کھانا پیک کروا کے میرے لیے بھجوایا کرو۔ ” اس نے بڑے مزے سے سوچا اور بال کنگھی کرنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ بڑی بے دلی سے میم رقیہ کی جانب بڑھ گئی تھی جو ایک سٹال کے باہر کھڑی کسی فیشن ایبل خاتون سے محوِ گفتگو تھیں ۔
” میں ان سے کہہ دوں گی کہ میری بیسٹ پینٹنگز کھو گئی ہیں ۔” اس نے سوچا تو بے اختیار اسے اپنی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس ہوئی ۔ غصے اور بے بسی کے ملے جلے احساس سے دوچار ہوتی ہوئی وہ میم رقیہ کے سامنے کھڑی تھی اور خلاف ِتوقع انہوں نے اس کی تینوں پینٹنگز کو بے حد سراہا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ تینوں خوب بن ٹھن کر گھر سے نکلی تھیں ۔ دینا ہمیشہ کی طرح بے نیاز تھی ۔ عرینہ کو سردی کا احساس ہورہا تھا۔ اس کے سینے میں تو جیسے برف پگھل رہی ہو اوروہ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی قطرہ قطرہ کر کے اس کے دل پر گررہا ہو۔ وہ بڑی پھوپھی کے گھر جارہی تھی یعنی علی کے گھر، اس نے جھرجھری لی تھی ۔ اسے واقعی ٹھنڈ سی لگنے لگی تھی اور مرینہ کو تو کسی کے گھر جانے کی خوشی تھی، اور نہ جوش۔ اس کو تو بس ڈھولک بجاناتھا، ناچنا تھا ، گانا تھا۔بہت ساری سہیلیوں سے ملنا تھا اور سب سے بڑھ کر اچھے اچھے کھانے کھانے کا شوق تھا۔
” بڑی ماں آئیں گی؟” مرینہ کو اچانک خیال آیا ۔
” نہیں ۔ اماں نہیں آسکیں گی کیوں کہ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔” عرینہ نے جواب دیا ۔
” شکر ہے ۔ورنہ وہ تو ہر شادی بیا ہ میں سی سی ٹی وی کیمرہ کی طرح ہم پرنظر رکھتی ہیں ۔” مرینہ شکر بجا لائی تو دینا نے آنکھیں نکال کر اسے گھورا تھا ۔
” اور اماں ؟” مرینہ نے جلد ی سے بات بدل دی ۔
” وہ شام کو آئیں گی۔ ” دینا نے مختصراً جواب دیا تھا ۔وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔ نہ جانے وہ کس الجھی ہوئی ڈوری کو سلجھانے میں مگن تھی؟
” کاش یہ راستہ دس منٹ کے بجائے تیس ، چالیس منٹ کا تو ہوتا تو میں کچھ سوچ پاتی کہ آخر کیا کرنا ہے؟”اس نے گلی کی نکڑ پر مڑتے ہوئے سوچا۔ بڑی پھوپھی کا گھر دائیں ہاتھ کی گلی میں تھا ۔اسے اتنی جلدی پہنچ جانے کا افسوس تھا ۔ اس نے بہر حال اپنے وعدوں کو پورا کرنا تھا لیکن اس کے ذہن کو فی الحال کوئی ترکیب نہیں سوجھی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اپنے سٹال کی طرف جاتے ہوئے اس کی نظر جس سٹال پر پڑی تھی اس کے سامنے وہ رک گئی ۔ اسی سٹال میں حمائل اپنی کلاس فیلو زوبیہ کے ساتھ بیٹھی ہنس بول رہی تھی ۔
” مجھے حیرت ہورہی ہے حمائل اصغر !کہ تم نے پینٹنگ جیسا فضول شوق کب سے اپنا لیا؟” میں حیران ہوں کہ یہ تم ہو حمائل ؟ جو زوبیہ کے ساتھ اتنی ہنس بول رہی ہو ۔۔۔ وہ زوبیہ جو ہماری کلاس کی سب سے بیسٹ آرٹسٹ ہے اور جس کے ساتھ کلاس میں کبھی تم بات تک نہیں کرتیں کیوں کہ بہ قول تمہارے وہ تمہارے ٹائپ کی نہیں ہے ۔” اس نے وہیں پر کھڑے کھڑے سوچا اور پھر اپنی سٹال کی طرف چلی گئی ۔ “کسی انسان کے قول و فعل میں اتنا تضاد کیسے ہو سکتا ہے ؟ ” اس نے حیرت سے سوچا تھا ۔ جو لڑکی میری بچپن کی بہترین سہیلی ہو، اس کو آج سمجھنے میں اتنی دقت کیوں ہورہی ہے مجھے؟” حمائل کے اس عجیب سے رویے نے اسے واقعی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔آج اسے واقعی لگ رہا تھا وہ حمائل سے نفرت کرنے لگے گی لیکن اگلے لمحے اس نے خودکو ٹوکا کیوں کہ وہ جانتی تھی حمائل دل کی بڑی سچی ہے ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ جذباتی ہے ۔” چھوٹی چھوٹی باتوں پر شور مچانے کی عادت تو تمہیں بچپن سے ہے ۔” بیگ سے اپنی پینٹنگز نکال کر اس نے سوچا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام اپنا سرمئی آنچل ہر طرف پھیلا چکی تھی ۔ موسم خوش گوار تھا ۔ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں نے مہندی کی اس تقریب میں سُر سابکھیر دیا تھا ۔ وہ نیلے آسماں تلے بیٹھا تارے گن رہا تھا ۔ کچھ بے زار سا، کچھ پرشوق سا۔۔۔ وہ دس منٹ سے وہاں بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا دینا اسے لے کر آئے گی اسی وجہ سے وہ بڑے ہی صبر سے سیڑھیوں میں ٹانگیں پھیلائے بیٹھا اس کے آنے کا انتظار کررہا تھا ۔
دلہن کو لڑکیوں کے ہجوم نے گھیرا ہوا تھا ۔ کچھ لڑکیا ں دلہن کے بالکل قریب بیٹھی اسے چھیڑرہی تھیں اور کچھ لڑکیاں نیچے بچھی چٹائی پر بیٹھی گانے گارہی تھیں ۔ سب کے بیچ میں بیٹھی مرینہ بڑی تیزی سے ڈھولک پر ہاتھ چلا رہی تھی او ر ساتھ ساتھ اپنی بے سری سی آوا ز میں گا بھی رہی تھی ۔ اس کے پاس بیٹھی عرینہ بھی گانے میں شریک تھی ۔ سب لڑکیوں کے اس طرح مل کر گانے کی آواز پر کچھ یوں گمان ہوتا تھا جیسے شام کے وقت کسی بڑے بزرگ کے مزار پر چڑیاں چہچہاتی ہوں ۔
” آؤ میرے ساتھ ۔۔۔” اس کے پاس آ کر دینا نے اسے بازو سے پکڑ کر کہا ۔
” کہاں ؟” وہ جھنجلائی ۔ وہ اتنی اچھی محفل چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی تھی ۔
” فردوس بھابھی کہہ رہی ہیں اوپر کے کمروں میں بستر لگا دو مہمانوں کیلئے ۔” دینا نے صاف جھوٹ بولا۔
” تو تو لگا ناں ۔ میں یہاں بستر لگانے نہیں آئی ۔” اس نے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی لیکن دینا کی گرفت مضبوط تھی ۔
” اٹھو۔” دینا نے زور سے اسے ہلایا تو وہ مجبوراً اٹھ گئی ۔
دینا کو اور برا بھلا کہتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔
اندھیرا چھا چکا تھا ۔ اس نے سر اٹھاکر دیکھا لیکن چاند بھی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔
” تجھے گھرداری کا اگر اتنا شوق ہے تو مجھے کیوں گھسیٹ لائی ہے ؟” وہ سخت برہم تھی ۔
” گھرداری سکھانے کے لیے ۔” دینا مسکرائی ۔
” ٹارچ تو لے آتی ناں۔ بہت اندھیرا ہے یہاں۔” اس نے آہستہ سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہا ۔
” اس کی ضرورت نہیں ہے ۔” دینا کا انداز عجیب تھا ۔
” جاہل” !وہ غصہ تھی ۔ دینا جواب میں خاموش رہی ۔
اوپر جا کر دینا اس کو ایک سیاہ سائے کے پاس چھو ڑ کر واپس نیچے جانے لگی
”تو ۔۔۔ کہاں جارہی ہے ؟”وہ گھبرا گئی ۔
” نیچے ۔۔۔۔” وہ مڑے بغیر بولی ۔” اور ۔۔۔ بستر؟ ” اس نے ہکلا کر پوچھا ۔
” لگ گیا ۔” دینا کے انداز میں شرارت تھی ۔ اور اس سے پہلے کہ وہ بھی بھاگ کر دینا کے ہمراہ نیچے جاتی ، کسی مردانہ ہاتھ نے بڑی مضبوطی سے اس کا بازو تھام لیا تھا ۔ س کے دل کی ہر دھڑکن ایک لمحے کو ساکت ہو گئی اور پھر ہر دھڑکن ایک الگ سرگا رہی تھی ۔ اس کے دل کے باغ میں جیسے بہت سے مور ایک ساتھ ناچنے لگے تھے ۔
علی نے کھینچ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا ۔” ادھر بیٹھو ۔ بالکل آرام سے۔” اس کا لہجہ سخت تھا۔ وہ ڈر گئی ۔ کافی دیر تک سر جھکائے وہ خاموش بیٹھی رہی ۔
” بہت بولتی ہو تم ۔ میں جانتا ہوں لیکن میرے سامنے تمہاری بولتی کیوں بند ہو جاتی ہے ؟” وہ اب بھی سنجیدہ تھا ۔ عرینہ خاموش رہی ۔
” میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ جانتی ہو تم ؟” وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دھیرے سے بولا ۔
” مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔”
” کیوں ؟ کس سے ؟”
” آپ سے ۔”
” میں جن بھوت نہیں ہوں ۔ تمہاری طرح کا انسان ہوں ۔”
” مجھے جانے دیں ۔”
” کھا نہیں جاؤں گا تمہیں، تھوڑی دیر بیٹھی رہو۔”
” یہ صحیح نہیں ہے ۔”
” تو پھر کیا صحیح ہے ؟ تم بتاؤ۔”
” میں نہیں جانتی ۔”
“یہ میرا حق ہے ۔”
” میں اپنے فرائض نہیں جانتی ”
” تم بے وقوف ہو ۔”
” شاید ہاں ۔۔۔۔ لیکن ابھی مجھے جانا ہے ۔” وہ اپنا ہاتھ چھڑاکر اس سے الگ ہو گئی ۔ وہ تڑپ کررہ گیا ۔ “یہ ظلم ہے ۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔
” انتظار کریں۔” وہ تیزی سے نیچے جانے لگی ۔
وہ دوبارہ وہیں پر بے جان سا بیٹھ گیا ۔
وہ بے حد تھک چکی تھی ۔ صبح سے لے کر دوپہر دوبجے تک سٹال میں ہر آنے والے کو خو ش آمدیدکہہ کر اس سے مسکر اکر بات کرنا قطعی آسان نہیں تھا ۔ وہ سیدھی گاڑ ی میں آکر بیٹھ گئی تھی ۔
” منزہ بی بی ! حمائل بی بی تو ابھی تک نہیں آئیں۔ ” اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کہا۔
” میں بلاتی ہوں ۔ وہ ” مجبوراً گاڑ ی سے اتر کر واپس سٹالز کی طرف چلی گئی ۔
“تم نے مجھے تھکا دیا ہے حمائل !جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی ۔۔۔” اس نے قدرے بے بسی سے سوچا تھا اور بوجھل قدم بڑھاتی اسی سٹال کی طرف گئی جہاں حمائل صبح سے بیٹھی تھی ۔
” اوہ ۔۔۔” وہ بے دھیانی میں ایک ماڈرن عمر رسیدہ خاتون سے ٹکرائی ۔
” او ! مائی گاڈ!! ۔۔۔” اس خاتون کے ہاتھ سے پینٹنگز کی فریم گرتے ہی اس کے منہ سے بے اختیار نکلا
” آئی ایم سوری آنٹی ! میں ابھی اٹھا دیتی ہوں ۔” منزہ بہت شرمندہ تھی ۔ وہ جلد ی سے جھکی اور اس خاتون کے ہاتھ سے گری پینٹنگز اٹھانے لگی ۔ پہلی پینٹنگ اٹھا کر اس نے اس خاتون کو تھما دی لیکن دوسری پینٹنگ دیکھتے ہی اس کے دماغ میں جیسے دھماکہ ہوا تھا ۔ وہ چند لمحو ں میں اپنی پینٹنگ کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی ۔ ” یہ یہاں کیسے”؟ اس کے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ خود اس کے کانوں نے بھی نہیں سنے۔
” وہی سیاہ کناروں والا فریم ، وہی Sunset” ” والی پینٹنگ یہ سب ایک اتفاق نہیں ۔ یہ تو ایک سوچی ہوئی ترکیب ، ایک سازش ہے ۔ ” اس نے وہ فریم اس خاتون کو تھما دیا جو ” تھینکس ” بولتی ہوئی آگے بڑھ گئی، لیکن منزہ علی کا ذہن بس ایک ہی جگہ پر اٹکا ہوا تھا ۔
” خالہ کہتی ہیں تم دل کی بری نہیں ہو حمائل !لیکن سچ کہوں تو تم دل کی صاف بھی نہیں ہو ۔۔۔۔ ” وہ بے دھیانی میں نہ جانے کس طرف جارہی تھی ۔
” صبح تمھارا وہ غصہ ۔۔۔ اور اب یہ سب ۔۔ میں حیران ہوں کہ یہ سب تم کیوں کررہی ہو ؟ وہ بھار ی بھاری قدم اٹھاتی چل رہی تھی ۔
” اور نہ جانے وہ دوسری پینٹنگ اس نے کس کو دی ہو گی ؟آنکھوں میں اترتے ہوئے وہ آنسوؤں کے قطرے یا پھر آگ کے انگارے ۔۔۔ وہ سخت غصہ تھی لیکن وہ اپنی بے بسی بھی جانتی تھی ۔
” انکل بلا رہے ہیں حمائل” ! سامنے سے آتی حمائل کو اس نے آواز دی تواس نے اسے مکمل نظر انداز کیا اور زوبیہ کے ساتھ ہنستی بولتی آگے بڑھ گئی ۔ منزہ نے اپنی ہتھیلی سے ان بے بس اشکوں کو صاف کیا اور حمائل کے پیچھے پیچھے چل دی ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے حمائل کے بے نیاز چہرے کو دیکھا۔
” تم حمائل اصغر نہیں ہو سکتیں ۔” یہ سوچتے ہی اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔
عرینہ کو علی بھائی کے پاس لے جا کر وہ کافی دیر صحن کے ایک تاریک گوشے میں جہاں اخروٹ کا گھنا درخت تھا ، کھڑی رہی ۔ اچانک اصغر حمید نے اسے بے کل کر دیا تھا ۔ وہ نہ جانے اس وقت کیا کررہے ہوں گے ۔؟” اس کی آنکھوں سے بے اختیار گرم آنسوؤں کی ایک لڑی بہہ گئی ۔کوئی رابطہ ، کوئی بات چیت نہیں تھی ان دونوں کے بیچ میں، بس ایک بے نام سا انتظار تھا جو وہ کیے جارہی تھی ۔ نہ چاہ کر بھی۔۔۔ ” محبت سے غم اور اداسی ضرور پیدا ہو گی ۔ وہ محبت ہی نہیں جو اداس نہ کرے ۔” اشفاق احمد کا یہ قول اس نے کہیں پڑھا تھا ۔
اپنے اشکوں کو دوپٹے کے پلوسے صاف کرتے ہوئے وہ گاتی لڑکیوں کی سمت چلی گئی اور اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر وہ چٹائی پر بیٹھ گئی ۔اب وہ مطمئن تھی کیوں کہ وہ جان چکی تھی کہ اسے اصغر سے سچی محبت ہے اور اس محبت کی خاطر اس کا انتظار کرنا کوئی بڑی بات تو نہ تھی ۔
” چل اٹھ ۔ گھر چلتے ہیں ۔ ” تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ عرینہ نے آکر اس کے کند ھے کو زور سے ہلایا۔
” کیوں ؟ لیکن ۔۔۔۔” دینا کچھ بھی نہیں سمجھ پارہی تھی ۔ وہ تو عرینہ کو علی بھائی کے پاس چھوڑ کر آئی تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ عرینہ اس شخص کے جذبات کی قدرکرے، لیکن یہ کیا ؟ اس کے چہرے پر تو کوئی تاثر ہی نہیں تھا۔
” مجھے نہیں رہنا یہاں ۔ مرینہ سے کہہ دے ۔ چلتے ہیں ۔” عرینہ جانے پر مصر تھی ۔
” اچھامیں ماں کو بتا کر آتی ہوں ۔” دینا نے ہارمان لی ۔
” نہیں بھابھی ! میں آپ کو جانے نہیں دوں گی ۔” نجانے مسرورہ کس سمت سے آگئی تھی ؟ عرینہ کی بے زاری عروج کو پہنچ گئی۔
” اوہ میرے خدا! پوری دنیا میں اس عجوبے کو کیا میر ی ہی نند بننا تھا ؟” اس نے گہری سانس لی۔
” میرے سر میں درد ہورہا ہے” ۔ اس نے جھوٹ بولا اور اس سے پہلے کہ مسرورہ کچھ کہتی دینا آگے آئی ۔
” چلو ۔ فیروز بھائی ہمارے ساتھ جارہے ہیں ۔ اماں رات یہیں رہیں گی”۔
” ابھی کچھ دیر پہلے میں آخری سیڑھی پر بیٹھا تم سے بات کررہا تھا اور ابھی میں سب سے پہلی سیڑھی پر بیٹھا تمہیں جاتا دیکھ رہا ہوں ۔ تم جب ہمیشہ کیلئے اس گھر میں آؤ گی تب شاید میں تمہیں آتے ہوئے نہ دیکھ پاؤں لیکن میں ہر مہینے کی سترہ تاریخ کو شام کے وقت تمہیں انہی سیڑھیوں میں بٹھا کر اپنی محبت کا اظہار کروں گا اور تب تم مجھے انتظار کرنے کا نہیں کہو گی ۔” وہ سیڑھیوں میں بیٹھا پر امید انداز میں سوچ رہا تھا ۔ وہ بھاری کام کا پیلا جوڑا پہنے گل صد برگ کا پھول لگ رہی تھی ۔
” مجھے یہ کھٹا میٹھا سا احساس کیوں ہورہا ہے؟ محبت کیا اس ٹھنڈے سے احساس کو کہتے ہیں جو میرے دل میں ابھی ہے ؟مجھے لگ رہا ہے جیسے میرے دل میں کیلشیئم کی گولی گھل رہی ہو ۔مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے شاید ۔۔۔ اس بات کا مجھے پتا ہونہ ہو لیکن اگرمیں تھوڑی دیر بھی یہاں رکتی تو ان دونوں چڑیلوں کو پتا چل جاتا۔ تو بہ ہے یہ دونوں تو میری جان عذاب میں ڈال دیں گی ۔ بس یہ طے ہے کہ میں ان دونوں کو نہیں بتاؤں گی ۔” گھر کے دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے دل میں فیصلہ کر لیا اور مطمئن ہو گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” اس ہیسٹوریکل نوٹ کو سنبھال کر رکھ دو پہلے ۔” حمائل نے الماری کھول کر اپنے پرس میں پانچ ہزار کا نوٹ رکھ دیا اور پھر ڈریسنگ روم میں موجود فل سائز مرر میں خود کو دیکھ کروہ مسکرائی ۔
” واو ماہی ڈارلنگ ! یو آر ونڈر فل ۔” اس نے خود سے کہا اور آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی ۔
” she deserves all this ” وہ بڑبڑائی اور واش روم کے اندر جاتی منزہ نے بڑی بے بسی سے سوچا تھا ۔
” میں تمہاری ان نا انصافیوں کی وجہ سے خالہ، خالو اور شہروز کی اچھائیوں کو اگنور نہیں کر سکتی ۔ میں اتنی کم ظرف نہیں ہوں کہ تمہارے گھر میں رہ کر تمہارے مقابلے میں کھڑی ہو جاؤں۔ کاش! تم مجھے ایسا کرنے پر مجبور بھی نہ کر و ۔ بے اختیار اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔
” خالہ کہتی ہیں کہ میں اگر تمہارے ساتھ کمرے میں خوش نہیں ہوں تو اوپر شفٹ ہو جاؤں لیکن حمائل ! مجھے جتنا میسر ہے وہ کافی ہے ۔ مجھے تمہارے گھر کی کسی بھی چیز پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں ۔ ” اشکوں کی لڑی ٹھوڑی تک بہ گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس شام کے بعدوہ مرینہ کے پاس سے ہلتی تک نہ تھی ۔ ڈھولک بجاتے ، گاتے یا پھر کھانا کھا تے وقت وہ اسی کے پاس رہتی تھی ۔دینا پر اس کو بھروسہ نہیں رہا تھا ۔
” بڑی جھوٹی اور دھوکے باز ہے وہ عورت” وہ کڑھ کر سوچتی ۔ پوری شادی میں اس کی یہ بھی کوشش تھی کہ وہ مسرورہ کے سائے سے بچی رہے اور مرینہ واقعی مدد گار ثابت ہوئی تھی ۔
” تیری بکواس سے تو مسرورہ بھی تنگ آکر چلی جاتی لیکن خیر میری بلی، تیرا یہ میاؤں میاؤں ہی مجھے چوہوں سے بچائے گا” ۔ وہ مرینہ کا گال چو م کر کہتی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” نیند آتی ہے مجھے پاکستان سٹڈی کی کلاس میں ۔ بہت بور ہو جاتی ہوں ۔” افصہ نے کرسی پربیٹھتے ہوئے شکایت کی ۔
” نیند تو آئے گی ہی ۔ میم عائشہ جو اتنے پیار سے لوری سناتی ہیں” ۔ مطیع بھی آکر بیٹھ گیا ۔
” افوہ ! پھر آگیا دماغ خراب کرنے ۔ تو کب مرے گا میٹ !” تابندہ نے مطیع کو گھورا اور کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گئی ۔
” تیری مانگ میں سیندور لگا کے ۔” وہ حاضر جوابی سے بولا ۔
” شٹ اپ! میں پاگل نہیں ہوں جو تجھ سے شادی کرلوں ۔ ” وہ غصے سے بولی ۔
” تو کیوں اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے میٹ ؟” صبار نے مطیع کے کندھے پر ہاتھ مار کرکہا ۔
” اللہ کرے تو مر جائے میٹ” ! تابندہ نے بددعا دی ۔
” پھر تجھ سے شادی کو ن کرے گا ؟ ” وہ اسے تنگ کرنے پر تلا ہوا تھا ۔
” ہزاروں لڑکے ہیں ۔ کوئی نہ کوئی کرلے گا مجھ سے شادی۔” اس نے بھنویں اچکا کر کہا ۔
” یعنی اس دنیا میں میرے جیسے بدبخت اور بھی ہیں” ؟ مطیع کی اس بات پر تابندہ جیسے تڑ پ کررہ گئی تھی۔ اپنی کتاب اٹھا کر وہ کرسی سے اٹھی اور لائبریری کے کسی ویران گوشے میں بیٹھ کر آرام سے پڑھنے لگی۔
” لائبریرین از اینگری ۔” کامل نے آ کر اسے خبردی ۔
” کیوں ؟ ” مطیع انجان بن کر پوچھا ۔
” تم دونوں کی وجہ سے ۔” کامل نے سنجیدگی سے مطیع کی طرف دیکھا ۔
” وہ کہہ رہے ہیں پہلے لائبریری میں بیٹھنے کے ایٹیکٹس سیکھ لو ۔پھر آیا کرو”۔
” ایٹیکٹس تو سب کو پتا ہوتے ہیں، کوئی عمل نہیں کرتا” مطیع سر کھجاتا ہوا اٹھا اور شیلف میں کوئی کتاب ڈھونڈنے لگا۔
” پیار کا پہلا شہر۔ ” مطیع نے کتاب اٹھا کر تابندہ کے سامنے ٹیبل پررکھ دی ۔
” یہ پڑھ لو ۔ بڑی اچھی بک ہے ۔
” شٹ اپ میٹ !Go away from me۔۔۔ ” تابندہ بھی چلائی ۔
سب نے حیرت سے ان دونوں کی طرف دیکھا ۔ اگلے ہی لمحے لائبریرین غصے سے ہونٹ کاٹتا ان کے سامنے کھڑا تھا اور اس نے جتنے غصے سے مطیع اور تابندہ کو لائبریری سے با ہر نکالا تھا ۔ اس کو یاد کرکر کے سب ایک عرصے تک قہقہے لگاتے رہے تھے ۔
” پیارکے پہلے شہر میں ابھی تک قدم رکھا نہیں اور پیارکے آخری شہر تک پہنچ گئے ۔” مطیع کی اس بات پر تابندہ نے صرف غصے سے اس کی طرف گھورا تھا اور لان میں جاکر بیٹھ گئی تھی ۔
یہ سارا منظر بڑی خاموشی سے دیکھتی حمائل ہاتھ میں ایک کتاب تھامے لائبریری سے نکلی ۔ اس کے ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ۔وہ انہی دوستوں میں ٹوٹا ہوا سکون پاتی تھی ۔اس کی زندگی کے چند حسین لمحے انہی کی بہ دولت تھے ۔ وہ سب کتنے پیارے تھے۔ وہ ان سب کے بیچ کس قدر خوش ہوتی تھی ۔تھوڑے سے وقت کیلئے ہی سہی، لیکن وہ منزہ کے بارے میں بھول جاتی تھی ۔اپنی زندگی کی محرومیاں اسے یاد نہ رہتیں ۔ اس کا دل کرتاوہ سب یوں ہی ہنسیں ، بولیں ، قہقہے لگائیں، ایک دوسرے سے لڑا کریں اور وہ ان سب کے بیچ خاموش بیٹھی رہے ۔ان سب کو سنے اور زندگی اسی طر ح ہنستے کھیلتے گزر جائے، بنا کسی منزہ علی کے بارے میں سوچتے ہوئے ۔
زندگی آہستہ آہستہ سانسیں لے کر چل رہی تھی ۔کسی مترنم آواز کی طرح ، ہوا میں لہراتی پتنگ کی طرح ، کسی خوبصورت گیت یا پھر حمائل اصغر کے پلکوں کی جنبش کی طرح ، کس قدر حسین تھی زندگی، کس قدر دلچسپ تھی زندگی کی کہانی ۔ کاش وہ اس کہانی سے منزہ علی کا کردار مٹا پاتی ۔ زندگی کے صاف و شفاف آئینے میں جو دراڑ تھی، وہ منزہ علی ہی تو تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” لو بھلا گورنمنٹ کالج سے یہاں تک تیس روپیہ؟ ” وہ مرینہ اور لیزا کے ہمراہ رکشے سے اتری۔ اماں اور دینا کو جوتے درکارتھے ۔ اس لیے کالج سے واپسی پر وہ جوتوں کی مارکیٹ جوتے خریدنے گئی تھی۔ رکشے والا تیس روپے مانگ رہا تھا اور وہ بیس سے زیادہ دینے پر وہ راضی نہیں تھی۔
” ہاں باجی ! اتنا ہی کرایہ ہے ۔”
” اے جی ! باجی بھی کہتے ہو اور جھوٹ بھی بولتے ہو؟”
” ماں قسم سچ کہہ رہا ہوں باجی ! تیس روپیہ بنتا ہے ۔”
” بیس سے تو ایک آنہ بھی زیادہ نہیں دوں گی ۔” دس روپے کے دو نوٹ رکشے والے کو تھما کر وہ جانے لگی۔
” اے باجی ! یہ غلط ہے ۔” رکشے والے نے پیچھے سے آواز دی ۔
” اے بجیا !دے دیں دس روپے اور ۔۔۔ تماشہ بنا رہا ہے ۔ ” مرینہ نے اس کے کان میں دھیرے سے کہا ۔
” تماشہ تو میں اس کا بنا دوں گی ۔” وہ آستینیں چڑھاتے ہوئے بولی ۔
” تو مجھے بتائے گا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ ابھی پورا بازار اکٹھا کر لوں گی ۔ یہ لوگ ہڈیاں توڑ کررکھ دیں گے تیری ۔ میری مان اور چلا جا یہاں سے ” اس نے آنکھیں نکال کر رکشے والے کو گھورا۔
” یہ تم اچھا نہیں کررہی باجی! رکشے والے نے بے بسی سے کہا۔
” تو نے ابھی تک بُرا دیکھا ہی کیا ہے ؟ میرے بھائی ! چلا جا ورنہ تو یہاں اپنی ہڈیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے گا۔ ” اس نے اپنا سخت انداز برقرار رکھتے ہوئے کہا ۔
” اے باجی ! میری مزدوری مجھ سے نہ چھینو۔” وہ جانے پر راضی نہیں تھا اور وہ نہ دینے پر مصر تھی۔
” جاتا ہے کہ چلّاؤں ؟” اس نے دھمکی دی ،وہ بدستور کھڑا رہا ۔
” چور ۔۔۔چور ۔۔۔بچاؤ۔” وہ گلا پھاڑتے ہوئے چیخی تھی اور اس کے ساتھ مرینہ اور لیزا یوں ہی چیخنے لگی تھیں ۔
جس نے بھی چیخ سُنی تھی دوڑا آیا ۔ رکشے والا لاکھ چلّایا کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔ بے چارے کی ہڈی پسلی ایک کردی اور وہ لیزا کو آنکھ مارتی جوتوں کی دکان کے اند رچلی گئی ۔
” بھائی !وہ گلابی چپل دکھائیں ذرا۔”
” یہ لیں ”
” قیمت ؟”
” پانچ سوروپے”
” اتنے مہنگے؟؟؟”
” اچھا مال ہے باجی! پہن کے تو دیکھیں ۔”
” تین سو روپیہ دے دیں ؟؟؟”
” نہیں۔ تین سو نہیں دے سکتا۔”
” کیوں نہیں دے سکتے ؟ پانچ سو کوئی اصلی قیمت تھوڑی ہے ؟ اور جوتا دیکھو دو سو کا لگتا ہے ۔ میں پھر بھی تین سو دے رہی ہوں ۔”
” پانچ سو میں لینا ہے تو لے لیں ورنہ میں واپس رکھ لیتا ہوں ۔کوئی اور لے لے گا ۔”
” واپس کون رکھنے دے گا تجھے ؟میں ہی لوں گی یہ جوتے ۔” اس نے جوتوں کا ڈبہ بغل میں دبا یا ۔
” پہلے کبھی دکان کا منہ دیکھا ہے آپ نے ؟یہ کیا کررہی ہیں ۔ دکان دار کو غصہ آ گیا ۔
” تین سو میں دے دو ۔” وہ بہ ضد تھی ۔
” پانچ سو سے ایک روپیہ کم نہیں لوں گا “۔ ڈبہ واپس کریں ۔
” نہیں دوں گی “۔
” عرینہ واپس کردو ۔” لیز ا نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لینا چاہا ۔
“میں نہیں دوں گی ۔” وہ اپنی با ت پر اڑی رہی ۔
” واپس کر دیں بجیا ۔” مرینہ نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لے کر کاؤنٹر پررکھا ۔
” جھوٹے ، دھوکے با ز، لٹیرے ، دونمبر جوتے بیچتا ہے الو کا پٹھا ۔” وہ اب گالیاں دینے پر اتر آئی تھی ۔ لیزا اور مرینہ اس کو چپ کروانے کی ناکام کوشش کررہی تھیں۔
” میری توبہ ہے عرینہ! تیرے ساتھ آئندہ کبھی شاپنگ کرنے نہیں جاؤں گی۔ ” واپسی پر لیزا نے شکوہ کیا ۔
” یہ تو شکرہے تم دونوں نے بروقت قابو میں کر کے رکشے میں بٹھا دیا ورنہ آپ کسی اور دکان میں گھس کر شور مچاتیں ۔” عرینہ نے یاددلیا تو وہ مسکرائی ۔
گھر پہنچ کر عرینہ نے اپنا بیگ دینا کی طرف اچھا ل دیا ۔
” لے دینو! دیکھ اپنے جوتے” اس کی آنکھوں میں ایک شریر سی چمک تھی ۔
” شکریہ ۔” دینا نے مسکراتے ہوئے بیگ کھولا اور جوتے نکال لیے ۔
” اماں کو دکھاتی ہوں ۔” وہ اماں کے کمرے کی طرف چلی گئی ۔
” ہیں ؟ بجیا! وہ ڈبہ ؟ “مرینہ حیرت سے دیدے پھاڑے کبھی عرینہ تو کبھی جوتوں کی طرف دیکھتی ۔
” وہ خالی تھا ۔” عرینہ مسکرائی ۔
” تو نے بچالیا میری بلورانی ! اس نے مرینہ کو گلے سے لگا لیا ۔”
” میں نے بچا لیا ؟ کیسے ؟” مرینہ حیرت سے ڈوبی ہوئی تھی ۔
” تو نے وہ خالی ڈبہ کاؤنٹرپر رکھا ۔ اگر اس کھڑوس دکان دار تھماتی تو ہمارا پول کھل جاتا ” عرینہ نے آنکھ مارتے ہوئے مرینہ کو سمجھایا ۔
” تو آپ نے ۔۔۔؟مرینہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلارہ گیا۔
” زیادہ دماغ نہ لڑا میری بلی ! تجھے سمجھ نہیں آئے گی” ۔ مرینہ کے کندھے پر اپنا بازو جما کے اس نے سرگوشی کی ۔” دینو کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ وہ یہ جوتے نہیں لے گی ۔” اس نے دھیرے سے مرینہ کے کان میں کہا۔
ایگزامز شروع ہوتے ہی وہ پڑھائی میں جت گئی تھی ۔ کسی بھی محرومی کااحساس لیے بغیر وہ دل کی گہرائیوں سے پڑھائی کرنے میں مصروف تھی ۔ سر اٹھانے اور کسی کے بارے میں سوچنے اور پریشان ہونے کی فرصت نہیں تھی اسے اور یہ اچھا تھا، وہ ان دنوں سکون سے تھی لیکن ایگزامز کے ختم ہوتے ہی چھٹیاں شروع ہو گئیں اور اس کے دماغ میں پھر سے نئی نئی پریشانیاں اور فکری جنم لینے لگیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” آج میں نے بہت عرصے بعد تمہیں دیکھ لیا جوتوں کی دکان پر ۔” وہ اپنی پلنگ پر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے لیٹا تھا ۔
“تم اس دکان دار کے ساتھ لڑ رہی تھی ۔ میں دکان کے مردانہ حصے میں بیٹھا تمہیں لڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اور تم اگر مجھے وہاں دیکھ لیتی تو یقینا تمہاری بولتی بند ہو جاتی ۔ ” اس نے کروٹ بدلی ۔
” تم واقعی بہت بولتی ہو ۔” وہ مسکرایا۔ ” تم نے کاؤنٹرپر خالی ڈبہ چھوڑ دیاتھا ۔ جوتے تم چرا کے لے گئیں اور دکاندار کو اندازہ تک نہ ہوا ۔
” وہ ہنسنے لگا ۔ ” پھر جب وہ ڈبہ واپس رکھنے لگا تب اسے اندازہ ہو کہ تم نے کیا کھیل کھیلا ہے ؟” وہ اب زور زور سے ہنسنے لگا ۔” پھر تو وہ بے چارہ بہت چیخا لیکن تم چلی گئی تھیں ۔ میں وہیں بیٹھا پورا منظر دیکھ رہا تھا۔مجھے اس دکاندارپر بہت ترس آیا اور میں نے اس کو جوتوں کی قیمت ادا کر دی ۔”
اس نے پھر سے کروٹ بدلی ۔ اس رات وہ بہت زیادہ ہنسا تھا ۔
” میں نے جب اس دکاندار کو بتایا کہ تم میری بیوی ہو اس لیے تمہارے جوتوں کی قیمت بھی میں ادا کروں گا تو اس نے کس قدر حیرت سے مجھے دیکھ کر پوچھاتھا ۔
” تم کیسے قابو کرتے ہو اس کو ؟ وہ پھر ہنسنے لگا ۔ لیکن میں اسے کیا بتاتا کہ میں نہیں میری محبت تمہیں قابو کرلیتی ہے۔ ” اس نے آنکھیں بند کردیں اور سو گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آنکھ کھلتے ہی اس نے وال کلاک میں وقت دیکھا ،بارہ بج رہے تھے ۔ جلدی سے اٹھ کر اس نے منہ دھویا اور کچن کی طرف چلی گئی ۔ اس کو سخت بھوک لگی تھی۔
” مجھے بھوک لگی ہے ۔” کچن کے دروازے میں کھڑی وہ کسی معصوم بچے کی مانند بھوک کی شکایت کررہی تھی۔
” وہ تو لگنی ہی تھی ۔” کچن میں سٹول پر بیٹھا شہروز دوپہر کا کھانا بنانے میں منزہ کی مدد کررہا تھا ۔
” Where are the servants? ” اس نے فریج سے بوتل نکا ل کر کھڑے کھڑے پانی پی لیا ۔
” فوتگی ہوئی ہے ان کے گھر میں ۔” اس بار منزہ نے جواب دیا ۔
” اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ ایک ہ
نہ جانے کیا ہو گیا تھا سب کو ۔سبھی کہہ رہے تھے کہ ابا فوت ہو گئے ہیں ۔ وہ بے یقینی سے سب کو دیکھ رہی تھی ۔ ابا صحن میں پڑی چارپائی پر سفید لباس میں آنکھیں بند کیے لیٹے تھے ۔ دینا ان کے سرہانے بیٹھی تھی ۔مرینہ دینا کے پیروں میں بیٹھی رو رہی تھی ۔ چھوٹی ماں اور بڑی پھوپھی دوسری چارپائی پر بیٹھی رو رہی تھیں اور اماں۔۔۔ وہ کہاں تھیں ؟ عرینہ نے بد حواسی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا وہ وہاں تھیں۔ جائے نماز پر۔۔۔ اسے یا د آیا وہ وہیں بیٹھ کر ابا کی صحت یابی کی دعا مانگتی تھیں اور ابھی بھی وہیں بیٹھی بڑی خالہ کے سینے میں سر چھپا ئے بلک بلک کر رو رہی تھیں ۔
” یہ سب کیوں رو رہے ہیں ؟” و ہ بے یقینی کے انداز میں بڑ بڑائی ۔
” کچھ نہیں ہوا ابا کو ۔۔۔ زندہ ہیں میرے ابا” ۔۔۔ اس نے جلد ی سے کہا۔
” دینو! بتا ناں اباکو کچھ نہیں ہوا ۔ یہ ۔۔۔یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں” اس نے دیناکے پاس جا کر اسے زور زور سے جھنجھوڑا تھا۔ دینا کے گالوں پر اشکوں کی لڑیاں رواں تھیں ۔
اصغر کو خبر کردو” بڑے پھوپھا نے علی سے کہا ۔ عرینہ کی خالی نگاہوں نے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے اسے اس بات کا یقین ہی نہیں تو پھر وہ کیسے روئے ۔؟ اسے یہ لو گ جھوٹے لگ رہے تھے یا شاید خواب تھا ۔
” کہاں ہیں میرے بھائی ؟ میرے بڑے بھائی ۔۔۔ میرے پیارے بھائی ۔۔۔” چھوٹی پھوپھی دھاڑیں مارتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تھیں ۔ ان کی چیخوں نے عرینہ کو جگا دیا، اس نے دیکھا کہ وہ ابا کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانا چاہ رہی تھیں لیکن وہ نہیں اٹھ رہے تھے ۔سب کی اتنی چیخوں میں وہ کتنے آرام سے سور ہے تھے جیسے اب وہ اس دنیا میں نہ رہے ہوں ۔ اس کی آنکھ سے آنسو کا قطرہ گرا پھر وہ زور زور سے رونے لگی تھی ۔ وہ اس قدر روئی کہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گئی ۔اس کے بعد اسے کچھ پتہ نہ تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭