آج زندگی کی نصف صدی کی تکمیل کے بعد جب ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مادری زبان اردو ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو سے پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تعلیم اردو سے روزگار سے جڑنے اور بہ طور اردو پنڈت پھر جونیر و ڈگری لیکچرر اردو کی ملازمت اور اردو کے استاد کا گورنمنٹ ڈگری کالج کا پرنسپل بن جانا یہ میرے لیے اردو زبان کی طرف سے ملنے والے اعزازات سے کم نہیں۔ ابتداء ہی سے نثر سے دلچسپی رہی۔کہانیاں پڑھنا اور زندگی میں ان سے کچھ سبق لینا یہ دستور رہا۔ بچپن میں نور ‘ہلال‘کھلونا‘ ہدی‘بتول‘ اور پھر بعد میں کچھ رسائل و ناولوں کا مطالعہ خاص طور سے ہزار رنگ صدہارنگ ڈائجسٹوں میں میں نے محی الدین نواب کی کہانیاں بہت پڑھی ہیں۔ جب بی اے میں تھا تو نصابی ضرورت کے تحت تاریخ ادب اردو پڑھا۔ ایم اے میں بھی نصابی ضرورت کے تحت پریم چند کا ناول گئودان منٹو اور عصمت کے افسانے پڑھے ۔ شوق سے مشتاق احمد یوسفی ‘رشید احمد صدیقی اور دیگر کو پڑھا۔اخبارات میں مجتبیٰ حسین کاکالم اور سوشل میڈیا پر افسانہ گروپ میں بہت سے افسانے پڑھے۔چونکہ تعلیم و تربیت اسلامی انداز کی ہوئی۔ کبھی تھیٹر جاکر فلم دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ہاں ریڈیو پر ڈرامے فلمی گیت اور ٹیپ ریکارڈر پر منی بیگم ‘غلام علی اور جگجیت سنگھ کی غزلیں شوق سے سنتا رہا۔ بعد عطا اللہ خان نصرت فتح علی خان اور راحت فتح علی خان کو بہت سنا۔ ای ٹی وی کے مشاعرے بھی شوق سے دیکھتا رہا بعد میں نئے زمانے کے شعرا کو بھی یوٹیوب پر بہت سنا۔ دوران تعلیم حالی کا مقدمہ شعر و شاعری پڑھا تو اس میں ادب برائے زندگی کا نظریہ متاثر کرتا رہا۔ جب کہ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دیا اور کہا کہ سوسائٹی کا مزاج جیسا ہوگا ویسی شاعری ہوگی۔ اور اچھا شعر زمانے میں انقلاب لا سکتا ہے۔ حالی کے ادب برائے زندگی کے نظریے سے اب بھی وابستگی ہے لیکن ادب برائے ادب نظریے کی نفی بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ ہر زمانے میں اصلاح کا جذبہ کارفرما نہیں ہوسکتا اچھا شعر سن کر ہماری زبان سے جو واہ کا لفظ نکلتا ہے اس کی وجہہ یہی ہے کہ شاعری ہو یا فنون لطیفہ زندگی کے مختلف انداز ہوتے ہیں اور انسان کو اپنی روزمرہ زندگی کے کام کاج سے جب تھکن ہوجاتی ہے تو وہ اپنی تکان کم کرنے اور دل و دماغ کو مسرت پہنچانے کے لیے اچھی شاعری ‘موسیقی‘گیتوں اور ڈراموں اور کہانیوں سے بھی حظ لیتا ہے اس لیے میں ادب برائے زندگی کے نظریے کے ساتھ ادب برائے ادب کو بھی پسند کرتا ہوں لیکن ادب میں فحاشی مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ عزیز احمد کی ناول نگاری میں جنس نگاری پر میں نے کڑی تنقید کی ہے جب کہ ناول کے دیگر نقادوں نے اسے آرٹ کا حصہ کہا ہے۔ میرے نزدیک انسان کو اللہ نے جمیل بنایا ہے اور اسے جمال کو پسند کرنا چاہئے جب کہ منٹو اور عصمت کی دلیل ہے کہ جنس ہو یا انسانی ذہنوں کی پراگندگی یہ بھی انسانی سماج اور زندگی کا حصہ ہے تو اسے ادب میں پیش ہونا چاہئے جب کہ میرا ماننا ہے کہ انسان بند کمرے میں جو کچھ اپنی ذات کی تسکین کے لیے کام کرتا ہے اس کی منظر کشی افسانہ ڈراما یا فلم کے ذریعے کرکے ہم کونسی ادب کی خدمت کر رہے ہیں ادب برائے زندگی نظریے کے تحت ہی اقبال میرے پسندیدہ شاعر ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آنے والی نسل اقبال کے حرکت و عمل اور مرد مومن کے پیغام کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائے اس کے لیے میں نے اقبالنے کہا کہ تحت اقبال کے مقبول اشعار کی تفہیم کا سلسلہ شروع کیا ہے۔میں نے ایک مضمون بچوں کے لیے اقبال کی شاعری بھی لکھا ہے جس میں اقبال کی بچوں کے لیے نظموں میں پیش کردہ پیغام کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ادب کے حوالے سے میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ قلم اللہ کی جانب سے انسان کو دی گئی امانت ہے اور اس تیز رفتار زندگی میں اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے کچھ وقت کے مزے کی خاطر اپنے قلم کو آلودہ کر لیں۔ میں آل احمد سرور کے تنقیدی رویے کو بھی مانتا ہوں جس میں انہوںنے اردو ادب کے مختلف موضوعات کو توضیح و تشریح کے ساتھ تاثراتی تنقید کے ساتھ پیش کیا ہے میں نے بھی جتنے ادبی مضامین میں تنقید لکھی ہے اس میں بھی توضیح و تشریح و تاثراتی انداز کو پیش کیا ہے۔والد صاحب شاعر تھے لیکن مجھے شاعرانہ مزاج نہیں ملا اور میں اپنے خیالات کو نثر کی شکل میں پیش کرتا رہا ہوں یہ آپ بیتی بھی اسی نثری اظہار کی ایک کوشش ہے۔ تخلیقی ادب کے لیے انسان کو سکون اور فرصت کے لمحات چاہئیں اور اس میں مشاہدے کی گہرائی کے ساتھ اظہار بیان کی طاقت چاہئے اب مزاح اور انشائیہ نگاری کے میدان میں میری کوشش جاری ہے ورنہ نثری سرمایہ مضمون نگاری تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے و معلوماتی مضامین ہی میرے ادبی سرمایہ کا حصہ ہیں۔جہاں تک ادبی سرمایے کے وسیع تر مطالعے کا معاملہ ہے خصوصی طور پر نثر و شاعری کے بہت سے شاہکار ابھی مکمل طور پر نہیں پڑھے۔ریختہ ویب سائٹ سے حسب ضرورت ادبی کتابیں مل جاتی ہیں۔تحقیقی ضرورت کی تکمیل کے طور پر کتابیں زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ ایم فل کے دوران ناول نگاری کے فن پر بہت سی کتابیں پڑھیں۔ تحقیق کا فن متنی تنقید اور افسانے اور ناول کی تنقید پر کتابیں پڑھی ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد بہت سے ریسرچ اسکالرز کی رہبری و رہنمائی کرنے کا موقع ملا ان کے مقالے درست کیے۔ اس دوران مختلف موضوعات پر کافی مطالعہ رہا جس سے مجھے اپنے ادبی رویے کی شناخت میں بھی مدد ملی۔ اب کتاب کی کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے اسکرین نے لے لی ہے۔ سوشل میڈیا فیس بک پر اردو زبان و ادب کے کئی خالص گروپ ہیں جیسے اردو افسانہ اردو سرائے پاک ٹی ہائوز وغیرہ ۔ ان سوشل میڈیا سائٹس پر حسب موقع اچھا خاصا ادبی مواد پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ عالمی افسانہ فورم اور اردو افسانہ فورم پر سال میں ایک دو مرتبہ افسانے نگاری کے مقابلے ہوتے ہیں۔ جن پر شائع افسانے پڑھتا رہتا ہوں۔ نوجوانی میں ابن صفی کے کچھ ناول پڑھے تھے بعد میں تعلیمی مصروفیات اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں کوئی ناول مکمل نہیں پڑھا۔ گیان سنگھ شاطر کا ناول اور حالیہ دنوں میں شمالی ہند کے ادیب و ناول نگار محسن خان کا ناول اللہ میاں کا کارخانہ مکمل پڑھا اور اس پر تبصرہ بھی کیا ہوں۔ اس ناول نے ایسی دلچسپی دکھائی کے میں نے ایک ہی دن میں آٹھ دس گھنٹوں میںناول ختم کیا۔ رفیعہ منظوارالامین کا افسانہ چھس کے عنوان سے سیاست اخبار میں شائع ہوا تھا اس پر میں نے جو تبصرہ کیا اسے افسانہ نگار اور دیگر نے پسند کیا تھا۔ اقبال متین کے ناولٹ چراغ تہہ داماں کو بھی پڑھنے اور اس پر تبصرہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ افسانوں میں حسب ضرورت بیدی‘منٹو ‘عصمت‘کرشن چندر اور پریم چند کے افسانے نصابی ضرورت کے تحت پڑھے۔ انسانی زندگی کی موجودہ مشینی صورتحال کو دیکھتے ہو ئے کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو ادب کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اور ادب کی شکل یوٹیوب کے ڈرامے ہو کہ فلمیں لیکن کتابی صورت میں ادب کا مطالعہ افسانہ ناول ڈراما یا کہانی کی صورت میں ضرور ہو۔ اس کے لیے اچھا ادب تخلیق ہو تو اس کے قاری بھی میسر آسکتے ہیں۔ انسان کو اگر زبان و بیان پر عبور ہے تو اسے کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا چاہئے جیسے ڈائری کی شکل میں روزمرہ کے احوال اگر ان میں بیان کی دلچسپی آجائے تو آگے چل کر لوگ ان تحریروں کو شخصی افسانے سمجھ کر پڑھنے لگیں گے اور اپنے دور کی یادیں محفوظ ہوجائیں گی۔ اردو ادب کی عالمی ادب میں قدر ہے۔ اردو مرثیہ ناول اور افسانے کے شاہکار بلا شبہ انگریزی اور فرانسیسی ادب کے ہم پلہ ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہمارے پاس مرزا غالب جیسے جینیس شاعر‘میر انیس جیسے مرثیہ نگار اور اقبال جیسا مفکر شاعر ہے اور امید کرسکتے ہیں کہ مستقبل میں بھی اردو زبان میں اچھا شعر و ادب لکھنے والے تخلیق کار پیدا ہوں گے۔
دوست احباب اور سوشل میڈیا کی دوستی
زندگی میں کوئی اچھا دوست مل جائے جو وقت پر کام آئے اور ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرکے ہمارے درست رہبری کرے تو یہ نعمت سے کم نہیں۔ دوستی ضرور ہونی چاہئے لیکن ایک حد میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
بڑھائو نہ آپس میں ملت زیادہمبادہ کے ہوجائے نفرت زیادہ
جب بچپن سے آج تک دوستوں پر نظر ڈالتا ہوں تو نظام آباد میں قیام کے دوران خاندان میں میرے دوستوں میں مرحوم خالد عبدالقدوس تھے جن کا عین جوانی میں نہر میں گرکر ڈوب جانے سے انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی نعش کو ڈھونڈنے کے لیے نہر کے ساتھ ساتھ میں بھی کافی دور گیا تھا لیکن بعد میں نہر کا پانی جو ماسانی تالاب میں جمع ہوتا تھا دوسرے دن ان کی نعش ملی تھی۔ ان کی جدائی آج بھی مجھے ستاتی تھی۔ خالد کبھی اپنے گھروالوں کے ساتھ ہمارے گھر یعنی نانی و مامی کے گھر آتے تو کھانا کھاتے وقت پکار کر کہتے کہ نانی پانی۔ ان کے بال جمانے کا انداز بہت خوب تھا بالوں میں سامنے اونچا پھگا بنایا کرتے تھے۔ خاندان میں میرے ہم عمر پھوپھو زاد بھائی اشفاق اور نواب ماموں کے بیٹے شاکر اور سلیم ماموں کے بیٹوں نسیم‘کلیم ‘اصیم سے دوستی رہی۔ حیدرآباد آمد کے بعد بھی میں اشفاق شاکر روز رات میں گولڈن کیفے میں بیٹھ کر دو روپے کی چائے پیتے ہوئے یہی بات کرتے تھے کہ پانچ ہزار کیسے کمائے جائیں۔ بچپن میں اسکول کے دوستوں میں ندیم سے میری گہری دوستی تھی وہ سلام زردہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ کلاس میں دیگر دوستوں میں اسلم لوہیا‘صدیق ‘سلیم‘ نظام الدین‘عارف ‘مجاہد‘قادر‘ آصف اور عظمت شامل ہیں۔ اسی طرح جب قلعہ ہائی اسکول میں داخلہ ہوا تو پرانے دوستوں کے ساتھ سہیل پرویز‘سجاد ‘فہیم‘ قیام الدین‘احمد ‘ عاصم بن مسعود‘ سلیم‘ اعظم‘رحمٰن اور دیگر سے دوستی رہی۔ ہمارے ہم جماعت پاس میں موجود گنے کے کارخانے سے گنے لاتے اور قلعہ کے پاس جاکر ہم لوگ گنے کھایا کرتے تھے ہائی اسکول کے زمانے میں ایک دوست حمید تھا اس کی خاص بات تھی کہ سہ ماہی شش ماہی امتحانات کے وہ پرچے آئوٹ کراتا تھا کوئی اسکول ٹیچر رات میں اسے کل آنے والا پرچہ دے دیتا تھا مجھے وہ پرچہ ملتا تو میرے اسکول کے دوست بھی وہ پرچہ مجھ سے حاصل کرلیتے اس طرح آٹھویں اور نویں جماعت میں پرچے آئوٹ کرتے رہے اور امتحان پاس کرتے رہے۔ ایس ایس سی امتحان میں جب گورنمنٹ ہائی اسکول خلیل واڑی میں ہمارا امتحان کا مرکز پڑا تو میرے سامنے آصف اور میرے پیچھے عظمت کا نمبر پڑا۔ یہ لوگ دس سال سے میرے ساتھی رہے تھے دائیں جانب اعظم اور بائیں جانب اسلم لوہیا کا نمبر تھا۔ہمارے ایک دوست نے فزیکل سائنس کے امتحان میں آبجکیٹیو ٹائپ جوابات کی نقل فراہم کی اور کسی طرح ہم وہ نقل ممتحن کی نظر بچا کر لکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ ریاضی کے امتحان میں کچھ مدد اعظم سے ملی جو ا ب امریکہ میں ہے۔ ہمارے ہائی اسکول کے ایک دوست سراج بھی تھے جن کا خط بہت خوبصورت ہے وہ پچیس پیسے کی پن کی نب لگا کر جمع کر لکھا کرتے تھے ہم لوگ جب ہائی اسکول میں داخل ہوئے تو آٹھویں نویں اور دسویں میں ہر سال نیا نصاب بدل رہا تھا۔ سراج اور میں جب نویں جماعت میں تھے تو سراج اور کلیم نے نویں میں رہ کر دسویں جماعت کا امتحان لکھا اور وہ کامیاب ہوگئے جب کہ میں اور میرے دیگر ساتھی نئے نصاب کے ساتھ کامیاب ہوئے۔محلہ پھولانگ میں بینڈ بجانے والے اور بیڑی بنانے والے گھرانے کے لوگ زیادہ تھے ہمارے محلے میں بھارت بینڈ والوں کا گھر اور دکان تھی ان کے کام کرنے والے اور بیڑی مزدور لوگوں کے بچے انتہائی بدمعاش اور گالی دینے والے تھے اس لیے گھر میں ہدایت تھی کہ ان بچوں سے دوستی نہ بڑھائی جائے بہرحال ۱۹۸۵ء میں حیدرآباد منتقل ہوئے تو معراج کالونی میں شہریار اشفاق‘ سہیل‘ احمد‘ ظفر‘ عمران وغیرہ سے دوستی ہوئی۔جو اکثر مسجد میں نماز میں ملا کرتے تھے اور کرکٹ کے میدان میں۔ کالج مین شہریار کے ساتھ حنیف سے بھی دوستی تھی جو ریاضی میں ماہر تھے بعد میں سینٹ جوزف کالج میں ریاضی کے لیکچرر بنے۔ عمران امریکہ میں ہیں احمد آسٹریلیا میں جب کہ شہریار سعودی میں اور ان کے دوست اشفاق لندن میں ہیں۔ ڈگری کالج کی سطح پر کسی سے زیادہ دوستی نہیں ہوئی ادبی مقابلوں میں مصطفی علی سروری سے تعارف ہوا جو اب اردو یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ یونیورسٹی میں کچھ ہم جماعت اور کچھ جونیر ساتھی رہے جن میں مخدوم‘کلیم‘ گل رعنا نرجس گلنار وغیرہ۔ گل رعنا تلنگانہ یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔کلیم ڈگری لیکچرر اور ڈاکٹر ابرارالباقی شاتاواہانا یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ان کے ساتھ کریم نگر میں ڈاکٹر جعفر جری اور ڈاکٹر منور یونیورسٹی کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔نظام آباد میں ڈاکٹر محمد عبدالقوی‘ڈاکٹر موسیٰ اقبال یونیورسٹی کے شناسا لوگوں میں شامل ہیں۔ نظام آباد سے بعد کے زمانے میں جن احباب سے دوستی اور فون پر اور شخصی طور پر رابطہ رہا ان میں ڈاکٹر محمد ناظم علی اور ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی اچھے ادیب ہیں گری راج کالج میں صدر شعبہ اردو رہنے کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ میں پرنسپل کے عہدے پر وظیفہ پر سبکدوش ہوئے نظام آباد میں قومی سمینار کرانے اور اردو اسکالرس اسوسی ایشن کے تحت پروگرام کرانے میں ان کا اور عبدالعزیز سہیل کا بہت ساتھ رہا۔ ڈاکٹر ناظم علی میرے ان دوستوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو آج بھی روز مجھے فون کرتے ہیں۔ نظام آباد کے محمد عبدالبصیر بھی اچھے دوستوں میں ہیں وہ ان دنوں ٹمریز اسکولوں میں آر ایل سی ہیں۔رحمٰن دائودی‘ ناہیدہ بیگم‘ ڈاکٹرحمیرہ سعید‘ڈاکٹر اسرار سبیلی‘ڈاکٹر عظمت اللہ‘ ڈاکٹر نظام الدین‘ ڈاکٹر انور الدین ‘ڈاکٹر عائشہ اور دیگر اردو لیکچررز ہیں جو ہم پیشہ ہونے کی وجہہ سے رابطے میںرہتے ہیں۔
سوشل میڈیا فیس بک کی وجہہ سے سماجی دوستی کا دائرہ بڑھتا گیا۔ اب سوشل میڈیا پر جو قریبی دوست ہیں ان میں یحیٰ خان تانڈور‘ جناب احمد ارشد حسین‘ سید مکرم نیاز‘ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز‘ احمد پریمی شکاگو‘ ڈاکٹر عبدالحئی‘ مبین نذیر ‘ قابل ذکر ہیں۔ سوشل میڈیا کی دوستی ایسی دوستی ہے جس میں گرین نقطے کے ساتھ سب لوگ آن لائن ہوتے ہیں لیکن کوئی کسی کے گھر ملنے نہیں آتا اور نہ ہی فون پر دو بول میٹھے بول لیتا ہے۔ اب عید برات شادی بیاہ بیماری انتقال کچھ بھی موقع ہو لوگ سوشل میڈیا پر اطلاعی پیغام ڈال دیتے ہیں اور دوست احباب اپنے لائک اور کمنٹ کے ذریعے اپنا حق دوستی ادا کردیتے ہیں۔ فون اور سوشل میڈیا آنے سے اصل دوستی ختم ہوگئی ہے اور رشتے داری بھی اب حقیقی نہیں رہی۔لوگ دعوت میں شخصی طور پر ملتے ہیں یا کسی کے انتقال کے موقع پر ۔ اس طرح اب میرا حقیقی دوستوں کا دائرہ بھی محدود ہوگیا ہے۔ اب زندگی ہی اپنی دوست ہے اور اس کے ساتھ دوستی نبھاتے رہنا ہے۔ کبھی کوئی دوست یا شاگرد فون کرلیتا ہے تو دل خوش ہوتا ہے کہ کسی نے یاد کیا۔ورنہ فیس بک اور واٹس اپ پوسٹ دیکھ کر ایک دوسرے سے پیغام رسانی ہی دوستی رہ گئی ہے۔ اس آپ بیتی میں جن دوستوں کو یاد کیا ہے خوشی ہوگی اگر ان سے گاہے بہ گاہے حقیقی ملاقات ہوتی رہے یا فون پر بات ہوتی رہے بہت سے نام چھوٹ بھی سکتے ہیں کہ ذہن کے گوشے میں سب باتیں یاد تو نہیں رکھی جاسکتی ہیں۔