ایک عظیم ورثے سے محرومی!
جانے والے کبھی نہیں آتے جانے والوں کی یاد آتی ہے
دنیا کی ایک حقیقت ہے کہ جو اس دنیا میں آیا اسے ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے۔ اچھی زندگی وہ ہے جس میں انسان اپنی پیدائش کے مقصد کی تکمیل کے ساتھ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ﷺ کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور جاتے ہوئے دنیا والوں کے لیے ایسا کچھ چھوڑ جائے کہ رہتی دنیا اسے یاد کرتی رہے۔ 12نومبر2018بروز پیر یہ وہ دن تھا جب ہمارے سروں سے والد محترم جناب محمد ایوب فاروقی صابرؔ کا سایہ رضائے الٰہی سے اٹھ گیا۔ اور ہم سب ایک علمی و ادبی وراثت سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے ساری زندگی صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ صحت و عافیت سے گزاری اور صرف ایک ماہ کی علالت ان کے آخری سفر کا باعث بنی۔جو خدا کو منظور تھا وہ ہوگیا۔ والد محترم نے اپنی عمر عزیز کی 85بہاریں دیکھیں اور بھرپور زندگی گزار کر اس دار فانی سے کوچ کیا۔ یہ ہماری خوش بختی رہی کہ ہم نے انہیں بھرپور مثالی زندگی گزارتے دیکھا اور ان کی تربیت اور اخلاقی وراثت کے امین ہونے پر ہمیں فخر ہے اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے والد کی نصیحتوںکے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔
ایک بچے کے لئے اس سے زیادہ فخر کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اپنے والد سے وراثت میں علم و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ملے۔ اس لحاظ سے میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اپنے والد محترم جناب محمد ایوب فاروقی صابر سے اردو ادب کی وراثت ملی اور میں اسے پروان چڑھانے اور شمع سے شمع جلتی ہے کہ مصداق دوسروں تک پہونچانے میں لگا ہوں۔ انسان کی یادوں کا سرمایہ اس کی زندگی کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے اور شعور کی منزل تک پہونچنے کے بعد سے اب تک میرے والد سے سنی باتوں اور ان سے سیکھے علم و داب کا سرمایہ میرے لئے بے حد قیمتی ہے اور میں اسے پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں۔ سب سے پہلے میں اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہوں کہ والد محترم کو اللہ رب العزت کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔والد محترم سے اپنے خاندان کے بارے میں اکثر سنا کرتا رہا کہ نظام آباد میں میرے دادا محمد اسماعیل فاروقی کا انتقال اس وقت ہوا جب کہ والد صاحب اپنے اسکولی تعلیم کے مراحل طے کر رہے تھے۔ ان کی والدہ اور میری دادی رحمت بی صاحبہ مرحومہ نے اپنے بچوں کے ساتھ نا مساعد حالات میں زندگی بسر کی اپنے بچوں یعنی میرے والد کے علاوہ میرے چاچائوں محمد اصغر فاروقی‘ محمد اظہر فاروقی‘ محمد امجد فاروقی‘محمد انیس فاروقی اور چار پھوپھوئوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور والد صاحب کے بشمول تما م چاچائوں نے اعلیٰ عہدوں پر سرکاری ملازمت کی۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کا شوق تھا۔ اور اس کے لئے وہ ورنگل اور حیدرآباد میں رہے۔ انٹر کے بعد ان کا داخلہ ایم بی بی ایس میں بھی ہوا تھا۔ جس میں ڈاکٹر مجید خان اور خالہ زاد بھائی ڈاکٹر سید یوسف علی ان کے ہم جماعت تھے۔ تاہم معاشی تنگی کے سبب وہ ایک سال کے بعد میڈیسن کی تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں لیکن ان کے بڑے فرزند میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے اپنے والد کے خواب کو پورا کیا اور وہ نظامیہ طبی کالج حیدرآباد میں پروفیسر معالجات ہیں کچھ عرصہ انہوں نے کالج کے پرنسپل اور ایڈیشنل ڈائرکٹر محکمہ آیوش تلنگانہ کے عہدے پربھی خدمات انجام دیں۔اسلامی طریقہ علاج حجامہ کے ضمن میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
اسی طرح والد صاحب نے بی اے کی ڈگری لی۔ کالج میگزین میں انگریزی حصہ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اور انگریزی مضمون Time and space with Iqbalلکھا۔ ایم اے اردو سے کرنے کی خواہش پر جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔ صدر شعبہ اردو پروفیسر مسعود حسین خان نے کہاان سے کہا تھا کہ تعلیم جاری نہ رکھو تو طبعیت پر ظلم کرو گے۔مصطفی کمال‘ اشرف رفیع اورسیدہ جعفر اس زمانے میں ان کے ہم جماعت تھے۔ لیکن ملازمت کے گھریلو دبائو کے پیش نظر انہیں اپنے پسندیدہ مضمون سے اعلیٰ تعلیم کا موقع نہیں ملا۔ تاہم ان کی خواہش کی تکمیل کا مجھے موقع ملا۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میرا ایس ایس سی کا نتیجہ آیا تھا۔ میر ے والد کے دوست جناب رشید احمد شطاری صاحب گھر آئے ہوئے تھے۔ میرے نشانات دیکھے تو پتہ چلا کہ انگریزی‘ اردو اور سماجی علوم میں زیادہ نشانات ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مجھے آرٹس میں دلچسپی لگتی ہے اسی حساب سے تعلیم جاری رکھی جائے۔ لیکن ایک طرف گھر والوں کی خواہش تھی کہ بڑے بھائی میڈیسن کی لائن میں آگے بڑھ رہے ہیں مجھے انجینیرنگ میں آگے جانا چاہئے۔ چنانچہ میرے مزاج کے خلاف میرا داخلہ ایم پی سی انگریزی میڈیم سے ہوا۔ لیکن ریاضی سے عدم دلچسپی کے باعث میں نے بعد میں بی اے اردو میڈیم سے کیا۔ نظام آباد میں اسکولی تعلیم کے ساتھ مجھے حفظ کلام پاک کی توفیق بھی حاصل ہوئی۔ جناب عرفان احمد صاحب اور مولانا جمال الرحمن مفتاحی میرے حفظ کے اساتذہ تھے۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ دین کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کرتے رہو۔ چنانچہ حیدرآباد میں حفظ کی تکمیل اور عثمانیہ یونیورسٹی یوننگ کالج سے بی اے کے بعد میں نے بی ایڈ کے بجائے والد محترم کے مشورے پر یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔اسی طرح ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا اور میں آج بھی اپنے خاندان کا واحد ڈاکٹریٹ ہوں۔ ایک اور بات جو ہم بھائیوں کے لئے قابل فخر ہے کہ والد محترم سرکاری ملازمت میں وظیفہ پر سبکدوشی سے قبل ترقی پر گزیٹیڈ عہدے پر فائز ہوئے تھے اور عادل آباد سے بحیثیت ایمپلائمنٹ آفیسر سبکدوش ہوئے تھے۔ لیکن میں اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی دونوں نے پبلک سرویس کمیشن امتحانات میں کامیابی کے بعد اپنی ملازمت کی ابتدا ء ہی گزیٹیڈ عہدے سے کی۔ جس پر خاندان میں سبھی لوگ والد صاحب کو مبارک باد دیتے رہے کہ فاروقی صاحب کے دونوں فرزندڈاکٹر ہیں اور گزیٹیڈ عہدے پر فائز ہیں۔ مجھے بھی جونیر لیکچرر کے عہدے پر ملازمت ملی اور ناگرکرنول‘سنگاریڈی‘ظہیر آباد ‘ نظام آباد‘ محبوب نگر میں کام کرنے کے بعد اب پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد کے عہدے پر فائز ہوں۔ والد صاحب زمانہ ملازمت میں اپنی انگریزی خط و کتابت کے لئے مشہور تھے وہ انگریزی اخبارات اور کتابوں کے مطالعے کی تلقین کرتے رہے جس کا فائدہ مجھے بھی ہوا اورگری راج کالج نظام آباد میں شعبہ انگریزی کی صدارت کے دوران مجھے ایک انگریزی قومی سمینار اور بہ حیثیت صدر شعبہ اردو دو اردو قومی سمینار منعقد کرنے کا موقع ملا۔ والد صاحب کو ان کے ماموں سید واحد علی واحد ڈپٹی کمشنر آف لیبر موظف بمبئی سے کافی لگائو تھا وہ یوسف ناظم کے رفیق کار تھے اور ریاست کی تشکیل جدید کے بعد ان کی خدمات مہاراشٹرا منتقل ہوگئی تھیں۔وہ جب بھی حیدرآباد آتے ہمارے گھر قیام کرتے اور اکثر زمانہ طالب علمی میں جامعہ عثمانیہ کی یادوں کا ذکر کرتے رہتے۔ وہ نامور قانون داں ڈاکٹر حمید اللہ کے شاگرد رہے تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے ’’متاع غم‘‘ اور ’’انبساط الم‘‘ بھی شائع ہوئے۔ وہ اکثر حیدرآباد کے ماضی کی علمی و ادبی محفلوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ جن میں ہاسٹل میں قیام کا زمانہ‘ کالج کا ماحول‘مخدوم اور سکندر علی وجد اور دیگر کا ذکر اکثر ہوا کرتا تھا۔یہ باتیں میرے لئے اشتیاق بھری ہوتیں۔
میرے والد کا سنہ پیدائیش1933ء تھا۔ انہوں نے نظام دور حکومت دیکھا۔ جد و جہد آزادی کے زمانے میں وہ نوجوانی کے دور سے گزرے تھے۔ میں نے اکثر ان سے اس دور کے ہندوستان کے حالات سنے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی‘سقوط حیدرآباد کے واقعات‘پولیس ایکشن اور نظام آباد کے فسادات کی خونریزیوں کی داستانیں میں نے ان سے سنی ہیں۔کہا کرتے تھے نظام آباد میں ایک سخت گیر پولیس افسر باری صاحب ہوا کرتے تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ باری صاحب کا ڈنڈا نظام آباد ٹھنڈا۔ تقسیم ملک کے بعد لوگوں کی ہجرت اور یہاں رہنے والوں کی معاشی پریشانیوں کے تذکرے بھی ان سے سنے۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ سقوط حیدرآباد کے بعد مسلمانوں پر برے حالات آئے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے کافی عرصے تک مسلمانوں پر بند رہے۔ پھر بعد میں حالات سدھرے۔ میری ایک پھوپھو عابدہ بیگم اپنے شوہر کے کہنے پر ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوگئیں۔ لیکن اب بھی و ہ پڑوسی ملک میں مہاجر کہلاتی ہیں۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ ان کا یہاں رک جانے کا فیصلہ دانشمندانہ ثابت ہوا۔ ورنہ اکثر لوگ بہکاکر ہجرت کرجانے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ ابتدائی ملازمتوں کے احوال اور محکمہ آئی ٹی آئی اور پھر بعد میں محکمہ ایمپلائمنٹ میں ان کی ملازمت کے احوال میں نے ان کے ماموں سے گفتگو کے دوران سنے۔
ہمارا آبائی مکان محلہ پھولانگ نظام آباد میں یعقوب منزل کے نام سے مشہور تھا۔ جس میں ہم 1985ء تک رہے بعد میں وہ مکان فروخت کردیا گیا۔ اس مکان کے دیوان خانے میں والد صاحب کے دوست احباب اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ جناب کاظم علی خان صاحب مدیر نوید سحر پابندی سے آیا کرتے تھے۔ پاگل عادل آبادی‘ بیلن نظام آبای اور تنویر واحدی اکثر اصلاح کلام کے لئے والد محترم سے رجوع ہوا کرتے تھے۔ نظام آباد مشاعروں کا شہر ہے مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے اس شہر میں یادگار مشاعرے منعقد ہوئے۔ لیکن نظام آباد کی تاریخ کاایک یادگار مشاعرہ شائد 1982ء میں راجیو آڈیٹوریم تلک گارڈن میں منعقد ہوا۔ یہ ایک کل ہند مشاعرہ تھا۔ جس میں شمال سے کیفی اعظمی‘ خمار بارہ بنکوی‘ راز الہ آبادی‘ بیکل اتساہی وغیرہ نے شرکت کی۔ جب کہ حیدرآباد سے اوج یعقوبی‘سعید شہیدی‘ ثریا مہر‘عزیز النسا صبا اور دیگر نے شرکت کی مقامی شعرا کے طور پر والد صاحب نے کلام سنایا۔ جس پر کیفی اعظمی نے بطور خاص داد دی تھی۔ اس مشاعرے کی نظامت زبیر رضوی نے انجام دی تھی جنہوں نے حال ہی میں داعی اجل کو لبیک کہا ہے۔ نظام آباد میں جناب الماس خان صاحب کہا کرتے تھے کہ والد محترم نے انجمن ترقی اردو شاخ نظام آباد کے لیے بہت کام کیا۔ دائرہ ادب کے مشاعروں میں کلام سنایا۔ حیدرآباد میں کچھ مشاعروں میں رحمن جامی اور گلزر زتشی دہلوی کی موجودگی میں کلام سنایا۔ انیس فاروقی کے افسانوی مجموعے کی رسم اجرا میں پروفیسر مغنی تبسم اور عوض سعید نے شرکت کی تھی اور والد صاحب کے کلام پر داد دی تھی۔ عادل آباد میں قیام کے دوران والد صاحب کا شعری مجموعہ’’آخر شب کے ہمنشیں‘‘ شائع ہوا۔ جس کی رسم اجرا تقریب کے لیے عادل آباد کی تاریخ کا یادگار مشاعرہ اور محفل افسانہ منعقد ہوئی۔ والد صاحب کی شاعری کے علاوہ نثر بھی کافی پختہ ہے۔ اسلوب میں تجربات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ سابقہ منصف کی جانب سے ایک مزاحیہ مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کیا گیا تھا جس میں لمحہ آخر میں والد صاحب نے اپنا مضمون’’داخلہ پالیسی‘‘ بھیجا۔ جسے انعام اول سے سرفراز کیا گیا۔ آپ نے چالیس سال قبل ’’نظام آباد کا تغرافیہ‘‘ کے نام سے جو انشائیہ لکھا تھا وہ آج بھی نظام آباد کی قدیم یادوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کا ایک اور انشائیہ’’تختہ مشق‘‘ بھی کافی مقبول ہوا۔انہوں نے کچھ افسانے بھی لکھے تھے۔ عادل آباد میں دوران قیام والد صاحب نے کئی نوجوان شعرا کی سرپرستی کی۔ وظیفہ پرسبکدوشی کے بعد آپ نے کچھ عرصہ ٹولی چوکی میں سنچری اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ فریضہ حج کی سعادت کا موقع ملا۔ فالج کے اثر کے باجود آپ نے عزم و حوصلے کا اظہار کیا اور خود طواف اور سعی کے مراحل طے کئے۔ آپ کا معمو ل تھا کہ معراج کالونی ٹولی چوکی صبح چہل قدمی کو نکلتے ہیں۔ شام میں عصر تا مغرب مسجد جا کر نماز ادا کرتے ہیں اور تلاوت کلام پاک میں مشغول رہا کرتے تھے۔ محلے میں کافی مقبول تھے۔راہ چلتے بچوں کو چاکلیٹ دینا اور حتی المقدور لوگوں کی مدد کرنا آپ کی عادت تھی۔ انتقال کے بعد کئی لوگوں نے روتے ہوئے کہا کہ فاروقی صاحب ہماری غیر معمولی مدد کرتے تھے۔ اپنے شعری ذوق کے بارے میں کہتے ہیں کہ اکثر اشعار ہوجاتے ہیں لیکن بہ سبب فالج برقت لکھ نہیں پاتے تھے۔ گھر میں نواسی صدف فاطمہ اُن کے اشعار لکھ لیتی تھیں۔ امید ہے کہ اشعار کے اس سرمایہ کو جمع کرکے میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام شائع کروں۔نظام آباد میں گری راج کالج کے اردو نصاب میں ان کی ایک نظم ’’تیری میری آس وہی ہے‘‘ شامل کی گئی۔
ہمارا گھر خاندان کا مرکزی گھر ہے۔ نظام آباد میں یعقوب منزل کے چھوٹنے کے بعد موجودہ مکان کا نام بھی ان کے دادا کے نام پر یعقوب منزل ہی رکھا گیا۔ ہمارے گھر کی خاص بات مہمان نوازی ہے۔ جس میں والدہ محترمہ پیش پیش رہتی ہیں۔ بچوں کی تربیت ان کی تعلیمی ترقی اور شادی بیاہ کے مراحل کو با آسانی انجام دینے میں ہماری والدہ محترمہ کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ وہ نظام آباد کے مشہور تاجر سید دائود رحمن صاحب کی صاحبزادی ہیں۔ اور ان کی خاص عادت لوگوں کی خاطر تواضع کرناتھا۔ اور ہمارا گھر آج بھی خاندان کا مرکزی گھر رہا ہے جہاں بے شمار گھریلو تقاریب منعقد ہوئیں اور اب دنیا بھر میں موجود عزیز و اقارب جب بھی حیدرآباد آتے ہیں ہمارے گھر ضرور قیام کرتے ہیں۔ چاروں بہنوں شہناز نسرین‘فوزیہ پروین‘شازیہ یاسمین اور فائزہ تزئین کی شادیاں اچھے گھروں میں ہوئیں۔ چاروں بہنوائی شیخ خواجہ میاں‘ ایوب خان‘ عزیز صدیقی اور الیاس خان اچھی ملازمتوں پر فائز ہیں۔ والد صاحب کے ایک اچھے رفیق کار ان کے بھائی اصغر فاروقی ہیں جو بلا ناغہ صبح گھر آتے ایک گھنٹہ والد صاحب سے بات چیت کرتے اور والد صاحب کی پنشن کے علاوہ دیگر ضروریات کی تکمیل کا خیال رکھتے۔ بڑے فرزند ڈاکٹر احسن فاروقی نے والد محترم کی طبی اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا۔ جب کہ راقم آپ کی ادبی نیابت کا فریضہ انجام دے رہا ہے اور والد صاحب سے ان کا ادبی ورثہ حاصل کرتا رہا ہوں۔ والد صاحب کے چھوٹے بھائی محمد انیس فاروقی ایک اچھے افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ جن کے افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بھی والد صاحب سے کلام کی اصلاح لی۔ اس طرح دیکھا جائے تو والد محترم جناب محمد ایوب فاروقی صابر کی زندگی کا سفر کڑی دھوپ میں گھنے سایے کی طرح ہے کہ خود تو زندگی میں محنت و مشقت کی لیکن اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی اور سماج میں دوسروں کے معین و مددگار رہے۔ زمانہ ملازمت میں ایمپلائمنٹ دفتر میں لوگ کال لیٹرز اور ملازمتوں کے حصول کے لئے اکثر والد صاحب سے رجوع ہوتے رہتے۔ والد صاحب نے اپنی زندگی کی طرح ہمیں بھی تربیت دی کہ لقمہ حلال کی جستجو رکھو باقی اللہ پر بھروسہ۔ لوگوں کی مدد کروگے تواللہ آپ کی مدد کرے گا۔
نظام آباد سے نامور صحافی ادیب و شاعر جناب جمیل نظام آبادی نے گونج کا ایوب فاروقی خاص نمبر اپریل2016میں شائع کیا۔اعتماد کے اوراق ادب اور گونج نظام آباد میں آپ کا کلام پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ آپ کی مقبولیت تھی کہ انتقال کے موقع پر کافی عزیز و اقارب نے جنازے میں شرکت کی اور دنیا بھر سے لوگوں نے تعزیتی پیامات روانہ کئے۔ شکاگو سے جناب احمد پریمی صاحب نے والد محترم کا ایک قدیم انشائیہ فیس بک پر پیش کیا۔ والد صاحب کے کام کو آگے بڑھانے اور ان کی خدمات کو خراج پیش کرنے کے لیے تعلیمی فائونڈیشن یا انعامی سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔اہل نظام آباد اور اہل اردو والد محترم کی اردو خدمات اور انسان دوستی کوفراموش نہیں کریں گے اور انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں گے۔
مجھ سے بھی وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ میں کیا ہوں
اب کیسے بتائوں انہیں آپ اپنی صدا ہوں(صابر)
والد صاحب کے انتقال کے بعد سے ہی والدہ محترمہ قمرالنساء بیگم کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔زندگی میں گھٹنو ں کے درد کے لیے انہوں نے درد کم کرنے والی گولیاں کافی استعمال کی تھیں۔ اس کا اثر ان کی بعد کی زندگی میں ہوا۔ جب ان کی دل کی حرکت کم ہونے لگی تو انہیں پیس میکر ڈالا گیا۔ والد صاحب کے انتقال سے پہلے ان کی یادداشت کم ہونے لگی تھی زندگی بھر خاندان کی اور گھر کی خدمت کرنے والی خاتون چولہا کھلا رکھ کر بھول جانے لگی دودھ ابل گیا تو سالن جل گیا۔ بڑے بھائی صاحب کی فیملی اوپری منزل پر رہ رہی تھی میرا تبادلہ نظام آباد میں ہوا تھا والد کے انتقال کے وقت میرا تبادلہ محبوب نگر ہوا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ صاحبہ کی دیکھ بھال کے لیے ایک خاتون ورکر سبدھرا کو رکھا گیا جو والدہ صاحبہ کی ہر لحاظ سے دیکھ بھال کیا کرتی تھیں والدہ صاحبہ کو بھولنے کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ وہ اپنے بچوں کو اور خود کو بھولنے لگیں یہ ہم بچوں کے لیے اور افراد خاندان کے لیے صبر کا لمحہ تھا کہ ہماری ماں ہم کو نہیں پہچان رہی ہیں اکثر وہ کہتی تھیں کہ والد صاحب مسجد میں بیٹھے ہوں گے ابھی تک گھر نہیں آئے دیکھو دروازہ کھلا رکھو۔ کیوں کہ آخری زمانے میں والد والدہ ہی گھر میں رہ گئے تھے بڑے بھائی صاحب اوپر کی منزل میں رہ رہے تھے۔ والدہ کی جانب سے والد صاحب کو یاد کرنے کا سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا حالانکہ والد صاحب کا جنازہ انہوں نے نظروں سے دیکھا تھا۔ سبدھرا ان کے نہانے اور صاف صفائی اور غذا کا خیال رکھتی تھیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ صاحبہ کا جوبھی پنشن رہا وہ سبدھرا کی تنخواہ میں لگ جاتا تھا۔ ۲۰۲۰ ء کووڈ کے دوران بھی والدہ معراج کالونی کے گھر میں رہیں ایک دفعہ طوفانی بارش میں معراج کالونی کے پچھلے حصے میں گھروں میں پانی داخل ہوگیا ہمارا مکان چونکہ کچھ نیچے ہوگیا تھا اس لیے کھڑکیوں سے پانی داخل ہوگیا والدہ صاحبہ کے بستر تک پانی جمع ہوگیا محلہ کے لڑکوں کو بلا کر کسی طرح والدہ صاحبہ کو بچا لیا گیا اور انہیں سامنے والی آنٹی کے گھر منتقل کیا گیا ۔ دوسرے دن انہیں ہمارے گھر نیراجا کالونی کی پہلی منزل کے کمرے میں لایا گیا سبدھرا بھی ہمارے ساتھ رہنے لگیں وہ ہندی میں بات کرتی تھی اور والدہ کو امی جی کہا کرتی تھیں ان کی مالش کرنا صفائی کرنا اس کی ذمہ داری تھی والدہ صاحبہ کی غذاکم ہونے لگی تو ان کو پائپ کے ذریعے مائع غذا دی جانے لگی گرمیوں میں جسم پر بیڈ سور ہوگئے اور آخر کار ۱۷ جون ۲۰۲۱ء کو صبح فجر سے قبل انہوں نے کچھ دیر آنکھ کھول کر سب کو دیکھا اور اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ والد اور والدہ کی قبریں حکیم پیٹ کے قبرستان میں ہیں۔ والدہ صاحبہ کی خدمت ہم بھائی بہنوں نے اچھی طرح کی۔ ان کو دیکھنے کے لیے ہمارے گھر سارے خاندان کے لوگ آتے رہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے بزرگوں کا سایہ کس قدر ضروری ہے۔ والد اور والدہ سے محرومی کا احساس ہمیں ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ ان کی تربیت اور نصیحتیں ہمیں اپنی زندگی کی کٹھن راہوں میں سنبھل کر چلنا سکھاتی ہیں۔ والدہ صاحبہ خاندان کی بڑی بہو تھیں ۔ ان کے چاہنے والے لوگ خاندان میں بہت ہیں بڑی مامی اور بھابھی کہنے والے ۔ سب انہیں یاد کرتے ہیں۔زندگی کا سفر تیزی سے جاری ہے گزرے ہوئے لوگوں کو یاد رکھنا ہم زندہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ والدین کی یادوں کو اس آپ بیتی میں اس لیے محفوظ کیا گیا کہ ہمارے بچے کم از کم اپنے دادا دادی اور نانا نانی کے کارنامے اس کتاب کے ذریعے پڑھ کر ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے رہیں۔