وہ اب واقعی اپنے حواس کھو رہی تھی۔
اتنے میں مسز عمر تیزی سے باہر آئیں۔ پیچھے ہی عمر حیات اور حادی باہر آ گئے۔مسز عمر نے سامان سٹور روم میں رکھنے کی ہدایت کی اور وہ لوگ ادیوا کو اندر کمرے میں لے آئے۔
”بابا! پلیز …… فون کریں صفان کو …… اسے پتا بھی نہیں ہو گا کہ یہ ہمارے کمرے کا سامان اس طرح…… حادی! پلیز …… تم کال کرو۔ کوئی توفون کرو اس کو۔“
سب سر جھکائے کھڑے تھے اور مسز عمر بار بار اسے گلے لگا کر دلاسے دے رہی تھیں۔
”ماما ……! پلیز…… آپ پوچھیں ناں۔“
”اوکے! کوئی مت کرے …… میں خود صفان کو فون کرتی ہوں۔“
اور وہ اپنے کمرے سے فون اٹھانے کے لیے بھاگی کہ اچانک اس کا ہاتھ حادی نے پکڑ لیا۔
”نہیں ادیوا! اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔“
وہ بہن کو گلے لگاتا رہا اور آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
”کیا مطلب…… کیا مطلب حادی! ضرورت نہیں ہے۔ یہ سامان آنٹی نے بھیجا ہو گا۔ مجھے پتا ہے کہ صفان کو تو پتا بھی نہیں ہو گا میں اس کو بتا کر آتی ہوں۔“
”ادیوا! پلیز …… سمجھنے کی کوشش کرو۔ حقیقت کو تسلیم جتنی جلدی کرلیا جائے، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔“
”پاپا! کون سی حقیقت؟ آپ لوگ کیا بات کر رہے ہیں۔ کیا ہوا ہے؟“
”ماما! پلیز …… آپ مجھے بتائیں کیا ہے یہ سب؟“
ہزار طرح کے وہم اس کے دل میں آنے لگے۔کبھی وہ ایک وسوسے تو کبھی دوسرے سے ڈرتی۔
”ادیوا! صفان تمھیں طلاق بھجوا چکا ہے۔“
اسے لگا اس پر آسمان گر پڑا ہے اور وہ زمین میں کئی سو فٹ دھنس گئی ہے۔
”واٹ …… ماما! پلیز …… کہہ دیں …… پلیز! کہہ دیں آپ کہ یہ جھوٹ ہے …… آپ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ اپنے حق کا استعمال اتنا غلط نہیں کر سکتا۔ماما! وہ اپنی مرضی سے اپنے فیصلے سے مجھے خود سے الگ نہیں کر سکتا…… میری ایک غلطی …… ماما! بس ایک غلطی پہ میری پوری زندگی جہنم نہیں بنا سکتا …… وہ ……“
وہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور لاک کر لیا۔
پاگلوں کی طرح چیزیں اِدھر اُدھر پھینک کر موبائل ڈھونڈھنے لگی۔باہر سب زور زور سے دروازہ بجانے لگے۔
ادیوا …… ادیوا! خدا کا واسطہ …… دروازہ کھولو بیٹا!“
پتا نہیں کون کون کیا کیا کہہ رہا تھا۔
ادیوا نے کانپتے ہاتھوں سے صفان کا نمبر ملایا اور اس کے فون اٹھاتے ہی ادیوا بولتی چلی گی۔
”صفان! میرا قصور بتاؤ؟؟کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا؟ جب یہ رشتہ ہم دونوں کی مرضی سے جڑا تھا تو ختم صرف تمھارے دستخط سے کیسے ہو سکتا ہے؟ بتاؤ نا! میرا ایک بھی قصور بتاؤ؟“
اگر رونے سے کوئی مرتا تو آج ادیوا کا آخری دن ہوتا، وہ چیخ چیخ کر روئی۔
”بولو صفان علی! بولو کس چیز کی سزا دی ہے…… محبت کرنے کی؟ تمھارے ہر فیصلے کے آگے سر جھکانے کی؟ کتنا مان تھا مجھے تم پر…… امیدیں تو اسی دن توڑ دی تھیں جب تم نے میر ی میرے قصور کے بغیر اپنے گھر والوں کی خوشی کے لیے تذلیل کی تھی۔ جب تم مجھے گالیاں دیتے ہوئے چھت سے گھسیٹ کر کمرے میں پھینک رہے تھے۔ روح تو میری اسی دن کھینچ لی تھی تم نے میرے وجود سے …… مر تو میں اسی دن گئی تھی۔ دیکھو! میرا ظرف کہ پھر بھی تم سے محبت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ تمھیں محسوس نہیں ہونے دیا کبھی…… اور تم میری ذرا سی غلطی کے بدلے مجھے اپنی زندگی سے اٹھا کر باہر پھینک گئے۔واہ صفان علی! واہ ……کس بات کا ڈر تھا تمھیں …… مرد تو بہادر ہوتے ہیں …… تم کیوں اتنے بزدل نکلے……؟کیا محبت نبھائی ہے؟ اس سے تو بہتر تھا تم میرے خیالوں میں ہی رہتے، میں وہیں تمھیں پوج لیتی۔تمھاری حقیقت اتنی بھیانک ہو گی، میں نہیں جانتی تھی۔“
وہ روتی چلی گئی……
”صفان! بہادر…… یہ بہادری تھی تمھاری کہ ایک بے بس لڑکی کی زندگی اس کی مرضی کے بغیر اس طرح اجاڑ دی تم نے۔ تمھارے لیے یہ لفظ بہت چھوٹا ہو گا، مگر یہی لفظ اگر تمھاری بہن کو اس کا شوہر سنائے، تو تمھیں تب احساس ہو گا …… تب ڈرو گے تم اللہ سے۔ تب تکلیف ہوگی تمھیں۔“
وہ چیخ چیخ کر روتی گئی اور بولتی گئی۔
”میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی بھی نہیں …… تم ہوتے کون ہو میری غلطی پر مجھے سزا سنانے والے؟جو بھی اذیت دی تھی میں نے …… خود کو دی تھی۔۔ تمھارے سلوک کا بدلہ بھی اپنی ذات سے لیا تھا…… کس لیے برا لگا تمھیں؟“
اتنے میں حادی نے زور دار دھکے سے دروازہ کھولا اور ادیوا دھاڑیں مار مار کر روتی رہی۔ اپنے کمرے کی چیزیں شیلفس سے پھینکتی رہی۔
”ماما! پوچھیں اس انسان سے …… کیوں کیا اس نے میرے ساتھ ایسا۔“
سب اسے پکڑتے۔ دلاسے دیتے اور وہ بگڑتی چلی گئی۔
”ماما! میں اس کے پاؤں پکڑ لیتی۔ ماما! میں اس کی ماں کو اللہ کا واسطہ دیتی، تو وہ مان جاتی ناں! ماما! میں ان سب لوگوں کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لیتی۔ وہ مجھے کبھی نہ چھوڑتا …… وہ مجھے ایک بار کہتا تو سہی …… ماما! وہ مجھے کبھی نہ چھوڑتا۔اللہ نے سارا اختیار مرد کو کیوں دے دیا …… ماما! میری مرضی کے بغیر …… مجھ سے پوچھے بغیر …… مجھے پتا بھی نہیں کہ میں اس کی زندگی سے نکل بھی گئی۔یہ کیسا رشتہ ہے ماما! آپ تو کہتی تھیں کہ میاں بیوی کا رشتہ بہت مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔یہ تو ریت کا محل نکلا ماما! صفان علی نے اپنے کھیلنے کے لیے بنایا اور دل بھر گیا، تو توڑ کر چلا گیا۔ماما! وہ میرا گھر توڑ کر چلا گیا…… ماما! وہ چلا گیا۔“
ادیوا بات کرتے کرتے بے ہوش ہو کر گر گئی۔
”ہوش کر میری بچی۔“ مسز عمر روتے ہوئے چلائی۔
”عمر …… عمر! دیکھیں میری بچی کو کیا ہو گیا ہے۔“
عمر حیات پہلے ہی دروازے سے لگے بیٹھے تھے۔
”حادی! ڈاکٹر کو بلاؤ جلدی……“
”ماما! اگر ادیوا کو کچھ ہوا، تو میں اس بے غیرت انسان کو اپنے ہاتھ سے گولی مار کے آؤں گا۔“ حادی آنسو پونچھتے ہوئے غصے سے بولتا ہوا باہر چلا گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر نے ادیوا کو نیند کے انجکشن دے دیے۔
”nervous break down ہونے کی وجہ سے اسے مکمل نیند کی ضرورت ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کی جائے۔جو اسے پریشان کرے۔“
ڈاکٹر ہدایت کر کے چلا گیا۔ کچھ دن تک ادیوا ۵۱ سے ۸۱ گھنٹے سوتی رہی۔ جس ٹائم ہوش میں آتی۔۔ خاموشی سے چھت کو گھورتی رہی۔ نہ کوئی الفاظ تھے اور نہ کوئی ایسے دکھ تھے، جو بیان ہوتے تو گھٹ جاتے یا بٹ جاتے۔
سارے کشکول خالی کے خالی رہ گئے۔ نہ ہمدردی کے سِکّے ملے نہ ترس کی امداد ہوئی۔ ظلم بے شمار تھا جو وافر مقدار میں جھولی میں ڈال دیا گیا تھا اور وہ باقی کی زندگی گزارنے کے لیے بہت تھا۔
ادیوا صفان پھر سے ادیوا عمر ہو چکی تھی۔ اس خود غرض انسان نے نام بھی دے کر چھین لیا تھا۔
لڑکیاں بھی کتنی پاگل ہوتی ہیں ناں! کاغذ پر جڑے رشتے کی بنیاد پر باپ کا نام ہی اپنے نام سے الگ کر دیتی ہیں۔ گھر چھوڑ جاتی ہیں، وہ گھر جس میں پلتی بڑھتی ہیں اور باپ کی شفقت، تو دیکھیں کہ بیٹی کے ناکام لوٹ آنے پر گھر کے دروازے بند نہیں کرتا…… کوئی طعنہ …… کوئی طنز کیے بغیرپھر سے اپنا نام اس کے نام کے ساتھ جوڑ دیتاہے۔
اس بات کو پندرہ دن گزر چکے تھے۔ایک دن مسز عمر ادیوا کے کمرے میں آئی۔ وہ ویسے ہی بے سدھ لیٹی ہوئی دیواروں کو گھور رہی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ سوچ کہیں اورہے۔
”ادیوا …… بیٹا! وہ میں سوچ رہی تھی کہ ہم کچھ عرصہ کے لیے کراچی چلتے ہیں …… تمھارے فیصل ماموں کے پاس۔ کیا خیال ہے تمھارا؟“
”ماما! کیا میں وہ پیپرز دیکھ سکتی ہوں، جو صفان علی نے بھیجے تھے۔“ اس نے کانپتی آواز میں پوچھا۔
مسز عمر کا دل مٹھی میں آگیا۔ ایک دم سے اور وہ اٹھ کے چلی گئیں۔
”ادیوا! یہ ہیں وہ پیپرز۔“ اُنھوں نے ایک لفافہ ادیوا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی ایک پلاسٹک بیگ تھما دیا۔ جس میں ادیوا کی تصویروں کے بے شمار ٹکڑے موجود تھے۔ ادیوا انھیں دیکھتی گئی اور اذیت کے گھونٹ بھرتی گئی۔
پھر ادیوا نے لفافہ کھولا اور پہلی نظر صفان علی کے دستخط پر پڑی…… کس شان سے اُس نے اپنے signature کیے ہوئے تھے……
”واہ …… صفان علی……!!!!!“
ادیوا نے پھر طلاق کی وجہ پڑھنا شروع کی، جیسے جیسے پڑھتی گئی،اسے اپنا وجود کسی گہری کھائی میں گرتا محسوس ہوتا گیا…… پہلی لائن میں ہی ذہنی توازن میں خلل لکھا گیا تھااور آگے وہی immaturity اور اسی طرح کی چار، پانچ اور لائینز، جن کو پڑھے بغیر ہی ادیوا نے کاغذ فولڈ کیا اور لفافے سمیت پاس پڑی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”واقعی ہی صفان علی! تم سے محبت کرنا میرا دماغی خلل ہی تو تھا…… کوئی عقل والی لڑکی کبھی نہ ایسا قدم اُٹھاتی……“
اب وہ خود سے باتیں کرنے لگی دل ہی دل میں تڑپتی رہی۔
”ماما! آپ سے ایک بات پوچھوں؟ میری مرضی کے بغیر طلاق کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ پتا نہیں ماما! میرا دل نہیں مانتا اتنا بڑا رشتہ یکطرفہ کیسے ختم ہو سکتا ہے؟“
مسز عمر جانتی تھیں کہ لوکل کنٹونمنٹ آفس سے اُس کے لیے letter ضرور آئے گا، تین ماہ کے اندر وہ چاہے، تو صفان علی کی طلاق مسترد کر سکتی ہے، لیکن وہ کبھی نہیں چاہتی تھیں کہ اُن کی بیٹی کسی زبردستی کے رشتے کو عمر بھر کے لیے اپنے گلے کا ہار بنا لے اور ہر روز اذیت سہے۔ وہ چپ ہو گئیں …… بالکل چُپ۔
اب اُسے یہی سوال اُس انسان سے کرنا تھا، جو اس کا جواب دے سکے اور وہ تھا صفان علی……
ادیوا نے شام ہوتے ہی صفان علی کو فون کیا……
”صفان! میرا دل تسلیم نہیں کر رہا ابھی بھی مجھے لگتا ہے کہ میرا رشتہ تم سے ختم نہیں ہوا، مجھ پر ابھی بھی صرف تمھارا حق ہے …… میں ابھی بھی صرف تمھاری ہوں۔“
”ادیوا! میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں …… میں نامحرم ہوں تمھارے لیے…… نہ میرا تم پر کوئی حق ہے اور نہ تمھارا مجھ پر……“
”صفان! میرا گناہ کیا تھا؟“ ادیوا کی آواز بھر آئی۔ ”مجھ پر کوئی الزام، کوئی تہمت کچھ تو لگاتے، کوئی جرم تو ثابت کرتے میرا……اس سے تو بہتر تھا صفان! تم میرا ہاتھ پکڑ کر ریل کی پٹڑی پر کھڑا کر دیتے۔ ایک ہی دفعہ میں میری جان نکل جاتی…… اب جو ہر ہر لمحہ میری روح قبض ہوتی ہے، یہ اذیت میں کیسے برداشت کروں؟“
”وقت ہر زخم بھر دیتا ہے۔ ادیوا! move on۔ دیکھو! زندگی بہت خوبصورت لگے گی تمھیں ……“
”move on؟ تمھارے بغیر……؟ مجھے لگتا ہے جیسے تم نے ہاتھ چھڑا کر میری بینائی چھین کے مجھے دنیا کی بھیڑ میں اکیلا کھڑا کر دیا ہے……مجھے ٹھوکریں لگیں گی…… میں گِروں گی، ٹوٹ جاؤں گی، تو کیا اُس وقت تم اپنے لیے میرے منہ سے دعاؤں کی اُمید رکھتے ہو؟کیا اب ہر دفعہ ظرف اور ضبط میرا ہی آزمایا جائے گا؟ میں تمھیں معاف نہیں کر سکتی ……کبھی بھی نہیں …… یہ بات یاد رکھنا…… اللہ کی عدالت میں تم میرے سب سے بڑے گناہ گار ہو گے…… میں اپنی ایک ایک ٹھوکر ایک ایک تکلیف کو اللہ کے دربار میں رکھتی جاؤں گی…… اور پھر میں بھی تم سے اسی طرح کہوں گی move on safan...“
صفان علی کا دل ایک دم سے اتنا زور سے دھڑکا کہ اُسے لگا سینہ پھاڑ کر باہر آ جائے گا۔
انسان جتنا بھی پریکٹیکل اپروچ رکھتا ہو احساسِ گناہ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اُسے اپنے ہی قدموں پر منہ کے بَل گرا دے اور انسان پھر نہ اُٹھ سکتا ہے نہ مزید جھُک سکتا ہے…… کسی لاش کے بوسیدہ ڈھانچے کی طرح زمین میں گڑا رہتا ہے……
صفان علی کے اندر اب بغاوت کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ وہ اپنے ضمیر سے لڑنے کے عمل سے گزر رہا تھا۔ ایک Guilt تھا، جو اُسے اندر ہی اندر کھانے لگا تھا۔ اب اُس کو ادیوا سے معافی درکار تھی اور اُس کے لیے وہ ادیوا کو واپس اُسی stage پر لانا چاہتا تھا کہ وہ اپنے دل سے اسے معاف کر دے، لیکن اس کے لیے ادیوا کے دل میں اپنی ڈوبتی محبت کو پھر سے اُبھارنا تھا۔
انسان اپنا ایک گناہ چھپانے کے لیے دوسرا کرتے ہوئے ذرا نہیں ڈرتا۔ کتنا گِر جاتا ہے نا! اپنے پچھتاوں کا بوجھ اُسی انسان پر لاد دیتا ہے، جو پہلے سے ہی اُس کے ظلم کے بوجھ تلے مَر رہا ہوتا ہے۔
ادیوا ابھی اُس سے زیادہ دُور نہ جا پائی تھی اور یہ بات وہ جانتا تھا۔ اُسے واپس لانا اور اپنے کیے کی معافی طلب کرنا، صفان علی کے لیے کوئی بڑا مسئلہ تھا ہی نہیں۔ وہ دو بول پیار کے بولتا، تو ادیوا موم کی طرح پگھل جاتی……
ادیوا پر رحم اُسے تب بھی نہیں تھا اور اب بھی نہیں آیا تھا…… ابھی بھی وہ انسان بس اپنی ذات کے سکون کا متلاشی تھا…… بھلے اس کے بدلے میں ادیوا کی زندگی کانٹوں سے بھر جاتی یا اس کی روح تار تار بکھر جاتی…… صفان علی کے پاس رحم نہیں تھا۔
”ادیوا! تم مجھ سے محبت کرتی ہو نا! تو خدا کے واسطے میرا یقین کرو، ہمیں نظر لگ گئی ہے ہم پر جادو کیا ہو گا کسی نے…… میں تمھیں یقین دلا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں آج بھی تم سے ویسی ہی محبت کرتا ہوں۔ جیسی میں پہلے کرتا تھا…… تم میرا پہلا پیار ہو ادیوا…… تمھاری جگہ کبھی کوئی نہیں لے سکتا۔ چاہے میری شادی ہو جائے …… بچے ہو جائیں۔ تمھاری کمی مجھے کبھی سکون نہیں لینے دے گی ادیوا! میری ہر خوشی ادھوری ہے تمھارے بعد……“
یہ سب باتیں وہ چار ماہ بعد کر رہا تھا۔ شاید اندر کے پچھتاوے نے مزید نظرانداز نہ کرنے دیا ہو، جو سلوک اُس نے ادیوا عمر کے ساتھ کیا تھا……ایک غلطی کے بدلے عمر بھر کی سزا سنا دی گئی تھی اسے اور غلطی بھی وہ، جس کی وجہ ان سب کے رویے تھے۔
لیکن محبت سچی ہو تو دل توڑ کے جانے والے کی راہ ہمیشہ دیکھتی رہتی ہے نہ اپنے دروازے بند کرتی ہے اُس پہ…… نہ اُس کو انکار کی تکلیف سے گزار سکتی ہے……
ادیوا کے دل میں صفان کی محبت جاگنے کا موقع تو تب آتا، جب وہ اس محبت کو دل سے نکال چکی ہوتی…… وہ تو وہیں تھی……
صفان کی محبت کا آسیب اُس کے دل کو آسیب زدہ کر چکا تھا اور آسیب زدہ جگہیں اتنی آسانی سے اپنے اثرات سے خالی نہیں ہوتیں۔
ادیوا کی محبت اتنی پاکیزہ اور بے لوث تھی کہ بے نام رشتے کے ساتھ بھی وہ نبھا کرنے کا ظرف رکھتی تھی۔
صفان علی ہر دن کے اختتام پر ادیوا سے بات کرتا۔ وہ لوگ کبھی نہیں ملے تھے کیوں کہ جب رشتے اپنی پہچان کھو دیتے ہیں، تو چہروں کی مانوسیت بھی اجنبی لگنے لگتی ہے…… وہ صفان علی کے چہرے کو دیکھنے کی اب خواہش مند تھی بھی نہیں۔
کچھ ہی دن بعد فردوس ماموں کی شادی تھی اور صفان اپنے ماموں کی شادی کی تیاریوں میں بزی رہا۔ کبھی وہ ادیوا سے بات کر پاتا اور کبھی نہیں اور جب بھی نہ کر پاتا، تو ادیوا گھنٹوں اس کے اُسی تصوراتی پیکر سے باتیں کرتی رہتی۔
”صفان! تم نے تو صرف دُکھ کو، خوشی کو محسوس کیا ہو گا۔ میں نے تو ان جذبوں کی تخلیق کا عمل بھی دیکھا ہے …… میں نے تو محبت کو روح میں ڈھلتے اور خون میں تحلیل ہوتے بھی دیکھا ہے۔ جس عمل سے گزر کر روح جسم سے جدا ہوتی ہے …… میں نے تمھاری جُدائی میں ہر روز روح کو اس کرب سے گزرتے دیکھا ہے۔ کون کہتا ہے…… فراموشی ممکن ہے۔ میں نے تو خود کو تمھاری یاد میں پاگل ہوتے دیکھا ہے۔ شاید صفان! تم نے کوئی انتہاپسند نہیں دیکھا ورنہ تم میری حالت سے ضرور واقف ہوتے……“
کبھی وہ اس سے گلے کرتی …… دل ہی دل میں روٹھ جاتی۔
”صفان! تم میرے گروی رکھے خواب لوٹا دو…… اب تو میں نے تمھارا قرض سود سمیت چکایا ہے۔جس محبت کو تم سے قرض لے کر میں نے اپنے دل میں غنچے کھلائے تھے، وہ غنچے اب بیابان جنگل بن چکے ہیں …… تمھارا قرض ادا ہو چکا ہے …… مجھے میرے خواب لے جانے کی اجازت دے دو…… ادیوا عمر ٹوٹ گئی صفان علی!“
وہ کئی کئی گھنٹے یوں ہی خود سے باتیں کرتی رہتی …… بے مقصد باتیں ……