ٹیکنالوجی کے ساتھ میرا سفر بچپن سے رہا۔ مجھے بچپن کا ایک کھیل آج بھی یاد ہے۔ جب میں چھوٹا تھا ابتدائی اسکول کا زمانہ تھا۔ گھر کے دیوان خانہ کے دروازہ میں جو باہر سڑک کی جانب کھلتا تھا اس میں ایک سوراخ تھا۔اس سوراخ میں سے جھانک کر دیکھا جائے تو باہر گزرنے والے لوگوں کو اور سواریوں کو دیکھا جاسکتا تھا۔ ایک مرتبہ والد صاحب کی عینک ٹوٹ گئی تو اس عینک کا ایک موٹا سا شیشہ میں نے اپنے پاس رکھ لیا ایک مرتبہ یوں ہیں خیال آیا کہ اس دروازے پر اس شیشے کو رکھ کر دیکھا جائے تو کیسا لگتا ہے۔ سادہ آنکھ سے دیکھا کچھ خاص نظر نہیں آیا۔ شیشہ رکھ کر میں نے کچھ فاصلے پر اندر کی جانب ایک سفید کاغذ لگایا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ایک ٹیلی ویژن اسکرین کی طرح کاغذ پر باہر سے چلنے والے لوگ اور سواریاں نظر آرہی تھیں۔ میں نے کمرے میں اندھیرا کیا تو یہ منظر اور واضح اور گہر اور رنگین ہوگیا۔ میں نے کاغذ پر تیل لگایا تاکہ اسکرین مزید واضح ہو ۔ اس تجربے میں ایک ناکامی یہ تھی کہ عینک کے گلاس سے تصویر الٹی نظر آرہی تھی بہرحال یہ بچپن کا کھیل اس وقت تک جاری رہا جب تک وہ عینک کا گلاس ٹوٹ نہ گیا۔ اس وقت ٹیلی ویژن کے بارے میں میں نے سنا بھی نہیں تھا۔ گھر میں والد صاحب کا خریدا ایک مرفی ریڈیو تھا جو میرے معلومات میں اضافے اور مشاغل کا حصہ تھا۔ ریڈیو کی یادیں کے عنوان سے ریڈیو کی تفصیلات دی جارہی ہیں۔ کافی عرصہ تک ریڈیو استعمال میں رہا۔ بعد میں والد صاحب کے ریٹائرمنٹ کے موقع پر انہیں ایک چھوٹا ریڈیو جیٹکنگ دیا گیا تھا جس میں میٹر ویو اور شارٹ ویو آتے تھے ایک دفعہ یوں ہی میں نے ریڈیو کھول کر اس میں ایک اسکرو گھماتا رہا تو مختلف اسٹیشن بدلتے رہے۔ ریڈیو آسٹریلیا کی کرکٹ کمنٹری ۱۳ میٹر بینڈ پر آتی تھی جو بڑے ریڈیو میں ہوتا تھا لیکن میری کوشش سے چھوٹے ریڈیو میں بھی یہ کمنٹری آنے لگی۔ اور یہ ریڈیو حیدرآباد آنے کے بعد بھی کافی عرصہ تک بی بی سی ‘ریڈیو آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے کرکٹ میچوں کی کمنٹری سننے کے کام آتا رہا۔ چھوٹے ریڈیو میں شارٹ ویو صاف سنائی دے اس کے لیے میں نے ایرئیل کے طور پر ایک وائر لگادیا تھا جسے دور تک لیجانے سے اسٹیشن صاف سنائی دیتے تھے۔ گھرمیں کبھی برقی بلب بدلنا ہو یا کہیں بلب لگانا ہو تو یہ کام بھی مجھے آتا تھا اسی طرح کبھی گھر کا فیوز چلا جائے تو فیوز بدلنے کے کام بھی میں خود کرلیتا تھا۔ نظام آباد میں ۱۹۸۵ء میں رنگین ٹی وی آچکا تھا۔ ۱۹۸۲ء میں ایشین گیمس جو دہلی میں ہوئے تھے اس کے بعد سے اضلاع میں بھی دوردرشن کی ٹیلی ویژن سروس شروع ہوگئی تھی۔ پہلے حیدرآباد سے سگنل وصول کرنے کے لیے کافی اونچے بڑے اینٹینا لگانے پڑتے تھے۔ بعد میں چھوٹے ٹرانسمیٹر لگانے سے چھوٹے اینٹینا سے بھی ٹی وی آجایا کرتا تھا۔۱۹۸۵ء میں ہندوستان نے آسٹریلیا میں ورلڈ سیریز جیتی تھی۔ اور وی شاستری کو مین آف دی سیریز کے طور پر آڈی کار دی گئی تھی۔ اس سیریز کے اکثر میچ میں نے کلکٹر آفس کے رنگین ٹی وی پر دیکھے مقامی لوگوں کو میچ دیکھنے کا موقع دیا جاتا تھا۔ شام کے اوقات میں چہارشنبہ کو چترہار فلمی گانوں کا پروگرام آیا کرتا تھا پہلی مرتبہ ہندوستانی سینما اور فلمی نغموں کی ویڈیو جھلک اسی ٹیلی ویژن پر دیکھی ورنہ ہمارے ہاں بچوں کا تھیٹر جاکر فلمیں دیکھنا منع تھا۔ ہمارے گھر نظام آباد میں قیام تک ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا۔ حیدرآباد میں بھی بڑے چاچا کے گھر ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ ہر ہفتہ ہندی فلم لگتی تھی سامنے اقبال صاحب کے گھر سے ٹی وی کی آواز آتی تھی بعد میں فہیم چاچا کے گھر بلیک اینڈ وائٹ چھوٹا ٹی وی آیا تو ہم اکثر پروگرام اور کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی ٹی وی خریدنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ والد صاحب کی نوکری عادل آباد میں تھی یہ شائد ۱۹۸۸ء کی بات ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک ٹیلی ویژن کا ڈیزائن اتار کر والد صاحب کو خط لکھ کر بھیجا کہ اپنے گھر کے لیے اس ڈائزان کا ٹی وی خرید کر لائیں والد صاحب نے عادل آباد میں کرامپٹن ٹی وی خریدا۔۲۰ انچ کا بڑا ٹی وی آٹو میں رکھ کر گھر لائے۔گھر والوں میں خوشی کی لہر دوڑی کہ گھر کا ٹی وی آگیا اس وقت کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے دن بھر کسی کے گھر جاکر بیٹھنا مناسب نہیں لگتا تھا بہرحال دوردرشن پر جو بھی پروگرام آتے تھے وہ اس ٹی وی پر دیکھے جاتے تھے اتوار کے دن صبح سے شام تک پروگرام اور ہفتے کی شام این ڈی ٹی وی کا خاص پروگرام دی ورلڈ دس ویک کافی مشہور تھا۔ رات میں دور درشن پر نیوز پڑھنے والے اینکر بھی کافی عرصے تک یاد رہے۔ والد صاحب نے عادل آباد سے جو ٹی وی کے ساتھ اینٹینا لایا تھا وہ لو ٹرانسمیٹر کا تھا حیدرآباد میں اینٹینا کا سائز الگ بڑا ہوا کرتا تھا س کا ہمیں اندازہ نہیں تھا ہمارے گھر پروگرام صاف نہیں آتے تو میں اینٹینا کو ڈش لگا کر صاف سگنل وصول کرنے کی کوشش کرتا ایک مرتبہ شام کے اوقات میں یوں ہی چینل پھرا کر دیکھے تو ہلکی آواز میں سعودی چینل کے سگنل موصول ہوئے اور وہاں کی حرم شریف کی اذان بھی سنائی دینے لگی معلوم ہوا کہ یہ سٹلائٹ کی وجہہ سے ہے۔ ۹۰ء کی دہائی میں جب کیبل ٹی وی کی وبا شروع ہوئی تو ہمارے گھر کے پیچھے نوجوان لڑکوں نے ڈش اینٹینا کا مرکز لگایا تھا۔ اس وقت اسٹار ٹی وی کے نام سے ایک ڈش پر اسٹار ٹی وی کے اسٹار پلس اسٹار مویز اسٹار اسپورٹس کے پروگرام آتے تھے دوردرشن کے تھکے ہوئے پروگراموں کے مقابلے میں کیبل کے چوبیس گھنٹے پروگراموں نے ٹیلی ویژن کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ہم نے بھی کیبل کنکشن لیا اور بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر مخصوص الیکٹرانک بینڈ لگا کرکئی چینل دیکھے گئے۔ بعد میں سونی ٹی وی‘ای ایس پی این اسپورٹس‘ زی ٹی وی ‘زی سینما اور پتہ نہیں چینلوں کی بھرمار ہوگئی۔ اور گھروں میں صبح سے شام تک ٹی وی چلنے لگے۔ پروگراموں کے انتخاب اور اسپورٹس دیکھنے پر ہی توجہ دی گئی۔کافی عرصہ بعد والد صاحب نے ایک چھوٹا رنگین ٹی وی خریدا لیکن بھائی صاحب اور دیگر کی جانب سے جب گھروں سے ٹی وی نکالنے کی مہم چلی تو ہم نے بھی ۲۰۰۵ء کے بعد سے گھروں میں ٹی وی نکال دیا۔ بعد میں اسمارٹ فون اور کمپیوٹر کا زمانہ آگیا۔ جیسا کہ کہا گیا میں نے ۲۰۰۹ء میں سنگاریڈی میں قیام کے دوران پہلا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر خریدا تھا۔ جس کا مانیٹر ٹیلی ویژن کے طرز پر ہوا کرتا تھا۔ کمپیوٹر پر میں نے اردو ٹائپنگ سیکھی۔ای میل بنانا اور مضامین بھیجنا سیکھا اور پہلی مرتبہ فیس بک اکائونٹ شروع کیا۔ جب زمانہ گزرنے کے ساتھ انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں فرق آیا تو نظام آباد میں قیام کے دوران میں نے یوٹیوب کی تعلیمی افادیت استعمال کی۔ میں نے کالج کے طلباء سے اسباق کے خلاصوں کو ریڈینگ کی شکل میں ریکارڈ کروایا اور اسکرین پر کتاب کے صفحات کو اسکرول کرتے ہوئے پیچھے سے طلباء کی آڈیو پلے کرتے ہوئے میں نے نصابی اسباق کے یوٹیوب ویڈیوز ۲۰۱۵ء سے تیار کرنے شروع کیے۔ گوگل میں اپنی تصویر کیسے نظر آتی ہے اس بات کا ایک زمانے تک اشتیاق ہی رہا۔ گوگل میں اپ لوڈکیسے کرتے ہیں یہ بات بھی کافی عرصے بعد معلوم ہوئی۔جب یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ ہونے لگے اور نہ صرف ہمارے کالج کے طلباء بلکہ دیگر کالج کے طلباء ان ویڈیوز کو دیکھنے لگے تو یوٹیوب پر سبسکرائب کرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی اور آج میرے چینل پر تین سوسے زائد ویڈیوز ہیں۔ غزل کی تعریف‘نظم کی تعریف دو ویڈیو ایسے ہیں جن کو دیکھنے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ جب بھی میں کسی جگہ کسی موضوع پر مقالہ پڑھتا ہوں یا تقریر کرتا ہوں تو میں اس کا ویڈیو اپنے فون میں ریکارڈ کرلیتا ہوں اور اسے یوٹیوب پر اپنے چینل پر اپ لوڈ کرلیتا ہوں۔نظام آباد میں قیام کے دوران ہی میں نے گوگل کی ویب سائٹ کی سہولت بلاگ سے اپنے کئی بلاگ تیار کیے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا اردو بلاگ‘حج کا سفر بلاگ اور دیگر بلاگ پر میرے مضامین محفوظ ہیں۔ میں نے جی سائٹ کے نام سے اپنی ایک گوگل ویب سائٹ بنائی ہے جس پر ڈگری اردو نوٹس شامل ہیں۔ میرے اردو بلاگ پر میری کتابیں پی ڈی ایف کی شکل میں محفوظ ہیں۔ کمپیوٹر میں اردو لکھنے کے لیے ان پیج کے علاوہ یونی کوڈ کی سہولت موجود ہے یونی کوڈ عالمی زبانوں کی ایک تکنیک ہے جس کی مدد سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر ہم کسی بھی زبان میں گوگل سرچ کر سکتے ہیں اور فیس بک واٹس اپ اور انسٹا گرام ٹوئٹر وغیرہ پر لکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنے بلاگ پر اردو یونی کوڈ میں اپنے اور دوسروں کے مضامین لگائے۔ ایم ایس آفس کے پاور پوائنٹ سے میں نے اردو میں پاور پوائنٹ بنانا شروع کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ارد د ڈی ٹی پی اور کورل ڈرامیں اردو ڈیزائن کیا جاسکتا ہے اسی طرح فون کے مختلف اپلی کیشن ہیں جن میں اردو میں اشعار اور اقوال زرین دیدہ زیب ٹائپ کئے جاسکتے ہیں۔
جب ٹیکنالوجی کا ذکر چل رہا ہے تو فون کا بھی قصہ سن لیں۔ ایک زمانے تک لینڈ لائن فون استعمال کرنے کے بعد میں نے ۲۰۰۵ء میں پہلی مرتبہ سیل فون خریدا۔ اس وقت ٹاٹا انڈی کام کی جانب سے ٹاٹا کو مفت کالنگ کی سہولت تھی۔ چنانچہ میں نے اور دیگر احباب نے یہ سوچ کر ٹاٹا کے فون خریدے کے آپس میں مفت بات کرسکتے ہیں ورنہ ریچارج کی بنیاد پر کسی کو ایک یا دو منٹ بات کرنے سے اچھی خاصی رقم خرچ ہوجاتی تھی۔ اس وقت کے سیل فون اسمارٹ فون نہیں تھے صرف کالنگ کی سہولت تھی۔ پہلی مرتبہ میں نے جو فون نمبر لیا وہ نمبر آج بھی میرے فون کا واحد نمبر ہے اور وہ نمبر9247191548ہے ۔ایک عرصہ تک ٹاٹا کے بعد رہنے کے بعد پورٹ کرنے کی سہولت سے آئیڈیا میں جانے کے بعد اب جیو کمپنی کے ساتھ یہ نمبر چل رہا ہے۔ ظہیر آباد میں قیام کے دوران چار ہزار میں میں نے پہلی مرتبہ انٹرنیٹ والا فون لیا۔ وہ بھی سیل فون تھا چھوٹے سے اسکرین پر ویڈیو ڈائون لوڈ کرکے دیکھا جاسکتا تھا۔ نظام آباد کے قیام کے دوران اسمارٹ فون کا دور آیا اور اسمارٹ فون کے ساتھ جیو کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد میں سامنسگ ہی میرے فون کا حصہ رہا ہے۔ اب یہ فون زندگی کے ساتھی ہوگئے ہیں۔کچھ دیر فون سے دور رہیں تو بے چینی ہوتی ہے کہ کس کا مسیج آیا۔دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اسمارٹ فون پر میچ دیکھنے واٹس اپ دیکھنے کے علاوہ بھی بہت سے اپلی کیشن سے زندگی میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔کمپیوٹر کا اردو میں تعلیم کے فروغ میں استعمال اور فون کے ذریعے معلومات کاتبادلہ ٹیکنالوجی کے ساتھ میرے سفر کا حصہ رہا ہے۔ ۲۰۱۳ ء میں جب میں نے نظام آباد میں اسکائپ کے ذریعے کناڈا سے ڈاکٹر تقی عابدی کا براہ راست لیکچر کرایا تو اردو الوں کے لیے یہ نیا اور انوکھا تجربہ تھا میرے تجربے کو دیکھ کر اردو یونیورسٹی اور دیگر احباب نے بھی اسکائپ کالنگ سے آن لائن لیکچر شروع کیے۔ جب ۲۰۲۰ء میں کووڈ کی وباء پھیلی اور طویل لاک ڈائون کے سبب بچوں کا تعلیمی نقصان ہوا تو میں نے ہی پہلی مرتبہ زوم لیکچر کا سلسلہ شروع کیا بعد میں سرکاری طور پر ہمیں اس ایپ کی مدد سے آن لائن کلاسز لینے کے لیے کہا گیا۔میںنے کئی دوست احباب اور اساتذہ کو آن لائن کلاس لینے انہیں ریکارڈ کرنے اور یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کے طریقے بتائے۔ ویب سائٹ پر لنک کیسے تیار کرتے ہیں گوگل فارم کی مدد سے کیسے ہم کار آمد مواد کا تجزیہ کرسکتے ہیں اور گوگل سائٹ کی مدد سے اور گوگل ڈرائیو کی مدد سے ہم کیسے تعلیمی فوائد حاصل کرسکتے ہیں یہ میں سلسلہ وار سیکھتا گیا اور لوگوں کو سکھاتا گیا۔ اب اے آئی یعنی آرٹی فیشیل انٹلجنس کا زمانہ ہے چاٹ جی پی ٹی کو کیسے ہم تعلیم میں استعمال کرسکتے ہیں اور گوگل ترجمے کی مدد سے کیسے ہم کار آمد مواد کا اپنی زبان میں ترجمہ کرسکتے ہیں یہ سب باتیں ٹیکنالوجی کے ساتھ سفر کا حصہ ہیں۔ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اس کے علاوہ بھی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہمارے گھروں میں اور بازار کی زندگی میں دستیاب ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے سیکھنا ضروری ہے۔ آج آن لائن کی مدد سے گھر پر چیزیں منگائی جارہی ہیں۔ آن لائن رقم کی منتقلی ہورہی ہے اور انٹرنیٹ پر اپنی معلومات گوگل اور لنکڈ ان پر محفوظ کی جارہی ہیں یہ سب باتیں ٹیکنالوجی کا حصہ ہیں اگر ہم یہ نہیں سیکھیں گے تو ہم خود پیچھے رہ جائیں گے اور نقصان اٹھائیں گے ۔ٹیکنالوجی کی رفتار تیز ہے لیکن ہمیں اپنی ضرورت کی حد تک ٹینکالوجی کا سیکھنا اور اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔