وہ وادی خون کی وادی تھی۔۔۔ شاید کاتب تقدیر نے اس کا نام خون سے لکھا تھا تبھی تو وہ ہر وقت خون مانگتی تھی۔۔۔وہ کشمیر کی وادی تھی جسے لوگ جنت کہتے تھے لیکن وقت کے فرعونوں نے اسے جہنم بنا رکھا تھا۔۔۔ جس کی فضا میں ہر وقت بارود کی بو رہتی تھی۔۔۔ جہاں ہر لمحہ کسی بھی طرف سے آتی گولی کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔۔۔ جہاں دن رات لاشے اٹھائے جاتے تھے۔۔۔ اور ایسا ہی ایک لاشہ آج پھر اٹھایا جانے والا تھا۔
وہ دوپہر کے وقت ذرا ستانے کو لیٹی تھی ابھی کچی پکی نیند میں ہی تھی جب باہر سے آتے شور کی وجہ سے ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔ شور میں شامل لوگوں کی آہ و بکا سن کر ٹھٹکی اور فوراً دوپٹہ اوڑھ کر باہر آگئی۔ گھر کے سب افراد پہلے ہی باہر تھے وہ بھی گلی میں نکل آئی۔ ریحان کے گھر کے باہر رش دیکھ کر بے اختیار اس کے پیروں تلے سے زمین کھسکی تھی۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ دروازے تک پہنچی اور تمام تر ہمت مجتمع کر کے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ گھر کے صحن میں رکھے پلنگ پر پڑے وجود کو دیکھ کر وہ چوکھٹ پر ہی جم گئی۔ ابھی کل ہی تو وہ ان کے ساتھ تھا۔۔۔ ہدایات دیتا۔۔۔ ان کی راہنمائی کرتا۔۔۔ ان کا سپاہ سالار۔۔۔ اور اس وقت وہ بے جان پڑا تھا۔ اس کا شدت سے دل چاہا کاش اس کی جگہ کوئی اور ہوتا۔۔۔ کاش اس کی جگہ وہ خود ہوتی۔۔۔ بس اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا وہ بلا کا ذہین اور نڈر تھا انیس سال کی عمر میں ہی ایسے ایسے کارنامے سر انجام دے چکا تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی۔۔۔ انہیں اس کی ضرورت تھی کشمیر کو اس کی ضرورت تھی۔۔۔اسے اتنی جلدی نہیں مرنا چاہیے تھا۔ کوئی اسے دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا تو وہ بے ہنگم سوچوں سے باہر آئی۔ ہوش میں آنے پر اس نے ارد گرد نظر دوڑائی تھی ان کے خفیہ گروپ کے سبھی ممبرز الگ الگ کونوں میں گم صم کھڑے تھے۔ پلنگ کے پائے کے ساتھ لگی خنساء یک ٹک اپنے بھائی کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس پر جگہ جگہ زخم اور کھر وچ لگنے کے باوجود طمانیت بھرا احساس تھا۔۔۔ وہ اونچا لمبا خوبصورت بھائی جس پر اسے فخر تھا۔۔۔ وہ اب نہیں رہا تھا۔۔۔ اذیت کی انتہا تھی جس سے اس محلہ کے لوگ گزر رہے تھے ایک ہی ہفتہ میں وہاں دو جوان موتیں ہو چکی تھیں۔۔۔ یہ سردیاں بھی انہیں راس نہیں آئی تھیں بلکہ انہیں کوئی بھی موسم راس نہیں آتا تھا۔۔۔ وہ بوجھل قدموں سے گھر کی طرف واپس آگئی اور اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے زمین پر بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”کیوں تو ہماری داد رسی کے لئے کسی محمد بن قاسم کو نہیں بھیجتا۔۔۔ کہاں ہے وہ تیرے دین کا پرچم لہراتا ایوبی لشکر۔۔۔ کہاں ہے وہ طارق بن زیاد جو اپنی کشتیاں جلا کر ہمیں اس جہنم سے نکالے۔۔۔ کہاں ہیں وہ سب مسلمان جو کسی ایک مسلماں کی آہ پر دوڑے چلے آئیں۔۔۔ کہاں رہ گئے ہیں وہ سب میرے مولا۔۔کہاں رہ گئے ہیں “ گھٹنوں میں سر دئیے رونے کے ساتھ ساتھ خدا سے اس کی فریاد بھی جاری تھی۔
”مالا۔۔۔ دروازہ کھولو“ مسلسل دروازہ پیٹنے کے ساتھ زینب بی بی کی پریشان سی آواز سنائی دی تو اس نے ہاتھوں کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔
”تمہارے ابا صبح سے نظر نہیں آرہے۔۔۔ تم نے انہیں کہیں دیکھا ہے؟ “ وہ ہراساں چہرہ لئے اس سے پوچھ رہی تھیں بستی کے موجودہ حالات نے سب کے ہی دلوں کو وہموں کا شکار کر دیا تھا اک ذرا سی آہٹ پر بھی دل دھڑک دھڑک جاتا۔ اس کے نفی میں سر ہلانے پر وہ وہیں رکھی چارپائی پر ڈھے گئیں۔ کشمالہ بھاگ کر کچن سے ان کے لئے پانی لے آئی۔
”کہیں انہیں کچھ ہو نہ گیا ہو۔۔۔ مجھے لگتا ہے وہ انہیں اٹھا کر لے گئے ہیں ۔۔۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے “ زینب بی بی نے اپنے وہموں کو زبان دی انہوں نے گلاس پکڑنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔
”کچھ نہیں ہوا ابا کو۔۔ ابھی آ جائیں گے آپ خوامخواہ ہی پریشان ہو رہی ہیں۔“ اس نے انہیں تسلی دیتے ہوئے گھڑی میں وقت دیکھا وہاں شام کے پانچ بج رہے تھے اس وقت تک انہیں آجانا چاہیے تھا وہ بھی پریشان سی ان کی خیریت کے لئے دعا مانگنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خنساء کے کمرے میں بیٹھے وہ سب ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ یہ کمرہ گھر سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے ان کی خفیہ میٹنگ کے لئے مختص تھا۔ لیکن دو دن پہلے جو کچھ ہوا اس کے بعد ان میں بولنے کی سکت نہیں رہی تھی۔ ویسے بھی اس جگہ پر سب سے زیادہ ریحان کی آواز گونجتی تھی۔۔۔اس مقام پر وہی بولتا اچھا لگتا تھا۔۔۔ان در دیوار کو اسی کی آواز سننے کی عادت تھی ۔۔۔اس کے بولنے کا انداز بھی تو دل موہ لینے والا ہوتا تھا۔۔ پھر ہر پلان بتاتے ہوئے ایک ایک باریکی کو ایسے بیان کرتا تھا کہ مزید سوال کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی ۔۔اس کا ہر پلان جھول سے خالی ہوتا تھا ایسے ہی تو وہ پاک انٹیلی جینس کا دلدادہ نہیں تھا وہ انہیں آئیڈیل مانتا تھا اسی لئے ہر کام اتنی صفائی سے کرتا کہ اپنے پیچھے کوئی ثبوت نہ چھوڑتا ۔۔۔یہ پاک انٹیلی جینس سے اس کی محبت ہی تو تھی کہ اپنے گروپ کا نام بھی مارخور رکھا تھا۔۔۔اسے بولتے دیکھ کر خنساء دل ہی دل میں بھائی کے صدقے واری جاتی نہیں تھکتی تھی ۔۔۔وہ ایسا ہی تھا کوئی بھی لڑکی دیکھے تو دیکھتی رہ جائے۔اگر وہاں عام لڑکیاں ہوتیں تو اس کے عشق میں گرفتار ہو چکی ہوتیں۔۔۔لیکن وہ کشمیر کی بیٹیاں تھیں جنہیں حالات نے کبھی محبت کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیا تھا۔
"ہم ایسے نہیں بیٹھ سکتے ہم ریحان کا بدلہ لیں گے۔۔۔ ہمیں اپنے بھائی کا بدلہ لینا ہو گا“ علی نے سب سے پہلے بولنے کی ہمت کی اس کی آواز پر جوش تھی۔
”فی الحال ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے ۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ ہم کوئی اور بھائی بھی کھو دیں“ خنساء نے خالی خالی نظروں سے کمرے کے وسط میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھے لگتا ہے ہم میں کوئی غدار ہے۔۔۔“ احمد نے بھی اپنا منہ کھولا سب نے ناسمجھی سے اسے دیکھاتھا۔
”اور تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے؟ “ علی نے پوچھا۔
”ریحان نے آخری مشن سے واپسی پر کہا تھا کہ اسے کسی پر شک ہے لیکن اس کا نام نہیں بتایا شاید اسے خطرہ تھا کہیں گروپ میں پھوٹ نہ ڈل جائے اور اگر پچھلے دنوں کے واقعات پر غور کیا جائے تو وہی لوگ ٹارگٹ بنے ہیں جو کسی نہ کسی طرح مارخور سے وابستہ تھے۔۔۔سب سے پہلے بلال جو کبھی کبھی ہمارا کوئی پیغام یہاں سے وہاں لے جانے کا کام کر دیتا تھا۔۔۔ پھر ریحان اور اب کشمالہ کے ابا امجد انکل کا دو دن سے کوئی آتا پتا نہیں“ احمد نے ان سب کی طرف ایک نظر ڈالتے ہوئے اپنے خیال کی وضاحت کی۔ وہ سب لمحہ بھر کے لئے سوچ میں ڈوب گئے۔ اس کی بات ٹھیک بھی ہو سکتی تھی لیکن اگر ایسا کوئی ہے تو پھر وہ کون ہے؟ سب کی سوچ اسی سوال پر آ ن رُکی ۔
”امجد انکل کا مارخور سے کیا تعلق۔۔۔ میرے خیال میں اگر ہم میں کوئی غدار ہو گا بھی تو اس میں اتنی غیرت تو باقی ہو گی ہی کہ کسی لڑکی کے بارے میں نہ بتائے“ حارث نے سوچتے ہوئے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
”غدار جب غداری پر اتر آئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔۔ اور وہ جو کوئی بھی ہو گا میرے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا“ احمد نے حارث کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ گڑبڑا گیا۔
”وہ لوگ ابا کو میری وجہ سے پکڑ کر لے گئے ہیں “ کشمالہ کی آواز پر سب کی نظریں اس کی طرف اٹھی تھیں۔
”کیوں؟“ گُل نے پوچھا ۔
”میں نے میجر آتش کو تھپڑ مارا تھا“ ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے کشمالہ نے وجہ کے ساتھ ساری بات بتائی تھی۔
”اگر یہ وجہ ہوتی تو وہ اب تک تمہیں بھی لے جا چکے ہوتے۔۔۔ گھر کے مردوں کو وہ اسی لئے پکڑ کر لے جاتے ہیں تاکہ عورتوں پہ آسانی سے ہاتھ ڈال سکیں“ اس کی بات سننے کی بعد احمد نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اور حقیقت بیان کی۔
”یہی تو سرا نہیں مل سکا ابھی تک۔۔۔“ وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گئی۔ یہ ان کی پہلی ایسی میٹنگ تھی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن گزرنے کے بعد بھی امجد صاحب کا کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ محلے والوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کس کس کی داد رسی کریں۔ ایک طرف ابھی بلال کا غم تازہ تھا تو دوسری طرف ریحان کی قبر کی مٹی گیلی تھی۔۔اور اب امجد صاحب کا یوں پرسرار انداز میں غائب ہونا۔۔ پھر بھی وہ ان سب کا خیال رکھنے کی کوشش میں لگے تھے بہت سے لوگوں نے امجد صاحب کو اپنے اپنے طور پر ڈھونڈا بھی تھا لیکن وہ سب ناکام رہے تھے۔ زینب بی بی نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا اور وہ داور اور عدیمہ کے سوالوں کے جواب دے دے کر ہلکان ہو چکی تھی۔ اسی لیے چوتھے دن اس نے دونوں کو تیار کر کے سکول بھیجوا دیا لیکن اپنے گروپ کے کچھ لوگوں کو عدیمہ کا خیال رکھنے کی تاکید کرنا نہیں بھولی تھی۔ تقریباً دس بجے کا وقت تھا جب تیز دستک سنائی دی وہ بھاگتی ہوئی دروازے تک آئی تھی آج کل ہر دستک پر اس کا ایسا ہی حال ہوتا تھا۔ دروازے میں کھڑے امجد صاحب کو دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا اسے لئے بنا پلک جھپکے دیکھے گئی۔
"مالا۔۔۔ راستہ دو یہ زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ سکتے“ اسے دروازے میں جمے دیکھ کر احمد کو کہنا پڑا۔ اس کی بات پر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی اس نے اب غور کیا امجد صاحب کی دائیں ٹانگ پر پلستر بندھا ہوا تھا اور وہ احمد کا سہارا لئے بمشکل کھڑے تھے۔ وہ میکانکی انداز میں سائیڈ پر ہو گئی۔
اندر داخل ہوتے ہوئے انہوں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ آنسو ضبط کر کے رہ گئی۔امجد صاحب کو دیکھ کر زینب بی بی کی حالت بھی کم بیش ایسی ہی تھی۔ کبھی وہ ان کے گھر واپس آنے پر روتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرنے لگتیں ۔۔۔ اور کبھی ان کے زخم دیکھ کر آنسو بہانے لگتیں ۔۔ تو کبھی احمد کو دعائیں دینے لگتیں جو امجد صاحب کو بستی کے باہر زخمی حالت میں پڑے دیکھ کر انہیں ہسپتال سے مرہم پٹی کروا کے گھر چھوڑ گیا تھا۔
”آپا۔۔ابا گھر آ گئے ہیں؟ “ سکول سے واپسی پر عدیمہ نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی آس بھرے لہجے میں پوچھا اس کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ دونوں بیگ سمیت ہی بھاگتے ہوئے اماں اباکے کمرے کی طرف گئے اور جا کر امجد صاحب سے لپٹ گئے۔
”اباکیا آپ کو چوٹ لگی ہے ؟“ ان کے ساتھ لپٹے ہوئے سب سے پہلے داور نے ہی ان کے کراہنے کو محسوس کیا تھا۔ عدیمہ بھی ان کے سینے سے ہٹ کر ان کا جائزہ لینے لگی۔
”آپ کو کس نے مارا ہے؟ “ عدیمہ کی نظریں ان کی ٹانگ پر جا ٹکی کیونکہ یہی بظاہر چوٹ انہیں نظر آ رہی تھی باقی جسم پر جو تشدد کے نشان تھے وہ کپڑوں نے چھپا لئے تھے۔
”کسی نے نہیں۔۔۔ بس پہاڑ سے گرنے کی وجہ سے چوٹ لگ گئی“ ان کے معصوم چہروں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے جھوٹ بولا وہ ان کو مزید پریشانی میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
”ابا مجھے آپ کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔۔۔ اگلی بار آپ کہیں جائیں تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جانا“ داور نے کہتے ہوئے امجد صاحب کے ہاتھ پر اپنا ننھا ہاتھ رکھا تو انہوں نے سر ہلاتے ہوئے ہامی بھر لی۔
”باقی باتیں بعد میں کر لینا۔۔۔ اب اپنے ابا کو آرام کرنے دو جاؤ جا کر وردی بدلو اور کھانا کھاؤ“ شوہر کے چہرے پر آئے تکلیف کے تاثرات کو جانچتے ہوئے زینب بی بی نے انہیں وہاں سے اٹھایا گو کہ ان دونوں کا ہی وہاں سے اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا لیکن ماں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لئے تابعداری سے اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں سوچ رہا ہوں بچوں کو لے کر پاکستان چلے جاتے ہیں“ امجد صاحب نے سوچتے ہوئے زینب بی بی سے کہا جو ان کی کمر پر لگے زخموں پر مرہم لگانے کے ساتھ ساتھ آنسو بہانے میں بھی مصروف تھیں۔
”چلے جائیں گے۔۔ پہلے آپ ٹھیک تو ہو جائیں“ زینب بی بی نے دوپٹّے سے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
”سنو۔۔۔ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تم بچوں کو لے کر راولپنڈی چلی جانا وہاں باسط بھائی رہتے ہیں وہ ضرور مدد کریں گے “ امجد صاحب نے بیگم کا ہاتھ تھامتے ہوئے اپنے کسی دور کے کزن کا نام لیا۔
”اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو۔۔۔ ہم انشاءاللہ مل کر پاکستان جائیں گے“ وہ فوراً اپنا ہاتھ چھڑا گئیں۔
”میرے دل کو دھڑکا لگ گیا ہے زینب۔۔۔ کہیں میرے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔۔۔ مالا بڑی ہو رہی ہے اور بہت خوبصورت بھی ہے مجھے ڈر ہے کہیں اس پر کسی کی بری نظر نہ پڑ جائے“ ہلدی والا دودھ گرم کر کے لاتی کشمالہ کے کانوں میں بھی ان کے الفاظ پڑے تھے وہ بے اختیارشرمندگی سے نظریں جھکا گئی۔
”مالا۔۔۔ ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو“ وہ جو دودھ کا کپ رکھ کر جانے لگی تھی باپ کی آواز پر خاموشی سے لب کاٹتے ہوئے ان کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ گہری نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھنے لگے۔ جس کو اندر ہی اندر باپ کی تکلیف کھائے جا رہی تھی لیکن پھر بھی بظاہر حوصلہ سے کام لے رہی تھی۔ انہوں نے آہستگی سے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تھپکا تو وہ ضبط کھو بیٹھی اور ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ میری وجہ سے وہ لوگ آپ کو پکڑ کر لے گئے تھے۔۔۔ میری وجہ سے آپ کو اتنی اذیت ملی۔۔۔۔ آپ کی تکلیف کی ذمہ دار میں ہوں۔۔۔ ابا میں آپ کی قصور وار ہوں“ وہ روتے ہوئے مسلسل کہے جا رہی تھی اور امجد صاحب اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
”آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے؟“ کچھ دیر رو لینے کے بعد جب اس کے آنسو تھمے تو انہوں نے پوچھا۔ زینب بی بی پہلے ہی کچن سمیٹنے کے لئے کمرے سے جا چکی تھیں۔ ان کے پوچھنے پر اس نے اٹکتے ہوئے میجر آتش سے ہونے والی ملاقات کا سارا قصہ سنا دیا لیکن عدیمہ والی بات کو دانستہ چھپا گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایک اور پریشانی پال لیں۔
”ابا۔۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔ مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی“ امجد صاحب کو گہری سوچ میں گم دیکھ کر اس نے ان کے برف ہوتے ہاتھوں پر اپنے کانپتے ہاتھ رکھے تھے۔
”تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔ مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے“ امجد صاحب نے اس کا ماتھا چوما تو وہ حیرت سے انہیں دیکھے گئی جن کے چہرے پر تفکر کی واضح لکیریں نظر آرہی تھیں اور وہ اسے چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اگر وہ باپ کی مزاج شناس نہ ہوتی تو شاید دھوکہ کھا جاتی۔
”اب تم جا کر آرام کرو۔۔۔ اور ہاں کل تم تینوں سکول سے چھٹی کر لینا“ اس کی کھوجتی نظروں سے بچنے کے لئے امجد صاحب نے اسے وہاں سے جانے کا کہا تو وہ تابعداری سے سر ہلاتے ہوئے چلی گئی۔
”پتا نہیں اب میجر صاحب کی واپسی کب تک ہو اور لڑکی کے بارے میں بھی کوئی ہدایات دے کر نہیں گئے“ ان کے ذہن میں قید کے دوران سنی گئی ایک آواز کی بازگشت گونجی اور وہ معاملہ کی کڑیوں سے کڑیاں ملاتے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم روشنی میں ڈوبے ایک منزلہ گھر کے دروازے کے سامنے کھڑے کھڑے اس نے انگڑائی لیتے ہوئے سفر کی تھکاوٹ دور کرنی چاہی اور اگلے ہی پل دروازے پر لگاتار دستک دینے لگا۔
”کون پاگل ہے ۔۔۔ آ رہا ہوں۔۔۔ زرا جو انتظار کر لے“دس منٹ کی دستک کے بعد نیند میں ڈوبی ہوئی بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ اب دستک دینے والے کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی چلنے لگی تھی۔
“ کمینوں ۔۔۔ کیا بھنگ پی کر سو رہے تھے۔۔۔“ دروازہ کھلتے ہی وہ دھاڑا جبکہ اسے دیکھ کر دروازہ کھولنے والے کی نیند غائب ہو گئی تھی اس نے ایک ہاتھ ماتھے تک لے جا کر میجر آتش کو سلوٹ کیا۔
”باقی سب کہاں ہیں؟“ اردگرد بکھری شراب کی بوتلوں کی دیکھتے ہوئے اس نے دوسروں کے بارے میں پوچھا۔
”سب سو رہے ہیں سر“ ویسے تو وہ اچھے دوست تھے لیکن جب اس کا موڈ خراب ہوتا تھا تو وہ اپنے عہدے کے لحاظ سے ہی بات کرتا تھا۔
”ابھی جا کر سب کو اٹھا کے لا“ صوفے پر ڈھتے ہوئے اس نے حکم دیا اگلے ہی پل پانچ نفوس اس کے سامنے مودب انداز میں کھڑے تھے۔
”میں نے تم لوگوں کو یہاں صرف اس کام کے لئے رکھا ہے؟“ چند گالیوں سے نوازتے ہوئے اس نے بکھری بوتلوں کی طرف اشارہ کیا لیکن کسی نے بھی جواب دینے کی ہمت نہیں کی۔ شاہی مزاج برہم دیکھ کر وہ یہی تکنیک اپنایا کرتے تھے۔
”اس لڑکی کے باپ کا کیا کیا تم لوگوں نے؟“ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے اس نے رعونت سے پوچھا۔
” تین دن رکھا تھا آپ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملا تو پھر چھوڑ دیا۔۔۔ لیکن اچھے سے مرمت کر دی تھی “ ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
”اب کوئی مذاحمت کرنے کے قابل تو نہیں رہا نا؟ “
”بالکل نہیں۔۔۔ کبیر نے اس کی ایک ٹانگ توڑ دی تھی“ دروازہ کھولنے والے نے بتایا۔
”گڈ پانچ منٹ ہیں تم لوگوں کے پاس جلدی تیار ہو کر آجاؤ ایک ضروری مشن پہ جانا ہے“ اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا جو رات کے تین بجا رہی تھی۔
”کوئی آفیشل مشن ہے؟“ کبیر کو ابھی ابھی گڈ ملا تھا اسی لئے اس نے پوچھنے کی ہمت کی۔
”تم لوگوں کی بھابھی کو لینے سسرال جانا ہے“ اس نے اطمینان سے صوفے کی بیک سے ٹیک لگائی۔
”اس وقت؟“ اس کے اطمینان سے کہنے پر وہ سب حیران ہوئے تھے۔
”نہیں صبح پورے بینڈ باجے کے ساتھ بارات لے کر جاؤ ں گا۔۔۔ اور محلہ والوں کو بھی شریک کر لیں گے“ ان کی حیرت پر وہ جل کر بولا۔
”وہ مسلمانوں کی بستی ہے وہاں کے لوگ ہمیں دیکھ کر بھڑک گئے تو؟“ ایک نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”الو کے پٹھے۔۔۔ اسی لئے تو اس وقت جا رہے ہیں تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔۔ گھر والوں نے شور مچانے کی کوشش کی تو تو انہیں بھی سکون کی نیند سلا دیں گے مجھے آج ہر حال میں وہ لڑکی چاہیے“ اس نے قطعی انداز میں کہا۔ وہ چار دن بعد لوٹا تھا جس دن اس نے امجد صاحب کو پکڑ وایا تھا اسی دن کشمالہ کو بھی اٹھوانے کا پلان بنایا تھا لیکن پھر تین فوجی گاڑیوں پر ہوئے حملے کی وجہ سے اسے انکوائری کے لئے بلوا لیا گیا اور اس کا پلان دھرا کا دھرا رہ گیا۔
”اور وہ چھوٹی والی؟“ کبیر کی سوئی ابھی تک چھوٹی والی پر ہی اڑی تھی۔
”اسے بھی لے آئیں گے۔۔۔ اب کیا تم لوگ میرے سر پرہی کھڑے رہو گے جلدی کرو“ اس کے دھاڑنے پر وہ سب تیار ہونے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ہی فضا میں جیپ سٹارٹ ہونے کی آواز گونجی جس کا رخ کشمالہ کے گھر کی طرف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”زینب ۔۔۔جلدی اٹھو زینب۔۔۔ “ امجد صاحب نے گھبرائے ہوئے انداز میں ان کا کندھا ہلایا۔
”کیا ہوا امجد۔۔۔ آپ کو کہیں درد ہو رہا ہے ؟ “ وہ بوکھلا کر اٹھی تھیں اور امجد صاحب کے اڑے رنگ دیکھ کر ان کا خیال امجد صاحب کی تکلیف کی طرف ہی گیا تھا۔
”نہیں۔۔۔ تم جلدی تیاری کرو اور ابھی اسی وقت بچوں کو لے کر غار میں چلی جاؤ“ ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے نیا حکم صادر کیا۔ جس نے زینب بی بی کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر دئیے ۔
”ایک دم سے کیا ہو گیا ہے امجد کچھ تو بتائیں۔۔۔ باہر اتنا اندھیرا ہے اس وقت میں بچوں کو کہیں بھی اکیلی کیسے لے جا سکتی ہوں صبح تو ہونے دیں“ زینب بی بی کے چہرے پر صاف پریشانی نظر آنے لگی تھی اور امجد صاحب چاہ کر بھی انہیں اپنے خواب کے بارے میں نہیں بتا سکے جس میں انہوں نے کچھ بھیڑیوں کو کشمالہ کی طرف بڑھتے دیکھا تھا اور اسی سے ڈر کر ان کی آنکھ کھل گئی تھی۔
”کیا ہو گیا ہے آپ کوایسے ہی وہم پال رہے ہیں ۔۔۔ آرام سے سو جائیں آپ کے ٹھیک ہونے کے بعد ہم اکھٹے ہی چلیں گے“ زینب بی بی انہیں تسلی دیتے ہوئے پاس رکھی پائنتی پہ پڑے جگ سے گلاس میں پانی ڈالنے لگیں۔
”تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہویہ وقت بحث کا نہیں ہے جلدی تیاری کرو۔۔۔ میں بچوں کو اٹھاتا ہوں“ امجد صاحب کہتے ہوئے بیڈ کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔
”میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔ اور اس حال میں تو بالکل نہیں“ زینب بی بی نے صاف انکار کر دیا۔
”پاگل مت بنو جلدی ضروری سامان باندھو میں اپنے بچوں کی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتا۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو کشمالہ کی زندگی خراب ہو جائے؟“ امجد صاحب نے گُھرکا تو وہ بادل نخواستہ جانے کے لئے سامان باندھنے لگیں جو کھانے پینے کی ضروری اشیاء کے علاوہ چند کپڑوں پر مشتمل تھا۔ میجر آتش کے بارے میں وہ پہلے ہی انہیں بتا چکے تھے اسی لئے انہوں نے دوبارہ کوئی سوال نہیں کیا وہ ان کا ڈر سمجھ سکتی تھیں ۔ داور اور عدیمہ چھوٹے تھے انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا وہ پہلے بھی ہمیشہ غار میں ایسے ہی رات کے وقت سب سے چھپ کر جاتے تھے وہ ان کے خاندان کا راز تھا جس سے کوئی اور واقف نہیں تھا وہ ان کے لئے پکنک پوائنٹ تھا اس لئے انہوں نے زیادہ سوال نہیں کئے بس داور نے باپ کے ساتھ نہ چلنے کا پوچھا تھا جسے انہوں نے بعد میں ان کے پیچھے آنے کی تسلی دیتے ہوئے بڑے آرام سے ٹال دیا۔ لیکن کشمالہ کو سب سمجھ آرہا تھا اور وہ بے بس کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
”ابا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں “ اس نے پیچھے کے دروازے پر کھڑے ایک بار پھر وہی بات دوہرائی جو نجانے اب تک کتنی بار کہہ چکی تھی۔
”میں ابھی چل نہیں سکتا تم لوگوں پر اضافی بوجھ بنوں گا۔۔۔حالات بہتر ہونے کے بعد آجاؤں گا “ انہوں نے تسلی دی۔
”ابا آپ مجھے بیٹا کہتے ہیں پھر بیٹا سمجھیں بھی ۔۔۔میں آپ کو سہارا دے کر لے جاؤں گی اور آپ جانتے ہیں آپ کی بیٹی ہر طرح کے حالات سے نبٹ لے گی“ وہ جانتی تھی میجر آتش والی بات کی وجہ سے ہی اباانہیں یوں آناً فاناً بھیج رہے ہیں۔ اسی لیے ایک بار پھر منانا چاہا۔
”مالا۔۔۔ باتوں میں وقت ضائع نہیں کرو جلدی نکلو اور بہن بھائی کا خیال رکھنا۔۔“ وہ حسرت سے باپ کا چہرہ تکتی باہر نکل گئی۔ پیچھے امجد صاحب نے دروازہ بند کر دیا اپنے پیاروں کو خود سے دور جاتے دیکھنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ زینب بی بی بار بار مڑ کر اپنے گھر کو دیکھ رہی تھیں ساتھ ساتھ پلو سے آنکھوں میں امڈآنے والے آنسو بھی صاف کر رہی تھیں ۔مختصر سا زادہِ راہ لئے وہ لوگ انجان سفر پہ نکل گئے۔۔۔۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ موت کے سفر پر نکلے ہیں اور اس سفر میں کام آنے والی سب سے قیمتی چیز ”کفن “ ساتھ رکھنا بھول گئے تھے۔
۔۔۔۔۔