وہ بہت سہم گئی تھی۔
”آپ کو بناؤ سنگھار سے فرصت مل گئی ہو، تو ذرا یہاں بھی نظر کر لیا کریں۔ یہ میری ماں ہے …… اس گھر کی نوکرانی نہیں ہے۔ you understand۔“
ادیوا سر جھکائے کھڑی تھی۔
”دوبارہ میں یہ نہ دیکھوں، اب مجھے سمجھ آئی آپ کی جاب کرنے کی وجہ۔ گھر کے کاموں سے اتنی ہی تنگ تھیں، تو صاف صاف بتا دیتیں نا! یہ ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔“
وہ ادیوا کو حقارت سے دیکھتا ہوا تیزی سے اسے پیچھے دھکیلتا ہوا باہر نکل گیا۔
ادیوا وہیں پتھر بنی رہ گئی اور پھر دیوار کا سہارا لے کر وہیں بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”کیا یہ وہی صفان علی تھا؟کیا وہ یہ سب ڈیزرو کرتی تھی؟ اس طرح کا لہجہ؟“
ادیوا ٹوٹ کر رہ گئی۔یوں لگا کہ زندگی بھر کی کمائی ایک لمحے میں چھن گئی ہو۔ سارا سفر اسے بے منزل سفر لگا۔
”وہ وہی صفان علی تھا؟“
وہ بار بار خود سے ایک ہی بات پوچھتی رہی۔آنکھوں پر ہاتھ رکھے بے اختیار روئی کہ اچانک اسے خیال آیا آنٹی نے کیوں نہیں کہا۔
”بس تمھارے آنے سے دس منٹ پہلے ادیوا کو میں نے بھیجا تھا۔ وہ کیوں نہیں بولیں؟“
”کیوں نہیں کہا صفان کو کہ میں پورے دن میں صرف کھانا بناتی ہوں اور اس میں بھی ادیوا میری مدد کرتی ہے۔؟کیوں نہیں کہا کہ گھر کے برتن‘ کپڑے‘ صفائی سے سب کچھ ادیوا اکیلی کرتی ہے؟“
ادیوا نے جیسے ہی آنکھوں سے ہاتھ اٹھا کر آنٹی سے پوچھنا چاہا، تو وہ وہاں سے پہلے ہی جا چکی تھیں۔ ادیوا پہ مزید حیرانیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
”آنٹی نے مجھے اٹھایا، نہ چپ کرایا۔ حالاں کہ وہ تو جانتی تھیں ناں کہ کیا حقیقت ہے۔ صفان کو نہیں بتایا، تو کوئی بات نہ تھی، مگر مجھے تو چپ کروانا‘ آنسو پونچھنا بنتا تھا ناں ان کا؟“
ادیوا وہاں سے اٹھی اور أٓنٹی کے کمرے میں چلی گئی اوریہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ وہ خود مسلسل روئے جا رہی تھیں اور انکل انھیں چپ کروا رہے تھے۔ ادیوا کو اتنے غصے سے انکل نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ غصہ اور شدید نفرت ان کے چہرے پہ واضح تحریر تھی۔ آنٹی نے ادیوا کے بارے میں کچھ نیگیٹیو بات کی تھی انکل سے۔ جس سے کہ ادیوا بلکل لا علم تھی، وہ وہاں ایک پل نہ ٹھہر سکی، دوڑتی ہوئی چھت پہ چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اتنی شدید سردی میں وہ چھت پر بیٹھی روتی رہی۔
”کیا یہ وہی گھر تھا؟ کیا یہ وہی لوگ تھے؟کیا ان لوگوں کے لیے میں نے قربانیاں دیں؟ کیا اس دن کے لیے میں نے وہ جاب کی؟جس لڑکی نے کبھی زندگی میں جاب نہیں کی۔ اس گھر کی خوشحالی کے لیے گھر سے قدم باہر نکالا، تو گناہ کر دیا؟ بہتر ہوتا کہ گھر رہتی۔ آرام کرتی، وہی گھر کے کام کر کے پورا دن سکون سے سوتی۔ ڈبل، ڈبل ڈیوٹیاں دے کر بھی یہ سلوک اس کے ساتھ۔“
وہ ہر ایک کی نفرت سہ سکتی تھی مگر صفان علی کا تو غصے سے پکارا گیا نام ہی اس کی سماعتوں میں جم گیا تھا۔ باقی تو جو بھی اس نے کہا، بعد کی باتیں تھیں۔
”کیا وہ مجھے اتنا ہی جانتا تھا؟ میں نے گھر کے کاموں سے جان چھڑانے کے لیے گھر سے باہر قدم نکالا تھا؟؟ صفان علی! کیوں ہوئے تم اتنے بد گمان مجھ سے۔“
وہ روتی جا رہی تھی۔ دو گھنٹے گزر چکے تھے اسے وہاں بیٹھ کر رو تے ہوئے۔
”اٹھو! یہاں سے۔“
یہ صفان کی آواز تھی، مگر لہجہ……؟
وہ گھٹنوں پر سر رکھے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ آنکھیں رو رو کرسوج رہی تھیں۔
”تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری ماں سے زبان درازی کرنے کی؟“
ادیوا اس کی بات کو سمجھ ہی نہ پائی۔
اب صفان اور اس کی ماں دونوں ہی اس کے سامنے کھڑے تھے۔
”زبان درازی؟میں نے؟“
ادیوا نے اسی بے یقینی کی کیفیت میں تھی کہ اچانک صفان علی کی گرجتی آواز اس پہ بجلی کی طرح گری۔
”تم جاہل عورت……“
اس کے آگے وہ کیا کیا کہہ رہا تھا۔ ادیوا کی سماعتیں کچھ سننے کے قابل نہ رہیں۔ وہ چیختا چلاتا رہا اور ادیوا سامنے والی دیوار میں نظریں گاڑے پتھر بنی کھڑی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اسے بازو سے پکڑتا‘ کھینچتا ہوا‘ گھسیٹتا ہوا نیچے لے گیا اور اسے کمرے میں لا کر پھینک دیا۔ ادیوا کو لگا کہ اس کے جسم سے روح نکل گئی ہے۔ وہ مردہ ہے اس کی لاش پہ چیخ چنگھاڑ رہا ہے، وہ اپنی سب حسیں کھو چکی ہے۔ بینائی جم گئی ہے۔ اس کی آنکھیں صفان علی کی حقارت کے علاوہ کچھ اور دیکھ نہیں پا رہی تھیں۔
اور اب کمرے میں تین لوگ موجود تھے۔ صفان علی اس کی ماں اور باپ باری باری سب اس سے گالی گلوچ کر کے اپنے دل کو ٹھنڈاکر کے چلے گے۔ اب باری تھی صفان علی کی، اس نے دروازہ بند کیا اور سامنے بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔ بالکل کسی بے رحم حاکم کی طرح اور وہ مظلوم رعایا کی طرح نیچے فرش پر بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔
اب صفان علی پھر سے اسی لہجے میں مخاطب ہوا۔
”ہم تنگ آ چکے ہیں تمھاری immaturity اورso called معصومیت سے۔ come on کب بڑی ہو گی تم۔ ادیوا! اگر امی نے تمھیں چھایا آنٹی کے لیے چائے بنانے کا کہہ دیا، تو تم نے اتنی بدتمیزی کی؟ تم کیا سمجھتی ہو اپنے آپ کو، کیا صرف تمھارا سٹیٹس ہے۔ ہماری کوئی عزت نہیں ہے؟ صبح تیار رہنا …… تمھیں تو تمھارے گھر چھوڑ کے آؤں گا۔ بہت ہو گیا تماشا……“
اب وہ سب حقیقت جان گئی تھی۔
”چھایا آنٹی تو آج آئی ہی نہیں تھیں اور میں نے بدتمیزی کی، وہ بھی صفان علی کی ماں سے؟“
ذہن بالکل ماؤف ہو گیا تھا۔ اب اس کے ذہن میں صفان علی کے الفاظ بار بار گونجنے لگے۔
”صبح تیار رہنا! میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ کے آؤں گا؟“
”میرا گھر؟ میرا گھر؟ اگر وہ میرا گھر ہے، تو یہ کس کا گھر تھا؟میرا گھر نہیں تھا، تو مجھ سے ذمہ داریاں نبھانے کی امید کیوں تھی؟ جب یہ گھر ہی میرا نہیں تھا تو؟“
وہ چاہ کے بھی آنسو نہ روک پائی۔
اسے لگا کہ اس کا دماغ سوچنے سمجھنے سے بالکل محروم ہو چکا ہے۔ وجود بالکل شل ہو چکا ہے۔ ساری مسافتیں، ساری ریاضتیں رائیگاں گئی ہیں۔
صفان علی کب کا سو چکا تھا۔ اس کی تکلیف، اس کے درد سے بالکل بے خبر ہو کر۔ ادیوا مسلسل اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ دور بیٹھی ادیوا خود کو صفان کے بے قصور ہونے کا یقین دلاتی رہی۔
محبت بھی عجیب چیز ہے۔ سہنے پر آئے، تو تذلیل بھی سہہ لیتی ہے، مگر جدائی کسی صورت گوارا نہیں کرتی۔ اب ادیوا مکمل طور پر ڈیپریشن میں جا چکی تھی، جو سلوک اس کے ساتھ پچھلے دو ہفتوں سے ہو رہا تھا، وہ بھی زہر بن کے اس کے ذہن میں گھلتا رہا اور اب جو یہ سب ہوا‘دماغ کی ساری شریانوں کو چیر گیا تھا۔
”صبح تیار رہنا! میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ آؤں گا۔“
الفاظ کیا تھے؟ کیا تھا اس کا مطلب؟ صفان علی ادیوا سے جدا ہو کر رہ سکتا تھا؟ ادیوا کا وجود کچھ بھی نہیں تھا؟
”ادیوا صفان سے الگ کر دی جائے گی صبح۔“
وہ بار بار یہ سب دھراتی رہی۔ نیم پاگل سی ہوتی گئی اورپھر ایک دم سے اٹھی، اپنے بیگ سے پیج کٹر نکالا اور کلائی کی آخری تہہ تک پھیرتی چلی گئی۔
”تم سے الگ ہونا میرے لیے اس درد سے زیادہ دردناک ہوتا صفان علی! اس لیے میں نے تھوڑے درد کو چن لیا ہے۔“
اورپھر کچھ ہی دیر میں خون پورے فرش پر پھیلنے لگا۔ وہ اٹھی اور آہستہ سے صفان علی کے قدموں کی طرف سر رکھ کر لیٹ گئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بے حس و حرکت ہوئی اور پھر اپنے حواس کھو بیٹھی۔
ایسے ہوتے ہیں اپنی وفاؤں کا مان رکھنے والے، مرنا بھی چاہتے ہیں، تو اسی کے قدموں میں سر رکھ کے، جو زندہ رہنے کے سبھی حوصلے چھین لیتا ہے۔
آنکھ کھلی، تو ادیوا سرکاری ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں تھی۔ دو ڈاکٹرز اس کی کلائی کو تھامے اس کی سکن میں سے نیڈل گزار رہے تھے اور وہ آنکھیں کھولے اس درد کو محسوس کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
کبھی کبھی محبت آپ کو ایسے درد سے نواز دیتی ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے جسم کے ٹکڑے بھی کر دو، تو بھی آپ درد کی وہ شدت کبھی محسوس نہیں کرسکتے، جو محبت کرنے والوں کے لہجے بدلنے سے ہوتی ہے۔
کچھ ہی فاصلے پر صفان علی کھڑا تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹرز سٹچنگ کر کے پیچھے ہٹے۔ صفان علی آگے بڑھا اور ادیوا کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
”ادیوا! تمھیں پتا ہے کہ میں اس سے زیادہ محبت نہیں دے سکتا تھا تمھیں اور پھر بھی تم نے یہ سب کیا۔ اب شاید میں کبھی تم سے محبت کرنے کا حوصلہ نہ کر پاؤں۔“
صفان علی کے یہ الفاظ بالکل ایسے تھے جیسے ایک مردہ انسان پر پھر سے چھریاں چاقو ایک ساتھ چلا دیے جائیں۔ ایک مرے ہوئے انسان کو مار کر کیا راحت ملی تھی، ادیوا نہیں جانتی تھی۔
اب اسے وارڈ میں شفٹ کیا گیا۔ دو خون کی بوتلیں اس کے دونوں ہاتھوں کی وینز میں لگا دی گئی تھیں۔ بہت مشکل سے ادیوا کی جان بچائی گئی تھی۔ ہسپتال میں صرف صفان اور اس کی والدہ موجود تھے اور اسے کوئی دکھائی نہ دیا۔ اب اسے فکر ہو رہی تھی کہ اس کے گھر سے کوئی کیوں نہیں آیا۔ جس کو بعد میں صفان نے کلیر کر دیا کہ ادیوا کے چھوٹے چچا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی موت واقع ہو گئی، اس لیے رات ہی کو عمر حیات اور باقی سب گھر والے کراچی روانہ ہو گئے تھے۔ ادیوا کو انھوں نے پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا، اس لیے بغیر اطلاع دیے ہی وہ روانہ ہو گئے۔
تین دن بعد اسے ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا، مگر ادیوا سہارے کے بغیر نہ اٹھ کے کھڑی ہو سکتی تھی، نہ چل سکتی تھی۔ اس کے جسم سے بہت بھاری مقدار میں خون ضائع ہو چکا تھا۔اب اسے کم از کم کچھ ماہ تک ملٹی وٹامنز کھانا تھیں۔ پھر کہیں جا کر اس خون کی اور ریڈ سیل کی کمی پوری ہوتی۔
اب وہ اپنے کمرے میں تھی، صفان علی اسے گھر لے آیا تھا۔ ادیوا کے بہت التجا کرنے پر اسے نے ادیوا کے والدین کو کچھ نہ بتایا تھا۔ یہ بھی بہت احسان تھا اس کا۔ کیوں کہ ادیوا ابھی بھی اس کی عزت کی خاطر اور جو مقام اس کا ادیوا کی فیملی کے سامنے تھا، وہ اسے کبھی گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔
آج اس بات کو ہوئے ساتواں دن تھا۔ بے اعتباری کا یہ عالم تھا کہ ادیوا کو اس کے کمرے میں ایک منٹ بھی اکیلا نہ چھوڑا جاتا۔ کبھی آنٹی، تو کبھی انکل بہت ناگواری سے اس کے سامنے بیٹھے رہتے۔ادیوا تو پہلے ہی اپنے کیے پہ شرمندہ تھی، لیکن ایک بات پہ تو سکون تھا کہ ادیوا صفان علی کے گھر میں تھی۔ وہ اسے خودسے الگ نہیں کر رہا تھا۔۔شاید کبھی کبھی جان سے پیارے انسان کو جان دے کے اپنی محبت کا یقین دلانے کی بھی نوبت آجاتی ہے، لیکن صفان علی پورا دن اپنی جاب پر بزی رہتا۔ وہ اکثر سوچتی کیا ایسی ہی تنہائی کے لیے وہ اسے گھر لایا تھا۔ ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ صفان کا فون آیا اور آنٹی موبائل اٹھا کر دوسرے روم میں لے گئی اور پھر جانے کیا بات ہوئی ان کے بیچ کہ تھوڑی ہی دیر بعد صفان گھر داخل ہوا۔ آج وہ یقینا half leave پر آیا تھا۔
ادیوا کو لے کر وہ لوگ پہلے کسی پیر صاحب کے پیر خانے لے گئے، جہاں انھوں نے ادیوا پر کچھ اثرات کی تصدیق کی اور پھر وہ دونوں اسے لے کر اسی سرکاری ہسپتال کے psychology dept. میں آگئے اور اب ادیوا منتظر تھی کہ صفان علی کے ہر ظلم کی انتہا دیکھے۔ اس انسان کو اب ادیوا پر کوئی ظلم کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی خدا کا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا اور آخر کار وہی ہوا۔
وہ اسے دماغی امراض کے وارڈ میں ایڈمٹ کرواگیا۔
کیا یہ تھی محبت؟ یہ تھا جنون؟ اور یہ تھا صفان علی کا اصل روپ؟ ادیوا بس یہی چاہتی تھی کہ وہ اسے زندہ درگور کرتا رہے اور وہ اس کے ہر ظلم کو سر آنکھوں پر رکھ کے سہہ جائے۔ مگر سچی محبت کرنے والے ہمیں اتنی آسانی سے اپنا آپ زندہ درگور کہاں کرنے دیتے ہیں۔ حادی اور مسز عمر کو اطلاع ہو چکی تھی اور وہ دونوں آناً فاناً بھاگے ہوئے آئے۔
ادیوا کی زرد رنگت اور کلائی پر ہوئی سٹیچنگ سب کچھ اتنا خوفناک تھا کہ مسز عمر زارو قطار رونے لگیں۔ صفان کی والدہ سامنے بیٹھی انھیں دیکھ کر فوراً وہاں سے چلی گئیں۔ جیسے کوئی مجرم اپنے پکڑے جانے کے خوف سے بھاگ جاتا ہے۔
ادیوا کو ڈسچارج کروا دیا اور حادی اور مسز عمر اسے گھر لے آئے۔ مسز عمر ادیوا سے چھپ کر روتی رہیں۔ ادیوا کو ابھی بھی چلنے پھرنے کے لیے سہارے کی ضرورت تھی۔ اس کا جسم انتہائی کمزور اور لاغر ہوچکا تھا۔
عمر حیات نے اشعر اور حادی کو بٹھا کر سمجھایا۔
”آپ دونوں میں سے کوئی اس مسئلے میں نہیں بولے گا۔ میں خود بات کروں گا صفان علی سے۔“
”لیکن پہلے ادیوا کو اس ڈپریشن سے نکلنے دو۔ پھر ہی وہ کوئی بہتر فیصلہ کر پائے گی۔“
صفان علی کے گھر میں سے کسی فرد نے بھی ادیوا کی خیریت دریافت نہ کی۔ باقی لوگ تو بہت بعد کی بات تھی، خود صفان علی نے اپنی بیوی کی حالت جانتے ہوئے بھی ایک فون تک نہ کیا۔
کچھ لوگ ہمیں عین اس وقت اکیلا چھو ڑتے ہیں، جب ہمیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی ٹائمنگز اتنی پر فیکٹ ہوتی ہیں کہ جیسے وہ ہمارے دکھ،ہماری خوشی کے منتظر ہی تھے کہ ملے اور وہ اٹھ کے چل دیں۔
دو دن بعد صفان علی، عمر حیات کے بار بار بلانے پر گھر آیا۔ اس نے کسی بات کا کوئی ٹھیک سے جواب نہ دیا اور سیدھا ادیوا کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ سونے کی کوشش کر رہی تھی، کیوں کہ ذہن پر مسلسل بوجھ کی وجہ سے اسے بہت کم نیند آتی تھی۔
”صفان! آپ؟“
دروازے کی آہٹ سے اسے صفان کی موجودگی کا ادراک ہوا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن ہمت نہ کر پائی۔
’لیٹی رہو ادیوا! کیسی طبیعت ہے اب تمھاری؟ مجھے امید ہے اب تم بہت سکون میں ہو گی، کیوں کہ یہاں تم پر کوئی ذمہ داریوں کابوجھ نہیں ہے۔“
”اوہ تو……“
صفان علی آج اس کی روح کو طنز کے تیروں سے چھلنی کرنے آیا تھا۔ جسمانی اذیت کے بعد اصولاً اب روح کی باری تھی۔ ادیوا ترس رہی تھی کہ وہ اس کے منہ سے ایک بار بس ایک بار محبت کا اقرار سنے، تو وہ اس کے ساتھ اٹھ کر چل پڑے۔
جب محبت اپنے اقرار کا حو صلہ دیتی ہے، تو انسان اپنے اندر طوفانوں سے لڑنے کی طاقت بھی محسوس کرنے لگتا ہے اور ادیوا اس وقت اس کے اسی اقرار کی منتظر تھی، جو اس کے سب گھاؤ بھر دے۔
مگر وہ کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ اب وہ ادیوا کو دیکھتے رہنے کی بھی خواہش مٹا چکاتھا، مگر ادیوا کی آرزؤں کے سمندر تھے کہ خالی ہی نہ ہوتے۔ ایک کے بعد ایک آرزو اور پھر اسی آرزو کو حسرت بنتے دیکھنے کی تکلیف…… کتنا کچھ سہنا سکھا دیتی ہے نا محبت……
”صفان علی! تمھیں خبر ہی کیا ہے بے بسی کی اور اس کی انتہا سے تویکسر ناواقف ہو تم۔ کبھی منجھدار میں ڈوبتی کشتی کو دیکھا؟ کسی گرداب میں اڑتے ہوئے تنکوں کو بکھرتے دیکھا؟ کتنا بے بس ہوتا ہے ان کا وجود،وہ اپنی تمام تر طاقت لگا کے بھی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔خود کو بپھری موجوں کے حوالے کر دینا، تند و تیز آندھیوں کو سونپ دینا‘ یہی ہے بے بسی اورتمھاری محبت کے معاملے میں، میں اس کی انتہا پر ہوں۔“
کاش وہ یہ سب اس سے کہہ سکتی۔
گھر کا ہر فرد ایک اذیت سے گزر رہا تھا۔ ہر کوئی اسی سوچ میں تھا کہ آخر صفان علی کے گھرایسا کیا ہوا تھا کہ ادیوا کو اپنی وینز کاٹنا پڑی؟عمر حیات کے گھر گزرا پوری زندگی میں سے کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا کہ ادیوا نے کوئی ایسا انتہائی قدم اٹھایا ہو۔ وہ تو انجیکشن لگانے کی تکلیف سے کانپ جانے والی لڑکی تھی، لیکن انتہا کی محبت کسی جنون سے کم نہیں ہوتی …… شاید وہ ایسی تکلیف سہنے کا حوصلہ بھی دے دیتی ہے جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
ادیوا اپنے بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھی اپنی کلائی پر بنے سٹیچز کے نشان دیکھتی رہی۔ ایک دم سے اسے صفان علی کی وہ بات یاد آئی۔ جب مری جاتے ہوئے راستے میں سے موتیے کے گجرے لیتے اور اس کی کلائی پہ پہناتے ہوئے اس نے کہی تھی۔
”ادیوا! کتنے بے داغ ہیں تمھارے ہاتھ…… تمھاری کلائیاں …… تمھارا پورا وجود ایک نور کا ہالہ ہے اور میں کتنا خوش نصیب ہوں نا کہ پوری دنیا چھوڑ کے یہ نور صرف مجھے عطا کیا گیا ہے۔“
صفان کی بہن کی رخصتی کے دو دن بعد وہ اسے مری لے گیا تھا اور اسی دن شام کو وہ گھوم پھر کر واپس آ گئے، مگر وہ دن زندگی کے خوبصورت دنوں میں سے ایک تھا۔ کتنی حیرت کی بات تھی نا۔ صفان علی کے لیے وہ کلائی داغدار ہو چکی تھی، مگر وہ شخص روح پہ لگے گھاؤ اور ان کے ان مٹ داغ دیکھنے کی طاقت رکھتا ہی نہیں تھا۔ وہ اس بینائی سے شایدمحروم تھا، جو انسان کے اندر کے زخموں کو دیکھ سکے۔
دو ہفتے گزر گئے تھے۔ صفان علی کے گھرسے کوئی فون آیااور نہ تو وہ خود آیا۔ اب ادیوا اٹھ کے چل پھر سکتی تھی۔ وہ کچن میں آئی، مسز عمر کسی کام میں مصروف تھیں۔
”ماما! صفان سے کوئی رابطہ ہوا …… میں اسے جب بھی کال کرتی ہوں۔ وہ ڈس کونیکٹ کر دیتا ہے۔ آپ کا یا پاپا کا کوئی رابطہ……؟“
”ادیوا! میری بات سنو!“ مسز عمر نے اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی بات کاٹ دی۔”کیا ہم سب کی اہمیت بالکل ختم ہو چکی ہے تمھاری زندگی سے؟ کیا ہمیں کوئی حق نہیں ادیوا! کہ ہم جان سکیں کس وجہ سے ہماری پھول سی بچی کی یہ حالت ہوئی؟ یقین کرو! ہادی تمھیں جس دن ہاسپٹل سے لایا تھا، سارے راستے روتا آیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ٹھیک سے کھانا کھاتا ہے نہ کسی سے بات کرتا ہے۔ جاب سے آکر سیدھا اپنے روم میں چلا جاتا ہے۔اشعر اورتمھارے پاپا دونوں کی حالت اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ صفان کی والدہ نے جو بی ہیو ہمارے ساتھ ہاسپٹل میں کیا تھا، وہ تم سے کچھ چھپا ہوا نہیں۔ باقی کسر صفان علی نے پوری کر دی۔ اس دن جس انداز سے وہ تمھارے پاپا اور میری باتوں کو نظر انداز کر کے تمھارے کمرے میں گیا، وہ کبھی بھی قابل تسلیم نہیں ہے۔ ادیوا! اس انسان کو اپنی قدر محسوس کراؤ۔ اپنی عزت نفس اپنی Dignity کو اس کے قدموں کی دھول مت بناؤ۔ خدا کا واسطہ تمھیں۔ بھیک مت مانگو اس سے …… کہیں یہ نہ ہو کہ تمھارے کشکول میں وہ ہمدردی کے سکے بھی نہ ڈالے۔ اتنا مت گراؤ کہ ہم سے تمھاری شخصیت کی پہچان بھی مشکل ہو جائے۔“
اور مسز عمر اپنے آنسو چاہتے ہوئے بھی نہ روک پائیں۔
وہ سب کچھ چپ چاپ سنتی رہی…… کہنے کو تھا بھی کیا۔ کیا یہ سمجھاتی۔
”بے لوث محبت کرنے والوں اور بھیک مانگنے والوں میں سے کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ دونوں آس لگائے در پہ بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی نفرت سے دھتکار بھی دے۔ دروازے بند بھی کر دے، تو بھی دل سے دعائیں ہی نکلتی ہیں۔ دونوں چاہ کے بھی بددعا نہیں دے سکتے اور عزت نفس‘ خودداری‘ کہاں ہوتی ہے مانگنے والوں میں؟ وہ تو اپنی انا اپنی پہچان سب کچھ کھو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ پانے کی آرزو میں …… اور ماما ……! آرزوئیں تو انسان کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں، کسی بنجر زمین کی ویرانی کی طرح۔ جہاں بارشیں برسنے سے بھی کوئی پھول کوئی سبزہ نہیں اگتا، ایسی ہی بنجر ہو جاتی ہیں دل کی زمینیں بھی اور صفان علی ادیوا کے لیے وہی آرزو تھا، جو جلا کر راکھ کر گیا، تو ادیوا کے دل کی زمین بھی ویسی ہی بنجر ہو جائے گی جس پر پھرسے کوئی آرزو‘ کوئی امید نہیں اگ سکے گی۔“