” ہم کس چیز کے لیے جدو جہد کررہے ہیں، ہمارا نصب العین کیا ہے۔ ہم تھیو کریسی کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں۔ نہ ہمارا نصب العین تھیو کریٹک ریاست قائم کرنا ہے۔”
بہر صورت پاکستان تھیو کریٹک ریاست نہیں ہونے والا ہے جہاں مُلاؤں کی حکومت ہو، جن کا خیال ہے کہ ان کو الوہی فریضہ سونپا گیا ہے۔”
تھیو کریسی ریاست کہ وہ قسم ہے جس میں حکومت کے قوانین احکامِ خداوندی سے منسوب کیے جاتے ہوں یا جہاں کا حاکمِ اعلٰی خدا یا خدا کا اوتار یا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں تھیو کریسی وہ ریاست ہے جس میں اقتدارِ اعلٰی کے مالک ملک کے باشندے نہ ہوں اور نہ عنانِ اختیار ان کے چنے ہوئے نمائندوں کے ہاتھ میں ہو بلکہ سربراہ مملکت کسی دوسرے ذریعے سے اقتدار حاصل کر کے احکامِ خدا وندی کی ترجمانی کا مدّعی ہو۔
لیکن تھیو کریسی، ملوکیت اور جمہوریت ریاست کی مختلف قسمیں ہیں لہذا تھیو کریسی کی تفصیلات پر غور کرنے سے پیش تر ریاست کی نوعیت کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ جب سے پاکستان اور ایران میں اسلامی ریاست کا غلغلہ پیدا ہوا ہے بعض حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مُشرف بہ اسلام ہوتے ہی ریاست کی فطرت بدل جاتی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ہم سوچیں کہ کوئی مسیحی مسلمان ہوتے ہی آنکھوں کے بجائے کانوں سے دیکھنے لگے گا یا پاؤں کےبجائے سر کے بل چلے گا۔
ریاست کسی خود مختار علاقے کی سب سے مقتدر سیاسی تنظیم ہے جو علاقے کی آبادی کو مختلف قاہرانہ اور نظریاتی ذرائع سے اپنے احکام کا پابند بناتی ہے۔ ریاست ازل سے موجود نہیں ہے اور نہ آسمان سے اتری ہے۔ وہ انسانوں ہی کا بنایا ہوا سماجی ادارہ ہے جس کی تشکیل ایک دن میں کسی کے حکم سے نہیں ہوئی بلکہ جس نے گزشتہ چھ ہزار برس میں ارتقاء کی کئی منزلیں طے کی ہیں۔ ریاست دراصل اس وقت وجود میں آئی جب معاشرہ طبقوں میں بٹ گیا اور دولت آفرینی کے ذرائع (زمین، زمین کی پیداوار اور آلاتِ پیداوار وغیرہ ) چند افراد کی ذاتی ملکیت بن گئے۔ ریاست انسانوں کی پہلی با اختیار معاشرتی تنظیم بھی نہیں چنانچہ خاندان، گھرانے، برادریاں اور قبیلے کا سردار اور گاؤں کا مُکھیا سب سے مقتدر شخص ہوتا تھا۔ حاکمیت کا مرکز بھی رواج ہی تھا جس کی حیثیت ہر چند کہ اخلاقی تھی مگر جمعیت کے ہر فرد کو رواج کی حاکمیت تسلیم کرنی پڑتی تھی۔ مثلاً آنحضرتؐ کے عہد میں مکّے اور مدینے میں قبیلہ داری نظام رائج تھا مگر ریاست نہ تھی۔ مدینے میں قبیلے الگ الگ چہار دیواریوں میں رہتے تھے اور ہر قبیلہ اندرونی نظم و نسق کا خود ذمہ دار ہوتا تھا۔ پورے شہر کی کوئی با اختیار مرکزی تنظیم نہ تھی۔ مکّے میں بھی جو مذہبی اور تجارتی اعتبار سے نہایت اہم شہر تھا قبیلے جد ا جدا خود مختار و حد تیں تھیں البتہ قبیلوں کے سرداروں کی ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم ضرور موجود تھی جس نے حج اور تجارت کے فرائض آپس میں تقسیم کر لیے تھے۔ جنگ کے موقعے پر کسی موزوں شخص کو لشکر کا سالار چُن لیا جاتا تھا۔ شہر کی حفاظت کے لیے کوئی باقاعدہ فوج نہ تھی بلکہ شہر کا دفاع ہر بالغ اور تندرست شخص کا فرض تھا۔
ان پرانی تنظیموں میں اور ریاست کے درمیان یہ فرق بھی ہے کہ پرانی تنظیموں کی وحدت کی بنیاد خونی رشتے، مذہبی عقائد اور زبان کی یکسانیت پر تھی۔ مخصوص علاقے سے وابستگی شرط نہ تھی۔ (بدوی قبیلے صحرا نورد تھے) جب کہ ریاست ایک علاقائی یا جغرافیائی سیاسی وحدت ہے جو خونی رشتوں سے متعین نہیں ہوتی بلکہ اس کے حدود میں ایک سے زائد قبیلوں ، قوموں، زبانوں اور مذہبوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ خاندان، برادریاں، قبیلے اور گاؤں کی پرانی تنظیمیں طبقوں میں بٹی ہوئی نہیں تھیں۔ ان میں نہ کوئی حاکم تھا نہ کوئی محکوم اس کے برعکس ریاست کی نوعیت ابتدا ہی سے طبقاتی رہی ہے۔ وہ معاشرے کے طبقات میں بٹ جانے ہی کہ وجہ سے وجود میں آئی اور اس کا منصب ہی یہ ہے کہ حاکم طبقے کی بالادستی کا بچاؤ کیا جائے۔ غرضیکہ ریاست خواہ وہ تھیو کریسی مذہبی پیشواؤں کے اقتدار و مفاد کا تحفظ کرتی تھی۔ ملوکیت کا فریضہ بادشاہ اور شاہی خاندان کے اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ بور ژوا جمہورتیں سرمایہ دار طبقے کی محافظ و معین ہوتی ہیں۔ سو شلسٹ ریاستیں محنت کش طبقوں کے مفاد کا تحفظ کرتی ہیں۔
“ہرگزکوئی ایسی طاقت نہیں جو سو سائٹی پر اوپر سے تھوپی گئی ہو۔۔۔ بلکہ وہ سو سائٹی ہی کی پیداوار ہے جو معاشرتی ارتقا کی ایک خاص منزل پر نمودار ہوتی ہے۔ اس کا وجود اس بات کا اقرار ہے کہ سو سائٹی اب ناقابلِ حل تضاد میں الجھ گئی ہے اور اس کے اندر ایسی مخاصمتیں پیدا ہو گئی ہیں جن کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور نہ سوسا ئٹی ان دشمنیوں کو دور کر سکتی ہے لیکن مبادا یہ مخاصمتیں، یہ طبقے جن کے اقتصادی مفاد آپس میں ٹکراتے ہیں، بے سُود کشمکش سے اپنے آپ کو او ر سو سائٹی کو جلا کر خاک کردیں، ایک ایسی طاقت کی ضرورت پیش آتی ہے جو بظاہر سو سائٹی سے بلند و بالاتر ہو تاکہ تصادم میں اعتدال قائم ہو سکے اور باہمی ٹکر کو ” نظم و ضبط ” کی حدود میں رکھا جا سکے۔ یہ طاقت جو سو سائٹی کے اندر سے ابھرتی ہے لیکن اپنے کو سو سائٹی سے بالا رکھتی ہے اور سو سائٹی سے مسلسل بیگانہ ہوتی جاتی ہے ریاست ہے۔”
ابتدائی ریاستیں شہری ریاستیں تھیں جو سب سے پہلے دھات کے زمانے میں دریاؤں کے کنارے قائم ہوئیں۔ دھا ت کے آلات و اوزار کے رواج پانے سے دیہات کی فاضل پیداوار میں اضافہ ہوا، پیداوار میں اضافے کی وجہ سے پیشوں کی تقسیم اور تجارت کی ابتدا ہوئی اور منڈیوں ، بازاروں اور شہروں کا قیام عمل میں آیا۔ ان شہروں کا مرکز کوئی نہ کوئی عبادت گاہ ہوتی تھی جس نے ریاست کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہری آب پاشی کا بندوبست، علاقائی جنگیں اور غلامی کے رواج نے بھی ریاست کی تشکیل میں بڑی مدد دی۔
ابتدائی ریاستیں تھیو کریسی یعنی مذہبی ریاستیں تھیں خواہ وہ وادیِ نیل اور وادیِ دجلہ و فرات کی ہوں یا وادیِ سندھ اور وادیِ گنگ وجمن کی۔ وجہ یہ تھی کہ بڑی بڑی عبادت گاہیں اپنے گردو نواح کی سب سے بااثر اور دولت مند طاقت ہوتی تھیں۔ عبادت گاہ میں جس دیوی دیوتا کی پوجا ہوتی تھی بستی اسی کے نام سے منسوب کر دی جاتی تھی بلکہ اسی دیوتا کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ مثلاًبالائی مصر کا دارالحکومت تھی بیز خداوند آمون رع کی ملکیت تھا اور زیریں مصر کا صدر مقام مِمِفس بیل دیوتا کی ملکیت تھا۔ اسی طرح جنوبی عراق میں اریدو شہر میٹھے پانی کے دیوتا انِ کی، اریک سب سے بڑے دیوتا انو، نیفر ہو اکے دیوتا ان لیل اور اُر چاند دیوتا انناّ کی ملکیت تھے۔ جاتریوں کی آمدورفت بڑھی تو بنیے بقال، بیو پاری، دکان دار اور دوسرے پیشوں کے لوگ وہاں آکر آباد ہونے لگے اور یہ جگہیں رفتہ رفتہ پہلے شہر پھر شہری ریاستوں کا صدر مقام بن گئیں۔ ان شہری ریاستوں کے سربراہ معبودوں کے مہاپروہت ہوتے تھے جو زمین پر آسمانی دیوتاؤں کے نمائندے خیال کیے جاتے تھے اور جن کے احکام دیوتاؤں کے احکام کا درجہ رکھتے تھے۔ سو میری زبان میں ریاست کے سربراہ کو ” پیتسی” (Patesi ) کہتے تھے جس کے لفظی معنی “پروہت راجہ” کے ہوتے ہیں اور قدیم مصری زبان میں “خدا” اور “بادشاہ” دونوں کے لیے “ہوروس” کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ پروہت راجاؤں کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی عراق کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں اب تک مٹی کی جتنی لَوحیں نکلی ہیں۔(ڈھائی لاکھ) ان میں سے 95 فیصد لَوحیں معبدوں کے حساب کتاب سے متعلق ہیں۔ فقط پانچ فی صد ایسی ہیں جن پر اشلوک ، گیت بھجن اور داستانیں لکھی ہیں۔
پروہت راج میں ریاست کے سربراہ کو دہرے فرائض سر انجام دینے پڑتے تھے۔ وہ مذہبی پیشوا بھی ہوتا تھا اور ریاست کے نظم و نسق کا نگرانِ اعلٰی بھی۔ مذہبی امور کی حد تک اس کے اختیارات لا محدود تھے کیونکہ وہ زمین پر اپنے ربِ کائنات کا نائب تسلیم کیا جاتا تھا اور اسی کے رو برو جواب دہ تھا لیکن ریاستی امور میں اس مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کرنی پڑتی تھی۔ یہ مجلسِ شوریٰ عمائدینِ شہر کی نمائندہ تنظیم ہوتی تھی جس کو پاکستان کی نام نہاد مجلسِ شوریٰ کی مانند ریاست کا سرراہ نام زد نہیں کرتا تھا۔ نہروں اور تجارتی راستوں کی دیکھ بھال کرنا، ریاست کے اندر امن و امان برقرار رکھنا، شہریوں کے آپس کے جھگڑے چکانا اور مقدموں کا تصفیہ کرنا مجلسِ شوریٰ کے فرائض میں داخل تھا۔ مجلسِ شوریٰ کے علاوہ بزرگانِ شہر کی ایک مجلسِ اعلیٰ بھی ہوتی تھی۔ ان دونوں “ایوانوں” میں فیصلے کثرتِ رائے سے نہیں بلکہ اتفاقِ رائے سے ہوتے تھے جو قبیلہ داری نظام کی دیرانہ روایت ہے۔
مگر دہرے فرائض اور محدود جمہوریت کا ریاستی نظام زیادہ دن نہ چل سکا کیونکہ شہری ریاستیں اپنے دائرہ اثر کو وسعت دینے اور اپنے ذرائع دولت آفرینی میں اضافہ کرنے کی خاطر بیش تر اوقات ایک دوسرے پر حملے کرتی رہتی تھیں۔ یہ صورتِ حال شخصی حکومت کے قیام کے حق میں بہت مدد گار ثابت ہوئی۔ جنگ کے موقعے پر چونکہ تمام اختیارات لا محالہ سالارِ فوج کے سپرد کرنے پڑتے تھے لہذا وہ سیاسی طاقت کا مرکز بن جاتا تھا۔ سو میری زبان میں اس شخص کو “لُوگل” یعنی بڑا آدمی کہتے تھے۔ ابتدا میں لُوگل کا عہدہ “باندہ” یعنی عارضی ہوتا تھا اورجنگ کے گزر جانے پر تمام اختیارات مجلسِ شوریٰ کو منتقل کر دیے جاتے تھے مگر ہنگامی حالات کے خاتمے کا فیصلہ لُوگل باندہ ہی کرتا تھا چنانچہ ہنگامی حالات رفتہ رفتہ عارضی سے مستقل ہونے لگے کیونکہ لوگل باندہ کا فائدہ اسی میں تھا۔ بالآخر فوجی طاقت کے مالک ریاست کے سربراہ بن گئے۔ البتہ مجلسِ شوریٰ کا نظام شخصی حکومتوں کے قیام کے بعد بھی عرصے تک باقی رہا۔ مثلاً گل گامش کی داستان میں گل گامش کے اس طرزِ عمل پر اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ مجلسِ شوریٰ کو خاطر میں نہیں لاتا۔
” گل گامش ایوانِ شوریٰ میں زبردستی گھس آیا ہے حالانکہ یہ عمارت شہریوں کی ملکیت ہے۔”
اس فقرے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مجلسِ شوریٰ کی اپنی عمارت ہوتی تھی اور حاکمِ وقت بھی اس میں مجلس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ایوان کے کاموں میں مداخلت کرسکتا تھا لیکن بادشاہوں کی طاقت جب مستحکم ہو گئی تو مجلسِ شوریٰ کا ادارہ قدرتی موت مرگیا۔ بادشاہ شہریوں کے نمائندے کے بجائے اپنے نامزد کردہ وزیروں اور درباریوں سے صلاح و مشورے کرنے لگے۔
ملوکیت کے اس ابتدائی دور میں بادشاہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک ضرور تھا لیکن مقننّہ اور عدلیہ کے اختیارات بدستور پروہت طبقے کے پاس رہے۔ پروہت طبقہ مذہبی احکام کے مطابق قانون بناتا اور یہ تصفیہ کرتا کہ مذہب کی روح سے کون سا فعل جائز ہے اور کون سا ناجائز، مذہب نے کس جرم کی کیا سزا مقرر کی ہے اور رعایا کے کون کون سے فرائض متعین کیے ہیں۔ اس تقسیمِ کار کی بدولت بادشاہوں کو ریاست کے نہایت اہم طبقے کا تعاون ہی حاصل نہیں ہوا بلکہ ان کے اقتدار کو مذہبی جواز بھی مل گیا۔
بادشاہوں نے ریاست پر قابض ہونے کے بعد عبادت گاہوں کے وقار پر حرف نہ آنے دیا۔ نہ ان کی املاک ضبط کیں اور نہ عبادت گاہوں کے نظم و نسق میں کوئی مداخلت کی بلکہ ان کو مزید انعام واکرام سے نوازا۔ عبادت گاہ کی مرمت میں شرکت ہر شخص کا مذہبی فریضہ تصور کی جاتی تھی۔ اس رسم کی ابتدا بادشاہ کرتا تھا چنانچہ بابل سو میر اور اسور کے قدیم آثار سے ایسی لَوحیں برآمد ہوئی ہیں جن میں بادشاہ کو سر پر ٹوکری رکھے مرمت کے کام میں مصرف دکھایا گیا ہے۔
پروہتوں نے بھی نئی تقسیم کار کو بہ خوشی قبول کرلیا۔ انہوں نے بادشاہوں سے پورا پورا تعاون کیا اور ان کو خدا، خدا کا اوتار، خدا کا نائب بنا دیا۔ بادشاہ کی شخصیت کے گرد تقدس کا جو ہالہ ان پروہتوں نے چھ ہزار برس پہلے کھینچا تھا ملوکیت کے زوال تک مشرق اور مغرب میں تھوڑے تھوڑے فرق سے ہر جگہ بدستور قائم رہا۔ چنانچہ اسلامی دور میں بھی بادشاہوں کو ظِل اللہ (خدا کا سایہ) کا لقب ملا۔ قاضی ماوردی نے “احکام السلطانیہ” میں، امام غزالی نے “نصیحت الملوک میں، نظام الملک طوسی نے ” سیاست نامے” میں، ابو نصر فارابی نے “الآرا مدینتہ الفاضلہ” اور ان خلدون نے “تاریخ” میں اطیعو اللہ اطیعوالرسول اور اولی الامر منکم کی غلط اور غیر تاریخی تفسیر کی آڑ میں حاکمِ وقت کی اطاعت کا جو سبق مسلمانوں کو دیا وہ غیر مسلم مذہبی پیشواؤں کی تلقینوں سے چنداں مختلف نہیں۔
پرانے زمانے میں ریاستوں کے وسائل اتنے وافر نہیں تھے کہ وہ تنخواہ یافتہ فوج اور پولیس ملازم رکھ کر رعایا کو اپنے احکام کی پابندی پر مجبور پر سکتیں۔ رسل و رسائل اور آمدو رفت کی سہولتیں بھی بہت کم تھیں لہذا شاہی احکام کے نفاذ میں رکاوٹیں پیش آتی تھیں اور ریاست اپنی قوت قاہرہ سے خاطر خواہ کام نہیں لے سکتی تھی۔ حالاتِ زندگی کی ان دشواریوں کا تقاضہ تھا کہ ایسے نظریے رائج کیے جائیں جن کی بدولت لوگوں کے دل و دماغ ریاست کے احکام و قوانین کی پابندی کے خوگر ہو جائیں اور اطاعت و فرماں برداری ان کی سرشست بن جائے ۔ اس روایت پر آج بھی ہر جگہ عمل ہورہا ہے چنانچہ دنیا میں ایسی کوئی ریاست نہیں جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ نظریاتی ریاست ہونا پاکستان کی انفرادی خصوصیت نہیں۔
ریاستوں کے تشکیلی دور میں عقائد و افکار کی اجارہ داری مذہبی پیشواؤں کو حاصل تھی اور لوگوں کے ذہنوں پر انہیں کی حکومت تھی لہذا ریاست کے ابتدائی نظریوں پر مذہب کی چھاپ پڑنا قدرتی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بابل، مصر، ایران، یونان، فلسطین، ہندوستان اور چین ہر ملک میں ریاست کو عطینئہ خداوندی قرار دیا گیا، حاکمِ وقت کو خدا، خدا کا اوتار یا نمائندہ بنا یا گیا اور ریاست کے احکام و قوانین کو فرمانِ الہیٰ سے منسوب کردیا گیا۔ شہری ریاست اریک (جنوبی عراق) کے بادشاہ اتوہیگل (2120۔2114 ق۔م) نے تو ان بادشاہوں کی باقاعدہ فہرست مرتب کروالی جو دجلہ و فرات کی وادی میں ” آسمان سے اُتری تھیں”۔ اس فہرستِ شاہاں کے مطابق “آسمان سے پہلی بادشاہت اریدو میں اتاری گئی” جو سو میری قوم کا سب سے قدیم شہر تھا۔ ” یہ بادشاہت 64 ہزار 8 سو برس تک قائم رہی ” اور اس طویل عرصے میں فقط دو بادشاہ ہوئے، پھر کسی نامعلوم سبب سے بادشاہت شہر باد طبریٰ میں منتقل ہو گئی۔ وہاں سے لہرک، پھر سیپر اور آخر میں شروپک پہنچی اور ” تب زمین پر سیلاب آگیا۔”
سیلابِ عظیم کے بعد ” بادشاہت دوبارہ آسمان سے اتاری گئی ” لیکن اب کے شہر کیش میں۔ وہاں 23 بادشاہوں نے ساڑھے 24 برس تک حکومت کی ” تب کیش کو جنگی ہتھیاروں نے کاٹ کھایا، اور بادشاہتِ ایانا (اریک کا مقدس معبد) کو منتقل ہو گئی۔ اریک کا پہلا بادشاہ میس کیاگ گاشر تھا جو خداوند انو ( سورج) کا بیٹا تھا۔ ” وہ مندر کا مہا پروہت بھی تھا اور بادشاہ بھی۔” اتوہیگل صاحب جنہوں نے یہ فہرستِ شاہاں مرتب کروائی تھی اسی کی اولاد تھے۔
تھیو کریسی میں قانون بھی عالمِ بالا سے نازل ہوتے تھے اور ان کو مقدس او ر واجبِ تعظیم بنانے کے لیے خدا کا نام بڑی کثرت سے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلاً فرعون اول منیز (3400 ق۔م) نے جب بالائی اور زیریں مصر کو ملا کر اپنی سلطنت قائم کی اور پہلا قانون نافذ کیا تو یہی دعویٰ کیا کہ یہ ضابطہ قانون مجھ کو خداوند قمر (توتھ) نے عطا کیا ہے۔ منیز کے جانشینوں نے اس پر اکتفا کی بلکہ خدائی اختیارات خود سنبھال لیے۔ وہ ربِ عظیم آمون رع (سورج) کے بیٹے بن گئے۔ اس ناتے وہ مصریوں کے مذہبی پیشوا بھی تھے اور ریاست کے سربراہ بھی۔
خدائی قوانین کے نزول کا طریقہ بھی قریب قریب یکساں تھا۔ عالم بالا تک رسائی ممکن نہ تھی لہذا پہاڑ کی بلندی عالمِ بالا کی علامت ٹھہری اور بادشاہوں کو احکامِ خدا وندی پہاڑکی چوٹیوں پر عطا ہونے لگے۔ مثلاً شہنشاہ حَمُورّبی (1892۔1850 ق۔م) کے آئین کی جو کندہ شدہ لاٹ پیرس کے عجائب گھر لوور میں محفوظ ہے اس کے بالائی منظر میں خدا وند شمس پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا حَمُورّبی کو آئین کا خریطہ عطا کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ حَمُورّبی کا آئین دنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ہے۔ آئین کے تمہیدی فقرے یہ ہیں:
“جس وقت ربِ عظیم اُنوم اور زمین و آسمان کے آقا ان لیل نے جو سب کی تقدیروں کا متعین کرنے والا ہےمردوک کو تمام بنی نوع انسان کا حاکم مقرر کیا اور بابل کو اس کے عظیم نام سے پکارا اور اس کو دنیا میں سب پر فضیلت بخشی اور اس کے وسط میں ایک مضبوط بادشاہت قائم کی۔ اسی وقت انوم اور ان لیل نے مجھے نامز د کیا۔ میں حَمُوربی ہوں۔ آقا مردوک جس سے خوش ہے، جس کے کارنامے عشتار دیوی کو پسند ہیں، جو قانون کا حکم منواتا ہے۔ جب مردوک نے مجھ کو ہدایت کی کہ اپنی رعایا کو راہِ راست پر لے چلوں اور ملک کی نگرانی کروں تو میں نے ملک کی زبان میں قانون اور انصاف رائج کیا۔
روایت کے مطابق جزیرہ کریٹ کے بادشاہ مینو Minos کو بھی خداوند زیوس نے قانون کی لَوحیں کوہِ دکتا پر عطا کی تھیں اور یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ قانون کے دیوتا داایونائی سَس Dionysus نے قانون کو پتھر کی دو تختیوں پرکندہ کروا کر زمین پر اُتارا۔ اور ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ زرتشت بنی نے پہاڑ پر جا کر خدا وند اُہوورمزدا سے التجا کی ۔ ” تب بجلی چمکی، آسمان گرجا اور اُہور مزدا نے پہاڑ پر اتر کر ” کتابِ قوانین ” زرتشت کے حوالے کی ” حضرتِ موسٰی ؑ کے ساتھ بھی یہی حادثہ گزرا:
” اور خداوند کوہِ سینا کی چوٹی پر اترا اور خداوند نے موسٰی کو پہاڑ کی چوٹی پر بلایا اور کہا کہ میں تجھے پتھر کی لَوحیں اور شریعت اور احکام جو میں نے لکھے ہیں دوں گا تاکہ تو ان کو سکھائے۔
اسی طرح داریوش اعظم (522۔467ق۔م) اپنے ایک فرمان میں جونقش رستم کی پہاڑی کندہ ہے اعلان کرتا ہے کہ:
“خدائے عظیم اُہور مزدا کے نام سے جس نے یہ زمین خلق کی اور آسمان بھی، جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور ان کے لیے خوشیوں کو اور جس نے داریوش کو بادشاہ بنایا، بہت سے بادشاہوں کا بادشاہ اور بہتوں کا آقا، وہی ہے جس نے اس وسیع اقلیم کی شاہی ، جس میں بہت سی قومیں آباد ہیں داریوش کو بخشی۔”
یونان کی ریاست اسپارٹا میں بھی آئین آسمان ہی سے نازل ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ مشہور قانون داں لائی کرگس (آٹھویں صدی قبل مسیح )آئین سازی پر مامور ہوا تو وہ ڈیلفی گیا جو یونان کی سب سے مقدس عبادت گاہ اور غیب دانی کا مرکز تھا۔ واپس آکر اس نے اعلان کیا کہ آئین کی دفعات مجھ پر غیب سے الہام ہوئی ہیں۔ پلوٹارک لکھتا ہے کہ آئین نافذ کرتے وقت لائی کرگس نے اسپارٹا والوں سے عہد لیا تھا کہ میری واپسی تک تم لوگ آئین میں کوئی تبدیلی نہیں کرو گے ۔ یہ عہد لے کر لائی کرگس ڈیلفی چلا گیا مگر کبھی نہ لوٹا۔
ملوکیت کے الوہی استحقاق میں ہندوستان ، چین اور جاپان مشرقِ وسطی سے پیچھے نہیں رہے۔ چنانچہ منوسُمرتی کے مطابق جو بعض مورخین کی رائے میں چوتھی صدی قبلِ مسیح سے پہلے کی تصنیف ہے ریاست کے سربراہ کا رتبہ دیوتا کے برابر ہے۔
” بھگوان نے راجپتی کو سب جیو کی رکشا کے لیے جنم دیا۔ وہ اندرا، وایو (ہوا ) یَم ( موت ) سُوریہ (سورج) اگنی، ورونا، چندرما اور کُوبیر (دولت کا دیوتا) کے ابدی ذرات کا آمیزہ ہے۔ وہ منوش کے روپ میں مہادیو ہے۔ پس خبردار! کوئی شخص راجہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرے خواہ ان احکام کا تعلق انعام سے ہو یا سزا اور خفگی سے ۔”
منوریاست کی قوتِ قاہرہ پر بالکل پردہ نہیں ڈالتا بلکہ سزا کو بھی مقدس عمل سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ ” ڈنڈا برہما دیوتا کا بیٹا ہے اور تمام مخلوق کا محافظ۔ عقل مندوں کے نزدیک قانون اور ڈنڈا ہم معنی الفاظ ہیں۔”
چین کے فرماں روا بھی ” آسمان کی اولاد” Tien-tse کہلاتے تھے اورزمین پر خدائے عرش کی نمائندگی کرتے تھے۔ وہ ریاست کے سربراہ اور مذہب کے پیشوا بھی ہوتے تھے۔ ان کے ہر حکم کو احکامِ خداوندی کا درجہ حاصل تھا اور ان کا فیصلہ خدا کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ کو اگر جنگ میں شکست ہو جاتی یا قحط پڑ جاتا یا کوئی دشمن اس کو تخت سے اتار دیتا تو تاویل یہ کی جاتی تھی کہ خدا نے اس کو اپنی خلافت سے محروم کردیا ہے۔ خدا کی یہ خود ساختہ اولاد 1911ء تک انہیں لغود عوؤں کے ساتھ چین پر حکومت کرتی رہی اور تب وہاں جمہوری انقلاب آیا اور اس آسمانی بادشاہت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔
جاپان میں 1945ء تک یہی صورت رہی۔ وہاں شہنشاہ کا لقب ” سورج دیوتا” تھا اور جاپانیوں کی عقیدت مندی کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص شہنشاہ سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ یہی ذاتِ شریف اب بھی جاپان کے شہنشاہ کہلاتے ہیں لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہاں جب پارلیمانی جمہوریت قائم ہوئی تو شہنشاہ کی حیثیت شاہِ شطرنج کی ہو گئی۔
یہودی، نصرانی اور اسلامی عقائد کے مطابق پیغمبری اور بادشاہی کا دہرا منصب خدانے سب سے پہلے حضرت داؤدؑ کو عطا کیا۔ ان سے پیش تر کوئی پیغمبر سیاسی اقتدار کا طلب گار نہیں ہوا اور نہ خدا نے اس کو سیاسی اقتدار سونپا حتیٰ کہ حضرت موسیٰؑ کو بھی جو بنی اسرائیل کے نجات دہندہ تھے ریاست کی سربراہی نصیب نہیں ہوئی پھر وہ کون سے معاشرتی حالات تھے جن کے باعث ایک دیرینہ روایت ترک کردی گئی اور ایک نئی روایت کی ریت پڑی؟
بنی اسرائیل 430 سال تک مصر میں رہنے کے بعد جب 1220 ق۔م میں وہاں سے نکلے تو بائبل کی کتاب خروج کے بقول ان کی تعداد چھ لاکھ سے بھی زیادہ تھی جو یقیناً مبالغہ ہے۔ یہ لوگ بارہ قبیلوں اور سینکڑوں خاندانوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا تھا اور ایک مجلسِ بزرگان جو سن رسیدہ اشخاص پر مشتمل ہوتی تھی۔ یہی مجلسِ بزرگان قبیلے کی عدالت کے فرائض انجام دیتی تھی ۔ قبائل فقط ہنگامی حالات میں آپس میں تعاون کرتے تھے۔ وہ اتنے خود مختار اور خود سر تھے کہ حضرتِ موسیٰؑ کو سفر کے دوران ان کو متحد رکھنے اور احکامِ ربّانی کی اطاقت پرآمادہ کرنے میں بڑی بری مشکلیں پیش آئیں۔ چالیس سال تک سینا اور فاران کے بیابانوں میں خاک چھاننے کے بعد آخر کار یہ انبوہِ کثیر کنعان میں داخل ہوا جہاں اُن دنوں عملیقیوں، موابیوں، فلسطیوں وغیرہ کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم تھیں۔ بنی اسرائیل نے لاکھوں باشندوں کو جان سے مارا اور ان کے کھیتوں، باغوں اور تاکستانوں پر قبضہ کرلیا۔ غارت گری اور تسخیر کا یہ سلسلہ عرصے تک جاری رہا یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے قبیلے الگ الگ علاقوں میں آباد ہو گئے۔
مگر ارضِ مقدس میں مستقل بود و باش کے با وصف بنی اسرائیل کا معاشرتی نظام بدستور قبیلہ داری رہا۔ البتہ جگہ جگہ “قاضی” مقرر کر دیے گئے جو شریعتِ موسوی کے مطابق فیصلے صادر کرتے تھے۔ یہ تھیو کریسی کی ابتدائی شکل تھی لیکن اس وقت تک کوئی اسرائیلی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی اور نہ کسی شخص کو شاہی اختیارات حاصل تھے چنانچہ بائبل کی کتاب ” قضاۃ” میں اس بات کو کئی بار دہرایا گیا ہے کہ ” اُن دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہ تھا اور ہر شخص جو کچھ اس کی نظر میں اچھا معلوم ہوتا وہی کرتا تھا۔”
اسرائیلیوں نے کنعان کے قدیم باشندوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا اس کی وجہ سے آس پاس کی غیر اسرائیلی ریاستیں ان سے سخت نفرت کرتی تھیں اور اسرائیلیوں کو ہر دم ان کے حملے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ مفت کی دولت ہاتھ آنے اور ذاتی ملکیت کے رواج پانے کے باعث اسرائیلی قبیلوں کے مابین لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے تھے اور قبیلوں کے اندر بھی طبقاتی اُونچ نیچ پیدا ہو گئی تھی۔ ان حالات میں کسی مرکزی طاقت کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن گیا ۔
اس مرکزی طاقت کے وجود میں آنے کی داستان بائبل کی کتاب “سموئیل” میں بڑاے ڈرامائی انداز میں بیان کی گئی ہے۔ یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب سموئیل بنی اسرائیلیوں “قاضی القضاۃ” تھے۔ مولانا مودودی کا یہ بیان کہ “سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل پر حکومت کرتے تھے” غلط ہے۔ کیونکہ وہ جس کتابِ سموئیل سے استنباط کرتے ہیں اس میں سموئیل کو قاضی کہا گیا ہے نہ کہ حاکمِ وقت۔
“وہ زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا اور وہ سال بہ سال بیت ایل اور جلجال اور مصفاہ میں دورہ کرتا اور ان سب مقاموں میں بنی اسرائیل کی عدالت کرتا تھا۔ پھر وہ رامہ میں لوٹ آتا کیونکہ وہاں اس کا گھر تھا اور وہاں اسرائیل کی عدالت کرتا اور وہیں اس نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا۔
جب سموئیل بُڈھا ہو گیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو اسرائیلیوں کا قاضی ٹھہرایا پر اس کے بیٹے اس کی راہ پر نہ چلے بلکہ وہ نفع کے لالچ سے رشوت لیتے اور انصاف کا خون کردیتے تھے۔
تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ ” دیکھ تو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے۔
سموئیل بنی بادشاہت کی اصل حقیقت سے واقف تھا لہذا اس کو اسرائیلی بزرگوں کی تجویز بہت بری لگی اور اس نے خدا سے شکایت کی۔ خدا نے کہا کہ تو ان کی بات ما ن لے البتہ ان کو جتا دے کہ بادشاہی کیا شے ہوتی ہے۔
” اور سموئیل نے ان لوگوں کو جو اس بادشاہ کے طالب تھے خداوند کی سب باتیں کہہ سنائیں اورا س نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے آگے دوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمع دار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اور اپنے رتھوں کے ساز بنوائے گا اور تمہاری بیٹیوں کو لے کر کُندھن اور باورچن اور نان ینپر بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو جو اچھے سے اچھے ہوں گے لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصہ لے کر اپنے خوجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکروں اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور تمہارے بھیڑ بکریوں کا دسواں حصہ لے گا تم اس کے غلا م بنا جاؤ گے۔”
مگر بادشاہت کی یہ نہایت سچی تصویر بھی اسرائیلیوں کو ان کی ضد سے باز نہ رکھ سکی اور و ہ کہنے لگے ” نہیں، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں جو ہمارے اوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے۔”
آخر مجبور ہو کر سموئیل نے ساؤل کو بادشاہ مقرر کردیا جو قبیلہ بنی یامین کے ایک ” زبردست سورما” کا بیٹا تھا۔
ساؤل نے اسرائیلیوں پر تیرہ سال (1025۔1012 ق۔م) بادشاہت کی لیکن سموئیل بنی سے اس کی کبھی نہیں بنی۔ آخر کار ساؤل کی حرکتوں سے خدا بھی ناراض ہو گیا اور خدا نے ساؤل کی موت کے بعد بادشاہت اس کی اولاد کے بجائے حضرت داؤدؑ کو سونپ دی جو ساؤل کے اسلحہ بردار تھے اور بنی اسرائیل کے سب سے بڑ ے قبیلے یہوداہ سے تلعق رکھتے تھے۔
ساؤل کے خدا کی طرف سے مامور بہ خلافت ہونے قصّہ قرآن شریف میں بھی موجود ہے البتہ تفصیلات بائبل سے قدرے مختلف ہیں۔
حضرت داؤد کو شہرت اس وقت ملی جب اُنہوں نے فلسطیوں کے پہلوان جالوت کو جس سے ساؤل کو کوئی سورما لڑنے کی جرات نہ کرتا تھا میدانِ جنگ میں قتل کر دیا۔ ساؤل کو یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا داؤدؑ میرے بعد تختِ شاہی کا دعوے دار بن جائے لہذا وہ داؤدؑ کی جان کے درپے ہو گیا لیکن داؤدؑ اس کے چنگل سے بچ نکلے۔ ساؤل کی موت کے بعد خدا نے داؤد کو اسرائیلیوں کا بادشاہ مقرر کردیا:
آخر کار اللہ کے اِذن سے اُنہوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کو چاہا اس کا علم دیا۔ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
اس طرح امامت اور خلافت کے عہدے جو ساؤل کے وقت میں جد اجدا منصب تھے ایک ہی شخص کو مل گئے۔ البتہ حضرت داؤدؑ کے بیٹے حضرت سلیمانؑ کے بعد امامت اور خلافت کے عہدے دوبارہ الگ کردیے گئے۔ شاید تجربہ کامیاب ثابے نہیں ہوا۔
عہدِ قدیم میں الوہی استحقاق کا ریاستی نظریہ ایک عالمگیر عقیدے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ کافر، مشرک اور مومن سب کا خیال تھا کہ ریاست کی سربراہی اور ریاست کے بنیادی قوانین عالمِ بالا سے نازل ہوتے ہیں۔ یعنی حاکمیت اور قانون کا مخرج و منبع ریاست کے باشندے نہیں بلکہ کوئی مافوق الفطرت طاقت ہے۔ وہی جس کو چاہتی ہے اقتدار عطا کرتی ہے اور جس کو چاہتی ہے اس نعمت سے محروم کردیتی ہے۔ رعایا کا فرض حاکمِ وقت کی اطاعت اور قوانین کی پابندی کرنا ہے۔
پروہتی راج کے نظریے ملوکیت کے دور میں بدستور رائج رہے کیونکہ ان کی تبلیغ و اشاعت بادشاہوں کے مفاد میں تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پروہت راج کے خاتمے کے بعد حالاتِ زیست میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ پرانا اقتصادی ڈھانچہ جوں کا توں رہا۔ نہ آلاتِ پیداوار بدلے نہ پیداواری رشتوں میں فرق آیا۔ پروہت راج میں زمین عبادت گاہوں کی ملکیت ہوتی تھیں۔ بادشاہی دور میں زمین بادشاہ اور امرائے سلطنت کی ملکیت بن گئی۔ کاشت کار، مزدور اور غلام ارسطو کے بقول “زندہ آلات” تھے سو زندہ آلات رہے۔ پرانا زرعی نظام بدستور قائم رہا۔ فقط آقا بدل گئے۔
یوں بھی زرعی نظام میں کوئی اور نظریہ رواج نہیں پا سکتا تھا کیونکہ زراعت پیشہ لوگ قدرت کے رحم و کرم پر ہوتے تھے۔ علم و شعور کی کمی کی وجہ سے وہ مظاہرِ قدرت کے اسباب و علل کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ بارش، سیلاب، خشک سالی، اولے پالے کسی پر ان کا اختیار نہ تھا۔ مذہبی پیشوا بھی ان کو یہی باور کراتے تھے کہ جو کچھ ہوتا ہے آسمانی طاقتوں کی مرضی سے ہوتا ہے لہذا لوگوں کی نظریں آسمان ہی کی طرف لگی رہتی تھیں۔ ان کی اپنی زندگی بھی حاکمِ وقت کی مرضی پر منحصر تھی۔ ان حالات میں لوگوں کو یہ یقین دلانا کہ ریاست اور ریاست کے قوانین آسمان سےاترتے ہیں زیادہ دشوار نہ تھا۔
مگر تھیو کریسی فیوڈل ازم کا ریاستی نظریہ ہی نہیں معاشرے کا ضابطہ حیات بھی تھی۔ پیدائش سے موت تک زندگی کا کوئی ایسا موڑ نہ تھا جس سے انسان مذہبی احکام ادا کیے بغیر گزر سکتا۔ ولادت کی رسمیں، مونڈن کی رسمیں، خواندگی کی رسمیں، مذہبی تیوہاروں کی رسمیں، بالغ ہونے کی رسمیں، منگنی اور شادی بیاہ کی رسمیں، تجہیزو تکفین کی رسمیں، جو مُردے کے جلانے یا دفن کرنے کے بعد بھی جاری رہتی تھیں۔ ان کے علاوہ غسل کرنے، دانت صاف کرنے، اٹھنے بیٹھنے ، کھانا کھانے، سونے حتٰی کہ عورت کے ساتھ ہم بستیری آداب بھی مقرر تھے۔ پوجا پاٹ کے قاعدے ان پر مستزاد تھے۔
تھیو کریسی کی افیون لیکن عوام ہی کا مقدر تھی۔ بادشاہ، شاہی خاندان کے افراد، اور امراء و رؤسا شرعی احکام پر بس واجبی واجبی عمل کرتے تھے۔ بادشاہ اپنے سوا کسی دوسری ریاست کے فرماں روا کے الوہی حق کو تسلیم نہیں کرتا تھا بلکہ موقع ملتے ہی اس پر لشکر کشی کردیتا تھا۔ شاہی خاندان کے افراد اور امرا بھی بادشاہ کے خلاف سازشوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے ورنہ زمین پر خدا کے نائب وقتاً فوقتاً قتل نہ ہوتے اور نہ شاہی خاندان بدلتے رہتے۔ کوئی زہر سے ہلاک ہوتا تھا کوئی آبِ شمشیر سے۔ اسرائیل کے اُنیس بادشاہوں میں سے آٹھ قتل ہوئے۔ قریب قریب یہی اوسط قیصرانِ روم کی ہلاکت کی بھی ہے جو دیوتا کہلاتے تھے۔ ایران کے قاچاری بادشاہوں میں فقط ایک کو قدرتی موت نصیب ہوئی۔ سلاطینِ دہلی کو بھی انہیں حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ خاندانِ غلاماں کے گیارہ میں پانچ بادشاہ قتل یا برطرف ہوئے، خلجیوں میں سے چھ میں سے چار اور تغلقوں میں نو میں سے پانچ پر یہی آفت آئی۔ سلطنتِ مغلیہ کے کل اٹھارہ بادشاہ تخت نشین ہوئے۔ ان میں آخری بارہ قتل اوربرطرف ہوئے یا اندھے کردیے گئے۔
ریاست اور رعایا کا مذہب جب تک ایک رہا شرعی قوانین کے نفاذ میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی لیکن ریاستیں جب سلطنتوں میں بدل گئیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رعایا بن گئے تو رعیت اور ریاست میں تصادم نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ مثلاً بنی اسرائیل خدائے واحد کے ماننے والے اور شریعتِ موسوی کے پابند تھے۔ اسرائیلی علاقوں پر جب رومیوں نے قبضہ کر کے اپنے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی تو اسرائیلیوں نے ان قوانین کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ نوبت کُشت و خون تک پہنچی۔ آخر طے یہ پایا کہ یہودیوں کے آپس کے مقدموں کا فیصلہ بدستور یہودی عدالتیں کریں البتہ سلطنت کے شہری ہونے کی حیثیت سے یہودیوں کو عام رومی قوانین کی پابندی کرنی ہو گی۔ اسی تجربے کی روشنی میں حضرتِ مسیحؑ نے اپنے ماننے والوں یہ مشورہ دیا تھا کہ ” سیزر کو اس کا حق دو اور خدا کو اس کا حق” اُنہوں نے ریاست کو مذہب سے جدا کردیا۔
دورِ حاضر کے بعض علمائے دین کو حضرتِ مسیحؑ کے اس قول پر سخت اعتراض ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست میں کسی مذہب کے پَیرو اگر اقلیت میں ہوں تو ریاستی قوانین کے بارے میں ان کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ برطانوی عہد میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی دوسروں کی طرح انگریزی قوانین کی پیروی کی اور حضرتِ مسیحؑ کے مشورے پر حرف بہ حرف عمل کیا۔ انگریزوں نے فوجداری کے ضابطے اور قوانین تو بلا لحاظِ مذہب و مِلت پورے ملک میں نافذ کر دیے البتہ سِول قوانین میں جن امور کا تعلق خالص مذہبی عقائد سے تھا ان کے بارے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے الگ الگ قوانین بنا دیے۔ مثلاً شادی اور طلاق، وراثت، اوقاف، عبادت گاہوں اور دینی درس گاہوں کی دیکھ بھال۔ آج بھی مسلمان اقلیت کی حیثیت میں ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکا، برما، تھائی لینڈ اور چین میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور کے لیے “سیزر کا حق” ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ملوکیت میں بادشاہ کا مذہب ریاست کا سرکاری مذہب ہوتا تھا اور قوانین بھی مذہبی احکام کے مطابق وضع ہوتے تھے لیکن اس تاریخی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مطلق العنان بادشاہوں کے عہد میں مذہب ریاست کے تابع ہو گیا اور ریاست کی سیاسی مصلحتوں کو شرعی احکام پر ترجیح دی جانے لگی۔ شرعی احکام اگر سیاسی مصلحتوں سے ہم آہنگ ہوتے تو ان سے کوئی تعرض نہ کیا جاتا مگر ریاست کی بنیادی حکمتِ عملی اور شرعی احکام میں اگر تصادم کی صورت پیدا ہوتی تو تنخواہ دار پادریوں، پنڈتوں اور مفتیوں سے ریاست کے حق میں فیصلے حاصل کر لیے جاتے تھے اور شرعی احکام کو نظر انداز کردیا جاتا تھا۔
تھیوکریسی میں سربراہِ مملکت اور مذہبی ادارے چکی کے دو پاٹ تھے عوام جن کے درمیان پستے رہتے تھے۔ دونوں کے اختیارات کا سر چشمہ خداکی ذات تھی یا احکامِ خداوندی۔ ” عوام کالانعام” مویشی تھے لہذا ریاست کے نظم و نسق میں ان کی کوئی آواز نہ تھی۔ ملک کا معاشرتی اور معاشی نظام کیا ہو۔ عنانِ اقتدار کن لوگوں کے ہاتھ میں ہو، طرزِ حکومت کیسی ہو، قانون کون وضع کرے، ان پر عمل در آمد کی کیا صورت ہو اور عدالتیں کس نوع کی ہوں ان تمام امور کا فیصلہ بحق سربراہ محفوظ تھا اور وہ کسی کے رُو برو جواب دہ نہیں تھا نہ کوئی اس سے باز پرس کر سکتا تھا۔
مذہبی پیشوا سربراہِ ریاست سے پورا پورا تعاون کرتے تھے اور اس تعاون کا خاطر خواہ معاوضہ پاتے تھے۔ کوئی قاضی بنتا تھا، کوئی مفتی اور محتسب۔ جن کو یہ عہدے نہ ملتے وہ عقیدت مندوں کو اطاعت و فرماں برداری کا درس دے کر اپنی دنیا اور ان کی عاقبت درست کرتے رہتے تھے اور وہ عالم فاضل بزرگ جن کو لکھنا آتا تھا ہماری دیدہ عبرت نگاہ کے لیے اپنی اطاعت گزار فہم و فراست کے ایسے ایسے نادر شاہ کار چھوڑ گئے ہیں کہ مسلمانوں نے اگر ان کے مشوروں پر عمل کیا ہوتا تو ترکی ، ایران اور مصر میں مطلق العنان ملوکیت آج بھی مسلط ہوتی اور الجزائر، لیبیا اور شام وغیرہ بدستور مغربی سامراج کے قبضے میں ہوتے۔
2
پروہت راج کے خاتمے کے بعد مذہبی پیشوا مشرق میں سیاسی اقتدار کے مالک کبھی نہیں ہوئے اور نہ اُنہوں نے کبھی تاج و تخت کی آرزو کی ۔ ہندو راجاؤں کے زمانے میں راج پاٹ کرنا دھرم شاستر کی رُو سے چھتریوں کا منصب قرار پایا اور برہمن پنڈتوں کا کام راجاؤں کو مشورے دینا اور دھرم کی حفاظت کرنا ٹھہرا۔ مسلمانوں میں بھی خلافتِ بنی اُمیّہ سے لے کر خلافتِ آلِ عثمان اور سلطنتِ مغلیہ تک کسی دور میں بھی مذہبی پیشوا ریاست کے سربراہ نہیں ہوئے۔ کلیسائے روم کی مانند یہاں کوئی مذہبی مرکز بھی قائم نہ ہو سکا جو بجائے خود ریاست ہوتا یا بادشاہوں کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنے کی جرات کرتا۔ اگر کسی مذہبی پیشوا نے ریاست کے غیر شرعی طرزِ عمل سے اختلاف کیا تو اس کو قتل یا قید کردیا گیا یا جسمانی اذیتیں پہنچا کر راستے سے ہٹا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے بارہ سال قید میں گزارے اور قید خانے ہی میں انتقال فرمایا۔ امام احمد بن حنبل کو ننگی پیٹھ پر کوڑے لگائے گئے۔ یہی سزا مدینے کے عباسی گورنر جعفر ابن سلیمان امام مالک کو دی جس سے ان کا کندھا اکھڑ گیا۔ قدری اور معتزلہ فرقے سوادِ اعظم کی نظر میں کافر تھے لہذا ان کے قتل میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور جب خلیفہ مامون رشید کے عہد میں ان کا ستارہ چمکا تو اُنہوں نے اپنے مخالف علما کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ان سے پیش تر ان کے ساتھ ہوا تھا۔ اشراقی صوفی اور عالمِ دین شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم سے شہید کیے گئے کیونکہ ان کی تعلیمات “اسلام کے لیے خطرہ ” تھیں۔ غرضیکہ اسلامی ریاستوں میں علمائے دین اقتدار سے منسلک ہو کر مختلف سرکاری خدمات بجا لاتے رہے یا دربار سے دور رہ کر مذہب کی تعلیم دیتے رہے مگر اُنہوں نے عملی سیاست سے اپنا دامن حتی الوسع پاک رکھا۔
اس کے برعکس مغرب میں مسیحی کلیسا بڑی طاقت ور سیاسی قوت بن کر ابھرا۔ رومتہ الکبریٰ کے غیر مسیحی عہد میں تو کتنے ہی پوپ اور پادری روم میں مصلوب ہوئے اور عیسائیوں کا خون بڑے بے دردی سے بہایا گیا شہنشاہ قسطنطین اوّل (274۔337) نے جب عیسائی مذہب اختیار کیا اور عیسائیت سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پائی تو کلیسا کا وقار بہت بڑھ گیا۔
پوپ کا دعویٰ تھا کہ وہ زمین پر یسوع مسیح کا خلیفہ ہے اور عیسائیت چونکہ سلطنت کا سرکاری مذہب ہے لہذا قوانین دین مسیحی کے مطابق و ضع ہونے چاہئیں اور عدالتیں مذہبی ہونی چاہئیں۔ دین مسیحی کی تشریح اور تاویل کا حق فقط پوپ کو حاصل ہے لہذا مقننّہ اور عدلیہ دونوں کلیسا کے اثر و اقتدار میں اسی نسبت سے اضافہ ہوا۔ پوپ کے مقرر کردہ پادری لاکھوں کی تعداد میں شہروں شہروں قریوں قریوں پھیل گئے۔ جس طرح ریاست میں عہدے داروں کی درجہ بندی ہوتی ہے اُسی طرح کلیسا مین بھی پادریون کے درجے مقرر ہوئے۔ کارڈنیل، آرچ بشپ، بشپ، گاؤں کا پادری، سب کو پوپ نامزد کرتا تھا اور وہ پوپ کے علاوہ کسی کا حکم ماننے پر مجبور نہ تھے۔ ان پر ریاستی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا بلکہ ان کی مذہبی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل در آمد کرنا حکومت کا فرض تھا۔ وہ اگر کسی نومولود کو بپتسمہ نہ دیتے تو وہ ذات سے باہر ہو جاتا تھا۔ اگر کسی کا نکاح نہ پڑھتے تو اس کی اولاد حق وراثت سے محروم کردی جاتی تھی۔ اگروہ کسی کی آخری رسم ادا نہ کرتے یا نمازِ جنازہ نہ پڑھتے تو اس کا مقام جہنم ہوتا۔ پادریوں کے سوا کوئی شخص بچوں کو پڑھا نہیں سکتا تھا نہ مدرسہ قائم کر سکتا تھا۔ کلیسا انسان کی پوری زندگی پر حاوی تھا۔
مگر کلیسا فقط روحانی طاقت نہ تھی بلکہ یورپ کا سب سے دولت مند اور سب سے بڑا جاگیر دار بھی رومن کلیسا ہی تھا۔ اسپین میں ملک کی چوتھائی زمین کلیسا کی ملکیت تھی۔ برطانیہ میں زمین کا پانچواں حصہ، جرمنی میں تیسرا حصہ اور فرانس میں نصف رقبہ کلیسا کے قبضے میں تھا۔ ضلع لانگرے کا بشپ پورے ضلعے کا مالک تھا۔ اٹلی کے شہر بولونیا کے دو ہزار گاؤں کلیسا کی ملکیت تھے۔ اسپین میں کلیسا64 قصبوں کا مالک تھی۔ فُلدا کی خانقاہ 15 ہزار گاؤں کی مالک تھی۔ سینٹ گال کی خانقاہ کے پاس دو ہزار چاکر تھے، شہر ٹور کے پادری کے پاس بیس ہزار چاکرتھے۔ یہ سب زمینیں معافی تھیں جن پر کوئی محصول نہ تھا اور نہ حکومت ان کے معاملات میں کوئی مداخلت کرسکتی تھی۔ ایک مورخ کے بقول ” فیوڈلزم نے کلیسا کو بھی فیوڈل بنا دیا تھا”۔ اس کے علاوہ اپنی آمدنی اور پیداوار کا دسواں حصہ کلیسا کو ادا کرنا ہر شخص کا قانونی فریضہ تھا۔ گرجا گھروں کو چڑھاؤں اور نذرانوں سے بھی وافر رقمیں وصول ہوتی تھیں۔ مزید برآں صاحبِ جائیداد افراد حتیٰ کہ مزار عوں سے بھی یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ مرتے وقت کلیسا کے نام کچھ نہ کچھ ترکہ ضرور چھوڑ جائیں ورنہ وہ بے دین تصور کیے جائیں گے اور جہنم میں جلیں گے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں جب وسطی اٹلی کا بہت بڑا علاقہ کلیسا کے قبضے میں آگیا تو کلیسا ایک خود مختار ریاست بن گئی اور پوپ ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے یورپ کی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے لگے۔
پوپ اور دوسرے بڑے پادری اطالوی ریاستوں کے شاہی خاندان سے چُنے جاتے تھے اور شاہانہ ٹھاٹ باٹھ سے رہتے تھے۔ وہ شادی نہیں کر سکتے تھے لیکن علانیہ داشتائیں رکھتے تھے اور ان کی اولاد شہزادوں کی سی زندگی گزارتی تھی۔ کلیسا کی دولت کا سر چشمہ زمینیں تھیں اور پادری بھی فیوڈل ماحول کے پروردہ ہوتے تھے لہذا ان کا قدرتی جھکاؤ فیوڈل عناصر کی جانب تھا۔ فیوڈل امرا کی طرح وہ بھی تاجروں اور صنعت کاروں کو بڑی حقارت سے دیکھتے تھے چنانچہ ان کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کی غرض سے سودی کاروبار کی سختی ممانعت کر دی گئی تھی۔
کلیسا روم کی پہلی ٹکّر فرانس، جرمنی، اسپین اور برطانیہ کے بادشاہوں سے ہوئی۔ بادشاہ پوپ کے روحانی اقتدار کو تو تسلیم کرتے تھے مگر پوپ کے اس دعوے کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ امورِ ریاست میں بھی پوپ کی اطاعت بادشاہوں کا فرض ہے۔ بادشاہوں کو کلیسا سے یہ شکایت بھی تھی کہ پوپ اور دوسرے بڑے پادری بادشاہ کے مقابلے میں نیم خود مختار نوابوں کی پُشت پناہی کرتے ہیں اور ان کو کلیسا کا عہدے دار بنا دیتے ہیں۔ چودھویں صدی میں کلیسا اور ملوکیت کے مابین نزاع نے اتنی شدت اختیار کی لی کہ فرانس کے بادشا ہ فلپ چہارم نے روم پر دھاوا کر کے پوپ کلیموں پنجم کو گرفتار کر لیا اور کلیسا کا صدر مقام شہر اَوِنیان میں منتقل کردیا۔ پاپائے روم کو وہاں ستر سال تک (1309۔1378ء) فرانس کی نگرانی میں رہنا پڑا۔ 1378ء میں اگرچہ پوپ رہا ہو کر روم واپس آیا لیکن کلیسا کا پرانا اثرو اقتدار پھر کبھی بحال نہ ہو سکا۔
مغربی مورخین کلیسا کے ہزار سالہ اقتدار کو ” عہدِ تاریک” سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے کہ وہاں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک تعصب ، تنگ نظری اور توہم پرستی کا اندھیرا چھایا رہا۔ کلیسا نے عقل و خِردپر پہرے بٹھا رکھے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کلیسائی عقائد سے سرِ مو اختلاف کر سکے۔ ہر جگہ مذہبی عدالتیں قائم تھیں جن کے فیصلوں کی داد تھی نہ فریاد چنانچہ لاکھوں بے گناہ بے دینی اور جادو گری کے جرم میں گرفتار ہوئے۔ ان کو ٹکٹکی پر باندھ کر پہلے کوڑے لگائے جاتے تھے پھر ان کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں۔ ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا تھا اور تب چتا میں جلا دیا جاتا تھا۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی جاتی تھی اور ان کا مال و متاع ضبط کر لیا جاتا تھا۔ یورپ کا ہر فردِ بشر، جس کو بادشاہوں کی براہِ راست سر پرستی حاصل نہ تھی مذہبی عدالتوں کے خوف سے کانپتا رہتا تھا۔
اس ہولناک ماحول میں علوم و فنون کیا ترقی کرتے۔ تعلیم کلیسا کی اجارہ داری تھی لہذا درس گاہوں میں فقط وہی علوم پڑھائے جاتے تھے جن سے کلیسائی عقائد کو تقویت ملتی۔ معقولات کی جگہ منقولات، درایت کی جگہ روایت اور اجتہاد کی جگہ تقلید۔ کسی استاد یا شاگرد کو شرعی احکام پر شک کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ کلیسا کی خرِد دشمنی نے ذہنوں کو مفلوج کردیا تھا اور کوئی شخص آزادی سے سوچ نہ سکتا تھا۔
لیکن قرونِ وسطیٰ کے آخری دنوں میں جب یورپ الخصوص اٹلی میں صنعت و حرفت اور تجارت نے ترقی کی تو حالات بدلنے لگے۔ کلیسا یورپ کا سب سے بڑا زمیندا تھا لہذا سرمایہ دار طبقے کے فروغ سے دوسرے فیوڈل عناصر کی طرح کلیسا کے مفاد و اقتدار پر بھی کاری ضرب لگی۔ وینس، فلورنس، جینوا اور مِلان بڑے خوش حال شہر تھے۔ وہاں تاجر پیشہ طبقوں کی جمہوری ریاستیں قائم تھیں۔ وینس میں لوہے، ریشمی کپڑوں، زردوزی اور شیشہ سازی کے بڑے بڑے کارخانے تھے۔ اس کے پاس دو سو تجارتی جہاز تھے جو مال لے کر مصر، تونس، ترکی اور اسپین تک جاتے تھے۔ فلورنس بھی بہت بڑی مندی تھا۔ وہاں اسّی بینک روپے کا لین دین کرتے تھے اور اونی کپڑوں کی تین سو فیکٹریاں تھیں جن میں تیس ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ جینوا میں کمخواب بنتا تھا اور طلائی کام ہوتا تھا ۔ غرضیکہ نوزائیدہ سرمایہ دار طبقے نے اٹلی کے سب ہی بڑے شہروں پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔
شہروں میں صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ کا اثر دیہاتی زندگی پر بھی پڑا۔ فیکٹریوں اور بندرگاہوں میں محنت کاروں کی مانگ بڑھی تو نوابوں اور پادریوں کی زمینوں سے بندھے ہوئے چیرے (زرعی غلام) بھاگ بھاگ کر شہروں میں پناہ لینے لگے۔ فلورنس نے اعلان کیا کہ ریاست میں پناہ لینے والا ہر زرعی غلام آزاد شہری تصور کیا جائے گا اور اس کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ دوسرے شہروں نے بھی زرعی غلاموں کی حوصلہ افزائی کی۔ نوابوں اور پادریوں کا طبقہ شہر کے نودولتیوں سے پہلے ہی نفرت کرتا تھا زرعی غلاموں کے بھاگنے کی وجہ سے سرمایہ دار طبقے کے تعلقات نوابوں اور پادریوں سے اور کشیدہ ہو گئے۔
اُنھی دنوں مغربی یورپ کے تجارتی مراکز میں بھی کارواری طبقے کی طاقت میں اضافہ ہوا اور بادشاہوں نے نوابوں اور پادریوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی خاطر سرمایہ داروں کی حوصلہ افزائی کی۔ برطانیہ میں لندن اور دوسرے کئی شہروں کو بلدیاتی اختیارات حاصل ہو گئے۔ البتہ یورپ میں کلیسا نے بلدیاتی اختیارات کی شدت سے مخالفت کی نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس میں کئی جگہوں پر شہریوں کو کلیسا سے باقاعدہ مسلح جنگ لڑنی پڑی۔ بہت سے پادری ہلاک ہوئے اور گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ آخر کار کلیسا کو شکست ہوئی اور مغربی یورپ کے بیش تر شہروں مثلاً مارسیلز، ہمبرگ اور ایمسٹرڈم وغیرہ کو بھی بلدیاتی حقوق مل گئے۔
مگر تجارتی مال و اسباب کی نقل و حرکت میں یورپ کی خود مختاری نوابیاں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔ ہر چند کہ نواب اپنے بادشاہ کی وفاداری کا دم بھرتے تھے لیکن نوابی کے اندر اُنھیں کا حکم چلتا تھا۔ ان کی اپنی عدالتیں، جیل خانے، پولیس اور فوج تھی۔ تاجروں کو ہر نوابی سے گزرتے وقت محصول ادا کرنا پڑتا اور نواب کو خوش کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً دریائے رھائن پر 62 چنگیاں تھیں، دریائے لوائر (فرانس) پر 74، دریائے اِلب (جرمنی) پر 35 اور دریائے ڈینوب پر 77۔ اگر کسی سوداگر کا مال اتفاق سے سڑک پر گر جاتا تو وہ بحق سرکار ضبط ہو جاتا۔ سرمایہ داروں اور نوابوں میں نزاع کا بڑا سبب چنگیاں اور دوسری ناجائز وصولیاں تھیں۔ سرمایہ داروں نے ان چنگیوں کو توڑنے کا مطالبہ کیا تو بادشاہوں نے ان کی حمایت کردی۔
اسی اثنا میں امریکا اور ہندوستان کے بحری راستے دریافت ہوگئے تو بین الاقوامی تجارت کی راہیں کھل گئیں مگر تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز اب اٹلی سے مغربی یورپ میں منتقل ہوگیا۔ امریکا اور ہندوستان سے تجارت کرنے کی غرض سے اسپین، پرتگال، ہالینڈ، فرانس اور برطانیہ میں نئی نئی تجارتی کمپنیاں قائم ہونے لگیں (ایسٹ انڈیاں کمپنی 1600ء میں قائم ہوئی تھی) نو آبادیاتی نظام کی داغ بیل پڑی اور جہاز سازی کی صنعت نے بہت ترقی کی۔
اسی دوران جرمنی میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا (1465ء) جس کے اثرات بہت دُور رس ثابت ہوئے۔ کتابوں اور رسالوں کی اشاعت سے پادریوں کی ذہنی اجارہ داری ختم ہو گئی۔ خواندگی میں بھی اضافہ ہوا اور لوگ کتابوں کے لیے پادریوں کے محتاج نہ رہے بلکہ اپنی مرضی سے جو کتاب چاہتے بازار سے خرید لیتے۔ ابھی تک تصنیف و تالیف بیش تر پادریوں کے حلقے تک محدود تھی۔ چھاپے خانوں کے قائم ہو جانے کے بعد وہ مصنف بھی منظرِ عام پر آئے جن کا تعلق کلیسا سے نہ تھا۔ ایسے رسالے بھی شائع ہونے لگے جن میں پادریوں اور راہباؤں کی بدچلنی اور دنیاوی حرص و ہوس کے قصے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے تھے۔
سائنسی ایجادیں اور دریافتیں بھی اسی زمانے میں شروع ہوئیں اور سائنسی اندازِ فکر و نظر کی داغ بیل پڑی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سائنسی نظریے اور ایجادیں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ ان کا گردو پیش کے حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ سب کچھ اتفاقاً ہو جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ گلیو کی دُور بین ہو یا نیوٹن کا کششِ ثقل کا نظریہ، بھاپ سے چلنے والے انجن کی ایجاد ہو یا برقی قوت کی دریافت، سب کے ٹھوس سماجی محرکات تھے۔ ان نئی سائنسی دریافتوں سے کلیسائی عقائد و افکار کے ایوان میں زلزلہ آگیا۔ کلیسا نے نظامِ بطلیموس کو اپنے مذہب کا جُز بنا لیا تھا۔ کوپرنی کس، گلیو اور کپلر نے ثابت کر دیا کہ زمین دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کلیسا کا دعویٰ تھا کہ زمین فرش کی مانند پانی پر بچھی ہوئی ہے۔ سائنس دانوں نے ثابت کردیا کہ زمین گول ہے اور اپنے محور پر گردش کرتی ہے۔ اسی طرح کلیسا کے دوسرے مفروضات واذغان کی نفی ہونے لگی اور انجیل کے تقدُس اور مسیحی تعلیمات کی صداقت کو شک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔
کلیسا اپنے عقائد یہ کھلی توہین برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ چنانچہ سائنس دانوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔ برونو کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا حالانکہ وہ پادری تھا ۔ گلیو پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اس نے توبہ کر لی مگر چپکے سے بولا کہ میں مانوں یا نہ مانوں زمین تو بہرحال گھومتی رہے گی۔ سائنس دانوں کی کتابیں نذرِ آتش ہوئیں اور ان کا پڑھنا اور رکھنا جرم قرار پایا لیکن صنعت کاروں نے سائنسی ایجادوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور سائنسی علوم کی مقبولیت برابر بڑھتی گئی۔
مارٹن لُوتھر، تھامس مونزر، زونگلی اور کالون کی مذہبی بغاوتوں نے بھی کلیسا کے وقار کو سخت صدمہ پہنچایا۔ یہ لوگ خود پادری تھے لیکن کلیسا کے جو روستم سے ان کا پیمانہ بھی چھلک اٹھا۔ پادری سادہ لوح عقیدت مندوں سے رقم لے کر جنت کے پروانے جاری کرتے تھے اور گنڈے تعویذیں بانٹ کر توہم پرستوں کو اپنے جال میں پھنساتے تھے۔ مارٹن لُوتھر وغیرہ نے پوپ سے ان بد عنوانیوں کو روکنے کی درخواست کی تو الٹے ان کو مذہب سے خارج کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی، شمالی یورپ، ہالینڈ، بلجیم، برطانیہ ہر جگہ پوپ کی مخالفت شروع ہو گئی اور پروٹسٹینٹ فرقہ وجود میں آیا جس نے کلیسا ئے روم سے بالکل قطع تعلق کرلیا۔ نئے فرقے کی بنیادی تعلیم یہ تھی کہ خدا اور انسان کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شخص کو اختیار ہے کہ انجیل اپنی زبان میں پڑھے، اپنی زبان میں عبادت کرے اور اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرے۔
ان معاشرتی اور مذہبی انقلابات کا اثر طرزِ حکومت پر بھی پڑا۔ ابھی تک ریاست پر فیوڈل عناصر کا قبضہ تھا مگر معاشرے میں طاقت کا توازن بدلا تو تاجروں اور صنعت کاروں نے نظم و نسق میں شرک کا مطالبہ شروع کردیا۔ اُنھوں نے شہریوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے عوام کے حقوق کا پیوند بھی لگایا۔ رومن کلیسا کو نیچا دکھانے میں پہل برطانیہ نے کی ۔ ہنری ہشتم (1506۔1547ء) نے روم سے ناتا توڑ لیا تھا۔ کلیسا کی جائیدادیں ضبط کرلی تھیں اور پادریوں کو درس گاہوں سے نکال دیا تھا لیکن فیوڈلزم کا ریاستی نظریہ الوہی استحقاقِ ملوکیت بدستور رائج تھا بلکہ ہنری ہشتم نے اس نظریے کی آڑ میں پوپ سے ٹکر لی تھی لیکن سترھویں صدی کا برطانوی معاشرہ سو سال پہلے کا معاشرہ نہ تھا۔ اب برطانوی پارلیمنٹ لندن کے تاجروں کے زیرِ اثر تھی۔ ان کو بادشاہ جیمس اوّل (1603۔1625ء) سے یہ شکایت تھی کہ وہ پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر ٹیکس لگا دیتا ہے، سرکاری قرضے لیتا ہے، لوگوں کو بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر قید کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے ملک میں مارشل لا لگا دیتا ہے۔ بادشاہ کا کہنا تھا کہ ” ہم خدا کی ناقابلِ تغیر مرضی و منشا کے حقیقی ترجمان ہیں لہذا ہمارا ہر عمل درست ہے اور تم کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے” لیکن پارلیمنٹ نے بادشاہ کے اُلوہی استحقاق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بادشاہ اور پارلیمنٹ کی اس نزاع نے آئینی بحران کی شکل اختیار کر لی۔ سوال یہ تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مرکز پارلیمنٹ ہے یا بادشاہ، جو خدا کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کا موقت یہ تھا کہ:
شہری آزادیاں، ذمہ داریاں، مراعات اور پارلیمنٹ کا حلقہ اختیار انگلستان کے باشندوں کا قدیم پیدائشی حق اور ورثہ ہے اور یہ کہ بادشاہ کی شخصیت ، مملکت کے اصول، قلمرو کا دفاع، مذہبی امور، قانون سازی، قوانین کا نفاذ اور شکایتوں کی تلافی، یہ تمام موضوعات پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے اور غوروفکر کے مناسب موضوعات ہیں”۔ (1621ء)
بادشاہ نے پارلیمنٹ کے ان مطالبات کو رد کردیا۔ پارلیمنٹ توڑ دی اور اس کے سات سر بر آوردہ ارکان کو قید کردیا لیکن تحریک نہ دبی بلکہ اس کے بیٹے چارلس اوّل (1625۔1649ء) کے عہد میں پارلیمنٹ اور بادشاہ کے نزاع نے بالآخر خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی۔ پانچ سال کی خوں ریزی کے بعد چارلس اول نے شکست کھائی۔ اس کا سر قلم ہوا اور برطانیہ ری پبلک بن گیا۔ اُلوہی استحقاق کا نظریہ بادشاہ کے خون کے ساتھ خاک میں مل گیا۔ 1688ء میں اگرچہ ملوکیت بحال ہوئی مگر فیوڈل عناصر نے برسر اقتدار سرمایہ دار طبقے سے سمجھوتہ کرلیا اور کسی نے پھر اُلوہی استحقاق کا نام نہ لیا۔ ملوکیت پارلیمنٹ کے تابع ہو کر آئینی ملوکیت ہو گئی۔
برطانیہ نے تھیو کریسی کو ختم کرنے میں سبقت کی لیکن بقیہ یورپ کو اس عمل کی تکمیل میں مزید سو سال لگے۔ اور تب انقلابِ فرانس نے تھیو کریسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ فیوڈل ازم کے تینوں ستون۔۔۔۔ ملوکیت، کلیسائیت اور نوابی۔۔۔ زمین پر آرہے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ رومن کلیسا کی خود مختار مملکت جو تھیو کریسی کا سب سے مضبوط قلعہ تھی فقط 109 ایکڑ زمین کی مالک رہ گئی۔ اب وہ روم کا ایک محلہ ہے جس کی آبادی کُل ایک ہزار ہے۔
سترھویں اور اٹھارویں صدی کو یورپ میں خرد مندی اور خرد افروزی کا عہد کہا جاتا ہے۔ اس دور میں صنعتی انقلاب اور سائنسی علوم کی ترقی کے باعث مغربی معاشرے کی کایا پلٹ گئی۔ عقل آزاد ہوئی اور سائنس دانوں ، فلسفیوں اور سیاسی مفکّروں نے قرونِ وسطیٰ کے فرسودہ عقائد و نظریات کے بخیے اُدھیڑ دیے۔ بیکن، ہابس، لاک، ملٹن، والٹیر، دیدرو، اولباخ، ایلوتیئیس، گے سندی، ڈیکارٹ، لامارتی، کانٹ، اسپائنوزا، لائبنیز، روسو، ہرڈر اور مانتسکیو جیسے روشن خیال دانش وروں کی تحریریں شوق سے پڑھی جانے لگیں اور جمہوریت، مساوات، نمائندہ طرزِ حکومت، تقسیمِ اختیارات، حُبِ بشر، سلطانی جمہور اور کمیونزم سوشلزم کا چرچا عام ہوا۔ دنیا سماجی انقلاب کے نئے دور میں داخل ہو گئی۔
تھیو کریسی کے آغاز اور عروج و زوال کے اس جائزے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تھیو کریسی کوئی ابدی اور مقدس نظریہ ریاست نہیں ہے بلکہ معاشرتی ارتقا کے ایک مخصوص عہد میں تاریخی ضرورتوں کے تحت وجود میں آئی اور جب یہ ضرورتیں باقی نہ رہیں تو تھیو کریسی کا بھی وہی انجام ہوا جو غلامی کا ہوا۔
تھیو کریسی پروہت راج اور فیوڈلزم کا نظریہ ریاست تھی۔ موجودہ دور میں جب صنعتی انقلاب کے باعث معاشرے کے حالاتِ زیست بدل گئے ہیں، سائنسی علوم نے تھیو کریسی کے تمام اذعان و مفروضات کا بھرم کھول دیا ہے اور فیوڈلزم کا چل چاؤ ہے تھیو کریسی کے احیا کی کوشش ارتقائے انسانی کو پیچھے کی طرف لے جانا ہے۔ تھیو کریسی جمہوریت اور جمہوری قدروں کی نفی کرتی ہے۔ تھیو کریسی معاشرے کو آگے لے جانے کے بجائے لوگوں کو ماضی کا سنہرا خواب دکھاتی ہے۔ تھیو کریسی سائنسی علوم اور سائنسی سوچ کی دشمن ہے۔ وہ اجتہاد کے بجائے تقلید اور تحقیق و جستجو کے بجائے منقولات اور روایت پرستی کی تعلیم دیتی ہے۔ تھیو کریسی خوف اور لالچ کی عفریتی قوتوں سے عقل و خرد کا گلا گھونٹنے کے درپے رہتی ہے۔ تھیو کریسی ظلمت پرستوں کا آخری حربہ ہے جو خدا کی حاکمیت کی آڑ میں تنگ نظر مُلاؤں کا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فیوڈلزم اورر فیوڈل قدروں کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو ان کے پیدائشی حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
حوالہ جات و حواشی
1 ۔ مسٹر جناح کا خطبہ مسلم لیگی ممبرانِ اسمبلی کے کنونشن میں 1964ء دہلی
2 ۔ قائداعظم محمد علی جناح۔ فروری1947ء
3۔Frederick Engels. Anti duhring. P.247
4 ۔ قدیم شہری ریاستوں پر ہم نے اپنی کتاب ” ماضی کے مزار” میں تفصیل سے بحث کی ہے۔
5۔Will Durant. Our Oriental Heritage, vol. 19, p. 147.201
6۔ کتابِ خروج۔ ب 12:24
7۔A, Buhier (ed.) Manu’s Smirti, oxford, 1886,pp,216-18
8۔Hemrich Zimmler, Philosophies of India, New york, 1953, p.97
9۔حضرت موسیٰ کی قومیت کے بارے میں مغربی مورخین میں بڑا اختلاف ہے۔ بعضوں کا (جن میں فرائڈ کا سا یہودی النسل مفکر بھی شامل ہے)ج دعویٰ ہے کہ موسیٰ عبرانی لفظ نہیں بلکہ قدیم مصری لفظ ہے جو ” اہموس” کا مخفف ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ موسیٰ دراصل وحدانیت پرست فرعون اخناطون کے درباری امیر تھے۔ اخناطون کی وفات کے بعد آمون رع کے پروہتوں نے موحدوں کا تختہ الٹا تو موسیٰ خدا پرست اسرائیلیوں کو ساتھ لے کر ترکِ وطن کر گئے۔
10۔قضاۃ۔ باب۔ 16،17
11 ۔ دیکھئے تفہیم القرآن ۔ جلد اول۔ ص 175۔176
12۔ کتاب سموئیل، باب۔ 15۔7 باب 5۔8
13۔ عشر کا دستور اسلام ہزاروں برس پہلے رائج تھا۔
14۔ کتابِ سموئیل ، باب 8:10۔ 18
15۔ سورۃ البقرہ، 225،226
16۔ ایضاً، 250
17۔ تفصیل کے لیے دیکھئے کیمیائے سعادت از امام غزالی اور حجتہ اللہ البالغہ از شاہ ولی اللہ۔