صفان علی نے جُھک کر اُس کی مدد کرنا چاہی، تو اتنے میں وہ اٹھ کر والٹ بند کرنے لگی اور کاؤنٹر کی طرف چلی گئی۔ ایک نظر اُٹھا کے بھی اُس نے صفان علی کونہیں دیکھا، مگر وہ اُسے مسلسل دیکھتا رہا کہ اچانک اس کی نظر زمین پر گرے آئی ڈی کارڈ (ID) پر پڑی۔ اُس نے فوراً اٹھایا اور کاؤنٹر پر کھڑی ادیوا کے فارغ ہونے کاانتظار کرنے لگا جو کہ Cashier سے باتکرنے میں مصروف تھی اور پھر اپنا کام ختم کرکے جیسے ہی وہ پیچھے مڑی۔ صفان علی اُس کی نظروں کا منتظر کھڑا تھاکہ اُٹھیں اور اُس کے چہرے پہ ٹھہر جائیں، چاہے وہ ٹھہراؤ ایک لمحے کا ہی ہو۔
”Excuse me!“
ادیوا ایک دم سے رُکی اور سامنے کھڑے نوجوان کی طرف متوجہ ہوئی۔ ایک عجیب سی کشش تھی اس کی شخصیت میں، گہری کالی آنکھیں اور چہرہ سورج سے پھوٹتی کرنوں کی طرح روشن تھا۔ بلیک ڈریس پینٹ اور وائٹ شرٹ کے اوپر بلیک بلیزر۔ کسی بزنس امپائر کے مالک کی طرح اُس کے سامنے کھڑا تھا، جو کہ بہت سلجھے اور عاجز انداز میں اس سے مخاطب ہوا۔
”آئی تھینک…… یہ ID Card آپ کا ہے، غالباً؟“
ادیوا اُس کی آنکھوں کے حصار سے نکلتے ہوئے ایک دم چونکی۔ وہ جیسے کسی گہرے شاک سے نکلی ہو۔ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اتناکنفیوز نہیں ہوئی، جتنا اس وقت ہورہی تھی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اُس کے ہاتھ سے ID Card لیا اور بہت دھیمے انداز میں تھینک یو بول کے نظریں جھکا دیں۔ ادیوا کو لگا کہ اگر ایک بھی پل وہ اُس کی آنکھوں میں اور دیکھے گی، تو وہ ان آنکھوں کی غلام ہو جائے گی۔
اُس کے لیے صفان علی کا چہرہ کوئی عام چہرہ نہیں تھا۔
اُسے اچھی طرح یاد تھا، وہ آنکھیں کسی سے ملتی تھیں، وہ چہرہ وہ خدوخال ہو بہو ویسے تھے جیسے اُس نے ہمیشہ سے آئیڈیلائز کیے تھے۔ وہ کبھی بھی ہر لڑکی کی طرح کسی شہزادے کا خواب نہیں دیکھتی تھی، مگر جب بھی وہ اس بارے میں سوچنے لگتی کچھ ایسے ہی نقوش اسے بنتے دکھائی دیتے۔ وہ اسی لیے تو چونک گئی تھی اسے دیکھ کے کہ جیسے خیالوں سے نکل کے ایک دم وہ اُس کے سامنے آکھڑا ہو۔
بنک سے گھر تک آتے ہوئے وہ اُسی کی نظروں کے طلسم میں گرفتار رہی، سارا وقت بے یقینی میں یہی سوچتی رہی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ بالکل وہی انسان وہی آنکھیں، وہی چمکتا چہرہ، ویسے ہی خدوخال یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
٭٭٭
ادیوا انھی لمحوں کی گہرائی میں تھی کہ اچانک گیٹ پر گاڑی کے ہارن نے اُسے چونکا دیا۔ چونکہ وہ بالکونی پر تھی اس لیے فوراً متوجہ ہوئی۔ حادی اب ریسٹ ہاؤس کے اندر آتا ہوا دکھائی دیا۔ ادیوا نے فوراً کمرے کا رُخ کیا کیوں کہ وہ حادی کو یہ تاثر ہرگز دینا نہیں چاہتی تھی کہ وہ رات کے اس پہر تک جاگ رہی ہے اور وہ بھی اس طرح سے بالکونی میں اکیلے بیٹھ کر۔
اب وہ بیڈ پر آکر لیٹ چکی تھی، مگر ذہن تھا کہ ماضی میں اُلجھتا چلا گیا۔
اُسے صفان علی سے وہ ملاقات یاد آئی، جب وہ اپنی یونیورسٹی فرینڈ ماہا کے ساتھ Outlet Mall گئی۔ وہ دونوں یونیورسٹی کے سپرنگ فیسٹیویل کے لیے کچھ ڈریسز لینے آئی تھی۔ ماہا چوں کہ ادیوا کی بہت پرانی اور کلوز فرینڈ تھی، اس لیے ادیوا پہلے ہی اُسے صفان علی کے بارے میں بتا چکی تھی۔ وہ ایک لمحے کی ملاقات اُس کے لیے کسی خواب کی طرح تھی۔ماہا سے باتیں کرتے کرتے اُسے یاد آیا کہ اُسے حادی کی برتھ ڈے کے لیے کوئی اچھاسا تحفہ بھی لینا تھا۔ چنانچہ دونوں نے ایک مشہوربرانڈ کی Outlet کا رُخ کیا۔ باہر ڈسپلے گلاس سے اُسے وہی مانوس سا چہرہ پھر دکھائی دیا۔ وہ کوئی اور نہیں صفان علی تھا جو کہ اُس آؤٹ لٹ کا منیجر تھا اور اس روز وہ بینک بھی اپنی Outlet کے ہی کچھ چیک ڈیپازٹ کر وانے آیا تھا ، بلیک ڈریس پینٹ کے ساتھ بلیک شرٹ اور Blue Blazer، وہ کسی شہزادے سے کم نہیں تھا۔ ادیوا کا دل ایک دم سے اتنا تیز دھڑکا جیسے بس آخری بار دھڑک رہا ہو۔ اُس نے ماہا کا ہاتھ زور سے پکڑا، چاہا کہ کچھ بولے مگر الفاظ تھے کہ زبان سے ادا ہی نہ ہو پائے۔ ہاتھ کے اشارے سے اُس نے ماہاکو ڈسپلے گلاس سے پرے کھڑے شخص کی طرف متوجہ کروایا۔
”ماہا! یہ وہی ہے۔“
ماہا جو اُس کی حالت سے پہلے ہی تشویش میں تھی، چونک کر ڈسپلے گلاس سے جھانکا، تو وہی شخص اپنے ورکرز کو کچھ ہدایات دیتا نظر آیا۔
”ادیوا! He is so handsome۔“
ماہا کے منہ سے یہ الفاظ بے اختیار نکلے اوراتنے میں ادیوا نے اس کا ہاتھ پکڑا اور واپس مڑتی ہوئی لے جانے لگی۔
”چلو یہاں سے۔“ ماہا نے اصرار کرتے ہوئے پوچھا۔
”لیکن کیوں ادیوا!“
”بس ماہا! میں اُس انسان کی نظروں سے ہار جاتی ہوں،میں ادیوا عمر، جو زندگی میں کبھی کسی کے سامنے کنفیوز نہیں ہوئی۔ مگر جب وہ سامنے أتاہے، تو مجھے لگتا ہے میرا وجود پانی کی طرح بہہ جائے گا۔ میں ایک لمحہ بھی اُس کی آنکھوں میں دیکھوں گی تو وہ میری روح پہ قابض ہو جائے گا۔ بس تم چلو یہاں سے۔“
ابھی وہ اسی بحث میں تھیں کہ صفان علی سامنے آکھڑا ہوا۔
”ارے ادیوا! آپ؟“
ادیوا جیسے پتھر ہوگئی، اُس کے منہ سے اپنا نام سنتے ہی اُسے یوں لگا کسی خواب نے سچ مچ آنکھیں کھول لی ہوں اور تعبیر بن کے اُس کے سامنے آکھڑا ہو۔
”آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟“ ہوش سنبھالتے ہی اُس نے پہلا سوال یہ کیا۔
”اوہ، سوری …… وہ اُس دن آپ کے ID Card سے پڑھا تھا۔ بائے دا وے! میرا نام صفان ہے صفان علی۔ میں یہاں کا آؤٹ لٹ منیجر ہوں۔“
”آپ کو کچھ چاہیے تھا۔ آئیے اندر۔“
”نہیں …… وہ Actually …… پھر کبھی۔“ ادیوا بوکھلائی سی بولی۔
”ارے! ایک کپ کافی تو پی جاسکتی ہے نا۔“ صفان علی قدرے محتاط انداز میں مخاطب ہوا۔”یہ ساتھ میں ہی ایک بہت اچھا کافی chain ہے اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو؟“
ماہا نے ادیوا کو آنکھیں دکھائیں اور ساتھ ہی بولی۔
”جی کیوں نہیں …… چلو ادیوا! بہت مَن ہو رہا ہے کافی کا۔“
ادیوا ماہا کی اس حرکت سے قدرے حیران ہوئی۔۔
کافی پیتے ہوئے مسلسل صفان کی آنکھیں ادیوا پر جمی رہیں۔ وہ ماہا سے بات کرتا اورنظریں ادیوا کی طرف رکھتا۔ ادیوا چاہ کر بھی کھل کے بات نہ کرسکی، کبھی کپ پر نظریں جما لیتی، تو کبھی ماہا کی طرف متوجہ ہوتی۔ وہ بہت ڈیپلی فیل کرسکتی تھی کہ صفان علی کا دیکھنا کسی خطرے سے خالی نہیں تھا وہ اُسکی روح پر قابض ہونا چاہتا تھا، فارمل گفتگو کے بعد وہ ادیوا سے مخاطب ہوا۔
”آپ اتنی چپ چپ نارمل لائف میں بھی رہتی ہیں یا یہ اعزاز آپ صرف مجھے بخش رہی ہیں۔“
اور ماہا بے اختیار ہنسی۔
”جی بس ایسے ہی رہتی ہوں۔“
دل تو چاہ رہا تھا کہ اُس سے ڈھیروں باتیں کرے اور سب سے پہلے اُس کے یوں دیکھنے کی وجہ پوچھے۔
لیکن مشرقی لڑکیاں شاید ایسی ہی ہوتی ہیں۔ چاہے جتنے بڑے گھر میں براٹ اپ ہوں ویلیوز تو نہیں بدلتیں۔ یہ چیزیں تو خون میں شامل ہوتی ہیں اور ادیوا چاہ کے بھی کچھ نہ پوچھ سکی۔
اُٹھتے اُٹھتے اس نے ماہا اور ادیوا کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا اورکہا۔
”Please کبھی بھی کچھ بھی ہیلپ چاہیے ہو، تو مجھ سے رابطہ کیجیے گا، مجھے خوشی ہوگی۔“
اور پھر وہ لوگ وہاں سے نکل آئے۔
ڈرائیور گاڑی میں انتظار کررہا تھا، اُنھیں آتا دیکھ کر نکل کر دروازہ کھولا اور ادیوا کو مسز عمر کی کال کابتایا۔
”بی بی فون کررہی تھیں …… آپ کا نمبر بند تھا، تو انھوں نے مجھیکال کی۔“
ادیوانے موبائل دیکھا، تو نیٹ ورک ڈاؤن تھا۔ خیر وہ ابھی آدھے راستے پہنچے کہ ادیوا کو اپنا نوٹس فولڈر دکھائی نہ دیا اور ایک دم ماہا پہ چلا کر بولی۔
”اوہ نو ماہا! میرا فولڈر وہ کافی شاپ پر ……“
”واٹ! اتنی غیر ذمہ داری …… ادیوا! وہ بھی اتنی اہم چیز کے لیے۔ اب تو پہنچنے میں ٹائم لگے گا اور اگر وہ Misplace ہوگیا تو؟ تمھیں پتہ ہے نا تمھاریCost accounting کے سارے نوٹس اسی میں ہیں۔ خیر اب تم ایک کام کرو، وہ مسٹر آئیڈیل کو فون کرو تاکہ تمھارا فولڈر سیو ہینڈز میں ہو۔“
ادیوا نے جلدی سے اسی ٹینشن میں کارڈ نکالا اور اُس پر درج موبائل نمبر ملایا۔
”ہیلو…… السلام علیکم صفان علی ہیئر۔“
ادیوا ایک دم سے گھبرا کر بولی۔
”جی! وہ میرے نوٹس ……“
ابھی اس نے اپنی بات مکمل نہ کی تھی کہ صفان علی کے ہنسنے کی آواز آئی۔
”ارے! آپ تو بہت غیر ذمہ دار ہیں۔ اتنی اہم چیز آپ بھول گئی۔
By the way آپ کے جانے کے بعد میری نظر پڑی تھی فولڈر پر اور میں اٹھا لایا تھا۔“
ادیوا کو اپنی ہتھک محسوس ہوئی۔ وہ چپ سی رہ گئی۔ کچھ بھی تھا وہ صفان سے اتنا بے تکلف نہیں تھی کہ وہ اتنی بڑی بات کہہ جاتا۔ خیر ڈرائیور گاڑی واپس لے گیا اور اس کی Outlet سے ماہا فولڈر لے کرآئی۔ ادیوا خاموش گاڑی میں بیٹھی رہی۔ بہت زیادہ حساس ہونا اور پھر وہ بھی ایسے معاملوں میں بہت زیادہ تکلیف دیتا ہے۔
شام کو وہ سو کر اٹھی، تو موبائل پر صفان کا میسج دیکھ کر حیران رہ گئی۔
”میں شرمند ہوں، مجھے لگتا ہے آپ نے میری کسی بات کو مائینڈ کیا۔ اگر ایسا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔“
رگارڈز، صفان علی!
ادیوا جانے کتنی بار وہ میسج پڑھ چکی تھی اور پھر ہمت کرکے اُسے رپلائے کیا۔
”جی نہیں صفان علی! مجھے کچھ بُرا نہیں لگا اور میں غیر ذمہ دار ہرگز نہیں ہوں۔“
ادیوا کے اس میسج سے وہ بات واضح طور پر ظاہر تھی، جو اُسے ناگوار گزری۔ کچھ دیر تک اسی طرح سے میسجز کے تبادلے ہوتے رہے۔ یہاں تککہ ادیوا صفان کے لیے اپنا دل صاف کرچکی تھی۔
٭٭٭
”یہ ماضی بھی کتنا بے رحم ہوتا ہے نا ں! یاد آتا ہے، تو یہ بھی نہیں سوچتا کہ یاد کرنے والوں کی تکلیف کی شدت کتنی ہے؟ جن رشتوں کاانجام اچھا نہ ہو، تو ان کی اچھی یادیں بھی ڈھیروں ڈھیر رُلا جاتی ہیں۔“
یہ سب سوچتے سوچتے ادیوا آدھی سے زیادہ رات آنکھوں میں کاٹ چکی تھی۔ آنکھیں بھیگائے اب اسے سونے کی کوشش کرنا تھی۔مگر ساتھ ساتھ وہ ان خوابوں سے بھی خوفزدہ تھی، جو مسلسل اذیت بن کے اس کے تخیل پہ چھا جاتے تھے۔اسے اپنی ماما کی بات یاد آئی۔
”جلدی سونے کی کوشش کیا کرو ادیوا! خواب دیکھنے ضروری ہوتے ہیں تا کہ انسان میں نئی نئی امنگیں جا گتی رہیں۔“
لیکن وہ نہیں جانتی تھیں شاید،جن آنکھوں میں پرانے خوابوں کی کرچیاں چبھتی ہوں ناں! ان آنکھوں میں نئی امنگوں والے خواب نہیں ابھرتے۔وہ آنکھیں سو بھی جائیں، تو بھی خواب ٹوٹی امنگوں کے ہی دیکھتی ہیں۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد سب Hicking کے لیے ریڈی ہوئے۔
”حادی بیٹا! اتنا لیٹ آئے آپ رات کو۔“ عمر حیات نے قدریتشویش کا اظہار کرتے ہوئے حادی سے پوچھا۔
”پاپا! وہ بس یونیورسٹی کے فرینڈز تھے، تو ہم لوگ لیٹ نائٹ باربی کیو کرتے رہے۔“
”اوہ! اچھا چلو کوئی بات نہیں۔“
اب وہ لوگ نتھیا گلی کی طرف روانہ ہوئے۔ ادیوا کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں ان سب راستوں سے، مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ اب یادیں تکلیف دیتی ہوں، تو سہنی تو ہیں۔
کچھ ہی دیر بعد وہ نتھیا گلی پہنچ چکے تھے۔ یہاں کی خوبصورتی کی الگ ہی بات تھی۔ پہاڑوں پر گھر ادیوا کو کسی محل سے کم نہ لگتے تھے، کہیں چھوٹے چھوٹے کچے گھر زندگی کی بہت بنیادی ضرورتوں سے بھی خالی ہوں شاید، مگر ان کی خوبصورتی اور ان گھروں کا سکون کسی بادشاہ کے محل سے بھی زیادہ تھا۔ اس کی بڑی خواہشوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اُس کا گھر پہاڑوں کے دامن میں ہو، جہاں سے وہ بالکونی پہ آئے، تو سامنے جھیلیں ہوں، جھرنے ہوں، اسے ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ وہ ایسی ہی جنت میں رہے۔ اس انسان کے ساتھ جو اس کا ہم سفر ہو۔
”اچھا تو میری بہنا! پہاڑ والے گھروں میں کھوئی ہوئی ہے ……
دیکھو!مجھے پتہ چل گیا۔“