روبرو بادشاہ فرخ سیر کہ اُمیدوار فرزند کا تھا
درویش چہارم نے زار زار مانند ابر بہار رو کے حقیقت حال خیریت اِشتمال اپنی کے تئیں قلم زبان سے اوپر صفحہ بیان کے یوں نگارش کیا ؎
دن سے محشر کے نہیں عالم میں کم یہ ماجرا
یار سے غم کے نہ تنہا پست ہے روے زمیں
کام اس کے سے جہاں میں ہے جو کوئی کامیاب
گل گریباں چاک اور نالاں ہے جوے آبشار
کہہ نہیں سکتا جو کر گذرا ستم یہ ماجرا
پُشت نہہ افلاک کو کر دے ہے خم یہ ماجرا
زندگی کے شہد کو کر دے ہے سم یہ ماجرا
دے ہے باغ دہر کو اتنا الم یہ ماجرا
کہ جہاں پناہ سلامت! یہ بندہ خاکسار کہ بیچ حالت درویشی کے دیکھتے ہو، بادشاہ زادہ ملک چین کا ہے اور وہ شہریار عالی تبار سواے میرے کوئی اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہ رکھتا تھا۔ یہ فقیر پنج سالہ ہوا تھا کہ والد بزرگوار نے اس جہان فانی سے رحلت فرمائی اور وقت نزع کے برادر خورد اپنے کے تیں وصیت کی کہ فرزند عزیز موجب خود سالی کے لایق سلطنت کے نہیں ہے تا آنکہ وہ چشم چراغ کاشانۂ شہر یاری کا حد بلوغ کو پہنچے، ولی عہد اپنا تجھ کو مقرر کرتا ہوں کہ بیچ رتق و فتق مُہمات مالی و ملکی کے کوئی دقیقہ از دقایق نا مرعی نہ رہے اور دختر روشن اختر اپنی کو بیچ عقد ازدواج اس کی منعقد کیجو۔ اگر اوپر اس وصیت کے عمل کرے گا تو سلطنت خاندان ہمارے سے نہ جائے گی۔ یہ کہہ کر جان بحق تسلیم ہوا اور عمو میرا بجاے پدر کے سلطنت پناہ ہوا۔ مجھ کو فرمایا کہ بیچ حرم محترم کے پرورش ہووے اور باہر نہ نکلے۔ چنانچہ تا بہ سن چہاردہ سالگی ساتھ لڑکیوں بیگمات کے بیچ بازی اور لعبت پردازی کے مشغول تھا اور نامزد ہونا دختر عمو کا گوش زد میرے ہوا تھا، بخوشی و امیدواری بسر لے جاتا اور یہ شعر اکثر اوپر زبان کے لاتا ؎
نہ پہنچایا کبھی اس سر کے تیں اُس پاؤں تک ہرگز
گلہ مند اس قدر کیوں کر نہ ہوں ہم ان نصیبوں کے
اور مبارک نام ددا میرا صاحب فراست و سراپا کیاست کہ خدمت حضرت خُلد آرام گاہ کے میں زیادہ از حد معتمد بارگاہِ ظِل اللہ کا تھا، گاہ گاہے مردُم محل کو غافل دیکھ کر کے اُس کے پاس میں جاتا۔ وہ عزیز مہربانی بسیار و تلطُف بے شمار بیچ حق میرے کے مبذول کر کے بہ چشم حسرت میری طرف دیکھتا اور عُنفوان شباب پر نظر کر کے یہ شعر پڑھتا۔ شعر ؎
پھر گئی ایسی تری چاہ زنخداں کی ہوا
داغ دل کو خانۂ سینہ تر و تازہ رکھے
یوسف آ کر مصر میں بھولا ہے کنعاں کی ہوا
گل کے تیں شاداب رکھتی ہے گلستاں کی ہوا
اتفاقاً ایک روز ایک کنیز بے تمیز، سراسر ناچیز نے ایک سیلی میری گردن پر ماری۔ میں روتا ہوا مبارک پاس آیا۔ اُن نے از راہ شفقت کے مجھ کو بغل میں لیا اور کہا کہ چل تیرے تئیں بیچ خدمت عموے خوش خو کے لے جاؤں کہ قابل فرماں روائی اور لایق کشور کُشائی کے ہوا ہے تاکہ حق تیرا تجھ کو دے۔ چنانچہ ہمراہ مبارک ددا کے بیچ بارگاہ عمو جان کے گیا۔ اُن نے میرے تئیں دیکھ کے گلے لگایا اور باعث آنے کا پوچھا اور ددا میرے سے فرمایا کہ اے مبارک! فرزند دلبند جگر پیوند نے آج کیوں کر تصدیع کی۔ ددا نے عرض کیا کہ کچھ عرض رکھتا ہے۔ فرمایا کہ نامزد اپنے کو چاہتا ہوگا۔ اے مبارک بسیار مبارک۔ فرد ؎
بر تو ایں مجلس شاہانہ مبارک باشد
ساقی و مطرب و پیمانہ مبارک باشد
حکم والا صادر ہوا کہ منجموں کو طلب کرو۔ چنانچہ فی الفور بہ موجب ارشاد کے اہل تنجیم اُس شیطان الرجیم پاس آ کر حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے رمز و ایما سے پوچھا کہ بیچ اس آرزو کے ساعت نیک کب آوے گی کہ کار خیر سے فراغت حاصل ہو۔ نجومیوں نے دریافت مزاج کا کر کے بعد از تامل بسیار و تفکر بے شمار عرض کیا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت! تین برس تک قمر در عقرب ہے اور عطارد بیچ بُرج زُحل کے نازل ہے، بہ خیریت ارادہ کار خیر کو موقوف رکھا چاہیے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بعد از چہار برس کے روز عید ہوگا اور ساعت سعید خوب و خاطر خواہ آوے گی۔ بادشاہ نے طرف مبارک کے مخاطب ہو کے فرمایا کہ معلوم کیا۔ اب تو نور چشم و راحت جان کو بیچ محل کے لے جا تاکہ ساعت خوب آوے۔ بعد ازاں امانت اس کی سلامت و بے خیانت از راہ نیک دیانت کے دی جائے گی۔ پس مبارک اُٹھا اور میں رخصت ہو کے بیچ محل کے آیا۔ بعد تین روز کے عیش محل سے کہ فی الحقیقت زندان خانہ تمام عمر کا تھا، برآمد ہوا اور پاس مبارک کے آیا۔ مجھ کو دیکھ کر بے اختیار رویا۔ دریافت حال اُس کے سے میں نے مغموم اور مُتوحش ہو کر پوچھا کہ اے مبارک خیر ہے؟ اشعار ؎
محروم رہتا ہوں میں نظر بازیوں سیتی
شیریں کا کچھ قصور نہ تھا کوہ کن کے ساتھ
زیادہ ملوں میں یار سے گر دل کو تاب ہو
قسمت میں یوں لکھا تھا کہ خانہ خراب ہو
تب اُس مشفق شفیق بجان و دل رفیق نے کہا کہ کاش اُس روز میں تجھ کو حضور اُس ظالم بے رحم سِتمگار کج فہم کے نہ لے جاتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اس حرکت سے کیا واقع ہوا۔ کہا کہ جس وقت تو مجلس میں گیا اور اُمرا باپ تیرے کے نے تجھ کو دیکھا، سب از کہ تا مہ شکر بدرگاہ الٰہی بجا لائے اور کہا کہ صاحبزادہ ہمارا جوان ہوا اور قابل سلطنت کے ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ چند روز میں حق بہ مرکز قرار پاوے گا اور ہم لوگ ملازمان موروثی اپنے حق کو پہنچیں گے۔ یہ خبر بادشاہ کو پہنچی اور میرے تئیں خلوت میں بلا کر کہا کہ اس شریک سلطنت کو دفع کر۔ میں بیچ اپنے دل کے حیران ہوا کہ مبادا تجھ کو جی سے مارے ؎
کیونکہ ہو اس فکر میں مجھ کو قرار اب دیکھیے
سلطنت میں کچھ ملامت بھی نظر آنے لگی
لے چلا دل ہاے وہ غفلت شعار اب دیکھیے
کس طرح اس غم سے ہو صحبت برار اب دیکھیے
بہ مجرد سننے اس خبر وحشت اثر کے چشم اشک بار و دل بے قرار اور جان پر اضطرار ہوئی۔ بارے اس غلام مُرشد پرست و وفا سرشت نے کہا کہ خاطر جمع رکھ، ایک تدبیر میرے ضمیر عافیت پذیر میں آئی ہے کہ باعث نجات ذات بابرکات تیری کے ہوگی اور تو ان شاء اللہ تعالیٰ اِس آفت ناگہانی سے بیچ دار الامن شادمانی کے پہنچے گا۔ فی الفور اٹھ کھڑا ہوا اور مجھ کو اوپر مکان مسکنت والد بزرگوار میرے کے لے گیا اور تسلی افزاے دل وحشت منزل میرے کا ہوا۔ جس جگہ کہ کرسی حضرت ولی نعمت کی بچھی تھی اشارت نیک بشارت اُس کی سے متفق ہو کر کرسی کو اٹھایا۔ فرش کو دور کر کے قدرے زمین کھودی۔ ایک دروازہ نظر آیا کہ مُقفل ہے۔ کلید جیب اپنی سے نکال کر دروازہ کھولا اور نردبان سے آپ نیچے اترا اور مجھ کو بلایا۔ میں نے دریافت کیا کہ ان نے فکر میرا کیا اور یہیں ٹھکانے لگا دے گا۔ لا علاج کلمہ اوپر زبان کے جاری کر کے قدم نردبان پر رکھا اور کہا، فرد ؎
نہ کوئی دوست ہے اس جا نہ کوئی ہے ہمدم
کہ آسرا نہیں مجھ کو بغیر رب کریم
بھیتر اس مکان کے چار صُفے نظر پڑے کہ بیچ ہر ایک صُفہ کے دہ عدد خم بہ زنجیر طلا آویختہ کیے ہیں اور اوپر ہر ایک خم کے خشت طلائی اور تصویر میمون از زبرجد بٹھلائی ہیں اور ہر ایک خم پُر از اشرفی دھرا ہے اور درمیان ایک صُفہ کے ایک حوض ہے کہ جواہر الوان سے لبریز ہے۔ میں نے کہا کہ اے ددا! ان کے دیکھنے سے کیا ہوگا اور یہ کیا اسرار ہے؟ کہا حقیقت ان بندروں کی یہ ہے کہ باپ تیرا در ابتداے جوانی ساتھ ملک صادق کے کہ بادشاہ جنوں کا ہے، رابطۂ اتحاد و سررشتۂ وداد نہایت مستحکم رکھتا تھا اور قاعدہ یہ تھا کہ ہر سال تحفہ چند در چند از عطر و عنبر و بخور ہاے خوش بو واسطے اُس کے لے جاتا تھا اور کئی روز بیچ خدمت فیض درجت اس کے رہتا تھا۔ ملک صادق وقت مراجعت کے ایک میمون زبرجد اُس کو دیتا تھا اور بادشاہ لا کر بیچ اِس مکان کے رکھتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ حضرت جہاں پناہ! ہر مرتبہ تحفے چند در چند لے جاتے ہیں اور ایک میمون بے جان عوض اُس کے لاتے ہیں، کیا فائدہ؟ در جواب میرے تبسم کر کے فرمایا کہ کسی سے اظہار نہ کرنا خبر شرط ہے۔ یہ میمون کہ تو دیکھتا ہے، ہزار ہزار جن تابع و فرماں بردار ایک ایک کے ہیں و لیکن ملک صادق نے فرمایا ہے کہ جب تک چہلم میمون تمام نہ ہووے کوئی کام امداد ان کی سے نہ ہوگا۔ ہنوز یک سال میعاد میں باقی تھا کہ بادشاہ نے انتقال بہ ملک جاودانی فرمایا اور یہ راز سر بسر گرہ بند رہا۔ اب میری خاطر میں آتا ہے کہ تجھ کو لے کر ملک صادق کے پاس جاووں اور ایک میمون باقی ماندہ لا کر کچھ تماشا دیکھوں اور دکھلاووں کہ شاید اس وسیلہ سے ملک موروثی اپنا پاوے اور ہاتھ اس ظالم کے سے مارا نہ جاوے اور بادشاہ چین و ماچین کا کہلاوے اور ہاتھ اُس نا انصاف کے سے جانبر ہو کے بقیہ زندگانی بخوبی بسر لے جاوے۔ تب میں نے کہا کہ اس مقدمہ میں تو مختار ہے۔ بہتر ہو سو عمل میں لا۔ پس میرے تئیں وہاں سے لا کے بیچ محل کے پہنچایا اور آپ بیچ خرید عطر و عنبر کے مشغول ہوا۔ بعد فراغت کے بیچ خدمت عمو کے جا کر عرض کیا کہ اس کے تئیں بیچ صحراے ہولناک کے لے جا کر ٹھکانے لگا دوں تاکہ کوئی شخص واقف اِس اسرار کا نہ ہووے۔ عمو نے یہ بات سن کر بہت پسند کی اور پروانگی میرے لے جانے کی دی۔ آخر الامر مبارک میرے تئیں وقت نیم شب کے با تحفہ ہاے مسطور شہر سے لے نکلا۔ تا مدتِ یک ماہ طرف مشرق کے چلا جاتا تھا، ایک شب کو کہنے لگا کہ الحمد للہ و المنۃ لشکر جنیان نمودار ہوا اور میں منزل مقصود کو پہنچا۔ میں نے کہا کہ مجھ کو سواے تیرے اور کچھ نہیں نظر آتا۔ مبارک نے فی الفور سرمۂ سلیمانی بغل سے نکال کر میری آنکھوں میں کھینچا۔ بہ مجرد اثر سلیمانی سرمہ کے ایک خلقت انبوہ نظر آئی کہ ہر ایک خوشرو اور خوبصورت تھے، ساتھ مبارک کے در ہزل و مطائبہ مشغول ہوئے۔ رفتہ رفتہ تا بہ بارگاہ پہنچے اور داخل خیمہ کے ہوئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صندلی ہاے طرح طرح ہر مکان پر بچھی ہیں اور فُضلا و علما و ارکان دولت و اعیان مملکت جا بجا بیٹھے ہیں اور اوپر ایک کرسی مرصع کے بیچ صدر مجلس کے ملک صادق با تاج زر و چار قُب مروارید و تکیہ بر مسند بہ تزک تمام بیٹھا ہے۔ میں نے آگے جا کر با ادب تمام شرائط تسلیم و کورنش شاہانہ پیش پہنچائے۔ اُن نے از راہ مہربانی کے حکم بیٹھنے کا فرمایا۔ بہ موجب حکم کے کار پردازان نے طعام و شراب حاضر کیا۔ بعد فراغ طعام کے مبارک کو بلا کر از چگونگی حالات پوچھنا شروع کیا۔ مبارک نے تمامی سرگذشت بیان کر کے عرض کیا کہ بیچ حضور لامعُ النُور کے واسطے استدعاے مدد اور اعانت کے آیا ہے اور جو انعام کہ والد بزرگوار اس کے کو مقرر تھا، پاوے کہ میمون چہلم پورا ہو اور اس مظلوم بے کس کو بجز ذات فایض البرکات تمھاری کے کوئی مربی نہیں۔
جز بدرگاہت کجا آرم نیاز
آستانت قبلۂ آمال ماست
عموے نابکار اس سرگشتہ روزگار کا اوپر زندگی ناپائیدار اس دار پُر آشوب و شرار، فرمانبرداری اس کے سے راضی نہیں ہے، تا بہ سلطنت بہ مملکت چہ رسد۔ ملک صادق نے سننے اس ماجراے ہوش رُبا کے سے متامل ہو کے فرمایا کہ حقوق خدمت اور دوستی ابہت دستگاہ مرحوم و مغفور کے اوپر ذمہ دست والا ہمت ہماری کے زیادہ از حد ہیں اور یہ بے چارہ از خانماں آوارہ بیچ پناہ دامن دولت کے آیا ہے، حتی المقدور تغافُل و تکاسُل نہ ہوگا۔ بشرط ایک امتحان کے جو کچھ کہ چاہیے دوں گا، یہ اقرار کرتا ہوں اور ایک کام فرماتا ہوں۔ اگر بے خیانت از راہ درستی و راستی سر انجام پہنچائے گا، منزلت اور قدر اس کی زیادہ بادشاہ مغفور سے کروں گا۔ میں نے عرض کیا کہ جو کچھ کام اور خدمت لایق اس فدوی خاکسار و ذرہ بے مقدار کے ارشاد ہو بیچ تقدیم لوازم احتیاط و ہوشیاری اس کی سعادتِ کونین حاصل کرے گا۔ فرمایا کہ تو جاہل ہے، مُبادا خیانت کرے اور بیچ ایسی آفت کے گرفتار ہوے گا کہ مخلصی اس سے تا قیامت معلوم۔ میں نے عرض کیا کہ اگر شفقت ملک کی اوپر حال کثیر الاختلال اس مرغ بے پر و بال کے ہوگی تو خدا تعالیٰ سب آسان کرے گا اور میں بہ جان و دل کوشش فراواں بیچ عمل کے لاؤں گا۔ چنانچہ ایک کاغذ بغل سے نکال کر اور مجھ کو آگے بلا کے بیچ ہاتھ میرے کے دیا اور کہا کہ اس تصویر کو واسطے میرے پیدا کر کے لا اور وقت ملاقات کے یہ دو شعر میری طرف سے کہہ سنا، شعر ؎
سب جان بوجھ کر کے مری بے کلی میاں
ناحق کی یہ رُکھائی جو کرتے ہو ہم ستی
آخر کو ہوگا خون ہمارا تمھارے سر
کیا واسطہ تھا آ کے خبر کیوں نہ لی میاں
یہ بانکپن کی طرح نہیں ہے بھلی میاں
یہ بات ہم نے خوب طرح اٹکلی میاں
بعد اتمام اس خدمت کے جو کچھ کہ مدعا اور آرزو ہوگی زیادہ اُس سے پاوے گا۔ والّا جو کچھ خیانت کرے گا، خراب ہوگا۔ جس وقت کہ نگاہ میری اوپر تصویر پارچہ حریر کے پڑی از خود بے خود ہوا لیکن خودداری ضرور جان کر خدمتِ فیض درجت اُس کی سے مع مبارک ددا کے رخصت ہوا اور بیچ بادیۂ تلاش و تردد کے گرم پویہ ہو کر دیہ بدیہ، قریہ بہ قریہ، شہر بہ شہر، ملک بہ ملک متلاشی رہا اور محنت بسیار و رنج بے شمار کھینچ کر مایوس مطلق ہوا۔
بعد مدت مدید ہفت سال کے بیچ ایک شہر کے پہنچا کہ تمام مردُم سکنہ اس جگہ کے اسم اعظم الٰہی پڑھتے تھے اور کوئی متنفس خالی ازیں شغل نہ تھا، بہ مجرد داخل ہونے شہر کے ایک کور چشم عجمی ضعیف نظر آیا کہ در بدر گدائی کرتا ہے اور کوئی اس کو کچھ نہیں دیتا ہے۔ میرے تئیں تعجب آیا اور اوپر احوال پُر ملال اس کے رحم کر کے دست بہ جیب ہوا اور ایک دینار طلائی دیا۔ اُس نے کہا کہ اے مرد! معلوم ہوتا ہے کہ تو اہل اس شہر سے نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ فی الواقع مدت ہفت سال سے واسطے حصول مطالب کے نکلا ہوں اور صورت مطلوب کی نہیں دیکھتا ہوں۔ وہ پیر مرد دعا کہہ کر روانہ ہوا اور ہم بھی سیر کرتے ہوئے بیچ ایک مکان ویرانہ کے در آئے کہ عمارت وسیع و جاے رفیع تھی لیکن جا بہ جا شکستہ و افتادہ۔ نہایت عبرت سے میں نے کہا کہ سبحان اللہ ایک وقت کیا تیاری ہوگی اور اب کیا صورت ہے۔ ہم کہ داخل عمارت کے ہوئے، نسیم راحت بہ مشام جان ناتواں پہنچی اور ساتھی اپنے سے کہا کہ کیا بات ہو جو وہ گنج کہ بیچ تلاش اُس کی ایک مدت العمر سرگرداں مانند دانہ تسبیح کے ہو رہا ہوں، اس ویرانہ میں ہاتھ آوے۔ اس عرصہ میں وہ مرد اعمیٰ عصا زناں آ پہنچا اور اس مکان میں کہ زمین تحت عمارت کے تھی داخل ہوا۔ ایک آواز بیچ گوش ہوش میرے کے پہنچی کہ اے پدر! خیر ہے جو آج شتابی مراجعت کی۔ اُن نے کہا کہ اے فرزند! خدا تعالیٰ نے آج ایک جوان کو اوپر حال میرے کے مہربان کیا کہ ایک دینار طلائی خالص مجھ کو دیا۔ ایک مدت سے آرزو طعام لذیذ کی رکھتا تھا، سو خرید کر کے لایا اور واسطے تیرے پارچہ پوشیدنی جو کچھ کہ ضرور تھا، لے آیا۔ اگرچہ اوپر حاجت اُس جوان کے اطلاع نہ پائی لیکن بہ دل دعا واسطے حصولِ مطلب اُس کے کی اور اب تو بھی اُس کے حق میں دعا کر کہ دعا مظلوموں و مستمندوں کی بیچ جناب قاضی الحاجات کے مستجاب ہوتی ہے۔ میرے تئیں سننے اس احوال کے سے ایک رقت نے لیا اور چاہا کہ ایک مُشت درم اس کے تئیں دوں۔ جو خوب نگاہ کر کے دیکھا تو اصل تصویر کہ طومار میں تھی، بعینہ معاینہ کی۔ پس جوں ہی نظر میری اوپر اس گوہر مقصود کے پڑی، نعرہ مار کے بے ہوش ہوا۔ بعد ایک ساعت کے افاقت میں آیا اور کہا، شعر ؎
غم کے پیچھے راست کہتے ہیں کہ شادی ہوتی ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے، اب عید ہے
مبارک نے جو میرے تئیں اس حال سے دیکھا فی الفور بغل میں لیا اور پوچھا کہ تجھے کیا ہوا تھا کہ ایسا بے خود ہو گیا۔ ہنوز جواب نہیں دیا اور نظر طرف مقصد کے تھی کہ نازنین نے آواز کی کہ اے جوان! شرم خدا سے رکھ کہ الحیاء مِن الایمان سے بھی خبر رکھتا ہے کہ نہیں۔ میں فصاحت کلام اُس کی سے نہایت والہ و دیوانہ ہوا۔ مبارک اوپر احوال میرے کے بہ غایت دلبری و دلداری کرتا تھا لیکن حال اندرونہ کے سے مطلع نہ تھا۔ میں نے در جواب اُس کے کہا کہ اے نازنین! فرد ؎
جب سے کہ راہزن مرا وہ سیم بر ہوا
عاجز ہوا، غریب ہوا، در بدر ہوا
میں مسافر غریب ہوں، از وطن آوارہ، بے کس و بے چارہ۔ التماس یہ ہے کہ ایک لمحہ میرے تئیں بیچ خدمت بزرگ اپنے کے راہ دے۔ وہ پیر مرد پہچان کے میرے تئیں اندر لے گیا اور بغل گیر ہوا اور وہ سرو ناز بیچ ایک گوشہ کے پنہاں ہوئی۔ اس بزرگ نے سرگذشت میری پوچھی۔ میں نے ملک صادق کے ماجرے سے کچھ ذکر اور بیان نہ کیا اور کہا کہ اے پدر! میں ایک صورت تصویر کو دیکھ کر عاشق ہوا ہوں، اس سبب سے حیران و سرگرداں اور پریشان بصورت درویشاں پھرتا ہوں اور باپ میرا فرمانروا ملک چین کا ہے۔ یہ تصویر ایک سوداگر سے بہ عوض مبلغ خطیر ناگزیر لی ہے۔ دل اپنا سب تعلقات دُنیوی سے اُٹھا کر سیر ہر ملک و ہر دیار کا کیا تا ایں کہ بہ مقصد پہنچا ہوں۔ باقی اختیار تمھارا ہے۔ پیر مرد نے کہا: اے جوان نیک عنوان! فرزند دلبند میری گرفتار دام بلا اور مصیبت میں مبتلا ہے، کوئی بشر مجال نہیں رکھتا ہے کہ دست ہوس کا بیچ دامن وصال اُس کے مار سکے۔ میں نے باعث اُس کا پوچھا۔
تب اس پیر مرد اعمیٰ نے حقیقت احوال اس وجہ سے اظہار کیا کہ میں بزرگ زادہ والا تبار اس دیار ناہنجار کا ہوں۔ خداے تعالیٰ نے میرے تئیں یہ دختر ہمچو تابندہ اختر کرامت فرمائی کہ بیچ حسن و جمال اور غنج و دلال کے ثانی و نظیر نہیں رکھتی ہے۔ جس وقت کہ آوازہ حسن و خوبی اس کے کا افسانہ ہوا جس نے سنا دل سے دیوانہ ہوا۔ بیت ؎
باولے لاکھوں زلیخا سے پڑے پھرتے ہیں
کئی یوسف ہیں اسی چاہ زنخدان کے بیچ
اتفاقًا یہ مقدمہ گوش زد پسر فرماں رواے اس شہر کے ہوا۔ بہ موجب مضمون اس شعر کے ؎
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
در آید جلوۂ حسن از رہِ گوش
بساکیں دولت از گفتار خیزد
ز جاں آرام بر باید ز دل ہوش
اُن عزیز نے غائبانہ عاشق اور شیدا اس شیریں شمائل پر ہو کر اظہار بیدلی کا کیا۔ تب والد بزرگوار اس کا یعنی والی اس دیار کے نے میرے تیں خلوت میں بلا کر رضامند نسبت اور بیاہ کا کیا۔ بعد ازاں کہ ہر دو طرف سے کام نے سر انجام پایا، ساعت سعید اختیار کر کے علما و فضلا نے عقد ازدواج کا باندھا۔ بیچ شَب زفاف کے نوشہ نے چاہا کہ شرط مواصلت کی بجا لاوے اور گلشن جمال اُس کے سے گُل کامیابی کے چُنے۔ شعر ؎
دل جلے لالہ کے گلشن میں جب آتی ہے بہار
بلبل و قمری کو دام طوق دیتی ہے بتا
رنگ گُل کو آگ کے شعلے دکھاتی ہے بہار
مست دیوانوں کی زنجیریں تڑاتی ہے بہار
جوں ہی مرد و زن حجرہ سے باہر ہوئے کہ آواز نالہ و آشوب کی بلند ہوئی۔ سب نے متحیر ہو کے چاہا کہ دروازہ حجرے کا کھولیں اور اندر جا کے باعث اس خرابی کے سے مطلع ہوں، یہ بات ہرگز میسر نہ آئی۔ جب ہنگامہ برطرف ہوا اور شور و غل نے تسکین پایا اور دروازہ حجرے کا توڑ کر اندر داخل ہوئے، دیکھتے کیا ہیں کہ نوشہ کی گردن سر سے جدا ہے اور دولہن کف بہ لب بیچ خاک اور خون کے بے ہوش پڑی ہے۔ بہ مجرد دیکھنے اس حادثہ جانگداز کے شادی بہ منزلہ مرگ کے ہوئی۔ مخمس:
شرح اس غم کی زبان سیتی نہیں کی جاتی
لکھنے بیٹھے ہیں تو کاغذ کی پھٹے ہے چھاتی
شارحوں کے تئیں کچھ بات نہیں بن آتی
حالت اس دولہا دولہن کی نہیں لکھی جاتی
یوں قلم حرف کے آگے بہ زبان روتے ہیں
القصہ بادشاہ نے از روے غضب اور قہر حکم واسطے قتل دختر کے فرمایا۔ پھر اسی طرح سے از سر نو آشوب فتنہ و فساد نے سر اٹھایا۔ چنانچہ بادشاہ ترس جان کے سے خلوت نشین ہوا اور فرمایا کہ دولت سراے خاص سے ان کو بدر کریں۔ بہ موجب حکم قضا توام کے یہ بات فی الفور عمل میں آئی اور شُہرہ شہر میں ہوا۔ کنیزوں نے دختر کو لا کر گھر میں رکھا۔ جو قتل شاہزادے کا بہ سبب دختر بد اختر کے ہوا تھا، بادشاہ اور تمام ارکان دولت، دشمن جان اور مال میرے کے ہوئے۔ بعد فراغ تعزیت شہزادے کے اُمرا و نُدما و سائر عوام الناس اوپر قتل میرے اور قصاص دختر اور تاراج اموال کے مستعد ہوئے۔ ایک جماعت کثیر واسطے سر انجام اس کام کے تعین ہوئی۔ جس وقت کہ بیچ حوالی حرم سرا میری کے پہنچے، ناگاہ سنگ اور خشت در و دیوار اور عمارت بام سے برسنے صادر ہوئے۔ اس واردات سے ہر ایک نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی اور ایک آواز مہیب گوش زد بادشاہ کے ہوئی کہ دستِ تَعدّی اور ظلم و آزار اس گل عذار کے سے کوتاہ رکھ۔ والّا جو کچھ کہ بیٹے تیرے نے دوستی اس کی سے دیکھا تو دشمنی اس کے سے دیکھے گا اور بیماری سخت و آسیب واقع ہوں گے۔ چنانچہ حکم اعلیٰ صادر ہوا کہ ان کو گھر سے نہ نکالو اور تعدّی اور ستم سے باز آوو۔ حافظوں نے تلاوت قرآن اور عاملوں نے عمل اور صاحبِ افسوں نے منتر شروع کیے۔ چنانچہ سالہاے سال اسی نوع سے گذرتے ہیں ؏
دیو بہ گریزد ازاں قوم کہ قرآں خواند
اور میں بھی مفصل اس واردات سے مطلع نہیں ہوں۔ مگر ایک روز عاجزہ سے پوچھا تھا کہ تجھ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا اسرار ہے۔ در جواب کہا کہ اتنا معلوم ہے کہ بیچ شبِ زفاف کے شوہر میرے نے چاہا کہ مباشرت کرے، ناگاہ چھت مکان کی چِری اور ایک جماعت پیدا ہوئی۔ ایک تخت مُکلّف بہ جواہر درمیان حجرہ کے آیا اور ایک شخص اوپر اس کے با جمال دلفریب بیٹھا تھا، جماعت نے قصد قتل شہزادے کا کیا اور وہ تخت نشیں میری طرف متوجہ ہوا اور کہا۔ شعر ؎
کیونکہ اب رم کر سکو گے ہم ستی اے من ہرن
اے صنم تیرے جمال و خال اور ابرو کو دیکھ
اب تو ہم نے تم ستی باندھا ہے اپنا جیوڑا
اس سیہ کافر نے مسجد کو کیا ہے دیوہڑا
میں واہمہ سے غش میں آئی اور جان از قالب تہی کی اور معلوم نہ ہوا کہ یہ کون ہے۔ درمیان انسان کے اور اُن کے اتنا تفاوت پایا کہ پاؤں اس گروہ کے مانند پاؤں گوسفندوں کے تھے لیکن، بیت ؎
عشق میں ہند و ترک کے کچھ نہیں ہے بیوڑا
یاں منڈایا سر ہوا آزاد وہ باسیوڑا
پس اے جوان غریب و مہمان عجیب! اس وقت سے کہ مال و اموال میرا قبضہ و تصرف میرے سے باہر گیا اور آشناؤں نے کنارا پکڑا، خادم اور فرماں بردار جدا ہوئے۔ میں بیچ اس کنج ویرانے کے پڑا ہوں اور جس کسی نے کہ رفاقت نیک و بد کی دی اور جدا نہ ہوئی، یہ لڑکی ہے۔ اب کہ کارم بجاں و کاردم بہ استخواں پہنچا ہے بایں شکستگی احوال و دستیاری عصاے چوبیں سے گدائی کوچہ بہ کوچہ کرتا ہوں اور کوئی بدنامی کے باعث بھیک بھی نہیں دیتا ہے۔ فرد ؎
مارا زخاک کویش پیراہن ست برتن
آں ہم ز آب دیدہ صد چاک تا بہ دامن
بعد مدت کے خداے تعالیٰ نے تیرے تئیں اوپر حال ضعیف میرے کے مہربان کیا کہ طعام لذیذ کھایا اور دختر برہنہ تھی اُس کے کپڑے بنوائے۔ اگر خوف وخلل آسیب کا نہ ہوتا تو واللہ یہ عاجزہ بیچ کنیزی تیری کے دیتا اور باعث افتخار و سعادت اپنی کا جانتا۔ اب مُرتکب اس امر ناصواب کا ہونا مصلحت نہیں۔ ہر چند کہ میں نے اس قدر عجز و الحاح کیا کہ بیچ شرح اور بیان کے نہ آوے، وہ پیر مرد ہرگز راضی نہ ہوا بلکہ مُبالغہ اور مُکابرہ حد سے درگذرا اور وقت شام کا ہوا۔ میں اس بزرگ کو دعاے خیر کہہ کے بیچ کارواں سرا کے آیا۔ مبارک خوشی و شادی سے بیچ جامہ کے پھولا نہ سماتا تھا اور کہتا تھا اَلحمدُ للہِ وَالمنَّۃ کہ مقصد دلی پر فائز ہوئے۔ میں تخلل عشق سے بے خود و حیران تھا کہ واللہ اعلم بالصواب یہ مرد دختر اپنی کو مجھے دے یا نہ دے۔ اگر وہ نہ دیوے اور مبارک جو ملک صادق کے واسطے چاہتا ہے تو کس طور سے اس کو راضی کروں اور معشوقہ کو بیچ قابو کے لاووں اور بہ وصال جاناں کامیاب ہوں مگر شرارت جنوں سے نجات پاؤں یا نہ پاؤں۔ اور جو اس شہر میں سکونت اختیار کروں تو ملک صادق یہ بات سن کر واللہ اعلم کیا سلوک کرے۔ بیچ اس منصوبہ اور پیچ و تاب کے نہایت غرق و مشَوّش تھا۔ بارے علی الصباح بیچ بازار کے جا کے لباس فاخرہ واسطے دختر کے اور واسطے اس پیر مرد کے خرید کیا اور میوہ ہاے گوناگوں اور غذاہاے لطیف لے کر بیچ خدمت اس خضر گم گشتگان بادیۂ ناکامی کے پہنچا۔ ان نے نہایت مہربانی اور تَلَطُّف اوپر حال خُسراں مال میرے کے کیا اور فرمایا کہ اے عزیز! تیرے تئیں جان سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ مبادا مفت مارا جاوے تو حسرت قیامت تک باقی رہے۔ میں نے عرض کیا کہ اے پِدر مہربان! ایک مدت سے با دِل بریاں و دیدۂ گریاں رنج غربت کشیدہ و مصائب سفر دیدہ از شہر بہ شہر و دیہ بہ دیہ و صحرا بہ صحرا و کوچہ بہ کوچہ حیراں و سرگرداں ہو کر اوپر سرچشمہ وصال اِس نونہال کے پہنچا ہوں۔ فرد ؎
کے از دست خواہم رہا کردنش
کنونم کہ باشد بہ کف دامنش
القصہ تا مدت یک ماہ بیچ خدمت اس پیر ہدایت مَصِیر کے دوڑا اور کوئی دقیقہ بیچ عجز و انکسار کے باقی کے نہ چھوڑا تا آنکہ وہ مرد کامل سخت بیمار و کاہل ہوا اور مجھ سے فرمایا کہ ہر چند منع کرتا ہوں اور تو دست ہوس کا دامن اس آرزو کے سے کوتاہ نہیں کرتا ہے۔ خوب، آج مصلحت دختر سے کروں گا، دیکھیے کیا کہتی ہے۔ میں سننے اس مژدہ راحت افزا سے بہت خوش وقت ہوا اور آداب بجا لا کے رخصت ہوا۔ تمام شب مارے خوشی کے نیند نہ آئی۔ علی الصباح خوش و خرم بیچ خدمت اُس بزرگ کے آیا۔ اُن نے فرمایا کہ اے جوان! میں نے دختر اپنی تجھ کو دی اور اس کو اور تجھ کو بخدا سپرد کیا۔ پس جب تک کہ دم باقی ہے میرے پاس حاضر رہ، بعد ازاں جو کچھ کہ چاہے عمل میں لائیو، مختار ہو۔ بعد چند روز کے جو اُس پیر صاحبِ تدبیر نے اس جہان فانی کو لبیک بہ داعی اجل گفتہ وداع کیا اور داغ مہاجرت کا اوپر ہمارے چھوڑا۔ تجہیز و تکفین اس کی سے فراغت پا کے مبارک دختر کے تئیں چادر اُڑھا کر بیچ کارواں سرا کے لایا اور میں نے چاہا کہ نیچے قدم اس معشوقہ دِلنواز کے سر اپنا ڈالوں۔ مبارک نے کہا کہ اے عزیز! ملک صادق سے اندیشہ کر کہ تمام یہ محنت و مشقت سالہا سال کی رائیگاں جائے گی۔ میں نے سننے اس نصیحت کے سے کنارا کیا۔ مبارک نے واسطے تسلّی اور تسکین میری کے کہا کہ اس امانت کو سلامت بیچ حضور ملک صادق کو پہنچادیں۔ اگر وہ از راہِ عنایت کے تیرے تئیں مرحمت فرماوے تو بڑا لطف ہے والّا ہاتھ اُس بادشاہ جنوں کے سے جانبر نہ رہے گا۔ بارے دو شتر اور کَجاوے خرید کر کے روانہ منزل مقصود کے ہوئے اور بعد مدت مدید کے قریب آپہنچے۔ ایک آواز ہنگامہ و شور کی مسموع ہوئی اور مبارک نے کہا کہ فوج جنات کی آئی اور الحمد للہ کہ محنت بہ راحت مبدل ہوئی۔ چنانچہ مبارک نے ملاقات کر کے پوچھا کہ آنا تمھارا کیوں کر ہوا۔ کہا کہ جس وقت خبر شاہ کو پہنچی کہ معشوقہ تمھارے ہاتھ آئی، ہم کو تعینات کیا کہ بہ محافظت تمام در ہر منزل و مقام، گام تا گام، مدام ہم عناں ہو کے چلے آؤ۔ اب کہ نزدیک تر پہنچے ہیں، اگر کہو تو ہم ایک لمحہ میں پہنچا دیں۔ مبارک نے کہا: اگر نازنین کو از راہ وحشت کے کچھ آسیب پہنچے تو محنت سالہا رائیگاں ہو جائے اور مورد عتاب و خطاب شاہ کے ہوویں گے، جلدی خوب نہیں۔ سب نے در جواب کہا ؏
صلاح ما ہمہ آنست کاں صلاح شماست
پس شب و روز با محن و سوز چلے جاتے تھے کہ ایک رات مبارک نے از بس بیداری سے بستر خواب کا گرم کیا اور میں نے اپنے تئیں زیر قدوم میمنت لزوم اس سر تکیہ ناز کے پہنچایا، گریہ و زاری اور عذر خواہی بسیار و نہایت بے قراری درمیان لا کر کہا کہ اے نازنین مہ جبین، باعث آرام خاطر غمگیں! ؏
قسم بجانت کہ بر نہ دارم سرِ ارادت زخاک آں پا
جس روز سے کہ صورت تیری دیکھی مبتلا زلف دل آویز کا ہوا ہوں، دام الفت میں گرفتار ہوں۔ در جواب اس نے فرمایا کہ شہر وطن مالوف میرے سے قصد اس طرف کا کیوں کیا۔ میں نے کہا کہ خوف تظلم بادشاہ کے سے چل نکلا۔ تب کہا کہ چشم کرم کی خدا تعالیٰ سے رکھا چاہیے کہ جو کچھ چاہے سو کرے، لیکن اے جوان! میں نے بھی دل اپنا بیچ وفا اور دوستی تیری کے باندھا ہے، چاہیے کہ بیچ کسی حال کے مجھ سے غافل اور فراموش نہ رہ۔ چنانچہ سخت زار زار مانند ابر بہار کے روئی اور مبارک اوپر اس حال کے مطلع ہو کر نہایت غمگین ہوا اور کہا کہ ایک روغن میرے پاس ہے، وہ بیچ بدن اس گلبدن کے لگاؤں گا کہ ملک صادق نفرت کرے گا اور معشوقہ تیرے ہاتھ آوے گی۔ یہ بات سن کر نہایت خوش ہوا اور شکر الٰہی و حقوق خدمت مبارک کا ادا کیا اور بیچ خواب غفلت کے سو رہا۔ صبح کے وقت ایک آواز جنوں کی سامعہ افروز ہوئی اور میں نے دیکھا کہ چند کس واسطے طلب ہماری کے آئے ہیں اور دو خلعت فاخرہ لائے ہیں اور ہودج زرنگار مزین بہ جواہر آبدار واسطے اس گلعذار کے ہمراہ ہے۔ مبارک نے فی الفور روغن بدن میں اس معشوقہ کے لگایا اور اس ہودج پر سوار کیا۔ جنیاں وہیں حضور میں لے گئے اور ہمارے تئیں تحسین و آفریں کر کے امیدوار انعامات بیش از احاطہ بشری کا کیا۔ شعر ؎
کیا کہوں اپنے دلسِتاں کی طرح
پھر نہ آیا، گیا جو جاں کی طرح
جب وہ صنم حضور ملک صادق کے گئی، نہایت پر ملال و سراپا رنج و نکال اور حال سے بے حال تھی۔ بوے ناخوش روغن کی بیچ دماغ ملک صادق کے پہنچی، برہم ہو کر باہر آیا اور ہم کو بیچ حضور کے بلایا اور مبارک سے فرمایا کہ اے مرد! شرط بجا نہ لایا اور کہا تھا کہ خیانت نہ کروں گا۔ پس یہ بدبو روغن کی کیا ہے؟ یہ بات کہہ کر مورد عتاب و خطاب کا کیا۔ مبارک نے فی الحال بند شلوار کا کھول کر اندام نہاں اپنا دکھایا اور کہا کہ حضرت سلامت! غلام جس وقت مامور اوپر اس امر خطیر کا ہوا اسی وقت رجولیت اپنی کاٹ کر اور حوالہ خازن ملک کی کر کے اور اندک مرہم سلیمانی لگا کے بعد از فرصت رو براہ ہوا۔ تب ان نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ معلوم ہوا کہ یہ خیال محال تیرے سر میں ہوگا، جو یہ امر شنیع بیچ ظہور کے لایا، دیکھ تو تیرا کیا حال کرتا ہوں اور اس قدر غصہ کیا کہ میں تاب نہ لا سکا اور آگے دوڑ کر مبارک کی کمر سے خنجر لے کر اوپر ملک صادق کے مارا۔ بہ مجرد اس عمل کے میرے پیروں پر جھکا۔ میں نے متردد اور متفکر ہو کر معلوم کیا کہ ضربت نے کام پورا نہ کیا کہ اتنے میں وہ یکایک روے زمین پر لوٹ کر مانند گیند ہوا اور طرف ہواے آسمان کے اڑا اور نظر سے غائب ہوا۔ بعد ایک لمحے کے ہواے فلک سے نیچے آیا، مانند رعد کے جوشاں و خروشاں اور مانند برق کے جہندہ۔ پاس میرے آ کر ایک لات ماری کہ میں بے ہوش ہوا۔ جس وقت کہ ہوش میں آیا بیچ جنگل سخت کے پایا کہ بغیر از ریگ بیاباں و مغیلاں کے کچھ اور نہ تھا۔ ایک آہ سرد دل پر درد سے بھر لایا اور مانند مجذوبوں کے صحرا نورد و دشت پیما بادیہ ضلالت و ناکامی کا ہوا اور جس کسی سے مکان ملک صادق کا پوچھا نشان نہ پایا، احوال میرا مطابق مضمون اس شعر کے ہوا۔ شعر ؎
نام لیلی کا دم بہ دم لے لے
اُن ڈبائی ہے میرے دل کی ناو
مارتا ہے جنگل میں مجنوں سر
زلف ہے جس پیارے کی لنگر
لا چار مایوس ہو کر چاہا کہ اپنے تئیں ہلاک کروں، یہ سوچ اوپر اس کوہ کے پہنچا کہ یہ درویش جہاں پہنچے ہوئے تھے اور بادشاہ اس عابد کے سے بیچ اس مکان کے آیا اور تم بزرگوں سے مشرف ہوا۔ اب بیچ خدمت بادشاہ کے ملازمت کیمیا خاصیت حاصل کی۔ آگے دیکھے کہ خواست الٰہی کیا ہے۔
جس وقت کہ سرگذشت درویش چہارم کی تمام ہوئی ناگاہ ایک غلغلہ شادی کا حرم سراے شاہی سے بلند ہوا۔ خواجہ سرایان ڈیوڑھی خاص محل خبر لائے کہ تولد فرزند نونہال چمن شہر یاری مبارک باد۔ فرخندہ سیر اس خبر بہجت اثر سے نہایت خرم و دل شاد ہوا اور فرمایا کہ ظاہر میں تو کوئی بارور نہ تھا، اہل حرم سے دریافت کرو کہ مژدہ راحت افزا کہاں سے سامعہ افروز ہوا۔ عرض کیا کہ فلانی سہیلی کہ مورد عتاب کی ہوئی تھی اور ایک مدت سے داخل مغضوبوں کے ہو کر بیچ عافیت کے مخفی تھی اور مجراے پابوسی سے محروم رہتی تھی اور کوئی ترس اور بیم جاں سے خدمت اس کی نہ کرتا تھا اور متحیر تھی کہ انجام حمل اس کے کا کیوں کر ہو اور کیا ہوگا۔ فرد ؎
نہ ہووے کام دل کا کیونکہ حاصل عجز و خواری سے
کہ دانا سبز ہو افتادگی اور خاکساری سے
الحمد للہ والمنۃ کہ گلبن عصمت و بختیاری کے سے گل مراد کا شگفتہ ہوا اور بادشاہ خدمت ہر چہار درویش دل ریش کے سے رخصت ہو کر اندرون محل کے تشریف لایا اور اس گل گلشن حسن و لطافت بغل میں لے کر بوسہ اوپر پیشانی اُس کے دیا اور بیچ پاے درویشوں کے ڈال کر کہا کہ از قدوم بہجت لزوم تمھارے سے یہ دولت غیر مترقب میسر آئی، شعر ؎
جوانی بیچ زور عشق نے جب پیر کر ڈالا
قیامت سحر ہے اس شاہ خوباں کی نگاہوں میں
مرا قد بار غم نے حلقۂ زنجیر کر ڈالا
ہمارے ملک دل کو دیکھیے تسخیر کر ڈالا
اور بیچ عیش محل کے لے جا کر دائی ہاے صاحب ذکا کے تئیں سپرد کیا اور جشن نو روزی اور شادی عید جمشیدی کرکے داد عیش و نشاط کی دی اور لشکر کو ساتھ داد و دہش فراواں کے سرفراز و بے نیاز کیا اور سہ سال محصول رعیت کو معاف فرمایا اور بندیوانوں کے تئیں قید سے چھوڑا اور کہا، فرد ؎
نو بہار آئی ہے، پابندوں کی زنجیروں کو توڑ
فصل گل میں نئیں گوارا ان کو زنداں کی ہوا
اس عرصہ میں پھر ایک آواز خلل کی محل خاص سے ایسی ہی آئی کہ ایک عالم کانپ اٹھا اور بیچ ورطہ تحیر و گرداب تفکر کے حیران رہے۔ خبر اندرون محل سے آئی کہ جس وقت شہزادہ بلند اقبال کے تئیں بیچ کنار دایہ بلند پایہ رونق افزا کیا، ایک ابر تیرہ غیب سے نمودار ہوا اور دایہ کو مع شاہزادہ احاطہ کیا۔ بعد ارتفاع اس دود حیرت آمود کے دایہ بے ہوش اور طفل ناپیدا ہوا۔ بہ استماع اس سانحہ عجیب و واقعہ غریب بادشاہ اور جملہ حاضران متحیر اور متعجب ہوئے اور کہا، بیت ؎
کیوں نہ ہو اس دکھ سے ہم کو بے قراری الغیاث
ہے ترے تیر نگہ کو زخم کاری الغیاث
القصہ بعد دو روز کے شاہزادہ کو باگہوارہ زریں و مرصع و گہوارہ پوش معہ جھالر مروارید و خلعت فاخرہ پنھا کر بیچ دولت خانہ حضرت ظل اللہ کے لائے۔ دیکھنے اس عجائب و غرائب کے سے جمیع خادمان محل نے مانند گل کے شگفتہ اور مانند تصویر کاغذ کے متحیر ہو کر کہا کہ یا الٰہی! یہ کیا اسرار ہے۔ بادشاہ نے ایک عمارت نوکار مطبوع و دلکش واسطے درویشوں کے متصل خاص محل کے تیار کروائی اور اکثر اوقات بعد از فراغ امور مملکت جلیس ہمدم و انیس دل پر غم درویشاں دل ریشاں کا رہتا۔ چنانچہ ہر مہینہ میں ایک دفعہ ابر تیرہ آتا اور شاہزادے کے تئیں بدستور مذکور لے جاتا اور بعد دو سہ روز کے باخوان ہاے لطیف و کسوت ہاے منیف کہ چشم مردم کی دیکھنے اس کے سے خیرہ ہوتی تھی لے آتا۔ تا آنکہ سن شریف اس کا بہ ہفت سالگی پہنچا۔ بادشاہ اور درویشوں نے مصلحت باہم کی اور ایک عریضۂ نیاز بدیں مضمون لکھا کہ اگر ایں حیرت زدگان را از راہ شفقت و الطاف بلا اکناف کے ورطہ حیرت اس امر عجیب کے سے اوپر ساحل آگاہی کے لا کر اطلاع بخشو گے، بعید از توجہات و مہربانی نہ ہوگا ؎
بہت ہے عشق میں تیرے ہمیں خوشی کی ہوس
اگر زمیں پہ بہشت بریں ملے ہم کو
نکالیں کس طرح اے جان اپنے جی کی ہوس
نہ جائے تو بھی مرے دل سے اس گلی کی ہوس
یہ لکھ کر بیچ گہوارہ شہزادہ کے رکھ دیا اور شہزادہ بہ طریق معہود کے غائب ہوا۔ جس وقت آفتاب عالمتاب بیچ آرام گاہ مغرب کے گیا اور شاہ زریں کلاہ انجم سپاہ ماہ کا اوپر تخت زمردگوں آسمان کے جلوہ افروز ہوا، فرخندہ سیر بیچ صحبت درویشوں کے ہم جلیس و ہم کلام تھا کہ ناگاہ ایک کاغذ بیچ دامن بادشاہ کے آن پڑا۔ دیکھا تو لکھا تھا کہ “ہمارے تئیں مشتاق طاق تصور کر کے تخت پر کہ واسطے سواری کے بھیجا ہے، سوار ہو کر تشریف ارزانی فرماؤ کہ جشن عالی ترتیب دیا ہے اور منتظر قدوم میمنت لزوم تمھارے کا ہوں کہ جاے شما خالی است۔” بہ مجرد پڑھنے خط کے اور ملاحظہ تخت کے بادشاہ مع درویشاں سوار ہوا۔ تخت کو مانند تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے باد صبا اوپر دوش اپنے کے لے اُڑی اور یے پانچوں شخص بے ہوش ہوئے اور یہ شعر بہ زبان دُر بیان خندہ سیر کی سے سرزد ہوا۔ اشعار ؎
اٹھا سر پر بلاے آشنائی
ملے کیوں کر نہ حسرتؔ دلبروں سے
ہوا ہوں مبتلاے آشنائی
ہے اس کا دل فداے آشنائی
وقت ہوشیاری کے اپنے تئیں ایسے مکان پر پایا کہ تمام عمر میں نہ دیکھا تھا اور نہ کسی سے سنا تھا۔ کسی نے کہا کہ ان کی آنکھوں میں سرمہ سلیمانی کھینچو۔ بہ مجرد اس عمل کے دو چار قطرے آنکھوں سے گرے اور ایک جماعت پریوں کی نظر پڑی کہ واسطے طلب کے آئیں تھیں۔ کہا کہ ملک شہبال بن شاہ رُخ نے حضور طلب کیا ہے۔ فرخندہ سیر بہ رفاقت درویشاں روانہ ہوا۔ دیکھا کہ تخت مرصع اور کرسی جڑاؤ متعدد بچھی ہیں اور فوج فوج پری زاد دست بستہ استادہ ہیں اور شہبال بن شاہ رُخ اوپر تخت مرصع تکیہ لگائے بہ تزک تمام بیٹھا ہے اور ایک پری زاد ہفت سالہ بیچ حضور کے بیٹھی ہے اور ساتھ شاہزادہ بختیار بن فرخندہ سیر کے بیچ لہو لعب کے مشغول ہے۔ ملک شہبال بہ مجرد دیکھنے کے اٹھ کر بغلگیر ہوا اور اوپر تخت کے پاس اپنے بٹھایا اور کرم اور نوازش بے اندازہ کرمت فرمائی اور تمام روز بیچ عیش و عشرت اور راگ و رنگ کے گذرا۔ روز دوم جس وقت کہ خسرو گردوں کا بیچ اسپک نیلگوں سپہر کے رونق افزا ہوا، ملک شہبال نے حقیقت احوال فرخندہ سیر کی اور باعثِ رفاقت درویشوں کا استفسار کیا۔ چنانچہ بادشاہ عالی جاہ نے مفصل کیفیت ہر چہار شخص کی کہ بہ منزلہ اربعہ عناصر کے متفق تھے، حواس خمسہ اپنے کے تئیں درست کر کے گزارش کیا اور کہا کہ اگر سعی و توجہ خود بدولت و اقبال کے سے یے مظلومان بے چارہ از خانماں آوارہ، گرم و سرد زمانہ کشیدہ و رنج و راحت دہر چشیدہ کہ بہ دامنِ دولت مستفیض و مستفید ہوئے ہیں، مطلب اور مراد کو پہنچیں تو بعید از بندہ پروری و مسافر نوازی نہ ہوگا ؎
چشمِ ترحم ز تو داریم ما
حاجتِ ما از تو بر آید تمام
قبلہ توئی رو بہ کہ آریم ما
دامنت از کف نہ گزاریم ما
بادشاہ شہبال نے سننے اس ماجراے تعجب افزا کے سے نہایت مستعد و سرگرم ہو کر نگاہ تند و تلخ سے طرف دیواں و عفریتاں و پریاں کے دیکھا اور بزرگان و سرداران جِنیاں کے تئیں جا بجا لکھ بھیجا کہ بہ مجرد مطالعہ اس فرمان قضا جِریان کے اپنے تئیں بیچ حضور لامع النور کے حاضر کریں اور توقف ایک ساعت کا روا نہ رکھیں و اِلّا موردِ عتاب و خطاب کے ہوں گے اور جنس آدم زاد سے کیا مرد و کیا زن، جس کے پاس ہو ہمراہ لاوے اور اِخفا اس معنی کا موجب پریشانی و حیرانی اپنی کا جانے۔ دیوان و عِفریتان و جنیان بیچ اطراف عالم کے پراگندہ ہوئے اور نامہ متضمن تاکید اکید کے جا بجا پہنچائے اور ملک شہبال ساتھ بادشاہ اور درویشوں کے ہم کلام بہ ایں حکایت ہوا کہ مدت سے بیچ آرزوے تولد فرزند دلبند کے تھا اور یہ عہد کیا تھا کہ جس وقت میرے تئیں حق تعالیٰ پسر یا دختر عنایت فرماوے گا تو جو کوئی پسر یا دختر بادشاہان اقالیم میں سے بیچ زُمرۂ انسان کے تولد ہوگا نسبت اس کی ساتھ فرزند اپنے کے مقرر کروں گا۔ بارے اندرون محل کے جو ملکۂ آفاق بارور ہوئی اور بعد اِنقضاے ایام حمل کے دختر خجستہ اختر مُتولد ہوئی، اسی وقت حکم کیا کہ جہاں کہیں بیچ گھر سلاطین زماں کے لڑکا تولد ہوا ہو اس کے تئیں لا کے حاضر کرو۔ بہ موجب حکم قضا توام کے اس شہزادہ بختیار کے تئیں لائے اور میرے تئیں محبت اس کی دامنگیر خاطر کے ہوئی۔ چنانچہ ہر ماہ میں ایک دفعہ حضور میں بلا کر موردِ عنایات کا کرتا ہوں اور شرط تربیت و پرورش کی بجا لاتا ہوں اور بیچ دامادی اپنی کے ممتاز و سرفراز کیا۔ فرخندہ سیر نے سننے اس داستان ہدایت بنیان کے سے خوش وقتی حاصل کی۔
القصہ بیچ ہفتہ عشرہ کے تمامی بزرگان و سرداران، جنات گلستانِ ارم اور شہر سبز اور پردۂ کوہ قاف اور دریاے قلزم کے اور ملک عرب و عجم و ہندوستان وغیرہ اور کوہستان جزائر و بنادر کے بالکل آ کر حاضر ہوئے۔ اول ملک صادق سے طلب اس گلعذار کا کیا کہ شہزادہ چین کا گرفتار زلف پر چین اس کے کا تھا۔ بعد پیچ و تاب بسیار کے لاچار ہو کر حاضر کی۔ بعد ازاں بادشاہ جِنیان ولایت عمان کے سے دختر عفریت کی کہ اس پر شہزادہ ملک نیمروز کا گرفتار اور گاؤ سوار تھا، طلب کی۔ بعد از عذر ہاے بسیار کے وہ بھی آئی۔ جس وقت دختر بادشاہ فرنگ اور بہزاد خاں کے تئیں طلب کیا، سب منکر پاک ہوئے بلکہ قسم اقسام شدید درمیان لائے مگر سردار جنیان دریاے قلزم نے سر آگے ڈالا اور خاموش رہا۔ ملک شہبال نے از روے عقل دریافت کر کے اس کی طرف نگاہ گرم سے دیکھا۔ ان نے عرض کیا کہ جس وقت والد بزرگوار اس شہزادے کا واسطے استقبال کے آیا اور ان نے گھوڑا بیچ دریا کے ڈالا میں کہ واسطے سیر و شکار اس دیار کے سوار ہوا تھا، یکایک نگاہ میری اوپر اس معشوقہ جادو نگاہ کے پڑی۔ بہ مجرد دیکھنے کے بے اختیار عاشق و فریفتہ ہو کر شکار سے خالی ہوا اور صبر و قرار میرا گیا۔ جس وقت کہ ان نے گھوڑی اپنی بیچ دریا کے ڈالی میں نے جلو اس کی پکڑ کے بیچ قابو کے کیا اور جو بہزاد خاں فرنگی کے تئیں بیچ عالم انصاف کے مرد مردانہ پایا، فرمایا کہ اس کے تئیں بھی لے لو، چنانچہ وہ بھی ہمارے پاس سلامت و حاضر ہے۔ یہ کہا اور دونوں حاضر کیے۔ بعد اس کے دختر فرماں رواے شام کے تئیں تلاش کیا اور ہر ایک سے پوچھا کچھ نشان نہ پایا بلکہ سوگند عظیم درمیان لائے۔ ملک شہبال نے فرمایا کہ کوئی غیر حاضر بھی ہے یا سب آ چکے۔ عرض ہوئی کہ مسلسل جادوگر نے ایک قلعہ مستحکم علم سحر سے بیچ کوہ قاف کے بنایا ہے اور اس میں متحصن ہے و اسیر دستگیر کرنے میں اس کے کسی کو طاقت اور مجال نہیں ہے۔ یہ بات سن کر ملک شہبال نے فرمایا کہ جنیان و دیوان و عفریتان فوج فوج و توپ توپ مستعد و مسلح ہو کر جاویں اور اس کو اسیر و دستگیر کر کے حضور میں لاویں اور ملک و مال اس کا تاخت و تاراج کر کے صفاً صفا کی نوبت پہنچاویں۔ بہ مجرد ہونے حکم کے افواج قہار و لایق کارزار افزوں از حد و شمار روانہ ہوئے۔ آخرش تھوڑی فرصت میں داد مردی و مردانگی کی دے کر حلقہ بگوش کیا اور حضور میں لائے۔ جس وقت ملک شہبال نے استفسار ماجرا کیا، مطلق جواب نہ دیا۔ تب بادشاہ نے فرمایا کہ اس کے تئیں با انواع عقوبت و عذاب معاذب کر کے پارہ پارہ کریں اور افواج پری کے تئیں حکم کیا کہ تفحص و تجسس کر کے اس نازنین کو پیدا کریں۔ وے بہ موجب حکم بادشاہ کے ملکۂ شام کے تئیں تلاش کر کے حضور میں لائے۔ درویش دیکھنے اس حکم اور عدالت کے سے بیچ تعریف اور توصیف بادشاہ شہبال کے رطب اللِسان اور عذب البیان ہوئے اور حکم بادشاہ شہبال کا یوں نفاذ ہوا کہ مردوں کے تئیں باہر دیوان خانہ میں اور عورتوں کے تئیں اندر عیش محل کے لے جاویں اور فرمایا کہ شہر کے تئیں آئین بندی و چراغاں و آرائش کی تیاری ہو۔ پس ساعت سعید اختیار کر کے اول شہزادہ بختیار بن فرخندہ سیر بادشاہ کو ساتھ دختر روشن اختر اپنی کے جلوہ افروز تخت عروسی کا کیا اور خواجہ زادہ یمنی کو ساتھ دختر سلطان دمشق کے کتخدا کیا۔ اور بادشاہ زادہ ملک فارس کو ساتھ شہزادی بصرہ کے منعقد کیا اور بادشاہ زادہ عجم کو ساتھ ملکۂ فرنگ کے ازدواج بخشا اور بہزاد خاں کو ساتھ دختر فرماں رواے نیمروز کے منکوح فرمایا اور شہزادہ چین کو ساتھ دختر پیر اعمیٰ کے کہ در قبض تصرف ملک صادق کے تھی، جلوہ عروسی و دامادی کا دیا اور شہزادہ نیمروز کو ساتھ دختر عفریت کے شرف مناکحت بخشا۔
القصہ چالیس روز تک بیچ گلستان ارم کے با عیش و عشرت مشغول رہے اور داد خوشی اور کامرانی کی دی۔ بعد ازاں ملک شہبال نے ہر ایک کو باتحفہ ہاے انواع ہر ملک و دیار کے بہ ہر اطراف مطلوبہ ان کے با جمعیت شایستہ روانہ کیا کہ ہر ایک بیچ وطن اپنے پہنچا اور واسطہ استعانت ملک شہبال کے قابض و متصرف مملکت موروثی اپنی کے ہو کر بقیہ عمر مستعار ساتھ کام دل کے زندگی بسر لے گئے اور خواجہ زادہ یمنی و بہزاد خاں فرنگی بیچ رفاقت فرخندہ سیر کے بہ خواہش دل و رضا مندی جاں حاضر رہے اور خواجہ زادہ یمنی بخدمت خانسامانی اور بہزاد خاں فرنگی بہ علاقہ بخشی گری فوج شہزادہ بلند اقبال بختیار والا تبار کے سربلند ہوئے۔ عاقبتُ الامر بہ مقتضاے اس کے کہ یہ جہان فانی ہے، نداے کُلُ نفس ذائِقةُ الموت کی دے کر آسودہ عالم بقا کے ہوئے۔
الٰہی! جس طرح یہ چار درویش مع بادشاہ فرخندہ سیر و شہزادہ نیمروز و بہزاد خاں فرنگی ہر ایک اپنی مراد کو پہنچے، اسی طرح ہر ایک کی مراد اور مقصد بر آوے۔ مصرع
یا الٰہی! دُعاے خستہ دلاں مُستجاب کُن