تجھ بن گھر کتنا سونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا
بھولی نہیں وہ شامِ جدائی
میں اُس روز بہت رویا تھا
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہا تھا
میری آنکھیں بھی روتی تھیں
شام کا تارا بھی روتا تھا
گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں
چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا
سناٹے میں جیسے کوئی
دُور سے آوازیں دیتا تھا
یادوں کی سیڑھی سے ناصر
رات اک سایا سا اُترا تھا
٭٭٭