غار کے اندر کی فضا سوگ میں ڈوبی تھی۔ وہاں تین نفوس سہمے بیٹھے تھے ان میں ایک عورت تھی جس نے ایک ہی دن میں اپنے سر کا تاج اور جگر کا ٹکرا کھویا تھا دو لڑکیاں تھیں جو ایک ہی دن میں یتیم اور بے سہارا ہو گئی تھیں۔ جن کے سر سے سائبان اٹھ گیا تھا۔
”اماں یہ کیا کیا آپ نے؟“ عدیمہ خوف زدہ نظروں سے ماں کے پاس پڑے بے جان وجود کو دیکھ رہی تھی۔
”میں۔۔۔ میں نے کیا کیاہے ؟“ زینب بی بی نے خالی الذہبی سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اور پھر داور کو دیکھا۔ انہوں نے تو صرف اس کی آواز دبائی تھی لیکن وہ تو سانسیں بھی روک بیٹھا تھا۔
”آپا۔۔۔ کیا اب داور کبھی بات نہیں کرے گا؟“ عدیمہ نے روتے ہوئے اسے ہلایا لیکن وہ خاموش بت بنی کھڑی رہی اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کسی ایسی جگہ بھاگ جائے جہاں کوئی اسے یہ خبر دینے والا نہ ہو۔
”داور۔۔ داور اٹھ جا نا۔۔۔ میں اب تجھ سے کبھی نہیں لڑوں گی۔۔۔ تیرا سارا ہوم ورک بھی کر دوں گی۔۔۔پلیز اٹھ جا“ عدیمہ نے داور کا کندھا ہلایا۔
”نہ چھیڑ اسے۔۔۔ تیرے ابا اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔۔۔ آخری بار اس نے کہا تھا اب جب بھی کہیں جائیں تو مجھے اپنے ساتھ لے کر جانا۔۔۔ دیکھ تیرے ابا نے اس کی بات مان لی ۔۔۔ ہمارا بالکل نہیں سوچا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے“ زینب بی بی نے عدیمہ کا ہاتھ جھٹک کر داور سے پیچھے کیا وہ اس وقت حواسوں میں نہیں لگ رہی تھیں۔
”آپا یہ اماں کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔ ابا کہاں گئے ہیں؟“ عدیمہ پر ایک اور قیامت ٹوٹی تھی اس نے وحشت سے ایک بار پھر کشمالہ کو ہلایا اماں سے پوچھنے کی اس نے زحمت نہیں کی وہ اس وقت اپنے بھائی کی قاتلہ سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”کچھ نہیں ہوا انہیں۔۔۔کچھ دن میں آ جائیں گے“ لفظ بمشکل اس کے حلق سے ادا ہوئے اس نے عدیمہ کو اپنے ساتھ لگا کر تھپکا تھا۔
”ابا ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔۔۔ انہیں مجھ سے زیادہ داور سے محبت ہے ۔۔۔اسی لئے تو ہر جگہ اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں“ عدیمہ نے روتے ہوئے شکایت کی۔اس پر کشمالہ کے جھوٹ کا اثر نہیں ہوا تھا۔
اس رات ان تینوں کو ہی نیند نہیں آئی تھی۔ صبح کی روشنی پھیلتے دیکھ کر وہ سرنگ سے دوسری طرف آ گئے تھے جہاں سے ان کے سفر کا آغاز ہونا تھا لیکن اس آغاز سے پہلے داور کی تدفین کا کام کرنا ضروری تھا وہ ایک لاش کو ساتھ رکھ کر اس کی بے حرمتی نہیں کر سکتے تھے۔ امجد صاحب نے سرنگ بنانے کے دوران کچھ اوزار غار میں ہی رکھ دیے تھے انہیں کی مدد سے اس نے ایک درخت کے پاس گڑھا کھودا۔ قبر کھودنا آتا ہی نہیں تھا۔ کفن اور غسل کا انتظام بھی نہیں ہو سکتا تھا بس اس نے اماں کا ایک دوپٹہ لے کر اس کے گرد لپیٹ دیا اور پھر جنازہ پڑھنے لگی ۔ وہ کائنات کا سب سے عجیب جنازہ تھا جس میں صرف دو لڑکیوں نے شرکت کی تھی۔وہ داور امجد کا جنازہ تھا جو بہت سے دوسرے معصوموں کی طرح آنکھوں میں آزادی کا خواب لیے اس دار فانی سے کوچ کر چکا تھا۔ کشمالہ نے ایک بار ابا سے جنازہ پڑھنے کا طریقہ پوچھا تھا لیکن یہ نہیں جانتی تھی وہ کیسے وقت میں کام آئے گا عدیمہ آنسو بہاتے اس کے پیچھے پیچھے پڑھ رہی تھی ۔ داور کو گڑھے میں لیٹاتے اس کے ہاتھوں میں واضح لرزش تھی۔ بلند و بالا درخت اور دیو قامت پہاڑ حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کی کاروائی دیکھ رہے تھے اس کے حوصلہ کو داد دے رہے تھے جو ضبط کے کڑے مراحل سے گز رہی تھی۔
”مالا میرا بیٹا ہے۔۔۔ بہت بہادر بچہ۔۔۔ اسے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا آتا ہے “ اس کے ذہن میں امجد صاحب کے الفاظ گونج رہے تھے اور وہ بار بار آنکھوں میں تنی دھند کی چادر کو پیچھے دھکیل رہی تھی۔ اسے اماں کو سنبھالنا تھا جو داور کے بعد سے بہکی بہکی باتیں کرنے لگیں تھیں اسے عدیمہ کا حوصلہ بننا تھا جو غم و خوف کی شدت سے ہراساں ہو رہی تھی۔
”آپا پلیز نہ کریں وہ ڈر جائے گا ۔۔۔ آپ کو پتا تو ہے اسے اندھیرے سےکتنا ڈر لگتا ہے“ اس نے داور کے اوپر پہلی مٹھی بھر کر مٹی ڈالی تو عدیمہ نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ شدتِ گریہ کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ کشمالہ نے نرمی سے اس کے ہاتھ ایک طرف کرتے ہوئے اپنا کام دوبارہ شروع کیا۔
”اتنی ظالم نہ بن مالا۔۔۔ اگر تیرا بھائی گہری نیند سو گیا ہے تو کیا تو اسے ایسے مٹی میں دبا دے گی؟؟؟۔۔۔ ہوش کے ناخن لے اگر تجھے بوجھ لگ رہا ہے تو اپنے داور کو میں اٹھا لوں گی۔۔۔ لا مجھے پکڑا دے “ زینب بی بی کی جیسے ہی اس پر نظر پڑی غار کے دہانے سے دہل کر اٹھ آئی تھیں اور داور کے اوپر سے مٹی ہٹانے لگیں ۔ اس نے بمشکل انہیں ہٹایا وہ وہیں پاس بیٹھ کر اسے کوسنے لگیں ۔ اب کی بار اس نے آنکھیں بند کر کے اندازے سے مٹی ڈالی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی درخت کی جڑوں کے پاس ایک مٹی کی ڈھیری نظر آنے لگی تھی اس نے پتھر کی نوک سے درخت پہ ”داور “ لکھا اور غار میں چلی گئی۔ سامان سمیٹنے کے بعد وہ زبردستی انہیں ساتھ لے کر آگے بڑھی تھی۔ لیکن ایسے مشکل حالات میں بھی وہ غار کی دیوار پر اپنے ساتھیوں کے لئے ایک پیغام چھوڑنا نہیں بھولی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی یہ پیغام ان تک پہنچے گا یا نہیں پر اس نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے ایک دن سے میجر آتش کا برا حال تھا۔ اس نے کشمالہ کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کر لی تھی لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اپنے ساتھیوں کے سامنے ہوئی ہتک کا احساس اس کے اشتعال میں مزید اضافہ کر رہا تھا اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جادو کی چھڑی گھمائے اور وہ لڑکی سامنے آ جائیں۔ اپنے آفس میں بیٹھے ہاتھ میں پکڑی کشمالہ کی پاسپورٹ سائز تصویر کو گھورتے اس کی سوچ بھی کشمالہ کے گرد گردش کر رہی تھی۔ یونیفارم میں بنی وہ تصویر یقیناً کسی داخلہ فارم کے لئے بنوائی گئی تھی جو اسے حارث نے کشمالہ کے گھر سے لا کر دی تھی۔ کرسی کو جھلاتے اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا اسے بدلہ لینے کا طریقہ سمجھ آگیا تھا۔ فوراً سیدھے ہوتے اس نے میز پر پڑا فون اپنے آگے کھسکایا اور بھونیں سیکڑتے ہوئے ایک نمبر ملانے لگا۔
”آرمی بیس کیمپ دہلی۔۔۔“ کال اٹھانے کے بعد دوسری طرف سے کہا گیا۔
”میجر آتش ریپورٹنگ سر“ ایک ہاتھ ماتھے تک لے جاتے ہوئے اس نے بیٹھے بیٹھے ہی سلوٹ کیا تھا۔
”یس میجر کیا ریپورٹ ہے؟“ ماتھ پیس سے رعب دار آواز اُبھری۔
”سر ہمیں باوثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ جموں میں ایک پاکستانی جاسوسہ گھس آئی ہے جو لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا رہی ہےاور ایسا لگتا ہے کچھ عرصے سے ہمارے جوانوں پر جتنے بھی پر سرار حملے ہوئے اسی کی کار ستانی ہے۔۔۔ ہم نے اپنے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کی ایک عدد تصویر حاصل کر لی ہے“ میجر آتش نے اپنے پلان کے مطابق بولنا شروع کیا۔
”وہ لڑکی اتنا کچھ کر چکی ہے اور تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کس انتظار میں بیٹھے ہو۔۔۔ ؟“ مقابل اس کی بات کاٹتے ہوئے دھاڑا تھا۔
”آپ کی اجازت چاہیے تھی سر۔۔۔ اگر حکم کریں تو ہر ناکہ ہر پولیس اسٹیشن پہ اس کی تصویر بھیجوا دوں؟“ہاتھ میں پکڑی تصویر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے میجر آتش اصل مدعہ پر آیا جس کے لئے اس نے راہ ہموار کی تھی۔
” جو مرضی کرو میجر۔۔۔ لیکن وہ لڑکی جلدازجلد پکڑی جانی چاہیے“ ماتھ پیس کے پار سے محکم آواز سن کر اس کے دل پہ ٹھنڈی پھوار پڑی تھی۔
”اب تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا مالا“ اس کی تصویر کو ہاتھ میں گھماتے ہوئے میجر آتش کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمالہ کے پاکستانی جاسوس ہونے والی خبر وادی کے ہر ناکہ پہ پھیلتے پھیلتے احمد تک بھی آ پہنچی تھی اسی لئے شام ہوتے ہی اس نے غار کا رُخ کیا تھا۔ ایسے حالات میں کشمالہ کا کہیں نکلنا ٹھیک نہیں تھا اسے کچھ دن مزید غار میں ہی پناہ لینی چاہیے اسی لئے وہ اسے آگے جانے سے روکنا چاہتا تھا۔ اسے یقین نہیں تھا کہ وہ لوگ ابھی تک چلے گئے ہوں گے یا نہیں۔۔۔ بس ایک مبہم سی امید تھی شاید انہوں نے آج کے دن نکلنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہو۔ اسی امید پر وہ غار تک آ پہنچا تھا لیکن غار خالی تھا۔ اس نے موبائل کی ٹارچ اردگرد ڈالی تو دیوار پر کچھ لکھا دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
”حارث غدار ہے (مارخور) “ ٹارچ قریب کرکے اس نے زیر لب پڑھا اور اس کے اعصاب تن گئے۔ اسے سمجھ نہیں آئی اپنا خدشہ ٹھیک نکلنے پر خوش ہو یا غمگین۔۔۔ بلا شبہ حارث کا شمار اس کے بہترین دوستوں میں ہوتا تھا کچھ دنوں سے اس کی مشکوک سرگرمیاں دیکھ کر احمد کو شک ہورہا تھا لیکن شک کے یقین میں بدلنے پر اسے دکھ ہوا تھا۔ اگر کشمالہ نے کہا تھا پھر اس میں جھوٹ یا غلط فہمی کی کوئی گنجائش بچتی ہی نہیں تھی ۔ احمد جانتا تھا وہ ہمیشہ وہی بات کرتی ہے جس سے خود واقف ہو۔
”کہیں حارث کی وجہ سے امجد انکل کے خاندان کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔۔“ اسے نئی فکر نے آن گھیرا۔لیکن پھر جاسوس والے ڈرامے کے ذہن میں آنے پر اسے یہ تسلی ہو گئی کہ وہ میجر آتش کی گرفت سے فی الحال بچی ہوئی ہے۔
”میں دوستی کا فرض بس اتنا ہی ادا کر سکتا ہوں کہ تمہارا پردہ رکھ لوں لیکن تمہیں سدھرنے کا موقع دینے کے لئے زندہ نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ میں مزید نقصان نہیں اٹھا سکتا حارث“ بڑبڑاتے ہوئے اس نے پتھر سے کشمالہ کی لکھی تحریر پر لائنز لگائیں اور غار سے باہر آگیا۔
اگلے دن بستی والوں نے ایک اور لاش دیکھی تھی جسے ویسے ہی پرسرار طریقے سے مارا گیا تھا جو وہاں کی روایت تھی۔ بستی میں پھر سے آہ و بکا تھی چیخ و پکار تھی لوگ بھارتی فوج کو کوس رہے تھے گالیاں دے رہے تھے۔ ایسے میں ایک شخص بالکل پر سکون تھا اور وہ تھا احمد جبار۔۔۔ جس نے حارث کا پردہ رکھ کر دوستی نبھائی تھی اور ایک غدار کو مار کر اپنی ریاست کا فرض بھی ادا کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اماں پیچھے مڑ مڑ کر کیا دیکھ رہی ہیں؟ ۔۔۔ جلدی چلیں اندھیرا ہونے سے پہلے ہم نے اگلے پڑاؤ تک جانا ہے “ اس نے ہاتھ میں پکڑے نقشہ پر نظر دوڑاتے ہوئے ست روی سے چلتی زینب بی بی کو جھنجھلا کر کہا جو ہر قدم اٹھانے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنے لگ جاتی تھیں۔ وہ نقشہ امجد صاحب نے خود بنایا تھا جس میں غار سے لے کر پاکستان کی حدود میں داخل ہونے تک کے خفیہ راستے کی نشاندہی کی گئی تھی ۔ اس نقشہ پر رہنے کے مقامات کے ساتھ ساتھ کھانے کی اشیاء خریدنے کی دکانوں کو بھی واضح کیا گیا تھا۔ پہاڑوں پر مشتمل راستہ دشوار گزار ضرور تھا لیکن کسی حد تک دشمن سے محفوظ بھی تھا اسی لئے وہ اندھیرا بڑھنے سے پہلے نقشے پر بتائے گئے اگلے پڑاؤ تک پہنچنا چاہتی تھی۔
” کچھ تو خیال کر مالا بھاگی جا رہی ہے۔۔۔ بھائی کو یہیں چھوڑ جائے گی ساتھ نہیں لے کر جانا۔۔۔ یہ داور کہاں رہ گیا ہے ابھی تک آ کیوں نہیں رہا“ پہلی بات بلند آواز میں اس سے کہہ کر آخر میں وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے پھر سے نظریں گھومانے لگیں تھیں جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔
”اماں اب داور نہیں آئے گاآپ سمجھ کیوں نہیں رہیں“ اس نے بے بسی سے ماں کا سمجھانا چاہا۔
”لے ایسے ہی نہیں آئے گا۔۔۔ دیکھ میں اس کی پسندیدہ گاڑی اٹھا لائی ہوں۔۔۔ ابھی بھاگتا بھاگتا آئے گا۔۔۔ اس گاڑی کے بغیر رہتا بھی تو نہیں ہے“ زینب بی بی نے آنچل سے داور کی گاڑی نکال کر اس کے سامنے کی۔ یہ گاڑی داور کو اتنی پسند تھی کہ کہیں بھی جاتے ہوئے اس گاڑی کو ساتھ رکھنا نہیں بھولتا تھا۔اسی لئے غار میں آتے ہوئے بھی وہ گاڑی ساتھ لایا تھا۔
”اماں یہ گاڑی مجھے دیں اور آپ آگے چلیں“ اس نے ماں سے زبردستی گاڑی لے کر اپنی پوٹلی میں رکھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی ۔ عدیمہ کچھ فاصلہ پر کھڑی سب دیکھ رہی تھی داور کے بعد سے وہ زینب بی بی سے دور رہنے لگی تھی۔
پڑاؤ پر پہنچ کر ساتھ لائے گئے کھانے میں سے انہوں نے چند لقمے زہر مار کیے تھے۔ یہاں غار تو نہیں تھا لیکن پہاڑ کے درمیان اتنا بڑا خلا سا تھا جس میں وہ کچھ دیر ستا سکتے تھے۔ سارا دن پیدل سفر میں گزرا تھا اور اس وقت ٹانگیں شل ہو رہی تھیں وہ پہاڑ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تو عدیمہ نے آکر اس کی گود میں سر رکھ دیا۔ایک ہاتھ سے عدیمہ کا سر سہلاتے ہوئے وہ تاسف سے زینب بی بی کو دیکھے گئی جو گلے میں داور کا مفلر ڈال کر اسے پکڑ پکڑ کر خوش ہو رہی تھیں۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہے نظر نہ لگا دینا۔۔ یہ میرے داور کا ہے“ انہوں نے مفلر کا سرا اسے دیکھاتے ہوئے چوما تھا۔ وہ بے بسی سے لب کاٹ کر رہ گئی۔ کچھ دیر تک مفلر کو سہلانے کے بعد زینب بی بی لیٹ گئی تھیں اور اگلے ہی پل نیند کی وادی میں تھیں نیند کے دوران بھی کبھی کبھی ان کے بڑبڑانے کی آواز آ جاتی تھی۔ یخ بستہ ہوا کا جھونکا آیا تو اس نے بے اختیار سوئی ہوئی عدیمہ کے اوپر چادر ٹھیک کی تھیں۔ باہر ہلکی ہلکی برف باری شروع ہو چکی تھی۔
” آپا۔۔میرا نام تو برف میں دب جائے گا“ برف باری کو دیکھتے ہوئے اس کے پاس داور کی آواز کی بازگشت گونجی وہ اپنے نام کے لئے کتنا فکر مند تھا اور اب وہ اسے بھی برف تلے دبنے کے لئے چھوڑ آئی تھی۔ کشمالہ کی آنکھوں سے چند آنسو ٹوٹ کر گالوں تک آئے تھے۔ جنہیں اس نے نیچے گرنے سے پہلے ہی صاف کر لیا جو کچھ آج ہوا تھا وہ اس پر کبھی بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔ تھوڑی دیر لگی تھی اور پھر آہستہ آہستہ نیند نے اسے اپنی آغوش میں لینا شروع کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھ کھولی عدیمہ اب بھی اس کی گود میں سر رکھے سو رہی تھی۔ اس نے نظر دوڑائی اور زینب بی بی کو اردگرد نہ پا کر اس کے پیروں تلے سے زمین کھسکی تھی۔ عدیمہ کا سر کپڑوں کی پوٹلی پر رکھ کے وہ پہاڑ سے اتر آئی سامنے ہی زینب بی بی ایک درخت سے ٹیک لگائے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ وہ آہستگی سے ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔
”تجھے کیا لگتا ہے مالا۔۔۔ اللہ مجھے داور کا خون معاف کر دے گا ؟“ انہوں نے آسمان سے نظریں ہٹا کر کشمالہ کی طرف دیکھا۔
”اماں آپ نے کچھ نہیں کیاداور کا اور ہمارا ساتھ ہی اتنا تھا۔۔۔اللہ نے اس کی اتنی ہی زندگی رکھی تھی“ کشمالہ نے رسانیت سے سمجھانا چاہا۔ ایک طرف اس کے دل کو کچھ سکون بھی ملا کہ اماں نے حقیقت قبول کر لی ہے۔
”ایسے ہی کچھ نہیں کیا۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی سانسیں روکی ہیں“ زینب بی بی نے اپنے دونوں ہاتھ کشمالہ کے سامنے کیے ۔
”وہ بس ایک حادثہ تھا۔۔۔ بار بار نہ سوچیں“ اس نے ایک بار پھر سمجھانا چاہا۔
”وہ بس ایک حادثہ ہی تو نہیں تھا مالا۔۔۔ وہ داور تھا جسے میں نے کھویا ہے“ زینب بی بی کے حلق سے رندھی ہوئی آواز نکلی تھی۔
”آپ اوپر عدیمہ کے پاس جائیں۔۔۔ ادھر پاس ہی ایک دکان ہے میں وہاں سے کچھ کھانے کے لئے لے کر آتی ہوں“ ان کے تکلیف دہ سوالوں سے بچنے کا اسے ایک یہی طریقہ سمجھ آیا تھا۔ اسی لئے کپڑے جھاڑتی ہوئی اٹھ گئی۔
”ویسے یہ پاکستانی جاسوسہ ہے بہت خوبصورت۔۔۔ جس کو بھی ملے گی اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے“ دکان کے پاس کھڑے ان دو باوردی لڑکوں میں سے ایک نے کہا ۔چیزیں خریدتی کشمالہ نے بھی بے دھیانی میں اس کے الفاظ سنے تھے۔
”ہماری قسمت میں تو صرف تصویر ہی آئے گی۔۔۔ایسے علاقے میں وہ خود تو آنے سے رہی“ دوسرے نے آہ بھری ۔
”ویسے لڑکی کا نام کیا ہے؟ “ پہلے نے پوچھا۔
”کشمالہ امجد“ اپنا نام سن کر کشمالہ کے کان کھڑے ہوگئے اس نے سرعت سے ان کی طرف دیکھا نام بتانے والے نے تصویر الٹی کر کے اس کے پیچھے لکھا نام بتایا تھا اور ابھی تک تصویر الٹی ہی پکڑی ہوئی تھی اسی لئے کشمالہ آسانی سے تصویر میں موجود چہرہ دیکھ سکتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں موجود اپنی تصویر دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ اگلے ہی پل وہ بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنی پناہ گاہ تک آئی تھی۔ انہیں جلد سے جلد یہاں سے نکلنا تھا۔ کشمالہ کو سفر کی مشکلات دگنی ہوتی نظر آرہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔