" جب بھی میں تمہارے پاس آنے کی کوشش کرتا ہوں تم ہمیشہ کتراتی ہو۔۔۔آخر کیا گلہ ہے تمہیں مجھ سے؟ پلیز بتاو فاطی " احسن نے فاطمہ کو اپنے ساتھ بھینچ لیا تھا
فاطمہ کے لیے سانس لینا محال ہو گیا تھا وہ اس کے اس قدر قریب تھا کہ وہ کبھی جو اس کے قرب کی تمنائی رہی تھی آج ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ مشکل ترین کام میں پھنس گئی ہو۔۔۔۔دل اپنی جگہ پہ نہیں تھا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا لیکن فاطمہ کے لیے اس کو دیکھنا ممکن نہ تھا کیونکہ اگر وہ ایسا کر لیتی تو اس کا دل مزید نہ رہتا ۔۔وہ اپنا دل اس پر مزید ہار لیتی ۔۔۔کیا یہ محبت تھی ؟ اسے خود نہیں پتہ تھا یا وہ تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن احسن مکمل طور پر تیار تھا اس سے تسلیم کروانے کے لیے اس سے پوچھنے کے لیے کہ وہ اس کو کیا سمجھتی ہے ۔۔۔۔کیا ہو گیا تھا احسن کو آج ؟۔۔۔فاطمہ کو عجیب احساسات نے گھیرے میں لے لیا
" بولو فاطمہ پلیز " احسن نے اس کے بازوؤں کو سختی سے پکڑا تھا ۔۔۔شاید وہ آج جان لینا چاہتا تھا
" مج۔۔مجھے ثانیہ اور آپ کے بارے میں سب پتہ ہے '" فاطمہ کے منہ سے مشکل سے یہ چند الفاظ نکلے تھے
" یار وہ میری دوست ہے بس میں تمہیں کیسے سمجھاؤں ۔۔۔میرے لیے تم سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے "
"میرا دل نہیں مانتا " فاطمہ نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی سعی کی تھی لیکن احسن نے نہیں چھوڑا
" اگر میں منوا لوں تو ؟" احسن کی آنکھوں کی تپش اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی دل اپنی جگہ پہ تھا ہی نہیں
" اگر آپ سچے ہیں تو ضرور مانوں گی " فاطمہ نے دھیمے لہجے میں کہا تھا وہ دھیرے سے ہنستے ہوئے اس پر جھکا تھا اور اپنا حق استعمال کر گیا ۔
فاطمہ روکنے کے باوجود بھی اسے منع نہ کر سکی تھی کیوں کہ وہ اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ چکا تھا
" تیار ہو جاؤ تم ماننے کے لیے ۔۔کیونکہ میں جانتا ہوں تم مانو گی یہ میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ میں سچا ہوں اور تم مانو گی بھی ۔۔۔تو ماننے کے بعد بھی تو میرا اور حق بنتا ہے نا ؟ " اس نے الٹا اسی سے سوال پوچھا تھا ۔۔۔احسن کو اپنی شرٹ گیلی محسوس ہوئی تو اس نے حیرانگی سے فاطمہ کو اپنے سینے سے الگ کیا جبکہ وہ رو رہی تھی احسن کے دل کو کچھ ہوا تھا
" کیوں رو رہی ہو یار ؟"
"پتہ نہیں " اس نے رخ پھیرا تھا
" فاطی کیا میں تمہیں پسند نہیں " اس نے ایسا سوال کیا تھا جو فاطمہ کی روح کھینچ لینے کے لیے کافی تھا اس نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا سارے جہاں کی معصومیت اس کے چہرے پر نظر آرہی تھی احسن کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا فاطمہ کو ایسے سوال کی توقع نہیں تھی پتہ نہیں اسے ایکدم سے کیا ہوا تھا کہ وہ اس کے گلے لگ کر خوں روئی تھی ۔۔۔احسن نے اسے رونے دیا تھا کیونکہ رو بھی تو اسی کے ساتھ لگ کے رہی تھی ۔۔۔وہ اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا اس کا مسیحائی وہی تھا چاہے وہ لاکھ انکار کرتی ۔۔۔جب بہت رو چکی تو اس سے الگ ہو گئی
" اب بتابھی دو پلیز فاطمہ ۔۔۔رو کیوں رہی ہو؟
" آپ نے ممانی سے کہا تھا "
"کیا کہا تھا ماما سے میں نے ؟" احسن نے تجسس سے اس کی طرف دیکھا اور بڑے پیار سے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا جو مسلسل بہتے جا رہے تھے وہ اس کے قریب ہوا اور اس پر جھک کر اس کے آنسوؤں کو معتبر کر گیا تھا فاطمہ سے مارے حیا کے آنکھیں نہیں اٹھائی تھیں
"اب اگر تم چپ نہ کی تو میں ایسے ہی کروں گا پھر نہ کہنا " اس نے فاطمہ کو دھمکایا تھا جو سچ میں چپ کر گئی تھی
"اب بتاؤ گی بھی یا میں اپنے طریقے آزماؤں ؟
وہ مسلسل اسے زچ کر۔رہا تھا
"آپ نے ممانی سے کہا تھا کہ مجھے فاطمہ سے شادی نہیں کرنی ۔۔ اور میں جانتی ہوں ماما نے ماموں کو زبردستی منوایا ہے " وہ کہتے ہوئے پھر سے رو پڑی ۔۔۔۔احسن کو وہ بدترین لمحے یاد آئے پتہ نہیں اس نے کیسے سن لیا تھا یہ سب اور دل پر لگا کر بیٹھی تھی
" اچھا پہلے چپ کرو جلدی سے نہیں تو بہت برا ہو گا اب چپ کرو گی تو ہی بتاؤں گا " اس نے سختی سے کہا تو فاطمہ نے ڈرتے ہوئے آنسو صاف کیے
"یہ جو تم کہہ رہی ہو نا کہ پھپھو نے ابو کو زبردستی منوایا تھا یہ بات تم غلط سوچ رہی ہو ۔۔کیونکہ ابو جب ہم چھوٹے تھے تب ہی یہ بات سوچ چکے تھے اور وہ تو میں ہی پاگل تھا جو سمجھ نہ سکا ۔۔۔ہاں میں نے انکار کیا تھا لیکن میری بات کا وہ مطلب نہیں تھا میں کیا جانتا تھا اس پاگل سے مجھے اتنی محبت ہو جائے گی کہ میرا جینا مشکل ہو جائے گا " اس نے اتنے جذب سے کہا تھا کہ فاطمہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا ۔۔۔احسن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگایا
"سوری میں نے انکار کیا تب ۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میں خود سمجھ نہیں پایا تھا کہ میرے دل میں تمہارے لیے کیا جذبات ہیں" فاطمہ کو تو وہ حیران ہی کیے جا رہے تھا حیا کے مارے وہ سرخ ہو چکی تھی
" ابھی تو تم ثانیہ کا سیاپا بھی لے کر بیٹھی ہوئی ہو اور جہاں تک میں واقف ہوں تم ابھی لائن پر نہیں آئی ہو ۔۔باقی باتیں آفس سے آ کر کروں گا دیر ہو رہی ہے " اس نے اٹھتے ہوئے فاطمہ کا ہاتھ بھی پکڑ کر اسے اٹھایا اور دھیرے سے اسے نزدیک کر کے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیے
" میں کال کروں گا پھر تمہیں مزید بتاؤں گا ۔۔۔زیادہ نہ سوچنا پلیز اور میرے لیے اپنا خیال رکھنا" وہ کچھ نہیں بولی تھی شاید تھوڑی ناراضگی ابھی باقی تھی اس لیے احسن نے ایسا کہا تھا
وہ اس کے بال سہلاتے ہوئے آفس بیگ پکڑ کر چلا گیا تھا۔۔
فاطمہ بھی سوچوں کو دھکیلتی ہوئی نیچے چلی گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پر سب ہی موجود تھے سوائے احسن کے ۔۔۔سب لوگ بیٹھے لنچ کر رہے تھے جب باہر دروازے کے پاس شور کی آوازیں سنائی دی تھیں
مجیب اپنے بیٹے کے ساتھ آیا تھا اور پولیس کے کچھ بندے بھی ساتھ ہی تھے
"یہ کیا بدتمیزی ہے مجیب ؟" امتیاز صاحب نے دھاڑتے ہوئے کہا تھا
" آپ نے ان کی بہو کو زبردستی رکھا ہوا ہے یہاں ۔۔۔ان کی بہو کو ان کے حوالے کریں صاحب اور ہمیں آپ سے کوئی لینا دینا نہیں "
پولیس کے ایک بندے کے کہنے پر احمد صاحب تو غصے میں آ گئے تھے رقیہ بیگم اور فاطمہ ڈر کے مارے ایک دوسرے کے ساتھ لگی تھیں
" جھوٹ ہے یہ سب ۔۔کس نے کہا فاطمہ ان کی بہو ہے " احمد صاحب نے ان سے نبٹنے کا سوچ لیا تھا
"یہ نکاح نامہ سب سے بڑا ثبوت ہے " پولیس والے نے نقلی نکاح نامہ آگے رکھا تھا ۔۔۔یہ وہی نکاح نامہ تھا جو اس دن مجیب ان کے گھر لے آیا تھا
"یہ جھوٹا نکاح نامہ ہے ۔۔۔فاطمہ کی شادی ان کے بیٹے سے نہیں بلکہ میرے بیٹے احسن سے ہوئی ہے " احمد صاحب کے کہنے پر مجیب نے جلدی جلدی بات کو بدلنے کی کوشش کی
" یہ سراسر جھوٹ ہے انہوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے نکاح میرے بیٹے سے کیاہے اور اب اپنے بیٹے کا نام
لے رہے ہیں "
"بکواس بند کرو مجیب ۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم لالچ میں اس قدر اندھے ہو جاؤ گے کہ اپنے خاندان کی عزت کا ہی تمہیں پاس نہیں رہے گا " اب کی بار امتیاز صاحب نے غصے سے اس کو کارلر سے پکڑا تھا
" یہ معاملہ آپ لوگ بعد میں حل کیجیئے گا جی ابھی فی الحال یہ نکاح نامہ ثبوت ہے اس کو جانے دیں ان کے ساتھ " پولیس والے مسلسل اسی بات کی ضد میں تھے رقیہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا اوپر سے فاطمہ کا بھی عجیب حال تھا وہ بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی تھی اور احسن کا نمبر ملایا
"ہیلو فاطی خیریت تو ہے سب " وہ پریشانی میں اس سے پوچھے جا رہا تھا لیکن وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی
مجیب تایا آئے ہیں اور ساتھ میں ان کا بیٹا بھی ۔۔۔وہ لوگ پولیس کے ساتھ ہیں مجھے ساتھ لےجانے کا کہہ رہے ہیں وہ جھوٹا نکاح نامہ بھی ساتھ لائے ہیں " روتے ہوئے وہ بغیر رکے بتا رہی تھی
احسن کے تو اوسان خطا ہو گئے تھے ۔۔۔نکاح نامہ بھی احسن کے پاس تھا ۔۔اور پھر وہ اتنی جلدی کیسے گھر جا سکتا تھا
"کچھ نہیں ہوتا پریشان مت ہو تم ۔۔میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔" وہ بظاہر تو اسے تسلی دے رہا تھا لیکن اسے بہت غصہ تھا ان لوگوں پر ۔۔۔وہ کم ازکم اسے چھوڑنے والا ہرگز نہیں تھا ان کی جرآت بھی کیسے ہوئی تھی اس کی بیوی کا نام لینے کی بھی ۔۔۔ہر کام جلدی جلدی ختم کر کے وہ گھر آنے لگا تھا
فاطمہ کال کر کے نیچے آئی تھی وہ لوگ کسی طور بھی ٹل نہیں رہے ۔۔۔لیڈی پولیس نے فاطمہ کو ساتھ چلنے کا کہا تھا ۔۔۔ گھر والے سب ہی ان کی منتیں کر رہے تھے لیکن وہ کسی کی نہیں سن رہے تھے انہوں نے فاطمہ کو زبردستی گاڑی میں بٹھا لیا تھا
رقیہ بیگم تو صدمے سے بیہوش ہو چکی تھیں
____________
جب وہ لوگ فاطمہ کو لے جا چکے تھے تب پانچ منٹ بعد احسن بہت عجلت میں گھر داخل ہوا تھااس کی سانسں پھولی ہوئی تھی اوپر سے رقیہ پھوپھو کی حالت دیکھ کر اس کو سچویشن کے بگڑنے کا مزید اندازہ ہو گیا تھا سب لوگ پریشانی میں بیٹھے ہوئے تھے "بابا فاطی کہا ہے ؟" احسن نے ڈرتے ڈرتے یہ سوال پوچھا تھا جب اسے فاطمہ کہیں بھی نظر نہ آئی
احمد صاحب چپ تھے کوئی بات کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہے تھے
"باباآپ چپ کیوں ہیں ؟بولتے کیوں نہیں ؟" احسن نے روہانسے لہجے میں کہا تھا
"لے گیا ہے وہ شیطان اسے ۔۔کہیں سے بھی اس کا خون اس کا اپنا نہیں لگتا ،میری بیٹی کو بہت زلیل کر رہا ہے وہ صرف اس دولت کی وجہ سے " احمد صاحب نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو صاف کیا ۔۔احسن نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ انہیں مار ہی ڈالے ،وہ آنسو جو فاطمہ کے کال کے دوران نکلے تھے اگر اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ کبھی انہیں ضائع نہ ہونے دیتا ۔۔۔وہ وہاں سے اٹھتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا تھا ۔۔۔اس نے اس کام کے لیے ڈی آئی جی کو کال کی تھی وہ نہیں چاہتا تھا زرا بھی کوئی غلطی ہو ۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ابھی وہاں سے فاطمہ کو واپس لے آئے ۔۔۔
" احسن آپ کی مسز کے پاس سیل فون ہے ؟" ڈی جی صاحب نے سوال کیا تو ایک لمحے کے لیے وہ بھی تھم گیا ۔۔۔اس نے فون ڈھونڈنا شروع کر دیا ۔۔لیکن فون آس پاس کہیں بھی نہیں تھا سب سے باری باری پوچھا لیکن کسی کو کچھ نہیں پتہ تھا
"میرا نہیں خیال سر کہ فون گھر پہ ہے شاید فاطمہ کے پاس ہو یا پھر ان لوگوں نے لے لیا ہو "
" تو پھر ابھی آپ اس نمبر پر کال مت کریے گا کیونکہ اگر آپ کی مسز کے پاس بھی ہوا تو شاید وہ سائلنٹ نہ ہو اور وہ لوگ آس پاس ہونے کی وجہ سے جان جائیں " ڈی جی صاحب کے کہنے پر وہ پھر سے اپنے آپ کو بے بس سا محسوس کرنے لگا تھا اس نے تو سوچا تھا۔کہ وہ کال کر کے فاطمہ سے بات کرے گا لیکن ابھی امتحان ختم نہیں ہونے تھے ۔۔۔شاید محبت کرنے کا تھوڑا سا امتحان تو ضرور دینا پڑنا تھا ۔۔۔
رات کا کافی ٹائم ہو گیا تھا جب اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔۔۔ایک پل بھی چین اور سکون نہیں تھا اس نے بے بس ہو کر سیل فون پکڑا تھا اور فاطمہ کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔۔بیل جا رہی تھی لیکن کوئی اٹینڈ نہیں کر رہا تھا احسن کا دل ڈوب رہا تھا نہ جانے وہا کیا ہو رہا ہو گا ۔۔۔۔احسن کی آنکھوں میں پانی آ گیا تھا آج سے پہلے ایسی حالت اس پر کبھی بھی نہیں آئی تھی ۔۔۔اس نے ثانیہ کو کال ملائی
"یار ٹائم دیکھو تم ہمیشہ اسی وقت ہی کال کرنا ۔۔۔وہ بھی اس سچویشن میں کہ جب تم شادی شدہ بیوی والے ہو " ثانیہ سوئی ہوئی تھی اس لیے اس نے کال اٹھاتے ہی احسن کی درگت بنانے کی کوشش کی تھی
"ثانیہ میں مر جاؤں گا " احسن کا لہجہ روہانسی تھا جبکہ ثانیہ ایک پل کے لیے ٹھٹھک گئی تھی
" احسن از ایوری تھنگ آل رائٹ ؟" ثانیہ کو صاف لگ رہا تھا کہ احسن پریشان ہے اس نے سب باتیں ایک ایک کر کے بتا دی تھیں
" ثانیہ میں فاطی کے بنا نہیں رہ سکتا "
" حوصلہ کرو احسن اور الله پہ بھروسہ رکھو ۔۔۔صبح ہو لینے دو۔انشاءاللہ فاطمہ کو کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔کیونکہ اگر وہ نقصان پہنچائیں گے تو ان کا اپنا نقصان ہی ہو گا ۔۔۔دولت کا لالچ ہے انہیں اسی لیے وہ لوگ کچھ نہیں کہیں گے ابھی فاطمہ کو ۔۔پلیز تم پریشان مت ہو " ثانیہ نے تسلی دی تواحسن نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کیے
" مجھے تمہاری ہیلپ کی ضرورت ہے ثانیہ "
"میری ضرورت ؟۔۔۔میں تو حاضر ہوں احسن لیکن میں کیا کام آ سکتی ہوں بھلا ؟" ثانیہ کی ساری توجہ اس کی بات کی طرف ہو گئی تھی
"ثانیہ تم جاؤ گی فاطمہ کے پاس ۔۔۔اس کا خیال رکھنے پلیز "
"احسن تم زیادہ مت سوچو پلیز ۔۔۔ایسے وہ لوگ مجھے رکھنے سے تو رہے اور دوسری بات ڈی آئی جی صاحب سے بات کی ہے نا تو ان کے کہنے پر سب کچھ کرو اور اگر میری ضرورت پڑی تو جان بھی حاضر ہے بس تم اب سو جاؤ اپنے مائینڈ کو ریلیکس کرو " ثانیہ ایک بہت اچھی دوست ثابت ہوئی تھی وہ اسے بار بار تسلی دے رہی تھی
" کیسے سو جاؤں ؟پتہ نہیں میری فاطی سوئی بھی ہے یا نہیں ثانیہ وہ اندھیرے سے بہت ڈرتی ہے " آج سے پہلے ثانیہ نے احسن کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا
"ایزی رہو یار ۔۔۔اللہ اس کے ساتھ ہیں ۔۔۔اسطرح اگر تم سوچتے رہے تو پھر کیسے اسے وہاں سے نکالو گے " ثانیہ بلکل ٹھیک کہہ رہی تھی اس نے اللہ حافظ کہہ کر اب پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اب ہر صورت میں جلد از جلد فاطمہ کو وہاں سے لے آئے گا
سونے سے پہلے اس نے ایک دفعہ پھر نمبر ڈائل کیا بیل جا رہی تھی اور اس بار قسمت اچھی تھی کال اٹینڈ کر لی گئی تھی
احسن انتظار کرنے لگا تھا کوئی بولتا تو وہ بھی آگے سے ضرور بولتا فاطمہ کے علاوہ بھی تو کوئی نہ کوئی اور ہو سکتا تھا نا
"احسن۔۔احسن "
وہ فاطمہ کی آواز تھی بہت دھیمی اور آہستہ آوآز میں بات کر رہی تھی احسن ایکدم سے بیڈ سے اٹھا تھا اس کی جان میں جان آئی تھی
اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا
"فاطی ۔۔۔فاطی پلیز بولو نا ۔۔تم ٹھیک تو ہو نا؟" احسن نے تیزی تیزی سے یہ سوال کیے تھے وہ پاگل سا ہو رہا تھا چھن جانے کا خوف شاید بہت زیادہ تھا
"پلیز مجھے لے جائیں یہاں سے ۔۔۔مجھے ان لوگوں سے ڈر آ رہا ہے " فاطمہ شدید خوف کے حصار میں تھی
"فاطی میں لے جاؤں گا یہاں سے تمہیں ۔۔۔میں بھی نہیں دیکھ سکتا تمہیں تکلیف میں "
"یہ لوگ مجھے نکاح کرنے کا کہہ رہے ہیں اور میں نکاح پہ نکاح کیسے کر سکتی ہوں ۔۔۔بہت برا کر رہے ہیں یہ پلیز جلدی آ جائیں " فاطمہ آخری بات پہ رو پڑی تھی احسن کے دل کو کچھ ہوا تھا
"فاطی پلیز واسطہ ہے تمہیں اسطرح نہ روؤو تم ۔۔۔مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا " احسن کا دل کر رہا تھا کاش اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ ابھی اسے وہاں سے لے آتا
"میں آپ کا انتظار کروں گی ۔۔اللہ حافظ"
"فاطی کال بند نہ کرو بات کرو نا مجھ سے " احسن کا لہجہ کافی نرم تھا
"بیٹری بھی لو ہے اور پھر میں اتنی بات نہیں کر سکتی ہر وقت یہ لوگ میرے سر پر کھڑے رہتے ہیں " فاطمہ کے کہنے پر اجسن مان تو گیا تھا لیکن اس کا دل نہیں مان رہا تھا
"میں صبح ہی تمہیں وہاں سے لے آؤں گا بس ہمارے نکاح نامے کے متعلق کچھ ڈیٹیل ڈی آئی جی صاحب کو چاہئیے پھر میں تمہیں لے آؤں گا پریشان مت ہونا " وہ جو خود پریشان ہو رہا تھا اسے تسلی دینے لگا
"اپنا خیال رکھنا فاطی " اس نے دھیمے لہجے میں کہا "اللہ حافظ" اس نے کال بند کر دی تھی لیکن احسن فون مسلسل کان سے لگائے ہوئے تھا پھر اپنے اوپر اختیار۔رکھتے ہوئے اس نے سیل سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔بات بھی تو ساری نہیں ہوئی تھی نا ۔۔نامکمل بات آدھی اادھوری ابھی تو اس نے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ اس نے کھانا کھایا بھی یا نہیں ۔۔۔یہ محبت بھی انسان کو کس مقام پر لے آتی ہے ۔۔۔محبوب کی فکر ہر وقت لاحق ہوتی ہے ۔۔دور جانا تو اس محبت کے پرندوں کے لیے بڑی بیماری ہوتی ہے ۔۔اور یہ بیماری لگ جائے تو پھر۔کوئی نہیں بچتا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات تو وہ بے چین رہا تھا نیند نہ آنی تھی اور نہ ہی آئی ۔۔رقیہ بیگم ابھی تک ویسے ہی پریشان تھیں نہ کچھ کھایا تھا اور نہ ہی کچھ پیا ۔۔صبح صبح وہ ان کے کمرے میں آیا
"پھپھو کیسی طبیعت ہے اب آپ کی " رقیہ بیگم لیٹی ہوئی تھیں احسن نے دھیرے سے ان کا ہاتھ پکڑا تھا
"احسن میری فاطمہ کو لے آؤ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں " ان کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں سے آ رہے تھے
"ایسے نہ کہیں پھپھو مجھے بھی بہت پریشانی ہے لیکن آپ حوصلہ رکھیں میں جا رہا ہوں وہیں ،ڈی آئی جی صاحب بھی ساتھ ہی ہوں گے اس بارے میں مکمل کاروائی ہو گی ۔۔مجھ پہ یقین رکھیں اور فاطی کے آنے سے پہلے پہلے ہشاش بشاش ہو جائیں نہیں تو وہ بھی آ کر پریشان ہو گی " احسن نے تسلی دیتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے اپنی آنکھوں پر رکھا تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا
" احسن میری فاطی کا خیال رکھنا جہاں بھی ہو "
"پھپھو آپ مجھ پہ چھوڑ دیں میں آپ کا بیٹا ہوں نا پھر آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے "
" مجھے اجازت دیں اور اپنی دعاؤں میں یاد
رکھیے گا "
"میری دعائیں ہمیشہ تم لوگوں کے ساتھ ہیں " انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا تھا اور اپنے بچوں کے لیے دل سے دعا کی
احسن نے رقیہ بیگم کو یہ نہیں بتایا تھا کہ اس کی فاطی سے رات کو بات ہو چکی ہے وہ اس سے بات کر کے مزید بے چین ہوا تھا لہذا انہیں اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ، اس کی آواز سن کر وہ خود بھی بے سکون ہو گیا تھا کہ اس کی فاطی اتنی مشکل میں ہے تو وہ خود کیسے سکون سے رہ سکتا ہے۔