”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو اللہ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں انھیں تم مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور ہم تمھیں کسی قدر خوف اور بھوک اور مالوں ، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے“ (البقرۃ ۱۵۵۔۱۵۳) غار کے گردو نواح میں ماسٹر صاحب کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی اور سب بچے بوڑھے جوان خواتین دم سادھے انھیں سن رہے تھے۔انہیں لگ رہا تھا جیسے خدا کا یہ پیغام انہی کے لئے نازل ہوا تھا۔ آج ہی وہاں دو لاشے لائے گئے تھے ایک علی کا اور دوسرا اس کے دوست بابر کا۔۔۔انہوں نے ایک گاڑی پر حملہ کیا تھا اور جوابی حملہ میں شہید ہو گئے تھے۔ جنگل میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ آہ وبکا جاری تھی۔ مائیں بہنیں منہ بھر بھر کر بھارتی فوجیوں کو بد دعائیں دے رہی تھیں۔ لوگوں میں کسی حد تک مایوسی پھیلنے لگی تھی اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے آج ماسٹر جی نے بولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ وہی ماسٹر جی تھے جن سے کشمالہ سمیت بستی کے کئی بچے تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ جو اپنے علم کی وجہ سے لوگوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔
”اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور تم زیادتی نہ کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور تم انھیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو اور تم انھیں نکال دو جہاں سے انھوں نے تمھیں نکالا اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے“ (سوره البقرۃ ۱۹۱۔۱۹۰) انہوں نے اگلی آیات کی تلاوت کی۔ صبر کے بعد وہ لڑائی کی ترغیب دینے والی آیات پڑھ رہے تھے یہ وہی آیات تھیں جو ہجرت کرکے جانے والے اہل مکہ کے لئے فتح مکہ سے پہلے نازل کی گئی تھیں۔
”اے نبی(ﷺ) آپ کے لئے اللہ ہی کافی ہے اور ان لوگوں کے لیے بھی جو مومنوں میں سے آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ اے نبی(ﷺ) مومنوں کو جہاد پر ابھاریں اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک سو (صابر) ہوں تو وہ ہزار پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے۔ اب اللہ نے تخفیف کردی اور اس نے جان لیا کہ تمہارے اندر کچھ کمزوری ہے چنانچہ اگر تم میں ایک سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار کے برابر غالب آئیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ (انفال ۶۶۔۶۴) آیات کی تلاوت کے ساتھ ترجمہ کرنے کے بعد انہوں نے بولنا شروع کیا۔
”اللہ نے سورۃ انفال میں پہلے خوشخبری دی کہ اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب رہیں گے یعنی کہ ایک ثابت قدم مسلمان دس پر بھاری رہے گا پھر کچھ صحابہ کو یہ تعداد زیادہ لگی تو اللہ نے دوبارہ سے حکم نازل کیا اور فرمایا کہ ایک سو صبر کرنے والے دو سو پر غالب رہیں گے ایک مسلمان دو کافروں پر بھاری ہے۔۔۔ یعنی اگر ہم ثابت قدم رہیں تو اپنے سے دوگنی تعداد والے دشمن کو شکست فاش دے سکتے ہیں۔۔“ ماسٹر صاحب نے آیات کا مفہوم سمجھایا۔
”اگر ہمارے دشمن نے دنیا والوں سے ہمارا رابطہ ختم کر دیا ہے تو کیا ہوا وہ اس دنیا کو بنانے والے سے ہمارا رابطہ کبھی ختم نہیں کر سکتا مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ہمارا المیہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہم نے خدا سے زیادہ پاکستان پر بھروسا کیا ہم نے سوچا ہم پر آنچ آئے گی تو ہمارے پاکستانی بھائی دوڑے چلے آئیں گے لیکن کیا ہوا دو ماہ گزر گئے اور کسی کی کوئی خبر نہیں ہماری مدد کے لئے کوئی نہیں آیا۔۔۔ شاید اللہ نے ہمیں حقیقت دکھانے کے لئے ہی حالات کو ایسا بنایا ہے ۔۔۔“ وہ لمحہ بھر کو رکے لوگوں پر ایک نظر دوڑائی کسی کے چہرے پر ان کی بات سے اختلاف نظر نہیں آ رہا تھا انہوں نے بات کا سسلسلہ پھر سے جوڑا۔
”اب ہمیں بھی اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں ہمیں اٹھ کر اپنے بقا کی جنگ خود لڑنی پڑے گی ۔۔۔اگر ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہم مرتے گئے تو اس صفا ہستی سے ہمارا نام و نشان مٹ جائے گا“ انہوں نے جوش میں سب کو للکارا۔
”ہم دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس تو ہتھیار بھی نہیں ہیں“ ایک تشویشناک آواز ابھری۔
”ہم وہ ابابیلیں ہیں اعظم صاحب۔۔۔ جن کے پتھروں سے اللہ اس بھارت کو نیست و نابود کر دے گا۔۔۔ بس ہمیں اللہ پر توکل کرنا ہے “ ماسٹر صاحب نے ایک ہی لمحہ میں ان کی تشویش کو رد کر دیا۔
”اگر ہم مر جائیں گے تو پیچھے ہماری عورتوں کا کیا ہو گا؟؟ وہ تو مال غنیمت کے طور پر دشمن کے ہاتھ لگ جائیں گی“ طاہر صاحب نے توجیہہ پیش کی۔
”خالو۔۔ ہم کوئی بھیڑ بکریاں نہیں ہیں جو دشمن کے ہاتھ لگ جائیں گی۔۔۔ آپ کے پیچھے ہم بھی صف بہ صف کھڑے ہو کر اپنی بقا کی جنگ میں حصہ ڈالیں گی ۔۔اپنی طرف بڑھتے ہاتھ توڑنے کی طاقت ہے ہم میں ۔۔ مر جانا پسند کریں گی لیکن دشمن کے ہاتھ نہیں لگے گیں “ جواب ماسٹر صاحب کے بجائے خواتین کی طرف سے آیا تھا۔ یہ خنساء تھی ریحان کی بہن۔۔اپنے بھائی کے جیسی ہی نڈر۔۔
”طاہر تم عورتوں کو ڈھال بنا کر جنگ سے بچنے کی کوشش چھوڑ دو۔۔۔اردگرد کے علاقوں سے اور لوگوں کو اکھٹا کرنے کو کوشش کرو۔۔۔ جتنے زیادہ ہوں گے اتنا اچھا ہے۔۔۔ اب ہم آنے والے دنوں میں حملہ کریں گے“ ماسٹر صاحب نے آگے کا لائحہ عمل بتایا۔
”ہتھیاروں کا انتظام کرنا میرے ذمہ ہے۔۔۔ایک دودن تک انتظام ہو جائے گا“ احمد نے زبان کھولی۔ اسے آج ہی ہتھیاروں کی سپلائی کے لئے گاڑی آنے کی خبر ملی تھی اور وہ پہلے ہی اس گاڑی پر قبضہ کرنے کا پلان کر چکا تھا۔
”لے کے رہیں گی آزادی ۔۔۔۔۔ کشمیر بنے گا خود مختار “ ان کا نعرہ اب بدل چکا تھا ان سب نے اپنے حق کے لئے لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ ٹھان چکے تھے۔ کہ یا تو مریں گے یا مار دیں گے لیکن سرینڈر ہر گز نہیں کریں گے۔ ان کے حوصلے پر پہاڑوں نے داد دی تھی اس خون خرابے سے وہ بھی تنگ آ چکے تھے پھر اپنی کوکھ میں دفن ”داور امجد“ جیسے کئی ننھے شہیدوں کے خون کا بدلہ بھی تو لینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن آسمان حیران تھا یہ دیکھ کر ایک قوم معمولی ہتھیاروں کے ساتھ نیکلئیر پاور کے مقابل آ کھڑی ہوئی ہے۔وہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے سر پر کفن باندھ کر نکلے تھے ۔ ان کے دو ہی مقصد تھے آزادی یا شہادت ۔۔۔ ان دونوں میں سے وہ جو بھی رتبہ پا لیتے ان کے لئے کامیابی ہی تھی ۔ ایک ہی دن میں انہوں نے پندرہ سے بیس بھارتی فوجیوں کو جہنم و اصل کیا تھا اور یہ صرف آغاز تھا وقت کے ساتھ ان کے حملے شدت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ پہ درپہ ہونے والے خفیہ حملوں سے فوج بوکھلا گئی تھی۔ کشمیریوں کے پاس ایمان کا جذبہ تھا جس نے انہیں نڈر بنا دیا تھا جبکہ مقابل میں دشمن کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ اللہ کا وعدہ سچا ثابت ہوا تھا وہ لوگ ثابت قدم رہے تو اللہ نے بھی غیبی مدد بھیج دی ۔ پاکستان نے کوئی حل نہ نکلتے دیکھ کر اعلان جنگ کردیا تھا۔ پاکستانیوں میں جوش و جذبہ کی لہر دوڑ گئی لوگ دھڑا دھڑ جنگ کی تیاریاں کرنے لگے۔ فوج کو بارڈر پر الرٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں پھیلا دیا گیا تھا۔ مجتبٰی نے کشمیر کنڑول لائن پر جانے کی درخواست کی اور اس کی درخواست قبول ہو گئی تھی۔ وہ فرنٹ پہ آ کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا اس کی زندگی میں پہلی بار یہ موقع ہاتھ آیا تھا وہ کیسے جانے دیتا۔ اس کے نکلنے سے ایک دن پہلے کشمالہ اور آسیہ بیگم اس سے ملنے آئی تھیں۔
”اگر میں بھی شہید ہو گیا تو آپ کی نسبت چار شہدا سے جڑ جائے گی“ اس نے آسیہ بیگم سے گلے ملتے ہوئے کہا تھا۔
”گو کہ شہید کا رتبہ بہت بڑا ہے لیکن مجتبٰی ان آنکھوں نے بہت شہید دیکھے ہیں اب یہ غازی دیکھنا چاہتی ہیں۔۔۔ کوئی تو ہو جو جنگ جیت کر لوٹے ۔۔۔جو وہاں کشمیر میں فتح کا پرچم لہرائے۔۔۔ تمہیں جنگ جیت کر آنی ہے۔۔۔ مجتبٰی تمہیں غازی بن کر آنا ہے۔۔۔ یہ ایک ماں کی دعا اور حکم دونوں ہیں“ آسیہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے وہ کمزور نہیں تھیں لیکن اب اپنے شہدا کی قربانیوں کے بدلے میں آزادی دیکھنا چاہتی تھیں۔ کشمالہ خاموشی سے سر جھکائے ماں بیٹے کی گفتگو سن رہی تھی۔
”تم کچھ نہیں کہو گی مالا ۔۔۔ جاتے ہوئےکوئی الودائی کلمات۔۔۔ کوئی آخری بات تمہیں کچھ تو کہنا چاہیے“ آسیہ بیگم ان دونوں کو بات کرنے کا موقع دیتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں تو وہ کشمالہ کی طرف متوجہ ہوا جو ہنوز نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
”نہیں کیونکہ میں جانتی ہوں آپ اپنی ماں کا حکم نہیں ٹالیں گے اور غازی بن کر ہی لوٹیں گئے“کشمالہ نے نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ۔
” یہ سب میرے اختیار میں کب ہے؟؟ زندگی موت کا اللہ کو پتا ہے اگر میں نہ رہا تو ممی کا خیال رکھنا“ مجتبٰی کی بات پر وہ تڑپ اٹھی تھی۔ سب رشتے گنوا کر تو یہ دو رشتے ملے تھے اب ان میں سے بھی کوئی کھو جاتا تو وہ کیا کرئے گی۔۔۔ یہ سوچ ہی اس کے رونگھٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی تھی۔
”اللہ کے اختیار میں ہے اسی لئے تو یقین ہے کہ آپ غازی بن کر ہی لوٹیں گے کیونکہ وہ ماں کی دعا رد نہیں کرتا“ وہ بولی تو اس کا لہجہ ہموار تھا خوف کی جگہ یقین نے لے لی تھی۔
” جب آپ کشمیر کی سرزمین پر قدم رکھیں تو وہاں یہ لہرا دیجئے گا۔۔۔یہ آزادی کی چاہ میں دی گئی کشمالہ امجد کی قربانیوں کی امین ہے“ اس نے بیگ سے چھوٹی سی جھنڈی نکال کر مجتبٰی کی طرف بڑھائی یہ وہی جھنڈی تھی جو وہ کبھی قرآن کی رحل میں رکھا کرتی تھی اور گھر سے نکلتے وقت سے اس کے ساتھ تھی۔ مجتبٰی نے اس کے ہاتھ سے جھنڈی لے کر اپنے سامان میں رکھ لی۔ کچھ دیر اس کے ساتھ رہنے کے بعد آسیہ بیگم اور وہ واپس آ گئے تھے اور مجتبٰی اپنے سفر پر نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
عالم دنیا کو علم تھا اگر جنگ ہوئی تو وہ نیکلئیر پاور کی جنگ ہو گی جس کا خمیازہ مقابل آنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ انہیں بھی بھگتنا پڑے گا اسی لئے جنگ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ پاکستان کا ساتھ دینے کے لئے ترکی سمیت کئی دوسرے اسلامی ممالک نے بھارت سے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے وہاں کسی بھی قسم کی معاشی سرگرمی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے سفارت کار واپس بلا کر سفارتی تعلق ختم کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ بھارت کی حالت اب کچھ ایسی تھی کہ وہ کشمیر میں کشمیریوں کے ہاتھوں پٹ رہا تھا جس کا ذکر اپنی بدنامی کے ڈر سے اس نے چھپا رکھا تھا دوسری طرف مسلم عالمی برادری کا اس پر دباؤ تھا اور تیسری طرف پاکستان جنگ کے لئے تیار کھڑا تھا۔ ایسے میں بھارت کے پاس اپنی فوج واپس بلوانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔
کچھ دن بعد کائنات میں ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا بہتر سال بعد کشمیر کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا تمام عالم دنیا بے چینی سے فیصلہ کے منتظر تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کشمیر حق خداریت استعمال کرتے ہوئے کس کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتا ہے۔ سب کی نظریں کشمیر کے رہنماؤں پر لگی تھیں جو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کسی نتیجہ پر پہنچ رہے تھے۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور مائیک پر فیصلہ سنایا جانے لگا۔ لاکھوں لوگوں کی دھڑکنیں رک گئیں ”کشمیر نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا ہے“ یہ الفاظ سن کر رکی ہوئی دھڑکنیں رواں ہوئی تھیں۔ کچھ کشمیری جو کشمیر کو خودمختار ریاست بنانا چاہتے تھے وہ اپنے راہنماؤں کے فیصلے پر ان سے ناخوش تھے لیکن ان کے راہنما پر امید تھے وقت کے ساتھ جب سب ٹھیک ہونے لگے گا تو لوگوں کی ناراضگی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ اس دن نہ صرف پاکستان اور کشمیر بلکہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی آزادی کا جشن منایا گیا تھا۔ بھارت کو منہ کی کھانی پڑی تھی اور یہ شکست صدیوں تک یاد رہ جانے والی تھی۔ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے لالچی کتے والی مثال کو سچ ہوتے دیکھا تھا جس میں کتا لالچ میں آکر بھونکنے کے لئے منہ کھولتا ہے اور نتیجہ میں اپنا ٹکڑا بھی گنوا بیٹھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر کے شہدا کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا اور اس دن وہ بھی اپنی بستی میں مجتبٰی کے ساتھ آئی تھی۔ مختلف گھروں پر لہراتا پاکستانی پرچم دیکھ کر اس کے اندر سکون سرایت کر رہا تھا۔ طوفان آکر گزر چکا تھا گرچہ طوفان میں نقصان بہت ہوا تھا لیکن اس نقصان کے بدلے میں ملنے والی آزادی نے احساس ضیاع کم کر دیا تھا۔ وہ دونوں کشمالہ کے گھر کے باہر کھڑے تھے اور کشمالہ اپنے گھر کے باہر اس تاریخی جھنڈی کو چسپا کرنے میں لگی تھی۔
”کیسا لگ رہا ہے میرا پاکستان؟ “ مجتبٰی نے شوخی سے پوچھا آج خدا نے اسے اس لڑکی کے سامنے اور ہر پاکستانی کو کشمیریوں کے سامنے سُرخرو کردیا تھا۔
”کیا مطلب میرا پاکستان۔۔۔ شاید آپ بھول رہے ہیں دوسال ہوگئے ہیں مجھے پاکستان کی شہریت حاصل کیے جھنڈی کو ہاتھ سے دبا کر پکا کرتے ہوئے جوابًا اس نے جتایا تھا۔
”اس عظیم حادثے کو کیسے بھول سکتا ہوں لیکن تمہیں تو یقین ہی نہیں تھا کہ کبھی کشمیر پاکستان کا حصہ بھی بن سکتا ہے“ مجتبٰی نے اسے چھیڑا۔
”جب اپنے مر رہے ہوں ۔۔۔ پھر دل کو تسلی باتوں سے نہیں عمل سے ہوتی ہے“ جوابدوبدو آیا تھا۔
”دیکھا پھر ہم نے جو کہا اس پر عمل کرکے بھی دکھایا “ اب کی بار مجتبٰی نے جتایا ۔ وہ جنگ لڑا نہیں تھا لیکن پھر بھی جیت ان کا مقدر بنی تھی اس کی خوشی دیدنی تھی۔
”اب تم خوش ہو؟ “مجتبٰی نے اس کی چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
”بہت خوش ۔۔۔ “ خوشی اس کے چہرے اس کے انداز سے جھلک رہی تھی۔ کہیں نہ کہیں اس آزادی میں اس کا بھی تھوڑا سا حصہ تو تھا ہی۔
”پھر کچھ کہو گی نہیں میرے پاکستان کے بارے میں؟“ اس نے پھر سے مسکراہٹ روکتے ہوئے میرا پاکستان کہہ کر کشمالہ کو چڑانا چاہا ۔
”یہ میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان۔۔۔ہم سب کی ہے جان ہمارا پاکستان“ وہ زیر لب گنگنائی۔
اسی اثنا میں اس کی نظر سامنے سے آتے کسی جانے پہچانے چہرے پر پڑی تو وہ دوڑی ہوئی آگے آئی تھی۔ وہ احمد تھا جس کا نام تاریخ کے فاتحین میں لکھا جانا تھا۔ کشمالہ نے غور کیا اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
”اسلام علیکم۔۔۔ کیسے ہیں احمد بھائی؟ آپ کی ٹانگ پہ کیا ہوا؟“ اس نے حسب معمول سوال شروع کر دئیے جبکہ مجتبٰی آگے بڑھ کر اس کے گلے لگا تھا۔
”آزادی کی کچھ نہ کچھ قیمت تو چکانی ہی پڑتی ہے۔۔۔ بس ایک آپریشن کے دوران گولی لگ گئی تھی“ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
”وہ تو شکر ہے کہ ایک دفعہ آپ سے بات ہو گئی تھی ورنہ میں تو پریشان رہ رہ کر پاگل ہی ہو جاتی “ کشمالہ نے روانی میں کال کا ذکر کیا۔
”کس سے بات ہوئی تھی؟؟ مجھ سے؟؟“ احمد کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ اس نے کب کشمالہ سے بات کی تھی۔
”جی۔۔ آپ کو یاد نہیں مجتبٰی نے بات کروائی تھی“ کشمالہ کی بات پر اس نے پہلے کشمالہ کو اور پھر مجتبٰی کو دیکھا جو اردگرد دیکھنے میں ایسے مصروف تھا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو لمحہ لگا تھا احمد کو ساری صورتحال سمجھنے میں۔
”ہاں بس ایک ہی بارکچھ دیر کے لیے سگنل آئے تھے تو تم سے بات ہو گئی“ احمد نے مجتبٰی کے جھوٹ پر پردہ ڈالا ۔ جواب میں مجتبٰی نے اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ کشمالہ کبھی نہیں جان سکتی تھی کہ اس دن اس نے احمد سے نہیں ولی سے بات کی تھی جو کسی بھی آواز کی نقل اتارنے میں ماہر تھا کتنی بار وہ مجتبٰی بن کر آسیہ بیگم کو بھی تنگ کر چکا تھا لیکن وہ کشمالہ کی طرح معصوم نہیں تھیں اسی لئے جلد ہی ان کی چوری پکڑی جاتی تھی۔
احمد کے بعد وہ باری باری سب سے ملی تھی کئی ایسے چہرے تھے جو آزادی پر قربان ہو چکے تھے جنہیں وہ اب کبھی نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن ایک اطمینان تھا کہ آنے والی نسلیں وہ سب نہیں سہیں گی جو انہوں نے سہا ہے ۔ کشمالہ نے شدت دل سے دعا کی تھی کہ آنے والی نسلیں آزادی کی قدر کرنے والی ہوں وہ اپنے اسلاف کی قربانیوں کو بھولنے کی غلطی نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمالہ کی بستی میں جشن کا سماں تھا اور یہ جشن صرف آزادی کی خوشی میں ہی نہیں تھا بلکہ اس دن احمد اور لائبہ کی شادی کی تقریب بھی تھی ۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس بستی کے در و دیوار میں بنا خوف کے خوشی منائی جا رہی تھی۔ شام ہوتے ہی لڑکیاں گھر کے صحن میں ڈف لے کر بیٹھ گئیں اور بڑی بزرگ خواتین کرسیوں چارپائیوں پر بیٹھیں لڑکیوں کے گیت سن رہی تھیں جہاں وہ بھولتیں کوئی نہ کوئی بزرگ خاتون ان کی مدد کر دیتیں ۔وہ احمد کی شادی تھی تو اس میں گیت بھی زیادہ تر آزادی کے ہی گائے جا رہے تھے۔ کشمالہ بھی مجتبٰی اور آسیہ بیگم کے ساتھ آگئی تھی اور اسے ویسے ہی پروٹوکول سے نوازا جا رہا تھا جیسے بیٹی میکے آئی ہوں۔
”ویسے یہ احمد بھائی کے ساتھ زیادتی ہے بچارے ساری زندگی آزادی کے لئے سرگرم رہے اور اب جب آزادی ملی ہے تو انہیں قید میں ڈالا جا رہا ہے “ کشمالہ کی بات پر سب کی ہنسی گونجی تھی۔ مجتبٰی کے ساتھ رہتے رہتے اس میں بھی حسِ مزاح جنم لینے لگی تھی۔
”بالکل ویسے ہی جیسے کشمالہ یہاں قید سے بھاگی تھی اور وہاں پہنچنے پر مجتبٰی بھائی نے اسے قید کرلیا“ خنساء نے احمد کی بہن بننے کا حق ادا کیا۔وہ اس شادی میں احمد کی بہن بن کر ریحان کے حوالے سے دیکھے گئے سب ارمان پورے کر رہی تھی۔
”ویسے ہم کشمالہ کی شادی دیکھنے سے محروم رہ گئے کیوں نا آنٹی کل احمد بھائی کے ساتھ مجتبٰی بھائی بھی ایک بار پھر بارات لے کر آ جائیں؟“ گُل نے آسیہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ تو بہت زبردست آئیڈیا ہے۔۔۔ اسی بہانے رخصتی والا معاملہ بھی حل ہو جائے گا“ انہیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ آسیہ بیگم تو پہلے ہی ان کی رخصتی کے بارے میں سوچ رہی تھیں ۔اس بات پر جہاں کشمالہ کی رنگت سرخ پڑی تھی وہیں لڑکیوں کی اووو۔۔ اووو گونج اٹھی ۔ کشمالہ نے وہاں سے غائب ہونے میں ہی عافیت جانی۔
”اسے کہتے ہیں آپ اپنے دام میں صیاد آگئے“ مجتبٰی کی بات پر گلاس اسکے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا وہ پتا نہیں کب وہاں آکھڑا ہو تھا۔ ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد کشمالہ نے نظریں پھیر لی تھیں جبکہ وہ دلچسپی سے اس کے چہرے پر چھائے حیا کے رنگوں کو دیکھ رہا تھا۔
”ویسے میں سوچ رہاتھا واپس جا کر ممی سے رخصتی کی بات کرو لیکن تم نے تو معاملہ پہلے ہی طے کردیا۔۔ ویری سمارٹ“ مجتبٰی نے آنکھوں میں شرارت سمو کر اسے سراہا۔
” ابھی ابھی تو مجھے آزادی ملی ہے آپ پھر سے قید کرنا چاہتے ہیں“ کشمالہ کی بات پر مجتبٰی نے سرعت سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے لگا تھا شاید کشمالہ اس رشتے سے خوش نہ ہو لیکن اس کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ کا عکس دیکھ کر وہ بھی مسکرایا تھا۔ آج اس کے دل سے یہ بوجھ بھی اتر گیا تھا آج پہلی بار کشمالہ کی مسکراہٹ اس کی آنکھوں تک گئی تھی اور اس نے دل ہی دل میں اس مسکراہٹ کے تاعمر قائم رہنے کی دعا کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد