سر ان کی دوست یہاں لابی میں بیٹھی ہوئی ہیں ۔ ہم ان سے مس حمائل کا ایڈریس لے سکتے ہیں۔
” ٹھیک ہے ۔ سینڈ ہر ٹو مائی آفس کویکلی۔” ریسیور کریڈل پرپٹخ کر اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیا اور آنکھیں بند کردیں۔
” یا اللہ! یہ حمائل نہ ہو ۔ یا للہ! یہ میری حمائل نہ ہو۔” زندگی میں پہلی بار شاید وہ دل کی گہرائیوںسے دعا مانگ رہا تھا ۔ ” میں جانتا ہوں یہ حمائل نہیں ہو سکتی ۔ بھلا وہ اس وظیفے کے حصول کے لیے کیوں آئے گی؟؟؟۔۔۔
میں جانتا ہوں یہ میری حمائل نہیں ہے ۔ پر میرے دل کو آرام کیوں نہیں ؟ مجھے ایک انجان خوف نے گھیرے میں کیوںلیا ہوا ہے ۔ یہ نام ہمیشہ میرے ہوش اڑا دیتا ہے ۔” وہ بے بس انداز میں سوچ رہا تھا ” اور جب تم مجھے مل جاؤ گی تو میں تمہیں یہ سب بتاؤں گا کہ کہاں کہاں اور کس کس وقت میں نے تمہیں کتنا یاد کیا؟ میں کتنا بے چین ہوں تمہیں یاد کر کے ؟ کتنا ڈر گیا تمہیں نہ پا کر ؟ اور تم صرف مسکرا دو گی ۔۔۔ تمہارے لیے شاید میری یہ بے قراری کوئی معنی نہ رکھتی ہوں۔۔۔ پرسوال یہ ہے کہ اس وقت تم ہو کہاں ؟اس نے پلکوں کو کسی بھاری بوجھ کی طرح آنکھوں سے اٹھایا ۔ ” کاش وہ مجھے مل جائے کاش ۔۔۔اسی طرح ہنستی مسکراتی حمائل۔۔۔” اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملیں اورسیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔” کیا پتہ یہ حمائل ہی ہو اور صرف مجھے کنفیوز کرنے کے لیے یہاں آئی ہو وظیفے کے بہانے سے اور پھر بھاگ جانے کی یہ عجیب و غریب حرکت کی ہو۔۔۔ ورنہ تو پھر یہ کسی بھی حال میں میری ” حمائل” نہیں ہوسکتی۔ اس بات کا یقین ہے مجھے۔ ۔۔” وہ خود کو دلائل پیش کررہا کہ اس کے آفس کا دروازہ کھلا۔
” آپ نے بلایا مجھے؟ وہ دروازہ پکڑے کھڑ ی تھی۔
” جی آئیے ۔ اس نے مختصر سا جواب دیا ۔
” آپ حمائل کی دوست ہیں؟”
” ہاں ۔ پر وہ ہے کہاں ؟ وہ الٹا اس سے سوال پوچھنے لگی۔
” آپ ہمیں ان کا ایڈریس دے سکتی ہیں؟ اس کا سوال نظر انداز کر کے صبارنے ایک اور سوال کیا ۔
” جی۔” حیرانی اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔
” ٹھیک ہے۔” آپ اسما سے اپنا کا نٹیکٹ نمبر دے دیں ۔ ہم آپ سے رابطہ کریں گے ۔
” جی ۔” کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں وہ صبار کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
” ٹھیک ہے ۔ آپ جاسکتی ہیں اور ہاں آپ کی دوست چلی گئی ہیں ۔”
” چلی گئی ہیں؟” اکیلے؟ وہ بڑ بڑاتی ہوئی کرسی سے اٹھنے لگی ۔
” ویسے آپ کی دوست کا فل نیم کیا ہے ؟ شاید فل نیم جان کر اسے معلوم ہو جائے کہ وہ اس کی حمائل تھی یا نہیں ؟
” حمائل اصغر” اس نام نے صبار کی سماعتوں پر پہاڑ گرا دیے تھے۔ یک دم اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ اسے اب کچھ بھی نہیں دِکھ رہا تھا حتی کہ اپنے سامنے کھڑی وہ خاتون بھی نہیں۔
” آپ جا سکتی ہیں ” عصمت نے اس کی سرگوشی سنی اور انتہائی تعجب کے عالم میں وہ آفس سے نکلی تھی ۔ کاؤنٹر پر بیٹھی اسما کو اپنا نمبر دینے کے بعد کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس بڑی عمارت سے نکلی تھی۔
” مجھے اس” حمائل” کی کبھی سمجھ نہیں آئے گی۔ بہت عجیب ہے یہ لڑکی ۔ عصمت نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے سوچا۔
” یہ وہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کے سبھی دوستوں کو میں جانتا ہوں ۔” وہ اب خود کو یقین نہ کرنے کی وجہ دے رہا تھا۔” چلویہ اس کی دوست ہو بھی گئی تو اتنا مجھے یقین ہے کہ وہ کسی وظیفے کے لیے نہیں آئی ہو گی۔” وہ کرسی پر سے اٹھا تھا اور آفس سے نکل گیا تھا ۔ اس کا پورا وجود کانپ رہاتھا ۔ وہ لڑ کھڑاتے قدموں سے کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا ۔
” اسما! یہ دو لیڈیز چیرٹی فارم بھروانے آئی تھیں؟”
” یس سر!
” آر یو شیور؟”
” یس سر!مس حمائل کے ہزبنڈ چند مہینے پہلے فوت ہو چکے ہیں اور وہ بہت بڑے فائنینشئل کرائیسس سے گزررہی ہیں ۔ ان کی دوست نے بتایا ۔” اسما نے تفصیل فراہم کیں۔ وہ جو یقین نہ کرنے کی وجہ مانگ رہا تھا ساری وجوہات اس کی امیدوں کے خلاف تھیں۔ نہ جانے کیوں اب اس کا دل مارے خوف کے دھڑکنا بھو ل گیا تھا ؟ اس کا دل کیاوہ اسما کو ایک طمانچہ دے مارے کہ ” حمائل ” صرف اس کی ہے ۔ وہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ۔ اور اگر ہو بھی گئی تو اتنی مجبور کبھی نہیں ہو گی کہ چند ہزارروپے کے وظیفے کے لیے دفتروں کے چکر لگاتی رہے گی۔ اسما سے عصمت کا نمبر لے کر وہ باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے وہ پیدل چلنے لگا تھا۔ اسے کچھ معلو م نہیں تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے َ؟ وہ بس چلتا جارہا تھا ۔ اس وقت وہ اپنی جسمانی تھکن بھول چکا تھا ۔ اس کی روح میں در د کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اس کا دماغ سن تھا ۔ اس کا ذہن ماؤف تھا اور اس کا دل ساکت ۔۔۔ اس کو یقین نہ کرنے کی وجہ چاہیے تھی۔ وہ جلد ی جلدی تحقیق کرکے اس سچ کو جان لینا چاہتا تھا کہ وہ ” حمائل ” اس کی حمائل” نہیں تھی لیکن اس کے اندر ایک گوشہ تھا جس میں ایک نامعلوم خوف کروٹیں بدل رہا تھا ۔ ” اگر یہ حمائل ہوئی تو ؟؟؟ اور آگے وہ سوچ نہیں پایا ۔ اس سے آگے اس کی سوچ ختم ہو چکی تھی،رک جاتی تھی۔
” وہ دیر تک سڑکوں پر بے مقصد پھرتارہا ۔ کئی دفعہ اس کا دل چاہا کہ وہ عصمت کا نمبر اپنے موبائل سے ڈیلیٹ کر دے لیکن اگلے لمحے اسے حمائل کا خیا ل آجاتا ۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح بگڑے حلیے میں فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ اسے چین نہیں تھا ۔ وہ حمائل اصغر کے بارے میں جان لینا چاہتا تھا اور برسوں بعد جب آپ کسی جان سے بھی پیارے کا نام سن لیتے ہیں تو آپ پھر اس انسان سے ملنا چاہتے ہیں ۔ اس کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ آپ کو اس سے کتنی محبت ہے ؟ آپ اس کے بنا کتنے ادھورے رہیں؟ آپ اس انسان کو اس طرح دیکھ لینا چاہتے ہیں جس طرح آپ اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ حقیقت جانے بغیر کے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدل جاتا ہے۔
اس کا دل کسی ضدی بچے کی طرح حمائل سے ملنے کی ضد کررہا تھا لیکن وہ بے بس تھا ۔اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ وہ کسی خاموش ویران جگہ جا کر چیخیں مارنا چاہتا تھا ۔ کسی صحرا میں بیٹھ کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کررونا چاہتا تھا۔
” وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور کسی معصوم بچے کی طرح آنسو قطرہ قطرہ اس کی آنکھوں سے گرنے لگے ۔ اس نے دھندلاتی آنکھوں سے دیکھا شام گہری ہو چکی تھی۔ مارکیٹ کی دکانیں روشن بلبوں کے سبب کسی نگینوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ ” ڈیڈ انتظار کررہے ہوں گے۔” وہ فٹ پاتھ پر سے اٹھ کر چلنے لگا ۔ وہ گھر جانا چاہتا تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا گھر کس طرف ہے ؟
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” ہاں سب ٹھیک ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے ۔ تم اپنا بتاؤ” وہ چھت پر دھلے ہوئے کپڑ ے بچھا کے نیچے آئی تو بڑی ماں فون پر کسی سے بات کررہی تھی ۔ ” عرینہ کی منگنی پہ نہ آسکی لیکن اصغر کو رخصت کرنے ضروری آنا ہے تم نے ۔ ہاں ۔۔ وہ جارہا ہے ناں انگلینڈ ۔” دینا بڑی ماں کے پاس آکے بیٹھ گئی ۔” یہ یقیناً چھوٹی پھوپھی سے بات کررہی ہیں ۔”
” آج ہی آ رہی ہوں؟” یہ تو بہت اچھا ہوا۔ چلو ٹھیک ہے ۔ اللہ حافظ ” بڑی ماں نے ریسیور کریڈل پررکھ دیا ۔” چھوٹی پھوپی تھیں؟” اس نے پوچھا۔
” ہاں ۔۔ صابرہ تھی ۔ اصغر سے ملنے آرہی ہے ۔ شام تک پہنچ جائے گی۔” انہوں نے نرمی سے جواب دیا اور مسہری سے اٹھنے لگیں ۔
” تو وہ چلے جائیں گے ۔ مجھے خواب دکھا کر چلے جائیں گے پر۔۔میں کیوں خواب دیکھنے لگی؟ میں ۔۔۔ حقیقت پسند ہوں ۔ خوابوں میں رہنے والی نہیں ہوں۔ پھر کیوں میں ان کے خواب دیکھنے لگی ہوں ؟ شایدوہ ہمیشہ سے مجھے اپنے لگتے ہیں اس لیے؟” وہ چار پائی پر سے اٹھنے لگی۔
” بیٹا ! تم جا کے فرحت کے کمرے میں صابرہ کے سونے کا انتظام کرو۔ میں ذرا باورچی خانے کاکام سنبھال لوں۔ فرحت کی طبیعت آج کچھ بہتر نہیں ۔” بڑی ماں نے باورچی خانے کے اندر جاتے ہوئے کہا۔
” لیکن اماں کے کمرے میں پہلے سے بڑی پھوپھی کا بستر لگا ہوا ہے ۔” وہ اماں کے کمرے کی جانب بڑھتے بڑھتے رک گئی ۔
” تو پھر فرحت کے ساتھ والے کمرے میں لگوا لو بستر۔ عرینہ اور مرینہ کو ساتھ میں لگا لو کام پر۔۔۔اچھی طرح صفائی کروا دو اس کمرے کی ” یہ کہہ کر وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئیں اور دینا اس کونے والے کمرے کی طرف چلی گئی ۔
” دینا بیٹا ! خبردار جو اکیلے کیا کام۔ جا کے پہلے ان دونوں کو بلاؤ سارا کام وہ دونوں کریں ۔ تم صرف بتا دیا کرو ان کو ۔” بڑی ماں نے باورچی خانے سے آواز لگای اوردینا مسکراتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب گئی تھی ۔۔
” توبہ ہے ۔ بڑی ماں کسی کی جان بخشے۔ پتہ نہیں ان کی بہو کا کیا حال ہوگا؟” دینا کے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ دونوں اپنے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ناول کی کتابوں کومیز پررکھ کر منہ بسورتی ہوئی اٹھنے لگیں۔
” سن لیا تم لوگوں نے۔” ؟ وہ مسکرائی ۔”
” ہاں ۔ ہاں سن لیا ۔ اب جو آواز گھر بھر میں گونجتی ہو تو ہم بھی سنیں گے ناں؟۔ عرینہ سخت ناراض ہورہی تھی۔
”بس کرو دبد تمیز ! اب آؤ بھی ۔ اس نے عرینہ کو بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف گھسیٹا۔”
”مجھے لگتا ہے ابا اماں کو چین سے لائے ہیں ۔ مجال ہے جو ایک لمحہ بھی آرام سے بیٹھنے دیتی ہو۔” عرینہ کی اس بات پہ دینا اور مرینہ دونوں نے قہقہہ لگایا تھا۔” چپ کرو بے شرم! ناول پڑھتے پڑھتے دماغ خراب ہو گیا ہے تم دونو ں ۔ حقیقت میں آؤ اور اس کمرے کی صفائی کر ڈالو۔” دینا نے عرینہ کو جھاڑو تھماتے ہوئے شوخ انداز میں کہا ۔
” بھاڑ میں جائے ایسی حقیقت۔” عرینہ اور مرینہ دونوں کو ہر قسم کے کام پر بے حد چڑ تھی اور اس وقت جب ان کوکمرے کی صفائی کاکہا گیا تو دونوں کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچ چکا تھا ۔
” ایسی بھی کوئی جگہ ہوگی جہاں ہمیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا؟” عرینہ نے حسرت سے کہا۔
” ہاں ۔ جنت میں ہم آرام سے بیٹھے رہیں گے۔ وہاں کوئی بڑی ماں ہم سے کام نہیں کروائیں گی۔ ” مرینہ نے جلد ی سے کہا۔
” میری سست اور کاہل بہنوں! جنت ناول پڑھنے سے نہیں ، نماز پڑھنے سے ملتی ہے اور اس سے تم دونوں دور بھاگتی ہو۔ خاک مل جائے گی جنت” دینا نے ان دونوں کو ٹہوکا۔
” یہ کیا ؟صفائی ابھی تک نہیں ہوئی ؟ عرینہ! تم اس کی ہم عمرہو اور تمہیں کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنا نہیں آتا اور اسے دیکھو اتنی سلیقہ مند ہے ۔ صالحہ کی تو قسمت ہی خراب ہے ۔” بڑی ماں کمرے کے دروازے میں کھڑی ان پہ تپ رہی تھیں ۔ عرینہ کو بُرا بھلا کہہ کے وہ پیر پٹختی واپس باورچی خانہ کی سمت چلی گئیں۔
” ہم عمر ہیں ہم دینا کے ، پر ہم خیال ہیں ہم مرینہ کے ۔” عرینہ نے جھاڑو کا مائیک بنا کے کہا ۔
” واہ ۔ واہ۔۔۔ کیا کمال کا شعر ہے ۔” مرینہ نے روایتی انداز میں تعریف کی۔” بے وقوف !شعر نہیں مصرع۔۔۔” عرینہ نے اسے گھورا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس سے پہلے کبھی اس نے خود کو اتنا بے بس محسوس نہیں کیا تھا ۔ وہ اس سے دور ہوتی ، وہ اس سے رابطہ نہیں کرپاتا ، اس سے بات نہ ہو پاتی تو وہ کبھی بھی پریشان نہیں ہوتا تھا ۔ وہ اسے اپنے وجود کا حصہ لگتی تھی ۔ وہ اسے اپنے نس نس میں بسی معلوم ہوتی تھی ۔ اسے کھونے کا ڈر تو جیسے اس کو تھا ہی نہیں ۔اس لڑکی کا وجود ہی نہیں ۔ اس کی روح کو بھی وہ اپنا سمجھتا تھا ۔ اس نے کبھی اس کو خود سے الگ نہیں سمجھا تھا لیکن آج زندگی میں پہلی بار وہ اس کو خود سے الگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ آج اس کو احساس ہو ا تھا، وہ ایک الگ وجود الگ روح کی مالک تھی۔ آج اس کو پہلی بار اسے کھونے کا ڈر محسوس ہوا تھا۔ آج اس لڑکی کے ذکر نے صبار کو واقعی بے کل کر دیا تھا ۔اس سے پہلے وہ حمائل کو کبھی ڈھونڈنے اس لیے نہیں نکلا تھا کہ وہ اس کو خود سے جڑی معلوم ہوتی تھی لیکن آج اس سے الگ وجود ہونے کا احساس ہوتے ہی وہ اس کو ڈھونڈنے نکلا تھا پاگلوں اور دیوانوں ، کی طرح وہ اسے ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ یہ کب جانتا تھا کہ جسے وہ آج ڈھونڈ نے نکلا ہے اس کو وہ برسوں پہلے کھو چکا ہے ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” اب اٹھ بھی جاؤ تم دونوں ۔” دینا نے عرینہ اور مرینہ پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے کہا۔ وہ کافی دیر سے ان کو جگانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
”یار دینو!سونے بھی دو اب ۔۔۔ میر ی تو ہڈیاں ٹوٹ رہی ہیں ۔”
عرینہ نے کمبل میں خود کو چھپا یا۔
” ہاں بجیا! سونے دو ناں ۔ میں بھی بہت تھکی ہوئی ہوں ۔” مرینہ نے کروٹ بدلتے ہوئے شکوہ کیا ۔
” کیوں بھئی !ایسا کیا کیا ہے تم دونوں نے،جو اتنی تھکی ہوئی ہو ؟” دینا ان کے سرہانے کھڑی پوچھ رہی تھی۔
” کل پورا دن جو کمرے کی صفائی کی ہے ہم نے۔ ” عرینہ نے کمبل میں سے سر نکا ل کر کہا اور پھر کمبل میں چھپ گئی ۔
” کیا؟ کیا ؟ وہ جو صفائی کے نام پہ تم دونوں نے کمرے کی حالت بگاڑ دی تھی ۔ اس سے تم دونوں تھک گئی ہو؟” دینا نے ان دونوں کے پلنگوں کے بیچ پڑی میز پر براجمان ہوتے ہوئے پوچھا ۔
” نہیں اٹھ رہی ناں تم دونوں؟ میں جا کے بڑی ماں کو بلاتی ہوں ۔ دیکھتی ہوں تم دونوں کیسے نہیں اٹھتیں؟” دینا نے دونوں کو دھمکی دی اور کمرے سے باہر جانے لگی۔
” خدا کیلئے ! پولیس انسپکٹر کو نہ بلائیں۔” مرینہ نے فریاد کی ۔
” پولیس انسپکٹر نہیں” آرمی چیف” عرینہ نے جلدی سے تصیح کی۔
” اب تو میں ان کو بلا کے ہی رہوں گی۔” دینا نے ان دونوں کی گھبراہٹ کا مزہ اٹھاتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گئی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ کمر ے میں دوبارہ آئی تو اس کے پیچھے پیچھے کوئی آرہا تھا ۔
” اوہو۔ آگئیں۔” مرینہ گھبراہٹ کے عالم میں بڑبڑائی اور عرینہ بالکل ساکت لیٹی رہی ۔ خوف اور گھبراہٹ کے وقت وہ ایسے ہی خاموشی سے کام لیا کرتی تھی اور اس کی اس حرکت سے اماں کو مزید غصہ آجاتا تھا ۔
” تم دونوں ابھی تک نہیں اٹھیں؟؟ ” دینا کی آواز ابھری ۔
” یہ کم بخت اماں کو مزید غصہ دلا رہی ہے ویسے تو ان کے سامنے آواز تک نہیں نکلتی اس کمینی کی۔” عرینہ کو اس وقت دینا پر سخت غصہ آرہا تھا ۔ اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر دینا کاگلا دبوچ لے لیکن اماں کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں تھا ۔
” آؤ مسرورہ ! بیٹھو۔” یہ آواز دینا کی تھی ۔
” مسرورہ؟ ” اس وقت عرینہ سخت بے زار ہورہی تھی ۔ بڑی پھوپھی کی اس ” لاڈلی مسرورہ” سے اسے بے حد چڑ تھی۔ ” یا اللہ جی !اس کی کسر رہ گئی تھی کیا؟ اس نے کڑھ کر سوچا۔
” بھابی کہاں ہیں ؟” مسرورہ کی اس دھیمی آواز میں بات کرنے کے انداز پر عرینہ کس قدر چڑ جاتی تھی ۔ بالکل بلا وجہ او ر بے سبب اس کو مسرورہ سے نفرت تھی اور آپ کی زندگی میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو اہمیت دیتے ہیں ، توجہ دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان بے ضرر لوگوں سے آپ کو عجیب قسم کی چڑ ہوتی ہے۔ آپ کا دل کرتا ہے آپ ان لوگوں سے نہ ملیں اور اگر ملیں تو ایک آدھ تھپڑ ضرور رسید کردیں۔
” عرینہ؟ وہ تو سوئی ہوئی ہے ۔ کل پورا دن گھر کی صفائی کر کے بہت تھک چکی ہے۔ تمہیں بہت یا د کررہی تھی ۔ تمہیں ۔یہاں دیکھ کر بہت خوش ہو گی ” ۔
دینا نے صاف جھوٹ بولا ۔
” اب یہ بدتمیز لڑکی جھوٹ کیوں بول رہی ہے ؟ میں نے کب یاد کیا ہے اس ” مسرورہ کی بچی کو “؟ عرینہ کیلئے اب یوں لیٹے رہنا مشکل ہو چکا تھا ۔ کاس اس وقت میں اس کم بخت دینا کو کم از کم دس بیس تھپڑ رسید کر سکتی۔ ” اس وقت اس کی یہی خواہش تھی۔
” عرینہ! اٹھو مسرورہ آئی ہے ۔ تم کتنا یاد کررہی تھی اسے ۔” دینا عرینہ کو زور سے ہلایا اور اس کا دل چاہ وہ دینا کو کہہ دے کہ میں نے کب اس کو یاد کیا ہے ؟ لیکن چارو ناچار اسے اٹھنا ہی پڑا ۔
” اوہ ۔ السلام و علیکم کیسی ہو مسرورہ؟” عرینہ نے مسکرانے کی کوشش کی ” زندگی میں مجھے اگر کبھی کسی انسان کو الٹا لٹکانے کا موقع ملا تو وہ یہی مسرورہ ہو گی۔” اس نے کڑھ کر سوچا تھا۔
” میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ؟”
” اوہ۔۔۔ تیر ا یہ دھیما دھیما لہجہ۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کرتا ہے میں تیرا گلا دبا دوں اس نے مسرورہ کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔
” بہت سویرے سویرے نہیں آئی تم ؟” عرینہ جبراً مسکرائی ۔
” نہیں بھابی دس بج رہے ہیں ۔” مسرورہ نے بتایا ۔
” اوہو۔۔۔ اتنی دیر؟ دینا تم نے کیوں نہیں جگایا مجھے؟ وہ اب شرم سے پانی پانی ہورہی تھی اور مسرورہ کے پاس بیٹھی دینا اپنی مسکراہٹ دبانے میں مصروف تھی۔ وہ ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بہانہ ڈھونڈتی ، دینا جلدی سے بول پڑی ” اصل میں یہ کل پورا دن گھر کی صفائی کرتی رہی ہے تو۔۔۔ تھک گئی ہے۔” دینا نے شرارت سے عرینہ کو دیکھا جو قہربھری نظر سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
” اچھا بھابی! میں ذرا اما ں کے پاس چلتی ہوں ۔ آپ اٹھ کر منہ ہاتھ دھو لیں ۔پھر آتی ہوں ۔” مسرورہ مسکراتے ہوئے کمرے سے نکلی تھی اور اس کے نکلتے ہی مرینہ نے اپنے پلنگ سے چھلانگ لگائی تھی۔ “منگنی کو دو دن ہوئے نہیں اور ” بھابی” بھابھی کی رٹ لگا رکھی ہے ۔” وہ اب عرینہ کے پلنگ پر بیٹھی بڑے شوق سے مسرورہ کی نقل کررہی تھی ۔
” دنیا کا آٹھواں عجوبہ۔۔۔۔” عرینہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
” اب اٹھ بھی جائیے بھابھی جی !” دینا نے عرینہ کو چھیڑا۔
” سٹوپڈ ،!بدتمیز !” عرینہ جوتا اٹھانے کو جیسے ہی جھکی ، دینا تیزی سے کمرے سے نکل گئی اور تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے میں سر اندر کر کے مسکراتے ہوئے کہا ” تمہیں جگانے کیلئے مجھے اب ہر صبح مسرورہ کو بلانا بڑے گا ۔”
” اللہ کرے وہ تیری دیوارنی بنے ۔” عرینہ نے دینا کو گھورا۔”
” نہیں ۔ مجھے تو لگتا ہے وہ آپ کی بھابی بنے گی ۔” مرینہ نے جلدی سے کہا ۔ اور عرینہ نے قہرناک نظروں سے اسے دیکھا۔” یااللہ! پناہ۔۔۔۔، مرینہ ہنستے ہوئے غسل خانے کی طرف بھاگی تھی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ صبار قاسم سے چھپ رہی تھی یا اپنے ماضی سے ؟ یا شاید دونوں سے اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ وہ صحن میں پڑی چارپائی پر مٹی کے ڈھیر کی طرح بے جان ہو کے گری تھی ۔ اس کے وجود کی ہر ہر ہڈی میں درد کی بے پناہ ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ۔نجانے وہ کتنی دور سے بھاگ کے یہاں آئی تھی اور اب بری طرح ہانپ رہی تھی ۔ ” جہاں وہ مجھے ڈھونڈنے آئے گا تویہا ں اسے کوئی” حمائل اصغر ” نہیں ملے گی ” اس نے ہانپتے ہوئے سوچا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے زور سے اپنی آنکھوں کو بھنچا تو اشکوں کے ننھے ننھے قطرے اس کے گالوں تک بہ گئے ۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے دیکھا تین معصوم بچے اس کے سرہانے کھڑے اس کی فکر مندی کو دیکھ رہے تھے۔
” میں ۔۔۔ ٹھیک ہوں بچوں!” وہ بہ مشکل بول پائی اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ماضی کے بارے میں سوچنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
رات کا کھانا اکیلے تیا ر کرنے کے بعد اس نے دستر خوان پہ سجایا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گئی تھی۔” وہ دونوں اب پیکنگ پہ گھنٹوں لگائیں گی۔” کمرہ خالی پا کر اس نے بے زاری سے سوچا ۔ عرینہ اور مرینہ کو بڑی ماں نے اصغر کے لیے پیکنگ پر لگایا تھا اور شام سے لے کر ابھی تک وہ دونوں غائب تھیں۔” وہ چلے جائیں گے۔ گھر خالی ہو جائے گا ۔” پلنگ پہ دراز ہو کر اس نے آنکھیں بند کردیں ۔
” جب تک ہم ہیں ،ہمیں دیکھا کرو ، جب ہم چلے جائیں گے پھر ہمارے خواب دیکھنا” وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا اس کی جانب بڑھا تھا ۔دینا ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔” بلب ۔۔۔ روشن کر دیں ۔۔۔ میں بھول گئی ۔۔۔ اس نے گھبراتے ہوئے کہا ۔
” اس کی ضرورت نہیں ہے۔ باہر سے آرہی ہے دھیمی دھیمی روشنی ۔۔۔۔ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں ۔” وہ اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ دینا سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔ اس کا دل اس کے حلق تک آ پہنچا تھا ۔
” میں جارہا ہوں ۔” وہ سنجیدہ تھا ۔
” ہاں ۔۔۔ جانتی ہوں ۔۔۔ ” وہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔
” کچھ کہو ناں۔” اس کی آواز میں شرارت تھی ۔
” کیا ؟” وہ گھبرا رہی تھی ۔
” کچھ بھی ۔۔۔۔ کچھ بھی کہہ دو۔”
” مجھے کچھ بھی نہیں کہنا۔ آپ جائیں ۔” وہ اب اس کو دھکیل رہی تھی۔
” جاتو رہا ہوں یار! تم سے ملنے آیا ہوں۔”
” مل لیا ؟ اب جائیں ۔” اس کی گھبراہٹ قابل دید تھی ۔
” اچھا ۔ اچھا ۔ جارہا ہوں ۔ فون کروں گا۔ مجھے بھول نہیں جانا میرے ہی خواب دیکھنا۔” اپنا منہ اس کے کان کے نزدیک لا کروہ بولا اس کی آواز میں شوخی تھی ۔
” حقیقت پسند لوگ خواب نہیں دیکھا کرتے ” وہ سنجیدہ تھی ۔
” اچھا!!! تو تم حقیقت پسند ہو ۔ لیکن مجھے یقین ہے پھر بھی تم میرے خواب دیکھو گی ۔” وہ پر اعتماد لہجے میں بولا ۔” چلتا ہوں ۔ اپنا خیال رکھنا۔ مجھے دعاؤں میں بھی یاد رکھنا ۔” وہ اسے دھکیل رہی تھی، اپنے سینے پر پڑا اس کاہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھا م کر اس نے اپنی آنکھوں سے لگایا اور کمرے سے نکل گیا ۔
رات بارہ بجے اس کی فلائٹ تھی۔ دینا جانتی تھی اس کے بعد دونوں کے درمیان بات نہیں ہوسکے گی ۔ بس سب کے سامنے وہ اس کے ساتھ صرف ہاتھ ملا سکے گی اور پھر وہ چلا جائے گا۔ اس کی آنکھوں سے اشکوں کے بڑے بڑے قطرے گرنے لگے ۔ وہ بے جان سے پلنگ پر بیٹھ گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
خالہ کی موت کا سب سے گہرا اثر کس پہ ہوا تھا ؟ یہ اندازہ کوئی نہیں کر پایا لیکن اسے لگتا تھا جیسے ان کی موت کا سب سے زیادہ اثر اس کے گھر کے ماحول پہ پڑا ہو۔منزہ کی تائی اور تایا نے اس کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا تو مجبوراً امی جی کو اسے ساتھ لانا پڑا ۔منزہ ان کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ حمائل کے ساتھ بچپن سے اس کی دوستی تھی اس لیے وہ خوشی خوشی اس نئے گھر اور نئے ماحول میں رہنے لگی تھی ۔ ایک سال تک حمائل نے منزہ کے ساتھ اپنی ہر چیز حتیٰ کہ اپناکمرہ تک شئیر کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اپنے گھر میں منزہ کا اضافی وجود نا قابل برداشت ہونا شروع ہو گیا ۔
کوئی ایک دو دن کی بات ہو تو آپ اپنے گھر میں کسی اضافی وجود کو بہ خوشی برداشت کر لیتے ہیں لیکن جب کوئی نہ جانے کے لیے آپ کے گھر آ کے رہنے لگتا ہے تو وہ انسان ، اس کا وجود اور اس کی موجودگی آپ پر ایک بوجھ بن جاتا ہے ۔
منزہ چاہے جتنی بھی بے ضرر، خاموش اور شریف تھی ، حمائل کے لیے اب اس کے وجود سے عجیب سی بیزاری محسوس ہونے لگی تھی ۔ وہ حمائل کے بچپن کی دوست ضرور تھی اور دونوں کی یہ دوستی سب کی دلچسپی کی حامل بھی تھی لیکن حمائل بچپن کی اس گہری دوستی کو مزید نہیں نبھا نا چاہتی تھی ۔ یہ بات اسے خوب بھی معلوم نہیں تھی کہ وہ منزہ سے اس قدر بیزار کیوں ہے ؟ لیکن اس کے دل کا ایک گوشہ تھا جو سرگوشیوں میں ،دھیرے دھیرے حمائل کو اس خدشے میں مبتلا کررہا تھا کہ منزہ اس کی بہن بن کر اس کے ماں باپ کے دلوں سے اس کے حصے کا پیار، اہمیت اور توجہ چھین لے گی ۔جب اللہ نے مجھے بہن نہیں دی تو کوئی کیوں آکے میری بہن بن جائے؟ جب کہ مجھے کسی بہن کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ میرے والدین کو میرے علاوہ کسی بیٹی کی ۔۔۔۔ ” وہ اکثر بیزاری کی انتہا تک پہنچ جاتی تھی لیکن یہ سوچتے وقت اسے یہ خیال نہیں آتا تھا کہ منزہ اپنی مرضی سے نہیں مجبوری کے تحت اس گھر آ کررہنے لگی ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” دعاؤں میں رخصت کرو بچے کو۔ کہیں گوریوں کے چکر میں نہ پڑ جائے۔ ” بڑی پھوپھو نے قرآنی آیات پڑ ھ کر اصغر پر دم کرتے ہوئے کہا۔
” ہاں پھوپھی !انگلستان کی حسیناؤں کا کیا کہنا!” اصغر نے بڑی پھوپھی کے گلے لگتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں اور لہجے میں شرارت تھی اور ہ کن اکھیوں سے دیوار کے ساتھ لگی دینا کو دیکھ رہا تھا ۔وہ نہیں جانتا تھا اس کی اس بات پر دینا کا کیا رد عمل ہوگا؟ پر دینانے تو جیسے کچھ سنا ہی نہیں تھا ۔ کسی گہری سوچ میں گم نجانے وہ کس طرف دیکھ رہی تھی یا ایسا دکھا رہی تھی۔۔۔؟
” نہیں ، نہیں بیٹا گوریوں کے فضول چکروں میں نہ پڑنا ۔ اپنی پڑھائی اچھے سے کرنا ۔ یہاں کے حسن کے سامنے انگلستان کا حسن کچھ بھی نہیں ۔۔۔”
چھوٹی پھوپھی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے نصیحت کی۔
” یار پھوپھی! آنکھوں پر پٹی باندھ کے بھیج دیں تو ٹھیک رہے گا ورنہ ۔۔۔” اس نے شرارت سے کہا۔ دینا بدستور گم سم کھڑی رہی ۔ وہ جس کو چڑانا چاہ رہا تھا وہ نہیں چڑرہی تھی ۔ ” بس اماں ! پھوپھی! دعا کریں ۔چلتا ہوں ۔ ابا اور علی باہر انتظارکررہے ہو ں گے ۔” سب پر ایک الوداعی نظر ڈال کر وہ باہر جانے لگا ۔ ” بس ایک آخری نظر دینا کو دیکھ لوں۔ اس نے دیکھا وہ اسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دروازے سے نکل گیا ۔ ایک حسین سا احساس اس کے پورے جسم کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا ۔ کوئی آپ اداس کے لیے ہو ۔ آپ کے جانے سے دکھی ہو ۔ تو اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ وہ انسان آپ کو اہمیت دیتا ہے ۔ آپ سے محبت کرتا ہے ۔وہ آپ سے الگ نہیں ہونا چاہتا ۔ اس سے پہلے دینا نے کوئی باقاعدہ طور پر اس سے اپنی محبت کا اظہارنہیں کیا تھا ۔ شاید اس نے ضروری نہیں سمجھا تھا لیکن آج ان آخری لمحوں ، اس کی آخری نظر جو پیغام دے گئی تھی وہ اصغر کے لیے بہت مقدس ، بہت اہم تھا ۔” اب میری نظریں کبھی کسی کی طرف نہیں اٹھیں گی۔” ائیر پورٹ کے اندر جاتے ہوئے اس نے سوچا تھا ۔زندگی میں پہلی بار اس کی آنکھوں نے کوئی ایسا منظر دیکھا تھا جو اس کے دل میں اترا تھا، اس کی روح میں سرائیت کر گیا تھا۔ دینا سعید کوئی ناز نخروں والی من چلی لڑکی نہیں تھی۔ وہ سیدھی سادی ، صاف دل اور مضبوط ارادوں والی لاجواب کردینے والی لڑکی تھی ۔جسے وہ آج تک سمجھ نہیں پایا تھاپر آج ، اس الوداعی نظر میں اصغر نے پہلی بار اس لڑکی کے جذبوں کو سمجھا تھا ۔پہلی بار اس نے اس لڑکی کے بارے میں اتنا جانا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے ۔۔۔شدید محبت۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شہروز کو کئی دنوں سے بخار تھا اور ٹھیک طرح سے کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ دوپہر کا کھانا کھا لینے کے بعد منزہ اس کے لیے ملک شیک بنانے کچن میں گئی۔حمائل اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی اور شہروز لاؤنج میں صوفے پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ملک شیک کانچ کے گلاس میں ڈالتے ہوئے گلاس منزہ کے ہاتھ سے گر کے ٹوٹ گیا۔شہروز بھاگ کر کچن میں داخل ہوا تھا۔منزہ فرش سے ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکرے اٹھا رہی تھی کہ کانچ سے اس کی انگلی کٹ گئی۔
” اٹھو چھوڑو یہ سب ” شہروز نے منزہ کو ڈانٹا اور اپنا رومال منزہ کی انگلی پر رکھ دیا۔
حمائل بھی گلاس ٹوٹنے کی آواز پر بھاگ کر کچن کی طرف گئی تھی۔کچن کے دروازے میں کھڑی وہ اندر کا منظر دیکھتی رہی۔اس کا اکلوتا بھائی منزہ کی انگلی زخمی ہونے سے کتنا پریشان تھا۔اس کے چہرے پہ فکر مندی کے آثار تھے اور وہ منزہ کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا حمائل ناگواری کے عالم میں الٹے پاؤں اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ کتاب بند کر کے اس نے میز پر رکھ دی اور خود بیڈ پر اوندھی ہو کر لیٹ گئی بلا وجہ اس کی آنکھوں سے گرم گرم پانی نکل کر سرہانے میں جذب ہونے لگا۔اب منزہ علی کا وجود اس کے لیے واقعی نا قابل برداشت تھا۔وہ خاموش لڑکی دھیرے دھیرے اس کے گھر ، اس کے کمرے ، اس کی چیزوں اور اس کے رشتوں پہ قابض ہو رہی تھی لیکن حمائل کچھ بھی تو نہیں کر سکتی تھی۔منزہ علی سے بے پناہ نفرت کے باو جود وہ اس کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتی تھی، ایک ہی بیڈ پر سوتی تھی ، وہ جانتی تھی کہ منزہ ہمیشہ کے لیے اس کے گھر رہنے آئی ہے، وہ جانتی تھی وہ اسے واپس نہیں بھیج سکتی۔۔۔۔ کاش میرے پاس تھوڑی سی گنجائش ہوتی منزہ علی ۔۔۔۔! تو میں تمہیں واپس بھیج دیتی۔لیکن نا تمہارے پاس واپس جانے کا راستہ ہے اور نا ہمارے پاس تمہیں واپس بھیجنے کا۔۔۔وہ اکثر حسرت سے یہ سوچ لیتی اور اس وقت اسے وہ وقت یاد نہیں رہتا جب وہ اور منزہ گہری دوست تھیں۔جب ابو جی اس کے لیے ایک گڑیا لاتے تو وہ ایک گڑیا منزہ کے لیے سنبھا ل کر رکھ دیا کرتی تھی۔جب چھٹیوں میں وہ خالہ کے گھر جاتی توعرصے تک وہاں رہ کر آتی تھی خالہ کے ہاتھ کے پکے مزے دار کھانے کھاتی اور منزہ کے ساتھ اس کے بیڈ پر سوتی لیکن منزہ نے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا اور منزہ کے گھر سے آ تے ہوئے وہ اسے بھی ساتھ لے آتی تھی اور پھر اسے ڈھیروں تحائف سمیت گھر بھیجتی تھی۔لیکن اب منزہ نے یہ گنجائش کب چھوڑی تھی؟اب تو وہ مستقل طور پر اس کے گھر رہنے لگی تھی۔تو پھر اس کو تحفے دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔
” اور جو انسان آپ کے گھر آکر آپ کے سر پہ ایک بوجھ کی طرح سوار ہو جائے تو پھر آپ خاک اس کو اہمیت دے پائیں گے؟ وہ ناگواری سے سوچتی ” اور خالہ نے کیا اس لیے مرنا تھا کہ ان کی بیٹی آکر ہمارے گھر رہنے لگے اور ہماری پر سکون زندگیوں کو خراب کرے؟