صفان علی اپنی والدہ کے ہمراہ بہت تہذیب سے اندر لایا گیا۔ ادیوا عمر کا گھر کسی Embasidor کے بنگلے سے کم نہیں تھا۔ صفان کی والدہ بار بار گھر کو دیکھتی اور پھر صفان کے چہرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتی، جیسے انھیں یقین ہی نہ ہو کہ اس گھر کے لوگوں میں اتنا ظرف ہوگا کہ ان کی بات کو سن قبولیت کا درجہ دیا جائے گا۔
صفان علی ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا، مگر عام انسان نہیں تھا۔ اس دن بلیو جینز اور بلیک شرٹ میں وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا ہمیشہ کی طرح۔
سب لوگوں نے ان کا بہت وارم ویلکم کیا۔۔ صفان کی والدہ چوں کہ کم گو معلوم ہوئیں، اس لیے عمر حیات اور مسز عمر خود ہی وقتاً فوقتاً انھیں کسی نہ کسی بات میں شامل کر لیتے، تو وہ بھی ہاں، نہیں میں جواب دیتی رہیں۔
اتنے میں ادیوا لاؤنج میں داخل ہوئی، وہ فریش ریڈ کلر شفون کا ڈیزئنرز ویئر سوٹ یوں لگتا تھا کہ جیسے بنا ہی اس کے لیے تھا، گولڈن دوپٹہ جو اس نے انتہائی خوبصورت طریقے سے سر پر لے رکھا تھا۔ ہلکے گولڈن شیڈز کا میک اپ اور ریڈ لپ اسٹک اس کے چہرے کا نور دوبالا کر رہا تھا۔ وہ سب بناؤ سنگھار جو اس نے صفان علی کے لیے کیا تھا، صفان کی نظر اس پہ پڑتے ہی وہ اٹھ کے کھڑا ہو گیا جیسے اس کی تعظیم اس پر فرض ہو چکی تھی۔ لاؤنج میں موجود ہر شخص کو صفان کی اس حرکت نے بہت متاثر کیا۔ اب وہ سلام کر کے صفان کی والدہ کے سامنے آ کر بیٹھ چکی تھی، جو ادیوا کے سحر میں گرفتار بیٹھی تھی۔
دل ہی دل میں وہ صفان علی کی قسمت پر ناز کر رہی تھیں۔
عمر حیات نے کچھ رسمی باتیں پوچھنے کے بعد صفان سے اس کے فیوچر پلان کا پوچھا، بالکل ویسی ہی تشویش انھیں بھی تھی، جو ماں باپ کو بچیوں کے رشتے کرتے ہوئے ہوتی ہے۔
”انکل! میں بہت بڑے بڑے خواب نہیں دیکھتا …… بس اتنا ہی سوچتا ہوں، جو حقیقت ہو سکتا ہے اور ویسے بھی خواب بڑے بڑے دیکھو، تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ محسوس نہیں کر سکتے اور میں ہر لمحے کو جینے والا انسان ہوں۔ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ محنت کرنے پر یقین رکھتا ہوں، شارٹ کٹس مجھے اچھے نہیں لگتے۔“
صفان علی اپنے بارے میں قدرے تفصیل سے بتاتا چلا گیا۔۔
”میں ایک خوددارانسان ہوں انکل! بھیک میں محبت بھی مل جائے تو نہیں لیتا۔ میرے اپنے کچھ رولز ہیں جنھیں میں کسی کے لیے نہیں توڑتا۔“
اس کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اس کی شخصیت کے پروقار ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ایک بار پھر ادیوا عمر کو اس نے انتہائی حد تک متاثر کر دیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اس پر ناز کرنے لگی۔
عمر حیات کے گھر کا ہر فرد اس کی سوچ کا گرویدہ ہو چکا تھا اور محنت کرنے والا انسان زندگی کے ہر موڑ پر ایک کامیاب انسان ہی ہوتا ہے۔ اس کے وقتی اسٹیٹس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا اور ہوتا بھی کیسے، ادیوا کی پسند غلط نہیں تھی۔
اگلے ہفتے انھیں صفان علی کے گھر جانا تھا۔ عمر حیات بیوی اور اشعر کو لے کر ان کے گھر روانہ ہوئے۔ پنڈی کے ایک تنگ بازار سے گزر کر کچھ گلیاں کراس کر کے ایک تین منزلہ گھر کے باہر صفان علی ان کا منتظر تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی صفان علی انھیں سیڑھیوں کی طرف لے گیا، کیوں کہ پہلا اور دوسرا پورشن کرائے پر تھا، مالک مکان نے تینوں سٹوریز تین فیملیز کو دے رکھی تھیں اور صفان کی فیملی سب سے اوپر والی منزل پر تھی۔ وہ لوگ اوپر پہنچے، تو سیڑھیوں کے ساتھ ایک روم تھا، جو کہ غالباً ڈرائنگ روم تھا۔
آگے دو کمرے تھے اور کچن اور باتھ روم۔ اگر دل بڑے ہوں، تو گھر چھوٹے بھی محلوں سے کم نہیں ہوتے اور جس طرح ان سب کا اخلاق تھا، وہ ہر منفی سوچ کی تردید اپنے آپ کر رہا تھا۔ صفان کے تین بہن بھائی اس سے چھوٹے تھے، مگر اس گھر کا ہر فرد ہی کام کرتا تھا۔ گھر کے خرچے پورے کرنے کے لیے سب بچوں کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی۔
خود صفان صرف میٹرک پاس تھا، کیوں کہ چھوٹی عمر میں اس پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں آ چکی تھیں، لیکن اس کی شخصیت، اس کا رکھ رکھاؤ، کسی بزنس مین سے کم نہیں تھا۔ شاید اسلام آباد کی مشہور برانڈ آؤٹ لٹ کا منیجر ہونے کی وجہ سے اسے ڈریسنگ کی بہت اچھی سمجھ تھی۔ صفان کے والد پہلے جیولر تھے بہت اچھا سیٹ اپ تھا، مگر ان کو بزنس میں ایسا لاس ہوا کہ سب کچھ بک گیا، سب ختم ہو گیا اور پھر انھوں نے زیرو سے سٹارٹ لیا اور اب سب محنت کر رہے تھے تقریبا گھر کے سبھی مرد۔
ان کی ایک بیٹی تھی، جس کا نکاح ہو چکا تھا، بس رخصتی میں کچھ عرصہ تھا۔
صفان علی کے گھر سے واپسی پر اشعر نے والد سے قدرے فکرمند انداز میں سوال کیا۔
”پایا! کیاآپ کو لگتا ہے، ہمارا فیصلہ ادیوا کی زندگی کے لیے بہتر ہوگا؟“
عمر حیات نے گہری سانس بھرتے ہوئے کہا۔
”بیٹا! یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر جو چمک میں نے صفان علی کی آنکھوں میں دیکھی ہے، وہ کسی عام انسان کی آنکھوں میں نہیں ہوتی…… وہ Ambitious لڑکا ہے اور ایسے لوگ زیادہ دیر تک ایک سے حالات میں نہیں رہتے۔ قسمت کھل جاتی ہے ان کی اور پھر ہم جو ہیں اپنی بیٹی کے ساتھ۔ اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیں گے۔“
اشعر قدرے مطمئن ہوا اور مسز عمر کے دل کو بھی گہری تسلی ہوئی۔
دو ہفتوں بعد وہ لوگ منگنی کی تاریخ لینے آئے اور سب کچھ ایک خواب کی طرح لگنے لگا۔
صفان علی اور ادیوا کی محبت تکمیل کی طرف رواں تھی اور پھر منگنی سے ایک دن پہلے صفان نے ادیوا کو اسی کیفے چین میں بلایا۔
ادیوا کچھ پریشان ہوئی کہ ایسی کیا بات ہے، جو صفان علی نے اسے اس طرح اچانک بلایا۔ خیر وہ چلی گئی۔ اب وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا۔
”ادیوا! مجھے پتہ ہے تم ضرور سوچ رہی ہوگی کہ آخر کیا بات ہے ایسی جو میں نے تمھیں یوں بلایا۔“
ادیوا وہی معصوم سے انداز میں اس کی طرف دیکھتی رہی۔
صفان نے بہت محبت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
”ادیوا! تمھیں یاد ہے نا تم نے کہا تھا کہ تمھیں رشتے نبھانا اور نکھارنا دنیا کی مادی چیزوں کے مقابلے میں زیادہ اہم لگتا ہے۔ تم ایڈجسٹ کر سکتی ہو، کیوں کہ تمھاری شخصیت میں Flexibility ہے۔ آج جو میں تم سے مانگنے جا رہا ہوں، تمھیں مجھے دینا ہوگا اور مجھے امید ہے تم میرے مان کو، میری عزت نفس کو مجروح نہیں کرو گی۔“
ادیوا کا دل ایک دم سے مٹھی میں آ گیا، وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگی۔
”صفان علی! مجھ سے جدائی کے علاوہ کچھ بھی مانگ لو …… میں اپنی جان بھی وار سکتی ہوں تمھاری خوشی کے لیے۔“
”ادیوا! میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم میری خودداری کو، میری عزت نفس کو ایسے ہی عزیز سمجھو، جیسے تمھارے لیے میرا وجود ہے۔ میں تمھیں زیادہ نہیں الجھاؤں گا …… میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کھلے لفظوں میں کہ میری ساری دولت، سارا اثاثہ تمھاری ذات ہے، میرے گھر میں اگر کسی چیز کی کمی ہے، تو وہ صرف تم ہو، اور تمھارے لیے وہاں محبت ہی محبت ہے جسے تم پہلے ہی ہر دنیاوی چیز پر فوقیت دے چکی ہو۔
ادیوا! میں نہیں چاہتا کہ تم دنیا کی سب وہ چیزیں اپنے ساتھ لاؤ جس کا بوجھ میں اپنی روح پر محسوس کرتا رہوں، مجھے صرف تمھارا وجود کافی ہے۔
تم اپنے گھر سے کوئی جہیز نہیں لاؤ گی، یہ تم مجھ سے وعدہ کرو۔ مانتا ہوں کہ ہر ماں باپ اپنی بچیوں کو یہ سب ان کے سکون کے لیے دیتے ہیں، مگر میں یہ سب ان سے تب قبول کروں گا، جب اتنا Stable ہو جاؤں گا کہ ان چیزوں کا بوجھ اٹھا سکوں۔ ادیوا! تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں۔“
ادیوا اس کی آنکھوں سے ہوتی ہوئی کسی اور ہی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ اسے صفان علی قطعاً اس دنیا کا نہیں لگ رہا تھا، کتنا بلند کردار تھا صفان …… بہادر، Strong …… سچ کہتے ہیں، لوگ نام کا بہت اثر ہوتا ہے اور وہ تو بہادری کے سارے ریکارڈ توڑ چکا تھا۔ ادیوا کے دل میں اس کا مقام اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اسے بے انتہا فخر تھا اپنے انتخاب پہ۔ وہ انسان جو اس کے تخیل میں اتنا حسین تھا، حقیقت بن کے سامنے آیا، تو محبتیں لٹانے میں انتہا ہی کرتا چلا گیا۔ ادیوا اس لمحے کو دعائیں دیتی، جس لمحے نے پہلی بار اس کا چہرہ تراشا تھا، وہ خیال اسے ہر سوچ سے بڑھ کر عزیز تھا۔
٭٭٭
اچانک اسے اپنے پاؤں شل ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وہ ایک دم سے اذان کی آواز پہ چونکی، بالکونی کے سامنے دیوار سے لگ کے کھڑے اسے صبح ہو چکی تھی۔ سارا وجود درد سے ٹوٹ رہا تھا اور پاؤں تو جیسے برف کی طرح منجمد ہو چکے تھے، وہ کتنی دیر سے ماضی میں ڈوبی رہی اور اسے رات گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔
وہ درد کو بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھی، کیوں کہ وہ اس کی ایک ایک رگ کے اندر کبھی نہ ختم ہونے والی چبھن بھر چکا تھا اور اصل میں درد تو وہی ہوتا ہے، جو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹتا ہے، کھا جاتا ہے۔ ہمارے وجود کو، جنگل میں پڑی کسی لاوارث لاش کی طرح۔
”پتا نہیں کیوں لوگ ہمیں پھر بھی زندہ لوگوں میں شمار کرتے ہیں، حالاں کہ ہمارا وجود تو کب کا مٹ چکا، مٹی ہو چکا، وہ درد جو رگوں میں چبھن کی طرح محسوس ہوتا تھا اس درد نے کب کا روح کو جسم سے جدا کر دیا۔ اب تو بس اس فانی جسم کی تدفین ہونا باقی ہے، ورنہ ہم چلتی پھرتی لاشیں ہیں، احساس سے خالی۔ اب درد محسوس نہیں ہوتا، ہمارے آگے کتنا ہی بین کرو، واسطے ڈالو، ہم بے اثر ہو چکے ہیں، پتھر کے مجسموں کی طرح۔“
وہ سوچتی چلی گئی، یہاں تک کہ اسے پھر سے کسی خیال نے جھنجھوڑ دیا اور وہ نماز کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
کبھی کبھی انسان مایوس نہیں ہوتا بس تھک جاتا ہے اور ادیوا اب تھک گئی تھی۔
اگلے دن جب وہ اٹھی، تو اسے اپنا پورا وجود آگ کی طرح دھکتا ہوا محسوس ہوا، اس نے اٹھنے کی کوشش کی، تو اس سے اٹھا نہ گیا۔ پورے جسم میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ اپنا آپ ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہی تھی، لیکن ہمت کر کے وہ کھڑی ہوئی اور دیوار کا سہارا لے کر واش روم تک گئی، تو ایک دم سے اس کی ناک سے شدید خون بہنے لگا۔ وہ واشن بیسن میں گرتے خون کے قطرے دیکھ رہی تھی کہ مسز عمر اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
”ادیوا! کدھر ہو بیٹا؟“
وہ جیسے ہی واش روم تک آئیں، ادیوا واش بیسن میں سر جھکائے کھڑی تھی، وہ فوراً آگے بڑھیں اور واش بیسن میں اتنا خون دیکھ کر ان کا دل ہولنے لگا۔
”ادیوا! یہ کیا کر رہی ہو بیٹا!کیوں ہماری جان لو گی؟“
وہ ساتھ ساتھ روتی رہیں، ساتھ ٹاول گیلا کر کے اس کے ناک پر رکھا، اس کو پکڑ کر بیڈ تک لانے لگی، تو ادیوا کا وجود دہکتا ہوا محسوس ہوا۔
”اوہ خدا یا ……!اتنا تیز بخار ہے تمھیں۔ ادیوا! یہ کیا دشمنی ہے اپنے ساتھ تمھاری۔ Nose Bleeding کی وجہ تم جانتی ہو، جس مقدار سے تم بلیک کافی پی رہی ہو، یہ تمھارا اندر جلا دے گی بیٹی!“ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں۔
ادیوا دل میں کہنے لگی۔
”ماما میری کوئی دشمنی نہیں ہے اپنے آپ سے، لیکن یہ دُکھ کوئی چھوٹا دُکھ نہیں ہوتا کہ آپ اس انسان سے نفرت نہ کر سکیں، جو آپ کی زندگی تباہ کر گیا ہو۔ بس یہی گلا ہے مجھے اپنے آپ سے کہ اس نے تو دغا دیا ہی، میرے اپنے حافظے نے بھی میرے ساتھ غداری کی۔ وہی یادیں میرے لہو میں اُتارتا رہا، جو میری روح کے سرطان کا باعث بنتی گئیں۔“
نوز بلیڈنگ تو رک چکی تھی، مگر ادیوا کو 103 بخار تھا۔ مسز عمر نے فوراً عمر حیات کو ادیوا کی حالت سے آگاہ کیا۔ اشعر‘ حادی‘ عمر حیات سب ادیوا کے کمرے کی طرف بھاگے اور اب سب اس کے آس پاس بیٹھے تھے۔ عمر حیات نے بیگم سے واپسی کا پوچھا، تو وہ سب اس کی تائید میں تھے کہ ادیوا کی حالت کی وجہ سے بہتر ہے کہ واپس چلنا ہی ٹھیک رہے گا۔ ادیوا Anti stress گولیاں کھا کے مری سے واپسی کے سفر کے دوران سوئی رہی۔ گھر پہنچتے ہی ڈاکٹر شہزاد کو ادیوا کے چیک اپ کے لیے گھر بلایا گیا۔ ڈاکٹر کچھ ہی دیر تک گھر پہنچ چکا تھا اور بخار اور Mental strees کی میڈیسن Prescribe کر کے مسز عمر اور عمر حیات کو ادیوا کے آرام کا خیال رکھنے کی تلقین کر کے چلا گیا۔ پورا گھر ادیوا کے لیے جان ہتھیلی پر لیے کھڑا تھا۔ کتنے بے بس تھے سب، کاش کوئی ایسی دوا بھی ہوتی جسے پیتے ہی روح پہ لگے گھاؤ بھر سکتے۔ کبھی کبھی ہمارے اندر چلنے والی جنگ کے اثرات بھی کسی سونامی یا ہیرو شیما سے کم نہیں ہوتے۔ سال ہا سال گزر جاتے ہیں تباہی کے آثار مٹاتے مٹاتے، مگر پھر بھی وہ اثرات ہماری امیدوں‘ آرزوؤں کو اپاہج کر ہی جاتے ہیں۔
اب ادیوا عمر قدرے بہتر محسوس کر رہی تھی۔ اٹھ کر لاؤنج میں گئی، جہاں سب پہلے سے ہی اسی کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔
”ارے ادیوا کیسی ہو؟“ اب اشعر نے اسے آتا دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔
”جی بھائی! اب تو بہت بہتر فیل کر رہی ہوں۔ ابھی آنکھ کھلی تھی، تو سوچا کہ دیکھوں آپ سب کیا کر ہے ہیں۔“
مسز عمر فوراً سیب کاٹ کر ادیوا کے آگے رکھتے ہوئے بولیں۔
”اب شرافت سے یہ سارا ختم کرو۔ میں تمھارے لیے سوپ بنواتی ہوں۔ آج سے تمھاری کافی بند ہے ادیوا!“
وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے بے بس سی انھیں دیکھتی رہی۔ حادی نے فوراً ادیوا کو کچھ نیو ایکشن موویز کے ریلز ہونے کا بتایا اور کوشش کرنے لگا کہ اس کوکنوینس کرے، تو سب لوگ سینما چلیں، وہاں یہ سب اکثر جاتے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے گھر کا سارا سسٹم ہی بدل گیا تھا۔
ادیوا نے شجاع ماموں کی فیملی کے آنے پر سینما جانے کا پرومس کیا، تو حادی کو کچھ تسلی ہوئی۔ اب وہ سب مل کر ٹی وی سیریل دیکھنے لگے، جو وہ اکثر دیکھا کرتے تھے، آج اس کی شاید آخری قسط تھی۔ ڈرامے کے اختتام پر ہیرو اور ہیروئن کی شادی کا سین تھااور وہ دیکھتے ہوئے ادیوا بہت uncomfortable محسوس کر رہی تھی خود کو۔ مسز عمر کا دھیان اسی کی طرف تھا اور وہ اس کی کیفیت کو محسوس کر رہی تھیں۔ ادیوا نے سر درد کا بہانہ کیا اور سونے کے لیے کمرے میں آ گئی۔ اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھنا اور نارمل رہنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ شاید دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام۔
تھوڑی دیر کے بعد مسز عمر سوپ لے کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئیں۔
”ادیوا بیٹا! یہ پی لو تا کہ پھر میں آپ کو میڈیسن دے سکوں۔“
وہ کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتی تھیں، جو ادیوا کو ذہنی ٹارچر دے۔
ادیوا نے خاموشی سے سوپ پیا۔ میڈیسن کھائی اور لیٹ گئی۔ مسز عمر نے اس کے کمرے کی لائیٹ آف کی دروازہ دھیرے سے بند کیا اور وہ واپس کچن میں چلی گئیں۔
اب ادیوا مسلسل اس ٹی وی سیریل کے بارے میں سوچتی رہی، یہاں تک کہ اس کو صفان علی کے ساتھ اپنی شادی کا دن یاد آگیا۔