” پرومی تھیوس” کا المیہ ڈرامہ ایس کائی لس کا شاہکار ہے۔ آج تک کسی فن کار نے علم اور توہم پرستی ، روشن خیالی اور تاریک بینی، فطانت اور اذعان کے درمیان پیکار کی اتنی عمدہ نقاشی نہیں کہ اورنہ کوئی شخص ؑلامت اور ابلاغ کو اتنی بلندی پر لے جا سکا۔
یروشلم کے یہودی علما نے توریت کی ترتیب کے دوران جس وقت کتابِ پیدائش میں 1؎ شیطان کی بغاوت کی داستان رقم کی تو ان کو غالباً خبر نہ تھی کہ یونان کا کسان شاعر ہیسیڈ (750 ق۔م) تقریباً دو ڈھائی سوبرس قبال ایک اورباغی کا قصہ نظم کرچکا تھا۔ اس باغی کا نام پرومی تھیوس 2؎ Prometheus تھا جس نے قدیم یونانیوں کے ربِ اعلیٰ زیوس کی حکم عدولی کی تھی اور سزا پائی تھی مگر شیطان کی سامی الاصل داستان اور پرومی تھیوس کی آریا الاصل داستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ روایت کے مطابق شیطان بنی نوعِ انسان کا ازلی دشمن ہے۔ اس کاکام انسانوں کو بہکانا اور گمراہ کرنا ہے۔ وہ بدی کی علامت ہے۔ جب کہ پرومی تھیوس بنی نوعِ انسان کا دوست اور محسن ہے۔ زیوس کی نظروں میں اس کا قصور ہی یہ ہے کہ اس نے انسان کو مختلف علوم و فنون سکھائے حتیٰ کہ آگ کے استعمال سے بھی آگاہ کردیا جو زیوس کا سب سے خفیہ راز تھا۔
آسمانی طاقتوں کے خلاف بغاوت کا تصور چوں کہ ارضی طاقتوں کے خلاف بغاوت ہی سے وابستہ ہے لہٰذا بغاوت کی سماجی نوعیت پر غورکرنا بے محل نہ ہوگا۔ بغاوت نام ہے حکومتِ وقت یا مروجہ قوانین و ضوابط یا مروجہ عقاید و اقدار سے اعلانیہ انحراف کا۔ بغاوت فکرو عمل کا منفی انداز ہے جو حال کے جبر سے نشو و نما پاتا ہے۔ باغی کو اس سے سروکار نہیں ہوتاکہ جس تخریب کے وہ درپے ہے اس کے ملبے پر کوئی بہتر عمارت کھڑی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ حال کی سخت گیریاں اُس پر اتنی حاوی ہوتی ہیں کہ وہ مستقبل کے بارے میں بالکل نہیں سوچتا بلکہ عاجز آکر چیخ اُٹھتا ہے کہ
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو
(اقبال)
یا مخدوم کا یہ نعرہ کہ
پھونک دو کن کو اگر کن کا تماشا ہے یہی
زندگی چھین لو دنیا سے جو دنیا ہے یہی
یہ بھی ضروری نہیں کہ بغاوت سماجی رشتوں میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ مثلا کسانوں، غلاموں اور دست کارو ں کی پہلی بغاوت جس کی دستاویزی شہادت موجو د ہے 18 ویں صدی قبلِ مسیح میں مصر میں ہوئی۔
اس بغاوت سے پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ ” فرعون کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا اور امرا اور رؤسا اپنی حویلیاں چھوڑ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پرانے فرعونوں کے مقبروں میں جو دولت دفن تھی لوٹ لی گئی۔ غلوں کے شاہی گوداموں اور خزانوں پر باغیوں نے قبضہ کرلیا اور جو مال و متاع ہاتھ لگا اس کو آپس میں بانٹ لیا اور خراج اور محاصل کے تمام سرکاری کاغذات جلا دیے گے۔ ایک قدیم وقائع نویس کے بیان کے مطابق زمین کمھار کے چاک کی ماند گھوم گئی۔ کیوں کہ غریب پانے دولت مند آقاؤں کی حویلیوں میں جا بسے تھے اوران کے لباس پہن کر ان کو کام کرنے پر مجبور کرنے لگے تھے”۔3؎
مگرجس طرح تالاب کے بند پانی میں پتھر پھینکنے سے لہریں اٹھتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اسی طرح مصریوں کی بغاوت بھی چند روزہ ثابت ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ محنت کش عوام تشدد اور استحصال کی ناقابلِ برداشت صعوبتوں سے تنگ آکر ریاستی نظام کو درہم برہم تو کرسکتے تھے لیکن اس وقت تک پیداواری قوتوں نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ اقتدار پر قبضہ کر کے فراعنہ کے غلامی کے نظام کی جگہ سرمایہ داری یا سوشلسٹ نظام رائج کیا جاتا جیسا کہ انقلاب فرانس یا انقلابِ روس کے بعد ہوا۔ لہٰذا مصر میں بہت جلد فرعونی اقتدار بحال ہوگیا۔ ممکن ہے کہ بغاوت کے باعث غلاموں، دہقانوں اور دست کاروں کو کچھ مراعات مل گئی ہوں لیکن باغی عناصر ملک کے سماجی اورپیداواری رشتوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ لا سکتے تھے اور نہ لائے۔
سماجی اور پیداواری رشتوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا نام انقلاب ہے۔ معاشرتی ارتقا کی یہ وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر فکرو عمل کا منفی انداز مثبت صورت اختیار کرلیتا ہے اور حال سے انکار ایک بہتر مستقبل کا مژدہ سناتا ہے۔ انقلاب تخریب بھی ہے تعمیر بھی۔ چنانچہ ہر انقلابی کے لیے باغی ہونا شرط ہے لیکن ہر باغی انقلابی نہیں ہوتا اور نہ ہر بغاوت انقلاب کی نقیب ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے شیطان باغی تو ہے مگر انقلابی نہیں جب کہ پرومی تھیوس باغی بھی اور عظیم انقلابی بھی جس نے داستان کے مطابق انسان کو حیوانوں کی صف سے نکال کر اشیا کا ایک باشعور خالق بنادیا۔
بغاوت کا تصور طبقاتی معاشرے کا منطقی ردّعمل ہے۔ باغیانہ خیالات غیر طبقاتی قبیلہ داری معاشرے کے ذہن میں ابھرہی نہیں سکتے تھے کیوں کہ قبیلہ داری معاشرہ ایک وحدت ہوتا تھا اقتصادی اعتبار سے بھی اور اعتقادی اعتبار سے بھی۔ اُس میں حاکم و محکوم، زبردست اور زیردست، امیر اور غریب کے مابین فرق و امتیاز کی قطعاً گنجائش نہ تھی۔ قبیلے کے قاعدے ضابطے قبیلے کے اپنے تجربوں اور زندگی کے تقاضوں سے اخذ کیے جاتے تھے اور قبیلے کی اجتماعی مرضی کی نمائندگی کرتے تھے۔ کوئی بیرونی قوت ان ضابطوں کو نہ وضع کرتی تھی اور نہ اوپر سے نافذ کرتی تھی۔ چنانچہ انیگلز کے بقول قبیل داری نظام میں۔
” معاشرے کے حالات زیست میں ایک طرح کی مساوات پائی جاتی تھی اور خاندانوں کے سر براہوں کے درمیان سماجی مرتبے کی برابری ملتی تھی۔ کم سے کم سماجی طبقے ناپید تھے۔ یہ صورت بعد میں مہذب قوموں کی قدیم زرعی بستیوں میں بھی باقی رہا۔ ایسی ہر ایک جمعیت میں ابتدا ہی سے بعض ایسے مشترکہ مفادات موجود ہوتے تھے جن کے تحفظ کی ذمہ داری افراد کے سپرد ہوتی تھی البتہ پوری جمعیت کی نگرانی میں مثلاً آپس کے جھگڑوں کا چکانا، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کی حرکتوں کی روک تھام، پانی کی فراہمی کی دیکھ بھال بالخصوص گرم ملکوں میں بالکل ابتدائی دور میں مذہبی رسوم کی ادائیگی”۔ 4؎
قبیلے کے اندر اختیاراور اطاعت کا رشتہ ضرور موجود تھا لیکن صاحبِ اختیار افراد کے پاس قبیلے کی اخلاقی قدروں کے علاوہ کوئی قوت قاہرہ نہ تھی۔ نہ پولیس، نہ فوج، نہ قید خانہ۔ قوتِ قاہرہ کے اس فقدان کے باوجود قبیلے کے لوگ بقول اینگلز اپنے صاحبِ اختیار بزرگوں کی صدق دل سے عزت کرتے تھے۔ ” جو اختیار ان بزرگوں کو حاصل تھا اور جو محبت ان کے قبیلہ والوں سے ملتی تھی وہ بعد میں بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہوئی”۔
بغاوت کے تصور کا پیدا ہونا اس بات کی علامت تھی کہ معاشرے میں وہ اگلی سی وحدتِ فکر و عمل باقی نہیں رہی بلکہ اب وہ طبقوں میں بٹ گیا ہے جن کے مفاد آپس میں ٹکراتے تھے۔ طبقوں میں تقسیم ہونے سے مراد یہ ہے کہ پرانے حالاتِ زیست بدل گئے ہیں۔ دولت اور دولت آفرینی کے ذرائع کسی مخصوص گروہ کی ذاتی ملکیت بن گئے ہیں اور وہ دولت پیدا کرنے والے غلام، کاشت کار اور ہنر مندوں کی قوتِ محنت کا استحصال کرتا ہے۔ ریاستیں اسی نظام جبرو استحصال کے تحفظ کی خاطر وجود میں آئیں اور تب معاشرے میں بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیاسی اور فکری بغاوتوں کا۔ ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے ہم کو کسی ارضی یا سماجی بغاوتوں کا نشان نہیں ملتا۔
یہ درست ہے کہ انسان نے مظاہرِ قدرت کی پرستش ریاست سے بہت پہلے شروع کردی تھی۔ جو قوتیں اس کو آرام یا فائدہ پہنچاتیں ان سے وہ محبت کرتا تھا مثلاً مادر گیتی جو سب کی پالن ہار سمجھی جاتی تھی اور سورج، چاند ، آگ، پانی وغیرہ۔ اس کے برعکس جن قوتوں سے اس کو ضرر پہنچتا تھا ان سے وہ ڈرتا تھا اور ان کی رضا جوئی کی کوشش کرتا تھا۔ مثلاً سیلاب، طوفان، آندھی، بیماری، موت وغیرہ۔ مفید قوتیں “خیر” تھیں، مضر قوتیں “شر” لیکن ان مظاہر قدرت کے مربوط دیو مالائی نظام کی باقاعدہ تشکیل ملوکیت کے دور ہی میں ہوئی۔ چنانچہ ارباب النوع کو ان تمام اوصاف سے آراستہ کیا گیا جو بادشاہ اور اس کے درباریوں میں نظر آئے۔ رب الارباب کائنات کا مالک و فرماں روا ٹھہرا۔ اور بقیہ ارباب النوع کو اس کے وزرا، مصاحبین اور اولاد کا مرتبہ دیا گیا۔ پوری کائنات کے حاکم اعلیٰ ہونے کے ناتے رب الارباب کے اختیارات بھی ارضی بادشاہوں سے فزوں تر قرار پائے۔ مصر میں یہ مرتبہ آمون رع کو ملا، بابل میں مردوک کو، ایران میں یزداں کو، ہندوستان میں برھماکو اور یونان میں زیوس کو۔ ان ملکوں بالخصوص یونان کی دیو مالا پڑھو تو یوں لگتا ہے کہ گویا قرونِ وسطیٰ کی کسی بادشاہت کا حال پڑھ رہے ہیں۔ وہی اقتدار کی جنگیں، وہی درباری سازشیں، وہی عیاشیاں اور عشق و عاشقی کے مشعلے اور وہی رنگ رلیاں جو شاہی محلوں کا معمول تھیں کوہِ اولمپس کے خداؤں کے ذوق و شوق کی تسکین کے سامان بھی فراہم کرتی تھیں۔
جس طرح زمین کے بادشاہ تاج و تخت کی خاطر اپنے باپ بھائی اور اولاد سے جنگ کرنے اور ان کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے اسی طرح زیوس بے بھی عالم کی فرماں روائی اپنے باپ کرونس (زمانہ= Cronus ) سے لڑکر حاصل کی تھی۔ کہتے ہیں کہ زیوس کے دادا یورانس (عرش = Uranus ) کے نطفے اور مادر گیتی کے بطن سے سات بیٹے پیدا ہوئے جن کا مشترکہ نام طیطان (Titan ) تھا۔ پھر کچھ اور بیٹے پیدا ہوئے جو سائیکلوپ کہلائے سائیکلوپ بڑے سرکش نکلے لہٰذا عرش نے ناراض ہو کر ان کو پاتال میں پھینک دیا۔ مادرِ گیتی کو عرش کا یہ ظالمانہ برتاؤ بہت برا لگا۔ اس نے طیطانوں کو بدلہ لینے پر آمادہ کیا چنانچہ سب سے چھوٹے بیٹے کرونس نے ایک تیز ہنسئے سے عرش کا عضو تناسل کاٹ ڈالا اور باپ کی جگہ خود کائنات کا مالک بن گیا (ایشیائے کوچک کی حتی قوم کی دیو مالا میں کرونس کا نام کماربی اور آسمان کے دیوتا کا نام انو ہے۔ مورخین کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ طیطان دراصل یونان کے اصلی باشندے تھے جنھوں نے ان آریائی قوموں کو شکست دی تھی جو ایشیائے کوچک سے ترکِ وطن کرکے یونان میں آبسے تھے) کرونس نے مالکِ کائنات ہو کر اپنی بہن رِھیا Rhea سے شادی کرلی لیکن عرش نے مرتے وقت پیشن گوئی کی تھی کہ کرونس کا بیٹا بھی اس کو تخت سے اتارے گا۔ لہٰذا رھیا کے جو بیٹا ہوتا کرونس اس کو نگل جاتا مگر زیوس کی ولادت کے وقت رھیا ایک غار میں چھپ گئی۔ زیوس پیدا ہوا تو رھیا نے اس کو ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیا اور جب کرونس نومولود کو کھانے آیا تو رھیا نے پتھر کے ایک موسل کو کپڑا میں لپیٹ کراس کے گلے میں اتار دیا۔ اور کرونس سمجھا وہ نولود ہے۔
زیوس کی پرورش ایک گڈریے نے کی۔ جب وہ جوان ہوا تو اپنی ماں رھیا کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ماں مجھ کو کرونس کا پیالہ بردار بنا دے تاکہ میں اس سے بھائیوں کا انتقام لے سکوں۔ رھیا نے اس کو سرسوں اور نمک دیا اور کہا کہ جا کر کرونس کے شہد کے پیالے میں ملادے۔ کرونس نے شہد پیا تو اس کو قے ہوئی اور اس نے زیوس کے بھائیوں کو اُگل دیا جو زندہ تھے۔ تب زیوس نے بھائیوں کی مدد سے کرونس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ یہ لڑائی دس سال تک جاری رہی۔ آخر زیوس نے اپنے باپ کو بجلی گرا کر ہلاک کردیا اور کوہِ لمپس کا فرماں روا بن گیا۔
اس جنگ میں پرومی تھیوس کے طیطان بھائیوں نے کرونس کا ساتھ دیا تھا لیکن ” دور اندیش” پرومی تھیوس نے زیوس کو ترجیح دی تھی۔ لہٰذا زیوس نے پرومی تھیوس کو بطور انعام دیوتاؤں کا درجہ دے دیا تھا۔
زیوس بڑا عاشق مزاج تھا۔ اس نے میتس نامی ایک طیطانی دوشیزہ سے زبردستی صحبت کی تب مادر گیتی نے غیب سے ندادی کہ میتس کے لڑکی ہوگی لیکن زیوس نے اگر دوبارہ یہی حرکت کی تو میتس بیٹا جنے گی اور اس کے ہاتھوں زیوس کا وہی انجام ہوگا جو کرونس کے ہاتھوں یورانس کا اور زیوس کے ہاتھوں کرونس کا ہوا تھا۔ زیوس نے یہ سنا تو میتس کو پیارکے بہانے پاس بلایا اور زندہ نگل گیا مگر تھوڑی دیر میں اس کا سر درد پھٹنے لگا۔ اس وقت پرومی تھیوس نے زیوس کے سرمیں بڑا سا سوراخ کیا جس سے درد جاتا رہا اور سوراخ سے عقل و دانش کی دیوی اے تھی نابرآمد ہوئی۔ زیوس نے پرومی تھیوس سے کہا میں تیرا احسان کبھی نہ بھولوں گا۔
اے تھی نانے پرومی تھیوس کو گھر بنانے اور کھیتی باڑی کرنے کے ہنر سکھائے اور علم نجوم، معدنیات، طب ، ریاضی اورجہازرانی کی تعلیم بھی دی۔ پرومی تھیوس نے انسانوں کو ان تمام علوم و فنون سے آگاہ کردیا لیکن زیوس کو پرومی تھیوس کا یہ طرزِ عمل پسند نہیں آیا لہٰذا اس نے نسل انسانی کو یکسر نیست و نابود کرنے کا تہیہ کرلیا۔ پرومی تھیوس کو خبر ہوئی تو اس نے جاکر زیوس کی منت سماجت کی اور زیوس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ تب پرومی تھیوس نے ایک مشعل بنائی، اس کو سورج سے روشن کیا اورچپکے سے انسانوں کو دے آیا۔ اس طرح وہ آگ کے استعمال سے واقف ہوگئے۔
اس خفیہ راز کا افشاں ہونا تھا کہ اولمپس میں تہلکہ مچ گیا۔ زیوس کو پتہ چلا تو وہ آگ بگولا ہوگیا اور حکم دیا کہ پرومی تھیوس کو گرفتار کرکے کوہِ قاف کی سب سے اونچی چوٹی سے باندھ دیا جائے اور ایک گدھ مقرر کردیا جس کا کام یہ تھا کہ دن بھر پرومی تھیوس کا کلیجہ نوچ نوچ کرکھاتا رہے اور یہ شرط بھی لگا دی گئی کہ جب تک پرومی تھیوس اپنے جرم کا اعتراف نہ کرے اور معافی نہ مانگے یہ اذیت ناک سزا بھگتتا رہے۔ پرومی تھیوس نے معافی مانگنے سے انکارکردیا۔
اس طرح وہ تیس ہزار سال تک قیدو بند کی اذیتوں میں مبتلا رہا۔ ایک روز اتفاقاً مہم جو ہرا کلیز ہفت خواں کا راستہ تلاش کرتا وہاں وارد ہوا۔ اس کو پرومی تھیوس کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے گدھ کو تیر مار کر ہلاک کردیا۔ پرومی تھیوس کی زنجیریں، بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور زیوس کے پاس جا کر معافی کا طالب ہوا۔ زیوس نے ہرا کلیز کی التجا قبول کرلی۔ اس طرح یہ داستان اقتدار اورسرکشی کے مابین سمجھوتے پر تمام ہوگئی۔
پرومی تھیوس کے قصے میں وقتاً فوقتاً ترمیمیں ہوتی رہی ہیں مگر وہ ہردور میں بغاوت کی علامت رہا ہے۔ البتہ بعض مشاہیرے پرومی تھیوس کی تعریف کی ہے اور بعضوں نے مذمت۔ مثلاً افلاطون، بیکن، گوئٹے، بائرن، شیلی، والٹیر، کارل مارکس اور پکا سونے اس کی انسان دوستی، پامردی اور اخلاقی جرات کو خوب سراہا ہے۔ یونانی ادب کے ایک مغربی نقاد کی نظر میں تو پرومی تھیوس ” محنت کشوں کا پہلا پیر تھا”۔ 5؎
اس کے برعکس اقتدار پرست حلقوں نے پرومی تھیوس کو برا بھلا کہا ہے اور زیوس کے طرزِ عمل کی حمایت کی ہے۔ مثلا ہیسیڈ اوراٹلی کے فاشسٹ شاعر گیبریل اننزیو نے۔ ہیسیڈ کسان ہونے کے باوجود ایتھنز کے رؤسا کا طرف دار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پرومی تھیوس کی خود سری ہی ہماری مصیبتوں کا سبب بنی۔ وہ کہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب لوگ ہنسی خوشی زندگی بسرکرتے تھے۔ کسی کو محنت مشقت نہیں کرنی پڑتی تھی بلکہ زمین بلا جوتے بوئے از خود اناج اگلتی رہتی تھی لیکن یہ عہدِ فرصت و شادمانی پرومی تھیوس کی ضد اور شرارت سے ختم ہوگیا۔
جس فن کار نے پرومی تھیوس کی داستان کو بقائے دوام بخشی وہ ایتھنز کا مشہور ڈرامہ نویس ایس کائی لس Aeschylus تھا۔ وہ 525 قبل مسیح میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب داریوش اعظم ایشیائے کوچک کی تسخیر کے بعد یونان پر حملے کررہا تھا۔ چنانچہ ایس کائی لس بھی میرا تھن (490 ق۔ م) اور سلامیز(480ق۔م) کی تاریخی جنگوں میں شریک ہوکر وطن کی حفاظت کے لیے لڑا اوراپنی دلیری کے سبب مشہور ہوا۔ اس کو ڈرامہ نویسی میں اول انعام چالیس سال کی عمر میں ملا (ایتھنز میں ہرسال موسمِ بہار کے عظیم الشان تیوہار کے موقعے پر کئی دن تک نو تصنیف ڈرامے اسٹیج پر کھیلے جاتے تھے۔تھیٹر میں داخلہ مفت تھا۔ سقراط بھی ان ڈراموں کو بڑے شوق سے دیکھتا تھا) کہتے ہیں کہ ایس کائی لس نے نوے ڈرامے لکھے مگراب فقط سات باقی ہیں۔ اس کو تیرہ بار اول انعام ملا۔ 458 ق۔م میں وہ سسلی کے حاکم ہیرون کی دعوت پر سیراکوز گیا اوردو سال بعد وہیں فوت ہوگیا۔
ایس کائی لس نے پرومی تھیوس کے قصے کو تین ڈراموں میں پھیلایا ہے۔ 1۔ پرومی تھیوس آتش رسا Prometheus, Fire Bringer 2۔ پرومی تھیوس زنجیر بستہ Prometheus Bound 3۔ پرومی تھیوس زنجیرکشادہ Unbound ۔ لیکن ان میں فقط زنجیر بستہ زمانے کی دست برد سے بچا۔ بقیہ دونوں ڈرامے تلف ہوگئے۔ دس پانچ مصرے اگرکہیں ملتے ہیں تو ان سے نفسِ مضمون کا اندازہ نہیں ہوتا۔
“زنجیرِ بستہ” کی جائے وقوع سمندر کے کنارے ایک اونچی چٹان ہے۔ زیوس کے کارندے ” طاقت” اور” تشدد” پرومی تھیوس کو جو زنجیروں سے بندھا ہے گھسیٹتے ہوئے لاتے ہیں اور لوہار دیوتا سے جو آگ کا محافظ بھی تھا کہتے ہیں کہ:
” آؤ اب اس باغی پرومی تھیوس کو ہمیشہ کے لیے چٹان سے باندھ دیں۔ اس نے آگ کی گلنار تابانی کو چھپے چوری انسانوں کے حوالے کردیا۔ دیوتاؤں کے نزدیک یہ ناقابلِ معافی جرم ہے اوراب پرومی تھیوس کو اس جرم کی سزا بھگتنی چاہیے یہاں تک کہ وہ زیوس کی خدائی کو تسلیم کرلے اور نسل انسانی کی اعانت سےباز آجائے۔”
مگرلوہارکوپرومی تھیوس سے ہمدردی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ شخص آخرہم ہی میں سے ہے پھرکس دل سے اس کے ہاتھوں ، پیروں اور پسلیوں میں کیلیں ٹھونکوں لیکن حکمِ حاکم مرگِ مفاجات۔ وہ پرومی تھیوس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ
کوہ پیکر خیالات کے دیوتا،
اب میں تم کو بڑے دکھے دل سے باندھوں گا
کانسے کی زنجیروں سے جو ہلائے نہ ہلیں گی
اس سنسان چوٹی سے
جہاں تم کوئی آواز نہ سن سکو گے
اورنہ تم کو کس فردِ بشر کی شکل دکھائی دے گی۔
تمھارا بدن سورج کی شعلہ فگن شعاعوں سے جھلس کر
اپنی تازگی اورشادابی کھودے گا۔
تم رات کے آنے پر خوش ہوگے
جو دن کو اپنے سیاہ لبادے میں چھپا لیتی ہے۔
اورجب بھور ہوتے ہی سورج کی گرمی سے
پالے کی تہیں پگھل جائیں گی
توتم پھر خوش ہوگے
مگرہرگزرتی ساعت تمھارے جسم پر
درد کے تازیانے لگائے گی
نسلِ انسانی پر تمھاری شفقت و عنایت نے تم کو یہ دن دکھائے ہیں۔
تم وہ دیوتا ہو جو دیوتاؤں کے عتاب کے آگے نہیں جھکا۔
لیکن تم اپنی حد سے آگے بڑھ گئے
اورفانی انسان کو مراعات دے دیں۔
اب اس کی پاداش میں تم اس چٹان کا پہرہ دو،
سیدھے کھڑے رہ کر، بے خواب آنکھوں سے، آرام سے محروم۔
تمھاری چیخیں اور کراہیں سب بے سود ہوں گی
کیوں کہ زیوس کا دل پسیجنے والا نہیں۔
نیانیا اقتدار بڑا شقی ہوتا ہے
” طاقت ” اور ” تشدد” پرومی تھیوس پر خوب خوب طنز کرتے ہیں مگروہ خاموش کھڑا رہتا ہے البتہ جب وہ پرومی تھیوس کو چٹان سے باندھ کر چلے جاتے ہیں تو پرومی تھیوس اپنے ہمدرد دیوتاؤں کو پکارتا ہے۔
اے مقدس آسمان، اے تیز ہواؤ اوراُبلتے چشمو!
اے سمندر کی ہنستی ہوئی ان گنت موجو!
اے زمین! زندگی کی ماں!
تم سب گواہ رہنا اور سورج بھی جس کی آنکھوں سے کچھ پوشیدہ نہیں
کہ دیوتاؤں نے ایک دیوتا سے کیا سلوک کیا۔
دیکھو، دیوتاؤں کے نئے آقا نے میرے لیے
کیسا قید خانہ بنایا ہے!
نسلِ انسانی کو تحفے دینے کی پاداش میں
مجھ کو یہ اذیت ناک سزائیں مل رہی ہیں۔
میں وہ ہوں جس نے آگ کی جگہ ڈھونڈ نکالی
اورآگ انسان کے لیے تمام فنون و ہنر کی معلم ثابت ہوئی۔
ایک عظیم الشان ذریعہ
اتنے میں جل پریاں کورس کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ وہ پرومی تھیوس سے اظہار ِ ہمدردی کرتےہوئے کہتی ہیں کہ :
اولمپس کی عنانِ اقتدار اب ایک نئے آقا کے ہاتھ میں ہے زیوس کے ظالمانہ قوانین جن سے وہ جبر یہ حکومت کرتا ہے
بالکل انوکھے ہیں۔
وہ ماضی کی درخشاں روایتوں کو ملیا میٹ کررہا ہے۔
سب دیوتا تمھارے دکھ درد میں شریک ہیں،
زیوس کے سوا۔
انتقام لیے بغیر اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے والا نہیں
یا کوئی ایسی سازش جو اس ناقابلِ تسخیر سلطنت کو
اس کے ہاتھ سے چھین لے۔
پرومی تھیوس ۔۔۔۔۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ
ہرچند کہ میں آج ذلیل و خوار ہوں
اورمیرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے بندھے ہیں
لیکن خداؤں کے اس خدا کو
ایک دن میری حاجت ہوگی
یہ جاننے کے لیے کون اس کے اقتدار اور شان و شوکت کے درپے ہے
مگراس کی چکنی چپڑی باتوں کا جادو مجھ پر نہیں چلے گا
اورنہ میں اس کی دھمکیوں سے ڈرنے والا ہوں
کورس۔۔۔۔ بے شک تم نڈر ہو اور
تمھاری روح اذیتوں کے باوجود بنا نہیں جانتی
لیکن تم اس مصیبت سے کیسے نجات پاؤ گے
کیوں کہ کرونس کا بیٹا مد مزاجی میں یکتا ہے
اورکوئی چیز اس کے دل کو نرمانے والی نہیں۔
پرومی تھیوس ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ زیوس بڑا کٹھور ہے
اورقانون کو اپنی مرضی سے چلاتا ہے
مگر میری باتیں جب سچ نکلیں گی
اوراس کا راج سنگھاسن ڈولنے لگا
تب اس کا مزاج درست ہو جائے گا
اوروہ مجھ سے دوستی کی درخواست کرے گا۔
کورس۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ زیوس نے تم کو کس جرم میں پکڑا۔
اورایسی بے شرمی اور سنگ دلی کا سلوک تمھارے کیوں کہ۔
پرومی تھیوس کرونس اور زیوس کی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری ماں، مادرِ گیتی نے مجھ کو آگاہ کردیا تھا کہ اس لڑائی میں فتح ہوشیاری اور عقل مندی کی ہوگی نہ کہ جسمانی طاقت کی چنانچہ میں نے قوی ہیککل اور دیو پیکر طیطانوں کو جو عقل و فہم سے بالکل عاری ہیں بہتیرا سمجھایا مگران کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا۔ انھوں نے میری بات نہ مانی لہٰذا میں زیوس کے لشکرمیں شامل ہوگیا اورمیری بتائی ہوئی تدبیروں ہی سے زیوس جیتا” اب میری رفاقت کا بدلہ مجھ کو یہ مل رہا ہے۔”
دوستوں کو شک و شبہے کی نظرسے دیکھنا،
یہ بیماری ہر ظالم سفاک کو شاید ورثے میں ملتی ہے،
زیوس خفگی کا سبب بیان کرتے ہوئے پرومی تھیوس کہتا ہے:
تم پوچھتی ہو ، زیوس مجھ کو کیوں دُکھ دے رہا ہے
تو سنو!
باپ کے تخت پر بیٹھتے ہی اس نے دیوتاؤں کو مختلف منصب سونپ دیے لیکن خاکی انسان کا بالکل خیال نہ کیا
بلکہ ان کو ہلاک کرنے کے منصوبے بنانے لگا
مگرمیرے سوا کسی کو اس منصوبے کی مخالفت کی جرات نہ ہوئی۔
میں نے ہمت دکھائی اور فانی انسان پر ترس کھایا۔
پرمیں رحم کا مستحق نہ تھا
لہٰذا مجھ کو یہ سبق پڑھایا جارہا ہے۔
کورس۔۔۔ شاید تم نے کوئی اس سے بھی بڑا جرم کیاہو؟
پرومی تھیوس۔۔۔۔ ہاں، میں نے انسانوں کو موت کی پیش بینی کرنے سے روک دیا۔
کورس۔۔۔۔ تم نے ان کے دُکھوں کی کیا دوا تجویز کی؟
پرومی تھیوس۔۔۔۔ میں نے ان کے دلوں میں امید کے سدابہار پھول کھلا دیے۔
کورس۔۔۔۔ یہ تحفہ تو ان کے لیے بری نعمت ثابت ہوا ہوگا؟
پرومی تھیوس۔۔۔۔ میں نے ان کو اس سے بھی بڑی چیز عطا کی۔ میں نے آگ ان کے حوالے کردی۔
کورس۔۔۔۔ انسانوں کو! جن کی زندگی چند روزہ ہوتی ہے۔ گویا وہ اب آگ کی گرم روشنی کے مالک ہیں۔
پرومی تھیوس۔۔ ۔ ۔ ہاں اوراس کی مدد سے اب وہ ان گنت ہنروں کے ماہر ہو جائیں گے۔
اسی اثنا میں سمندر کا دیوتا نمودار ہوتا ہے اور پرومی تھیوس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ بتاؤں میں تمھاری کیا مدد کرسکتا ہوں۔ وہ پرومی تھیوس کو زیوس سے سمجھوتہ کرلینے کا مشورہ دیتا ہے۔
سمندر دیوتا۔۔۔۔ دیکھو پرومی تھیوس، ایک نیا بادشاہ ہمارا حاکم بنا ہے لہٰذا اپنی حقیقت پہچانو اور وقت کے ساتھ چلنا سیکھو۔ اگرتم زیوس کو اسی طرح جلی کٹی سناتے رہے تو اس کو بھی خبر ہو جائے گی اور تمھاری تکلیفیں اور بڑھ جائیں گی۔
پرومی تھیوس سمندر کے دیوتا کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے دوسروں پر بھی عتاب آئے لہٰذا تم بیچ میں نہ پڑو۔ سمندر دیوتا کے رخصت ہونے پر کورس اور پرومی تھیوس کے درمیان مکالمہ پھر شروع ہوجاتا ہے۔ یہ مکالمہ فنّی اعتبار سے ایس کائی لس کا شاہ کار ہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یونانیوں کا ذہن اب سے ڈھائی ہزار برس پیش تر بھی تہذیبِ انسانی کے ارتقائی تصور سے آشنا تھا۔ افلاطون نے ” مکالماتِ فرو تا غورث” اور ” قوانین” میں انسانی معاشرے کے ارتقا کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ پورے ایک سو سال بعد کی تصنیف ہے۔
پرومی تھیوس انسانوں میں اپنے احسانات گنواتے ہوئے کہتا ہے کہ:
ابتدا میں ان کے پاس دماغ نہ تھا۔
میں نے ان کو عقل و فہم عطا کی۔
مگرجوکچھ میں کہہ رہا ہوں اس سے انسانوں کی تحقیر مقصود نہیں
بلکہ یہ بتانے کےلیے کہ میں نے ان کو جو تحفہ بھی دیا
نیک نیتی سے دیا۔
ان کے آنکھیں تھیں لیکن بصیرت سے محروم،
وہ آوازیں سنتے تھے مگر ان کے معنی و مفہوم سے بے خبرتھے۔
وہ زندگی کا سفریوں طے کررہے تھے۔
گویا بھیڑیں ہیں جو خواب دیکھ رہی ہوں۔ بے مقصد اور آشفتہ سر
اینٹوں کے بنے اور سورج کی حرارت سے گرم گھروں کا ان کو کوئی تصور نہ تھا۔
نہ وہ لکڑی کا سامان بنا سکتے تھے۔
وہ چیونٹیوں کی طرح بلوں میں رہتے تھے
یا اندھیرے غاروں میں۔
ان کو سردی کی یا پھولوں سے مہکتی بہار یا میووں سے لدی گرمی
کی تمیز نہ تھی۔
ان کا ہرکام ادراک و آگہی سے خالی تھا۔
یہاں تک کہ میں نمودار ہوا۔
میں نے ان کو ستاروں کی حرکت کا حساب سکھایا،
جو مشکل فن تھا۔
پھر علم ریاضی جو بنیادی علم ہے، میں نے ان کے لیے وضع کیا
اورلفظوں کو لکھنے کا ہنر
جس کے ذریعے سب کچھ محفوظ کرلیا جاتا ہے
اورجو بے شمار فنون کی تخلیق کا سرچشمہ ہے۔
میں نے جانوروں کو جوا پنہا کر انسان کا غلام بنایا
کہ وہ بھاری سے بھاری بوجھ اٹھائیں
اورگھوڑوں کو رتھ میں ہانکیں
اوروہ اس کی لگام کے اشارے پر دوڑیں۔
کسی نے مجھ سے پہلے ملاحوں کی گاڑی نہیں ایجاد کی تھی،
وہ سواری جو کپڑے کے پر لگا کر سمندروں میں سیر کرتی پھرتی ہے۔
میں نے انسان کو یہ سارے آلات و اوزار فراہم کیے
مگرآج مجھ کو اس اذیت سے نجات کا کوئی گرنہیں آتا۔
کورس۔۔۔۔ تم وہ طبیب ہو جو اپنا علاج نہ کرسکا۔
پرومی تھیوس۔۔۔۔۔ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی:
سب سے اہم یہ کہ آدمی بیمار ہوتا تھا تو اپنا علاج نہ کرسکتا تھا
اس کو کوئی عرق، معجون یا مرہم میسر نہ تھا۔
دوانہ ہونے کہ وجہ سے وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کردم توڑدیتا تھا۔
میں نے ان کو شفا بخش جڑی بوٹیوں کا استعمال سکھایا
تاکہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔
پھر میں نے زمین کے خزانوں کے دران پر کھول دیے۔
کانسہ، لوہا، چاندی، سونا جو زمین کی تہوں میں پوشیدہ تھا۔
مختصر یہ کہ انسان کے سارے علم و فن اسی بد نصیب پرومی تھیوس کا تحفہ ہیں۔
اُسی وقت زیوس کا ناجائز بیٹا ہر مینرایلچی بن کر آتا ہے۔ پرومی تھیوس اس کو بڑی حقارت سے دیکھتا ہے اور دونوں میں تو تو میں میں ہونے لگتی ہے۔
ہرمیز۔۔۔۔ میرے باپ نے پوچھا ہے کہ وہ کون سی شادی ہے جس کے باعث تم کہتے ہو کہ
زیوس اقتدار سے محروم ہو جائے گا۔
خبردار پہیلیاں نہ بجھانا
بس سچ سچ بتانا
تاکہ مجھ کو دوبارہ اتنی دُور نہ آنا پڑے۔
پرومی تھیوس۔۔۔۔ دیوتاؤں کے اس چپڑ قناتی کی بکواس تو سنو!
کیسی اپنی اہمیت جتاتا ہے۔
تم اور تمھاری طاقت ابھی نئی نئی ہے
اورتم کو غرہ ہے کہ تمھارا قلعہ کوئی سرنہ کرسکے گا ۔
لیکن میں نے دو پشتوں کا زوال دیکھا ہے
اورتیسرے کی تباہی بھی دیکھوں گا
جو اپنے پیش رؤں سے زیادہ ذلت و خواری سے منھ کے بل گرے گا
اورجلد ہی۔
تیرا خیال ہے کہ میں نو دولتیوں کے سامنے گڑ گڑاؤں گا۔
بس تو دُم دبا کر یہاں سے بھاگ جا۔
تجھ کو کچھ نہ ملے گا۔
ہرمیز۔۔۔۔۔ گستاخ ، زبان دراز، ضدی، انھیں حرکتوں نے تیرا یہ حشرکیا۔
پرومی تھیوس۔۔۔۔ کان کھول کر سن لے۔ میں اپنی اس اذیت ناک تقدیر کو تیری غلامانہ چاپلوسیوں سے کبھی نہ بدلوں گا۔
ہرمیز۔۔۔۔ تیری دیوانگی لا علاج ہے پرومی تھیوس۔۔۔ شاید، اگردشمنوں سے نفرت دیوانگی ہے۔
ہرمیز۔۔۔ میں لاکھ سمجھاتا ہوں مگر تجھ پر اثر ہی نہیں ہوتا۔
اچھا تو سن لے کہ
انکار کی صورت میں تجھ پرلیا گزرنے والی ہے۔
اگرتونے میری بات نہ مانی تو
زیوس کا عتاب آسمان سے اونچی لہروں کی صورت میں تجھ پر نازل ہوگا
یہ پہاڑ بجلی گرنے سے پاش پاش ہو جائے گا
اورتو پاتال میں سماجائے گا
یونہی چٹان سے بندھا ہوا۔
پھرہزاروں برس بعد تو پھر اوپر آئے گا
اورتب زیوس کا کالے پروں والا خوں خوارکتا
ناخواندہ مہمان کی طرح تجھ پر جھپٹے گا
اوردن بھر تیری بوٹیاں نوچتا رہے گا
اورتیرے جگر کے ٹکڑے چبا چبا کر کھائے گا۔
یہ خالی خولی دھمکیوں نہیں بلکہ
زیوس کا فرمان ہے۔
لہٰذا اپنی ضد سے باز آجا۔
(ہرمیز چلا جاتا ہے)
پرومی تھیوس۔۔۔۔ میں سمجھ گیا تھا کہ ہر میز کس لیے آیا ہے۔
مگردشمن کے ہاتھوں دُکھ اٹھانا عین عزت ہے۔
بے شک مجھ کو بجلی کے کوڑے لگائے جائیں
ہوا خشمناک آندھیوں کا جوش و خروش لے کر آئے۔
طوفان زمین کی بنیادوں کو جڑ سے اُکھاڑدے
سمندر کی گرج دار اور وحشی لہریں اٹھ کر
ستاروں کی راہ روک دیں
زیوس مجھ کو ظلمات کے گھپ اندھیرے میں پھنکوا دے
تباہی کے سفاک سیلاب میں
لیکن وہ مجھ کو جھکا نہیں سکتا
سنو!
زمین ہلنے لگی،
گھن گرج کی گونج پھیلنے لگی
بجلی کی کڑک چمک
ریت کے ذرے فوارے کی طرح گردش کرنے لگے
ہوائیں چار سمت سے آآکر ٹکرانے لگیں۔
آسمان اورسمندر چنگھاڑ رہے ہیں
میں بھنور کے گرداب میں پھنس رہا ہوں۔
اوزمین! میری ماں۔ میری مقدس ماں!
اوآسمانو! جن کو سورج چاند باری باری منّور کرتے ہیں
دیکھو، مجھ پر کیا ظلم ہو رہا ہے
(چٹان پھٹ جاتی ہے اور پرومی تھیوس غائب ہو جاتا ہے)6؎
اس ڈرامے میں ایس کائی لس پرومی تھیوس کا ہم نوا ہے۔ اس کی ہمدردیاں اپنے ہیرو کے ساتھ ہیں جو انقلابی ہے مگرایس کائی لس خود انقلابی نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ اس کو ایتھنز کے اربابِ اقتدار پسند نہیں تھے اورنہ وہ ان کے خداؤں کا چنداں معتقد تھا۔ چنانچہ وہ پرومی تھیوس کی زبان سے ایتھنز کے حاکموں کی اور زیوس دونوں کی جی بھر کے مذمت کرتا ہے لیکن وہ فقط سماجی نقاد ہے۔ افلاطون کی طرح مفکر نہیں جو کسی متبادل معاشرتی نظام کا منصوبہ پیش کرتا۔ یوں بھی ایس کائی لس کو ایتھنز کی رائے عامہ کا خیال کرنا پڑتا تھا کیوں کہ کچھ عرصہ پہلے ایک ڈرامے میں اس قلم سے فقط ایک فقرہ ایسا نکل گیا تھا جس کی وجہ سے اس پر بے دینی کا الزام لگا تھا اور وہ سزائے موت سے بال بال بچا تھا۔ ان اسباب کی بنا پر اس نے داستان کے رایتی انجام کی پیروی کی اور ظالم و مظلوم میں مفاہمت کروادی۔
مگر 22 سو برس بعد جب برطانیہ کے جواں مرگ انقلابی شاعر شَیلی (1792۔1822) نے 1818ء میں ” پرومی تھیوس زنجیرِ بستہ” لکھی تو اس کو ایس کائی لس کی سی کوئی مجبوری نہ تھی۔ وہ دہریت کی تائید میں ایک مقالہ لکھنے پر آکسفورڈ یونیورسٹی سے نکالا جا چکا تھا اور برطانیہ کے روایت پرست ماحول سے تنگ آکر اٹلی میں رہنے لگا تھا۔ ہرچند کہ انقلاب فرانس اور نپولین کی شکست کے بعد یورپ میں رجعت پرستوں کا زور تھا مگر انقلابی روح ہرجگہ پوری قوت سے سرگرمِ عمل تھی لہٰذا شَیلی ان پابندیوں سے آزاد تھا جو ایس کائی لس کو لاحق تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ فکری اور عملی طورپر خود انقلابی تھا۔ پس اس کا ہیرو بھی آخر دم تک زیوس کے اقتدار سے سمجھوتہ نہیں کرتا۔ شَیلی اپنے اس طرزِ فکر کی تشریح کرتے ہوئے ڈرامے کے دیباچے میں لکھتا ہے کہ
” یونان کے المیہ نویس مصنف اپنی قومی تاریخ یا دیو مالا سے موضوع سخن اخذ کرتے وقت اس کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے تھے۔ وہ اپنے فن کو روایتی تاویل کا پابند نہیں تصور کرتے تھے اورنہ اپنے حریفوں یا پیش روؤں کی روش کی تقلید ضروری سمجھتے تھے۔ میں نے بھی یہی آزاد روش اختیار کی ہے۔ یوں بھی ظالم و مظلوم کے مابین مفاہمت سے اتنے عظیم المیے کی روح مجروح ہوجاتی۔ اگرپرومی تھیوس اپنے سفاک حریف کے آگے گڑ گڑانے لگتا تو داستان کی اخلاقی دل چسپی جو پرومی تھیوس کی مصیبتوں اوراس کے عزم و استقلال اوراس کی قوتِ برداشت کے باعث پوری شدت سے برقرار رہتی ہے ضائع ہو جاتی۔۔۔۔۔ پرومی تھیوس شیطان سے کہیں بہتر شاعرانہ کردار ہے۔ اس لیے کہ وہ ذاتی حرص و ہوس ، رشک حسد یا انتقام اور منفعت کے جذبات سے پاک ہے۔ وہ اخلاقی اور ذہنی صلاحیتوں کا نہایت مکمل نمونہ ہے۔ اس کے مقاصد نہایت اعلیٰ اور نیک ہیں اور اس کے محرکات نہایت سچے۔” 7؎
(2)
سوال یہ ہے کہ آگ میں وہ کیا خاص بات ہے کہ زیوس اس کو انسانوں سے خفیہ رکھنا چاہتا تھا اور راز کے افشا ہونے پر پرومی تھیوس کو اتنی کڑی سزا دیتا ہے۔ آئیے دیکھیں آگ کیا شے ہے اور اس نے انسانی معاشرے کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
آگ ایک کیمیاوی عمل ہے (شے نہیں ہے) جو آکسیجن گیس اور کاربن اور دوسرے نامیاتی عناصر کے آپس میں اس طرح ملنے کا نام ہے کہ اس آمیزش سے حرارت، شعلہ اور روشنی پیدا ہو۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب کیمیاوی عناصر گیس میں تبدیل ہو جائیں۔ آگ مادی اشیا سے بنتی ہے اور مادی اشیا ہی کی ایک کیفیت ہے۔ وہ سب سے بڑی انقلابی قوت ہے جس کے عمل سے مادی چیزوں کی ہیئت اور ماہیت میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ وہ کبھی ٹھوس مادے کو مثلاً کوئلہ، کافور، لکڑی وغیرہ اور کبھی رقیق مادے کو مثلاً پانی ، تیل، پیٹرول وغیرہ کو گیس میں بدل دیتی ہے، کبھی ٹھوس اشیا کو رقیق بنا دیتی ہیں مثلاً سونا، چاندی، لوہا وغیرہ کو اورکبھی ان سے نئی چیز خارج کرتی ہے جو رقیق ہوتی ہے مثلاً شنجرف سے پارہ اور کبھی کسی ٹھوس مادے سے نیا ٹھوس مادہ بنا دیتی ہے مثلاً ریت سے شیشہ، پتھر سے چونا۔
یہ کیمیاوی عمل آگ کا سب سے بڑا وصف ہے ۔ چنانچہ پروفیسر فیرکٹن کے بقول ” کیمسٹری کے فن میں آگ ہماری سب سے بڑی معلم ہے۔ اس نے ہم کو بہت کچھ سکھایا ہے۔” 8؎ اس ضمن میں وہ روما کے مشہور سائنس دان پلائنی کبیر(23۔79ء) کا بصیرت افروز اقتباس پیش کرتے ہیں جس نے لکھا تھا کہ
” میں نے انسان کی قوتِ ایجاد کا تذکرہ مکمل کرلیا۔ مجھ کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ تقریباً ہر موقعے پر آگ ہی نے “فعال عامل” Active Agent کا کردار ادا کیا ہے۔ آگ ریت کو کبھی شیشے میں بدلتی ہے کبھی چاندی میں، کبھی شنجرف میں، کبھی طرح طرح کےجستوں میں، کبھی رنگوں میں کبھی دواؤں میں۔ آگ ہی سے پتھر کو پگھلا کر کانسہ بناتے ہیں، لوہے کو ڈھالتے ہیں اورسونا تیار کرتے ہیں۔ آگ ہی کنکر پتھر کو جلا کر چونا بنا دیتی ہے جس سے ہم اپنے گھروں کی چھتوں، دیواروں کو مستحکم کرتے ہیں۔ پھر ایک ہی شے پہلی آنچ میں کچھ ہوتی ہے دوسری آنچ میں کچھ، اورتیسری آنچ میں کچھ اور، مثلاً کوئلے میں بجھنے کے بعد ہی طاقت آتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں اب دم نہیں رہا حالاں کہ اس کی طاقت اور بڑھ چکی ہوتی ہے۔ او آگ! قدرت کا وہ مظہر جس کی نہ تھاہ ہے نہ جس کا پیٹ کبھی بھرتا۔ ہم تجھ کو کیا کہیں؟ خالق یا ہالک؟”
جس شے میں اتنی خوبیاں ہوں اس کی چوری پر زیوس برہم نہ ہوتا تو کیا خوشی کے گیت گاتا۔
یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ ابتدائی انسان نے آگ کا استعمال کب اور کیسے دریافت کیا۔ پروفیسر ول ڈیورنٹ نے 1954ء میں یہ خیال ظاہر کیا تھا بنی نوع انسان نے آگ جلانا تقریباً چالیس ہزار برس پہلے سیکھا۔ دلیل یہ تھی کہ پیکنگ (چین) کے انسانی زندگی کے جو قدیم ترین آثار غاروں میں ملے ان میں جانوروں کی جلی ہوئی ہڈیاں بھی تھیں۔ یہ آثار کم از کم پچاس ہزار برس پرانے ہیں۔9؎ لیکن گزشتہ تیس پنتیس سال کے دوران کینیا (افریقہ) اور دوسرے مقامات پر آدمی کے جو دانت، کھوپڑیاں اور جبڑے ملے ہیں وہ چار پانچ لاکھ برس پرانے ہیں۔ پروفیسر بروناسکی نے غالباً اسی بنا پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان چارلاکھ برس پہلے بھی آگ کے استعمال سے واقف تھا 10؎ انسان کے عضوی ارتقا کا یہ وہ زمانہ تھا جب وہ پاؤں کے بل سیدھا کھڑا ہونے لگا تھا، اس کے دونوں ہاتھ آزاد ہو گئے تھے اور اس کے بھیجے کی جسامت 12 سو کیوبک میٹرہو گئی تھی جب کہ اس نوع سے مشابہ دونوں پاؤں پر کھڑے ہوئے نیم انسان نیم بوزینہ کے مغز کی جسامت فقط 5 سو کیوبک میٹر تھی۔ پروفیسر کارل سگین نے جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ انسان پانچ لاکھ برس سے آگ استعمال کررہا ہے۔11؎ وہ ہاتھوں کی مدد سے پتھر، لکڑی اور ہڈی کے طرح طرح کے آلات و اَوزار بنانے لگا تھا اوراپنے تجربات، خیالات اور احساسات کو بامعنی آوازوں (الفاظ) کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے بھی لگا تھا۔
مگرانسان ابتدا میں آگ کو مصنوعی طورپر خود” پیدا” نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو آگ قدرتی طورپر دستیاب ہوتی اسی سے کام لیتا تھا۔ یہ استعمال اس نے جانوروں سے نہیں سیکھا کیوں کہ انسان کے علاوہ کوئی حیوان آگ استعمال نہیں کرتا نہ آگ کے قریب جاتا ہے بلکہ اس سے بے حد ڈرتا ہے جب کہ آدمی کا گھٹنیوں چلتا بچہ بھی آگ سے بالکل خوف نہیں کھاتا۔ اس کو اگر روکا نہ جائے تو وہ آگ کو بھی چمکتا کھلونا سمجھ کراس کو چھولے۔ آلات و اوزار بنانا بڑا شعوری عمل ہے اورانسان کی سوجھ بوجھ میں ترقی کا ثبوت بھی اورجب وہ اس تخلیقی عمل پر قادر ہوگیا تواس کے ذہن کا آگ کے استعمال کی جانب منتقل ہونا اچنبھے کی بات نہ تھی۔ شاید سورج کی گرمی کے فوائد محسوس کرکے، شاید پتھر توڑتے وقت ہو چنگاریاں نکلتی ہیں ان کے تجربے سے، شاید جنگل میں اچانک آگ لگنے کے مشاہدے سے یا بجلی گرنے اور آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے۔ بہرحال جو ماجرا بھی پیش آیا ہو، یہ واقعہ ہے کہ انسان نے اوّل اوّل آگ کے قدرتی مظاہر ہی سے استفادہ کیا۔ چنانچہ بعض پس ماندہ قومیں ابھی کل تک آگ “پیدا” نہیں کرسکتی تھیں مثلاً جزیرہ انڈمان (کالا پانی) اور جزیرہ پہیپوا (بحرالکاہل) میں بیسویں صدی کی ابتدا تک ایسے قبیلے موجود تھے جو آگ “بنا” نہیں سکتے تھے۔ ان کی آگ اگرکسی وجہ سے بجھ جاتی تو وہ میلوں کا سفرطے کرکے کسی دوسری بستی سے جلتا کوئلہ لے آتے تھے۔ آسٹریلیا میں اور افریقہ کی حریرو قوم میں جلتی آگ کی حفاظت کنواری لڑکیوں کا فریضہ تھا۔ قدیم روما میں گھر اور چولھے کی دیوی کا نام وستا تھا۔ اس کی عبادت گاہ میں جہاں سدا آگ جلتی رہتی تھی آگ کی نگرانی کنواری دیو داسیوں کے سپرد تھی اورآگ بجھ جاتی تو دیوداسیوں کی نگراں کو قتل کردیا جاتا تھا۔ آگ کو بجھنے نہ دینے کی قدیم روایت اب بھی زندہ ہے۔ مثلاً پیرس کے عین وسط میں ” محرابِ نصرت” کے اندر گیس کے شعلے کبھی بجھنے نہیں پاتے۔ یہی منظر ماسکو میں ” گمنام سپاہی” کی قبر پر نظر آتا ہے۔ بچوں کی سالگرہ کے موقعے پر شمعیں جلانا اور خوشی کی تقریبوں میں روشنی کرنا بھی دراصل پرانے دنوں ہی کی یادگار ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ آگ، روشنی ، حرارت، توانائی اور زندگی سب ہی کچھ ہے۔
انسان نے منصوعی طورپر آگ پیدا کرنے کا ہنر بھی قدرت ہی سے سیکھا۔ گرم اور خشک موسم میں جنگلی درختوں کی شاخوں کے آپس میں رگڑ کھانے سے شعلے اچانک بھڑک اٹھتے ہیں اور جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ ابتدائی انسان نے اسی قدرتی عمل کی تقلید کی اور دو لکڑیوں کو آپس میں رگڑ کر آگ پیدا کی۔ چنانچہ سماترا، شری لنکا، جنوبی امریکہ، جزائر ہوائی اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں ابھی تک ایسی قومیں موجود ہیں جو لکڑیوں کو رگڑ کر آگ پیدا کرتی ہیں۔ (چقماق پتھرلینی فلنٹ کو رگڑ کر آگ نکالنا اسی عمل کی ایک شکل ہے اور ہماری دیا سلائی یعنی ماچس بھی جو 1830ء ایجاد ہوئی اور سب سے پہلے ہمارے ملک میں غالبؔ نے جس کی تعریف کی )۔ نظریہ ارتقا کا بانی چارلس ڈارون (1809ء۔1882ء) اپنے سفر نامے Voyage of the Beagle میں لکھتا ہے کہ میں نے جزیرہ تہیتی (بحرالکاہل) میں ایک شخص کو دیکھا جس نے دو لکڑیوں کو آپس میں رگڑ کر پل جھپکتے آگ نکال لی لیکن مجھ کو اسی کام میں بڑی دیر لگی اور میں بار بار کوشش کرنے کے بعد کامیاب ہوا۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا میں ایک تصویر نظر سے گزری جس میں اَرواک قوم کے دو نیم برہنہ مرد زمین پر گھٹنے ٹیکے بیٹھے ہیں۔ ایک شخص لکری کی تختی کو جس میں چھوٹا سا گول خانہ بنا ہے زمین پر رکھ کردونوں ہاتھو ں سے زورسے دبائے ہوئے ہے جب کہ دوسرا آدمی ایک چھڑی کو جس کا ایک سرا تختی کے خانے ممیں پیوست ہے دونتوں ہتھیلیوں سے چکر دے رہا ہے جیسے گاؤں کی عورتیں چھاچھہ بلوتے وقت متھنی کو تیز تیز گھماتی ہیں۔ چھڑی کی گردش سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ 12؎
دو لکڑیوں کو رگڑ کر آگ پیدا کرنے کا تاریخی ثبوت رگ وید میں ملتا ہے جو دنیا کی سب سے پرانی کتاب ہے اور جس کی تصنیف وادیِ سندھ میں اب سے کم از کم تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے ہوئی تھی۔ رگ وید کے 31 ویں بھجن میں شاعر اگنی دیوتا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
دو ماؤں کے بطن سے نکلے ہوئے، عاقل و دانا
ہستی عالم میں رواں دواں،
زندہ انسان کی خاطر ان گنت جگہوں میں موجود 13؎
ایک اورجگہ دو لکڑیوں کو رتھ کے دو گھوڑوں سے تشبیہہ دی گئی ہے اور دھوئیں کو لشکر کے پرچم سے 14؎
ایک اورجگہ لکھا ہے کہ
اگنی کے آگے ٹھوس سے ٹھوس چیز جھک جاتی ہے
چکنی لکڑیاں جو گرم ہو کر آگ دینے لگتی ہیں
رالف گریفتھ رگ وید کے مشہور مفسر سائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان لکڑیوں سے مراد وہ دو لکڑیاں ہیں جن کو رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے۔ وہ حاشیہ میں لکھتا ہے کہ ہون کی مقدس آگ کو آج بھی (1889ء میں ) اسی طرح روشن کیا جاتا ہے۔
دو لکڑیوں کو رگڑ کر آگ نکالنے کے ہنر کی تاریخی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اینگلز لکھتا ہے کہ
” بھاپ کے انجن نے ہرچند کہ سماجی دنیا میں زبردست انقلاب برپا کردیا ہے۔۔۔۔ لیکن اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ لکڑیوں کورگڑ کر آگ پیدا کرنے کے عمل کا انسان کے قادر اورخود مختار ہونے میں بڑا دخل ہے کیوں کہ رگڑ سے آگ پیدا کرنے کے باعث اُس کو پہلی بار ایک قدرتی طاقت پر اختیار حاصل ہوا۔ اس طرح وہ اقلیم حیواناں سے ہمیشہ کے لیے الگ ہوگیا۔
” ہم ماضی کی پوری تاریخ کو میکانکی حرکت کو حرارت میں تبدیل کرنے کی کار آمد دریافت سے حرارت کی میکانکی حرکت میں تبدیلی تک سفر کرنے کا عہد کہہ سکتے ہیں۔” 15؎
آگ کی دریافت نے انسانی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ اُس کو سورج کا بدل ہاتھ آگیا جو روشنی اورگرمی کا واحد ذریعہ تھا۔ اب اس کے غار اندھیرے نہیں رہیں گے۔ اندھیرا جو خوف پیدا کرتا ہے اور جس کی موجودگی میں ہاتھ پاؤں بے کار ہو جاتے ہیں اوربات چیت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اورکچھ سجھائی بھی نہیں دیتا۔ اب خوں خوار درندے اس کے قریب نہ آسکیں گے۔ اب وہ گوشت اور سبزیاں بھون کر کھائے گا جس کی وجہ سے اس کا ہاضمہ بہتر ہوجائے گا اورتوانائی بڑھ جائے گی اور شرح اموات گھٹے گی اور آبادی میں اضافہ ہوگا۔ اب وہ گرم علاقوں میں بودوباش پر مجبور نہ ہوگا بلکہ سرد علاقوں کو بھی آباد کرے گا۔ اب وہ مٹی کے کچے برتنوں کو پکا کر پتھر کی مانند پائیدار اور دھنک کی مانند خوش رنگ بنا لے گا۔ وہ تانبہ، ٹن، لوہا اور دوسری دھاتوں کو پگھلا کر نئے نئے آلات و اوزار تیار کرے گا جس سے اس کی پیداواری قوت بہت بڑھ جائے گی۔ وہ مصنوعات کی طرح ڈالے گا جو قدرت کے کارخانے میں موجود نہ تھین۔
آگ کے استعمال سے انسان کو تسخیرِ قدرت کا نسخہ ہاتھ آگیا۔ اب تک وہ شیا میں کسی قسم کی کیفیتی یا کمیتی تبدیلی کرنے سے قاصر تھا۔ آگ کو کام میں لاکر پروفیسر گورڈن چائلڈ کے بقول ” تاریخ میں پہلی بار قدرت کا ایک مخلوق ایک نہایت طاقت ور قوت پر حکم لگانے کا اہل ہوا۔ اس نے دوسرے جانوروں کی طرزِ زیست سے انقلابی علیحدگی اختیارکرلی۔ وہ اشیا کو عدم سے وجود میں لاکر شعوری طورپر ان کا خالق ہوگیا۔ اس طرح اس نے اپنی انسانیت کا لوہا منوایا اور اپنی ذات کی تکوین کی۔” 16؎
حقیقت یہ ہے کہ انسان نے اگرآگ کا استعمال نہ سیکھا ہوتا تو ہنوز پتھر کے زمانے ہی میں زندگی بسرکرتا اورجانوروں کی طرح قدرت کا محتاج اور مجبور ہوتا نہ کہ قدرت کا حاکم و آقا۔ آگ ہی کے طفیل وہ پتھر کے عہد سے دھاتوں کے عہد میں داخل ہوا۔
پرانے زمانے میں آگ کے عجیب و غریب استعمال رائج تھے۔ مثلاً آگ کے الاؤ سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔ چنانچہ ایس کائی لس کے ایک ڈرامے میں یونان کے بادشاہ آیگ ممنان کی ملکہ کلائی ٹم نس ٹرا کو جنگ ٹرائے کے سرہونے کی خوش خبری شعلوں ہی کی زبانی ملتی ہے۔ آسٹریلیا کی پرانی قومیں دھوئیں کے ذریعے دو دو تین تین ہزار میل تک اپنے پیغام پہنچا دیا کرتی تھیں۔ جہازوں کی رہنمائی بھی ساحل پر روشنی کر کے ہوتی تھی۔ جنگ میں دشمن کی صفوں یا قلعوں پر شعلہ فگن گولے یا مشعلیں پھینکی جاتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ سسلی کے دارالحکموت سیرا کوز کے محاصرے میں مشہور سائنس دان ارش میدیس (212۔287ء) نے رومی جہازوں کو محدب شیشوں سے سورج کی تیز کرنیں پھینک کر جلادیا تھا۔ یہ وہی ارش میدیس ہے جس نے کہا تھا کہ مجھ کو زمین کے سرے پر لیور (بیرم) رکھنے دو، میں زمین کو اوپر اٹھادوں گا۔
آگ کا استعمال اگرچہ گرم علاقوں کی دریافت ہے مگر آگ سے پیار قدرتی بات ہے کہ سرد ملکوں کے رہنے والوں ہی نے کیا۔ افریقہ اور مصریا عرب، شام و عراق کے جلتے تپتے صحرا کے باشندوں کے فکرو احساس پر آگ کے تخریبی خصائل ہی نے اپنا اثر جمایا۔ ان کے نزدیک آگ کی نمایاں خصوصیت بس یہی تھی کہ وہ جلاتی اور اذیت پہنچاتی ہے۔ جہاں سال میں آٹھ مہینے قیامت کی گرمی پڑتی ہو اور آگ کے قریب جانا عذاب سے کم نہ ہو وہاں آگ کے تخلیقی اور فیض بخش پہلوؤں پر کون غورکرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گرم ملکوں میں نمودار ہونے والے مذاہب نے بھی آگ کا بڑا بھیانک نقشہ پیش کیا ہے۔ آخر جہنم میں آگ ہی کے شعلے تو بھڑکیں گے۔ البتہ ریگستانی علاقوں میں آگ کے بجائے پانی اور درختوں کی بڑی اہمیت ہے اور وہاں کے لوگ ان چیزوں کو بہت عزیز رکھتے ہیں لہٰذا جنت میں آگ کا گزر نہیں بلکہ وہاں میووں سے لدے درخت ہوں گے، ان کے نیچے بہتی ہوئی نہریں ہوں گی اور کوثرو تسنیم کا شفاف پانی ہوگا۔
اس کے برعکس سرد علاقوں میں رہنے والی آریائی قوموں میں آگ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آریاؤں کی زندگی کا دارو مدار بڑی حد تک آگ پر تھا اس لیے وہ آگ کو سینے سے لگائے پھرتے تھے۔ اس کی پرستش کرتے تھے اور اس کی ثنا و صفت میں بھجن گاتے تھے۔ مثلاً رگ وید میں کہ 1017 بھجنوں پر مشتمل ہے اِندرا کے بعد سب سے زیادہ گیت اگنی دیوتا ہی کی شان میں ہیں۔ اندرا کی فضیلت کا سبب یہ تھا کہ وہ وادی سندھ میں آریوں کا سب سے بڑا ہیرو تھا جس کی سربراہی میں انھوں نے یہاں کی پرانی قوموں۔۔۔۔ اسورا اور داسیووغیرہ۔۔۔ ۔ کو زیرکیا تھا۔ اس کے باوجود رگ وید کا آغاز اگنی دیوتا کی مدح میں لکھے گئے بھجنوں سے ہوتا ہے۔ رگ وید کے شاعروں نے اگنی کے بے شمار فضائل و اوصاف بیان کیے ہیں۔ وہ مطہر ہے، جاوداں ہے، رزّاق ہے، پیغام برہے، انسان کی دوست ہے، آریاؤں کی آنکھ ہے، اندھیرے کو نیست و نابود کرنے والی ہے، خوش شکل ہے، تاریکی میں بھی دیکھ لیتی ہے، دولت کی کنجی ہے، بے خطا اور معصوم ہے۔ دانا، عاقل اور سخی ہے، ان داتا ہے اور پھلوں کو پکاتی ہے۔
او اگنی! تیرے اَن گنت نام ہیں
تو لافانی ہے، مقدس ہے، خدا ہے 17؎
زرتشتی مذہب میں بھی آگ کو بہت مقدس اور پاکیزہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں تھوکنا یا کوئی گندی چیز پھینکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ پارسیوں کی عبادت گاہ کا نام ہی آتش کدہ ہے جہاں آگ جلتی رہتی ہے۔ شاید وہ کسی زمانے میں آگ کی پرستش بھی کرتے ہوں۔
(3)
پرومی تھیوس کی داستان اور آدمؑ کے قصے میں کوئی شے اگر مشترک ہے تو وہ امتناعی حکم ہے۔ زیوس کا حکم تھا کہ آگ کا راز انسان سے مخفی رکھا جائے۔ پرومی تھیوس اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے لہٰذا سز پاتا ہے۔ آدمؑ جنت سے نکالے جاتے ہیں کیوں کہ انھوں نے شیطان کے بہکانے پر شجرِ ممنوعہ کا پھل کھا لیا تھا۔ زیوس کا یہ اندیشہ بے جانہ تھا کہ آگ کے استعمال سے آگاہ ہوکر انسان کہیں اس کی خدائی ہی سے منکر نہ ہو جائے۔ اس کی عطا و بخشش کا محتاج نہ رہے بلکہ آگ کی مدد سے نئی نئی چیزیں خود پیدا کرنے لگے اور ایسا ہی ہوا اورایک دن آیا جب انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر فخر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
اقبالؔ
(وہ بھی آگ ہی کے حوالے سے )
مگرآدم کو جب یہ حکم ملا کہ جنت میں آرام سے رہو۔ جو چاہو کھاؤ پیو لیکن خبردار اس درخت کے قریب نہ جانا(سورہ بقرہ 34) تو مشیتِ الہٰی کیا تھی؟ یہ سوال قدرتی طورپر ذہن میں ابھرتا ہے کہ وہ کس چیز کا درخت تھا اور اس میں کیا خاصیت تھی کہ اس کا پھل کھانے پر آدمؑ کو بہشت سے نکلنے کا حکم دیا گیا۔ قرآن اس باب میں خاموش ہے البتہ عہدِ سابقہ کے مفسرین نے جن کو مغرب کا خوف نہ تھا ، خوب خوب قیاس آرائیاں کی ہیں لیکن دورِ حاضر کے علما درخت کی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی بس اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ “خدا جانے وہ کیا درخت تھا” ۔ 18؎ مولانا مودودی ایک طرف یہ فتویٰ صادرفرماتے ہیں کہ ” یہ بحث غیر ضروری ہے (کیوں؟) کہ وہ کون سا درخت تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی” دوسری طرف خود ہی بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ ” منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیت میں کوئی خرابی تھی اوراس سے آدمؑ اور حوا کو نقصان پہنچنے خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کرلینا کافی تھا اس لیے اللہ نے درخت کا نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا” 19؎
یہ تاویل ممکن ہے مولانا مودودی کے مریدوں کو مطمئن کرسکے لیکن قرآن کے الفاظ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ پہلے کوئی بے بنیاد مفروضہ قائم کرنا اورپھر اس کی تردید کرنا مولانا کی خاص ادا ہے۔ بھلا کوئی پوچھے کہ جنت میں کسی نقصان دہ درخت کا ذکر کس نے کیا ہے؟ اسی آیت میں یہ تحریر ہے کہ ” ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤگے” سو اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ اخلاقی ہے۔ آدمؑ کی صحت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ دراصل مودودی صاحب کےذہن میں خدا کا تصور کسی آمرِ مطلق ، کسی جابر سلطان بلکہ پولیس کے افسرِ تفتیش سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ ان کا خدا عام بندوں کا تو ذکر ہی کیا اپنے خلیفتہ الارض کو بھی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے اورپھر سزا دیتا ہے۔ وہ کبھی خدا کی “عظیم الشان سلطنت” کی طرف اشارہ کرتے ہیں، کبھی عہدِ خداوند کی تشریح فرماتے ہوئے بادشاہ کے فرمان کی مثال دیتے20؎ اورکبھی وہ خدائی طرزِ حکومت کو خاکی فرماں رواؤں کے طرزِ حکومت کا چربہ بنا کر پیش کرتے ہیں 21؎ ان کے خیال میں خدا کے فرشتے ” پولیس کے بے وردی سپاہی” ہیں۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت 101 کی تشریح کرتے ہوئے جس میں ہاروت ماروت کا قصہ بیان کیا گیا ہے مولانا فرماتے ہیں کہ
“رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سکھانا (جادو) جو بجائے خود بری تھی تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سکے یا نوٹ لے جاکر رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالتِ ارتکابِ جرم میں پکڑیں اوراس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔” 22؎
ایسی صورت میں اگرکوئی شخص کہے کہ ہمارے خدا کا تصور بادشاہ اور بادشاہت کے تجربوں کا ذہنی عکس ہے تو ہم اس کا منھ کیوں کربند کرسکتے ہیں۔
شجرِ ممنوعہ کے بارے میں مولانا مودودی کی تاویل سے توریت کی توجیہہ کہیں زیادہ قرینِ قیاس نظر آتی ہے۔ مثلاً کتابِ پیدائش میں لکھا ہے کہ
” اور خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایااور انسان کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا اور خدا وند خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اورکھانے کے لیے اچھا تھا زمین سے اگایا اورباغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔۔۔۔ اور خداوند نے آدمؑ کو حکم دیا اورکہا کہ باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیوں کہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔”23؎
مگر سانپ نے حوا کو بہکایا اور کہا کہ جس دن تم اس درخت کا پھل کھاؤ گے۔ ” تو تمھاری آنکھیں کھل جائیں گی اورتم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔”
اب ہیوطِ آدمؑ کا سبب توریت کی زبان سےسنیے:
“اور خداوند نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اورحیات کے درخت سے بھی کچھ لے کرکھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اس لیے خداوند خدا نے اس کو باغِ عدن سے باہر کردیا۔۔۔۔ اور باغِ عدن کے مشرق کی طرف کروبیوں کو چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں۔” 24؎
آگ کے عاملانہ کردار پر فلسفیوں میں سب سے پہلے ہرق لاطیس (535۔۔۔۔ 475 ق۔م) نے نہ صرف غورکیا بلکہ اپنے حرکت و تغیر کے جدلیاتی فلسفے کی بنیاد ہی آگ کی تغیر پذیری پر رکھی۔ اس کا قول تھا کہ ” اس دنیا کو جو سب کے لیے یکساں ہے نہ خداؤں میں سے کسی نے بنایا اورنہ انسانوں نے بلکہ وہ ہمیشہ سے تھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ سدا جیتی آگ ہے جس کی ایک مقدار روشن ہوتی ہے اورایک مقدار بجھ جاتی ہے” 25؎ ہرق لاطیس Heraclitus آیونیا 26؎ کے شہر افی سوس کا رہنے والا تھا۔ اس کی زندگی کے بارے میں ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ اس کا تعلق افی سوس کے پرانے شاہی خاندان سے تھا۔ اس نے شادی کبھی نہیں کی اورنہ اونچے طبقے والوں کی صحبت میں کبھی بیٹھا بلکہ اس نے اپنا سارا مال و متاع بھائی کو دے کر قلندرانہ زندگی اختیار کرلی۔ وہ جنگلوں ، پہاڑوں میں گھومتا پھرتا اور جب کبھی شہر آتا تو زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارتا۔ اس نے ایک کتاب لکھی تھی جس کے تین حصے تھے۔ پہلا حصہ کائنات کے بارے میں تھا دوسرا سیاست کے بارے میں تیسرا مذہَبیات کے بارے میں۔ یہ کتاب توناپید ہے البتہ اس کے 1130 قوال یونانی فلسفیوں نے اپنی تصنیفات میں جابجا نقل کیے ہیں۔ افلاطون نے تو اپنی تصنیفات بالخصوص ” قراطائی ئس” (Cratylus) اور ” تھی ٹے ٹس” (Theatetos) میں ہرق لاطیس کے نظریوں کو رد کرنے کی پوری کوشش ہے۔
ہرق لاطیس کا شہر زرتشتی حاکموں کے زیرِ نگیں تھا لہٰذا ممکن ہے کہ اس نے زرتشتوں کی مذہبی کتابوں سے یا ان کے آتش کدوں سے متاثر ہوکر آگ کو کائنات کا اصل الاصول قرار دیا لیکن اس نظریات آیونیا کے نیچری فلسفیوں کی روایت کے بھی عین مطابق تھے بلکہ اسی کی ترقی یافتہ شکل تھے۔ مثلاً وہاں کے سب ہی نیچری فلسفیوں نے کائنات کے وجود کی تشریح کائنات ہی کے حوالے سے کی، کسی ماورائی قوت کو نہ تو کائنات کے وجود کا سبب بنایا اورنہ کسی دیوی دیوتا کو اس کا مالک تسلیم کیا جو اس کو چلاتا ہو۔ یہ نیچری فلسفی وحدت الوجود کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ کائنات جو بظاہر کثرت نظرآتی ہے اس کی اصل کوئی واحد عنصر ہے۔ طایسؔ نے پانی کو اصل الاصول کا مرتبہ دیا۔ انکسای نیز نے ہوا کو، انکسی ماندر نے پیکار کو اور دیمقراطیس نے ایٹم کو۔ اسی طرح یہ فلسفی کائنات کی حرکت کو بھی مانتے تھے۔
ہرق لاطیس نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ وہ کہتا تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ اشیا کیا ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ کیسے وہ ” ہوئیں” جو وہ ہیں۔ گویا اصل حقیقت “شدن” ہے نہ کہ ” بودن” نمود (Becoming) ہے نہ کہ وجود (Being) یعنی وہ ہم کو اشیا کو ان کی حالتِ حرکت و تغیر میں دیکھنے کی دعوت دیتا ہے نہ کہ عالمِ سکون و ثبات میں۔ مگراس تغیر پذیری کی نوعیت کیا ہے۔ اشیا کس اصول، کس قانون کے تحت حرکت کرتی اور بدلتی ہیں۔ اس قانونِ حرکت و تغیر کی دریافت جس کو جدلیت کا قانون کہتے ہیں ہرق لاطیس کا عظیم تاریخی کارنامہ ہے۔ لینن جن دنوں سوئزرلینڈ میں (1915ء) جلا وطنی کی زندگی بسر کررہا تھا تو اس نے 19 ویں صدی کے جرمن ” سوشلسٹ” لسال کی تصنیف “ہرق لاطیس” پڑھی اوراپنی بیاض میں اس پر کڑی نکتہ چینی کی البتہ ہرق لاطیس کے اس مقولے کے بارے میں جس کو ہم نے اوپر نقل کیا ہے لکھا کہ یہ ” جدلّی مادّیت کے اصولوں کی بڑی اچھی تشریح ہے۔” اور لسال کی شکایت کی کہ یہ شخص ہرق لاطیس کو ہیگل کا ہم خیال بنا رہا ہے اوراس کی “زندہ دلی، تازگی ، بھولے پن اور تاریخی بصیرت و دیانت کو برباد کررہا ہے” 27؎ جدلّیت سے مراد یہ ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے میں اور انسان اور اس کے معاشرے میں کہ کائنات ہی کا ایک جز ہے دو متضاد قوتیں وحدت کی شکل میں ہر وقت آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں۔ اسی تصادم ، اس ” کشاکشِ پیہم” (اقبال) سے نئی اشیا وجود میں آتی اور وہ مسلسل حرکت کرتی اور بدلتی رہتی ہیں۔
ہرق لاطیس نے کائنات کی وحدت1، حرکت2 اور جدلیت 3 تینوں کی تشریح کے لیے آگ کو منتخب کیا۔ یہ کلیے شاید اس نے آگ کی طبعی خصوصیات ہی سے اخذ کیے تھے۔ وہ کہتا تھا کہ دنیا بیک وقت وحدت بھی اور کثرت بھی اوریہ کہ ضدین کا باہمی تناؤ ہی اس وحدت کی بنیاد ہے” دانائی بہت سی چیزوں کا علم نہیں بلکہ ضدین کے تصادم میں جو وحدت پوشیدہ ہے اس کا ادراکِ دانائی ہے۔” مگر یہ کوئی منطقی مفروضہ نہ تھا بلکہ خالص مادی حقیقت تھی۔ یہ وحدت، یہ اصل الاصول کون سی شے ہے۔ وہ آگ ہے جس کی فطرت میں تمام دوسری اشیاء بن جاتا اورپھر دوسری تمام اشیا کا اس میں منتقل ہو جانا ہے۔ تمام اشیا آگ کا بدل ہیں اور آگ تمام اشیا کا بدل ہے ” جس طرح بازاری چیزیں سونے کا بدل ہیں اور سونا بازاری چیزوں کا ۔” ” ہر شے آگ ہی کی ایک شکل ہے خواہ مائل بہ نسبت مثلاً تمی، پانی، مَٹی جو آگ کی انجمادی کیفیت ہے، خواہ مائل بہ فراز”۔۔۔۔ ” اوپر جانے اور نیچے اترنے کا راستہ ایک ہے” 28؎ ” آگ کی تغیر شدہ شکل سمندر ہے جو آدھا مٹی آدھا ہوا ہے جو آب خرات بن کر اوپر جاتی ہے اورپھر پانی بن کر نیچے گرتی ہے۔” ” جب آگ کو دباتے ہیں تو وہ پانی بن جاتی ہے، پانی جم کر مٹی ہو جاتا ہے۔ یہ نشیبی رحجان ہے۔ پھر مٹی پانی بنتی ہے۔ پانی اوپر اٹھتا ہے سمندر سے بھاپ بن کر۔ یہ فرازی رحجان ہے۔” انسان کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے جسم کی آگ (حرارت) مستقل پانی بنتی رہتی ہے اورپانی مٹی۔ انسان تین ” عناصر” سے بنا ہے۔ آگ، پانی اور مٹی۔ شعوری یعنی فعال عنصرآگ۔ ” جب آگ جسم کو چھوڑ دیتی ہے تو پانی اور مٹی دونوں بے کار ہو جاتے ہیں۔ مردوں کی لاش گوبر سے بھی کم وقیع ہوتی ہے۔” ” لہٰذا ہم ہر لمحہ ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔”
آگ میں حرکت اور تغیر پذیری کی جو خاصیت ہے وہ اتنی واضح ہے کہ کسی طویل تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آگ کی لَو یا شعلے میں آگ کی مقدار بہ ظاہر یکساں رہتی ہے لیکن اس کا مادہ (ایندھن) مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ وہ مسلسل دھوان بن کر اوپر جاتا ہے اور نیا مادہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ گویا ہستی کی حقیقت ایک رواں دواں چشمہ ہے جس کو سکون و ثبات نہیں۔ لہٰذا ” ہم ایک دریا میں دوبار نہیں نہا سکتے۔” ” کوئی شے’ہے’ نہیں بلکہ ‘ہورہی’ ہے”۔ ” حرکت اورتغیر ہستی کے وجود کی شرط اور اس کے وجود کا انداز ہے۔”
روشن آگ جدلی عمل کی نمایاں مثال ہے۔ وہ گیس اورنامیاتی اشیا کے داخلی تضاد و تصادم ہی سے تو وجود میں آتی ہے لیکن ہرق لاطیس نے جدلیت کی دوسری مثالیں بھی دیں جو اس کی قوتِ مشاہدہ اور ذہانت پر دلالت کرتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ” لوگوں کو نہیں معلوم کہ جو شے بہ ظاہر اپنی مخالف نظرآتی ہے وہ درحقیقت موافق ہے۔ مثلاً کمان اور بربط۔ ” ایک اور جگہ کہتا ہے کہ ” کمان زندگی کہلاتی ہے (یونانی زبان میں ) مگر اس کا عمل موت ہے۔” اس کی رائے میں ضدین کی پیکار درحقیقت ان کی ہم آہنگی ہے۔ جیسے ہم بربط یا ستار کے تاروں سے نکلنے والی آوازوں کے آہنگ سے سُر ملاتے ہیں اسی طرح جب ہم کمان کھینچتے ہیں تو ہمارے دونوں ہاتھوں کی حرکت ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہے۔ ایک ہاتھ سے ہم کمان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اس کو اپنے سے دُور لے جاتے ہیں۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ ” خیر اور شرایک ہیں۔” اس کے معنی یہ نہیں کہ نیکی اور بدی ایک ہیں بلکہ وہ ایک ہی حقیقت کے دو ناقابلِ انفکاک پہلو ہیں۔ تنہا آدمی اگر کسی جزیرے میں ہو تو خیرو شر دونوں بے معنی ہو جاتے ہیں، نہ شر رہتا نہ خیر۔۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ “ہومر کا یہ قول غلط ہے کہ کاش خداؤں اور انسان کے درمیان سے پیکار ہمیشہ اٹھ جائے” اس نے یہ نہ دیکھا کہ وہ کائنات کی ہلاکت کی دعا مانگ رہا تھا کیوں کہ اس کی دعا سن لی جاتی تو کائنات فنا ہو جاتی۔” ایک خط میں لکھتا ہے کہ ” انسان بھی قدرت ہی کی مانند حرکت کرتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ وہ ان قوانین کو تسلیم نہیں کرتے جن کے مطابق قدرت حرکت کرتی ہے۔ مصور رنگوں کے فرق و امتیاز سے متناسب اور ہم آہنگ اثر پیدا کرتے ہیں، موسیقار پنچم اور مدھم سُروں سے یا دو آدمی جو لکڑی کو آرے سے چیرتے ہیں۔ رات اور دن ایک وحدت ہیں، یہ نہیں کہ رات دن ہے اور دن رات بلکہ وہ ایک ہی عمل کے دو رخ ہیں یعنی آگ اورپانی کے ایک مقدار میں گردش کے۔ ایک کے بغیر دوسرا ممکن نہیں اور جو تشریح دن کی ہوگی وہی رات کی۔”
پرومی تھیوس کی داستان سے صرفِ نظر کرکے حال کی آنکھوں سے دیکھو تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا آگ دور حاضر کے فلسفہ تاریخ اور فلسفہ انقلاب کے حق میں مشعلِ ہدایت ثابت ہوئی۔ چنانچہ ڈیکارٹؔ، اسپائنوزاؔ، روسوؔ، دیدروؔ، کانٹؔ، ہیگل، مارکسؔ، اورانیگلز نے جدلیت کو ہیگل کے تصوری خس و خاشک سے پاک کیا اور کہا کہ ” دنیا خواہ وہ قدرتی ہو، تاریخی ہو یا ذہنی، ایک مسلسل عمل ہے، سدا حرکت، تغیر، انقلابی تبدیلی اور ارتقا کے عالم میں” (انیگلز) یعنی حرکت تغیر قانونِ قدرت ہے جو پوری ہستی پر حاوی ہے۔ انھوں نے فلسفہ، تاریخ، اقتصادیات، ادب اور سائنس کی ٹھوس شہادتوں سے ثابت کیا کہ ہرشے کی کمیت کس طرح کیفیت میں کیفیت کمیت میں بدل جاتی ہے اور کس طرح ہرشے کے اندر اس کی نفی پوشیدہ ہوتی ہے جس کے عمل سے ایک نئی شے وجود میں آتی ہے۔ انھوں نے جدلی مادیت کی روشنی میں انسانی تاریخ بالخصوص سرمایہ داری نظام کا بالتفصیل جائزہ لیا اور بتایا کہ اس کا داخلی تضاد۔۔۔ ۔ پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کا تضاد۔۔۔۔ کس طرح محنت کش طبقوں کے ہاتھوں جو اِن حالاتِ زیست کی نفی کرتے ہیں بالآخر سماجی انقلاب کا سبب بنے گا۔
پرومی تھیوس کی داستان کے مطابق انسان کی تقدیر ایک دیوتا کی نگاہِ لطف و کرم سے بدلی۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی تقدیر کا خود مالک رہا ہے۔ وہ خود اپنی محنت اور سوجھ بوجھ سے زندگی کے ہر شعبے میں بڑی بڑی انقلابی تبدیلیاں لایا ہے لیکن تقدیریں فقط آرزؤوں کے رنگین محل بنانے سے نہ کبھی بدلی ہیں اورنہ آئندہ بدلیں گی بلکہ زندگی کی تخلیقی قوتوں اور تخریبی قوتوں کے درمیان جو مسلسل پیکار جاری ہے، انسان نے اس پیکار میں شریک ہوکر اپنے معاشرتی تضادات جس حد تک دورکیے اس حد تک وہ اپنے حالاتِ زیست کو بدلنے میں کامیاب ہوا ہے۔
حوالہ جات و حواشی
1۔ شیطان یا ابلیس کا سراغ کتاب پیدائش سے پہلے کہیں نہیں ملتا۔ محققین کا خیال ہے کہ شیطان کا قصہ یہودیوں نے زرتشتیوں کی یزدان واہرمن کی داستان سے اخذکیا۔ عین ممکن ہے کہ یہودی جب شہنشاہ بخت نصر کی اسیری میں بابل گئے اور 48 برس (538۔ 586 ق۔م) تک وہاں رہے اورپھر زرتشتی مذہب کے پیرو شہنشاہ کورش اعظم کے حکم سے آزاد ہو کر یروشلم واپس آئے تو وہ یزدان داہرمن کا قصہ بھی اپنے ہمراہ لائے ہوں۔ توریت میں کوروش کو یہودیوں کا نجات دہندہ کہا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بابل میں رب الارباب مردوک اور قیامت (موت) کے مابین جنگ کا جو دس روزہ تیوہار موسم بہار کی آمد پر رام لیلا کی مانند ہرسال بڑی دھوم سے منایا جاتا تھا۔ یہودیوں نے اس سے اثر لیا ہو۔
2۔ لغوی معنی” دوراندیشی” بھگوت پران، میں ایک شخص پر مانسہ کا ذکرہے جس کے لفظی معنی بھی دوراندیش کے ہیں۔ ان کا نشان سواستیکا ہے جو سورج کی علامت ہے۔
3۔ Z.A. Manferd: A Short History of the World , vol. I, Moscow, 1974, p. 21
4۔ Fredrick Engels, Anti-Duhring, Moscow, 1962, p. 274
5۔ George Thomson, Aeschylus and Athens, London, 1946, p. 317
6۔ ہم نے ڈرامے کے اقتباسات کا لفظی ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ ایس کائی لیس کے مفہوم کو اداکرنے کی کوشش کی ہے۔
7۔ P.B. Shelley, Poetical Works, Oxford, 1956, pp. 204.05
8۔ Benjamin Franklin, The Greek Science, vol.1, Pelican, 1953, p. 26
9۔ Will Durant, Story of Civilization, vol.1, New York, 1954, p. 95
10۔T. Boronoski, The Ascent of Man, London, 1975, p. 124
11۔ Carl Sagan, The Dragons of Eden, New York, 1977, p. 97
12۔Encyclopedia Brittanica, vol. 9, p. 97
13۔ رگ وید (انگریزی ترجمہ)
Ralph T.H. Griffith, The Rigveda, Delhi, 1976, p. 19
14۔ ایضاً۔ ص 60
15۔ Frederick Engels, Anti-Duhring, p. 158.
16۔ V. Gordon Childe, Man Makes Himself, Sondon, 1956, p. 50
17۔رگ وید، بحوالہ سابقہ ،ص۔ 170
18۔ القرآن الحکیم معہ ترجمہ و تفسیر، لاہور و کراچی، تاج کمپنی، ص 9
19۔ تفہیم القرآن، جلد اول، لاہور، 1972ء ص۔ 66
20۔ ایضاً۔ ص 60
21۔ ایضاً۔ ص 65
22۔ ایضاً۔ ص 98
23۔ کتاب مقدس، لاہور، 1949، ص 6
24۔ ایضاً۔ ص 7
25۔ John Burnet: Early Greek Philosophy, New York, 1957, p. 134
26۔ آیونیا مغربی ترکی کے ساحلی خطے کا پرانا نام ہے۔ 90 میل لمبی اور 30 میل چوڑی اس پٹی میں آیون قبیلے 11 سو قبل مسیح میں جنوبی بلقان ( موجودہ یونان) سے آکر آباد ہوئے تھے۔ و ہ بڑے جفاکش اورہوشیار صنعت کار تھے اورتجارت اورجہاز رانی میں بھی بڑے مشاق تھے۔ ان کی کوششوں سے آیونیا جلد ہی مشرقِ وسطیٰ کا سب سے خوش حال اور ترقی یافتہ علاقہ بن گیا۔ چنانچہ یونانی فلسفہ، سائنس، تاریخ ، شاعری اور جمہوریت کا حقیقی مولد آیونیا ہی ہے۔ ہومر، سافو، کلاسیکی حکایات کا مصنف الیسوپ، بابائے تاریخ ہیرو ڈئس اور نیچرل فلسفے کے بانی طالیس، انکسی ماندر، فیثا غورث، زینو فانیس، انکسا غورث اور لکی پس آیونیا ہی کے باشندے تھے۔ 547 ق۔ م میں لینی ہرق لاطیس کی ولادت سے بارہ برس پہلے کوروش اعظم نے آیونیا پر قبضہ کرلیا اور تب آیونیا کا زوال اور ایتھنز کا عروج شروع ہوا۔ سنسکرت کا یونا اور عربی فارسی کا یونان دراصل یہی آیونیا ہے۔
27۔ Lenin, Collected works, vol. 38, Moscow, p. 349
28۔ ہرق لاطیس کے تمام اقوال John Burnet کی کتاب صفحہ 133تا 141 سے لئے گئے ہیں۔