کشمالہ کے جانے کے بعد زینب بی بی اوپر آئی تھیں۔ عدیمہ اب تک سو رہی تھی ان کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ دو دن میں ہی اس کا چہرہ کملا کر رہ گیا تھا وہ شکل میں پوری اپنی ماں پر گئی تھی ۔۔۔ اسے دیکھ کر اکثر امجد صاحب مذاق میں کہتے تھے
”زینب میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ تمہارا بچپن اور بڑھاپا ایک ساتھ دیکھ رہا ہوں“ اور وہ خود کو بوڑھی کہے جانے پر پہلے پہل غصہ ہو جایا کرتی تھیں پھر ان کا مذاق سمجھ کر مسکرانے لگی تھیں ابھی بھی امجد صاحب کی بات یاد کر کے ان کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ آئی تھی۔ انہوں نے جھک کر عدیمہ کا ماتھا چوما تو وہ نیند میں ہلکا سا کسمسا گئی ۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس نے پوری آنکھیں کھول لی تھیں اور زینب بی بی کو پاس دیکھ کر زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔ اس کے انداز پر وہ ششدر رہ گئیں جبکہ کشمالہ بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ بڑی بہن کو دیکھ کر عدیمہ اس کے ساتھ لپیٹ گئی۔
”آپ مجھے اماں کے پاس کیوں چھوڑ کر گئی تھیں۔۔۔ مجھے ان سے ڈر لگتا ہے کہیں وہ مجھے بھی داور کی طرح نہ مار دیں“ عدیمہ کی بات پر اس نے زینب بی بی کی طرف دیکھا جو شرمندگی سے نظریں جھکائے پہاڑ کے نقش و نگار حفظ کر رہی تھیں۔ اس کے دل میں پھانس پڑی تھی۔
”ایسے نہیں کہتے۔۔۔زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اماں نے کچھ نہیں کیا“ کشمالہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
”پھر ابا کے بارے میں بھی آپ یہی کہیں گی کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ان بھارتی فوجیوں نے کچھ نہیں کیا“ عدیمہ کی بات پر وہ لمحہ بھر کو چپ ہو گئی۔
”اماں نے جو کیا وہ نادانستگی میں ہوا لیکن جو ان کافروں نے کیا وہ ظلم تھا اور ظالم کو سزا ملتی ہے“ اس نے سوچ سوچ کر لفظ ادا کیے تھے عدیمہ اب وہ بچی نہیں رہی تھی جو اس کی باتوں سے بہل جایا کرتی تھی۔ چند دنوں کی دربدری نے اسے عمر سے کئی سال بڑا کر دیا تھا۔ بات اسے سمجھ آئی یا نہیں لیکن دوبارہ اس نے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ وہ لوگ پھر سے رخت سفر باندھے اگلے پڑاؤ کی طرف چل دئیے۔ کشمالہ نے پہلے سے زیادہ احتیاط سے کام لینا شروع کر دیا تھا وہ آبادی سے تو پہلے ہی دور تھے اس کی کوشش ہوتی کھانے کی اشیاء لینے کے لئے بھی دکان تک نہ جانا پڑے ۔اسی لئے راستے میں آتے درختوں سے پھل توڑ کر گزار کر رہے تھے۔ کبھی اگر عدیمہ کو زیادہ بھوک لگتی تو زینب بی بی اسے دکان سے کچھ لا دیتی تھیں۔
”اماں۔۔ ابا کتنا پڑھے ہوئے تھے؟“ ایک دن نقشہ کو دیکھتے ہوئے کشمالہ کے ذہن میں یہ سوال اُبھرا تو وہ پوچھ بیٹھی۔
”پانچویں پاس تھے آگے پڑھنا چاہتے تھے لیکن تمہارے داد کے مرنے کے بعد آگے پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔۔۔ بہت ذہین تھے“ زینب بی بی ماضی کے جھروکوں میں کھو گئی تھیں۔ اور نقشہ پر لکھی ایک چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو دیکھ کر اس نے زینب بی بی کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ وہ نقشہ کوئی عام ذہنیت کا مالک انسان نہیں بنا سکتا تھا۔ اسے اب سمجھ آ رہی تھی ابا ہر بار پاکستان جانے کا کیوں کہتے تھے وہ پہلے سے اس کی تیاری کیے بیٹھے تھے۔ بس زینب بی بی نہیں مانتی تھیں وہ چاہتی تھیں اگر جائیں تو ویزا لے کر جائیں بچوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر نہیں جا نا چاہتی تھیں لیکن ویزا کے لئے ان کے پاس پیسے کہاں تھے۔
۔۔۔۔۔۔
بائیس جنوری 2017 کی رات دو بج کے دس منٹ پر انہوں نے پاکستان کی سر زمین پہ پہلا قدم رکھا تھا ۔ وہ آزاد کشمیر کے کون سے علاقے میں تھے انہیں اندازہ نہیں ہو سکا تھا ۔ ایک ماہ سے مسلسل سفر میں تھے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے ان کی ٹانگیں شل ہو گئیں تھیں جسم درد سے چکنا چور تھے۔ لیکن پھر بھی دور کسی چھت پر لہراتا پاکستانی پرچم دیکھ کر ان کے اندر طمانیت بھرا احساس اتر رہا تھا۔ یہاں دشمن کا خوف نہیں تھا یہاں کوئی میجر آتش نہیں تھا۔
”جس دن کشمیر پاکستان کا حصہ بنا یا میں نے پاکستان کی سر زمین پر پہلا قدم رکھا اس دن میں پاک زمین پر سب سے پہلے سجدہ شکر ادا کرو گی ویسے ہی جیسے تقسیم ہند کے بعد مسلمان پاکستان پہنچنے پر کرتے تھے“ اس کے ذہن میں اپنے ہی کہے گئے الفاظ گونجے اور وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو گئی زینب بی بی اور عدیمہ نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔ ان تینوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان آنسوؤں کے بھی کئی رنگ تھے۔۔شکر کے آنسو۔۔۔ اپنوں کی کمی محسوس کر کے غم سے بہتے آنسو۔۔۔
اپنے گھروں میں نرم گرم بستر پر خواب خرگوش کے مزے لوٹتے ملک کے لوگ یہ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے کہ اس وقت ان کے ملک کی سر زمین پر قدم رکھنے پر کسی نے سجدہ شکر ادا کیا ہو گا ۔ یہ آزاد سرزمین اس خاندان کے لئے کتنی اہمیت کی حامل ہے وہ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں پاکستان میں کیا رکھا ہے وہ اس لٹے پٹے خاندان سے پوچھتے آزاد فضا میں کھل کر سانس لینا کتنی بڑی نعمت ہے۔کہیں سے آتی سنسناتی ہوئی گولی اچانک آپ کو ڈھیر نہیں کر دے گی اس خوف سے نجات پانا کتنی بڑی سعادت ہے۔
موسم اتنا سرد نہیں تھا یا موسم کی جتنی سختیاں وہ سہہ کر آئے تھے اس وجہ سے انہیں ایسا موسم قدرے بہتر لگ رہا تھا اس رات کا آخری پہر انہوں نے کھلے آسمان تلے ہی گزارے تھے اگلے دن ایک نئی صبح ان کی منتظر تھی پاکستان میں پہلی صبح۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلنے کے بعد ایک آبشار سے منہ ہاتھ دھو کر انہوں نے پانی پیا اور زینب بی بی دکان سے کچھ کھانے کے لئے لینے چلی گئیں۔
”یہ نوٹ یہاں نہیں چلتا۔۔۔ اسے پاکستانی روپیہ میں بدلوا کر لائیں “ نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے دکاندار نے واپس کر دیا اس کی بات سن کر زینب بی بی کے چہرے پریشانی نظر آنے لگی تھی وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ اب اس انجان ملک میں پیسوں کا انتظام کہاں سے کریں۔
”آپ لوگ غیر قانونی طور پر جموں کشمیر سے آئے ہیں نا؟“ اس شخص نے کچھ فاصلہ پر کھڑی کشمالہ اور عدیمہ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد تھوڑا آگے جھک کر رازدانہ انداز میں پوچھا تو وہ سٹپٹا گئیں۔
”گھبرائیں نہیں اکثر لوگ ایسے آجاتے ہیں“وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے لمحہ بھر کو رکا اور پھر مزید گویا ہوا
” آج اتوار ہے آج کے دن تو پیسے بدلنے والی دکان نہیں کھلی ہو گی۔۔۔ اور ویسے بھی آپ لوگ غیر قانونی طور پر آئے ہیں اگر دوکان والوں نے کوئی تفصیل پوچھی آپ لوگ تو مشکل میں پڑ جائیں گے“ اس شخص نے شش و پنج میں مبتلا زینب بی بی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اپنی بات ختم کی تھی۔
”پھر میں کیا کروں؟ میرے ساتھ بچیاں بھی ہیں“ زینب بی بی کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
”آپ کہ پاس کتنے پیسے ہیں؟ “ دوکاندار کے پوچھنے پر زینب بی بی نے پیسے نکال کر گننے شروع کیے ۔
”دس ہزار ہیں “پیسے گننے کے بعد انہوں نے بتایا تو دکان دار کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
”انڈین کرنسی کی زیادہ اہمیت نہیں ہے یہاں ۔۔۔آپ کو اس کے بدلے پاکستانی چھ ہزار ملیں گے“ اس شخص نے پاس رکھے کلکیولیٹر سے اپنی مرضی کا حساب کرتے ہوئے بتایا۔ زینب بی بی اتنے میں ہی خوش ہو گئیں کے کوئی نیک انسان مدد کر رہا ہے انہوں نے خوشی خوشی پیسے دکاندار کو دے کر پاکستانی پیسے لے لیے۔
”یہ میری طرف سے آپ کے اور بچیوں کے لئے۔۔۔ اس کے پیسے نہیں لوں گا۔۔۔ آخر کو ہمارا آپ سے اسلام کا رشتہ ہے“ اس نے چند بسکٹ اور تین جوس شاپنگ بیگ میں ڈال کر زینب بی بی کو پکڑائے تو وہ ایک بار پھر مشکور ہو گئیں ۔اس شخص کو دعائیں دیتی کشمالہ اور عدیمہ کے پاس آگئیں۔
۔۔۔۔۔۔
”آپا۔۔۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے جلدی سے کچھ کھانے کو لے آئیں“ عدیمہ نے فٹ ہاتھ پر بیٹھتے ہوئے پیٹ پکڑ کر کہا۔ ان لوگوں نے صبح سے بس وہ بسکٹ ہی کھائے تھے اس کے بعد یہ سوچ کر کے کہیں کرایہ کے پیسے کم نہ ہو جائیں وہ کچھ خرید نہیں سکے تھے۔ لیکن اب مری آنے کے بعد جب کشمالہ نے راولپنڈی تک کے کرایہ کی ساری معلومات اکھٹی کر لی تھیں تو اس نے کچھ پیسے بچتے دیکھ کر اماں کو دکان سے کھانا لینے بھیج دیا تھا اور خود عدیمہ کے پاس رک گئی جس نے کچھ کھائے بغیر مزید چلنے سے انکار کر دیا تھا۔
”آپا۔۔۔آپ اماں کے پیچھے جائیں انہیں تو آج کل کچھ پتا ہی نہیں چلتا“ زینب بی بی کو آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر عدیمہ نے اسے بھی پیچھے بھیجنا چاہا۔
”تم بھی تو ان کے پاس نہیں رہتی ہو ۔۔۔تھوڑی دیر انتظار کرو آ جائیں گی“ کشمالہ نے سامنے سپر سٹور کی طرف دیکھتے ہوئے اسے تسلی دی جہاں اندر جانے کے بعد سے زینب بی بی دیکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
”آپا جائیں بھی ۔۔۔میں بھوک سے مر جاؤں گی۔۔۔ یہ کونسا کشمیر ہے جو آپ کو مجھے اکیلاچھوڑتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے“ عدیمہ نے اس کے کان میں گھس کر سرگوشی کی تھی۔ عدیمہ کی بات پر وہ جانے کے لئے اٹھ گئی وہ ٹھیک کہہ رہی تھی ۔۔ہاں یہ پاکستان تھا۔۔۔اس کا پاکستان۔۔۔یہاں کے تو پتھروں پر بھی وہ اعتبار کر سکتی تھی۔۔۔لیکن وہ کمسن ابھی اس تجربہ سے کہاں گزری تھی کہ پتھر قابل اعتبار ہوتے ہیں انسان نہیں۔۔۔ اور پاکستان انسانوں کا ملک ہے یہاں انسان بستے ہیں فرشتے نہیں۔
وہ عدیمہ کو چھوڑ کر زینب بی بی کے پیچھے دکان میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد ان کی واپسی ہوئی اور فٹ پاتھ پر عدیمہ کی جگہ خالی دیکھ کر لمحہ بھر کو اس کے اوسان خطا ہوئے تھے۔ کشمالہ نے اس کی تلاش میں نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ شاید وہ بھوک سے بیتاب ہو کر ان کے پیچھے ہی چلی آئی ہو وہ واپس سٹور میں گئی عدیمہ وہاں بھی نہیں تھی۔
”کوئی اٹھا کر لے گیا عدیمہ کو۔۔۔منع بھی کیا تھا کہ اسے اکیلے نہیں چھوڑنامیرے پیچھے تو کیا لینے آئی تھی “زینب بی بی کی جان منہ کو آگئی تھی۔
”ایسے ہی کوئی اٹھا کر لے گیا یہ پاکستان ہے کشمیر نہیں۔۔۔ جتنی اس نے بھوک بھوک کی رٹ لگائی ہوئی تھی ہو سکتا ہے کوئی اسے کھانا کھلانے لے گیا ہو ۔۔۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز بھی تو بہت ہیں صبح والا دکان دار بھول گیا؟ کچھ دیر میں آ جائے گی فکر نہ کریں“ سولہ سال کی محبت تھی پاکستان سے۔۔۔ ایک پل میں وہ بدگمان کیسے ہو سکتی تھی۔ وہ واپس فٹ پاتھ پر آکر بیٹھ گئی اور عدیمہ کی واپسی کی راہ تکنے لگی۔
”ایسے ہی فکر نہ کروں۔۔۔ انجان لوگ ہیں کیا پتہ کیسے ہوں“ زینب بی بی اب بھی حواس باختگی سے اردگرد دیکھ رہی تھیں۔
”آپ کے لئے انجان لوگ ہوں گے اماں۔۔۔ میرے لئے نہیں ہیں۔۔۔ میرا اور ان کا رشتہ میرے پیدا ہونے کے ساتھ ہی جڑ گیا تھا“ اس نے زینب بی بی کو تسلی دی۔ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتیں منہ میں آیات کا ورد جاری رکھے آس پاس کی جگہوں پر نظر دوڑا رہی تھیں ۔
ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن عدیمہ کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اب تو اسے بھی فکر ہونے لگی تھی اسے بار بار یہی لگ رہا تھا کہ عدیمہ کہیں خود سے چلی گئی ہو گی اور پھر واپسی پر راستہ نہیں مل رہا ہو گا۔ کشمالہ نے اٹھ کر اردگرد دیکھنا شروع کیا آس پاس کے لوگوں سے پوچھا سب نے ہی لا علمی کا اظہار کیا۔ وہ جس سے بھی پوچھتی وہ ”نہیں دیکھا۔۔۔نہیں پتا“ جیسے الفاظ بول کر آگے بڑھ جاتا۔ کشمالہ کو پہلا دھجکا ان کے رویے سے ہی لگا تھا وہاں کشمیر میں تو اگر کوئی گم ہوتا تھا وہ سب ساتھ مل کر ڈھونڈنے لگ جاتے تھے۔ لیکن یہاں تو کسی کو فکر ہی نہیں تھی سب اپنی دنیا میں مگن تھے۔
”نو سال کی میری بہن ہے ۔۔۔کافی دیر سے نہیں مل رہی۔اس نے پنک کلر کی فراک پہنی ہوئی ہے ۔۔۔ آپ نے اسے کہیں دیکھا ہے۔۔۔ اتنا قد ہے اس کا“ ایک نوجوان کو روک کر کشمالہ نے ہاتھ اٹھا کر عدیمہ کا قد بتاتے ہوئے وہی الفاظ دہرائے جو اب تک نجانے کتنے لوگوں سے کہہ چکی تھی۔
”اگر بچی کافی دیر سے نہیں مل رہی تو آپ پولیس اسٹیسشن میں ریپورٹ کروادیں“ اس شخص نے اوہ میں لب سکیڑتے ہوئے اسے حل بتایا۔
”پولیس اسٹیشن کہاں ہے؟“ کشمالہ کے پوچھنے پر اس شخص نے راستہ سمجھا دیا۔
”یہاں کی پولیس تو ضرور مدد کرے گی۔۔۔وہ عدیمہ کو جلد ڈھونڈ نکالیں گے“ پاکستان سے اس کی امیدیں اب بھی نہیں ٹوٹی تھیں جبکہ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا زینب بی بی کی حالت غیر ہو تی جا رہی تھی۔ وہ کشمالہ کی طرح سولہ سالہ بچی نہیں تھیں جو پاکستان کی محبت میں حقیقت سے نظریں چرا لیتیں وہ ایک ماں بھی تھیں جن کا دل وہموں اور خدشوں سے گھرا ہوا تھا۔
”کسی سے دشمنی یا کسی پر کوئی شک؟“ کشمالہ کی منہ سے ساری بات سننے کے بعد حوالدار صاحب نے زینب بی بی سے پوچھا۔
”وہ ۔۔۔وہ بھارتی فوجی اٹھا کر لے گئے ہیں اسے۔۔۔ باقی سب کی طرح اسے بھی مار دیں گے“ زینب بی بی کی دماغی رو بھٹکنے لگی تھی۔ ان کی بات پر حوالدار اور اس کے ساتھیوں نے قہقہ لگایا۔
”لگتا ہے تمہاری اماں بالی وڈ کی فلمیں بہت دیکھتی ہے۔۔۔ بھارتی فوجی وہ بھی مری میں۔۔۔ ہاہاہا “ وہ ہنستے ہوئے دوہرے ہو رہے تھے کشمالہ کو ان کا انداز برا لگا ۔ پولیس کہیں کی بھی ہو شاید ایک جیسی ہی ہوتی ہے اس نے سوچا تھا۔
”چوبیس گھنٹوں سے پہلے گمشدگی کی ریپورٹ درج نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ جا کر انتظار کریں شاید صبح تک آجائے۔۔اور جب پتہ ہے ملک کے حالات خراب ہیں پھر بچوں کے معاملے میں اتنی لاپرواہی کیوں برتتے ہو؟“ انسپکٹر صاحب کی بات سن کر اسے دوسرا شدید دھچکا لگا تھا۔
”کیا پاکستان میں بھی بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے جو یہاں کے حالات خراب ہو گئے ہیں“۔ پولیس اسٹیشن سے نکلتے ہوئے اس نے سوچا اور پھر ایک دکھ بھری نظر مری کے گردو نواح پر ڈالی تھی۔ جیسے حالات خراب ہونے کا افسوس کر رہی ہو اور پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی اسے عدیمہ کو جلد از جلد ڈھونڈنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
تھک ہار کر وہ واپس اسی فٹ پاتھ پر آگئی تھیں جہاں عدیمہ گم ہوئی تھی ۔ ان دونوں نے رات وہیں فٹ پاتھ پر اونگھتے ہوئے گزاری ۔ذرا آنکھ لگی تھی کہ بھوک کی شدت سے کھل گئی اب تو انتڑیاں بد دعائیں دینے لگی تھیں کتنی بھی مشکل کیوں نہ پیش آجائے بھوک ستانے لگ ہی جاتی ہے۔ وہ شاپنگ بیگ میں سے کل صبح کی خریدی گئی چیزیں نکال کر بے دلی سے پیٹ کی آگ بجھانے لگی۔ اس نے زینب بی بی کو بھی کھانے کا کہا لیکن وہ صاف انکار کر گئیں۔
”باجی بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ کچھ ہے تو مجھے بھی دے دو“ کشمالہ نے دیکھا اس کے پاس کھڑا دس بارہ سالہ بچہ للچائی نظروں سے اس کے ہاتھ میں پکڑے سینڈوچ کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے کپڑے میلے کچلے تھے اور چہرے پر چھائی بے چار گی پہلی نظر ڈالنے پر ہی غربت کا پتہ دے رہی تھی۔ کشمالہ کو بے اختیار ترس آیا اور اس نے ہاتھ میں پکڑا سینڈوچ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اپنے گندے ہاتھوں میں سینڈوچ لے کر وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
”ہمارا تو کوئی گھر نہیں اسی لئے ہم یہاں سوتے ہیں۔۔ ۔ تم یہاں کیوں سو رہی ہو ؟“ سینڈوچ کا بڑا سا لقمہ لیتے ہوئے اس نے قدرے مدبرانہ انداز اپنایا تھا۔
”میری بہن کل یہاں سے گم گئی تھی۔۔۔ابھی تک نہیں ملی“ کشمالہ کی آنکھ سے چند آنسو گرے تھے۔
”اور پولیس میں ریپورٹ لکھوائی؟“ بچے نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
”انہوں نے کہا ہے چوبیس گھنٹوں سے پہلے ریپورٹ درج نہیں ہو سکتی“اسے بتاتے ہوئے پولیس والوں کا رویہ یاد آیا تھا اور وہ گھٹنوں میں سر رکھ کر رو دی تھی۔ وہ امجد صاحب کی موت کی خبر سن کر اتنا نہیں روئی تھی اس نے داور کے مرنے پر بھی آنسو نہیں بہائے تھے۔ اور تو اور عدیمہ کے گم جانے پر بھی اس کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے۔ اسے رلایا تھا تو پاکستانیوں کے رویے نے رلایا تھا۔ وہ پاکستان کی تاریخ پڑتی رہی تھی اسے حال کی کیا خبر تھی۔ اسے کیا پتا تھا کہ وہ جن اسلاف کی قربانیوں کو سینے سے لگائے بیٹھی ہے اسے پاکستانیوں نے خود بھلا دیا ہے۔۔۔وہ مری کی ایک سڑک کنارے بیٹھ کر اپنی محبت کا بھرم ٹوٹ جانے پر رو رہی تھی۔۔۔ وہ سولہ سال کی محبت کی ایک دن میں ہوئی نیلامی پر آنسو بہا رہی تھی۔
”تم روؤں نہیں ۔۔۔یہاں کی پولیس ایسے ہی کرتی ہے۔۔۔مجھے ایک جگہ پتہ ہے جہاں گم ہوئے بچے مل جاتے ہیں“ وہ کھانے کے بعد اب جلدی جلدی اپنی گندی قمیض سے ہاتھ صاف کر رہا تھا۔
”کہاں؟“کشمالہ نے سرعت سے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے پوچھا اس کے لہجے میں بے قراری تھی۔
”کچرے کے ڈھیر میں“ اس کی بات پر کشمالہ کو ایسے لگا جیسے مری اورکشمیر کے سارے پہاڑ دھڑا دھڑ اس کے اوپر آ گرے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔