شادی کسی بھی انسان کی زندگی کا حسین موڑ ہوتا ہے۔ کسی مفکر نے کہا تھا کہ شادی کے بعد انسان مکمل ہوتاہے۔ میری شادی میں کہہ سکتے ہیں کہ ایک دوسال کی تاخیر ہوگئی۔یعنی اٹھائیس سال کی عمر میں میری شادی ہوئی۔ جب ایم اے اور ایم فل اور اردو پنڈت سے فراغت ہوگئی اور گھر پرپوسٹ مین نے یوجی سی کی جانب سے روانہ کردہ این ای ٹی لیکچررشپ کی اہلیت کے امتحان میں کامیابی کا خط لا کر دیا تو گھر والوںمیں مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ آج نہیں تو کل ملازمت تو مل جائے گی۔ اکثر نوجوان پڑھائی کے دوران کسی نہ کسی لڑکی کو دل دے بیٹھتے ہیں یا وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ کس طرح کی لڑکی سے ان کی شادی ہو کیوں کہ بات شریک حیات اور زندگی بھر کے ساتھی کے انتخاب کی ہوتی ہے۔ میرے ساتھ عشق و عاشقی والا معاملہ نہیں رہا۔ ظاہری شناخت کے اعتبار سے میں مدرسے میں پڑھا ہوا داڑھی سر پر ٹوپی کرتا پاجامہ پہننے والے نوجوان سے شائد کوئی لڑکی امید نہ رکھے کہ یہ عشق و عاشقی میں مبتلا رہیں گے ایم اے اور ایم فل کے دوران کچھ ساتھ لڑکیاں تھیں لیکن چونکہ وہ ہم عمر یا عمر میں زیادہ تھیں یا اتنی خوبصورت نہیں تھیں کہ کسی کو شریک حیات بنایا جائے۔ اردو پنڈت کے دوران ایک سنجیدہ مزاج لڑکی کے بارے میں خیال آیا کہ ان سے بات کی جائے لیکن اگلے دن اس لڑکی نے اپنی سہیلیوں کو اپنی منگنی کی تصاویر دکھانی شروع کی تو پتہ چلا کہ عشق کی چنگاری جلنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔ گھر میں بڑے بھائی اور بہنوں نے ذکر کرنا شروع کردیا کہ اب میری شادی کردینی چاہئے ۔دادی ماں کا کہنا تھا کہ شادی کرنے سے رزق کھلتا ہے۔ خاندان کی ایک مامی اور بڑے بھائی نے والد صاحب کے ماموں اکرام صاحب کی بیٹی کی جانب نشاندہی کی۔ انہیں گھر بلایا گیا۔ وہ دادی ماں کے بھائی تھے ۔ اکرام ماموں میرے والد ایوب فاروقی صاحب سے بھی بہت عزت سے ملتے تھے جب میرے لیے ان کی لڑکی کے رشتے کی بات کی گئی تو اکرام ماموں نے فوراً ہاں کردی۔ ان کے ہاتھ میں میرا ایم فل کا مقالہ دیا گیا تو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس وقت تک میری کوئی خاص ملازمت نہیں تھی۔ بہرحال رسم کی تاریخ طے ہوگئی اور ہم سب لوگ اکرام ماموں کے گھر دعوت میں جاکر رسم کی تقریب ادا کئے ۔ اور میرا رشتہ اکرام ماموں کی لڑکی عذرا سے طے ہوگیا۔ میری ہونے والی شریک حیات کے بارے میں سعیدہ چاچی نے میرے والد سے کہا کہ آپ کی ہونے والی بہو نہایت خوبصورت با اخلاق اورشاعری کی دلدادہ ہے۔ رسم کے کچھ مہینے بعد نومبر کی ۱۵ تاریخ سنہ ۱۹۹۶ء کو میری شادی طے ہوئی۔شادی کے لیے ہم لڑکے والوں کی طرف سے کوئی مطالبات نہیں تھے۔ بمبئی کے ماموں سید واحد علی واحد نے مجھے پندرہ ہزار رقم بہ طور قرض دی کہ شادی کے اخراجات میں استعمال کرلوں۔ شادی کے اخراجات میں لڑکی والوں کو اسی ہزار اور ہمارے پینسٹھ ہزار خرچ ہوئے اور شادی اور ولیمہ کی تقریب ہوگئی۔میرے نکاح کی تقریب میں ہمارے محلے کے بزرگ تبلیغی جماعت کی نامور شخصیت جناب عابد خان صاحب نے بیان کیا اور امیر تبلیغی جماعت جناب نعیم اللہ خان صاحب نے دعا کی۔ خاندان کے سبھی احباب اور اساتذہ میں جناب ڈاکٹر انور الدین صاحب‘ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی صاحب‘جناب معین صاحب یونیورسٹی آف حیدرآباد‘ڈاکٹر حبیب نثار صاحب اور دوست احباب نے شرکت کی۔نکاح کی تقریب مہدی پٹنم کی مسجد میں ہوئی۔ قریب میں واقع کمیونیٹی ہال میں دوست احباب کے لیے چائے بسکٹ کا نظم رکھا گیا۔ اور بعد میں گھر کے احباب کے لیے دعوت کا۔ ولیمہ تقریب ٹولی چوکی میں انجام پائی۔ میری اہلیہ میرے لیے خوش قسمت ثابت ہوئیں۔کیوں کہ رسم کے دوسرے دن مجھے لیڈنگ ہائی اسکول گولکنڈہ میں اردو ٹیچر کی ملازمت ملی اور شادی کے دن میں نے جونیر لیکچرر اردو کا فارم داخل کیا تھا۔ اور ایک سال بعد مجھے جونیر لیکچرر کی ملازمت ملی۔ شادی کے کچھ ماہ بعد ملازمت کے سلسلے میں مجھے اپنی اہلیہ کے ساتھ ناگر کرنول جانا پڑا پھر سات سال بعد تبادلہ کے بعد سنگاریڈی وہاں سے چھ سال بعد نظام آباد اور پھر ہم حیدرآباد منتقل ہوئے۔ شادی کے دیڑھ دو سال بعد پہلے لڑکے اقدس فاروقی معاذ کی پیدائش ہوئی۔ دو سال بعد دوسرے لڑکے فراز چار سال بعد تیسرے لڑکے سعد اور حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد بیٹی امیمہ کی پیدائش ہوئی۔ گھر کی دیکھ بھال امور خانہ داری اور گھر میں اجتماع کا انعقاد اور بچوں کی ضروریات کی تکمیل میں اہلیہ نے بھر پور کردار ادا کیا۔ بچے اب بڑے ہوچکے ہیں۔ اور میری اہلیہ کو احساس ہے کہ بچوں کو بہت خدمت ہوچکی ہے اب کچھ آرام ملنا چاہئے اس لیے بڑے لڑکے کی شادی جلد کردی گئی۔ بہو ازکیہ جناب اسلم نذیر صاحب پرنسپل ریذیڈینشیل اسکول کی بیٹی ہیں۔ بڑے بیٹے نے اپولو میڈیکل کالج سے فزیو تھیراپی کورس کیا ہے ۔فراز نے بی کام کے بعد ایم بی اے میں داخلہ لیا ہے اور وہ ویڈیو ایڈیٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ تیسرے لڑکے سعد نے دسویں تک تعلیم حاصل کی اور حفظ قرآن کی تکمیل کر رہے ہیں بیٹی امیمہ پینٹنگ میں مہارت رکھتی ہیں ۔ آٹھویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے اور اللہ سے یہی دعا رہتی ہے کہ صحت و عافیت کے ساتھ ایمان پر قائم رہتے ہوئے زندگی کا خاتمہ ہو اور بچے اپنے خاندان کانام روشن رکھیں۔