ماں کشمیر تو جنت ہے نا
جنت میں طوفان ہے کیوں
حق تو حیوانوں کے بھی ہیں
درد میں پھر انسان ہے کیوں
یہ ہے میری اپنی جنت
مجھ کو اس میں رہنا ہے
سن لو دنیا کے رکھوالو
مجھ کو بھی کچھ کہنا ہے
یاد ہیں تم کو ساروں کے دکھ
میرا دکھ کیوں یاد نہیں
اب تو ہے آزاد یہ دنیا
پھر میں کیوں آزاد نہیں
کس کے خوف سے مجھ کو سلائے
لوری غلطی بھول کیوں جائے
آج بتا تفصیل سے مجھ کو
کتنے اپنے میں نے گنوائے
دیکھ کر اپنی آنکھوں سے بھی
میرے زخم چھپائے
ہاتھ بندھے ہیں کیوں لوگوں کے
جب کوئی ہاتھ اٹھائے
درد بہت ہے پہلے ہی ماں
کتنا اور اب سہنا ہے
سن لو دنیا کے رکھوالو
مجھ کو بھی کچھ کہنا ہے۔۔۔
کون ہے جو گھر آکے ڈرائے
حق مانگوں کیوں چپ وہ کرائے
جرم کیا ہے کیا ایسا بھی
کیوں یہ صدمے روز اٹھائے
اچھا بھی تو وقت ہے ہوتا
وقت میرا وہ لادے
کہہ دے کہ سب اچھا ہوگا
تھوڑا دل بہلا دے
سرخ بہت ہے پہلے ہی ماں
کتنا خوں اور بہنہ ہے
سن لو دنیا کے رکھوالو
مجھ کو بھی کچھ کہنا ہے
یاد ہے تم کو ساروں کے دکھ
میرا دکھ کیوں یاد نہیں
اب تو ہے آزاد یہ دنیا
پھر میں کیوں آزاد نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”حالات کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے بھارتی حکومت جلد کوئی بڑا کام کرنے والی ہے “خاموش کمرے میں ریحان کے دادا سلیم صاحب کی تشویشناک آواز گونجی۔ اس وقت کشمالہ کی بستی کے سبھی بوڑھے اور جوان مرد حضرات اکمل صاحب کے گھر موجود تھے ۔کشمیر میں بڑھتی بھارتی فوج کی نقل و حرکت کی وجہ سے انہیں خطرے کی بو آ رہی تھی۔ اسی لئے ان کی آج کی میٹنگ کا مقصد بھی آنے والے حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی مناسب حل نکالنا تھا۔
”فوج کی تعداد کو دیکھ کر لگتا ہے وہ کرفیولگانے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں “ جواد صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
”اگر کرفیو نافذ ہو گیا پھر سب برباد ہو جائے گا۔۔۔ بھارتی کتوں نے پہلے ہی ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے نہ ہمارے بچوں کی زندگیاں محفوظ ہیں نہ ہماری بچیوں کی عزتیں۔۔۔ کرفیو کے بعد تو انہیں کھلی اجازت مل جائے گی ہم کیا کر سکیں گے جب ہر گھر میں بیٹیاں ہیں“ اصغر صاحب کی بے بسی میں ڈوبی آواز ابھری۔
”اس سے پہلے کے ہماری عزتیں سر بازار رولیں۔۔۔ ہمیں اپنے ہاتھوں سے ہی ان کے گلے دبا دینے چاہیے“ عامر صاحب کی سفاکانہ بات پر سب نے دہل کر انہیں دیکھا کچھ بھی ہو اپنے ہاتھوں سے اپنی راج دلاریوں کی جان لینا کوئی آسان کام تو نہیں تھا۔
”اب کی بار ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔اپنی عزت اور جان کے لئے ہم آخری سانس تک لڑیں گے“احمد نے بڑوں کی بات کے درمیان بولنے کی جرات کی ۔
” تم جوان خون ہو جوش سے ہی کام لو گے لیکن یہ موقعہ جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینے کا ہے" عامر صاحب نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے احمد کی بات سے انحراف کیا ۔
”آپ اسے جوش کہیں یا کچھ اور۔۔۔ جب تک میں اور میرا ایک بھی ساتھی زندہ ہے ہم اپنی ماؤں بہنوں پر آنچ بھی نہیں آنے دیں گے“ احمد کا لہجہ ٹھوس تھا۔
”اور یہ کیسے ممکن ہو گا؟؟ کیونکہ اگر کرفیو لگتا ہے تو ہم اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے“ اکمل صاحب نے گفتگو میں حصہ لیا۔ اس وقت سب ہی اپنی اپنی سوچوں میں غلطاں تھے کسی کو کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔
”میرے پاس ایک پلان ہے۔۔۔“ احمد نے بولنا شروع کیا۔ وہ خطرہ جسے عام لوگ اب محسوس کر رہے تھے اس نے ایک ماہ پہلے ہی اس کی بو سونگھ لی تھی اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے کسی حد تک تیاری بھی کر لی تھی۔ اب کمرے میں احمد کی آواز گونج رہی تھی اورسب دم سادھے اس اکیس سالہ نوجوان کی بات سن رہے تھے۔ اس کا پلان اتنا شاندار تھا کہ اس سے دگنی عمر کے لوگ بھی اعتراض نہ کر سکے۔ قبل از وقت اقدام کے تحت انہوں نے آج رات کو ہی اس پلان پر عمل کرنے کی ٹھانی تھی۔
اگلی صبح کشمیر کی اس چھوٹی سی بستی میں موجود پچاس ساٹھ گھروں کے دروازے اندر سے بند تھے اور وہاں کے مکیں راتوں رات کہاں کوچ کر گئے کوئی نہیں جانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵ اگست ۲۰۱۹
”ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں بھارت نے جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A منسوخ کر دیا ہے۔ اس آرٹیکل کے ختم ہونے کے ساتھ ہی کشمیر میں کرفیو نافذ ہو گیا ہے۔۔۔ وہاں فون اور انٹرنیٹ کے کنکشنز کاٹ کر دنیا سے ان کا رابطہ توڑ دیا گیا ہے“
” کشمیر کے حریت رہنما سید علی گیلانی نے ایس او ایس کال دیتے ہوئے کہا ہے اگر آپ سب یونہی خاموش رہے اور ہم سب مار دیئے گئے تو اللہ کے حضورآپ سب کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ بھارت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی شروع کرنے جا رہا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ “
صبح سے مختلف نیوز چینلز پر اینکرز آ کر بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے اور اس وقت سے وہ ٹی وی کے آگے جم کے بیٹھی تھی رو رو کر اس کی آنکھوں کے پپوٹے سوج چکے تھے۔ وہاں کشمیر میں کیا ہو رہا ہو گا؟ اس کے دوست کس حال میں ہوں گے؟ یہ سوال اسے اندر سے کاٹے جا رہے تھے۔ پچھلے دو سال سے وہ احمد، خنسہ اور بستی کے باقی لوگوں سے ٹیلیفونک رابطے میں تھی اور آج صبح سے ان سب کے نمبر ملا ملا کر اس کی انگلیاں گھس گئی تھیں ہر بار ایک ہی آواز سننے کو ملتی کہ ”آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الحال رابطہ ممکن نہیں برائے مہربانی تھوڑی دیر بعد کوشش کریں “ وہ مایوسی سے فون کان سے ہٹا دیتی۔ تھوڑی دیر بعد پھر خبروں کو جھوٹا کہہ کر خود کو تسلی دیتے ہوئے دوبارہ نمبر ڈائل کرتی اور پھر دکھ میں گِھر جاتی۔ آسیہ بیگم کی کوئی کوشش کام نہیں آ رہی تھی وہ اس کی منتیں کر کر کے تھک گئی تھیں لیکن اس نے کھانے کی طرف دیکھا تک نہیں تھا اس کی بھوک اُڑ چکی تھی۔
”بیٹا کچھ تو کھا لو۔۔ تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ایسے بیمار پڑ جاؤ گی“ اس کے سامنے کھانے کی ٹرے رکھتے ہوئے انہوں نے نرمی سے کہا۔
”ممی آپ ہی بتائیں۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میرے حلق سے کچھ کیسے اتر سکتا ہے؟“ اس نے ٹی وی کی سکرین کی طرف اشارہ کیا جہاں اب بھی کشمیر سے متعلق ہی خبر چل رہی تھی۔ وہ نکاح کے بعد سے آسیہ بیگم کو مجتبٰی کی طرح ممی ہی کہتی تھی۔
”بیٹا صبر کرو۔۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا انشاء اللہ“ آسیہ بیگم نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا۔ آج کی خبر نے سب پاکستانیوں کو ہی غمگین کر دیا تھا۔
”پلیز ممی۔۔۔ آج کے دن مجھے صبر کرنے کے لئے نہیں کہیں میں اپنوں کے مرنے پر صبر کر سکتی ہوں لیکن جو زندہ ہیں ان پر مجھے صبر کیسے آئے گا؟؟؟ اس وقت ان سب پر کیا بیت رہی ہو گی یہ سوچ کر میرے دل کو قرار کیسے آ سکتا ہے؟“ کشمالہ نے ان کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے ۔ آسیہ بیگم نے زندگی میں آج سے زیادہ کبھی بے بسی محسوس نہیں کی تھی۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کشمالہ کو کیسے سمجھائیں مجتبٰی آج کل سکردو میں تعینات تھا صبح سے اس کی کئی بار کال آ چکی تھی لیکن کشمالہ نے اس سے بھی بات نہیں کی تھی۔
”ایک بار مجتبٰی سے بات کر لو وہ بہت پریشان ہو رہاہے“ آسیہ بیگم نے کہتے ہوئے مجتبٰی کا نمبر ملایا اور فون اسے تھما کر کچن میں چلی گئیں۔ کھانے کی ٹرے وہ میز پر ہی چھوڑ گئی تھیں۔
”کیسی ہو؟“ مجتبٰی نے فکر مندی سے پوچھا ۔ سلام کے جواب میں چھا جانے والی خاموشی سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ دوسری طرف کون ہے۔
”پلیز آپ آ جائیں نا “ اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمالہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ دو سالوں میں پہلی بار کشمالہ نے اسے خود سے آنے کو کہا تھا۔ اس کے لہجے میں نمی محسوس کر کے وہ بے چین ہو گیا۔
”ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا لیکن ایک شرط پر کہ تم ابھی کھانا کھاؤ گی اور میں فون اس وقت تک بند نہیں کروں گا جب تک تم کھانا نہیں کھا لیتی“ وہ جانتا تھا کہ حالات کے پیش نظر چھٹی ملنا ناممکن ہے لیکن پھر بھی کشمالہ کی خاطر اس نے آنے کی ہامی بھر لی۔اگلے دو دن مجتبٰی کو چھٹی کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے یہ وہ ہی جانتا تھا۔ وہ اب میجر تھا اور پوسٹ بڑھنے کے ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے پچھلے پہر اس نے گھر کے ٹی وی لاؤنج میں قدم رکھا سب سے پہلے اس کی نظر کشمالہ پر ہی گئی تھی۔ جو آنکھیں موندھے ٹی وی کے سامنے رکھے صوفے کی بیک سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی تھی۔ پلکوں پر ٹھہری نمی اس بات کی گواہ تھی کہ روتے روتے آنکھ لگی ہے۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ گہرے ہلکے پڑ چکے تھے تین ہی دن میں اس کی گوری رنگت کملا گئی تھی۔ مجتبٰی نے آگے بڑھ کر میز سے ریمورٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کر دیا۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر کشمالہ نے فوراً آنکھیں کھولی تھیں اور اسے سامنے پا کر بے اختیار اٹھی تھی۔
”آپ ۔۔۔ آپ آگئے۔۔۔ اتنی دیر کردی اب چلیں جلدی کریں ہمیں ابھی نکلنا ہے“ کشمالہ نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف کھینچا تھا۔ مجتبٰی کو سمجھ نہیں آئی وہ کہاں جانے کی بات کر رہی ہے۔
”اس وقت کہاں جانا ہے ؟ “ مجتبٰی نے شدتِ گریہ سے سرخ ہوتی اس کی آنکھوں سے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
” آپ نے کشمیر کے بارے میں خبریں نہیں سنیں؟؟ ہمیں ابھی کشمیر جانا ہے وہاں سب کو ہماری ضرورت ہے“ کشمالہ جلدی جلدی بولی جیسے بولنے پر بھی وقت کے ضیاع کا خدشہ ہو۔
”وہاں کرفیو نافذ ہے مالا ۔۔۔وہاں فی الحال کوئی جا سکتا ہے نہ وہاں سے کوئی آ سکتا ہے“ مجتبٰی نے نرمی سے کہا وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت کشمالہ کی سوچیں کس قدر منتشر ہیں۔
”آپ جانا نہیں چاہتے نا؟“ کشمالہ کے لہجے میں ناراضگی در آئی ۔ مجتبٰی کو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر اسے برا لگا تھا۔
”ایسی بات نہیں ہے مالا۔۔۔ہم ایسے خود سے کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتے کوشش کی جا رہی ہے انشاء اللہ جلد رابطے بحال ہو جائیں گے“مجتبٰی نے ملائمت سے سمجھانا چاہا۔
”آپ سمجھ کیوں نہیں رہے مجتبٰی۔۔۔رابطے بحال ہونے تک نجانے کتنے لوگوں کے رابطے دنیا سے ٹوٹ چکے ہوں گے“ اس نے بے بسی سے روتے ہوئے مجتبٰی کے بازو پر پیشانی ٹکائی تھی۔
وہ پہلی بار اس کے سامنے رو رہی تھی ورنہ مجتبٰی نے اسے کبھی ایسے روتے نہیں دیکھا تھا کشمالہ کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے۔ یہ وہ لڑکی تھی جسے ہمیشہ خوش رکھنے کا اس نے خود سے وعدہ کیا تھا اور اب اس کے درد پر مرہم رکھنے کے لئے اسے لفظ نہیں مل رہے تھے۔
”ہم کشمیر سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔حکومت ضرور کچھ کرے گی کشمیر ہماری شہ رگ ہے“مجتبٰی نے جذبات سے بھر پور لہجے میں کہا۔
”وہاں کشمیر میں روز لوگ مر رہے ہیں ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں ۔۔۔ یہ کیسی شہ رگ ہے جو کٹ رہی ہے اور پھر بھی کسی کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی؟؟؟ “ کشمالہ نے سر اٹھا کر زخمی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کشمالہ جو ایک دم سے حل ہو جائے کچھ وقت لگے گا پھر سب ٹھیک ہو جائے گا اب کی بار کشمیر ضرور پاکستان کا حصہ بنے گا“ مجتبٰی نے اسے واپس صوفے پر لا کر بیٹھاتے ہوئے امید کا سرا تھمانا چاہا۔
”وہ وقت کب آئے گا؟ وہ لوگ جو پاکستان کے پرچم میں لپٹ لپٹ کر مر رہے ہیں اگر ان کی پاکستان سے محبت بھی مر گئی تو آپ کیا کریں گے؟ ۔۔۔ جو مائیں روز دروازہ کھول کر اس امید پر باہر جھانکتی ہیں کہ ان کی مدد کے لئے پاک فوج آئی ہے یا نہیں اگر ان کی امید مر گئی تو وہ لوگ بھی مر جائیں گے۔۔۔ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے وہاں میرا کشمیر جل رہا ہے میر گھر جل رہا ہے اور یہاں ۔۔۔ یہاں میری سانسیں رک رہی ہیں“ بولتے بولتے اس کی آواز رندھ گئی تھی۔
”تم پریشان نہیں ہو وہ لوگ خیریت سے ہوں گے۔۔۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے جلد حالات بہتر ہو جائیں گے“ مجتبٰی نے اس کا دایاں گال سہلاتے ہوئے تسلی دی۔
”انشاء اللہ “ لاچاری سے اس کہ منہ سے زیر لب نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
”بیٹھو۔۔۔چاولوں کی پلیٹ خالی کر کے اٹھنا۔۔ اگر ایسے ہی کھانا پینا چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھی رہو گی تو جلد بیمار پڑ جاؤ گی “ کھانے کی میز پر اسے چند لقمے زہر مار کرکے اٹھتے دیکھ کر مجتبٰی نے ٹوکا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے“ وہ نفی میں گردن ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
”اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ اپنا خیال رکھو گی تو میں احمد سے تمہاری بات کروا سکتا ہوں“ مجتبٰی نے پر سوچ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہاں تو فون سروس بند ہے آپ کیسے بات کروائیں گے؟ “ مجتبٰی کی بات پر حیران ہوتے ہوئے وہ واپس بیٹھ گئی ۔
”میرے پاس ایک طریقہ ہے۔۔۔ لیکن پہلے تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ اب نہ ہی کھانا چھوڑو گی اور نہ ہی روؤ گی“ مجتبٰی نے وعدہ یاد دلایا۔
”ٹھیک ہے پکا پرامس “ وہ ترنت مان گئی۔
”میرے آنے تک تم یہ پلیٹ خالی کرو ۔۔۔ میں رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں “ وہ فون اٹھاتے ہوئے باہر چلا گیا۔
”یہ لو احمد سے بات کرو“ تھوڑی دیر بعد وہ فون کان سے لگائے واپس آیا تھا۔
”احمد بھائی کیسے ہیں آپ ؟ خنسا ء کیسی ہے ؟ وہاں آپ سب خیریت سے تو ہیں نا؟؟ کسی کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا ؟ “ دوسری طرف سے آتی احمد کی آواز سن کر اس نے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی ۔
”تم پریشان نہیں ہو ہم سب ٹھیک ہیں مالا۔۔۔ کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔۔ ہم اپنے گھروں میں محفوظ ہیں “ آہستگی سے کہا گیا۔
” میں بہت بے بسی محسوس کر رہی ہوں۔۔۔ مجھے وہاں ہونا چاہیے تھا آپ سب کے ساتھ۔۔۔میں یہاں آرام سے بیٹھی ہوں اور وہاں آپ سب تکلیف میں ہیں“ وہ شرمندہ ہو رہی تھی۔
”تمہیں ناشکری نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔ جہاں ہو بس ہمارے لیے دعا کرو۔۔۔ ہمیں تمہاری دعاؤں کی بہت ضرورت ہے “ احمد نے گھمبیر آواز میں کہا۔
”میری شمیم خالہ سے بات کروا دیں“ اس نے احمد کی والدہ کا نام لیا۔
”وہ ابھی سو رہی ہیں۔۔اچھا میں ابھی فون رکھ رہا ہوں مالا پھر بات ہو گی“ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی ۔
”ممی آپ نے دیکھا میری ابھی احمد بھائی سے بات ہوئی ۔۔وہ سب ٹھیک ہیں“وہ تیزی سے اٹھ کر کچن سے نکلتی آسیہ بیگم کی طرف آئی اس کے لہجے میں خوشی تھی۔
"شکر ہے اللہ کا۔۔ یہ تو بہت اچھی خبر ہے“ آسیہ بیگم نے بیٹے پر ایک ملامتی نظر ڈالتے ہوئے کشمالہ کو ساتھ لگایا وہ خوشی میں ان کی نظروں کا مفہوم نہیں سمجھ سکی تھی۔
”آپ احمد بھائی سے میری دوبارہ کب بات کروائیں گے؟“ اس نے مجتبٰی کی طرف دیکھتے ہوئے بے چینی سے پوچھا۔
” کل میں نے واپس جانا ہے جانے سے پہلے کوشش کروں گا ایک بار پھر بات کروا سکوں“ مجتبٰی نے اس کے چہرے پہ اطمینان دیکھ کر نظریں چرائی تھیں۔
”آپ اتنی جلدی نہ جائیں پلیز“ کشمالہ نے منت کی۔
”مزید چھٹی نہیں مل سکتی ۔۔۔ تمہارے کہنے پر بمشکل تین دن کی چھٹی لی تھی“ مجتبٰی نے ہلکے پھلکے انداز میں جتانا چاہا لیکن اس نے کہاں سنا تھا وہ تو یہ سوچ کر ہی پریشان ہو گئی تھی کہ اب اسے اپنے کشمیر کی خبر کیسے ملے گی۔۔میڈیا تو تجزیہ کرنے کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں رہا تھا۔ وہاں کے حالات کیسے تھے یہ تو وہی لوگ بتا سکتے تھے جن پر بیت رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری ریاست میں باوردی لوگوں کے علاوہ کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ خوف کے مارے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ کرفیو کو دس دن گزر گئے تھے اور حالات ویسے کی ویسے تھے ۔ لوگ ضرورت کے تحت ڈرتے ڈرتے گھر سے باہر قدم رکھتے کوئی زندہ بچ آتا اور کسی کی کوئی خبر نہ ملتی۔گھروں میں موجود خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں تھیں۔۔ کتنے گھروں کے چراغ ان چند دنوں میں گُل ہو گئے تھے۔ کشمیر میں موجود لوگوں کو اس بات کی بھی کہاں خبر تھی کہ کون ان کے حق میں آواز اٹھا رہا۔۔۔ کون ان کے لئے دعائیں کر رہا ۔۔۔ کس نے ان کی خاطر کتنے دھرنے دئیے ۔۔وہ سب سے بے خبر اپنی بقا میں لگے تھے۔۔ ایک جابر قوم نے لاکھوں مسلمانوں کو اتنی بے دردی سے دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا تھا اور عالم اسلام کسی مصلحت کے تحت کوئی کارہ جوئی کرنے سے قاصر تھا۔
متضاد سوچوں کے ناگ ہر وقت کشمالہ کو ڈستے رہتے اور وہ جلے پیر کی بلی کی طرح گھر میں اِدھر اُدھر پھرتی رہتی تھی۔ ہر وقت اس کی زبان پر مختلف دعاؤں کا ورد رہتا ۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر کشمیر چلی جائے۔ جوں جوں دن گزر رہے تھے اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ آنے والے وقت میں کیا ہونے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔