میں شاید جنگلوں میں جا بسوں اب
میں انسانوں سے اتنا ڈر گئی ہوں
”لگتا ہے پیٹ میں دوڑتے چوہوں نے سر مجتبٰی کی بات کو مجھ سے زیادہ سیریس لے لیا ہے بنا بریک پہ پاؤں رکھے دوڑتے چلے جا رہے ہیں“ بھوک سے نڈھال ارسل نے بھاگتے ہوئے دہائی دی۔
”تم لوگ دیکھ لینا تاریخ کے سیاہ اوراق میں لکھا جائے گا کہ کس طرح اس جلاد صفت انسان نے صرف پانچ منٹ اور ستاون سیکنڈ لیٹ ہونے پر تین جوانوں کو خالی پیٹ اس وسیع و عریض گراؤنڈ کے پچاس چکر لگوائے تھے“ حسن کی دوسرے چکر میں ہی بس ہو گئی تھی۔
”میں بتا رہا ہوں تم دونوں کو اگر ہم کچھ دن اور ان کے انڈر رہے تو بارڈر پہ جانے سے پہلے ہی شہید ہو جائیں گے“ ارسل نے پھولی ہوئی سانسوں کو ہموار کرتے ہوئے پیشن گوئی کی۔ وہ لوگ کچھ دن پہلے ہی بھرتی ہو کر آئے تھے اور یہ ان کی قسمت کی خرابی ہی تھی کہ ان کا پہلا واسطہ کیپٹن مجتبٰی سے پڑا تھا۔ جو اپنے جونئیرز کو ستانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔
”غلطی تم دونوں کی تھی اور میں بے چارا تم دونوں کو جگانے کے چکر میں یوں ہی مفت میں مارا گیا“ کب سے خاموش حمزہ کو بھی اپنا دکھ یاد آیا۔
”ہاں تم تو جیسے صبح سویرے مرغ کی جگہ بانگ دینے۔۔۔“ لفظ حسن کے منہ میں ہی رہ گئے وہ دیوار کے ساتھ پڑے وجود کو دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔ان دونوں نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں چادر میں لیپٹا ایک وجود بے حس و حرکت پڑا تھا۔
”اف میرے خدایا۔۔۔لگتا ہے کوئی مار کر یہاں لاش چھوڑ گیا ہے“ ارسل نے اپنے مخصوص انداز میں حیرت کا اظہار کیا۔
”لوگوں کی دیدہ دلیری دیکھو آرمی والوں کا بھی ڈر نہیں رہا۔۔۔کیمپ کے پاس ہی لاش چھوڑ گئے“ حمزہ کے خون نے فوراً جوش مارا ۔
"تم دونوں پیچھے رہو۔۔۔ میں چیک کرتا ہوں “ حسن کہتے ہوئے چند قدم آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ لاش پر سے کپڑا ہٹاتا لاش یکدم کھڑی ہو گئی۔ وہ تینوں بوکھلا کر پیچھے ہوئے تھے۔ اسی اثنا میں ان کے پیچھے کچھ فرلانگ کے فاصلے پر موجود کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر کیپٹن مجتبٰی اور لیفٹینٹ ولی نے باہر جھانکا تھا۔ وہ سزا دینے کے بعد ایسے ہی نظر رکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔
”خبردار اگر کوئی میرے پاس آیا۔۔۔ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ تم سب وردی والے ایک جیسے ہوتے ہو۔۔۔ میجر آتش جیسے “ ان تینوں کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ میجر آتش کون ہے جس کی پاداش میں انہیں بھی برا بھلا سننے کو مل رہا ہے۔ گرد سے اٹے وجود نے بازوں پہ لٹکائے شاپنگ بیگ سے چند پتھر نکال کر ہاتھ میں پکڑے تھے۔
”ریلیکس میم۔۔۔ آپ غلط سمجھ رہی ہیں ہم نہ کسی میجر آتش کو جانتے ہیں نہ اس جیسے ہیں ہم۔۔۔ “ اس سے پہلے کہ ارسل اپنی بات مکمل کر تا ایک نوکیلا پتھر اس کے سر پر آ کر لگا۔ کھڑکی پار کھڑے ان دونوں نے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی تھی جبکہ ارسل کی پیشانی خون سے داغدار ہو چکی تھی۔
”میم ایک آرمی والے کو زخمی کر کے آپ غلط کر رہی ہیں۔۔۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو بات چیت سے بھی حل ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ ڈرون حملے کرنا بند کریں “ حسن نے ارسل کی پیشانی سے نکلتے خون پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
”اگر کسی نے آپ کے ساتھ برا کیا ہے تو آپ تحمل سے ہمیں ساری بات بتائیں۔۔۔ہم اسے سزا دلوانے میں آپ کی ضرور مدد کریں گے“ حمزہ نے رسانیت سے اسے بات کرنے پہ آمادہ کرنا چاہا ۔ وہ اس کی بات سن ہی کب رہی تھی اس نے تاک کر حسن پر پتھر پھینکا جس سے اس نے بچنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن مقابل کا نشانہ اتنا پکا تھا کہ اس کی ٹانگ پر لگ ہی گیا۔ مجتبٰی نے اس حرکت پہ محظوظ ہوتے ہوئے میز پر پڑا وائرلیس اٹھا کر اس پہ بٹن دبائے تھے۔
”سکینڈ لیفٹینٹ حمزہ یہ کیا تماشہ چل رہا ہے؟“ اگلے ہی لمحے حمزہ کے وائرلیس سیٹ پر بیپ کے ساتھ اس کی رعب دار آواز ابھری تھی۔
”سر ہمیں کیمپ کے گراؤنڈ میں ایک لاش۔۔۔ نہیں میرا مطلب ایک لڑکی ملی ہے“ اس نے بوکھلاتے ہوئے الرٹ ہونے کی کوشش کی۔
”اور ایک لڑکی کو دیکھ کر تم لوگ اپنی سزا بھول گئے“ اس نے سخت لہجے میں گھرکا۔
”سوری سر“ حمزہ خوامخواہ نادم ہوا۔
”جوان ۔۔۔ تمہیں اپنے ساتھیوں کو زخمی کرنے والی مجرمہ کو پکڑ کر لانے کا مشن سونپا جاتا ہے۔۔۔اسے جلد از جلد پکڑ کر اندر لاؤ“ مجتبٰی کی بات پر حمزہ نے ایک نظر سامنے بھپری ہوئی کشمالہ پر ڈالی جو تاک تاک کر اس کے ساتھیوں پر حملہ کر رہی تھی اور وہ اچھلتے کودتے پتھروں سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس تک پہنچنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ بھاگ جانا ان کی سرشت میں شامل نہیں تھا اور کسی عورت پر جوابی حملہ کرنا ان کی تربیت کا حصہ نہیں تھا۔ اسی لئے وہ اس کے پتھراؤ سے بجتے پتھر ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
”اوکے سر۔۔۔“ حمزہ نے پرجوش انداز میں کہتے ہوئے سلوٹ کے لئے ہاتھ اوپر کیا اور وہیں کشمالہ کا آخری پتھر اس کے ہاتھ پر لگا ۔ کمرے میں مجتبٰی اور ولی کا جاندار قہقہ گونجا تھا۔ اپنے جونیئرز کی درگت بنتے دیکھ کر وہ حظ اٹھا رہے تھے۔
”خبردار جو اب کوئی حرکت کی۔۔۔“ حمزہ نے جیب کے پاس لگے دستے میں سے بندوق نکال کر اس پہ تانی تھی۔ لمحہ بھر کو سبز آنکھوں میں اچنبھا ابھرا اور پھر وہ بندوق کو نظر انداز کرتی نیچے پتھر اٹھانے کے لئے جھک گئی۔
”حسن گلے سے مفلر اتار کر اس کے ہاتھ باندھو“ اسے پتھر اٹھاتے دیکھ کر حمزہ نے کہا۔ حسن سرعت سے گردن کے گرد لپٹا مفلر اتار کر اس کی طرف بڑھا تھا۔
وہ جو بظاہر مضبوط بن کر حملے کر رہی تھی اب ہمت ہارنے لگی تھی۔ بھوک کی وجہ سے ہوئی کمزوری کے باعث اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اسی لئے تو اب نشانہ بھی چُوک رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ سیدھی ہوتی اسے چکر آیا تھا اور وہ غش کھا کر زمین بوس ہو گئی۔ بے اختیار مجتبٰی کے منہ سے اوہ نکلا اگلے ہی پل وہ اور ولی ان کے سر پہ تھے۔
”بہت ہی مایوس کیا ہے تم تینوں نے۔۔۔ ایک بالشت بھر کی لڑکی سے مار کھاتے رہے ہو“ اس کی بات پر تینوں نے نظریں جھکائی تھیں۔
”اسے اندر لے کر جانا پڑے گا یہ بے ہوش ہو چکی ہے“ مجتبٰی نے اس کی نبض ٹٹولتے ہوئے انہیں اطلاع دی۔
وہ لوگ اسے کیمپ میں لے جانے کے بجائے ولی کے گھر لے آئے تھے۔ پانی کے کچھ چھینٹے مارنے کے بعد اسے ہوش آگیا تھا لیکن نقاہت کی وجہ سے اسے اٹھنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹے لیٹے ہی غصے سے اپنے پاس دو زانوں بیٹھے مجتبٰی کے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھائے تھے اس سے پہلے کہ وہ اس کا منہ نوچ لیتی اس نے مضبوطی سے کشمالہ کے ہاتھ پکڑے تھے۔
”بس بہت ڈرامہ ہو گیا محترمہ۔۔۔ اگر ہم ایک عورت کی حیثیت سے آپ کا احترام کر رہے ہیں تو آپ ہمیں کمزور سمجھنے کی غلطی نہیں کریں “ بات مکمل کر کے وہ جھٹکے سے اس کے ہاتھ چھوڑتے ہوا کھڑا ہوا تھا۔
”بھابھی مجھے لگتا ہے انہیں کافی بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ اگر کچھ کھانے کو ہے تو لا دیں“ ایک نظر اٹھنے کی کوشش کرتی کشمالہ پر ڈالتے ہوئے اس نے پاس کھڑی ہانیہ سے کہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہی اس کے سامنے گرما گرم روٹی اور سالن رکھ دیا گیا ۔ ان تینوں کی نظریں محسوس کرتی وہ کچھ دیر تک خود پر جبر کرتی رہی اور پھر کھانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا ۔بھوک اب اس کی برداشت سے باہر ہو چکی تھی اسی لئے کچھ دیر کے لئے اس نے عزت نفس اور اپنی نفرت ایک طرف رکھ دی تھی۔ چوبیس گھنٹوں کے بعد معدے میں کچھ جانا شروع ہوا تھا وہ بنا رُکے کھاتی رہی۔
”اور کھا لیں “ ہانیہ نے مہمان نوازی کے آداب نبھاتے ہوئے ایک اور روٹی اس کے سامنے رکھی لیکن اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے پانی کا گلاس منہ کو لگا لیا۔
”اب آپ بتائیں اس گراؤنڈ میں کیا کر رہی تھیں۔۔۔ اور میرے جوانوں کو زخمی کرنے کا کیا مقصد تھا؟“ ہانیہ برتن اٹھا کر لے گئی تو مجتبٰی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں وہاں سو رہی تھی“ اس نے مختصراً جواب دیا۔
”وہاں کیوں سو رہی تھیں اور آپ کا گھر کہاں ہے؟ ۔۔۔ پتا بتا دیں ہم چھوڑ آتے ہیں“ ولی نے نرمی سے پوچھا انہیں لگ رہا تھا شاید وہ گھر والوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر چھوڑ آئی ہے لیکن جواب میں وہ خاموش ہی رہی ۔
وہ جو یہاں آنے سے پہلے سوچے بیٹھی تھی کہ پاکستان کے لوگ انہیں دیکھتے ہی اپنی بانہیں پھیلا کر ان کا استقبال کریں گے اب اس کی سب خوش فہمیاں ختم ہو گئی تھیں۔وہ نہیں چاہتی تھی اسے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کے جرم میں قید کر دیا جائے اسی لئے اس نے اپنے لب سی لئے تھے۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر خاموشی سے یہاں سے نکل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس سے کوئی جواب نہ پاکر مایوس ہو تے اسے اس کے حال پر چھوڑ آئے تھے اور اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ان کا موضوع گفتگو اسی کی ذات تھی۔مجتبٰی کے فون کی بجتی گھنٹی پر دونوں متوجہ ہوئے ۔
”سر آپ نے آج کی نیوز دیکھی؟“ فون پر چھٹتے ساتھ ہی حمزہ نے پوچھا۔
”کیوں آج نیوز پر تمہارے صبح کے کارنامے کی کوریج دیکھائی جا رہی ہے؟“ اس نے ان کی آج صبح والی حرکت پہ چوٹ کی۔
”سر آپ ٹی وی آن کر کے دیکھیں۔۔۔ اسی لڑکی کے بارے میں خبر ہے“ حمزہ نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ خبر پہنچائی جس کے لئے فون کیا تھا۔ اس سے نیوز چینل کی تفصیل پوچھتے ہوئے مجتبٰی نے فون بند کر دیا۔ولی کو مختصراً بتاتا وہ لاؤ نج تک آیا ولی نے بھی اس کی تقلید کی ۔ لاؤ نج خالی دیکھ کر وہ دونوں ٹھٹکے تھے۔باہر کا دروازہ کھلا نظر آ رہا تھا۔ ہانیہ کچن میں تھی اور وہ دونوں ڈرائنگ روم میں۔۔ اسی لئے وہ موقعہ غنیمت جان کر پتا نہیں کب دبے پاؤں نکل گئی تھی۔
”زیادہ دور نہیں گئی ہو گی۔۔۔ میرے خیال میں ہمیں خبر سننے سے پہلے اسے دیکھنا چاہیے“ ولی کے کہنے پر وہ دونوں باہر آکر گاڑی کی طرف بڑھے تھے۔
”تم موبائل پر نیوز لگاؤ“ مجتبٰی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا تو ولی موبائل نکال کر اس پہ انگلیاں چلانے لگا۔
”ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں وہ لڑکی جو پچھلے کچھ دنوں سے بھارتی نیوز چینلز پر پاکستانی جاسوسہ کے حوالے سے دکھائی جا رہی تھی جس پر کشمیر کے لوگوں کو بھڑکانے کے ساتھ ساتھ وہاں کے مقامی لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا بھی الزام تھا وہ دو دن پہلے مری کے گردو نواح میں دیکھی گئی ہے۔۔۔ آخر کون ہے وہ لڑکی واقعی پاکستانی جاسوس یا پھر انڈیا کی کوئی نئی چال۔۔۔۔ ہمارے ساتھ رہیے گا کچھ ہی دیر میں ہم آپ کو اس لڑکی کشمالہ امجد کی سوشل میڈیا پر پھیلی وڈیو دکھانے جا رہے ہیں ۔۔۔۔“ سنسنی پھیلاتی نیوز اینکر سکرین پر بار بار اس کی تصویر دیکھا رہی تھی ۔ ایک نظر سکرین پر ڈالنے کے بعد وہ دونوں متلاشی نظروں سے ارد گرد دیکھتے ہوئے خبریں سن رہے تھے ۔تھوڑا آگے آنے پر ہی وہ انہیں نظر آگئی جو سڑک کے کنارے منہ چھپائے تیز تیز قدموں سے چلتی جا رہی تھی۔
”کشمالہ امجد۔۔۔“ اپنے نام کی پکار پر اس کے قدم تھمے تھے اس نے حیرت سے پلٹ کر پکارنے والے کو دیکھا۔ کیپٹن مجتبٰی خشمگیں نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے یہاں سے ایسے ہی بچ کر نکل جائیں گی۔۔۔ میں اتنی آسانی سے مجرم کو نکلنے نہیں دیتا“ اس کی بات پر کشمالہ کو ہزار واٹ کا کرنٹ لگا۔ وہ کس جرم کی بات کر رہا تھا کیا اس کے غیر قانونی طور پر یہاں آنے کے بارے میں وہ جان گیا ہے۔وہ اتنا ہی سوچ سکی تھی۔
”مجتبٰی ان کے ہاتھ باندھ کر فوراً گاڑی میں بیٹھاؤ نہیں تو یہ پھر سے بھاگنے یا ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گی“ ولی نے مجتبٰی کی طرف رسی بڑھاتے ہوئے کہا اس کی بات پر کشمالہ نے کوئی مذمت نہیں کی تھی خاموشی سے ہاتھ بندھوا کر گاڑی میں آ بیٹھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نرمی سختی ہر طرح سے پوچھ پوچھ کر تھک گئے تھے لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اسے لاؤنج میں پڑی کھانے کی میز کے گرد موجود چار کرسیوں میں سے ایک پر باندھا گیا تھا۔ جب بھی کوئی اس سے سوال پوچھتا جواباً وہ خاموشی سے کھڑکی کے پار سڑک پر چہل قدمی کرتے لوگوں کو دیکھتی رہتی تھی۔ اگر وہ اس لڑکی سے نہ ملے ہوتے تو یقیناً میڈیا کی باتوں کا یقین کر لیتے لیکن اب جب وہ ان کے سامنے تھی تو انہیں لگ رہا تھا یہ لڑکی جاسوس نہیں ہو سکتی اسی لئے جاننا چاہتے تھے کہ آخر وہ ہے کون؟ اور میڈیا بار بار اس کا نام کیوں لے رہا ہے۔
”ہم آپ کو یہاں مہمان بنا کر نہیں لائے۔۔۔ بتائیں کون ہیں آپ؟“ چوتھے دن مجتبٰی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ اس نے تھوڑا سختی سے پوچھا جبکہ ہانیہ اور ولی خاموشی سے ایک طرف پڑے صوفے پہ بیٹھے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ کشمالہ نے اب بھی جواب دینے کے بجائے باہر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
”اس وڈیو میں جو ایک بچی اور خاتون ہیں آپ کے ساتھ وہ اس وقت کہاں ہیں؟اور آپ کا ان سے کیا تعلق ہے؟؟ “ مجتبٰی نے سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو کھول کر اس کے سامنے موبائل رکھا تھا جہاں سکرین پر آہ وبکا کرتی کشمالہ کے ساتھ عدیمہ اور زینب بی بی کا بھی چہرہ دکھائی دے رہا تھا ۔ اسے شدت سے عدیمہ یاد آئی تھی اس کے اندر تکلیف کا ایک احساس اترا تھا جو کسی تند چھری کی طرح اس کا گلا کاٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
”تم لوگوں نے مار دیا ۔۔۔ مار دیا دونوں کو۔۔۔ تم پاکستانی بہت ظالم ہو “اذیت کا احساس پھر سے جاگا تھا۔ جبکہ اس کے الزام پر مجتبٰی نے کوئی تاثر نہیں دیا اس کے لئے اس وقت سب سے اہم اس کی زبان کھلوانا تھا۔
”ان کی قبریں کہاں ہیں؟“ مجتبٰی کو احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک غلط سوال پوچھ بیٹھا ہے۔
”یہ آزاد ملک کے باسی ہوتے ہیں جنہیں مرنے کے بعد بھی دو گز زمین کا ٹکرا مل جاتا ہے ورنہ جو مقبوضہ قومیں ہوتی ہیں ان کی قسمت میں تو کبھی گڑھے آتے ہیں کبھی کھائیاں۔۔۔ اور کبھی کبھی تو ان کے لاشے کھلے آسمان تلے گِدھوں کے جھنڈ کا چارہ بنتے ہیں“ اس کی آواز میں کرب اُمڈ آیا تھا۔
”ہر بات پر آپ پاکستانیوں کو کیوں برا کہنے لگ جاتی ہیں؟“ تھوڑی دیر کے بعد مجتبٰی نے ایک اور سوال داغا۔
”کیونکہ مجھے پاکستانیوں سے نفرت ہے۔۔۔ شدید نفرت۔۔۔ اگر میرا بس چلے تو یہاں سانس لینے والے کسی انسان کو زندہ نہ چھوڑوں“ وہ نفرت کے شعلے برساتی سبز آنکھوں سے کھڑکی کے پار نظر آتی سڑک پر چہل قدمی کرتے ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ واقعی سب کو جلا کر بھسم کر دیتی۔
”کیوں؟ “ وہ اپنے سے دس سال چھوٹی اس لڑکی کی بات سن کر حیران ہوا تھا۔
”وہ جس کی عزت بچانے کے لئے ایک باپ نے جان دی تھی۔۔۔ وہ جس کی عزت کو بچانے کی خاطر ایک ماں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کی سانسیں روکی تھیں۔۔۔ تمہارے اس ملک کے لوگوں نے اسی کی عزت کو برباد کیاہے۔۔۔لٹیرے ہو تم لوگ لٹیرے “اس نے تین دن بعد منہ سے لفظ نکالے تھے اور کسی زخمی شیرنی کی طرح یک دم پھٹ پڑی تھی۔ اگر اس کے ہاتھ کرسی سے نہ بندھے ہوتے تو مقابل کا منہ نوچ لیتی۔
”مجھے افسوس ہے آپ کا واسطہ غلط لوگوں سے پہلے پڑا لیکن یہاں بہت اچھے لوگ بھی ہیں اور اب آپ ایک محفوظ مقام پر ہیں“ وہ سمجھ سکتا تھا اس کے ساتھ یقیناً کچھ غلط ہوا ہو گا اسی لئے محب وطنی کا پر جوش مظاہرہ کرنے کے بجائے اس نے رسانیت سے سمجھانا چاہا۔
”قبریں کتنے ہی محفوظ مقام پر کیوں نہ ہوں اس سے مردے کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی مرنے والے کی زندگی لوٹ کر آتی ہے “ اس کے کاٹ دار لہجے پر وہ لمحہ بھر کو چپ ہو گیا ۔
”لیکن آپ زندہ ہیں اور کسی محفوظ مقام پر ہونے نہ ہونے سے آپ کو فرق پڑتا ہے “ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جتایا تو وہ نظریں چرا کر پھر سے باہر دیکھنے لگی۔
”آپ کون ہیں؟“ اس نے ایک بار پھر نرمی سے پوچھا۔ اتنا تو اسے پتا چل گیا تھا کہ وہ پاکستانی نہیں ہے اسی لئے جاننا چاہتا تھا کہ وہ کشمیر سے ہے یا انڈیا سے۔
”پاکستان کی تباہی“ وہ بولی نہیں پھنکاری تھی۔
” اگر تم دشمن ملک کی جاسوس ہو اور یہ نفرت کا ڈھونگ رچا کر میرے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہو تو یاد رکھنا میں تمہارا بہت برا حشر کروں گا“ اس نے بھی سب لحاظ بالائے طاق رکھ دئیے جبکہ وہ خود کو دشمن ملک کی جاسوس کہے جانے پر پھٹی پھٹی نگاہوں سے میز کے پار بیٹھے شخص کو دیکھنے لگی۔
”بتاؤ کون ہو تم۔۔۔ کہاں سے آئی ہو۔۔ اور تمہاری اس نفرت کا مقصد کیا ہے؟“ وہ بے اختیار کرسی سے اٹھا اور دونوں ہاتھ میز پر رکھتے ہوئے اس کی طرف جھک کر دھاڑا تھا۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ اب بھی بے خوف نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”نہیں کیپٹن صاحب نہیں ۔۔۔ تم وردی والے ہو ۔۔۔ اپنے ملک کی محبت میں جان دینے والے۔۔۔ تم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اپنے ملک کا مکروہ چہرہ دیکھ سکو“ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی تھی۔
” تم بلا جھجک بتاؤ ۔۔۔ جتنی محبت مجھے اپنے ملک سے ہے اتنی ہی نفرت میں یہاں پلنے والی برائیوں سے بھی کرتا ہوں “ اس کا لہجہ مضبوط تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا اس کے ملک کا ایسا کون سا مکروہ چہرہ ہے جس سے سامنے بیٹھی لڑکی روشناس ہوئی ہے۔
”اور ہاں جھوٹ بالکل نہیں ہونا چاہیے ورنہ۔۔۔۔“ اسے بولنے کے لئے منہ کھولتا دیکھ کر کیپٹن مجتبیٰ نے ہاتھ اٹھا کر دھمکی کے انداز میں بات ادھوری چھوڑی تھی۔ وہ بولنا شروع ہوئی تو انجام کی پرواہ کیے بنا سب بولتی چلی گئی اور وہ تینوں دم سادھے اسے سنتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔
باہر زوردار گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا آغاز ہو چکا تھا۔ بارش کی بوندیں بند کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا ٹکرا کر جا رہی تھیں لیکن ان کا شور بھی کمرے میں موجود موت کے سناٹے کو ختم کرنے کے لئے ناکافی تھا۔ داستان گو اپنی داستاں سنا کر خاموش ہو چکی تھی اور سننے والے تینوں نفوس ایک دوسرے سے نظریں چرائے اپنی اپنی جگہ پر شرمندہ ہو رہے تھے۔ اپنے ملک کی برائیوں سے ہر کوئی واقف ہوتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا ہمارے ملک کا گھناؤنا چہرہ دکھائے تو انسان برداشت نہیں کر پاتا۔ ان تینوں کو لگ رہا تھا سامنے بیٹھی لڑکی کے مجرم وہی ہیں۔ انہوں نے ہی اس کی محبت کاخون کیاہے۔ اگر اسے پاکستانیوں سے نفرت تھی تو وہ حق بجانب تھی یہاں جیسے حالات کا اسے سامنا کرنا پڑا تھا اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔
”کیا ثبوت ہے کہ تم نے جو کچھ بتایا وہ سب سچ تھا ہو سکتا ہے تم انڈین آرمی کا کوئی مہرہ بن کر آئی ہو؟“ مجتبٰی کو خود بھی اپنے لہجے کے کھوکھلے پن کا اندازہ تھا لیکن پھر بھی اس کا دل چاہا تھا کاش یہ جھوٹ ہو خاص طور پر جو سب پاکستان میں ہوا وہ سچ نہیں ہونا چاہیے۔ جواب میں کشمالہ نے ایک زخمی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی تھی وہ شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں چرا گیا۔
”ہم ہسپتال سے پتا لگوا لیں گے مجتبٰی۔۔۔ وہاں سے سچ پتا چل جائے گا“ ولی نے حل بتایا جبکہ ہانیہ اب تک آنسو بہانے میں مصروف تھی اسے اس چھوٹی سی لڑکی کا درد بار بار رُلا رہا تھا۔ مجتبٰی کو فون ہاتھ میں لئے باہر جاتے دیکھ کر ولی بھی باہر آیا تھا۔
”مجھے تھوڑا عجیب لگ رہا ہے۔۔۔ کہیں یہ لڑکی ہمیں بیوقوف نہ بنا رہی ہو ورنہ ایسی آپ بیتی سناتے ہوئے کوئی آب دیدہ نہ ہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ ولی نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔ وہ اب تک حیران تھا کہ پوری داستان سناتے ہوئے وہ لڑکی کہیں نہیں روئی تھی۔ ایک عدیمہ کے ذکر کے علاوہ اس کی زبان کہیں بھی نہیں لڑکھڑائی تھی۔
”مجھے اس پہ شک نہیں ایسے حالات کسی کو بھی بے حس بنا سکتے ہیں اور پھر اس نے تو پہاڑوں کے درمیان جنم لیا ہے ولی۔۔۔پہاڑوں کی بیٹی پہاڑوں جیسی مضبوط تو ہو گی نا؟ “ مجتبٰی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔
”ہمیں جلد سے جلد ہسپتال کے عملہ سے عدیمہ کے متعلق بات کرنی ہے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اس کی بہن اور ماں کی لاش یوں ہی بے گور و کفن پڑی رہی تو کہیں محشر کے دن یہ لڑکی ہم سب کا گریبان پکڑ کر اپنے پر ہوئے ظلم کا حساب نہ مانگ لے “ مجتبٰی نے موبائل پر ہسپتال کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔ ہسپتال کا عملہ پہلے ہی نیوز اینکرز کی بار بار آنے والی کالز سے تنگ آ چکا تھا اس لئے انہوں نے اکھڑے لہجے میں کسی بھی قسم کی کوئی تفصیل دینے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً مجتبٰی کو اپنے لہجے میں بات کرنی پڑی تھی جس پر انہوں نے کل ہسپتال آکر بات کرنے کا کہہ دیا تھا۔
”بے فکر رہیں محترمہ۔۔۔ اگر آپ پہاڑوں کی بیٹی ہیں تو ہم بھی پاکستان کے بیٹے ہیں۔۔۔ اس دھرتی پر چڑھا آپ کا ایک ایک قرض چکائیں گے“ یہ مجتبٰی کی باتوں کا ہی اثر تھا جو لیفٹینٹ ولی نے اندر آتے ہوئے پر جوش انداز میں اس سے کہا۔ اس کی بات پر ہانیہ نے خوشی اور کشمالہ نے بے یقینی سے دیکھا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ پاکستان کے یہ بیٹے اس کا قرض چکاسکیں گے بھی یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔