پچھلے پہر کا سناٹا تھا
تارا تارا جاگ رہا تھا
پتھر کی دیوار سے لگ کر
آئینہ تجھے دیکھ رہا تھا
بالوں میں تھی رات کی رانی
ماتھے پر دن کا راجا تھا
اک رُخسار پہ زلف گری تھی
اک رُخسار پہ چاند کھلا تھا
ٹھوڑی کے جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
اِک پاؤں میں پھول سی جوتی
اِک پاؤں سارا ننگا تھا
تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا
تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہا تھا
کالے پتھر کی سیڑھی پر
نرگس کا اک پھول کھلا تھا
٭٭٭