ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اردو کے سپاہی ہیں۔ ان کی عملی زندگی اردو کے ایک ایسے مجاہد کی طرح ہے جس نے ناکامی نہیں دیکھی اور جہد مسلسل کے ساتھ زندگی کے عملی میدان میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیکچرر کے عہدے پر فائز ہونا اور بعد ترقی پرنسپل ڈگری کالج مقرر ہونا اردو کے طالب علموں کے لیے مثال ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے کمپیوٹر پر مہارت حاصل کی اور اردو کو کمپیوٹر سے جوڑنے میں مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ ایک ہمدرد انسان ہیں اردو کے حوالے سے نہ صرف مسلسل لکھتے رہتے ہیں بلکہ اردو والوں کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔یہی وجہہ ہے کہ آج اردو کے کئی طالب علم مختلف جامعات اور اسکولوں اور کالجوں میں سرکاری ملازمت پر ہیں ان سب کی رہبری و رہنمائی میں ان کا ہاتھ ہے ۔ ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی نے دس سے زائد کتابیں لکھیں ان کے مضامین رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے ہیں وہ اب مزاح نگار اور انشائیہ نگار بھی ہیں تحقیق کے میدان کے سپاہی ہیں کئی اسکالرس کو پی ایچ ڈی کراچکے ہیں۔ اب وہ اپنی آپ بیتی کے ساتھ پیش ہورہے ہیں۔ بہت عرصہ سے اردو کے کسی ادیب یا شاعر نے اپنی آپ بیتی پیش نہیں کی ہے۔لیکن ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی زندگی کی نصف صدی کے تجربات کو آپ بیتی کی شکل میں پیش کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند قدم ہے ۔کیوں کہ انسانی زندگی کے پچاس سال کے تجربات بھی اس قدر ہوتے ہیں کہ انہیں کتابی شکل میں پیش کردیا جائے تو یادوں کا اچھا خاصہ ذخیرہ جمع ہوجائے۔چونکہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو کمپیوٹر ٹائپنگ میں مہارت ہے اس لیے وہ تیزی سے مضامین اور کتابیں لکھ رہے ہیں۔میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو نظام آباد کے قیام سے جانتا ہوں گری راج کالج میں ان کا دور حرکیاتی رہا۔ اور اب حیدرآباد اور ظہیر آباد میں ان کی فروغ اردو خدمات مثالی ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ اس آپ بیتی میں پیش کردہ واقعات ضرور اہل اردو کے لیے رہبری و رہنمائی کا باعث ہوں گے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اس آپ بیتی میں تفصیل سے اپنے خاندان کا حال بیان کیا ہے اس سے خاندان کی تاریخ محفوظ رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان کا خاندان ایک علمی گھرانہ ہے جس کے افراد نے زندگی میں کافی شہرت حاصل کی۔ ان کے تعلیمی سفر کا حال اور ملازمت کے ادوار کا حال بھی اردو پڑھ کر ترقی کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کے لیے رہبری کا باعث ہوگا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی اور سماجی رویے اوردیگر موضوعا ت پر جو تجربات زندگی بیان کیے ہیں امید ہے وہ ضرور پسند کیے جائیں گے۔ اس آپ بیتی میں ایک داستان گو اور قصہ گو کی کیفیت ہے۔اسلوب بیان سادہ اور دلچسپ ہے ۔ اس آپ بیتی میں شہر نظام آباد اور حیدرآباد کی گزشتہ نصف صدی کی سماجی اور تہذیبی داستان کی جھلک بھی مل جاتی ہے۔ جس طرح ماضی میں اردو کے ادیب آل احمد سرور نے اپنی آپ بیتی’’ خواب باقی ہیں‘‘ اور مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی آپ بیتی’’ یادوں کی برات‘‘ پیش کی اور ادب کی دنیا میں مقبول ہوئے اردو کے شعرا اور ادیب بھی ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی طرح پہل کرتے ہوئے اپنی زندگی کے حالات کتابی شکل میں سوانحی انداز میں محفوظ کرتے جائیں تو اردو ادب پر بڑا احسان ہوگا۔ میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ان کی آپ بیتی’’پل دوپل کی زندگانی‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس امید کا اظہار کرتا ہوں کہ اس آپ بیتی کا ادبی حلقوں میں خیر مقدم ہوگا اور نئی نسل کے نوجوان ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی زندگی کے واقعات سے اپنے لیے روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔
ڈاکٹر محمد ناظم علی