دروازہ بند کرنے کے بعد وہ نجانے کتنی ہی دیر دروازے سے لگ کر کھڑے آنکھوں سے مسلسل بہنے والے آنسو صاف کرتے رہے اور پھر دیوار کا سہارا لے کر لڑ کھڑاتے ہوئے کمرے تک آئے تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ان کی نظر میز پر رکھے تھیلے پر پڑی تو بے اختیار ان کا ماتھا ٹھٹکا اس تھیلے میں ضروری کاغذات تھے جنہیں زینب بی بی پریشانی میں وہیں بھول گئی تھیں ۔ امجد صاحب کے چہرے پر سوچ کی لکیریں نمودار ہوئیں اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو ان کے اہل خانہ ان کاغذات کے بغیر پاکستان نہیں پہنچ سکتے تھے۔
”میجر آتش آج رات واپس آ چکا ہے“ اسی وقت ان کے موبائل پر احمد کا میسج موصول ہوا جسے انہوں نے رات کو ہی فون کر کے میجر آتش کے واپس آنے پر باخبر کرنے کا کام سونپا تھا۔
”مجھے تم سے کچھ کام ہے ابھی آ سکتے ہو؟“ ان کے پوچھنے پر کچھ دیر تک جواب نہیں آیا اسے سویا سمجھ کر ابھی انہوں نے نمبر ڈائل ہی کیا تھا کہ باہر دروازے پہ دستک سنائی دی۔ بے اختیار ایک مسکراہٹ نے ان کے ہونٹوں کو چھوا تھا وہ ایسا ہی تھا بنا کوئی عذر پیش کئے فوراً سے کام کر دینے والا۔
امجد صاحب نے بمشکل ہانپتے ہوئے دروازہ کھولا۔
”آپ دروازہ کھولنے کیوں آئے ہیں۔۔۔ کیا گھر پر کوئی نہیں ہے؟“ سلام کے بعد اس نے پوچھتے ہوئے انہیں آگے بڑھ کر تھاما اور ساتھ ہی ساتھ گھر پر بھی ایک نظر دوڑائی جہاں چھائی خاموشی مکینوں کی غیر موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔
”نہیں انہیں میں نے کچھ دیر پہلے بھیج دیا ہے “ احمد کے سہارے کمرے کی طرف آتے ہوئے انہوں نے بتایا۔
”کہاں بھیج دیا ؟؟ وہ بھی اس وقت۔۔۔ باہر کے حالات کا آپ کو پتا ہی ہے“ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فکر مند بھی ہوا تھا۔
”میں بہت ڈر گیا ہوں احمد۔۔۔ ایک باپ کو موت سے بڑا خوف بیٹی کی عز ت برباد ہونے کا ہوتا ہے“ جواب میں وہ کیا کہتا بے بسی سے سر جھکا گیا۔
”یہ کچھ کاغذات ہیں ۔۔۔ زینب جلدی میں یہی بھول گئی ہے اگر مجھے کچھ ہوجائے تو یہ ان تک پہنچا دینا“ امجد صاحب نے تھیلا اس کی طرف بڑھایا جسے تھوڑے سے متامل کے بعد اس نے تھام لیا۔
”ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔۔۔ دروازہ ٹھیک سے بند کر جانا میں کچھ دیر آرام کروں گا“ غار کا حدود اربع اچھے سے سمجھا نے کے بعد امجد صاحب نے اسے واپس جانے کی اجازت دی تو وہ اٹھ کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر آتش کی جیپ بستی سے کچھ فاصلے پر رُکی تھی۔ وہ دو ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر باقی تین کو ساتھ لئے کشمالہ کے گھر کے پاس آ گیا۔ بنا کوئی آواز کئے پچھلے صحن کی دیوار پھلانگتے ہوئے وہ اگلے صحن تک آئے تھے۔ دبے پاؤں چلتے میجر آتش نے کچن کے ساتھ بنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا وہاں کوئی نہیں تھا۔ خالی کمرہ دیکھ کر وہ بے قراری سے دوسرے کمرے کی جانب بڑھا تھا اس کمرے میں پلنگ سے ٹیک لگائے اونگھتے ہوئے صرف امجد صاحب کو دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگی تھی۔
”کہاں ہے تیری بیٹی۔۔۔ بول کہاں چھپایا ہے اسے؟“ غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے اس نے امجد صاحب کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑا انہوں نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول دیں۔
”وہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہیے “ امجد صاحب نے اطمینان سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو وہ مزید تپ گیا۔
”کمینے انسان تجھے کیا لگتا ہے ایسے تو اسے مجھ سے بچا لے گا؟؟؟ اس تک تو میں پہنچ ہی جاؤں گا کیونکہ میرے ہاتھ سے آج تک کوئی چیز نہیں بچی۔۔۔ لیکن یہ دیکھنے کے لئے تو نہیں بچے گا“ اس نے غصے میں امجد صاحب کو پلنگ سے نیچے دھکیلا تو ان کی زخمی ٹانگ میز سے جا ٹکرائی درد کی شدت کی وجہ سے ان کے منہ سے چیخ نکلی تھی۔ کبیر نے آگے بڑھ کر ان کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔اس لمحہ امجد صاحب نے دل ہی دل میں آسانی سے جان نکلنے کی دعا مانگی تھی۔
”بول کہاں ہے وہ۔۔۔ بول۔۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ تیرا گوشت کتوں کے آگے ڈالوں گا۔۔۔ بولتا کیوں نہیں ہے ۔۔بتا کہاں ہے مالا“ میجر آتش پر تو جیسے کوئی جنون سوار ہو گیا تھا اس نے امجد صاحب پر لاتوں گھونسوں کی برسات کر دی۔ کبیر نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا تھا جبکہ باقی ساتھی پاس کھڑے ہنس رہے تھے قہقے لگا رہے تھے۔ ان کے لئے تو مفت کی تفریح تھی جس سے وہ اکثر ہی لطف اندوز ہوتے رہتے تھے۔ امجد صاحب جو پہلے ہی درد سے آدھ موئے ہوئے جا رہے تھے زیادہ دیر تک ان کے گھونسوں کی تاب نہ لا سکے اور بے سدھ ہو گئے۔
”مر گیا ہے بڈھا۔۔۔ چھوڑ دے بس چل چلیں ۔۔کہیں محلہ سے لوگ نہ اٹھ کر آ جائیں“ کبیر نے اسے کھینچتے ہوئے کہا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ اشتعال میں امجد صاحب کے بے جان وجود کو مسلسل ٹھوکریں لگا رہا تھا۔ باہر سے آتی موذن کی پُروقار آواز پر انہیں جیسے ہوش آیا تھا فوراً وہاں سے نکل آئے۔ فجر کی اذان نے نئے دن کے آغاز کا اعلان کیا تھا لیکن وہاں آج پھر کسی کی زندگی تاریک ہو چکی تھی۔ امجد صاحب کی زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا تھا۔
۔۔۔۔
”اماں۔۔۔ابا کب آئیں گے؟ داور نے ماں کی گود میں دبکے ہوئے چوتھی بار یہ جملہ دوہرایا تھا۔
”تھوڑا صبر کر لو بیٹاتمہارے ابا بس آتے ہی ہوں گے “ زینب بی بی نے اس بار بھی وہی تسلی دی جو پہلے تین بار دے چکی تھیں۔
”اگر ابا نہ آسکے ؟؟“ ماں کے پہلو سے چپکی عدیمہ نے اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ماں کو حقیقت کا دوسرا رخ دکھانا چاہا۔
”اللہ نہ کرے۔۔۔بس ذرا دیر ہوگئی ہو گی رات تک آ جائیں گے “ اس کی بات پر زینب بی بی دہل گئی تھیں جب کہ کشمالہ پتھر اکھٹے کر کے اپنے پاس ڈھیر لگانے میں مصروف تھی ۔ مشکل وقت میں انہیں ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا تھا۔
وہ لوگ بمشکل گھنے جنگل سے ہوتے اس غار تک پہنچے تھے۔ جو آبادی سے بہت دور پہاڑوں کے درمیان میں تھا۔ غار کا ایک دہانہ سامنے کی طرف کھلتا تھا دوسرا بل کھاتی ہوئی سرنگ سے ہو کر درختوں کے جھنڈ تک جاتا تھا۔ دوسرے سرے کو درختوں نے ایسے ڈھانپ رکھا تھا کہ کسی کو وہاں غار کی موجودگی کا اندازہ بھی نہیں ہو گا۔ جس طرح لوگ اس غار سے ناواقف تھے اسی طرح کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہاں کوئی سرنگ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ سرنگ امجد صاحب کی سالوں کی محنت تھی جس کی چوڑائی چار فٹ اور اونچائی بھی تقریباً اتنی ہی تھی۔
وہ لوگ اسی غار میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ابا کا پوچھتے پوچھتے داور ماں کی گود میں لیٹے لیٹے ہی سو گیا تھا اور عدیمہ بھی ان کے کندھے سے لگی اونگھنے لگی تھی۔ بس وہ دو نفوس تھے جن کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ان کے دل گھر میں اٹکے ہوئے تھے جہاں وہ امجد صاحب کو تنہا چھوڑ آئے تھے۔ باہر سے آتی ہر آہٹ پر زینب بی بی کے کان ہی نہیں رونگٹے بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ ابھی بھی باہر سے آتی قدموں کی آواز پر انہوں نے بدحواس ہو کر کشمالہ کی طرف دیکھا جو اپنے سامنے لگائے گئے ڈھیر میں سے چند پتھروں کو ہاتھ میں پکڑتے الرٹ ہو گئی تھی۔
”خالہ یہ میں ہوں احمد۔۔۔ “ جانی پہچانی آواز سن کر ان کی رُکی ہوئی سانسیں بحال ہوئی تھیں لیکن یہ وہ آواز تو نہیں تھی جس کے وہ منتظر تھے اس وقت تو امجد صاحب کو وہاں ہونا چاہیے تھا۔ زینب بی بی نے داور اور عدیمہ کا سر کپڑوں کی پوٹلی پر رکھا اور احمد کی بات سننے باہر آ گئیں۔ کشمالہ بھی ان کے پیچھے پیچھے باہر آئی تھی۔
”خالہ یہ کچھ چیزیں ہیں جو آپ لوگ گھر ہی بھول آئے تھے امجد انکل نے بھیجوائی ہیں “ اس نے تھیلا زینب بی بی کی طرف بڑھایا جسے انہوں نے بادل نخواستہ تھاما تھا۔
” وہ خود کیوں نہیں آئے؟“ کشمالہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا اس کی بات پر احمد کو چپ لگ گئی ۔زینب بی بی بھی سوالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھیں شدت سے انہوں نے دل میں دعا مانگی تھی کہ وہ ٹھیک ہوں۔
”وہ نہیں رہے مالا“ کچھ دیر بعد احمد نے آہستگی سے کہتے ہوئے نظریں جھکائی تھیں جیسے وہ خود ان کا مجرم ہو ویسے بھی وہ احساس جرم کا شکار ہو رہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ اسے اس وقت امجد صاحب کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا یا پھر کم از کم اسے میجر آتش پہ زیادہ دیر تک نظر رکھنی چاہیے تھی تاکہ وہ اس کے اگلے قدم سے واقف ہو جاتا۔
”کیا مطلب۔۔کیا ہوا انہیں؟؟“ کشمالہ کو اپنی آواز اجنبی لگی اور زینب بی بی تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھیں۔
”میں ان کے لئے ناشتہ لے کر گیا تو اس وقت دیکھا وہ سانس نہیں لے رہے تھے۔۔۔ شاید میجر آتش آیا تھا“ احمد کے لئے نظریں اٹھانا اور مشکل ہو گیا تھا۔
”پلیز احمد بھائی ایسے تو نہیں کہیں نا۔۔۔ “ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے تھے جبکہ زینب بی بی کے ہاتھ میں پکڑا تھیلا زمین بوس ہو چکا تھا۔
”جتنی جلدی ہو سکے آپ لوگ یہاں سے نکل جائیں انکل یہی چاہتے تھے“ کشمالہ نے اس کی بات پر دھیان کہاں دیا تھا اس کے ذہن میں تو لفظ ”تھے “ گونجنے لگا تھا۔ ایک نادم سی نگاہ اس پر اور زرد ہوتی زینب بی بی پہ ڈالتے ہوئے اس نے واپسی کے لئے قدم بڑھا دیے۔
”رُکیں احمد بھائی ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔۔۔مجھے ابا کا بدلہ لینا ہے۔۔۔میجر آتش کو زندہ نہیں چھوڑوں گی“ کشمالہ نے آنکھیں رگڑتے ہوئے اسے روکا۔ وہ ایک پاؤں پر اس کی طرف گھوما تھا ۔
”اور بدلہ کیسےلو گی تم؟“ اب وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہا تھا۔
”ہم مل کر بدلہ لیں گے۔۔۔ریحان بھائی کا ابا کا۔۔ہم مارخور ہیں“ اس نے راہ بتائی۔
”ہمارا گروپ ٹوٹ چکا ہے مالا۔۔۔مارخور کا اب کچھ بھی نہیں بچا۔۔۔ کل سے علی بھی غائب ہے پتا نہیں زندہ ہے بھی یا نہیں۔۔۔غدار کو ہم ابھی تک نہیں ڈھونڈ سکے۔۔۔ ایسے میں عقل کا یہی تقاضا ہے کہ تم اپنے ابا کی قربانی کی قدر کرتے ہوئے چپ چاپ یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔یہاں رہ کر کچھ حاصل نہیں ہو گا“ بات کے آخر میں آتے آتے اس کا انداز ناصح ہو گیا تھا۔
”لیکن میں۔۔۔“
”تم کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں کرو گی اور کل صبح ہوتے ہی ان سب کو ساتھ لئے یہاں سے نکل جاؤں گی بس “ احمد نے اسے بات پوری کرنے سے پہلے ہی ٹوکتے ہوئے قطعیت سے کہا تو وہ بے بسی سے ہاتھ مل کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔
احمد کے جانے کے بعد غار میں پھر سے خاموشی چھا گئی تھی گویا کسی نے صور پھونک دیا ہو لیکن اب اس خاموشی میں خوف اور وحشت کی جگہ درد اور تکلیف نے لے لی تھی۔ داور اور عدیمہ اب بھی سو رہے تھے اور وہ دونوں ضبط کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے منہ سے آواز نہ نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ آنسو لڑھک لڑھک کر گالوں پہ آ رہے تھے۔ ایک طرف زینب بی بی کی آنکھوں کے سامنے اٹھارہ سالہ ازدواجی زندگی کے لمحات کسی سکرین کی طرح چل رہے تھے جو کسی فلمی جوڑے کی طرح بہت خوشگوار تو نہیں لیکن پر سکون تھے۔ ہر اچھے برے وقت میں ان لوگوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔ دوسری طرف پتا نہیں ابا کو کیسے ظالمانہ طریقے سے مارا ہو گا سوچ سوچ کر کشمالہ کے ذہن کی طنابیں چٹخنے لگی تھیں۔ دل و دماغ میں ایک حشر برپا تھا۔
احمد کی باتوں سے کسی خطرے کی بو آرہی تھی اسی لئے وہ لوگ اب سرنگ کے اندر آ بیٹھے تھے اگر کوئی غار کے سر ے پر بھی آ کھڑا ہوتا تو اس کی نظر ان پہ اس وقت تک نہیں پڑ سکتی جب تک وہ سرنگ کے دہانے پر نہ آکھڑا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔
”کہاں ہے وہ غار؟ “ سڑک کے ایک طرف گاڑی روکتے ہوئے میجر آتش نے جیپ کے پیچھے بیٹھے نوعمر نوجوان سے پوچھا تھا۔
”اس پہاڑ کے پیچھے “ نوجوان نے سڑک کے دائیں طرف نظر آتے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔
”اگر خبر جھوٹی ہوئی اور مجھے وہ یہاں نہ ملی تو تمہارا وہ حشر۔۔۔“
”جو مرضی حشر کر لینا۔۔ پہلے کبھی کوئی خبر جھوٹی دی ہے جو اب دوں گا“ نوجوان نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی درمیان میں اچک لی اور جیپ سے اتر آیا اس کے ساتھ ہی کبیر اور میجر آتش بھی اتر آئے تھے لیکن جیپ سے اترنے کے بعد ان کے رخ مخالف سمت میں تھے میجر آتش اور کبیر پہاڑ کی طرف جا رہے تھے جبکہ نوجوان سڑک کے کنارے ٹہلتا ہوا دوسری طرف جانے لگا تھا۔
”اُف ایک تو اس بڈھے نے اتنی دور چھپا کر رکھا ہے لڑکی کو۔۔۔ ایسے جیسے کوئی شہزادی ہو“ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے کبیر نے جل کر کہا وہ صبح سے میجر آتش کے ساتھ کشمالہ کو ڈھونڈنے میں لگا تھا اور اب رات ہونے کو آئی تھی۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا لیکن اپنے مفاد کی خاطر وہ میجر آتش کا ساتھ دینے پر مجبور تھا۔
”لگتا ہے وہ رہا غار“پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کے میجر آتش نے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ سے چاروں اطراف میں روشنی ڈالی تھی اور غار کا کھلا منہ دیکھ کر اس کی آواز پر جوش ہو گئی۔ قدموں میں بھی پہلے کی نسبت تیزی آ گئی تھی۔
وہ آپس میں باتیں کرتے غار تک پہنچے تھے ۔رات کے ہیبت ناک سناٹے میں ان کے بولنے کی گونجتی آواز کشمالہ اور زینب بی بی نے بھی سنی تھی۔ دونوں نے بے اختیار خوف سے جھر جھری لی ۔
چاند کی روشنی چھن کر غار کے اندر آرہی تھی اسی لئے جب وہ دونوں غار کے سامنے آکھڑے ہوئے تو ان کے سائے سرنگ میں بیٹھی ان ماں بیٹی نے بھی دیکھے تھے۔ عدیمہ جو کچھ دیر پہلے ہی اٹھی تھی اور اب خوف کے مارے ماں کے پلو میں چھپ گئی تھی۔
”یا اللہ ہماری مدد فرما ویسے ہی جیسے تو نے غار ثور میں کفار کے مقابلے میں اپنے نبی (ص) کی مدد کی تھی۔ میں جانتی ہوں ہم بہت گناہ گار ہیں لیکن تو چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا تو ہم میں اور ان میں پردہ ڈال دے۔۔۔اے اللہ ہماری حفاظت فرما۔۔ “ ہاتھوں میں پتھر پکڑے وہ دل ہی دل میں اللہ سے دعا گو تھی۔ اسے خود سے زیادہ اپنے بہن بھائی کی فکر تھی اسی لئے تو غار میں بیٹھی رہی تھی ورنہ میجر آتش کی آواز سنتے ہی اس کا دل بدلہ لینے کے لئے مچلنے لگا تھا۔
”یہ ٹارچ کو کیا ہوا۔۔۔ اچانک کیسے بند ہو گئی“ باہر سے آتی کبیر کی آواز کے ساتھ کسی کے ٹارچ پر ہاتھ مارنے کی آواز بھی آئی تھی لیکن ٹارچ آن نہیں ہوئی۔ دعا نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
” بیٹری ختم ہو گئی ہو گی۔۔۔ تو اپنا موبائل نکال“ غار کی خاموشی میں میجر آتش کی جھلائی ہوئی آواز گونجی ۔
”موبائل تو میں جیپ میں بھول آیاتو اپنا نکال لے“ کبیر کے کہنے پر میجر آتش نے اپنا سر پیٹا تھا۔
”میرا موبائل دو دن سے چارج نہیں ہوا۔۔۔ بیٹری ڈیڈ ہے“ میجر آتش نے بتاتے ہوئے غار کے اندر قدم رکھا باہر سے آتی چاند کی روشنی بھی اب بادلوں کی اوٹ میں ہو چکی تھی جس کی وجہ سے غار کے اند ر کا منظر غیر واضح تھا۔
”یہاں تو کوئی نہیں ہے۔۔۔ لگتا ہے اس بار سالے حارث نے دھوکہ دے دیا ہے“ کبیر نے غار میں آگے جھانکتے ہوئے کہا جبکہ اس کی بات ہر کشمالہ پہ بجلی گری تھی۔ تو حارث بھائی نے غداری کی ہے۔ اب اسے سمجھ آرہی تھی اس کی لائی گئی انفارمیشن ہمیشہ آدھی غلط کیوں ہوتی تھی اور ریحان نے آخری دو میشنز میں اسے ساتھ کیوں نہیں رکھا تھا یقیناً اسے شک ہو گیا ہو گا۔
”آہ حارث بھائی۔۔۔ آپ تو بھائی کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔۔۔ صحیح کہتے ہیں مسلمان دشمن سے جیت جاتے ہیں بس انہیں اپنوں کی غداری مار دیتی ہے“ اس کی ذہنی رو باہر کھڑے دشمن سے ہٹ کر دوست نما دشمن کو سوچتے ہوئے بھٹکنے لگی تھی۔
باہر وہ دونوں باتیں کرتے کرتے سرنگ کے دہانے پہ آکھڑے ہوئے تھے لیکن ان کی نظر ابھی تک سرنگ کی طرف نہیں گئی تھی اندر بیٹھے نفوس سانس روکے بیٹھے تھے۔نہ جانے اگلے پل میں ان کے ساتھ کیا ہو جائے۔
” لگتا ہے وہ لوگ یہاں نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن وہ لڑکی میرے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتی ۔۔۔بچے گا تو آج وہ غدار بھی نہیں “میجر آتش کو شدید ہتک کا احساس ہوا تھا۔ شکار دوڑانے کے کھیل میں وہ شکار سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ غار کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے میجر آتش نے واپسی کے لئے قدم اٹھایا اور اس کا بھاری بوٹ نیند میں لڑھک کر باہر نکلے داور کے ہاتھ پہ پڑا زینب بی بی نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس سے پہلے کہ داور کے منہ سے کوئی چیخ نکلتی انہوں نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کی آواز کو دبا دیا تھا۔ حواس باختگی میں ان کے ہاتھ کی گرفت داور کے منہ کے ساتھ ساتھ ناک پر بھی تھی اور وہ اس سے لا علم سایوں کو غار سے نکلتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ جن میں سے ایک کا بوٹ غار میں خون کے نشان ثبت کرتا جا رہا تھا۔
کچھ دیر تک ان کے جانے کا یقین کر لینے کے بعد ماں بیٹیوں نے گہری سانسیں لی تھیں زینب بی بی نے اپنا ہاتھ داور کے منہ سے ہٹا دیا پر اس نے کوئی حرکت نہیں کی ۔ کسی انہونی کے احساس کے تحت انہوں نے داور کو جھنجھوڑا لیکن اس کے بے جان وجود میں اب بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔ بھائی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں۔۔۔ ان کی عزت کے رکھوالے۔۔۔ یہ بات چھ سالہ داور نے ثابت کر دی تھی۔ بہنوں کی عزت بچانے کی خاطر وہ بنا کوئی آہ کیے ہی چل دیا تھا۔ مالا کے رشتوں کی لڑی سے ایک اور موتی ٹوٹ کر گرا تھا اور اسے وہیں کشمیر کی وادیوں میں ہی کھو جانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔