وہ کئی کئی گھنٹے یوں ہی خود سے باتیں کرتی رہتی …… بے مقصد باتیں ……
مگر ادیوا کا یقین پختہ سے پختہ ہوتا چلا گیا کہ صفان علی ابھی بھی اُسی کا ہے، اُن کا رشتہ نہیں ٹوٹا اور اس میں قصور جتنا صفان علی کا تھا اتنا ہی ادیوا کا اور سب سے بڑی وجہ ایمان کی کمزوری تھی۔ جب اللہ کے فیصلوں کو ہم اپنے فیصلوں سے بدلتے ہیں نا! تو نہ دنیا کے قابل رہتے ہیں اور نہ آخرت کے…… پھر انسان ایسے ہی بھٹکتا ہے سرابوں کے پیچھے……اس کی روح ایسے ہی پل صراط پر لٹکی ہوتی ہے۔
اُن کے اس رابطے کو پورے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور ادیوا کے گھر والے اس بات سے بالکل لاعلم تھے۔ ادیوا اب سب میں گھل مل کر رہتی، مگر ضرورت سے زیادہ بدل چکی تھی۔ اب اس کی ہنسی سے گھر نہیں گونجتا تھا۔ اب وہ اشعر اور حادی سے اپنی ضدیں نہیں منواتی تھی۔ اب وہ عمر حیات اور مسز عمر سے فرمائشیں نہیں کرتی تھی۔ انسان میں بدلاؤ تو آ ہی جاتا ہے اور وہ بھی خاص کر اُس طوفان کے بعد جو آپ کو بے سرو سامان کر جائے۔ جب صرف سر کے اوپر آسمان رہ جائے اور پاؤں کے نیچے زمین اور زمین بھی وہ جو کسی بھی وقت آپ کو کھڑے ہونے کے حق سے بھی بے دخل کر دے۔ ادیوا اب ایک مسلسل خوف کا شکار تھی، کیوں کہ جس طرح مسز عمر اُس سے آئے دن شادی کا تذکرہ کرتی، ممکن ہے صفان علی بھی ایسی ہی حالت سے گزر رہا ہو۔
کچھ دن بعد ادیوا نے صفان سے ایک انوکھی بات کر دی۔
”صفان! مجھے یقین ہے ہماری طلاق نہیں ہوئی۔ میں تمھاری زندگی میں ہوں اب بھی بالکل ویسے ہی۔“
صفان سوچ میں پڑ گیا اور پھر ایک دم سے ادیوا کو حلالہ کرنے کا کہا۔
”حلالہ ……؟ صفان! مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے…… یہ کیا ہے؟ کیا کرنا ہو گا؟“
”ادیوا! میں تمھیں شام میں کال کر کے سمجھاؤں گا کسی مفتی سے پوچھ کر۔“
ادیوا کو جیسے تسلی سی ہوئی اور وہ بے چینی سے شام کا انتظار کرنے لگی۔
اور پھر صفان علی کا فون آ گیا۔
”ادیوا! وہ میں نے پتہ کیا ہے۔۔۔ لیکن اس کے لیے تمھیں شادی کرنا پڑے گی کسی اور سے اور پھر تم سے شادی میرے لیے جائز ہو سکتی ہے۔“
ادیوا چپ چاپ اُس کی بات سنتی رہی۔
”ادیوا! وہ شادی چالیس دن تک رہنی چاہیے اور تمھارا اُس انسان سے بالکل ویسا ہی رشتہ ہو، جو شرعی لحاظ سے اُس کے تم پر حقوق ہیں۔“
”صفان……! اور جب میں اس کرب سے گزر کر تم تک پہنچوں گی، تو کیا تم مجھے قبول کر لو گے؟؟“
وہ ایک دم سے بغیر کچھ سوچے بولا۔
”ہاں کیوں نہیں …… ادیوا……!“
ادیوا اُس انسان سے یہی جواب expect کرتی تھی۔ اتنی ہی تھی اُس کی اوقات، اُس نے تو گِرنے کی ساری حدیں پار کر دی تھیں۔ ایک بار پھر ادیوا کے لیے ایسا زہر تیار کر کے لایا تھا کہ وہ پینے سے پہلے ہی ایک پَل میں کئی سو بار مر جائے۔
”صفان! تم سمجھتے ہو میری محبت کی حد اس حد تک ہے کہ میں اپنی انا، عزت، نفس، تمھارے ہاتھوں لٹوانے کے بعد اب اپنی عزت کی اپنے وجود کی بھی دھجیاں اُڑوا لوں اور وہ بھی کسی غیر مرد کے ہاتھوں؟ اتنا نہیں گری تمھاری محبت میں کہ خوشی سے اپنا آپ کسی کو سونپ کر اس عذاب سے گزر کر تم تک پہنچوں۔اُس انسان تک جس نے مجھے اپنے گھر سے بے دخل کر دیا۔ میرا سامان اُٹھوا کے ایسے بھجوا دیا جیسے کوئی وصولی ہونے پر گروی رکھی چیزیں لٹاتا ہے۔ تمھیں یاد ہے اُس سامان میں میری تصویروں کا بھی بیگ تھا اور اس بیگ کے اندر میری تصویروں کے اتنے ٹکڑے تھے کہ جتنے ٹکڑے تم نے میری ذات کے…… میرے وجود کے کیے ہوں گے…… نہیں صفان! اس بار میں اس دلدل کو عبور نہیں کر پاؤں گی۔ اگر میں نے ایک بھی قدم رکھا، تو اندر دھنس جاؤں گی …… پھر چاہے تم اگلے کنارے پرکھڑے میرے منتظر ہی کیوں نہ ہو؟“
صفان اُس کا جواب سُن کر خاموش ہو گیا۔
”تمھیں معافی چاہیے تھی نا…… میں نے تمھیں معاف کیا…… اب میں تم سے رابطہ نہیں رکھ سکتی۔“
اُس کے گناہوں کے کفارے ادیوا بھرنے کو تیار نہ تھی۔ لہٰذا اُس کے بعد اُس نے صفان علی سے رابطہ بالکل ختم کر دیا تھا۔ وہ خود بھی کوئی رابطہ نہ کرتا۔
رابطے ختم ہو جائیں، رشتے ٹوٹ جائیں تو بھی محبتوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جس طرح یادیں حافظہ پر قابض رہتی ہیں اُسی طرح محبت بھی دل سے دستبردار نہیں ہوتی۔
ادیوا دن گزارتی رہی۔ کبھی بہت دل گھبراتا تھا تو ماہا کو بلا لیتی اور اُس کے گلے لگ کرجی بھر کر روتی۔ ظاہری بات ہے اندر کا بوجھ وقت پر باہر نہ نکلے، تو انسان دب کر مر جاتا ہے، اسی لیے وہ اپنی باتیں ماہا سے شیئر کرتی تھی۔ اللہ کے بعد وہ تھی، جو اُس کے ہر دن کے آنسو، ہر دن کی اذیت کی گواہ تھی۔
اس بات کو ہوئے چھ ماہ ہوئے تھے کہ ادیوا ہر چیز سے گھٹن محسوس کرنے لگی۔ نہ گھر میں دل لگتا نہ باہر جانے کو جی چاہتا۔ ایک خالی پن تھا، جو اس کی روح میں دَر آیا تھا اب وہ صفان علی کے ظلم سے زیادہ اُس کی محبت کو یاد کرنے لگی۔ پھر سے وہی کیفیت ہوتی گئی، اس کا دل چاہا کہ وہ رابطہ کرے اس سے، مگر اس کی کہی ہوئی وہ آخری بات ذہن سے جاتی تو ہی وہ کچھ اور کہہ پاتی۔
کبھی کبھی ہم خود اپنے لیے اذیتوں کا سامان کرتے ہیں۔ جان بوجھ کر دوسرے انسان کو اتنا موقع دیتے ہیں کہ وہ کھلونے کی طرح ہمارے جذبات سے کھیلتا ہی رہے۔ جب انسان نے تکلیف کی آخری حد دیکھ لی ہو، تو پھر اورکسی چیز کا خوف اُس کے دل میں نہیں رہتا۔ وہ ہر خطرے میں بے خو ف و خطر کود پڑتا ہے جیسے وہ کسی موت کے کنویں کا مداری ہو۔ ادیوا بھی اب موت کے کنویں کی وہی کرتب باز تھی۔ اب کوئی درد کوئی تکلیف بھی آ جائے، اُس کو متاثر نہیں کر سکتی۔
ادیوا مسز عمر کے کمرے میں آئی۔
”ماما! مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔“
”ہاں بیٹا! بولو۔“
ادیوا اس طرح کبھی نہیں آئی تھی، اس لیے اُنہیں ذرا تشویش ہوئی۔
”ماما! آپ مجھے ذکیہ پھوپھو کے پاس امریکا جانے کی اجازت دے دیں۔ میں کچھ عرصے کے لیے یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں۔ میرا دم گھٹتا ہے اس ہوا میں سانس لینے سے۔“
”کیوں کہ ان ہی ہواؤں میں وہ بھی سانس لیتا ہے۔“
دھیرے سے دل میں خود سے کہہ کر ادیوا اب اپنے جواب کی منتظر تھی۔
مسز عمر کواُس کے جانے سے اعتراض نہیں تھا۔ مگر اس حالت میں جانے سے اُن کا دل بہت خوفزدہ تھا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ کوئی بیس رشتے ٹھکرا چکی تھی، کیوں کہ یہ حقیقت ہے انسان وہی جگہ کسی دوسرے کو دیتا ہے، جو پہلے سے خالی ہو…… جہاں یادوں کے، کدورتوں کے آسیب بستے ہوں، وہاں سے لوگ ڈرتے ہیں، وہاں بس نہیں سکتے اور ادیوا کا دل بھی وہشت زدہ تھا۔
”ادیوا! میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ اگر تم نے جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے نا! تو ایک بات یاد رکھنا…… تم سات سمندر پار تو کیا کسی غیر دریافت شدہ جزیرے پر بھی چلی جاؤ نا! تو بھی جو ویرانیاں تم اپنے اندر اُتار چکی ہو، وہ تمھیں ایسے ہی بے چین رکھیں گی بہتر ہے کہ کہیں بھی جانے سے پہلے تم اپنی روح سے سارے بوجھ اُتار کر جاؤ……“
جن ویرانیوں کو آپ رُوح کا بوجھ کہہ رہی ہیں نا ماما! وہ میرے لیے میری آخری پناہ گاہ کی طرح ہیں۔ مجھے دنیا میں آپ کسی بھی نئے رشتے کا پابند کر دیں، مجھے چاہے آپ کسی راجا کی سلطنت کی رانی بنا دیں، میری میت کو بھی تاج محل جیسا مقبرہ بھی نصیب ہو جائے نا ماما……! تو بھی میری روح تب تک بھٹکتی رہے گی جب تک مجھے انہی ویرانیوں میں سپردِ خاک نہ کیا گیا۔ یہی میرا آبائی قبرستان ہیں۔“
کاش کہ ادیوا یہ سب ماں سے کہہ بھی سکتی…… وہ تو بس اُن کی باتوں کے جواب میں بس یہ کہہ پائی۔
”جی …… ماما!“
عمر حیات کی پوری فیملی کے پاس امریکا کے پانچ سال کے ویزے لگے ہوئے تھے، اس لیے ادیوا کو ویزے کے لیے اپلائی نہیں کرنا پڑا۔
ادیوا کی صبح ۳ بجے کی فلائیٹ تھی۔ وہ رات ۲۱ بجے ایئرپورٹ پر پہنچ چکی تھی کیوں کہ ماہا اُس سے وہیں ملنے آ رہی تھی سب سے مِل کراور خوب تسلیاں دے کر ادیوا اندر لاؤنج میں آ چکی تھی۔
اب جیسے جیسے اس کے جانے کا ٹائم قریب آ رہا تھا اس کا دل پھر سے اپنی پرانی پناہ گاہوں کے لیے تڑپنے لگا۔ اُسے صفان علی سے دُور جانے کے خیال نے اس حد تک کمزور کر دیا کہ اُس نے پھر اُس کو فون کر دیا۔ ادیوا کا نمبر سکرین پر دیکھتے ہی وہ فون چھت پر لے آیا اور ادیوا کی آواز اس وقت سن کر وہ بھی کچھ پریشان سا ہو گیا۔
”سب ٹھیک ہے نا……“
پتا نہیں کبھی وہ شخص اتنی پرواہ کرتا کہ لگتا بس دنیا میں ایک وہی ہے جو ادیوا کا مخلص ہے اور کبھی سفاک ظالم……
”صفان! میں جا رہی ہوں یہاں سے۔“ ادیوا بھری سی آواز میں بولی۔
”ادیوا! ضروری نہیں کہ ہمارا وہ رشتہ نہیں بن سکا، تو ہم کوئی واسطہ نہ رکھیں، دیکھو ……!ہم دوست بن کر بھی تو رہ سکتے ہیں نا!“
کسی کمزور اور ناکام مرد کا آخری جملہ شاید یہی ہوتا ہے۔ ورنہ وہ مرد ہی کیا جو مجبوریوں میں آ کر کسی بے بس عورت کے گلے میں طلاق کا طوق پہنائے اور پھر اس کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ دیکھنے کے قابل نہ چھوڑے۔
مجبور تو بس محبت ہوتی ہے اور وہ بھی ادیوا کی محبت جو بار بار ادیوا کو اسی کے آگے کشکول دے کے بھیجتی ہے جو خود قابلِ ترس ہے۔ جس کے پاس دینے کو محرومیوں اور سزاؤں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔
آج کیلیفورنیا میں ادیوا کو پانچواں دن تھا۔ ذکیہ پھوپھو کے دو بیٹے تھے جو نیویارک settled تھے ان کی شادیاں ان کی مرضی سے ہوئی تھیں اور جاب کی وجہ سے وہ کیلیفورنیا بھی کم ہی آ پاتے۔
ادیوا اگر گھر بیٹھتی، تو شاید اُن ہی سوچوں کے ہاتھوں ویسے ہی اذیت کا شکار رہتی، اس لیے اُس نے زبیر انکل کے ویئر ہاؤس میں کام شروع کر دیا۔ وہ اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ ہینڈل کرتی۔ ادیوا کی اکاوئنٹینگ Grip قدرے Strong تھی کیوں کہ اس کی specialization اسی میں تھی۔
کچھ ہی دن میں وہ آفس کا سارا کام سمجھ گئی۔ وہیں آفس میں accountant وقار، ادیوا سے بہت متاثر ہوا۔ پہلے دن سے ہی وہ جس انداز سے کام کرتی کبھی ادھر ادھر ر دھیان نہ جاتا، اُسے کون دیکھ رہا ہے، کون کیا بات کرتا ہے، کیا سوچتا ہے۔ اس کے بارے میں وہ ہر چیز سے بے خبر ہوتی، اگر کوئی چہرا تھا، تو وہ صفان علی کا …… اُسے یوں لگتا کہ جیسے وہ جہاں سے گزرے گی وہ بس کہیں نہ کہیں سے اُسے دیکھ رہا ہوگا۔ اتنی شدت سے اُس کی موجودگی محسوس کرتی کہ دل چاہتا بس وہ سامنے آ جائے…… وہ جہاں کہیں ہے بس آ جائے۔
ادیوا اور صفان کے بیچ ایک بار پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے۔ ادیوا کے دن کی پوری ڈیٹیل صفان علی کو پتہ ہوتی…… ادیوا کو کچھ خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ آس پاس بھی کوئی دنیا بستی ہے۔ وہ کام ختم کر کے ایک پارک میں جا کر بیٹھی رہتی۔ اُسے سوچتی، اُسی کو اپنے اردگرد کے ہر منظر میں ڈھونڈتی اور پا بھی لیتی…… وقار اُسے نا چاہتے ہوئے اوبزرو کرتا رہتا۔کچھ تو الگ تھا ادیوا میں، جو وہ اُس کی شخصیت کی طرف کھینچا چلا آتا تھا۔
ضروری تو نہیں ہے کہ خوشیوں کے نور سے ہی چہرے روشن ہوں کبھی کبھی کچھ دکھ بھی آپ کو اتنا سنوار نکھار دیتے ہیں کہ آپ کا چہرہ لوگوں کی بھیڑ میں چودھویں کے چاند کی طرح چمکنے لگتا ہے۔ آپ کی ذات الگ ہی دِکھائی دیتی ہے۔
یہ تو بات حقیقت ہے کہ جب کسی بے گناہ بے قصور کو سزا دی جاتی ہے، تو اس میں اللہ کی طرف سے اتنی روشنی بھر دی جاتی ہے کہ وہ اس تاریک دنیا میں چاند ستارے کی طرح ہی چمکتا ہے۔
جانے کتنے ہی لوگ ادیوا کی شخصیت سے متاثر تھے۔ مگر وہ صفان علی جیسے سراب کے پیچھے بھٹک رہی تھی۔ بے منزل راستوں پر چلنااُسی طرح اذیت دیتا ہے جس طرح آپ کو پتا ہو کہ اگلا سانس آپ کا آخری سانس ہے، پر پھر بھی لاکھ کوشش کے باوجود آپ وہ سانس لینے سے خود کو روک نہیں پاتے۔ صفان علی بھی ادیوا کے لیے وہی آخری سانس کی طرح تھا، جسے اگر وہ روکتی، تو بھی موت یقینی تھی اور اگر لیتی تو بھی۔
آج اُس کا دل بہت اُداس تھا۔ وہ صفان علی سے بات کرتے جانے کتنی بار روئی تھی۔ وہ اس کو نہ اپنی زندگی میں شامل کر سکتا تھا اور نہ اس کی زندگی سے جا سکتا تھا۔ عجیب امتحان تھا دونوں پر۔
”ادیوا! میں وعدہ کرتا ہوں کہ جنت میں اللہ سے تمھارا ساتھ ہی مانگوں گا۔ وہاں تم میرے ساتھ رہو گی۔“
ادیوا دل ہی دل میں تڑپ کر رہ گئی۔
”تم تو میرا اس دنیا میں ساتھ نہیں دے پائے صفان……! وہاں کیا دو گے اور تم نے سوچ کیسے لیا کہ تم مجھے اللہ سے مانگو گے اور وہ مجھے پھر سے تمھارے ہاتھوں ٹوٹنے کے لیے تمھیں ہی سونپ دے گا؟انسان ناانصافیاں کرتے ہیں، اللہ نہیں کرتا……“
ادیوا کو اِسی طرح چھ ماہ گزر گئے۔ وہ گھر سے جاب اور اس کے بعد کچھ دیر پارک میں صفان سے بات کر کے واپس گھر…… بس یہی تھیں اُس کی مصروفیات۔
مسز عمر نے ادیوا سے فون پر بات کرتے ہوئے اس کی خیریت دریافت کرنے کے بعد پھر سے شادی کے موضوع پر بات کی، تو ادیوا نے ضروری کام کا بہانہ کر کے فون بند کر دیا۔ کیا کرتی وہ اُس کی حالت کوئی بھی سمجھ نہ پاتا شاید۔ اگر وہ کسی کو بتاتی بھی تو۔
ایک دن وہ پارک میں بیٹھی تھی کہ وقار آ کر اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اُس سے بیٹھنے کی اجازت لینے لگا۔ ادیوا نے کہا۔
”کیوں نہیں …… بیٹھیے!“
اور خود اُٹھ کر چل پڑی۔
وہ پیچھے بھاگا۔
”ادیوا! پلیز …… میری بات تو سن لیں۔“
وقار صاحب! اگر آفس کے علاوہ کوئی بات ہے، تو وہ میں نہیں سنتی اور اگر آفس سے متعلق کچھ کام ہے، تو اس پر کل آفس میں ہی بات کریں گے۔“
”ادیوا! پتا نہیں کیو ں مجھے آپ کی شخصیت میں ایک عجیب سی کشش، کوئی گہرائی سی محسوس ہوتی ہے۔ میں جتنا آپ سے بچنے کی کی کوشش کرتا ہوں، اتنا ہی دماغ آپ کے بارے میں سوچتا ہے۔“
”وقار صاحب! میں آپ کی عزت کرتی ہوں۔ مہربانی ہوگی، اسے قائم رہنے دیں اور ویسے بھی میں یہاں اپنے شوہر کی کال کا انتظار کر رہی تھی……“
ادیواخود کو اسی انسان کے سائے تلے محفوظ کر لیتی، جو اسے زندگی کی تپتی دھوپ میں جل جانے کو چھوڑ گیا، جب بھی اسے کوئی غیر سائے اپنی طرف جھکتے محسوس ہو تے، وہ خود کو صفان علی کے سراب میں محفوظ سمجھنے لگتی…… بھلا سراب بھی کبھی محافظ ہوتے ہیں …… وہ تو بس بھٹکاتے ہیں۔
اس کے بعد وقار نے ایک بھی اور بات نہ کی اور یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا……
”میں معذرت خواہ ہوں۔“
ادیوا اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہی کہ اچانک اُسے خیال آیا کہ صفان کو کال کرنے کا ٹائم ہو چکا ہے۔ اس نے پاکستان فون ملایا، تو صفان نے کہا۔
”میں مصروف ہوں …… بعد میں بات کروں گا۔“
عجیب سی اُکتاہٹ تھی اُس کے لہجے میں، ادیوا سمجھ نہ پائی۔ خیر گھر آ گئی۔ کچھ دیر ذکیہ پھوپھواور زبیر انکل کے ساتھ وقت گزار کر وہ بالکونی میں چلی گئی اور صفان کو فون کیا۔
کافی دیر بیل جانے کے بعد اُس نے فون اٹھایا اور بہت ناگواری سے بولا۔
”تمھارا مسئلہ کیا ہے ادیوا! تم کیوں مجھے سکون سے رہنے نہیں دیتیں۔ نہ جینے دیتی ہو…… میری سعدیہ سے منگنی تھی آج اور وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے …… وہ بھی تمھارے آگے ہاتھ جوڑنے کو تیار ہے کہ ہماری زندگی سے نکل جاؤ پلیز! اور جو تم نے محبت محبت کی رٹ لگائی ہے نا! تو سُن لو کہ محبت تو اُسی دن ختم ہو گئی تھی میرے دل سے تمھارے لیے جس دن تم نے میری ماں سے بد تمیزی کی تھی اور اپنی رگیں کاٹیں۔ میں تو تمھاری خوشی کے لیے تم سے بات کرتا رہا…… لیکن اب مزید نہیں …… میری نئی زندگی شروع ہو رہی ہے اور چھایا آنٹی امی کی بہنوں کی طرح ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ سعدیہ کو کوئی بھی دُکھ ہو کبھی…… یہ میرا ظرف تھا کہ میں تم سے اتنے سال بات کرتا رہا……“
ادیوا کو ایک پل کے لیے لگا کہ وہ محض اک سراب نہیں تھا وہ اُس سے بھی بڑا گورکھ دھندا تھا۔ وہ ایک ایسی بھول بھلیاں میں تھی کہ جس کا ہر راستہ بند تھااور اس کا ہر چور راستہ اندھے کنویں کی طرح تاریک تھا…… وہ اندر بھٹکے گئی، روئے گئی مگر وہ گورکھ دھندا اسے مزید اُلجھائے گیا، اُسے صحیح راستے پر آنے دے گا اور نہ صحیح راستے کا سراغ بتائے گا۔
”صفان علی! تو میرا یہ قصور بھی ہے کہ میں تمھاری ماں کے خاندان میں سے نہیں ہوں، کیوں کہ مجھے دکھ دیتے ہوئے تمھارے گھر کے کسی ایک بھی انسان کو فرق نہیں پڑا…… آج تمھیں سعدیہ کی فکر ہو گئی اللہ غارت کے ایسی لڑکیوں کو جو اپنے گھر بسانے کے لیے دوسرے کے گھروں کے ٹوٹنے کی منتظر ہوتی ہیں …… اُن نئے گھروں کی تہوں میں پرانے ٹوٹے گھروں کا ملبہ بھی ہوتا ہے …… اپنی نئی بیوی کو یہ بات ضرور بتا دینا کہ اُس کے نئے گھر کی تہہ سے، ملبے تلے دبے مکینوں کی سسکیاں اور آہیں سنائی دیں نا! تو بھی گھر چھوڑ کر نہ جائے…… یہاں قبضہ کرنے والے تاک میں ہوتے ہیں۔اور کیا کہا تم نے صفان علی……! تمھارا ظرف تھا…… واہ …… تمھارا ظرف ہی تو دیکھ رہی ہوں میں اب تک…… یہ تمھارا ظرف ہی ہے کہ میری زندگی پل صراط سے گزر رہی ہے …… میں آبلہ پا ہوتے ہوئے بھی کہیں ٹھہر نہیں سکتی…… شل کر دیا ہے تم نے میری آوازوں کو…… میری صدائیں بھی گونگی ہو گئی ہیں ……تم ظرف کی بات کرتے ہو؟…… تو مجھے دیکھو زندگی کے دشت میں تنہا سفر کیا ہے۔ تھک کے ٹوٹی بھی تو اجنبی ہاتھ نہیں تھامے میں نے……تمھارے جتنا ظرف میرا ہوتا، تو میرے اردگرد بھی بہاریں ہوتیں …… کہیں میلے، تو کہیں شہنائیاں سنائی دیتیں۔ یہ جو میری زندگی کی بے رونقی ہے …… یہ تمھارے ظرف کے ہی کمالات ہیں۔تم نے تو میرے ساتھ وہی سلوک کیا صفان علی! جو لوگ لاوارثوں کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن تم شاید جانتے نہیں کہ میرا وارث ہے۔ اللہ ہے میرا وارث اور اب میرا وارث ہی تم سے میرے ساتھ کیے گئے سلوک کا حساب لے گا، اب تم سے میرے ما لک کے کٹہرے میں ہی بات ہو گی، اسی دن ہو گا انصاف …… صفان علی! آج تم آخری بار بات کر رہے ہو ادیوا عمر سے…… آج کی تاریخ کہیں لکھ لو اور یاد رکھنا……احساسِ ندامت اور احساسِ گناہ دونوں کا بوجھ ہی روح پر بھاری ہوتا ہے…… اگر احساسِ گناہ کا ادراک ہو جائے، تو ندامت کا احساس اپنے آپ ہونے لگتا ہے۔ انسان وہ سب بھی سننے لگتا ہے، جو اُس کے ضمیر نے اُس سے کہا بھی نہیں ہوتا…… “
وہ روتی ہوئی بس بولتی چلی گئی……