پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیشِ نظر سنتِ سجادِ ولی ہے
غارت گرئ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلش میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے؟
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو، کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے
ہم راہروِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسین ابنِ علی ہے
اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ مری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
***