۱۹۸۲ء میں آغا خان اسکول سے درجہ اول میں ساتویں جماعت کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد میرا داخلہ مقامی گورنمنٹ ہائی اسکول جو قلعہ ہائی اسکول کے نام سے مشہور ہے وہاں ہوا۔ میرے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد نے بھی اس اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وقت دھاروگلی میں فخر ملت اسکول کے نام سے ایک خانگی اسکول بھی چل رہا تھا اور ہمارے پرائمری اسکول کے کچھ ساتھی وہاں داخل ہوئے تھے لیکن گھر میں خانگی مدارس میں پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ اس لیے سرکاری اسکول میں داخلہ ہوا۔ آٹھویں جماعت میں ہمارے اساتذہ میں جناب قادر صاحب‘نجم الدین صاحب‘ معز صاحب غفار صاحب سری راملو صاحب اور شمیم میڈیم تھیں۔ قادر صاحب حساب پڑھایا کرتے تھے۔ نجم الدین صاحب فزکس طبعیات‘معز صاحب اردو اور راملو صاحب انگریزی پڑھایا کرتے تھے جب کہ شمیم میڈیم حیاتیات بائیو لوجی پڑھایا کرتی تھیں آٹھویں اور نویں میں کچھ خاص تعلیم نہیں تھی۔ سرکاری مدرسہ کبھی استاد غائب تو اکثر لڑکے غائب رہا کرتے تھے اسکول کے اوقات صبح آٹھ تا ساڑھے بارہ تھے میں بھائی صاحب کی پرانی ہیرو سائیکل سے قلعہ اسکول جاتا تھا جو تقریبا دو کلومیٹر دور کا فاصلہ تھا۔ اسکول قلعہ کے قریب تھا قلعہ کا تالاب اور گرائونڈ جہاں اکثر ہمارے ساتھی کبڈی کھیلا کرتے تھے پاس میں گنے کی فیکٹری تھی اور گنے کی کاشت کے سیزن میں ہمارے ساتھی بنڈیوں سے گنے چرا کر اسکول کے پیچھے قلعہ کے تالاب اور جیل کے پاس بیٹھ کر گنے کھایا کرتے تھے۔ قادر صاحب معز صاحب بچوں کو منع کرتے کہ چوری کا مال نہیں کھانا چاہئے۔ لیکن بچپن میں شیطان بچوں پر غالب رہتا تھا۔ میرے ہم جماعت ساتھیوں میں آصف عظمت‘ اسلم لوہیا‘صدیق ‘ سہیل پرویز اور اعظم وغیرہ تھے۔ اس زمانے میں ایس ایس سی کسی حال کامیاب کرنا ہر بچے پر ایک پہاڑ ہوا کرتا تھا۔ایس ایس سی میں پڑھائی میں خاص توجہ دی جاتی تھی۔ سال بھر میں آصف اور عظمت نے قادر صاحب کے گھر دوپہر تین تا چار ریاضی کا ٹیوشن پڑھا۔ کچھ عرصہ جناب نجم الدین صاحب کے گھر فزیکل سائنس کا ٹیوشن پڑھا ۔ کلاس میں شمیم میڈیم جب پڑھاتی تھیں تو طلباء انہیں زلف مختصر کہہ کر پکارتے تھے کیوں کہ بال کم ہونے کے سبب وہ چونڈا ڈالتی تھیں ان کے بال گھنگریالے ہوا کرتے تھے۔قادر صاحب مذاق کرتے کرتے پڑھاتے لیکن طلباء کو نقل مارنے نہیں دیتے تھے۔ امتحانا ت کی تیاری کے لیے روز رات میں آصف عظمت کے دھارو گلی میں واقع گھر میں ہم لوگ مشترکہ پڑھائی کرتے۔ نجم الدین صاحب امتحان کے دنوں میں ہمارے پاس پہنچ کر ہماری تیاری کراتے۔ ایس ایس سی کا امتحانی مرکز بوائز ہائی اسکول خلیل واڑی پڑا۔ ابتدائی امتحانات اچھے گزرے سائنس اور ریاضی کے امتحانوں میں کچھ نقل چلی اور جب امتحان کا نتیجہ آیا تو ہمای جماعت کے سارے طلباء کا نتیجہ وتھ ہیلڈ میں رکھا گیا۔ معلوم ہوا کہ ہمارے کچھ پرچے جانچنے سے رہ گئے تھے پندرہ دن بعد نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ ۳۹۲ نشانات کے ساتھ میں نہ صرف کلاس میں بلکہ نظام آباد کے اردو میڈیم طلباء میں سرفہرست کامیاب ہوا ہوں۔مجھے یاد ہے کہ اختری مامی ہمارے گھر پہنچ کر مجھے پھول کا ہار پہنائی تھیں اور ساتھ میں گلاب جامن کا ڈبا لایا گیا تھا۔ نتیجہ آنے سے دو دن قبل بڑے بھائی صاحب جو حیدرآباد میں مقیم تھے انہوں نے بورڈ آف سکنڈری اسکول نامپلی سے میرا نتیجہ معلوم کرایا اور ٹیلی گرام کیا کہ پاسڈ ان فرسٹ ڈیوژن۔ نظام آباد میں ایس آئی یو کی جانب سے کامیاب طلباء کو نقد انعامات دئیے گئے شائد پہلے مرتبہ مجھے انعام میں سو روپے ملے تھے۔ میرے ساتھیوں میں اسلم لوہیا‘ آصف ‘عظمت‘ اعظم‘رحمٰن سب امتحان میں اول یا دوم کامیاب ہوئے تھے۔ اسلم لوہیا اس وقت نظام آباد کے نامور وکیل ہیں جب کہ اعظم نے ایم سی اے کی تعلیم حاصل کی اور اب امریکہ میں اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ عظمت کو عدالت میں نوکری ملی جب کہ آصف نے کچھ عرصہ انوارالعلوم کالج میں خدمات انجام دینے کے بعد سعودی عرب میں ملازمت کی دیگر ساتھیوں میں نظام الدین‘عاصم بن مسعود‘عارف‘قادر ‘فہیم سجاد وغیرہ نے زندگی کے مختلف شعبہ جاتی میں ترقی کی اور اکثر رابطے میں رہتے ہیں۔نظام آباد میں ہائی اسکول میں قیام کے دوران میں گھر کا ذمہ دار تھا بھائی صاحب پڑھائی کے لیے حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے۔ گھر کا سودا سلف لانا میری ذمہ داری تھی۔ ہر مہینہ جمشید ماموں کی دکان سے غلہ لایا جاتا تھا۔ گھر میں پکوان کے لیے مہینے میں ایک مرتبہ لکڑی کی ٹال سے لکڑی لائی جاتی تھی تیس روپیہ کنٹل ۔ محلے میں اعجاز صاحب کی دکان سے روزانہ کا سودا لایا جاتا تھا۔ گھر میں معاشی تنگی تھی۔ کبھی والدہ زاہدہ پھوپھو سے قرض لیتیں۔ کبھی کپڑے کی دکان پر ادھار رکھا جاتا تو کبھی اعجاز صاحب کی دکان پر۔کرکٹ کا شوق تھا ریڈیو پر کمنٹری سننے کے علاہ اس وقت جب ٹیلی ویژن نشریات کا نظام آباد میں آغاز ہوا تو کلکٹر آفس میں لگے رنگین ٹی وی پر ہم میچ دیکھا کرتے تھے بعد میں نانی کے گھر ٹیلی ویژن پر میچ اور وی سی آر پر پروگرام دیکھے جاتے تھے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ کھیلوں کا مجھے شوق کم ہی تھا اور اساتذہ مجھے کتابی کیڑا کہا کرتے تھے محلے کی جماعت اسلامی کی لائبریری میں روز اخبارات کا مطالعہ کرنا رسالہ نور پڑھنا اور بعد میں ابن صفی کے ناول اور رسالہ چہار رنگ ہزار رنگ پڑھنا معمولات زندگی کا حصہ تھا۔ نظام آباد کی لائبریری باپوجی واچنا لیہ بھی جانا ہوتا جہاں لوگ صبح سے شام تک اخبارات اور کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔بڑی بہن ا س لائبریری کی ممبر تھیں اور ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ مجھے ناول بدل کر لانے کے لیے کہا جاتا تھا جو ناول پڑھ لیے اس پر مخصوص نشان لگادئیے جاتے۔ عفت موہانی رضیہ بٹ کے ناول اس زمانے میں بہت پڑھے جاتے تھے۔تلک گارڈن کو باغ عام کہا جاتا تھا اکثر ہم لوگ تفریح کے لیے وہاں جاتے ۔شام میں وہاں ریڈیو اور اسپیکر پر اردو میںعلاقائی خبریں لگتی تھیں لوگ ان خبروں کو گارڈن میں بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔ تلک گارڈن میں واقع ہال میں میرے ماموں یعقوب علی اور امتیاز علی کی ولیمہ تقاریب بھی بڑی دھوم سے ہوئیں ان یادوں کے ساتھ ایس ایس کی تکمیل کے ساتھ میں حیدرآباد منتقل ہوگیا۔