اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سُنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
(احمد فراز)
گلی میں ہر طرف گہرے سناٹے کا راج تھا۔ جب کبھی بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی تو گھر کے مکیں خوف کے مارے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے۔ باہر سے کسی فوجی کے ہنسنے یا بولنے کی آواز آتی تو ان کے دل دہل جاتے۔ زاہد کب سے اماں کی دوائی لینے نکلا تھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا لیکن ابھی تک اس کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ اماں کو جگر کا مسئلہ تھا کھانے میں ذرا سی بے احتیاطی سے درد جاگ اٹھا تھا اور رات بھر سے تکلیف میں تڑپ رہی تھیں۔
”لائبہ آیا نہیں تیرا بھائی؟“ اماں نے کراہتے ہوئے پوچھا۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ دبے قدموں سے چلتی بیرونی دروازے تک آئی تھی۔ کچھ دیر شش و پنج میں کھڑی رہی زاہد جانے سے پہلے اسے سختی سے دروازہ بند رکھنے کی تلقین کرکے گیا۔ لیکن جب بے چینی بڑھنے لگی تو دروازہ تھوڑا سا کھول کر اس نے ڈرتے ڈرتے باہر نظر دوڑائی۔ ہاتھ میں بندوق پکڑے چند فوجیوں کے علاوہ اسے گلی میں اور کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ وہ مایوسی سے دروازہ بند کرنے ہی والی تھی کہ اسے سامنے سے تیز تیز قدم اٹھاتے زاہد آتا دکھائی دیا۔ لبوں سے بے اختیار گہری سانس خارج کرتے ہوئے اس نے شکر ادا کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ گھر تک پہنچتا گلی میں کھڑے فوجیوں نے اسے روک لیا۔ لائبہ خوفزدہ آنکھوں سے زاہد کو ان فوجیوں سے بات کرتے دیکھ رہی تھی۔ زاہد کے ماتھے پر پڑتے بل اسے دور سے ہی دکھائی دے رہے تھے جس سے اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی خوشگوار گفتگو نہیں ہو رہی۔ وہ دروازے کے ساتھ آنکھیں لگائے دل ہی دل میں دعا کرنے لگی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے زاہد کو ایک فوجی کے ساتھ گتھم گتھا ہوتے دیکھا تھا۔ سرعت سے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے اپنی چیخ روکنے کی کوشش کی ۔وہ تین تھے اور زاہد اکیلا۔۔۔ لائبہ نے ایک دوسرے فوجی کو زاہد کے سر پر پیچھے سے وار کرتے اور اس کے بعد زاہد کو زمین بوس ہوتے دیکھا ۔ اپنی بے بسی پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے۔ وہ فوجی اب زاہد کو گھسیٹتے ہوئے گلی سے باہر لے جا رہے تھے اس کے ہاتھ میں پکڑی دوائی وہیں سڑک پر گری رہ گئی تھی۔ ان کے گلی کی نکڑ سے مڑنے کے بعد وہ گلی کے اطراف میں نظر دوڑاتی ہوئی گھر سے باہر نکل آئی تھی اس کے قدموں میں واضح لڑ کھڑا ہٹ تھی لیکن اسے ان فوجیوں کے واپس آنے سے پہلے اماں کی دوائی لینی تھی۔ زاہد کے لئے اس کا دل خون کے آنسو بہا رہا تھا وہ اس کی مدد نہیں کر سکی تھی لیکن اماں کو بچانے کی وہ کوشش کر سکتی تھی۔ اپنی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ تیزی سے دوائی کی طرف گئی اور کانپتے ہاتھوں سے اٹھاتے ہوئے واپس آئی تھی۔ اس نے تیزی سے دروازہ بند کرنا چاہا لیکن کسی مردانہ ہاتھ نے دروازے کو مضبوطی سے پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ لائبہ کے پورے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی گلی دونوں اطراف سے کھلی تھی وہ دائیں طرف نظر رکھتی رہی تھی لیکن بائیں طرف سے کوئی شکاری اس تک پہنچ گیا تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ شخص دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوا تھا۔ اس شخص کی آنکھوں سے جھلکتی ہوس اور اس کے جسم پر موجود بھارتی فوج کی وردی لائبہ کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرفیو کو پندرہ دن گزر گئے تھے اور انہیں اس جگہ میں پناہ لئے ہوئے آج اٹھارواں دن تھا۔ اس دن احمد کے پلان کے مطابق وہ سب مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر اس غار تک پہنچے تھے۔ رات بھر ان کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ امجد صاحب کی نیکی آج ان کی بستی والوں کے کام آ رہی تھی۔ گو کہ وہ جگہ اتنی زیادہ بڑی نہیں تھی لیکن پھر بھی اس میں عورتیں اور بچے ساتھ ساتھ جڑ کر بیٹھ ہی گئے تھے۔ جبکہ مرد حضرات غار کے دونوں سروں پر چاک و چوبند بیٹھے حفاظت کا کام سر انجام دے رہے تھے۔ وہ قافلہ سو سے زیادہ لوگوں پر مشتمل تھا ان کا پڑاؤ کتنے دنوں کا ہو گا وہ لوگ اس سے یکسر لا علم تھے۔ دنیا تو دور کی بات انہیں تو اس بات کی بھی خبر نہیں ہوتی تھی کہ ان کی جنت نظیر ریاست میں آج کل کیا کیا ہو رہا ہے۔ بس کبھی احمد اور اس کے ساتھی چھپتے چھپاتے آس پاس کا چکر لگا آتے اور جو خبر ملتی آکر سب کو اس سے آگاہ کر دیتے۔ بچے، نوجوان، بڑے بوڑھے سب ہی پریشان تھے اتنے دن گزرنے پر بھی حالات بدلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔اس وقت بھی احمد اور اس کے ساتھی غائب تھے اور مختلف عمر کے لوگ اپنے اپنے ہم عمروں کے ساتھ ٹولیاں بنائے موجودہ حالات پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
”کاش میں لڑکی نہ ہوتی میرے ابا کو کتنی پریشانی اٹھانی پڑ رہی ہے میری وجہ سے۔۔۔ ریحان بھائی بالکل ٹھیک کہتے تھے کہ دشمن کے مقابل آنے پر لڑکیاں کسی کی بھی کمزوری بن جاتی ہیں “ وہ تینوں دوستیں سرنگ میں قطار بنا کر بیٹھی تھیں جب گُل نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
”ریحان بھائی کی اپنی رائے تھی لیکن میں احمد بھائی کی بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ جب دشمن مقابل آ جائے تو لڑکیوں کو اپنی تمام تر نزاکت چھوڑ کر ایک شیرنی بن جانا چاہیے۔۔۔ اپنی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو توڑ دینا چاہیے۔۔۔جان تو جانی ہی ہے کیوں نا شان سے جائے“ مہوش نے احمد کے الفاظ دوہرائے۔
”تم کیا کہتی ہو خنساء ؟“ خنساء جو غار کی سطح پر لکڑی کی چھڑی سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی گُل کے پکارنے پر چونک گئی۔
”میں۔۔۔ میں چاہتی ہوں دشمن میرے مقابل آئے اور میں اس کا منہ نوچ لوں“ خنساء کی آواز قہر آلود تھی۔
”کشمالہ تو وہاں پاکستان میں کتنے آرام سے رہ رہی ہو گی“ مہوش کو کشمالہ یاد آئی تھی۔
”آرام سے ؟؟؟ وہ ہم سے زیادہ تکلیف میں ہو گی “ خنساء اپنی بہترین دوست سے ا چھی طرح واقف تھی۔
”پھر بھی اسے وہ سب تو نہیں سہنا پڑ رہا جو ہم جھیل رہے ہیں“ مہوش اپنی بات پر قائم رہی ۔
”سب کچھ تو اس نے گنوا دیا اب اور کیا سہنا باقی بچا ہے؟“ خنساء کی بات پر مہوش کو شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔
”بس دعا کرو کہ اللہ اسے خوش رکھے اور ہمیں بھی اس عذاب سے نکالے“ گُل نے بات بدلی تھی۔ ان کے منہ سے بیک وقت آمین نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شخص تیزی سے لائبہ کی طرف بڑھا وہ اندر کی طرف بھاگی لیکن بدحواسی میں کمرے کا دروازہ بند کرنا بھول گئی وہ کمرے میں اس کے پیچھے آیا تھا۔ لائبہ کا پورا جسم آندھیوں کی زد میں تھا۔
”تم مجھ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتی“ وہ جھپٹا لائبہ کا ہاتھ سرعت سے شیلف پہ پڑے گلدان پر گیا تھا اور اگلے ہی پل مقابل کے سر پر پڑا تھا۔ اس شخص کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اس نے آگ بگولہ ہو کر لائبہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا تھا لیکن وہ اس کی گرفت سے بچتے ہوئے اس کے سر پر ایک اور وار کر گئی۔ اس لمحہ اس کے سر پر خون سوار ہو گیا وہ پہ درپہ وار کرتی گئی۔ کچھ دیر بعد اس کے بے جان وجود کو دیکھ کر جیسے اسے ہوش آیا تھا۔ اپنی حرکت پر اس کے حواس گم ہونے لگے تھے۔ وہ بمشکل اس شخص کو پھلانگ کر کمرے کے دروازے تک آئی تھی۔
”اگر شہر بھر میں دشمن کا بسیرا ہو تو گھر وں کے دروازے کھلے نہیں رکھتے “ وردی میں ملبوس ایک اور شخص اندر داخل ہوا۔ کمرے کے دروازے میں کھڑی لائبہ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس نے بیرونی گیٹ کو اندر سے بند کیا تھا۔ لائبہ کے چہرے کی رنگت خطرناک حد تک سفید پڑ گئی ۔ ایک شخص کو مار کر ہی اس کی ہمت جواب دے چکی تھی اب دوسرے شخص سے کیسے نمٹے گی یہ سوچ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
”اچھا کیا آپ نے اس کو مار دیا۔۔یہ اسی قابل تھا“اس شخص نے آگے بڑھ کر لائبہ کے پیچھے کمرے میں جھانکا تھا۔ وہ گنگ کھڑی دیکھ رہی تھی۔ اس کے جسم پر موجود وردی اسے بھارتی فوجی بتا رہی تھی لیکن اس کے بات کرنے کا انداز الگ تھا اور لائبہ کو اس کی آنکھوں میں ہوس بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
”اس وقت آپ کے گھر میں کتنے لوگ ہیں؟ یقیناً کوئی مرد تو نہیں ہو گا“ اس شخص نے گھر کے اطراف میں ایک نظر ڈالتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
”میں اور ایک میری بوڑھی ماں ہے“ لائبہ کی زبان سے بے اختیار پھسلا ۔
”اس لاش کا کیا کریں گی ؟“ اس شخص نے ایک اور سوال داغا۔ لائبہ نے جواب دینے کے بجائے خالی الذہبی سے لاش کی طرف دیکھا اور بے اختیار خوف سے جھرجھری لی تھی۔
”آپ کے گھر میں کوئی لان وغیرہ یا پھر کچا صحن ہے؟“ وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اسی کام کے لیے آیا ہو۔
”پچھلے صحن میں مٹی کا فرش ہے“ لائبہ نے بتایا وہ شخص اسے کہیں سے بھی برا انسان نہیں لگ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے آپ مجھے زمین کھودنے کے لئے کوئی اوزار دیں میں پہلے اس لاش کو ٹھکانے لگاؤں پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے“ اس نے اپنے یونیفارم کی آستین فولڈ کرتے ہوئے کہا۔ لائبہ کی آنکھوں میں حیرت در آئی ۔
”الحمداللہ میں مسلمان ہوں اور کشمیری بھی۔۔۔ یہ وردی کسی اس جیسے شخص کی ہی چرائی ہے“ لائبہ کی آنکھوں میں در آئی حیرت کو بھانپتے ہوئے اس نے اپنے بارے میں بتایا۔ لائبہ نے خاموشی سے اندر جا کر اسے ایک بیلچہ لا دیا۔ جسے لے کر وہ پچھلے صحن میں چلا گیا ۔ اب اس کی نظر صحن میں گری دوائی پر پڑی تھی اور درد سے تڑپتی ماں یاد آئی تھی وہ بھاگی ہوئی کمرے کی طرف گئی اماں نیم بے ہوشی کی حالت میں کراہ رہی تھیں اس نے فوراً سے انہیں ہلا کر دوائی دی۔ کچھ دیر میں ہی ان پر نیند طاری ہونا شروع ہو گئی۔
”اگر آپ کے گھر میں کچھ کھانے کو ہے تو لا دیں ۔۔۔ بھوک لگ رہی ہے“ اس شخص نے صحن میں لگے نل سے ہاتھ دھوتے ہوئے کہا اس کی بات پر لائبہ کو شرمندگی نے آن گھیرا۔ کھدائی کے بعد لاش کو دفناتے دفناتے اندھیرا چھا گیا تھا۔ وہ شخص دوپہر سے یہاں تھا اور اس نے اسے پانی بھی نہیں پوچھا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد رات کے وقت وہ لوگ وہاں سے نکلے ۔ اس شخص نے لائبہ کو اپنا گھر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ اس کی بات کیوں نہ مانتی جو اس کے لئے فرشتہ بن کر آیا تھا۔ وہ اپنی اماں کو ساتھ لئے اس کے ساتھ آ گئی تھی۔ اب ان کی طبیعت قدرے بہتر تھی اور لائبہ انہیں سچ نہیں بتا سکتی تھی اسی لئے یہی کہا تھا کہ بھائی نے ان کی مدد کے لئے اپنے دوست کو بھیجا ہے جلد ہی وہ بھی مل جائیں گے۔اس شخص کی چال میں بلا کا اعتماد تھا کوئی دیکھ کر سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص وہ نہیں ہے جو نظر آرہا ہے۔ خواتین ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ احتیاط کر رہا تھا ورنہ وہ گلیوں کے درمیان میں مضبوط قدم اٹھاتے ہوئے چلتا تھا۔ بھارتی فوجیوں سے بات چیت بھی کرتا تھا اور کسی کو ابھی تک اس پر شک نہیں ہوا تھا۔ اس کو اس بات پر یقین تھا کہ جو وقت موت کا لکھا ہے اس میں موت آنی ہی ہے پھر ڈرنا کیسا۔ جنگل کے راستے سے ہوتے ہوئے جب وہ غار تک پہنچے آدھی رات ہو چکی تھی ۔
” احمد بھائی آج آنے میں اتنی دیر کردی۔۔۔ دل کو دھڑکا لگ گیا تھا“ علی نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔ آج پہرہ دینے کی اس کی ڈیوٹی تھی اسی لئے جاگ رہا تھا۔
”یہ کون ہیں ؟“ احمد کے پیچھے دو خواتین کو دیکھ کر علی نے پوچھا۔ جواب میں احمد نے مختصراً ساری بات بتا دی۔ وہ لائبہ اور اس کی اماں کو بھی غار میں لے آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غار کے ارد گرد کی جگہ ایک کیمپ کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ دن بہ دن وہاں پناہ لینے والوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس اضافے کے ساتھ خوراک کی قلت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہاں موجود لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان اس جنگل کے جھنڈ میں ایک بستی بسا لی تھی جس میں درختوں سے چادریں باندھ کر سائے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کرفیو کو مہینہ گزر گیا تھا اور اب آہستہ آہستہ لوگوں میں بے زاری جنم لینے لگی تھی۔ بنا کسی کام کے خوف کی وجہ سے ایک ہی جگہ محدود رہنے نے ان کی ذہنی حالت پر اثر کیا تھا جس کے نتیجے میں آپس میں ہی بحث و تکرار ہو جاتی۔انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے احمد نے عمروں کے لحاظ سے ان کے گروپ تشکیل دے کر ان کی جنگی تربیت شروع کردی تھی ۔ بستی کے جو بڑے اس فن سے آشنا تھے ان کے ذمہ تربیت دینے کا کام لگا دیا گیا۔سب لڑکیاں جی جان سے سیکھنے میں مصروف ہو گئیں۔ لائبہ شروع میں تو ڈری رہی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ خنساء نے اس کی خاصی مدد کی تھی۔ گُل اور مہوش بھی اسکی دلجوئی کرتی رہتی تھیں وہاں سب نے ہی کسی نہ کسی اپنے کو کھویا تھا اور سب ہی ایک دوسرے کا حوصلہ بنتے تھے۔ وہ چاروں چہل قدمی کرتے کرتے جنگل میں کافی آگے تک آ گئی تھیں جب انہوں نے کچھ قدموں کی آواز سنی۔ وہ چاروں فوراً سے درختوں کی اوٹ میں ہوئی تھیں۔
”تمھیں پکا یقین ہے کہ تم نے کچھ لوگوں کو اس طرف آتے دیکھا ہے؟“ ان دو باوردی لوگوں میں سے ایک کی آواز آئی۔
”جی سر پکا یقین ہے۔۔۔“ دوسرے شخص نے یقین دلایا۔ وہ سانس روکے کھڑی تھیں۔
”کسی اور کو خبر کی؟“ جسے سر کا تخاطب دیا گیا تھا اس نے پھر پوچھا۔
”پہلے ان کے ٹھکانے کا پتا چل جائے پھر سب کو لے کر آئیں گے“ اس آواز پر ان چاروں کے کان کھڑے ہوگئے۔ وہ یقیناً ان کے ٹھکانے کی ہی بات کر رہے تھے۔ ان چاروں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا ان کے ذہن میں ایک ہی سوچ گردش کر رہی تھی۔ اشاروں میں بات کی اردگرد سے پتھر اٹھا کر اپنے دوپٹّے میں رکھے اور خاموشی سے سرکتے ہوئے ان دونوں کے گرد گھیراؤ کرنے لگیں ۔ اپنی اپنی پوزیشنز سنبھالنے کے بعد پہلا پتھر خنساء کی طرف سے آیا تھا اور پھر ان دونوں بھارتی فوجیوں پر پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ انہوں نے بوکھلاتے ہوئے گولیاں چلائی تھیں لیکن پتھراؤ کی صیح سمت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے اردگرد ہی پڑی تھیں گولیوں کی آواز سن کر احمد اور علی اس طرف آئے تھے۔ ان کے آنے تک جنگل کی شیرنیاں دشمن کو ڈھیر کر چکی تھیں۔
”یہ کیا کرتی پھر رہی ہو تم لوگ؟“ ان کو دیکھ کر علی دھاڑا تھا۔ جوابًا خنساء نے فوجیوں کی باتیں دوہرا دیں۔
”بھارتی فوجیوں کو مار نے کا شغل تو اِن کا ہے ۔۔۔ انہوں نے تم لوگوں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے“ احمد کا اشارہ لائبہ کی طرف تھا۔ لائبہ نے احمد کے چہرے کی طرف دیکھا وہاں ہمیشہ کی طرح سنجیدگی ہی تھی۔ اس نے طنز کیا تھا یا مزاح۔۔۔ کسی کو بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ وہ چاروں واپسی کے لئے مڑ گئیں جبکہ احمد اور علی لاشوں کی تلاشی لینے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کی نظریں اس وقت ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں جہاں اقوام متحدہ کا اجلاس لائیو دکھایا جا رہا تھا۔ اسٹیج پر پاکستان کے وزیر اعظم کو دعوت دی گئی۔ پاکستان کا قومی لباس زیب تن کیے وہ پروقار طریقے سے چلتے ہوئے ڈائس کے پاس پہنچے۔مائیک سیدھا کرتے ہوئے انہوں نے تقریر کا آغاز کیا۔
“بِسْمِ اللّٰہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتعيۡنُ“ تمام پاکستانیوں کے دل کی دھڑکنیں تھم گئیں اور جسم کا رواں رواں کان بن گیا۔
شروعات میں اقوام متحدہ کے سامنے ماحولیات اور منی لانڈرنگ کا مسئلہ پیش کیا گیا۔ عام انسان کو کچھ باتیں سمجھ آئیں کچھ سر کے اوپر سے گزر گئیں ۔ پھر تقریر کے اہم موڑ کا آغاز ہوا۔ وزیر اعظم صاحب نے اسلامو فوبیا کا نام لیا اور سب بنا پلک جھپکے سننے لگے۔
”ہر دو تین سال بعد ہمارے نبی ﷺ کی توہین کی جاتی ہے.... اور جب ہمارا ردعمل آتا ہے... تو ہمیں انتہا پسند یا اسلام کو انتہاپسند کہنا شروع کردیا جاتا ہے.... یہ رحجان مغرب سے شروع ہوا ہے.... مغرب میں جان بوجھ کر ہمارے نبی ﷺ کی توہین کی جاتی ہے.... تاکہ ہمارے ردعمل کو جواز بنا کر اسلام کو نشانہ بنایا جاسکے...“
”اگر ہولوکاسٹ کا ذکر بھی کیا جائے تو یہودیوں کو تکلیف پہنچتی ہے..... ہم بھی صرف یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی توہین مت کی جائے کیونکہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے....“ ان کے الفاظ ہر مسلمان کے دل پہ نقش ہو رہے تھے۔ دل ہی دل میں پاکستانی اپنے لیڈر پر فخر محسوس کر رہے تھے۔ اپنی تقریر کے وسط میں چوتھے نمبر پر انہوں نے کشمیر کا نام لیا۔ مجتبٰی نے ایک نظر اپنے پاس بیٹھی کشمالہ پر ڈالی تھی جو بنا کسی تاثر کے ٹی وی کی اسکرین کو گھور رہی تھی۔ وہ کل ہی ایک ہفتہ کی چھٹی آیا تھا اور اس وقت وہ لوگ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ملک کے وزیر اعظم کا بیان سن رہے تھے۔
”بھارت نے تیس سال میں ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا.... اا ہزار عورتوں کو ریپ کیا...اب کرفیو لگا کر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا ہے ... مودی کیا سمجھتا ہے... جب وہ کرفیو اٹھائے گا تو حالات نارمل رہیں گے؟
کشمیر میں خون کا غسل ہوگا... کشمیری بدلہ لیں گے... تمہارا جینا مشکل کرکے رکھ دیں گے “ ان الفاظ نے لوگوں میں ایک نئے جوش کو جنم دیا تھا کئی لوگ جوش کے مارے اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہو ئے تھے۔
” اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی.... اور پاکستان جو کہ انڈیا سے سات گنا چھوٹا ملک ہے... اگر ایسا ہوتا ہے تو میرا یقین ہے لا الہ الا اللہ...
یعنی اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں.... تو پھر ہم نیوکلئیر آپشن استعمال کریں گے....اقوام متحدہ کے پاس موقع ہے کچھ کرنے کا... نہ کیا تو پھر ہمیں کوئی کچھ نہ کہے...“ اقوام متحدہ کا حال تالیوں سے گونج اٹھا لیکن تالیاں صرف وہاں حال میں تو نہیں بجی تھیں کئی گھروں سے تالیوں اور پر جوش چیخوں کی آواز سنائی دی تھی۔ کچھ لوگوں نے تو وفور جذبات میں آ کر بے اختیار کھڑے ہوتے ہوئے اپنے وزیر اعظم کو سلوٹ بھی کیا تھا۔ تقریر کے اختتام کے بعد مجتبٰی نے ایک بار پھر کشمالہ کی طرف دیکھا لیکن اس کے تاثرات اب بھی سپاٹ تھے۔ مجتبٰی کو حیرت ہوئی اب تو اسے خوش ہونا چاہیے تھا۔
”تم نے دیکھا ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر کا آدھا حصہ کشمیر کے حق کے لئے بولنے میں صرف کیا ہے“ مجتبٰی کی آواز میں دبا دبا جوش تھا۔
”آج کرفیو کو کتنے دن ہو گئے ہیں؟“ کشمالہ نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔
”پچپن دن“ اس نے نا سمجھی سے کشمالہ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”پتا نہیں وہاں اب تک کتنے لوگ بچے ہوں گے۔۔۔ کتنی جانیں قربان ہو چکی ہوں گی “ وہ بڑ بڑائی اس کی بڑبڑاہٹ مجتبٰی نے بھی سنی تھی جبکہ آسیہ بیگم رات کا کھانا لگوانے کے لئے پہلے ہی اٹھ کے جا چکی تھیں۔
”بے فکر رہو تم نے آج کی تقریر تو دیکھی ہی ہے پوری دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ رکھا گیا ہے اب جلد ہی کوئی حل نکل آئے گا۔۔۔ تم خوش نہیں ہوئی؟“ مجتبٰی نے جانچتی ہوئی نظروں سے اس کا جائزہ لیا وہ اب بھی اداس لگ رہی تھی۔
”جب تک کوئی عمل نظر نہیں آئے گا میں خوش کیسے ہو سکتی ہوں؟؟“ اس نے پھر سوال کے جواب میں سوال کیا۔ مجتبٰی خاموشی سے اٹھ کر لیپ ٹاپ لے آیا۔
”یہ دیکھو۔۔۔ ٹویٹر پر اس مہینے سب سے زیادہ ٹیگ ہونے والی لائن یہی ہے کہ ” کشمیر بچاؤ“۔۔۔ ہر طرح کے سوشل میڈیا پر لوگ پوسٹس لگا کر کشمیر کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔۔۔ ہر جمعہ کو کشمیر کے حق کے لئے ریلی نکلتی ہے۔۔۔اور بھی بہت سے سے طریقوں سے مدد کی جا رہی ہے ہم نے نہ ہی کشمیر کو اکیلا چھوڑا ہے اور نہ بھولے ہیں “ وہ کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے مختلف خبریں نکال نکال کر اس کو دیکھا رہا تھا اور وہ سکرین کے بجائے یک ٹک اس کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔
”کہاں لکھا ہے مجتبٰی کہ جب مسلمان بھائی مر رہے ہوں جب بہنوں کی عصمتیں لٹ رہی ہوں تو اپنے گھر کے نرم گرم بستر پر بیٹھ کر ایک ٹویٹ کرنے سے یا پھر کوئی پوسٹ لگا دینے سے فرض پورا ہو جاتا ہے؟؟ کہاں لکھا ہے کہ کسی ایک ملک میں ریلی نکالنے سے کسی دوسری جگہ پر ہوتا ظلم رُک جاتا ہے؟؟؟ اگر یہ سب ہی کرنا ہوتا تو پھر جہاد کا حکم کیوں دیا جاتا؟؟؟ جب خون کی ندیاں بہہ رہی ہوں تو ایسی صورتحال میں جہاد فرض ہو جاتا ہے“ شدت غم سے اس کی آواز پھٹ پڑی تھی۔
” تقریر کے آخر میں خان صاحب نے جنگ کی دھمکی دی تو ہے اگر حالات ایسے بہتر نہ ہوئے تو آخری حل جنگ ہی ہو گا“ مجتبٰی نے ایک بار پھر دفاع کرنا چاہا۔
”کیا۔۔۔ کیا کہا ہے آخر میں یہی کہ اگر بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرتا ہے تو ہم چپ نہیں بیٹھیں گےکشمیر کو تو یہاں پاکستان کا حصہ کہا جاتا ہے نا پھر ایسا کیوں نہیں کہا کہ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ہے اور اب اگر فوج نہ اٹھائی تو ہم حملہ کر دیں گے“ اس کی بات پر مجتبٰی لمحہ بھر کو چپ ہو گیا لفظوں کی اس ہیر پھیر پر تو اس کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔
”کس چیز کا انتظار ہو رہا ہے اب بھی؟؟؟ وہاں لوگ خوراک اور ادوایات کی قلت سے مر رہے ہیں ۔۔لوگ گھروں میں مردے دفنانے پر مجبور ہیں اور اب بھی۔۔۔اب بھی کسی مناسب وقت کا انتظار ہو رہا ہے؟؟؟ وہ مناسب وقت کب آئے گا جب ایک بھی کشمیری زندہ نہیں بچے گا؟؟؟ یاد رکھنا مجتبٰی اگر وہاں لوگ یوں ہی سسک سسک کے مرتے رہے نا تو پوری امت مسلمہ کو جواب دینا ہو گا۔۔۔ جو مسلمان ممالک کشمیر کو پاکستان کا حصہ کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں ان سب کو بھی حساب دینا ہو گا۔۔۔ مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں اور ایسا کہتے ہوئے اللہ کے نبی(ﷺ) نے یہ نہیں کہا تھا کہ فلاں جگہ کے مسلمان فلاں ملک کی شہ رگ ہوں گے اور فلاں جگہ کے مسلمان فلاں ملک کا بازو ہیں۔۔ جگہوں کے لحاظ سے مسلمانوں کی تفریق نہیں کی گئی۔۔۔ پھر سب کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آ رہی۔۔۔بس کشمیر کو آزاد کر دو۔۔میری جنت مجھے لوٹا دو “ آخر میں وہ دونوں ہاتھوں پر چہرہ گرا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی اور مجتبٰی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ اسے کیسے تسلی دے اب وہ سترہ سالہ کشمالہ نہیں تھی جو کشمیر سے آئی ہو اور حالات سے لاعلم ہو وہ دوسال سے یہاں مقیم تھی۔ ان دو سالوں میں حالات کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے بھی واقف ہو گئی تھی۔ مجتبٰی کو لگ رہا تھا کسی کے سامنے ملک کا دفاع کرنے سے زیادہ آسان بارڈر پر ملک کا دفاع کرنا ہے۔
”کیا تم نہیں چاہتی کے کشمیر پاکستان کا حصہ بنے؟“ ایک لمبے توقف کے بعد مجتبٰی نے پوچھا اسے کشمالہ پاکستان ست بد گمان لگ رہی تھی۔
” مجھے اب اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ پاکستان کا حصہ بنتا ہے یا نہیں بس میں چاہتی ہوں بھارت کے چنگل سے آزاد ہو جائے“ کشمالہ بے دردی سے آنکھیں رگڑتے ہوئے اٹھ گئی آسیہ بیگم کھانے کے لئے بلا رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔