مذہب اسلام دنیا کا سب سے اچھا مذہب ہے لیکن اس کے ماننے والے مسلمانوں پر یہ الزام ہے کہ اس کے پیروکار سب سے برے ہیں۔ اللہ کا کرم ہوا کہ اس نے بغیر مانگے اسلام کی دولت سے سرفراز کیا ۔ ایک ایسے ماحول میں رکھا جہاں حق کی شناخت ہوتی ہے اور فضول بدعات سے بچا جاتا ہے۔نظام آباد میں بچپن کے ایام میں پھولانگ کی مدینہ مسجد ‘مدرسہ حفاظ کی تعلیم اور مدرسے کے سالانہ جلسوں میں مولانا عاقل صاحب کے بیانات‘پھولانگ کی مسجد میں تبلیغی جماعت کے ماحول اور ایس آئی او کی جانب سے نوجوانوں کو اسلام پر چلنے کی دعوت یہ وہ ماحول تھا جس نے شروع سے اچھی اسلامی قدروں کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا۔ آٹھویں جماعت تھا گرمیوں کے اختتام کے بعد ماہ اگسٹ تھا جب میری روزہ رکھائی ہوئی تھی اس کے بعد اللہ کے فضل سے آج تک ماہ رمضان کے روزے بلا ناغہ رہنے کا شرف ملا۔ پھولانگ کی مسجد میں حافظ فطین اشرف صدیقی کا دوچار سال تک رمضان میں قرآن سننے کا موقع ملا۔ حافظ عرفان صاحب کے بڑے بھائی حافظ غفران احمد کا بھی قرآن سنا۔ حافظ عرفان صاحب میرے حفظ کے پہلے استاد تھے۔ ان کی مسجد اوپر ٹیکری میں جاگنے کی راتوں کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ تمام لوگ امام صاحب کے ساتھ بیان سننے کے بعد رات میں جماعت سے صلوۃ التسبیح کی نماز پڑھا کرتے تھے رات دو بجے بعد تہجد ہوا کرتی تھی اور اکثر سحر کے انتظام کے ساتھ اگلے دن روزہ رہنے کا اہتمام ہوا کرتا تھا عید کی نماز عید گاہ میں پڑھی جاتی تھی اس کے لیے محلے سے لاریوں میں بچے بڑے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ جدید عید گاہ قلعہ جایا کرتے تھے ایک دوسال ماموں کی پیلی گاڑی جسے ہم لوگ پیلا ڈبا بولا کرتے تھے یہ اصل میں ماچس ڈالنے کی بند گاڑی تھی اس میں بیٹھ کر ہم عید گاہ جایا کرتے تھے واپسی میں ماموں عیدی دیا کرتے تھے اور ہمارے گھر بھی آیا کرتے تھے۔ جماعت والے جب بھی گلی میں گشت کے لیے آتے تو شریر بچے کہتے کہ اللہ میاں کی فوج آرہی ہے۔جامعہ مسجد کے خطیب مولانا عطا الرحمٰن صاحب کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوتا تھا۔ قرآن معنوں اور تفسیر سے پڑھنے کا اتفاق حیدرآباد میں ہوا ۔نظام آباد میں اسلامی ماحول کا اثر رہا کہ برائی سے بچتے رہے اور والدین کی فرماں برداری اساتذہ کا احترام اور خاندان کے بڑوں کا احترام ہوتا رہا۔ حیدرآباد میں ملے پلی مسجد میں جناب شوکت صاحب شیخ احمد صاحب کے پاس حفظ کی تعلیم چلتی رہی۔ معراج کالونی میں جناب عابد خان صاحب تمام محلے والوںکے امیر تھے وہ فجر میں تفسیر سناتے تھے اور اہم راتوں میں ان کا پہلا بیان ہماری مسجد میں ہوا کرتا تھا مولانا جما ل الرحمٰن صاحب کی صحبت اور ان کے بیانات نے بھی اسلام کے حقیقی مزاج کو سمجھنے میں مدد دی۔ مولانا کے ساتھ تبلیغی جماعت کے سفر میں بھوپال کی تاج المساجد ‘دہلی مرکز میں مولانا انعام الحسن صاحب‘مولانا زبیر صاحب‘مولانا احمد لاٹ صاحب‘مولانا میاں جی محراب جیسے اکابرین سے ملنے کا موقع ملا۔ شمالی ہند میں سہارنپور میں قیام کے دوران مولانا زبیر صاحب اور حکیم ننھو میاں سے ملاقات رہی۔ ہردوئی کے مدرسہ میں قیام کے دوران محی السنہ شاہ ابرارالحق صاحب کی مجالس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔قاری صدیق صاحب باندہ سے بھی مصافحہ ہوا۔حیدرآباد واپسی کے بعد معارف القرآن کے مکمل مطالعے اور استفادے کا موقع ملا۔معارف الحدیث‘ حلال و حرام‘آداب زندگی ‘فضائل اعمال‘فضائل اعمال حصہ دوم منتخب احادیث حیات الصحابہ اور دیگر اسلامی کتابوں کے مطالعے نے مذہب اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے میں مدد دی۔ والد صاحب کے زمانے میں حیات محمد ﷺ اس محمد ہیکل کتاب کو پڑھنے اور اس پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا۔ بعد میں سیرت النبی ﷺ اور پیارے نبی کی پیاری سنتیں کتاب ترتیب دی۔ مدرسہ میں تعلیم کے دوران تعلیم السلام کی مکمل جلدین پڑھیں۔ اسکول کے زمانہ میں در یتیم کتاب پڑھی اور اس کتاب کے مطالعے کی بنیاد پر سیرت النبی ﷺ کے تحریری مقابلوں میں بھی انعام بھی ملا۔ تبلیغی دورے کے سلسلے میں اپنے ہم زلف جناب سعید حسین صاحب سابق پرنسپل گورنمنٹ جونیر کالج ابراہیم پٹنم کے ساتھ دہلی میں وقت گزرا۔جناب متین بھائی ٹیچر کے ساتھ تانڈور میں اور میرے برادر نسبتی جناب حافظ ارشاد صاحب کے ساتھ بیڑ اورنگ آباد کا سفر رہا۔مقامی طور پر مسجد کے اجتماعات اور تعلیم میں شرکت ہوتی رہتی ہے مشاہدہ ہے کہ فی زمانہ ایمان کی حفاظت اور ایمان پر چلنے کے لیے تبلیغی جماعت سے وابستگی ضروری ہے کیوں کہ اس وابستگی سے انسان عملی طور پر اعمال سے جڑا رہتا ہے اور دعوت دین کی ذمہ داری بھی نباہ سکتا ہے افراط و تفریط کے زمانے میں ایک دوسرے سے شکایت کرتے رہنے کے بجائے انسان عملی طور پر دین سے جڑا رہے یہ اہم ہے۔ سنگاریڈی میں قیام کے دوران جب میری ملازمت گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد پر تھی ۲۰۰۸ء میں حج کمیٹی کے قرعہ کے ذریعے جب میرا اور اہلیہ کا نام نکلا تو اللہ کے فضل وکرم سے حج بیت اللہ اور زیارت مسجد نبوی و روضہ رسول ﷺ کی سعادت نصیب ہوئی۔ عازمین حج کو پہلے مدینہ منورہ لے جایا گیا بس سے اترتے وقت سبز گنبد کو دیکھ کر دل پر عجیب کیفیت طاری ہوئی کہ آقا کے دربار میں حاضری کی سعادت نصیب ہورہی ہے۔مسجد قبا تک پیدل جانے اور زیارات مدینہ منور ہ کا موقع ملا۔ مدینہ میں آٹھ دن قیام اور چالیس نمازوں کی ادائیگی زندگی کا حسین دور تھا مدینہ سے احرام کی حالت میں مکہ معظمہ آمد اور صبح کے اوقات میں عمرہ کی ادائیگی اور خانہ کعبہ کو قریب سے دیکھنے اور دعا کرنے کا موقع ملا۔ ایام حج بھی اچھے گزرے اور حج کی یادوں کو ساتھ لیے واپسی کے بعد میں نے حج کے مشاہدات پر مبنی ایک طویل مضمون حج ایک عشق کا سفر لکھا جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ عازمین حج کی رہبری کے لیے حج کا سفر کے نام سے ایک بلاگ بھی بنایا جس پر مقامات مقدسہ کی تصاویر نقشہ جات اہم کتابیں اور ویڈیو لنک عازمین کی رہبری کے لیے موجود ہیں اب حرمین شریفین میں کافی تبدیلیاں آگئی ہیں ٹرین کا سفر بھی شروع ہوچکا ہے کافی عمارات تعمیر ہوچکی ہیں۔ بہرحال دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر سے عمرہ اور حج کی سعادت نصیب فرمائے۔ انسان اپنی زندگی کے جس شعبہ میں کام کرتا ہے وہاں سے وہ دوسروں کی مدد کا باعث بنے یہ بھی عبادت ہے۔ اس لیے ملازمت کے دوران جتنا ممکن ہو میں لوگوں کی مدد کی کوشش کرتا ہوں۔ اور اللہ سے اچھے اجر کی امید رکھتا ہوں۔ مذہبی اعتبار سے اب شدت بڑھ گئی ہے ایسے میں حق راستے پر چلنے کے لیے اللہ سے ہمیشہ اھدنا الصراط المستقیم کی دعا کرتے رہنا اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرتے رہنا ضروری ہے۔