انسان کا ماضی اس کی یادوں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ آج سے چالیس سال پہلے کی یادوں سے پردہ اٹھایا جائے تو لگتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ زمانے نے کیسے تیز رفتار ترقی کر لی۔ پانچ تا دس سال کی عمر کے بعد بچہ شعور کے دور میں پہنچ جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کی زندگی کی یادیں اس کے ماضی کا سرمایہ بن کر تنہائی میں اسے اپنے ماضی کی یادوں کو کریدنے اور اور خود کلامی میںمبتلا کردیتی ہیں۔ میرے شعور کی ابتداء ۸۰ کی دہائی کے ابتدائی ایام سے ہوتی ہے جب کہ میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ محلہ پھولانگ نظام آباد میں رہا کرتا تھا۔ شہر نظام آباد سابقہ ریاست آندھرا پردیش اور موجودہ ریاست تلنگانہ کا شمالی ضلع ہے۔نظام آباد سے قریب شکر نگر بودھن میں مشہور زمانہ نظام شوگر فیکٹری تھی جو شکر سازی میں ایشیاء کا سب سے بڑا کارخانہ تھا جو زمانے کی بدحالی کا شکار ہوکر بند پڑا ہے۔ ہمارے گھر کا نام یعقوب منزل تھا جو کویلو کا بنا ہوا تھا گھر میں میٹھے پانی کا نل اور پڑوسی گھر کے ساتھ مشترکہ بائولی تھی جسے کنواں کہا جاتا تھا ۔ محلے میں کم لوگوں کے گھر سرکاری نل ہوا کرتا تھا اس لیے ہماری دادی ماں نل والی خالہ کے طور پر مشہور تھیں۔ انسان بچپن جس گھر میں گزارتا ہے وہی اکثر اس کے خواب میں آتا رہتا ہے۔ آج ہم کئی گھر بدل چکے ہیں لیکن وہی بچپن کا گھر خواب میں آتا ہے جس گھر میں موسم گرما میں آنگن میں پلنگ ڈالے رات چندا ماما کو دیکھ کر سویا کرتے تھے۔ ایک ٹیبل فین کے سامنے فرش پر سب بھائی بہن سوتے اور اکثر جھگڑا ہوتا کہ فین کی ہوا ہمیں زیادہ لگے۔ ہماری دادی ماں جب بھی نیا چاند دیکھتی تھیں تو میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا چہرہ دیکھا کرتی تھیں وہ کہا کرتی تھیں کہ اس سے ان کا اگلا مہینہ اچھا گزرے گا۔ ہم بھائی بہنوں کی طرح میرا داخلہ بھی نظام آباد کے مشہور اردو میڈیم اسکول میں ہوا جس کی یادیں ایک الگ مضمون میں بیان کی جاچکی ہیں۔ دس سال کی عمر رہی ہوگی اس وقت گھر میں جو ماحول میں نے دیکھا تو لگا کہ والد صاحب اور بھائی بہنوں کو کرکٹ میچوں کی ریڈیو کمنٹری سننے کا بہت شوق تھا۔اور یہی شوق ریڈیو کے ساتھ میرے بچپن کے سفر کا حصہ رہا۔ پہلے زمانے میں برقی کے بڑے ریڈیو ہوا کرتے تھے معلوم ہوا کہ حکومت ریڈیو لائسنس دیا کرتی تھی اور اس کی فیس لیا کرتی تھی اگر فیس ادا نہ کی جائے تو جرمانہ عائد ہوگا اس لیے پلنگ کے نیچے ریڈیو کو بلینکٹ میں لپیٹ کر رکھتے ہوئے دیکھا۔ برقی ریڈیو کے لیے لوہے کی جالی کا ائریل ہوا کرتا تھا جو اوپر روشن دان تک لگایا جاتا تھا جس سے ریڈیو کے پروگرام واضح سنے جاسکتے تھے ۔ بیسیوں صدی کی آخری دو تین دہائیوں میں دنیا بھر کی معلومات اور تفریح کا اہم ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ سیل سے چلنے والے ریڈیو کو ٹرانسسٹر کہا جاتا تھا جس میں بش ریڈیو‘فلپس ریڈیو اور ہمارے گھر میں موجود مرفی ریڈیو مشہور تھے۔ مرفی ریڈیو پر ایک چھوٹے بچے کی تصویر لگی ہوتی تھے جس میں ایک خوبصورت بچہ منہ میں انگوٹھا دبائے مسکراتا نظر آتا تھا معلوم ہوا کہ کمپنی کے گھرانے سے اس بچے کا تعلق تھا جس کا بچپن میں انتقال ہوگیا۔ سیل والے ریڈیو کی خاص بات تھی کہ اسے کہیں بھی لے جایا جاسکتا تھا لیکن اس کے زیادہ استعمال سیل جلدی ختم ہوجایا کرتے تھے اویر ریڈی اور نیشنل کے سیل مشہور تھے چار سیل والا ریڈیو تھا جس کے استعمال کے لیے ہم بھائی بہنوں میں جھگڑے ہوا کرتے تھے والد صاحب جب گھر پر رہیں وہ کرکٹ کمنٹری اور خبریں سنا کرتے تھے۔ ریڈیو کی جانکاری رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ریڈیو فریکوینسی دو قسم کی ہوا کرتی تھی شارٹ ویو اور میڈیم ویو ۔ میڈیم ویو پر ریاستی اور قومی پروگرام سنے جاتے تھے ۔ حیدرآباد سے آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام نشر ہوتے تھے ۔ شام میں پانچ بج کر پچاس منٹ کی دس منٹ کی اردو خبریں کافی مقبول تھیں۔ پانچ پچاس پر ہم ریڈیو کھولے اردو خبریں سنتے تھے جس میں کہا جاتا تھا کہ یہ آکاش وانی ہے اب آپ نوید اختر سے علاقائی خبریں سنئے۔ حیدرآباد سے نشر ہونے والی ان خبروں میں تازہ ترین حالات نشر ہوتے تھے خاص طور پر کرفیو کے زمانے کی خبریں دلچسپی سے سنی جاتی تھیں۔ میڈیم ویو پر ہر گھنٹے آکاش وانی آل انڈیا ریڈیو سے انگریزی اور ہندی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں صبح آٹھ بجے اور شام میں ساڑھے آٹھ اور نو بجے ہندی اور انگریزی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں۔ رات میں میڈیم ویو کے پروگرام واضح سنے جاتے تھے نظام آباد میں قیام کے دوران صبح اورنگ آباد سے نشر ہونے والا اردو پروگرام انجمن بھی کافی دلچسپی سے سنا جاتا تھا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے ریڈیو پاکستان کی خبریں بھی سننے میں آتی تھیں۔ کبھی سعودی ریڈیو سے حرم شریف کی اذان سنائی دے تو دل خوش ہوجاتا تھا کہ ہمیں گھر بیٹھے حرم شریف کی اذان سننے کا موقع ملا۔ شارٹ ویو کے پروگرام دنیا بھر سے نشر ہوا کرتے تھے اکثر ہم کسی ملک کے ریڈیو انائونسر سے سنا کرتھے کہ ہم شارٹ ویو انیس بچیس اکتیس اور اکتسالیس میٹر بینڈ پر آپ سے مخاطب ہیں۔ اس زمانے میں ریڈیو سیلون اور بی بی سی ریڈیو سروس کافی مقبول تھی۔ ریڈیو سیلون سے ہندوستان کے فلمی گیتوں کے پروگرام صبح اور شام نشر ہو ا کرتے تھے صبح ساڑھے سات تا آٹھ بجے پرانے فلمی گیتوں کا اختتام سہگل کے گانے سے ہوا کرتا تھا ۔جب بھی آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ ہو انائونسر کہتا کہ یہ ریڈیو سیلون ہے صبح کے آٹھ بجنے والے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت ریڈیو سیلون کے پروگرام سے ملایا کرتے تھے اس وقت ہاتھ پر جو گھڑی باندھی جاتی تھی اسے کنجی دینا پڑتا تھا۔ ریڈیو سیلون سے ہر چہارشنبہ بناکا گیت مالا فلمی گیتوں کا مقبول عام پروگرام رات آٹھ بجے تا نو بجے نشر ہوا کرتا تھا جس میں مشہور انائونسر امین سایانی کی یہ آواز اس وقت کے سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بہنو اور بھائیو بناکا گیت مالا کی پائیدان نمبر ایک پر پیش ہے یہ نغمہ۔ بناکا گیت مالا کی اس قدر مقبولیت تھی کہ مجھے یاد ہے کہ رات گھر سے اپنے دوست کے گھر ایس ایس سی امتحان کی تیاری کے لیے جانا ہوتا تو چہارشنبہ کی رات تمام گھروں سے اسی پروگرام کی آواز نشر ہوا کرتی تھی۔آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس بھی مشور تھی جس پر فلمی گیتوں کے پروگرام کے علاوہ اردو میں خبریں اور دیگر پروگرام نشر ہوا کرتھے۔ بات چلی تھی ریڈیو سے میری دلچسپی اور رفاقت کی تو مجھے بھی ریڈیو پر کرکٹ کمنٹری سننے کا شوق ہوا۔ ہندوستان کے سبھی کرکٹ میچوں کی کمنٹری ریڈیو پر ہندی اور انگریزی میں آیا کرتی تھی پاکستان کی ٹیم آصف اقبال کے قیادت میں ہندوستان کا دورہ کر رہی تھی اور حیدرآباد میں بھی ایک سہ روزہ میچ ہوا تھا۔ ظہیر عباس جاوید میاں داد عمران خان وسیم باری سرفراز نواز اقبال قاسم وغیرہ اس دور کے مشہور کرکٹ کھلاڑی تھے جنہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستانی ٹیم میں سنیل گواسکر ‘گنڈپا وشواناتھ‘ کپل دیو اور سید کرمانی وغیرہ کرکٹر تھے۔ اسکول میں جب وقفہ کی گھنٹی ہوئی تو اس وقت اسکول کے پاس پان کے ڈبے کے قریب پہنچ کر دس منٹ تک اسکور معلوم کرنا بھی میرے شوق کا حصہ رہا ۔ کلفی کی بنڈی والے بھی ریڈیو کمنٹری لگایا کرتے تھے سوشیل دوشی اور مرلی منوہر جوشی ہندی میں اور سریش سریا نروتم پوری اور اسکند گپت انگریزی میں کمنٹری دیا کرتے تھے۔ دن میں کمنٹری سننے کے بعد رات سات بج کر پانچ منٹ پر ہندی میں اور رات آٹھ بج کر پانچ منٹ پر انگریزی میں اسپورٹس کی خبریں سننا بھی روز کا معمول تھا۔ جس میں ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر کے میچز کا ہال معلوم ہوتا تھا۔ ہندوستان میں کھیلے گئے ایشین گیمز پی ٹی اوشا کی چار سو میٹر دوڑ میں کامیابی اور ہندوستانی ہاکی ٹیم کی کامیابی جس میں ظفر اقبال اور محمد شاہد جیسے کھلاڑیوں کے کارنامے ہے ہمارے بچپن میں ہمیں قومی فخر دلایا کرتے تھے۔ وطن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بڑے لوگ پاکستان کے حامی تھے اور ہم بھائی بہن ہندستان کے طرف دار۔یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ سنہ بیاسی میں ہندوستان نے کپل دیو کی قیادت میں لند ن میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا۔کپل دیو نے سوانسی میں 175رن کی یادگار اننگز کھیل کر ہندوستان کو کامیابی دلائی۔ سیمی فائنل میں انگلینڈ کو شکست دینا اور فائنل میں کالی آندھی ویسٹ انڈیز کی طاقت ور ترین ٹیم کو 183کے حدف سے روکے رکھنا اور پھر کرکٹ کا عالمی کپ جیتنا یہ سب ہم نے کرکٹ کمنٹری سن کر ہی معلوم کیا۔ مشہور زمانہ کرکٹر محمد اظہر الدین کے عروج کا یہی زمانہ تھا جب انہو ں نے انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں اپنے ٹیسٹ کیرئر کا آغاز کیا اور مسلسل تین سنچریاں بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا جو آج تک برقرار ہے ۔ اظہر الدین کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ راہ چلتا کوئی بھی کرکٹ کمنٹری سننے والے سے پوچھے کا اسکور کیا ہے تو وہ جواب میں اظہر الدین کے اسکور کو بولے گا کہ 93ناٹ آئوٹ۔ سنہ85ء میں ہندوستان نے گواسکر کی قیادت میں آسٹریلیا میں ورلڈ سیریز کپ جیتا تھا اس وقت ٹیلی ویژن کی آمد آمد تھی اور ہم مقامی کلکٹر آفس میں جاکر یہ میچ دیکھاکرتے تھے ہم نے دیکھا کہ کس طرح روی شاستری کو پلیر آف دی سیریز انعام کے طور پر آڈی کار تحفے میں دی گئی تھی۔ اور اظہر الدین نے عمران خان کی پاکستانی ٹیم کے خلاف شاندار بیاٹنگ کرتے ہوئے ہندوستان کو کامیابی دلائی تھی۔ بات ریڈیو اور کرکٹ کمنٹری کی چل رہی تھی تو اسی زمانے میں جب ہندوستان کی ٹیم نے انگلستان کا دورہ کیا اور کرنل آف انڈین کرکٹر دلیپ ونگسارکر نے تیسری مرتبہ لارڈز پر سنچری بنائی تو یہ یادگار میچ بھی ہم نے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ ریڈیو پر سنا تھا اسکول کا زمانہ اور انگریزی کرکٹ کمنٹری لیکن بھلا ہو اس کمنٹری کا کہ اس سے ہماری انگریزی اچھی ہوگئی اس وقت بی بی سی ٹیسٹ میچ اسپیشل کرکٹ کمنٹری شارٹ ویو انیس اور پچیس میٹر بینڈ پر سنی جاتی تھی کرسٹوفر مارٹن جینکس اور ہنری بلوفیلڈ بی بی سی کے مشہور زمانہ کرکٹ کمنٹریٹر تھے بعد میں جیف بایئکاٹ بھی اس میں شامل ہوگئے۔ پاکستانی ٹیم نے جب لارڈز پر مدثر نظر کی شاندار سوئنگ بولنگ کی مدد سے کامیابی حاصل کی اس کا حال بھی ہم نے والد صاحب کے ساتھ ریڈیو پر سنا۔ انگلستان میں ہونے والے میچز دن میں تین بجے سے رات دس بجے تک سنے جاتے تھے ریڈیو آسٹریلیا سے کرکٹ کمنٹری سننا بھی ہماری زندگی کا یادگار واقعہ رہا۔ ریڈیو آسٹریلیا کی کرکٹ کمنٹری شارٹ ویو پر 13میٹر بینڈ پر سنی جاتی تھی جو صرف پانچ بینڈ کے ریڈیو میں ہوا کرتا تھا لیکن کسی طرح یہ کمنٹری ہمارے مرفی ریڈیو میں بھی آجاتی تھی یہ میچز صبح پانچ بجے سے دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک ہوا کرتے تھے سڈنی ملبورن اور اڈیلیڈ میں ہونے والے کرکٹ میچز جس میں سنیل گواسکر اور سندیپ پاٹل نے ڈینس للی جیسے فاسٹ بولروں کے خلاف سنچری بنائی تھی اور کپل دیو نے ملبورن ٹیسٹ کے آخری دن پانچ وکٹ لے کر ہندوستان کو یادگار کامیابی دلائی تھی یہ بھی ہماری ریڈیو کمنٹری سننے کے شوق کا حصہ رہی۔ بعد میں ہمارے والد صاحب کو ایم چھوٹا جیٹکنگ ریڈیو تحفے میں ملا تھا اس ریڈیو پر بھی مجھے آسٹریلیا انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز سے براہ راست کمنٹری سننے کا موقع ملا تھا ویسٹ انڈیز کے میچ رات میں ہوا کرتے تھے گرمیوں کی راتوں میں گھر کی چھت پر سوتے وقت یہ کمنٹری سننا بچپن کی یادوں کا حصہ ہیں جب کہ مارشل رابرٹس ہولڈنگ اور کرافٹ تیز گیند باز ہوا کرتے تھے تو رچرڈز لائیڈ لوگی ڈوجان وغیرہ اچھے بیٹسمن تھے۔ ویسٹ انڈیز کے مشہور کمنٹریٹر ٹونی کوزیر تھے ۔ پاکستان سے ریڈیو کمنٹری سننا ایک مشکل کام تھاکیوں کہ ان کے اسٹیشن آسانی سے نہیں ملا کرتا تھا اس کمنٹری کو سننے کے لیے ہم کبھی ریڈیو کو برقی ڈبے پر رکھا کرتے تو کبھی لانبا ایرئل لگایا کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کے مشہور کرکٹ کمنٹریٹرحسن جمیل تھے اس وقت عمران خان اور عبدالقادر سلیم ملک کا چرچا عام تھا۔ کرکٹ کمنٹری کے اسی شوق نے ایک مرتبہ آسٹریلیا ایرمیل خط لکھنے پر مجبور کیا ان کے نئے سال کے کیلنڈر کے حصول کے لیے رابطہ کرنے کے لئے کہا گیا تھا دسویں جماعت کے طالب علم نے انگریزی میں آسٹریلیا خط لکھا تو ایک ماہ بعد یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ریڈیو آسٹریلیا کی جانب سے رنگین کیلنڈر تحفے میں بھیجا گیا تھا۔ ریڈیو پر کرکٹ کے علاوہ خبریں سننا میرا دوسرا اہم مشغلہ تھا۔ سنہ 80کی دہائی کی سیاسی خبریں بچپن کی یادوں کا حصہ ہے بی بی سی پر پاکستان کے سیاسی حالات سنا کرتے تھے جب کہ بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی جنرل ضیا کا مارشل لا کا دور اور ہندوستان میں اندرا گاندھی کا دور تھا۔ والدین سے ایمرجنسی کے حالات سنا کرتے تھے راجیو گاندھی کا جب قتل ہوا تو رات بھر بی بی سی پر اس حادثے کی اطلاع مختلف خبروں میں سنا کرتے تھے۔ بی بی سی پر خبروں کے علاوہ سیربین مشہور پروگرام تھا جس سے دنیا بھر کے حالات معلوم ہوا کرتے تھے سیربین کی موسیقی آج بھی کانوں میں گونجتی ہے رضا علی عابدی ‘عبید صدیقی ‘شفیع نقی جامعی اور ماہ پارہ صفدر اور دیگر کی آوازیں آج بھی ہمارے بچپن کی یادوں کا حصہ ہیں۔ بی بی سی پر سدھو بھائی کا پروگرام بھی کافی شوق سے سنا جاتا تھا۔ میڈیم ویو پر حیدرآباد کا ریڈیو پروگرام نیرنگ اضلاع میںکبھی کبھی سنا جاتا تھا چھوٹی چھوٹی باتیں پروگرام نیرنگ کا یادگار حصہ تھا۔ 85ء میں حیدرآباد منتقلی کے بعد نیرنگ پروگرام صاف سنائی دینے لگا۔ بعد میں جب کالج کا دور رہا تھا یوا وانی پروگرام میں مباحثے میں حصہ لینا۔ حرف تابندہ کی پیشکشی اور اسپورٹس رائونڈ اپ میں حصہ لینے کا موقع ملا ۔ ریڈیو پر پروگرام پیش کرنے کے لیے کنٹریکٹ لیٹر پوسٹ سے آیا کرتا تھا ایسے کئے کنٹریکٹ لیٹر کافی دنوں تک یادگار کے طور پر محفوظ رکھے ایک پروگرام کے لیے150روپے کا چیک ملا کرتا تھا جو واقعی ہمارے لیے مسرت کا باعث ہوا کرتا تھا۔ حیدرآباد ریڈیو میں اس وقت جناب اسلم فرشوری صاحب‘ جناب جعفر علی خان اور دیگر لوگوں سے ملاقاتیں رہیں۔ ریڈیو پر ہمارے کالج کے چند رفقاء بھی پروگرام پیش کرتے تھے ریڈیو پروگرام کی تفصیلات اخبار میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ جب اس پروگرام میں اپنا نام شامل ہوتا تو اس اخباری تراشے کو کاٹ کر البم میں لگایا جاتا جس کی یادیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ نیرنگ پروگرام میں اتوار کو ریڈیو ڈرامہ پیش کیا جاتا جسے بڑے شوق سے سناجاتا تھا۔ اے وی آر سی کے انگریزی پروگرام بھی کافی شوق سے سنا کرتا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب گھروں میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا۔ حیدرآباد میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن سنہ90ء کی دہائی تک کچھ ہی گھروں میں تھا جہاں ہفتے کی شام ہندی فلم اور چہارشنبہ کی شام چتراہار فلمی گیتوں کا پروگرام کافی مقبول تھا کرکٹ میچ لائیو دکھایا جائے تو ہم کسی رشتے دار کے گھر جاکر میچ دیکھا کرتے تھے۔ ریڈیو پر روز صبح ریڈیو پاکستان سے اسلامی پروگرام سننا اور بعد اردو پروگرام سننا بھی مشغولیات کا حصہ تھا۔ رمضان میں ریڈیو پاکستان سے سحری کے وقت نعتیں تقاریر اور آخر میں خوبصورت آواز میں فجر کی اذان سننا کئی سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ مغرب کے بعد افطار ٹرانسمیشن بھی ریڈیو پر سنے۔چونکہ گھر میں علمی و ادبی ماحول تھا اس لیے فلمی گیت سننا منع تھا لیکن ادھر ادھر سے فلمی گیت کان میں پڑ ہی جاتے تھے۔ ہمارا بچپن امیتابھ بچپن کے عروج کا زمانہ تھا راستے میں فلمی پوسٹر دیکھا کرتے تھے جس پر امیتاب بچن کی مقبول فلموں کے پوسٹر لگے ہوتے تھے اور ان فلموں کے گانے ریڈیو پر اکثر بجا کرتے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو سے فوجی بھائیوں کے لیے فلمی گیتوں کا پروگرام‘ ہوا محل کے تحت ڈراموں کی نشریات اور سال کے آخری دن رات بارہ ایک بجے تک خصوصی پروگرام بھی ریڈیو کا حصہ رہے۔ خبریں سننے کا شوق اور معلومات کے حصول کا شوق ہی تھا کہ ہماری معلومات تازہ ترین رہا کرتی تھی اور دوسرے دن اخبار آنے سے بہت پہلے ہمیں اپنے شوق کے حالات حاضرہ کا علم رہا کرتا تھا۔ کتب خانہ جاکر اخبار اور رسائل کے مطالعے نے معلومات میں مزید اضافہ کیا جس کا فائدہ آگے چل کر مسابقتی امتحانات میں کامیابی کی شکل میں ملا۔ حیدرآباد آمد کے بعد ماہ رمضان میں رات میں سعودی عرب کے ریڈیو پر تراویح سننے کا موقع ملا جناب سدیس صاحب اور شریم صاحب کی آواز ریڈیو سے ہم نے سننی شروع کی۔90ء کی دہائی ٹیلی ویژن کی مقبولیت کی دہائی تھی جب کہ ڈش ٹی وی کا عروج ہوا اور کرکٹ کمنٹری ریڈیو کے بجائے اب ہم ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھنے اور سننے لگے۔ ای ایس پی این اسٹار اسپورٹس اور بعد میں سونی ٹی وی پر مختلف کرکٹ میچ اور انگریزی اور ہندی کے پروگرام ہمارے مشغلہ کا حصہ رہے۔ بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ریڈیو کی مقبولیت باقی رہی لیکن اس میں بتدریج کمی واقع ہوتی گئی۔ ایف ایم ریڈیو بھی حیدرآباد میں بسوں اورکاروں میں سنا جاتا تھا ۔چھوٹے ایف ایم ریڈیو سیٹ بھی چائنا کے سامان کی دکانوں پر ملا کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں تقریباً بیس تا پچیس سال چلنے والا مرفی ریڈیو کئی مرتبہ خراب ہوا ہمارے شناسا نسیم بھائی اسے ریڈیو کی دکان پر ریپیر کرتے رہے کبھی اس کی ڈوری ٹوٹی تو کبھی کچھ بہرحال ریڈیو کے ساتھ ہماری یادیں ہمارے بچپن کا ایک یادگار سرمایہ ہے۔ اس شوق نے جہاں انگریزی پر عبور سکھایا تو وہیں پرانی یادیں بھی ہماری یادداشت کا حصہ بنتی گئیں۔آج انٹرنیٹ کی آمد کے بعد ریڈیو بھی انٹرنیٹ کا حصہ بن گیا۔ اب بھی ہماری کرکٹ کمنٹری سننے کا شوق ہمیں ریڈیو سننے پر مجبور کرتا ہے ریڈیو آسٹریلیا کا گرینڈ اسٹینڈ اور بی بی سی کا ریڈیو فائیو ا یپ کرکٹ کمنٹری فراہم کرتا ہے۔ کچھ لوگ یوٹیوب پر بھی ٹی وی دیکھ کر کمنٹری کرتے ہیں اور ہم کمپیوٹر پر کچھ کام کرتے کرتے یا لیٹے لیٹے اسی ریڈیو کمنٹری سے استفادہ کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی بدلتی رہی۔ پہلے بڑے بڑے ٹاور لگا کر ریڈیو سگنل بھیجے جاتے تھے اب وہی ریڈیو سگنل انٹرنیٹ کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں ۔ حیدرآباد میں نامپلی پر موجود ریڈیو اسٹیشن میں جانا اور کانچ کے کمرے میں بند مائک کے سامنے بیٹھ کر ریڈیو پروگرام ریکارڈ کرانا بھی ہمارے کالج کے زمانے کی یادیں ہیں۔ امید ہے کہ نئی نسل کے ہمارے شاگرد اور دوست احباب ہمارے بچپن کے شوق اور پرانی یادوں کو پڑھیں گے اور پچھلے زمانے کے ہمارے شوق سے ہمارے بارے میں کچھ رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔