آنکھ میں نقشے جنت کے پھرنے لگے رنگ و انوار کے تذکرے چِڑ گے
اِک نئے اَنگ میں اِک نئے ڈھنگ سے محفلِ اے یار کے تذکرے چِڑ گے
چاند تاروں کی جب بھی سجی انجمن جب بھی بیٹھے کبھی مل کے اہل چمن
کُچھ تیرے حُسن کی بات ہونے لگی کُچھ میرے پیار کے تذکرے چِڑ گے
شام چھانے لگی تو ہوا یہ گمان جیسے تُو نے او زُلفوں کو بکھرا دیا
دیکھے جلوے سحر کے تو ایسے لگا تیرے رُخسار کے تذکرے چِڑ گے
کون کا فر ہے جِس کی ہو یہ آرزو آپ کی بےوفائی کی تشہیر ہو
باتوں باتوں میں وہ تو یوں ہی جانِ مَن اِک وفادار کے تذکرے چِڑ گے
ہر زمانے میں جاری او ساری رہا داد کے ساتھ بےداد کا سلسلہ
نام جب بھی کہیں آیا منصور کا ساتھ ہی دار کے تذکرے چِڑ گے
مُجھ کو بے ساختا یاد آنے لگے زندگانی کے اُلجھے ہوئے راستے
گفتگو کے کِسی موڑ پر جب تیری زلفِ خم دار کے تذکرے چِڑ گے
ایک جانِ غزل پر جو لکھی غزل دُھوم ہر سُو میرے حُسنِ فن کی مچی
شہر کے ہر محلے میں بازار میں میرے اشعار کے تذکرے چِڑ گے
کیا کہوں ناز سُن کر میرا تذکرہ اُن کی اُکتاہٹیں اُن کی بے زاریاں
بزم سے اُٹھ گے وہ یہ کہتے ہوئے کیا یہ بےکار کے تذکرے چِڑ گے