قصے جور و جفا کے سَو سَو ہیں
آبرو سے نباہ دیوے حق
دل میں میرے کباب کی سی طرح
زندگی ہے سراب کی سی طرح
یہ خاکسار بعد رحلت والد بزرگوار کے تخت سلطنت کے اوپر رونق افزا اِس دیار کا ہوا۔ ایلچی ہر چہار طرف کے واسطے مبارک باد کے آئے اور نامہ و پیام و سوغات و تحفہ جات ہر انواع کے لائے اور کہا ؏
تخت شاہی کے تئیں فخر ہے تجھ ذات سے آج
اس ضمن میں ایک سوداگر وارد اس دِیار عالی تَبار کا ہوا اور ایک لعل بے بہا ساڑھے تین مثقال وزن کا نذر گزرانا کہ آگے آب و تاب اُس کی کے لعل بدخشاں کا بھی بے آب تھا۔ چنانچہ ثانی اُس کے کوئی رقم از قِسم جواہر کے سے بیچ جَواہر خانہ کے بلکہ بیچ تمام سلطنت میری کے نہ تھا۔ میں نے اُس کے تئیں از جملہ مغتنمات جان کر مقرر فرمایا تھا کہ جس وقت دربار مجرائیوں سے معمور ہووے اس لعل پارے کو حاضر کیا کریں۔ اوّل میں ملاحظہ کرتا بعد ازاں سب حاضران دربار معلیٰ کے دیکھتے اور بے اختیار زبان بیچ تعریف و توصیف آبداری اور رنگینی اس کی کے کھولتے۔ ایک روز ایلچی فرنگ کا دربار میں حاضر تھا کہ ملازمان حضور موافق قاعدۂ مستمرہ کے لعل کو لائے۔ میں نے دیکھا اور سبھوں کو دکھایا۔ سب ارکان خلافت بیچ تعریف اُس کی مدح پرداز ہوئے۔ ایک وزیر صاحب تدبیر کہ وقت اعلی حضرت کے سے بیچ کاروبار وزارت مقرر و ممتاز تھا، دست بستہ ہو کر آداب بجا لایا اور عرض کیا کہ اگر جاں بخشی ہو تو غلام کچھ عرض رکھتا ہے۔ میں نے فرمایا کہ کہہ۔ تب اُن نے عرض کیا کہ قبلۂ عالم سلامت! ذات ملکی صفات بادشاہوں کی حق سبحانہ تعالیٰ نے عدیم المثال اور بے نظیر پیدا کی ہے، اوپر ممالک محروسہ روے زمین کے صاحب حکم کیا ہے اور زر و جواہر و تحفہ جات جہاں کے نصیب اولیاے دولت قاہرہ کے ہوئے ہیں۔ بادشاہان دریا دل سے یہ بات خیلے بعید اور نہایت تعجب کی ہے کہ ایک پارہ لعل کو ہر روز طلب کرنا اور تعریف بیش از قیاس فرمانا اور سب کو رطب اللسان اور عذبُ البیان ہونا نہایت نازیبا اور خلاف ریاست ہے۔ اگر حاضران محفل مُنِیف و کار پردازان بارگاہ شریف روبرو از راہ ادب کے خاموش ہیں لیکن غائبانہ کہتے ہوں گے کہ بادشاہ نہایت ندیدہ جواہر کا اور مفلوک مزاج ہے۔ حضرت پیر و مرشد سلامت! بیچ دَار السُّرور نیشاپور کے ایک سوداگر ہے کہ اس کے پاس ایک کُتّا ہے کہ اُس کے گلے میں جو پٹّہ پڑا ہے سات سات مثقال وزن کے لعل اس میں جڑے ہیں اور بر سرِ بازار بیچ دوکان کے رہتا ہے اور تمام خلقت آیند و روِند دیکھتی ہے اور اس عزیز کو خواجہ سگ پرست کہتے ہیں۔ بہ مجرد استماع اِس بات کے میرے دل میں آتش غضب شعلہ افروز ہوئی کہ سوداگر کا مزاج کفایت شَعار و خسّت اطوار ہوتا ہے یہ بات خلاف قیاس اور باہر احاطۂ بشریت سے ہے اور فرمایا کہ وزیر کو لے جا کے دار پر کھینچو کہ بار دیگر کوئی شخص خلاف گوئی بہ حضور بادشاہ عظیم الشان کے نہ کرے۔ پس حسب الحکم قضا توام میرے کے ملازمین بادشاہی وزیر کو واسطے گردن مارنے کے لے چلے کہ یکایک ایلچی فرنگ کا دست بستہ کھڑا ہوا اور زبان بیچ شفاعت وزیر کے کھولی اور عرض کیا۔ فرد ؎
کیجیے جاں بخشی اور تقصیر معاف
بات اس کی کو نہ بوجھو تم زِ لاف
تجھ سا بادشاہ عادل رعیت پرور جو خون ناحق کرے اور وبال جان وزیر کا اپنے اوپر لیوے جاے فَراواں تاَسُّف اور تَلہف کا ہے۔ اول لازم یہ ہے کہ تحقیق فرمائیے۔ بعد ثبوت راست و دروغ کے جیسا مناسب ہو عمل میں لائیے۔ بارے التماس ایلچی فرنگ کا مُلتفی ساتھ اجابت کے کر کے حکم محبوس کرنے کا فرمایا اور کہا کہ اگر یہ بات اور صورت حال ساتھ صدق مقال کے جلوہ گر ہوئی تو جاں بخشی ہے، و اِلّا بہ انواع عذاب مَورد عتاب اور خطاب کا ہوگا۔ القصہ وزیر کو بیچ زنداں خانہ کے لے گئے۔ پس یہ خبر وحشت اثر بیچ گھر اُس کے پہنچی۔ زن وزیر نے بہ گریہ و زاری و نوحہ و بے قراری سر کے بال کھسوٹ کے زیور دور کیا اور لباس بدن کا پھاڑا لیکن وزیر ایک دختر عاقلہ اور فرزانہ رکھتا تھا کہ ہمیشہ بیچ عیش و عشرت کے اور راگ و رنگ و شراب و کباب میں مشغول رہتی تھی۔ والدہ اُس کی نے آ کر اُس کو سرگرم ناے و نوش کا پایا۔ ایک جھکّڑ دو دستی کہ جس کو دو ہتھڑ کہتے ہیں اوپر سر کے ماری اور کہا کہ اے کمبخت بے وفا و اے بدبخت پُر جفا! اگر آج کے روز ایک کانا کھدرا یا کَنونڈا بیٹا ہوتا تو وہ بھی کام آتا اور اپنے باپ کو قید سے چھڑاتا۔ تجھ کمبخت کو کیا کروں کہ وارث میرا قید ہے اور تو شراب و کباب اور راگ ورنگ کی صید ہے۔ فرد ؎
جَلا دے حُسن کے شعلے سے اپنے خاک کر مجھ کو
میں اس جینے سے تنگ آئی ہوں ظالم، پاک کر مجھ کو
دختر عاقلہ و بالغہ کا دریافت کرنے اس مصیبت کے سے نشہ اتر گیا اور رقص موقوف کیا اور از راہ غیرت کے نہایت پیچ و تاب کھا کے کہا کہ اے مادر مہربان! آفات ناگہانی سے پناہ مانگیے اور حادثات زمانہ سے صبر کیجیے کہ الصّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَح کہتے ہیں اور بیٹے پر کیا موقوف ہے۔ اگر بیٹی صاحب فراست و کِیاسَت ہو تو بیٹے پر فخر رکھتی ہے۔ فرد ؎
نہ ہر زن زن است، و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
پس ددا اپنے کو بلا کر بیچ خلوت کے کہا کہ اگر مجھ کو زندہ چاہتا ہے تو سرانجام تجارت کا تیار کر دو، اِلَّا خون اپنا کروں گی اور سر تیرے دھروں گی۔ ددا لڑکی کا بولا کہ اے صاحب زادی! فرد ؎
خیال ٹھٹھ کا بہت نام خدا جی پر ہے
چشم بد دور مزاج ان دنوں شوخی پر ہے
حقیقت اس کی یہ ہے کہ عین عنفوان شباب میں جو کوئی کہ گل روے مبارک کا دیکھے گا، بے اختیار بلبل وار شیفتہ رنگ و بوے اس چمن لطافت و ملاحت کا ہوگا اس وقت پیچھا چھڑانا مشکل پڑے گا۔ اشعار:
جو کہ دیکھے اس آفتاب کے تئیں
گرم بازار دل جلوں کا ہے
کھولیو مت بزار میں ہرگز
کیا کرے جی کے اضطراب کے تئیں
کوئی نئیں پوچھے ہے کباب کے تئیں
اس جنوں کے بھرے کباب کے تئیں
میں آ گے سے جتاتا ہوں بقول آنکہ “یکے نقصان مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ” یعنی باعث بدنامی و برہم زنی ننگ و ناموس حضرت وزیر الملک ارسطو فطرت آصف سطوت کا ہوگا۔ اس خورشید آسمان عقل و فرہنگ کے تئیں یہ سخن ددا کا گراں بار پلہ میزان تمیز کا نہ آیا۔ آپ بہ تاکید شدید اور بہ جد و جہد تمام کے بیچ تہیہ اسباب تجارت کے ہوئی۔ ددا کے متابعت طبع شریف اس کی کو باعث زندگی اپنی کا جانتا تھا جو کچھ کہ شایان تاجران عمدہ خاندان کے ہوتا ہے، واسطے خرید تحفہ جات ہر دیار کے لکھ ہا خرچ کر کے اطلاع اس فرزانہ کو کی۔ چنانچہ اس یگانہ جہاں نے از راہ عیاری کے لباس مردانہ اوپر قامت کے آراستہ کیا اور بیچ نصف شب کے مانند ماہ چہار دہم کے برج حمل محل کے سے نکل کر سریع السَیر ہوئی۔
زن دستور نے دریافت اس کیفیت کا کرکے اخفا راز کا از جملہ واجبات جانا اور تاکید اکید جمیع خادمان محل کو کی کہ کوئی اظہار اس حادثۂ جاں گزا کا نہ کرے، خبر شرط ہے والا ندامت کھینچے گا۔ القصہ وہ عاقلہ بعد مدت سہ ماہ بیچ دار المعمور نیشاپور کے پہنچی اور بہ طریق سیر روانہ اردوے معلی کی ہوئی۔ بیچ عین رونق بازار کے ایک دوکان میں سوداگر کو رونق افزا دیکھا کہ جواہر گراں مایہ اور اسباب نفیسہ رو برو اس کے موجود ہے اور کئی خدمت گار سلیقہ شعار دست بستہ حضور میں مستعد خدمت کے ہیں اور دوکان میں ایک صندلی بچھی ہے اور اوپر گدی مخمل کے ایک کتا لیٹا ہے اور پٹہ چودہ لعل کا زیب گلوے ناقص اس کے کا ہو رہا ہے اور ایک لگن طلائی میں پانی بھرا ہے اور دو غلام بیچ خدمت سگ کے حاضر ہیں، ایک رومال سے پونچھتا ہے اور ایک چَنور سے سے مَگس رانی کرتا ہے۔ اور ایک قفس فولادی دھرا ہے کہ دو جوان خوبرو چار ابرو مقید سَلاسِل غموم و ہموم کے بیٹھے ہیں۔ وزیر زادی بیچ اس تماشے کے مشغول ہوئی اور ایک خلقت واسطے دیکھنے حسن و جمال اس کے مجتمع تھی۔ فرد ؎
تیر نگہ تھے کھانے سو کھا چکے کسو کے
بہتر ہے داغ دل میں اب تو بھلا کسو کے
بارے وقوع اس واقعہ کے سے نگاہ سوداگر کی دختر وزیر پر جا پڑی۔ بہ مجرد معاینہ دیدار پر انوار اور وضع شوخ و طنَّاز اس کی کے بہ ہزار جان عاشق جمالِ لیلی تمثال اس بدیع الجمال کا ہوا اور کہا کہ اگر قدوم مسرت لزوم اپنے سے میرے غریب خانہ کو رونق افروز کرے تو سر عزت و افتخار اس خاکسار کا اوپر اوج آسمان کے پہنچا دے گا، بعید از تَفَقُّدَات اور تلطفات سے نہ ہوگا ؎
جو تیرے عشق میں کوئی جی جلا فرہاد ہو جاوے
کہاں تک بلبلوں کا دل چمن سیں شاد ہو جاوے
تو ایسا شخص تو شیریں کا پھر استاد ہو جاوے
ہمیشہ دام لے جب باغ میں صیاد ہو جاوے
اس عاقلہ نے حصول مدعاے خاص اپنا بیچ ملاقات کے جان کر کمال اشتیاق سے دوکان سوداگر کے تئیں رونق افزا جواہر زواہر دیدار سراسر انوار اپنے سے کیا۔ وہ مرد جہاندیدہ، گرم و سرد زمانہ چشیدہ نہایت تملق اور تعلق خاطر سے پیش آیا اور رسم تواضع و مہمانداری کی بہ جان و دل بجا لایا اور پوچھا کہ کس ملک آباداں سے تشریف ارزانی فرمایا ہے اور موجب آنے کا اس ملک بیگانے میں کیا ہے۔ اس عاقلہ نے کہا کہ باپ میرا سوداگر ہے اور مال دنیا سے گنجینہ بے شمار رکھتا ہے۔ میرے تیں بیچ حین حیات اپنے کے واسطے آزمائش کے اسباب تجارت کا ہمراہ دے کر روانہ اس ولایت کا کیا ہے کہ بچشم خود مال گزاری اور سلیقہ شعاری اور تجارت پیشگی میری دیکھے تو بالکل خاطر جمع ہو۔ کس واسطے کہ، فرد ؎
فرزند اگرچہ بے تمیز است
در چشم پدر بسے عزیز است
اس باعث سے یہ اول سفر میرا ہے کہ بیچ اس ولایت بیگانہ کے اتفاق آب و خور کا پڑا۔ اس بزرگ دانش سترگ نے کہا کہ یہ بے مقدار بیچ اس شہر کے پارۂ عزت و افتخار رکھتا ہے اور پیشہ تجارت سے خوب کچھ دیکھا اور کیا ہے۔ اگر آپ از راہ تَفَضُّلات و عنایات کے کلبۂ احزان میرے کے تئیں رشک ارم کا کریں تو خرید و فروخت معرفت میری سے ان شاء اللہ نتیجہ نیک ہوگا۔ جب کہ اشتیاق اس کا بے حد و نہایت دیکھا، فرمانا اس کا قبول کیا اور کہا، فرد ؎
وہی پابند ہو سکتا ہے تیرے دام الفت کا
جو قید ننگ و نام اپنے ستی آزاد ہو جاوے
تب ان نے کہا کہ از براے خدا یہ میری زبان سے فرماتے ہیں۔ پس دیوان خانہ خاص واسطے دختر وزیر کے خالی کیا اور لوازمہ اکل و شرب کا الوان طعام و اقسام اشربہ و عطریات سے حاضر کیا۔ بعد اس کے ایک تماشا عجب نظر آیا کہ ایک دسترخوان زر بفتی اور غوری حبشی میں پلاؤ اور گوشت واسطے کلب کے طلب کیا۔ پس دونوں غلاموں نے مگس رانی کر کے بہ احتیاط تمام اس کے تئیں کھلا کر پس خوردہ اس کا ان دونوں جوان مقید قفس فولادی کو بہ ضرب شلَّاق کھلایا اور بہ زجر و توبیخ پانی بھی اس کا جھوٹا پلایا اور موے سر ان کے تا بہ کمر پہنچے تھے اور ناخن مانند چنگال زاغ و زغن دراز ہوئے تھے۔ دختر خجستہ اختر یہ مقدمہ دیکھ کر سخت آزردہ ہوئی اور کھانا پینا اس کے گھر کا مکروہ بلکہ حرام جانا اور استفسار اس احوال حیرت مآل کا کیا۔ تاجر نے کہا کہ یہ قصہ پر غصہ آج تک میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا بلکہ اس واسطے خواجہ سگ پرست مشہور ہوا ہوں لیکن تم کو مفصل اطلاع دوں گا، موقوف بر وقت ہے۔ اس عاقلہ کو کام اپنا منظور تھا اس بات کے خیال نہ پڑی۔
قصہ کوتاہ تا مدت دو ماہ وہ جادو نگاہ ساتھ اس مرد محبت دستگاہ کے متفق اور مجتمع رہی اور اس قدر دل سوداگر کا بیچ کمند زلف تابدار اپنی کے پھنسایا کہ ایک لمحہ مفارقت اس کی کو باعث مرگ اپنی کا اور موجب ہلاک کا جانتا تھا اور بے اختیار کہتا تھا کہ میرے تئیں حق تعالیٰ نے دولت دنیاوی سے بہت کچھ دیا ہے لیکن نور چشم و راحت جان ناتواں کہ بعد میرے وارث اس مال و دولت کا ہو، نہیں ہے۔ میں نے تجھ کو بیچ فرزندی کے لیا اور یہ سب نقد و جنس بہ خوشی تجھ کو نذر کیا بلکہ شادی اس مقدمہ کی مقرر کرکے تمامی عمدہ و اکابران شہر کو بہ طور ضیافت اپنے ڈیرے بلایا اور مطلع اس معاملے کا کیا اور کہا، فرد ؎
اگر حسرتؔ کا سودا بن پڑا اس عشق بازی میں
تو مجنوں پھیر ویرانہ تیرا آباد ہو جائے
چنانچہ اس عاقلہ نے بعد قابو کرنے اور محیط ہونے کے پگڑی پھیر رکھی اور از روے عقل کے نہایت ملول اور غمگین بیٹھی۔ سوداگر نے دیکھ کر سبب کلال و مَلال طبع کا استفسار کیا، تب اس عاقلہ نے کہا کہ مجھ کو دو مشکل پیش ہیں۔ فرد ؎
نہ ہوں اس عشق میں کیوں کر میں نالاں
کہ سینہ غم کے سینے سے ملا ہے
اگر بیچ خدمت سراپا افادت تمھاری کے اوقات گذاری کروں تو والد بزرگوار مانند یعقوب کے بیچ غم مہاجرت اس یوسف ثانی کے نابینا ہو جائے گا اور کہے گا کہ بہ سبب سن طفولیت کے خانماں فراموش کر کے اور کہیں کا ہو رہا اور جو قصد اُس سمت کا کروں تو جدائی تمھاری نشتر زن جگر کی ہو ؏
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
اسی فکر میں شب و روز باگریہ دلسوز میری گذرتی ہے بلکہ کمال سودا ہے، دیکھیے کیا صورت واقع ہو اور نقش مدعا کا کس پہلو بیٹھے۔ در جواب اس کے اُس دانش پناہ عشق آگاہ نے کہا کہ اے فرزند! اگر مرکوز خاطر مبارک کا یوں ہے کہ یہاں سے کوچ کیجیے تو بسم اللہ۔ فرد ؎
اگر ملنا ہے اپنے باپ سے، کاہے کو دکھ کھینچو
ابھی غم سے نکل کر دل کو اپنے شاد کر ڈالو
مجھ کو یہاں کسی کی اُلفت دامن گیر خاطر کی نہیں کہ جس سبب سے پابند اس ملک کا ہو رہوں، بلکہ عین خوشی و خاطر یوں ہے کہ جس میں رضامندی تمھاری ہو بجا لانا اس کا از جملہ واجبات ہے۔ دختر وزیر کی نے اس بات کے سننے سے مانند زر کے شگفتہ ہو کر بیچ طیاری اسباب روانگی کے قَدغن بلیغ فرمایا اور ایک ہفتہ کے عرصہ میں سب اسباب لاد کے نَقارہ کوچ کا بلند کیا۔ بہ فضل الٰہی بعد انقضاے عرصہ دو ماہ کے وہ قافلہ با سوداگر پیر مرد و سَگ بے نظیر بیچ ولایت قلمرو میری کے آ پہنچے اور بیچ باغ بادشاہی کے رخت اقامت کا ڈالا۔ پس ایک شہرۂ عظیم تاجر کے آنے کا بیچ ہر کوے و برزن کے پڑا۔ دختر وزیر نے بیچ خدمت مادر مہربان کے پہنچ کر آداب تسلیمات و کورنشات بجا لا کر عرض کیا کہ دو روز کی مہلت اور ہو تو والد بزرگوار کو قید و زنداں سے خلاصی دے کر گوشۂ اخفا کے بیچ بیٹھوں۔
بارے بادشاہ نے سواری واسطے سیر باغ طلب کی۔ پس جس وقت کہ شہسوار آفتاب کا بیچ جولاں گاہ عرصہ سپہر کے نمودار ہوا، میں نے اپنے تئیں بیچ باغ کے پہنچایا اور سوداگر کو مع کتّے اور پِنجرہ فولادی کے حضور طلب کیا۔ بہ موجب حکم کے اُس سوداگر نے تحفہ ہاے عجیب و غریب نذر گزرانے۔ میں نے احوال سگ پرستی اور قید کرنا دو جوانوں کا استفسار کیا کہ راست بے کم و کاست مُفَصل بیچ حضور لامع النور کے اظہار کر۔ تاجر نے بہ مقدور خود بیچ اِخفاے راز سربستہ کے دریغ رکھا لیکن بدون اظہار اسرار کے مخلصی نہ دیکھی بقول اس کے ؎
نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفل ہا
بیان سرگذشت خواجہ سگ پرست
عرض کیا کہ حضرت سلامت! یہ غلام عقیدت اِلتیام سوداگر بچہ ہے اور دو نَوجوان قفس فولادی میں برادران کلاں اس بے سر و ساماں کے ہیں۔ جس وقت کہ والد بزرگوار والا تبار اس خاکسار کے نے جہان فانی سے رخت ہستی کا طرف سراے جاودانی کے کھینچا۔ بقول اس کے، رباعی:
جیسا ہی کہ ہلکا ہے گا آنے کا رنگ
دنیا کی ہے چال بندی یارو حسرتؔ
ویسا ہی سبک تر ہے گا جانے کا رنگ
فانوس خیال ہے گا زمانے کا رنگ
اور مال بسیار و دولت بے شمار ترکہ چھوڑا۔ یہ دونوں عزیز مصر بے تمیزی کے قابض و متصرف ہوئے۔ بعد فراغت ماتَم داری کے باہم مصلحت کر کے میرے تئیں بُلایا اور کہا: جو کچھ مالیت پدر کی سے نقد اور جنس ہے حِصَّہ رسد بہ موجب شَرع کے تقسیم کر لیں اور جس کے جی میں جو آرزو ہووے ہوس دل کی نکالے اور چاہے سو کرے، بقول اس کے ؏
ہر کسے مصلحت خویش نکو می داند
میں نے عرض کیا کہ اگر مربی موا تو کیا غم ہے، تم دونوں بزرگ بجاے پدر میرے سر پر سلامت ہو۔ مجھ کو سواے کھانے اور کھیلنے کے کچھ اور سروکار نہیں ہے بلکہ امیدوار تعلیم کا ہوں کہ سعی موفورہ تمھاری سے ساتھ علم و ہنر کے بہرہ ور ہوں۔ مجھ کو حصہ برادرانہ سے کچھ غرض نہیں۔ یہ دنیا چند روزہ ہے۔ بہ قول اس کے، رُباعی:
جب تک رہی جگ میں زندگانی حسرتؔ
دیکھا تو یہ حیث و بحث ناحق کا ہے
تب تک سُنی دہر کی کہانی حسرتؔ
ہے خواب و خیال زندگانی حسرتؔ
در جواب ان دونوں برادران یوسفی نے کہا کہ اگر سِن تمیز اور عنفوان شباب میں تو دعوا حصہ مال پدری کا کرے اور یہ مال ہم سے تلف ہو جاوے تو پھر عہدہ بر آ ہونا مشکل ہے۔ اگر حضور حاکم وقت کے بہ رضا و رغبت اپنے فارغ خطی بہ مہر قاضی و مفتی و گواہی اکابران شہر کے لکھ دے تو کیا مضایقہ، ہم از راہ شفقت برادرانہ تجھ کو پرورش کریں گے۔ میں نے بہ موجب اِستدعا اُن کے لا دعویٰ ورثہ باپ کے سے لکھ دیا اور رہنے لگا۔ بعد چند روز کے بقول آنکہ ؏
خوے بد را بہانۂ بسیار
میرے تئیں گھر سے خارج کیا اور صاف جواب دیا۔ قبلہ گاہ رضواں دستگاہ اس فدوی کو نہایت الطاف اور اشفاق سے پرورش کرتا تھا اور باعث خورد سالی کے بہ نسبت ان دونوں کے قرب منزلت میری دل میں زیادہ رکھتا تھا۔ چنانچہ جب کبھی کہ وہ مشفق شفیق واسطے تجارت کے مرحلہ پیماے ملک و دیار کا ہوتا تو ایک تحفہ واسطے میرے مقرر لاتا۔ چنانچہ ایک یہ کتّا اور دو غلام میرے تھے۔ ایک روز کی نقل ہے کہ قبلہ گاہ نے بیچ حین حیات اپنی کے مجھ سے بیچ خلوت کے کہا تھا کہ اگر یہ دونوں بھائی تیرے تجھ سے بد سلوکی کریں اور حصہ برادرانہ سے محروم رکھیں تو وہ جو فلانی حویلی تیرے نام کی ہے اور اس کے صحن میں جو شجر رشک طوبی کا سایہ انداز ہے، نیچے اس درخت کے پانچ ہزار اشرفی ایک حوض میں زیر زمیں امانت سپرد کی ہیں، وہاں سے لیجیو اور صرف وجہ معاش اپنی کا کیجیو۔ پس میں اُس حویلی میں جا رہا اور یہ بھائی کہ ناواقف تھے خاموش رہے اور مزاحم احوال میرے کے نہ ہوئے اور وہ حویلی قبضہ میرے میں چھوڑی۔ تب میں نے اُس زر پر دستگاہ پا کے دوکان تجارت کی ترتیب دی اور ایک گونہ اعتبار بیچ شہر کے پیدا کیا اور یہ دو غلام وفادار بیچ خدمت کے حاضر تھے۔ بعد عرصہ تین سال کے میرے تئیں مال بِسیار و دولت بے شمار و عزت و اعتبار درمیان تجار کے حاصل ہوا۔ ایک روز غلام میرا زار زار و بے قرار نہایت پر اِضطرا دوڑا ہوا آیا اور کہا کہ تمھارے دونوں بھائیوں کو ایک یہودی ضرب و شلاق کر رہا ہے، مشکیں بندھی ہیں اور تازیانے پڑتے ہیں۔ یوں بھائیوں سے تم نے جو دل سخت کیا ہے، جانتے ہو اُن کا کیا حال ہو رہا ہے۔ یہ بات سن کر بے اختیار گھر سے برآمد ہوا اور اُس معرکے میں آ کر اُس یہودی سے پوچھا کہ ان بندہ ہاے خدا نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس قدر ظلم اور ستم تو روا رکھتا ہے۔ اُن نے در جواب کہا کہ اگر تجھ کو ان پر رحم آتا ہے تو تو زر ہمارا دے اور ان کو چھڑا لے۔ میں نے اُسی وقت مبلغ خطیر دے کر ان کو چھڑا کر اپنے ڈیرے لایا اور علاج جراحت ہاے نہانی کا کر کے حمام میں نہلایا اور خلعت پوشاک فاخرہ پہنایا۔ فرد ؎
تقدیر میں جو کچھ ہو سو ہو وے ہووے
تدبیر کا کیا حال دکھاوے رووے
کچھ تفتیش احوال کی نہ کی کہ باعث خجالت اور شرم ساری ان کی کا ہوگا۔ چند روز خوش و خرم باہم اور سب بات سے بے غم رہے۔ ایک روز میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید یہ ہمراہی میری سے غصہ کھاتے ہوں، کس واسطے کہ اعتبار اور آبرو تاجر کی سفر سے ہے۔ پس تمامی مال اپنے کے تین حصہ کیے۔ ایک حصہ میں نے رکھا اور دو حصے ان دونوں بھائیوں کو دے کر روانہ ترکستان کا کیا اور غلام و نَفَر و اَسپ و اشتر و خیمہ و خَرگاہ و سایر ضروریات کے سے ہر ایک کو جدا جدا اسباب تیار کر دیا اور بلکہ قافلہ سالار سے سفارش کر کے کہ ان کو زیر سایہ اپنے کے رکھیو اور ہر چیز سے ممد و معاون رہیو، وداع کیا اور کہا، فرد ؎
رخصت ہوتا ہے مرا یار، خدا کو سونپا
کیا کروں بس نہیں لاچار، خدا کو سونپا
بعد ایک مدت کے جو سوداگروں نے معاوَدَت کی، میں منتظر شب و روز چشم براہ تھا کہ سب قافلہ آیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ بھائی میرے قافلے کے ہمراہ نہیں ہیں۔ ایک شخص سے جو تحقیقات احوال کا کیا تو اُن نے کہا کہ ایک بھائی تمھارا مال قمار بازی میں ہارا اور فقیر ہوا اور دوسرا ایک شورہ گر کی لڑکی پر عاشق ہو کر اور سب مال اس کے پیچھے صرف کر کے بہ زبان حال یوں پڑھتا ہے، رباعی ؎
احوالِ دلِ خراب ظاہر تجھ پر
اس پر تُو جلا جلا کے مارے ہے جان
دل سوختہ و کباب ظاہر تجھ پر
ہے اس کا خیال و خواب ظاہر تجھ پر
سننے اس ماجراے جاں گداز کے سے از راہ غیرت کے دیوانہ ہوا اور خواب و خور اپنے اوپر حرام کی۔ بعد ازاں مال و جواہر ہمراہ لے کر بہ طریق یلغار اُس شہر میں جا پہنچا اور تحقیق کر کے انھیں بیچ فَرودگاہ اپنی کے لایا اور حمام کرا کے پوشاک پہنائی اور کچھ باز پُرس نہ کی کہ باعث خجالت کا ہوگا۔ اُسی شہر میں ہر ایک کے واسطے مَتاع اور اَسباب خرید کیا اور تہیہ سفر کا کر کے روانہ وطن کا ہوا۔ جب کہ نزدیک آیا اُن کو دو منزل چھوڑ کر اپنے تئیں داخل شہر کا کیا اور سب سوداگروں سے کہا کہ ہمارے بھائی آتے ہیں، استقبال کے واسطے تیار ہو کہ بہ عزت و حرمت تمام درچشم ہم چشماں رونق افزاے وطن مالوفہ کے ہوں کہ اس اثنا میں ایک شخص نالہ و گریاں میرے پاس آیا اور کہا کہ کاش تمھارے بھائی اس راہ سے نہ آتے کہ از باعث شُہرہ مالیت انھوں کے ڈاکہ اُن پر پڑا اور تمامی اموال بہ غارت گیا بلکہ کئی آدمی مارے گئے۔ میں نے پوچھا کہ وے دونوں کہاں ہیں۔ کہا کہ برآمد شہر کے اوپر عُریاں و برہنہ بیٹھے ہیں۔ فی الحال رخت بھیجا اور بلا کر گھر میں رکھا۔ چنانچہ چند روز بسر لے گئے۔ ایک روز بہ طریق مصلحت کے انھوں سے کہا کہ ارادہ سفر کا درپیش رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہمراہ تمھارے روانہ ہندوستان کا ہوں۔ دونوں نے کہا کہ ازیں چہ بہتر۔ پس مع احمال و اثقال اوپر کشتی کے سوار ہوئے اور لنگر اُٹھا کر بادبان کھول دیے۔ قضایاً برادران کلاں کے تئیں ساتھ کنیزک میری کے تعشق پیدا ہوا۔ چنانچہ ان نے برادر دوسرے کے ساتھ کہ مراد منجھلے بھائی سے ہے مصلحت کی اور کہا، فرد ؎
چھوٹی نہ یہ بت پرستی ہم سے حسرتؔ
ایسا ہی ملا ہے یار اللہ اللہ
ان نے کہا کہ چھوٹے بھائی کو بیچ میں سے اٹھا ڈالیے اور عیش بے وسواس کیجیے پھر اس کنیز پر اور ہر چیز پر کہ ہم کو عزیز ہے، قابض و متَصرف ہوں گے۔ صلاح یہ ہے کہ اس کے تئیں دریا میں ڈالا چاہیے تو گوہر مقصود کا بیچ ہاتھ کے آوے۔ القصہ ایک رات بیچ خواب کے سرشار تھا، برادران کلاں نے پکارا کہ اے بھائی یہاں آوو اور قدرت الٰہی کو بہ چشم خود تماشا کرو کہ دریا میں حق تعالیٰ نے کیا کیا خلقت پیدا کی ہے کہ ایک آدمی شاخ ہاے مرجاں ہاتھ میں لیے ناچتا اور کیا کیا تماشے کرتا ہے۔ میں بہ مجرد سُننے اس بات کے مخمور آنکھیں ملتا ہوا اوپر لب کشتی کے آ بیٹھا اور جھک کر دیکھنے لگا۔ ایک برادر نے ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر اور پیچ کشتی کا چرخ کر کے میرے تئیں اوندھا دریا میں ڈالا۔ ہر چند شناوری کرتا تھا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بارے ورطۂ ہلاکت میں کتا میرے ہاتھ میں آ گیا اور میں نے اپنے تئیں سبک کیا۔ پس بعد ہفت شبانہ روز کے بدستیاری اس سگ وفادار کے اوپر ساحل دریا کے پہنچا اور براے تحصیل قوت کے افتاں و خیزاں راہ آبادی کی لی، تا آنکہ بیچ ایک شہر کے داخل ہو کر بر سر بازار آن کھڑا ہوا۔ ناگاہ دو شخص بہ لباس عجمی سامنے سے نمودار ہوئے۔ شکر الٰہی کا بجا لایا اور جی میں تصور کیا کہ شاید آشنا ہوں گے، چاہیے کہ رفع حاجت گرسنگی میری کریں اور رعایت ہم وطنی بجا لاویں۔ جب کہ اور نزدیک آئے معلوم ہوا کہ دونوں برادر بہ جان برابر ہیں۔ میں نے دوڑ کر سلام کیا اور پاؤں پر لوٹ گیا۔ وہ دیکھتے ہی نہایت متعجب اور متحیر ہوئے۔ اتنے میں برادر میانہ یعنی منجھلے بھائی نے ایک طمانچہ میرے منھ پر مارا۔ میں برادر کلاں کے دامن میں جا چھپا، اُن نے بھی ایک لات ماری۔ غرض ان دونوں بے رحم ستم گار نے میرے تئیں بعد زجر و تو بیخ خوب شلاق کیا۔ ہر چند خدا اور رسول کو شفیع لا کر عجز و الحاح کرتا تھا، کچھ فائدہ نہ تھا۔ تب میں نے یہ بند مخمس کا حسب حال اپنے پڑھا ؎
بے وفا ہرگز وفا پر جی کے تیں لانے کے کی نئیں
شیوۂ جور و جفا سے اپنے پھر جانے کے نئیں
بھول کر بھی یہ مروت کی طرف آنے کے نئیں
غم ترا یہ سنگدل اے دل، کبھو کھانے کے نئیں
اِن کی اُلفت میں نہ دل آنسو بہاوے یاں تلک
تا آں کہ خلقت اُس شہر کی جمع ہوئی اور گناہ میرا پوچھا۔ دونوں صاحبوں نے گریبان پارہ کیا اور کہا کہ یہ بدبخت ہمارے بھائی کا نوکر تھا، اُس کو دریا میں ڈالا اور مال پر خود قابض و متصرف ہوا۔ ہم جستجو اس کی میں مدت سے تھے، آج پایا ہے۔ اس عرصہ میں چند نَفر پیادہ حاکم کے کہ بیچ سرہنگی عمرو عیار سے بھی گوے سبقت کی لے گئے تھے آ پہنچے اور میرے تئیں کشاں کشاں بہ ایں حالت پریشاں و بد سلوکی برادراں و خویشاں روبرو حاکم کے لے جا کر کھڑا کیا اور قصاص چاہا۔ سو اشرفی کارسازی حاکم نے قبول کی کہ اس کو جی سے مارا چاہیے تاکہ عبرت اوروں کو ہووے اور کوئی شخص ایسی نمک حرامی پر جرات نہ کرے۔ حاصل کلام کا یہ ہے کہ رسّی میرے گلے میں ڈالی اور سولی پر باندھا۔ اس وقت سواے اُن دونوں بھائیوں کے کوئی آشنا نظر نہ پڑتا تھا مگر یہ کتا کہ احوال میرا دیکھ کر ہر ایک کے پاؤں پر لوٹتا تھا اور میری نظر طرف آسمان کے تھی کہ اس وقت میں دست گیر درماندگان کوے ناکامی و چارہ ساز بے چارگان عالم بے سر انجامی سواے خداوند حقیقی کوئی نہیں، خیر جو کچھ کہ میری قسمت اور نصیب میں ہے راضی و شاکر ہوں بقول اس کے، اشعار ؎
کون ہے جُز خدا کسی کا کوئی
مادر و خواہر و زن و فرزند
کہ سُنے مدعا کسی کا کوئی
نہیں ہے آشنا کسی کا کوئی
اس اثنا میں حاکم کے تئیں درد قولنج کا بہ شدت پیدا ہوا۔ اُس وقت ایک شخص اَعیان اُس کے سے کہتا تھا کہ بَندیوانوں کو قید سے خلاص کرو تا بہ دعاے مسکیناں و محتاجاں شفاے کامل حاصل ہو۔ فی الحال ایک خواص سوار ہوا اور گذر اُس کا طرف دار اس ناپائیدار کے پڑا۔ ریسمان میرے گلے کی شمشیر سے قطع کی اور زندان خانے میں جا کر سب بندی آزاد کیے۔ میں نے رسّی گلے اپنے سے دور کی اور شکر الٰہی بجا لا کے باہر آیا اور اُس شہر سے اپنے تئیں نکال کر افتاں و خیزاں بیچ ایک قریہ کے پہنچا۔ ایک فقیر اس مکان میں سکونت رکھتا تھا۔ میں نے اس کے تئیں سلام بادَب تمام کیا اور جاتے ہی بیٹھ گیا۔ بعد ایک ساعت کے ماحَضر واسطے درویش کے لائے۔ چنانچہ اُن نے کھانا میرے تئیں بھی کھلایا۔ بعد فراغ طعام کے متوجہ اوپر حال اس بے حال کے ہو کر احوال پُرسی میری کی کہ بابا کہاں سے آیا اور حقیقت اپنی کہہ۔ میں نے عرض کیا ؎
نالہ ہمارے دل کے غم کا گواہ بس ہے
درکار نئیں زباں سے کہنا بیان غم کا
دینے کی نئیں شہادت انگشت آہ بس ہے
اے آبروؔ ہمارا حال تباہ بس ہے
فقیر روشن ضمیر نے اوپر احوال تباہ میرے کے نہایت تاسُّف کیا۔ اس عرصہ میں ایک مرید اس کا دس تومان نذر لایا۔ فقیر نے وہ مبلغ خطیر مجھ کو دیا اور کہا: یہ سرمایہ لے، خداے تعالیٰ اس زر سے تجھے بہت برکت دیوے گا، ہو سکے تو اداے دین کا کیجو، واِلاّ خیر، میں نے معاف کیا۔ پس میں دعاے خیر کہہ کر روانہ ہوا۔ برکت اُس دس تومان زر سے بہ شمار دو سو روپے ہوئے۔ بعد ایک سال کے کہ پھیر اُس گاؤں میں واسطے ملازمت اس فقیر کے پہنچا تھا، چالیس غلام بہ کمر مرصّع دست بستہ بیچ خدمت اپنی کے رکھتا تھا۔ مال بے شمار بیچ حضور اُس مرد خدا کے لا کر قدم بوس حاصل کیا اور کہا کہ بہ یمن دعاے فقیراں کہ شامل حال فرخندہ مآل اس خادم الفُقرا کے ہے، بہ ایں جمعیت اور حشمت پہنچا اور ہر چند میں نے چاہا کہ کچھ قبول کرے، ہرگز نہ لیا۔ بعد دو تین روز کے خدمت اس بزرگ کے سے روانہ ہوا اور ایک شہر میں پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ خلقت بسیار جمع ہے اور ہر چہار طرف سے غُل ہو رہا ہے۔ میں نے جو سبب پوچھا تو یہ کہا کہ دو چور پکڑے گئے ہیں کہ واسطے چوری کے حاکم کے گھر میں بیٹھے تھے۔ اب ان پر سیاست ہے۔ غور کر کے جو دیکھا تو معلوم کیا کہ وے دونوں بھائی ہیں، خون برادری کمال جوش پر آیا اور حاکم کے ہاتھ سے بہ عوض مبلغ خطیر چھڑوا کر اپنے مکان پر لایا اور پوشاک پاکیزہ پہنا کر پوچھا کہ اے برادران! کنیز من چہ شد۔ کہا کہ بیماری سے فوت ہوئی تب میں نے از راہ الفت کمال کے کہا، رباعی:
تم دور دیار ہم سے اتنا ہی رہے
فرمان برادری کا اس سے آگے کیا ہے
دریا دریا ہماری آنکھوں سے بہے
جو جو کیے جور تم نے سو سو تو سہے
تا مدت سہ ماہ اس شہر مینو چہر کے اتفاق رہنے کا ہوا۔ بعد اس کے وہاں سے سفر کیا اور بھائی ہمراہ تھے۔ جس وقت کہ نزدیک آبادی کے قافلہ فرود آیا، وقت نماز عصر کا تھا کہ ہر دو برادر نے کہا: جی چاہتا ہے کہ پیادہ پا ہو کر سیر صحرا کی کیجیے، کس واسطے کہ یہاں شکارگاہ نہایت خوب ہے اور فرماں روا اس ملک کے نے تیار کروائی ہے۔ بہ موجب صلاح انھوں کے باہم پیادہ پا روانہ ہوئے۔ جب کہ قریب ایک فرسخ کے نکل گئے اور اس مکان سے کچھ نظر نہ آیا، میں نے پوچھا کہ شکار گاہ کہاں ہے جو تم کہتے تھے۔ بردار میانی سراسر طوفانی نے کہا کہ خاطر جمع رکھ، اب کوئی دم میں منظور نظر ہوتا ہے۔ تا آں کہ متصل ایک چاہ کے پہنچے۔ اتنے میں منجھلے بھائی صاحب کنویں کے سر پر آن کھڑے ہوئے اور کہا کہ ایک ایسا ہی تماشا عجیب اس میں نظر آتا ہے کہ ساری عمر نہیں دیکھا ہے۔ اشتعالک اس کی سے برادر کلاں نے دوڑ کر ملاحظہ کیا اور کہا کہ واقعی اس قسم کا عجائبات آج تک نظر نہیں پڑا۔ سبحان اللہ آدمی سے بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ یہ کلام سراسر ایہام سن کر میں بھی از راہ سادگی اور محبت برادرانہ کے پچھلی بد سلوکیاں ان کی بھلا کے اور اعتماد ان کے کلام پر لا کے متوجہ طرف چاہ کے ہوا۔ جو میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو سواے تاریکی کے کچھ نظر نہ پڑا۔ یہ کہا چاہتا تھا کہ مجھ کو سواے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا ہے کہ ہر دو برادران نے بہ قصد تمام میرے تئیں کنویں میں ڈھکیل دیا۔ فرد ؎
چہے چوں گور ظالم تنگ و تیرہ
ز تاریکیش چشم عقل خیرہ
وہ چاہ اسی واسطے تھا کہ جو بادشاہ اس ولایت کا کسی پر پُرغضب ہوتا تو اس کنویں میں ڈلوا دیتا۔ وہ شخص اجل گرفتہ چند روز میں بھوکا اور پیاسا جان بحق تسلیم ہوتا۔ پس ان دونوں نابکاروں نے قافلے میں جا کر اظہار کیا کہ بھائی کو بھیڑیا لے گیا۔ سننے اس حادثہ جاں گزا کے سے اکثر دوستوں نے تاسف اور حسرت کر کے کوچ کیا۔ اس وقت بے کسی میں یہ سگ وفادار کہ ہمراہ آیا تھا، بر سر چاہ اقامت پذیر رہا اور قاعدہ یہ مقرر کیا کہ ہر پگاہ کو شہر میں جاتا اور وجہ قوت اپنا لاتا اور مجھ کو بھی پہنچاتا۔ ایک پیر زال اس نواح میں رہتی تھی اور اتفاقاً چند سبوچے پر از آب اس کے دھرے تھے۔ یہ کتا اس کے نزدیک جا کر لوٹا اور اشارہ پانی کا کیا۔ پیر زن نے ایک ظرف سفالی میں پانی بھر کے رو برو اس کے دھرا۔ کتا متوجہ آب نوشی کا نہ ہوا اور دامن اس ضعیفہ کا منھ میں پکڑ کر اشارہ طرف چاہ کے کیا۔ ان نے قرینہ عقل سے دریافت کر کے کہا کہ شاید کوئی شخص کنویں میں مقید ہوا ہے۔ ایک ڈول اور رسی لے کر وہ نیک بخت بر سر چاہ آئی اور ڈول پر آب تہ کنویں میں چھوڑا اور وہ کتا عف عف کرنے لگا۔ میں متوجہ طرف بلندی کے ہوا اور ڈول پر از آب سے پانی پیا اور شکر بدرگاہ کارساز بے نیاز بجا لایا۔ چنانچہ مدت شش ماہ اسی وطیرے سے گذارے۔
ایک روز ایک شخص کو لائے اور کنویں میں ڈالا۔ وہ اجل گرفتہ ایسا ہی بے ضرب گرا کہ دو سہ پہر میں انتقال کر گیا۔ وقت نیم شب کے ایک ریسمان کنویں میں جو آئی، دیکھتا ہوں کہ ایک خوان طعام، ایک سبوچہ پر از آب اس میں بندھا ہے۔ میں نے وہ کھانا نوش جان کر کے پانی پیا اور رسی کو حرکت دی، اوپر والوں نے کھینچ لی۔ باقی جو کچھ پس خوردہ رہا تھا ان خدمت گاروں نے کھایا اور کتے کو بھی کھلایا۔ ایک مہینہ تک اسی طور سے گزران کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک روز شب کے وقت آدھی رات میں کسی شخص نے رسی ڈالی اور بآواز ملائم کہا کہ اے غریب بے چارہ ستم رسیدہ! سر ریسمان کو کمر اور ہاتھ اپنے سے مستحکم باندھ۔ میں سننے اس مژدہ راحت افزا کے سے نہایت خوش ہو کے شکر بدرگاہ الٰہی بجا لا یا اور جی میں کہا کہ شاید زمین کی سیر کوئی روزوں اور بھی قسمت میں ہے اور وہیں رسی کو اوپر اپنے لپیٹا اور ان نے کھینچ لیا اور میں اوپر آیا۔ فی الفور رسی کو کھول کے ان نے میرے تئیں ہمراہ لیا۔ ایک جا پر دو راس اسپ و یراق حاضر کیے تھے، ایک پر آپ سوار ہوا اور دوسرے پر مجھ کو سوار کیا اور تمام شب مسافت بعید قطع کی۔ جس وقت کہ خاتون شب کی پلنگ پر سے اٹھ کے بیچ خلوت خانے مغرب کے گئی اور ترک خورشید کا بیچ میدان صحرا کے پرتو انداز ہوا۔ شعر ؎
نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے
خدا حافظ ہے میرے دل کا یارو
برنگ ماہی بے آب نس دن
مسافر دشمنوں میں آ پڑا ہے
کہ پتھر سے یہ شیشہ جا بھڑا ہے
سجن میں دل ہمارا تر پھڑا ہے
کرے کیا آبروؔ کیوں کر نہ رووے
رقیباں کے صنم بس میں پڑا ہے
اس سوار ستم شعار نے میری طرف نگاہ تند سے دیکھا اور تلوار نکال کر بہ قصد ہلاک میرے ایک وار چلایا۔ میں اس کی ضرب کو بچا کر گھوڑے سے اترا اور قدموں پڑا اور نہایت عاجزی سے گڑگڑایا کہ میرے مارنے سے کیا حاصل ہوگا مثل ہے بگلا مارے پکھنا ہاتھ۔ تب ان نے کہا کہ اے کمبخت! وہ جوان کہاں ہے کہ جس کے واسطے تخت سلطنت کا چھوڑ کر آوارہ دشت ادبار کی ہوئی ہوں۔ میں نے دریافت کر کے کہا کہ اے نازنین! وہ جوان اُسی روز جنت نصیب ہوا تھا۔ یہ طعام اور آب ہر روزہ میں تناول کرتا تھا اور تم کو دعا دیتا تھا اور اس قدر جزع و فزع عمل میں لایا کہ ان نے میرے حال پر رقت کی اور کہا کہ سوار ہو وقت فرصت کا نہیں ہے۔ تمام روز افسوس و دریغ کیا اور میری طرف رخ توجہ کا نہ فرمایا۔ فرد ؎
آنچہ دلم خواست نہ آن می شود
ہر چہ خدا خواست ہماں می شود
تا آں کہ آفتاب مغرب میں گیا اور ایک مکان پر طرح اقامت کی ڈالی۔ اس نے از راہ مہربانی کے احوال میرا پوچھا۔ میں نے جو کچھ کہ راست بہ راست تھا گزارش کیا۔ تب ملکہ نے مجھ سے فرمایا کہ سن، اے عزیز! میں دختر روشن اختر فرماں رواے زیر آباد کی ہوں۔ ایک روز نظر میری خلف الصدق وزیر اعظم کے اوپر پڑی، بہ ہزار جان و دل فریفتہ اور عاشق اس کی ہوئی اور دایہ محرم اسرار اپنی سے کہا۔ شعر ؎
مرتی ہوں میرے حال پہ دایہ نظر کرو
بےکس کو بس میں کر کے سو تم مارتے ہو کیوں
ٹک جا خدا کے واسطے اس کو خبر کرو
وہ کچھ نہیں خدا کا تو تھوڑا سا ڈر کرو
اے نالہ ہاے شوق! اگر تم میں درد ہے
اس بے وفا کے دل میں تو جا کر اثر کرو
مبلغ نمایاں اور زر بسیار کارسازی میں خرچ کیے تاکہ خلوت میں بلا کر مقصد حاصل کیا۔ چنانچہ ہر شب اتفاق ملاقات کا ہوتا تھا۔ ایک رات اس کو پاسبانوں نے التباس شب رو میں پکڑا اور بادشاہ کے حضور میں لے گئے، بہ سبب اس کے کہ شب میں پہچانا نہیں کہ پسر وزیر ہے۔ بادشاہ نے حکم قتل کا فرمایا۔ بعد از شفاعت ہواخواہان فرمایا کہ بیچ چاہ سلیمانی کے ڈالیں۔ میں شکر الٰہی بجا لائی کہ یار میرا مارا نہ گیا اور میں رسواے خاص و عام نہ ہوئی۔ ہر روز آب وطعام بھیجتی تھی کہ گرسنگی سے ضائع نہ ہو۔ ایک رات میری خاطر میں گذرا کہ زندگی بے یار حیف ہے۔ شعر :
جان میری پر سزا ہے جو کہ گذرے ہے عذاب
یار سے ہو کر جدا پھر زندگانی حیف ہے
فی الحال دو راس اسپ باد پاے سبک رفتار اور سلاح پاکیزہ اور دو خرجین پر از زر و جواہر لے کر بر سر چاہ آئی اور اس عزیز کو نہ پایا لیکن نصیبے تیرے نے یاوری کی کہ مجھ سی شخص با دولت و زر میسر آئی۔ یہ کہہ کر نان و کباب نکالا اور باہم ناشتہ کیا اور شب و روز راہ طے کر کے ایک شہر میں آکر طرح سکونت اختیار کی اور وہ آپ مسلمان ہوئی اور میں نے بہ موجب شرع کے نکاح کیا۔ صندوقچہ زر و جواہر پاس اپنے رکھ کر دوکان جواہر فروشی کی لگالی۔ تا آں کہ در اندک فرصت مشہور و معروف ہوا۔ ایک روز بازار میں ازدحام نظر آیا۔ بعد تحقیقات کے معلوم ہوا کہ دو نفر عجمی بہ تہمت دزدی گرفتار ہیں اور خون کے قصاص کے امیدوار ہیں۔ آگے جا کر دیکھتا ہوں تو برادران عزیز از جان سلمہ الرحمن ہیں اور بہ خواری تمام سر و پا شکستہ و دست بستہ مجروح و خستہ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لاتے ہیں۔ میری آنکھوں میں جہاں تاریک ہوا اور اشک خونیں دریچہ چشم سے جاری ہوئے۔ ملازمین حاکم کو ایک مشت دینار دیے کہ صبر کرو تاکہ میں سوال و جواب ان کا کروں اور میں بہ تعجیل تمام حاکم کے پاس آیا اور یک دانہ قیمتی کہ سابق ازاں بہ قیمت یک صد تومان حاکم لیا چاہتا تھا اور میں راضی نہ تھا، کارسازی میں دے کر اُن کے چھڑانے کا پیغام کیا۔ حاکم نے کہا: اگر مدعیوں کو راضی کرو تو ان کی جاں بخشی ہوگی، والا معلوم۔ تب میں نے پانسو تومان ان کو دیے اور ان کو لے کر گھر آیا۔ اب کی دفعہ عورت اپنی کو چھپایا کہ مبادا یہ شیطان ہیں کچھ خلل کریں۔ سر اپنا ان کے پاؤں پر ڈال کر نہایت عجز کیا اور شبانہ روز بیچ خدمت گاری کے حاضر رہا۔ تا یک سال احوال بدیں منوال گذرا۔ ایک روز خورشید آسمان دلبری کی حمام میں جا کر نہا آئی، مگر غافل ازیں کہ ہر دو مرد مردانے گھر میں ہیں چادر سر سے دور کی۔ برادر میانہ کی نظر جیوں ہی کہ اُس کے قد و قامت پر پڑی تفنگ عشق کی جگر کے پار ہوئی اور بیچ تلاش ہلاکت میری کے مستعد ہوا۔ چنانچہ ایک رات کو یاد وطن کی کر کے آہ سر دل پُر درد سے بر لایا اور کہا کہ پردیس کی بادشاہی پر وطن کی گدائی فخر رکھتی ہے۔ میں نے کہا کہ خوب کہتے ہو، مجھ کو بھی اشتیاق وطن کا سلسلہ جنباں ہے۔ بارے اَندک فرصت میں تیاری کر کے روانہ ہوا۔ ایک منزل میں منجھلے بھائی صاحب بولے کہ اگر مقدور ہوتا تو ایک مقام کرتے کہ فضا اس سیر کی نہایت دلچسپ ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے کیوں کر جانا۔ کہا کہ ایک دفعہ ہمارے تئیں اتفاق اس راہ کا پڑا ہے۔ یہاں سے ایک فرسخ پر ایک چشمہ واقع ہے کہ آب زُلال اُس کا یاد از سَلسبیل و تسنیم بہشت کی سی دیتا ہے اور گل و اشجار اُس کے کام عطر گل کا کرتے ہیں کہ روضۂ رضوان اور فردوس الجنان پر فخر رکھتا ہے۔ میں نے قافلے میں صلاح اقامت کی دی اور کوچ موقوف کیا۔ وقت صبح کے کہ ہنوز روشنی کامل نہ ہوئی تھی، ہر دو برادر مسلّح اور مکمل ہو کر کہنے لگے کہ وقت بہار کا ہاتھ سے جاتا ہے۔ شتاب روانہ ہوجیے کیونکہ دھوپ میں کچھ لطف نہیں۔ جس وقت کہ میں نے سواری طلب کی اُس وقت کہا کہ پیادہ پا بڑا لطف ہے اور مکان بھی متصل ہے، کچھ احتیاج سواری کی نہیں۔ ہم تینوں بھائی اور یہ کتّا اور دو غلام مع حقہ و قہوہ طرف صحرا کے روانہ ہوئے اور تیر اندازی کرتے ہوئے متصل ایک باغ کے آئے۔ اتنے میں ایک غلام کو کسی کام کے بہانے طرف قافلے کے بھیجا۔ جب کہ اس کو دیر لگی، دوسرے کے تئیں اُس کے بلانے کو روانہ کیا۔ اس عرصہ میں مجھ کو احتیاج قضاے حاجت درپیش آئی۔ ایک جھاڑ کے نیچے بیٹھ کر متوجہ و مشغول استنجے کا ہوا کہ یکایک برادر کلاں نے سر پر پہنچ کر ایک تلوار ماری کہ تا بنا گوش پارہ کیا۔ میں کہ یہ کہتا ہی تھا کہ اے ظالم! یہ ظلم ناحق کیا ہے، کہ دوسرے نے دوڑ کر اوپر پشت کے تلوار ماری کہ بے ہوش و خموش ہو کر گرا۔ اس کتے نے کئی ایک زخم پنجے و دَندان تیز تر از نوک سنان سے اُن کو زخمی کیا اور اُن کے ہاتھ سے آپ بھی زخمی ہوا۔
القصہ برادران بے ایمان نے از راہ مکر و فریب کے ایک ایک زخم ہلکا سا اپنے بدن پر لگا کے اور پارچہ پوشیدنی اپنے خون میں سرخ رنگ کر کے قافلے میں جا کر کہا کہ قزّاق بد ذات در عین سیر و طیر ہمارے سر پر آئے اور جنگ عظیم واقع ہوئی۔ چنانچہ ایک بھائی مارا گیا اور ہم زخمی و خوار یہاں تک آئے۔ اُس ملکہ زیرآباد نے کہ حقیقت اُن کی سے خوب مطلع نہ تھی اپنے تئیں بہ ضرب خنجر ہلاک کیا اور یہ دونوں شخص مکر و خَدع سے روتے تھے اور بہ زبان حال کہتے تھے ؎
عجب نصیب ہمارے ہیں اس دیار میں ہاے
تو کچھ تو درد ہمارا بھی اب سمجھ ساقی
پڑے ہیں دام میں صیاد کے بہار میں ہاے
کریں ہیں بادہ پرستی کے ہم خمار میں ہائے
آخر کو یہ دونوں صاحب مال و دولت ہمراہ لے کر ساتھ قافلے کے روانہ ہوئے اور میں مجروح جنگل میں بے ہوش پڑا تھا۔ اس عرصہ میں دختر بادشاہ فرنگ کی براے سیر باغ با مَہوشان گُل اندام کے پہنچی اور حقیقت احوال میرا دیکھ کر سواری کھڑی کی اور فرنگی جَراح اُستاد کامل کو بلا کر امیدوار انعام کا کیا اور کہا کہ بیچ غسل صحت اس کی کے جس قدر جلدی کرے گا، مورد عنایات بے غایات کا ہوگا۔ اُس مرد جَرّاح نے زخموں کو دھو کر بخیہ کیا اور مرہم لگایا اور وہ ملکہ شفیقہ ہر روز دو تین بار واسطے خبر گیری میری کے تشریف لاتی اور شورباے مرغ اپنے ہاتھ سے پلاتی اور اکثر کہتی کہ کس ظالم و ستمگار، جفا کار، مردم آزار نے یہ ظلم و ستم روا رکھا ہے۔ بُتِ بزرگ سے نہ ڈرا۔
القصہ بہ فضل شافی مطلق در عرصہ یک ماہ بہ حالت اصلی درست ہوا اور وہ نازنین مہ جبین ایک آہ جاں سوز و جگر دوز سینہ سے بر لا کر تفحص احوال میری پر متوجہ ہوئی۔ میں نے مفصل حقیقت اپنی گزارش کی۔ فرمایا کہ کچھ غم نہ کر۔ جس وقت عاشق آفتاب کا بیچ کوچۂ مغرب کے گیا اور معشوق ماہ تاب بیچ صحن سما کے جلوہ پرداز ہوا، بیچ نصف شب کے اپنے تئیں میرے پاس پہنچایا اور میں ہر توجہ سے بیچ خاطر داری و دل جوئی اُس کے مُقصر نہ تھا اور گلشن وصال اُس پری تمثال کے سے گل کامیابی کے چُنتا۔ چنانچہ دایہ اُس کی بھی اس راز پر مطلع ہوئی۔ ایک روز وقت شب کے وہ ملکہ جادو ادا خورشید لقا در حضور پُر نور والد بزرگوار اپنے کے تشریف رکھتی تھی اور میں فرصت کو غنیمت جان کر گوشۂ باغ میں بیچ اداے قضاے نماز کے مشغول تھا کہ ناگاہ وہ ملکہ خدمت پدر کے سے مُرخّص ہو کر اوپر بستر خواب کے آ بیٹھی اور دایہ سے کہا کہ وہ کم مایہ آج فرصت پا کر ساتھ کسی خواص کے ہوگا، دیکھوں تو کہاں ہے اور کیا کرتا ہے۔ اس تلاش میں اُٹھ کر رو برو میری آئی اور طرز عبادت میری کا دیکھ کر تعجب کرتی تھی کہ یہ دیوانہ ہو گیا، اُٹھا بیٹھی کر رہا ہے۔ جس وقت کہ میں نے فرض سنت و نفل سے فارغ ہو کر دست دعا کا بیچ جناب حضرت قاضی الحاجات کے اٹھا کر ساتھ گریہ و زاری کے مناجات پڑھی، ملکہ قہقہہ مار کے ہنسی اور کہا کہ اے مرد عجمی! دیوانہ ہوا ہے۔ میں بجاے خود خشک و ہراساں ہو گیا۔ معشوقہ آگے میرے آئی اور پوچھا کہ کیا کرتا تھا، دایہ نے کہا کہ یہ مرد مسلمان ہے، خداے نادیدہ کی پرستش کرتا ہے۔ ملکہ برہم ہوئی اور کہا کہ پس دشمن اپنا بغل میں پالتی ہوں۔ یہ کہہ کر از راہ غم و غصہ کے میرے پاس سے اُٹھ گئی۔ میں بھی اپنے حجرہ میں آیا اور دروازہ بند کر کے بیچ نماز کے مشغول رہا۔ دو روز کے بعد شب سویم کو نشہ شراب میں سرشار آئی اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اور پیالہ پی کر دائی سے کہا کہ یہ شخص بیچ غضب بُت بزرگ کے گرفتار ہو کر زندہ ہے یا مردہ۔ دائی نے کہا کہ رمقے از جان باقی دارد۔ کہا کہ ہر چند نظروں سے گر گیا ہے لیکن یہ اس سے کہہ کہ باہر آوے۔ میں بہ مُجرد طلب اس مست غضب کے سراسیمہ دوڑا گیا اور سلام کر کے ایک طرف کو کھڑا ہوا۔ بعد ایک ساعت کے خشمگیں نظروں سے دیکھ کر دائی سے کہا کہ اگر میں اس کو مار ڈالوں تو بت بزرگ مجھ سے راضی ہووے۔ دائی نے کہا کہ یہ بہتر ہے مگر یہ بات بت بزرگ ہی پر موقوف رکھیے۔ تب ملکہ نے یہ فرمایا کہ اس کو کہہ کہ بیٹھے۔ میں بہ موجب ارشاد کے بیٹھ گیا۔ ملکہ نے دائی سے کہا کہ اس کو شراب دے کہ وقت مرگ کے سختی نہ دیکھے۔ دائی نے ایک جام پر از شراب گلفام میرے تئیں دیا۔ جس وقت کہ اُس کے پینے سے دماغ میرا گرم ہوا از راہ دلیری کے برسر سخن آیا اور کہا، فرد ؎
دلم بردی و دلداری نہ کردی
غمم دادی و غمخواری نہ کردی
یہ سن کر زیر لب خندہ کیا اور کہا کہ اے دائی! شاید تجھ کو نیند آتی ہے۔ اُن نے از راہ عقل دریافت کر کے کہا کہ واقعی ملکہ کو صاحب کرامات کہا چاہیے۔ دعا و ثنا کہہ کر اُٹھی اور محل خواب گاہ اپنی میں جا کر سو رہی۔ ملکہ نے بعد ایک لمحہ کے پیالہ مانگا، میں نے پُر کر کے دیا۔ جس وقت شراب پی کر پیالہ میرے تئیں دینے لگی، میں نے بوسہ اوپر دست مبارک کے دیا اور پیروں پر پڑا۔ نازنین صنم نے ہاتھ جھاڑ کر کہا کہ اے جاہل! بت بزرگ سے کیا بدی دیکھی کہ پرستش خداے نادیدہ کی کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ اے سرخیلِ معشوقانِ طَنّاز! پرستش اس خداے بے ہمتا کی کرتا ہوں کہ تجھ سا گل بیچ گلزار جہاں کے نشو و نما کیا ہے اور مجھ سے بیچارے کے تئیں اسیر طرۂ تابدار تیری کا کیا ہے۔ اور تیرا بت بزرگ کیا بلا ہے، ایک سنگ تراشیدہ بے حس و حرکت ہے کہ جس کی پرستش سے نہ فائدہ دین کا نہ دنیا کا۔ جس وقت عبادت معبودِ حقیقی کی کرے گی اور اس راہ ضلالت سے کہ از رہ گمرہی تیری کے ہے، نکلے گی، معلوم ہوگا کہ عبادت الٰہی کیا اثر رکھتی ہے۔ فرد ؎
مَر اُو را رسد کبریا و منی
کہ ملکش قدیم است و ذاتش غنی
جس وقت میں نے دیوان معرفت الٰہی کا کھولا و از دلائل قاطع و حُجت ساطع وَحدانیت سے آگاہ کیا تب ان نے بہ صدق دل کلمہ طیبہ زبان پر جاری کیا اور تا صبح روتی و استغفار کرتی رہی اور فرمایا کہ والدین میرے کافر ہیں، اس کا کیا علاج ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اُن کے کفر و اسلام کی باز پرس تجھ سے نہیں ہونے کی۔ کہا کہ میں نامزد پسر عمّو کی ہوں، اگر وہ مجھ سے نزدیکی کرے گا تو نطفہ کافر کا پیٹ میں قرار پکڑے گا۔ اِس واسطے ایک ترکیب میرے ضمیر پر آئی کہ فکر بھاگنے کی کیا چاہیے تا اس تہلکہ سے خلاص ہوں لیکن چند روز مفارقت میری اختیار کرنا از جملہ واجبات ہے۔ قافلۂ سوداگران میں جا کر مقام کر، میں دائی کو ہر روز واسطے خبر تیری کے بھیجوں گی اور جواہر گراں بہا تجھ تک پہنچا دوں گی۔ جس وقت کہ سوداگرانِ بلادِ عجم کے از راہ دریا کے مسافت کریں، تو بھی تیاری اپنی کر کے مجھ کو اطلاع دے تو میں رات کے تئیں تن تنہا تیرے پاس پہنچوں گی۔ میں نے کہا فدایت شوم، بہتر ہے۔ دایہ کے ساتھ کیا کرو گی۔ کہا ؎
دہم جامے کہ باجانش ستیزد
کہ تا روزِ قیامت بر نہ خیزد
وقت صبح یک مشت زر سرخ میرے تیں دے کے رو برو دایہ کے رخصت فرمایا اور میں مفارقت کر کے بادل پُر حسرت خدمت اس کی سے مرخّص ہو کے بیچ کارواں سراے کے آیا۔ تب ایک کوٹھری لے کر شب و روز بیچ فراق اُس دلفریب کے بآہ و سوز خونِ جگر کھاتا تھا۔ ایک مدت پیچھے سوداگروں نے از راہ دریا ارادہ وطن کا کیا۔ جس وقت کہ مجھ کو کہا کہ تو بھی تیاری اپنی کر، میں نے واسطے رفع تہمت کے کہا: مگر کسی سرمایہ پر ارادہ کروں، بقول آں کہ اوچھی پونجی خصمی کھائے۔ تب انھوں نے کہا کہ اس کفرستان میں کب تلک رہے گا۔ میں نے کہا کہ خوب اگر تم ایسا ہی کہتے ہو تو ایک میں اور ایک لونڈی اور ایک کتا اور ایک صندوقچہ، یہ کچھ بساط ہے۔ میرے لایق جہاز میں جگہ مقرر کیجو۔ میں شہر میں جا کے اور اسباب لا کے تمھارے ساتھ ہوتا ہوں۔ سبھوں نے متفق ہو کر کہا کہ جلد جا کر اسباب اپنا لا۔ چنانچہ لباس خواب کا اور کتّا جہاز میں سوار کیا۔ جو معلوم ہوا کہ وقت صبح کے بادبان بلند ہوگا رُفقاے سفر سے مُرخّص ہو کر شہر کو آیا کہ کنیز اپنی کو لے آؤں۔ وہاں سے شہر میں آ کر دائی سے کہا کہ اے مادر مہربان! واسطے رخصت ہونے کے تیری خدمت میں آیا ہوں، اگر بہ توجہ عالیہ یک مرتبہ دیدار ملکہ کا نصیب ہو تو بعید اشفاق سے نہ ہوگا اور یہ بندہ بے درم خریدہ ہو کر خط غلامی کا منقوش خاطر عقیدت مآثر کے رکھے گا۔ دائی نے از راہ مہر وَرزی کے نظر اوپر حال تباہ میرے کر کے فرمایا کہ فلانی جا پر متصل حَرم سَرا کے اقامت پذیر ہو، میں خبر کر کے بلا دوں گی۔ چنانچہ اندرون دولت سراے اُس بدیع الجمال نیکو خصال کے دائی نے اظہار عرض اور شیفتگی میری کا کیا۔ ملکہ درمیان لوگوں کے راضی نہ ہوئی اور جواب صاف دیا۔ لیکن بیچ نصف شب کے سب کو رخصت کر کے صندوقچہ جواہر بے بہا کا لے کر بغل میں برآمد ہوئی۔ میں جو منتظر آمد آمد کا تھا، دیکھ کر نہایت شاد ہوا اور صندوقچہ اس کے ہاتھ سے لیا۔ دونوں باہم جلد قدم اُٹھا کر وقت نور کے دریا پر پہنچے اور سوار ہوئے۔ ملاحوں نے لنگر اُٹھا کر بادبان بلند کیا اور شَلّک توپ کی سر دے کر جہاز روانہ ہوا۔ از بس خوشی سے کہ گویا فرمان دہی ہفت اقلیم پر دست رس پایا، خوش و خرّم چلے۔ تا چاشت بہ سُرعت اتم کشتی چلی جاتی تھی کہ سمت بندر کے سے صدا توپ کی سرزد ہوئی۔
القصہ جس وقت بادشاہ کو خبر ہوئی کہ دائی موئی پڑی ہے اور ملکہ غائب ہے، سننے اس حقیقت کے سے حکم والا صادر ہوا کہ مستحفطان طرق و شَوارِع جَزایر و بَنادر کو فرمان عالی پہنچے کہ تفحص و تجسس کریں اور جتنے تاجر و مسافر کنیزک خوبرو رکھتے ہوں لا کر نذر گزرانیں۔ جو کنیز کہ سرکار والا لیویں گے اس کی قیمت عنایت ہوگی اور باقی بجنسہ پھیر دی جائیں گی۔ سوداگروں نے کنیزکیں خوبرو صاحب جمال خرید کر واسطے محصول و کرایہ جہاز کے صندوقوں میں چھپائی تھیں اور میں نے بھی اُس گرامی گوہر کو ایک صندوق میں رکھا تھا۔ یکایک کشتیوں پر فوج ملازمان شاہ بندر کہ نواح دیگ تھا آن پہنچے اور کہا کہ کنیزکیں جہاں تک لی ہیں قیمت اُن کی کہو اور سب کنیزکیں لے چلو۔ جو کنیزک کہ بادشاہ پسند کر کے رکھیں گے، قیمت اُس کی ملے گی اور باقی پھیر آویں گی۔ چنانچہ ہمراہ سب کنیزکوں کے معشوقہ میری کو بھی لے گئے۔ شام کے وقت سب کنیزکیں پھیریں مگر مجھ برگشتہ طالع کی معشوقہ پسند کر کے رکھ لی۔ جس وقت کہ میں مفارقت اس کی سے متردد اور متفکر ہوا سب سوداگروں نے کہا کہ تجھ کو قیمت اُس کی سے دو چند دیتے ہیں کچھ غم و غصہ نہ کر۔ میں راضی نہ ہوا اور وہاں سے پھر کر شہر میں آیا۔ وقت شب کے جانبازی کر کے بیچ دولت سراے شاہ بندر کے پہنچا اور ہر چند جستجو کی، نشان نہ پایا اور مدت ایک ماہ تک کوچہ گردی کی، کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تا آں کہ ایک روز بیچ حویلی وزیر کے آیا اور ہر چہار طرف نگاہ کی، وہاں بھی سراغ نہ ملا مگر ایک بدرو دیکھا کہ چند سیخچے آہنی اُس کے دہانے پر لگے ہیں۔ فی الفور ایک حربہ معقول پیدا کر کے وقت شب میں سیخچے توڑے اور مثل سگ کے تنگ ہو کر در آیا اور ہر چہار طرف کھوج کیا۔ ناگاہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک باغیچہ میں نیچے ایک درخت کے بہ آواز حزیں دعا بیچ جناب حضرت مسببُ الاسباب کے مانگتی ہے کہ الٰہی! میں مسلمان ہوئی اور تجھ کو پہچانا۔ جس شخص کے سبب سے یہ دولت ایمان کی نصیب میرے ہوئی اس سے ملا، بہ تصدق حضرت پیغمبر و پنجتن پاک دوازدہ امام و چہاردہ معصوم کے۔ میں یہ سُن کر آواز پر چلا اور جا کے قدم۔بوس ہوا۔ بارے اُن نے دیکھتے ہی بہ اشتیاق تمام گلے لگایا اور حقیقت پوچھی۔ میں نے جو کچھ کہ تھا ظاہر کیا۔ اُس ماہتاب آسمان شہریاری کے نے کہا کہ وزیر نے لونڈیوں میں مجھ کو پسند کر کے رکھ لیا اور باقی کنیزکیں حضور میں لے گیا۔ بادشاہ نے ان میں مجھ کو نہ پایا، سبھوں کو پھیر دیا۔ اب میں یہاں گرفتار رنج و مصیبت کی ہوں۔ ہرچند کہ چاہتی تھی اپنے تئیں ہلاک کروں مگر پس و پیش مترصد لطائف غیبی کی تھی۔ بارے اب تجھ کو دیکھا تو خاطر جمع ہوئی اور اب ایک فکر اور کیا چاہیے کہ جس سبب سے اغلب ہے کہ اس قید سے چھوٹوں اور تیرے ہاتھ آؤں۔ تب میں نے پوچھا کہ وہ فکر کہو کیا ہے۔ کہا کہ بُت بزرگ کو دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ البتہ نام سُنا ہے۔ کہا کہ دستور ہے کہ جس شخص پر کچھ ستم ہوتا ہے یا کوئی اسے ستاتا ہے، وہ شخص لباس سیاہ پہن کر بت خانہ میں جا بیٹھتا ہے۔ بعد اس کے جو لوگ کہ واسطے زیارت کے آتے ہیں، اُسے بھی کچھ دیتے ہیں اور روز چہارم ایک خلعت سرکار سے مرحمت کر کے رخصت کرتے ہیں۔ تو جا کر وہاں بیٹھ۔ زائر وہاں کے مال و متاع بسیار تجھ کو دے کر رخصت کریں گے۔ تو ہرگز قبول نہ کیجیو اور کہیو کہ مجھ کو مال درکار نہیں۔ آیا ہوں کہ درد میرا پوچھو اور دوا کرو۔ و اِلّا یہیں رہ کر عید کے روز اپنے تئیں قربانی کروں گا۔ داد مجھ عاجز غریب کی بُت بزرگ لے گا اور مادر برہمناں ایک پیر زال کہ یک صَد و ہیجدہ سال سن اُس ناپاک کے سے گذرے ہیں اور چھتیس بیٹے رکھتی ہے اور تمامی برہمن اور سکنہ فرنگ کے اُسے محبوبہ بُت بزرگ جانتے ہیں، جس وقت کہ وہ آوے یا تجھ کو بُلاوے دامن اُس کا نہ چھوڑیو اور گریہ و زاری اس قدر عمل میں لائیو کہ احوال پرسی تیری کرے، تب اُس وقت کہیو کہ میں مرد عجمی ہوں آوازہ عدل و انصاف تمھارے کا سُن کر واسطے طواف بُت بزرگ کے آیا تھا۔ شاہ بندر نے عورت میری کو لیا ہے اور عاشق اس کا ہو کر گھر میں رکھا ہے اور قاعدہ ہمارا یہ ہے کہ اگر ہاتھ مرد نا محرم کا عورت ہماری کے لگے، ہم پر لازم ہے کہ اس کو جان سے ماریں تب کھانا پینا حلال ہو اور جب تک وہ جیتا رہے، طعام ہم پر حرام ہے۔ یہ کہیو دیکھیو فضل الٰہی سے کیا ہوتا ہے۔
القصہ نازنین کو وداع کیا اور خدا کو سونپا۔ فرد ؎
رخصت ہوتا ہے مرا یار، خدا کو سونپا
کیا کروں بس نہیں لاچار، خدا کو سونپا
بیچ دیوہرہ کے آ کر مکان مذکور میں اقامت کی۔ تین روز گذرے، اس قدر زر و زیور اور لباس جمع ہوا کہ حد قیاس سے باہر تھا۔ چوتھے روز برہمن موجب قاعدہ مستمرہ کے آئے اور خلعت فاخرہ لائے اور تکلیف رخصت کی کی۔ میں نے قبول نہ کیا اور فریاد بر لایا کہ اے ساکنانِ عَتبہ بلند رتبہ! میں واسطے گدائی کے نہیں آیا بلکہ داد خواہی کو آیا ہوں اور حضور بُت بزرگ کے اپنا ماجرا لایا ہوں اور مادر برہمناں سے کچھ کہا چاہتا ہوں۔ جس وقت کہ حقیقت احوال میری کی بیچ خدمت اُس پیر زال کے گزارش کی، بندہ کو حضور طلب کیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک تخت مرصع پر بُت بزرگ با جواہر گراں بہا و لباس ہاے فاخرہ و مَروارید بیش بہا پہنے ہے اور آگے بت بزرگ کے ایک تختہ کہ زر سے آراستہ کیا ہے اُس پر مادر برہمناں بیٹھی ہے اور دو طفل دہ سالہ و دوازدہ سالہ چپ و راست اس کے حاضر ہیں اور اس کے ساتھ بیچ عیش اور بازی کے مشغول ہیں۔ میں نے رو برو آ کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور بہ موجب تعلیم اُس ملکہ عاقلہ کے عمل میں لایا اور بہ گریہ و زاری تمام دامن اس کا پکڑا۔ جب اُن نے احوال میرا سُنا کہا کہ اے عجمی! مگر تم عورت اپنی کو تنہا رکھتے ہو اور کہتے ہو کہ دوسرے کا ساجھا مطلق نہ ہو۔ میں نے کہا کہ آرے۔ یہ عیب ہم میں مقرر ہے۔ کہا کہ عیب نہیں، یہ خوب قاعدہ ہے۔ پھر پوچھا کہ حاکم بندر کون ہے؟ بیٹے اور خادموں اُس کے نے کہا کہ فلانا شخص ہے۔ اُس کا نام سُن کر بہت برہم ہوئی اور کہا بڑا مَردَک ہے۔ دونوں فرزند اپنے کو فرمایا کہ سوار ہو کر بارگاہ فرماں روا میں جاوو اور کہو کہ اے غافل و جابل! والدہ ہماری نے کہا ہے کہ حکم بُت بزرگ کا یوں ہے کہ فلانے کو جو حاکم بندر کیا ہے، مرد ظالم و مردم آزار ہے اور اس مرد عجمی پر ستم روا رکھا ہے۔ لازم ہے کہ رقم قتل حاکم بندر کا لکھ کر اس مرد عجمی کو دے اور جو کچھ کہ مال و اموال اثاث البیت خواہ کم خواہ زیادہ ہووے یہ نظر کردہ ہمارا ہے، اُس کو بخش دے اور راضی کرے۔ اِلّا آج کی رات تجھ کو سنگ سیاہ کروں گی۔ وے دونوں برہمن زادے بہ موجب فرمانے مادر اپنی کے بُت کدہ سے باہر آئے اور سوار ہوئے۔ ایک جماعت پنڈواں کنشتیاں و زُنّار داراں بیچ جلو ان کے با دُہل و کوس و سُرنا و کُرَّنا و ذکر گویاں و ناقوس نوازاں داخل شہر ہوئے اور طرف پاے گاہ بادشاہ کے متوجہ ہوئے۔ خلقت شہر کی اور از اہل فرنگ خاک سُم مرکبان ہر دو برہمن زادوں کے بہ طریقِ تبرک لے کر سرمۂ چشم بینا کا کرتے تھے اور کحل الجواہر جانتے تھے۔ خبر اُن کی آنے کی سُن کر بادشاہ عالی جاہ، کیوان بارگاہ، ملائک سپاہ واسطے استقبال کے آیا اور گلے لگایا۔ ہمراہ اپنے لے جا کر اوپر مسند کے بٹھلایا اور باعث قدم رنجہ فرمانے کا پوچھا۔ انھوں نے پیغام زبانی والدہ اپنی کا، جو کچھ کہ اُن نے کہا تھا، اظہار کیا۔ بادشاہ نے تامل کر کے کہا کہ خوب! شاہ بندر کو لاویں اور برابر اس مرد عجمی کے کھڑا کریں تاکہ حقیقت اس مقدمہ کی پوچھوں اور وجہ احسن موافق شرع اپنی کے عمل میں لاووں۔ یہ بات سُن کر میں مضطرب ہوا کہ اگر رو برو بادشاہ کے یہ ماجرا اِنفصال ہوگا تو مقرر وہ بدرِ منیر آسمان عقل و تدبیر کی حضور میں طلب ہوگی اور بادشاہ اپنی بیٹی کو پہچان کر داخل محل کرے گا۔ اُس وقت یہ تمام سیاست اپنے ہی اوپر آتی ہے، یہ طرز خوب نہیں۔ برہمن زادوں نے قرینے سے دریافت کیا کہ یہ حکم خلاف مرضی اس جوان کے ہوا ہے، از راہ کمال طیش اور غصہ کے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مُتّفق اللفظ وَ المعنی ہو کر کہا کہ دولت دنیاوی و حشم ظاہری نے تجھ کو خبط اور دیوانہ کیا ہے کہ حکمِ بُتِ بزرگ سے انحراف کرتا ہے یا یہ کہ قول ہماری والدہ کا خلاف جانتا ہے۔ اگر فرمانا بُتِ بزرگ کا اور ہماری ماں کا تو سب جھوٹ جانتا ہے تو آج رات کو معلوم ہوگا۔ ہم نے دریافت کیا ہے کہ غضب بتِ بزرگ کے سے تو نہیں ڈرتا۔ یہ کہہ کر روانہ ہوئے۔ بادشاہ فرنگ نے بہ التجاے تمام اُن کو بٹھلایا۔ اتنے میں اُمرا و نُدَما نے متفق ہو کے زبان بیچ بد گوئی شاہ بندر کے کھولی کہ اکثر خلقت ہاتھ ظلم و ستم اُس کے سے عاجز و جاں بلب ہے۔ بارے بادشاہ نے رقم قتل شاہ بندر کا اور معافی مال و اموال اور گھر بار اُس کے کا جوان عجمی کو لکھ کر حوالے کیا اور نذر و نیاز بسیار برہمن زادوں کے آگے رکھ کر نہایت اعزاز و اکرام سے رخصت کیا اور عرضی بیچ خدمت مادر برہمناں کے لکھی کہ حسب الامر کرامت اثر رقم قتل شاہ بندر و ضبطی اموالش بہ این مرد تاجر عجمی کو لکھ کر حوالے کیا۔ آگے اختیار ہے، جو کچھ مناسب جانیں عمل میں لاویں۔ آپ بہر صورت خاوند اور مختار ہیں۔ مادر برہمناں نہایت خوش دل ہوئی اور فرمایا کہ نقارہ بجاویں۔ بہ مجرد صداے نقارہ کے پان صد سوار مسلح و مکمل حاضر ہوئے۔ فرمایا کہ شاہ بندر کو پکڑ لاوو اور حوالے اس مرد عجمی کے کرو۔ چنانچہ سوار حسب الحکم فی الفور عمل میں لائے۔ میں زمین بوسی کر کے روانہ ہوا اور تیغ بے دریغ سے شاہ بندر کا سر کاٹا اور مال و اموال اور گھر بار اُس کا بیچ قبضہ و تصرف کے لایا اور خلعت شاہ بندر کا کہ عنایت ہوا تھا، پہنا۔ بعد ازاں داخل محل کے ہوا اور اس معشوقہ دلنواز سے بغل گیر ہو کر دو گانہ شکر کا بیچ درگاہ کارساز بے نیاز کے ادا کیا۔ دوسرے روز دربار کر کے سپاہ و رعیت کو بقدر حوصلہ و مقدور اپنے کے راضی کیا۔ بعد چند روز کے حسن تدبیر و کارسازی میری سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بادشاہ فرنگ کا کوئی کام بے مشورت اور بے اطلاع اس فدوی کے نہ کرتا۔ اس اوج دولت اور شان و شوکت میں بھی خدا آگاہ ہے کہ شب و روز یہی خیال رہتا تھا کہ احوال برادران عزیز کا کیا ہوگا۔ بعد مدت سہ سال ایک قافلہ از راہ دریا کے آیا۔ ملک التجار نے میری ضیافت کی۔ میں سوار ہو کے گیا۔ اس قافلے میں دونوں برادروں کو پہچانا کہ مثل خدمت گاران پریشان احوال اور تباہ ہیں۔ وقت معاودت کے ملازمان سرکار اپنے سے کہا کہ ان دونوں نوجوانوں کو ساتھ لے آؤ۔ چنانچہ حمام کروا کے اور خلعت فاخرہ پہنا کے ملازمت شاہ فرنگ کی کروائی اور ہر ایک کو جدا جدا خدمت عمدہ دلوائی۔ چند روز نہیں گذرے کہ ان بے حیاؤں نے پاس خاطر میرا باوجود مسلوک ہونے اور اس قدر جمعیت و دولت کا مدنظر نہ کر کے بیچ قتل کرنے میرے کے مصلحت کی۔ واسطے اس کے کہ ایک روز وہ نازنین مہ جبین صبح باغ میں طرف دریا کے سیر کرتی تھی کہ ناگاہ نگاہ منجھلے صاحب کی ساتھ نگاہ اس کی کے ہم نگاہ ہوئی اور بے اختیار عاشق ہو کر برادر کلاں سے یہ ماجرا کہا۔ وہ بھی متفق مصلحت مرگ میری کا ہوا۔ اتفاقاً ایک شب کو میں غافل سوتا تھا اور وہ در یکتا واسطے قضاے حاجت کے گئی تھی کہ ناگاہ ہر دو جوان مثل یاجوج و ماجوج کے اوپر چھاتی میری کے آن چڑھے اور رسی میرے گلے میں ڈال کر خفا کیا کہ اس اثنا میں کتے نے فریاد کی اور میں بے ہوش ہوا۔ ان نابکار ظالم ستمگار نے میرے تئیں دریا میں ڈالا۔ جس وقت کہ موج دریا نے میرے تئیں ساحل پر پہنچایا، اس وقت ہوش میں آ کر دیکھتا کیا ہوں کہ دھوبی کپڑے دھوتے ہیں اور مجھ کو گود میں لے کر پیچ چاولوں کی پلاتے ہیں اور شاید کہ رسی بھی میرے گلے کی انھوں نے دور کی تھی۔ آخر الامر وقت شام کے گھاٹ پر سب اپنے گھروں کو چلے اور میرے تئیں انبار کاہ میں ڈال گئے کہ کوئی جانور رات کے وقت میرے تئیں توڑ نہ ڈالے۔ میں تمام شب بے ہوش اور بدحواس تھا۔ صبح کے وقت جو ہوشیار ہوا تو ایک کھیت سبز نظر آیا۔ اس طرف کو روانہ ہوا۔ آن کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک جھوپڑی کسی کی آباد تھی اور چند مردم سیاہ فام بد سرانجام نے آگ جلائی تھی اور ہولے کھاتے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر اشارہ کیا کہ نخود بریاں تو بھی کھا۔ میں نے مشت نخود اس بے خودی میں کھائے اور خدا کو یاد کیا اور پانی پی کے ایک گوشے میں سو رہا۔ حقیقت احوال میرا انھوں نے نہ پو چھا نہ میں نے ان کی زبان سمجھی، نہ انھوں نے میری حالت دریافت کی۔ دوسرا روز جو ہوا تو پھر وہی نخود بریاں میری غذا ٹھہری کہ سواے اس کشت کاری کے اور کچھ ذکر نہ تھا۔ میں نے دو پتھر لے کر اور آرد سائیدہ کرکے روٹی پکائی۔ بدستور میرے وے بھی عمل میں لائے اور نہایت محظوظ ہوئے کہ یہ ڈول ہم نے تجھ سے سیکھا۔ خیر وہاں سے یہ رفاقت سگ حضور بہ از فرزند دور کے روانہ ہو کر تین دن رات چلا کیا اور وہ دشت حدت و ہوا سے مانند دشت محشر کے تھا اور سواے ریگستان کے کچھ اور نظر نہ آتا تھا۔ وہ آرد نخود کہ تیار کر کے ہمراہ لیا تھا، قدرے قدرے موافق تبرک کے خرچ میں لاتا۔ چوتھے روز ایک حصار فلک فرسا نمودار ہوا۔ چہار طرف اس کے سیر کیا اور دیکھا کہ ایک دروازہ تھا، مقفل ساتھ تین قفل کے۔ وہاں سے مایوس ہو کر آگے کو چلا تو بالاے ایک کوہ کے پہنچا کہ خاک اس کی سیاہ مانند سرمہ تھی۔ وہاں سے جو سواد ایک شہر کا نظر آیا، خوش وقت ہو کر بہ شوق تمام رہ گزا ہوا۔ جس وقت کہ دروازۂ شہر پر پہنچا بسم اللہ کہہ کر کے داخل ہوا۔ دیکھا تو ایک مرد لباس فرنگی پہنے ہوئے اوپر ایک کرسی کے بیٹھا تھا۔ آواز بسم اللہ کی سن کر میرے تئیں بلایا اور احوال میرا پوچھا۔ میں نے عذر کیا کہ طاقت گفتار نہیں ہے۔ وہ عزیز میرے حال پر رحم کر کے نان و کباب لایا۔ میں نے چاہا کہ اس طعام سے رفع گرسنگی حاصل کروں کہ ناگاہ لقمۂ اول کھاتے ہی بے ہوش ہو اوپر زمین کے گرا۔ وقت شب کے جو میں ہوش میں آیا اس مہربان مسافران کے نے احوال پرسی میری کی۔ میں نے مشقت دریا و محنت صحرا اور نقصان مال اور تصدیعہ دادن برادران چند دفعہ ایک ایک اظہار کیے۔ پھر ان نے پوچھا کہ اب کیا ارادہ ہے۔ میں نے کہا: چاہتا ہوں کہ چند روز زیست کے اس شہر میں گذران کروں۔ اب نہ طاقت سیر صحرا کی ہے اور نہ قوت سفر دریا اور نہ زاد راحلہ، مگر یہی دل پر خون و پاے پر آبلہ رکھتا ہوں ؏
از ضعف بہ ہر جا کہ نشستیم وطن شد
ان نے کہا کہ اے عزیز! تو عجمی ہے اور حق دین اسلام کا مجھ پر رکھتا ہے۔ بیچ اس شہر کے تو مت جا۔ یہ بِیل و غِربال اور توبڑا لے کر اس ٹیلے پر جا اور زور کر کے کھودنا شروع کر۔ جو کچھ کہ کھودے گا غربال سے چھان کر توبڑے میں ڈال کر میرے پاس لے آ۔ بعد اس کےجو کچھ کہوں مطابق اس کے عمل میں لانا۔ میں بہ مجرد فرمانے اس مرد کے اس مکان پر گیا اور موافق ارشاد کے عمل میں لایا۔ جواہر و زواہر بسیار اس خاک میں ظاہر ہوئے کہ آنکھ دیکھنے سے خیرہ کرتی تھی۔ توبڑے میں پر کیے اور دانہ کلاں واسطے اپنے چھپائے اور توبڑا اوپر دوش کے اٹھا کر حضور اس کے حاضر کیا۔ ان نے کہا: یہ دولت عظمی نصیب تیرے کی ہے۔ تو لے اور ایک نان اور میوہ مجھ کو دیا اور کہا کہ اس شہر میں کسی نے تجھ کو دیکھا نہیں ہے۔ جا اور جان اپنی سلامت لے جا۔ میں راضی نہ ہوا اور کہا کہ البتہ اس شہر میں داخل ہوں گا۔ اس عزیز نے لاچار ایک انگشتری اپنے ہاتھ کی نشانی دی اور کہا کہ درمیان چوک کے ایک شخص میری صورت ہے، تو اس کے پاس جا اور جو کچھ کہ وہ کہے عمل میں لا۔ میں نے دعا کہی اور داخل شہر کا ہوا ۔شہرے دیدم بہ کمال آراستگی و آبادی معمور و بازار دلکشا۔ زن و مرد بہ انبساط اختلاط باہم چکنا چور، ہر ایک مست شراب و مخمور، مرداں با مرداں و زناں بہ زناں در بیع و شرا مشغول ومسرور۔ میں طرف چوک کے روانہ ہوا۔ خدمت اس بزرگ کے پہنچ کر سلام کیا۔ اُس عزیز نے احوال پرسی کی اور کہا کہ برادر گردن شکستہ نے تیرے تیں دیکھا اور داخل ہونے شہر سے منع نہ کیا؟ میں نے کہا کہ رات میں بیچ خدمت اس بزرگ کے رہا اور وہ مبالغہ تمام سے مانع ہوا تھا، میں نے قبول نہ کیا۔ تقصیر اس کی نہیں ہے۔ تب اس نے از راہ تاسف کے کہا کہ افسوس اے ظالم! یہ سب تکالیف کہ تجھ پر گذریں سہل تھیں لیکن یہاں نہ آنا تھا۔ تب میں نے پوچھا کہ مجھ کو حقیقت اس شہر کی سے مطلع کرو کہ تم اور بھائی تمھارا دونوں مانع ہوئے، باعث اس کا کیا ہے؟ تب ان نے کمیت زبان اپنی کے تئیں بیچ عرصہ بیان کے جولاں گر تقریر کا کیا کہ سکنہ اس شہر کے کافر ہیں۔ جو کوئی مصیبت زدہ وارد اس شہر کا ہوتا ہے، اپنے گھر میں جگہ اقامت کی نہیں دیتے تاکہ فرماں رواے اس شہر کو اطلاع نہ ہو اور جب فرماں روا کو خبر ہوتی ہے تو وہ ایک بت رکھتا ہے کہ شیطان بیچ اس کے رہتا ہے اور تکلم کرتا ہے اور نام و نشان و حسب و نسب اس شخص کا بتاتا ہے اور بادشاہ سجدہ اس بت کا کرواتا ہے۔ جو کوئی چاہے کہ بے رخصت اپنے وطن کو بھاگ کر جائے، یہ خیلے مشکل ہے۔ کس واسطے کہ جیوں جیوں وہ چلتا ہے توں توں آلت اس شخص کی بڑھتی ہے تا بہ حدیکہ راہ چلنے سے عاجز رہتا ہے اور یہ بھی ہے کہ جو کوئی سجدہ بت کا کرتا ہے اور کتخدا ہونا چاہتا ہے، اس کو دختر اپنی دیتے ہیں۔ میں یہ حقیقت سن کر بیزار ہوا اور اپنے بھائیوں کے حق میں دعاے بد کی۔ اس مرد بزرگ سے کہا کہ اب دامن دولت تمھارا پکڑا ہے، میرے حق میں جو بہتر ہو سو کرو۔ ان نے کہا کہ خاطر جمع رکھ۔ ایک عورت تیرے واسطے تجویز کی ہے۔ میں نے کہا وہ کون ہے۔ کہا کہ دختر وزیر، پانزدہ سالہ، سرو قد، شکر لب، شیریں گفتار، نہایت خوبصورت اور صاحب جمال ہے۔ قاعدہ یہاں کا یوں ہے کہ جو کوئی مرد اجنبی وارد ہوتا ہے اور بت بزرگ کو سجدہ کرتا ہے جو کچھ مرتبہ اور جس چیز کی آرزو رکھتا ہے، اس کو سرانجام کر دیتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالی روز آئندہ وقت صبح کے فرماں روا واسطے زیارت بت کدہ کے جائے گا۔ میں تیرے تئیں ہمراہ اپنے لے جا کر شرف ملازمت بادشاہ اور زیارت بت بزرگ و آداب و کورنش و قدم بوس بادشاہ دوست بوس برہمن کہ کلید فتح الباب مقاصد کا ہے مؤدی کرکے بیچ دامن بادشاہ کے چنگل آرزوے درخواست دختر وزیر کا ماریو۔ میں احوال تیرا مفصل عرض کر کے اس مقدمہ کو کرسی نشین کروں گا۔
القصہ وقت صبح کہ بادشاہ اور خلق اللہ از ہفت سالہ تا ہفتاد سالہ پسران خوش لقا و دختران خورشید سیما و تمامی ارکان سلطنت و رئیسان صاحب حیثیت رونق افزا و ہنگامہ افروز بت خانے کے ہوئے۔ مجھ کو وہ مرد لباس فاخرہ سے قامت آراستہ کر کے اوپر ایک مرکب کے سوار کر کے ہمراہ اپنے لے گیا۔ میں نے اس جلسے میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک بت تراشیدہ مزین بہ جواہر و زر با تاج و گہر اوپر تخت مرصع کے بہ لباس ملوکانہ زیب آراے مسند حشمت و جلال کے ہے اور ایک چھوٹے تخت پر مادر برہمناں کہ مرغوب اس بت کی ہے، بڑی ہی شان اور زیب تمام سے بیٹھی ہے اور دو طفل دوازدہ سالہ دست راست و چپ مغرق مع زر و جواہر کے دو زانو اس سے لگے ہوئے بیٹھے ہیں اور بادشاہ و امرا و ساکنان فرنگ با دانش و فرہنگ دست بستہ مؤدب دو زانو حضور اس بے شعور سنگ معذور کے تئیں معبود کرامت آمود اپنا جان کر بہ جان و دل متوجہ ہیں۔ میں نے زمیں بوسی و سجدہ بت بزرگ کو کر کے اور قدم بوسی بادشاہ و مادر برہمناں کی بجا لا کے دامن بادشاہ کا پکڑا اور درخواست دختر وزیر با تدبیر کی کی۔ بادشاہ نے اس مرد سے پرسش احوال میرے کی کی۔ اس نے عرض کیا کہ یہ عزیز خویش و اقارب میرا ہے اور بہ امید زیارت بت بزرگ کے آیا ہے اور دختر وزیر کو دیکھ کر تیر نگاہ اس کے سے گھائل اور جان و دل سے مائل اور تم سے سائل ہوا ہے۔ امیدوار ہے کہ امر سراسر اثر صاحب تخت و چتر کے سے وزیر روشن ضمیر سراپا عقل و تدبیر کے تئیں پہنچے کہ اس کے۔تئیں بیچ غلامی کے سرفراز و ممتاز اور اس آرزو سے بے نیاز کرے، بعید از غریب پروری و مسافر نوازی سے نہ ہوگا۔ فرمان فرما نے فرمایا کہ اس مرد کو ساتھ دختر وزیر کے جفت کریں کہ حکم نادر بت بزرگ کا یوں ہے۔ برہمن نے رشتہ زنار گلے میں ڈال کر ساتھ اس گل عذار کے، کہ دل اس کی آرزو میں تار تار اور چشم اس کی امید وصال میں اشکبار تھی، عقد ازدواج کا منعقد کیا اور سجدہ پایہ تخت اس سنگ سخت و بد بخت کا کروایا۔ اس اثنا میں ایک آواز جوف بت میں سے بر۔آئی کہ اے خواجہ زادہ! خوش آمدی و صفا آوردی، اب الطاف بلا اکناف ہمارے کا امیدوار رہ۔ ایک مرتبہ سننے اس کلام کے خلایق زمیں بوس ہوئی۔ بارے بادشاہ نے خلعت فاخرہ مرحمت کیا اور حکم نوازش نقار خانے کا ہوا۔ آوازہ بیچ جہان کے منتشر ہوا کہ ایک عجمی کو بت بزرگ نے از راہ کرم و فضل کے اپنا خاص بندہ کیا اور دختر وزیر کی مرحمت ہوئی۔ مدت یک سال ہم بریں منوال با عیش و نشاط کمال خورم و خوش حال گذرے اور وہ معشوقہ حاملہ ہوئی۔ اس عرصہ میں اسقاط حمل سے بیمار ہو کر چند روز میں ودیعت حیات کی سپرد کی اور مجھ کو سخت پریشانی و خانہ خرابی نے لے لیا۔ از راہ پیچ و تاب کے زار و نزار نہایت بے قرار اور سرشار تھا کہ زنان قبایل و عشایر واسطے ماتم پُرسی کے آئیں۔ ہر ایک کیا جوان، کیا لڑکی آتی تھی اور جو اندام اپنی کے تئیں میرے ماتھے پر ٹکر مارتی تھی اور بیٹھتی تھی۔ قریب تھا کہ دھکے سے مارا جاؤں کہ ناگاہ ایک شخص نے پس پشت سے آ کر گریبان میرا پکڑا۔ پہچانا تو وہی شخص تھا کہ جن نے کتخدا کیا تھا۔ مجھ سے پوچھا کہ گریہ و زاری اور اس قدر بے قراری کیوں کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ اب ایسا معشوق ماہ پارہ اس خانماں آوارہ سے جدا ہوتا ہے، کیوں نہ روؤں۔ کہا: اے مرد مرگ اپنی پر رو، اس کے لیے کیا روتا ہے۔ میں نے منع کیا تھا تیری خاطر میں نہ آیا ؏
خود کردہ را علاج و درمانے نیست
پس میرے تئیں بیچ مہمان خانے کے لے گئے اور تمامی املاک اور نقد و جنس خانہ داری کا جمع کر کے بیچنا شروع کیا اور زر نقد بہم پہنچا کر جواہر خریدا اور صندوقچہ میں کر کے رکھا اور میوہ و نان و کباب چالیس روز کا آزوقہ اور تابوت اس اہل خانہ بادل یگانہ کا اُٹھایا اور بادشاہ مع اُمرایان و برہمنان بید خواناں سب ہمراہ ہوئے اور بیچ اُس حصار مقفل سہ قفل کے کہ میں نے آتی دفعہ دیکھا تھا، لے گئے۔ بہت سے آدمیوں نے جمع ہو کر دروازہ کھولا اور میرے تئیں مع صندوق جواہر اور تابوت اور خوراک چہل روزہ کے وہاں چھوڑا اور وزیر اور بادشاہ اور برہمنوں نے عذر خواہی کی کہ اس دار الفنا میں ایک روز آتے اور ایک روز جاتے ہیں، صبر کر کہ بت بزرگ فریاد کو تیری پہنچے اور خوش رہ۔ میں نے چاہا کہ کچھ کہوں کہ اس عرصہ میں اس پیر خیر خواہ نے بہ زبان عجم مجھ سے کہا کہ اگر کچھ عذر لایا تو آتش جہنم میں جلا دیں گے، خاموش ہو جا۔ جو کچھ دیکھتا ہے، تقدیر الٰہیہ سے ہے، کسی کی تقصیر نہیں۔
القصہ میرے تئیں اُس حصار ناہموار میں محبوس اور زِیست سے مایوس کر کے اپنے ڈیروں کو گئے۔ میں تنہا گرفتار مصیبت و بلا نظر اوپر خدا کر کے بیٹھا۔ وقت دوپہر کے تابش آفتاب کی سے اور تعفن اِستخواں ہاے بوسیدہ سے نزدیک تھا کہ جان قالب سے خالی کروں کہ بیچ آرزوے سایہ کے کئی ایک صندوق جمع کر کے سایہ بنایا۔ دن کو اس کے نیچے گذران کرتا اور رات کو اوپر جا کر سو رہتا۔ جس وقت کہ مدت چہل روز آخر ہوئی اور وجہ خوراک کی ہو چکی، نہایت بے قراری سے حیران و پریشان ہوا اور بیچ حق برادران حق ناپسند کے بد دعا کی کہ کس غضب میں ڈالا اور ایک لات اوپر نعش اُس دختر وزیر کے ماری کہ کمبخت اگر تو حاملہ نہ ہوتی اور اس طرح نہ مرتی تو مجھ کو کیوں لے مرتے اور منابات جناب الٰہی میں کرتا تھا اور کہتا تھا، بیت:
بہ قیدِ زندگی ہر کس اسیر است
ز فکر آب و نانش ناگزیر است
کہ ایک پیر زال کو ساتھ ایک نعش مرد کے لائے اور بدستور مذکور چھوڑ گئے۔ میں نے جو دیکھا کہ آخر زنِ ضعیف ہے، ایک پایہ صندوق کا اس کے سر پر ایسا ہی مارا کہ ایک ضربت میں فیصل ہوئی اور خوراک چہل روزہ پر متصرف ہوا۔ بعد چند روز کے ایک اور مردہ آیا کہ غُل کمال اور شورش رجال سنی۔ میں نے کہا کہ کوئی بڑا آدمی مُوا ہے کہ جس کا یہ غل ہے۔ بارے اُسی طرح دروازہ کھلا اور ایک دُختر چہاردہ سالہ باروے چوں آفتاب و گیسوے مشک ناب لباس کتخدائی در بر و تاج عروسی بر سر مع تابوت اور ایک صندوق جواہر اور خوراک موافق قاعدہ معہود کے چھوڑ گئے اور دروازہ حصار کا بند ہوا۔ بہ موجب تقدیر کے بیچ عشق اس نازنین کے پاے بند ہو کر دام اُلفت میں پھنسا اور پوچھا کہ تو کون ہے۔ کہا کہ میں دُختر وکیل مطلق بادشاہ کی ہوں۔ شب زفاف میں شوہر میرے کو درد قولنج نے لیا کہ جان بحق تسلیم ہوا، تو اپنی حقیقت کہہ۔ میں نے سرگذشت اپنی بیان کی اور اُس ماہرو سمن بو کے ساتھ ہم بستر ہوا اور خوش رہنے لگا۔ الغرض ہر ماہ میں ایک مُردہ آتا اور میں آزوقہ پر متصرف ہوتا تھا۔ تا آنکہ وہ سرو جوے بار خوبی کی حاملہ ہوئی اور ایک طفل تولد ہوا۔ کئی ماہ اور گذر گئے۔ طرح محبت و مؤدت کی ایسی پڑی کہ باہم بہ لہو لعب خوش رہتے تھے۔ ایک روز میں نے ہم خوابہ سے کہا کہ کوئی طرح گذاری کی اس قید فرنگ سے کیا چاہیے، واِلا یہ زندگی بہ منزلہ مرگ ہے۔ وہ بھی روئی اور کہا کہ تو مرد ہے کچھ بن سکے تو فکر کر۔ میں نے جو گرد نواح حصار سیر کی تو ایک بدر رو سیخچہ ہاے آہنی سے جڑی ہوئی دیکھی اور معلوم کیا کہ اگر سیخچے ٹوٹیں تو بہزار تنگی گذر ہو۔ پس ہر روز میخ ہاے صندوق کو پتھر پر گھس کے بیچ توڑنے سیخچوں کے مشغول رہا کہ مدت سہ سال میں یہ کام درست ہوا۔ اور اُس دل پسند کے تئیں ایک فرزند اور تولد ہوا۔ بارے بہ ہزار تلاش راہ برآمد ہونے کی درست کر کے اور جواہر گراں بہا و بیش قیمت کہ سرمایہ زندگی اور تجارت کا جانتا تھا ہمراہ لے کر حصار سے باہر ہوا۔ ایک لڑکا عورت کی گود میں ایک میرے کاندھے پر اور کتا ہمراہ اُس وضع سے روانہ ہوا۔ اُس صحرا اور اُس دشت میں کہیں علف اور برگ اشجار اور کہیں بیخ گیاہ سے قوت اپنی کر کے منزل بہ منزل متوجہ آبادی کے ہوئے۔ تا آں کہ بیچ ایک شہر کے پہنچ کر ایک حویلی بر سر دریا کے کرایہ لی اور حمام جا کے حجامت بنوائی اور پوشاک تیار کر کے آمد و رفت مردم شہر سے شروع کی اور چند جواہر خورد ریزہ بیچ کر دوکان تجارت کی آراستہ کی اور چند غلام اور کنیزک براے خدمت مول لے کر رکھے اور شکر الٰہی ادا کیا۔ یہ فقیر اوپر بام خانہ کے اکثر اوقات واسطے سیر دریا کے بیٹھتا اور دور دور نظر کرتا۔ ایک روز دو نفر عجمی دیکھے، بعد ازاں جو دور بین ہاتھ میں لے کر خوب طرح سے غور کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں برادر ہیں۔ چند نفر قراول بھیج کر ان کو بُلوایا۔ بعد ملاقات کے کہا کہ اے بے رحمان، ستمگار و اے ظالمان سراسر آزار! یہ شعار شقاوت آثار تمھارا نہیں جاتا ہے، وہ نکوئی ہماری اور تمھاری یہ بدخوئی۔ لعنة اللہِ علی قومِ الظالِمِین۔ تب تو یے دونوں صاحب میرے پاؤں پر گر پڑے اور زار زار روئے اور ندامت اور پشیمانی کھینچی۔ میرا خون اخوت کا جوش پر آیا۔ تقصیر معاف کی اور نصائح و فضائح کر کے بہ لباس فاخرہ آراستہ کیا اور شب خوابی کے واسطے ایک مکان بنایا۔ چنانچہ شب و روز بیچ پرداخت احوال اُن کے مستعد اور سرگرم رہتا۔ تا ایں کہ ایک روز یہ خاکسار بہ موجب طلب ضیافت کھانے ایک آشنا کے ڈیرے گیا۔ یہ دونوں بھائی بدتر از قصائی از راہ آشنائی گھر میں داخل ہوئے۔ مادر طِفلاں نے کہ قبیلہ جمیلہ اس بے وسیلہ کے تھی، اپنے تیں ایک حجرہ میں ڈالا اور دونوں لڑکے باہر رہے۔ دونوں نابکار مفسد شعار نے ہاتھ دونوں بچہ ہاے صغیر کا پکڑ کے کہا کہ تو حجرہ سے باہر آ اور جو کچھ ہم کہیں قبول کر واِلا دونوں لڑکوں کو تیرے جی سے مار ڈالیں گے۔ وہ عفیفہ پاک دامن راضی نہ ہوئی۔ ان بدبختوں نے ہر دو طفل بے گناہ کا سر تن سے جدا کیا اور وہ بی بی نیک بخت سر اپنا پتھر سے مار کے مر گئی۔ اس عرصہ میں میں پہنچا اور یہ حقیقت دریافت کر کے غلاموں سے فرمایا کہ بگیرید ایں ہر دو قُرم ساقاں را۔ غلام میرے اُن کے تئیں لپٹ گئے اور مشکیں باندھ کے لائے۔ تس پر بھی میں نے قصاص سے درگذر کی اور بیچ پنجرہ فولادی کے حبس فرمایا اور یہ چودہ جواہر کہ بیچ گلے سگ وفادار بہتر از برادران ناہجار کے ہیں، اُسی حصار سے لایا تھا۔ حضرت سلامت! یہ دونوں موجود ہیں اور کوئی بات خلاف معمول عمل میں لایا ہوں یا جھوٹ ظاہر کیا ہو، جو چاہے سو کیجیے۔
میں نے اوپر جواں مردی اور مردانگی اُس پاک دیں و پاکیزہ یقیں کے آفریں اور تحسیں کی اور دختر وزیر سے پوچھا کہ کون شخص ہے۔ اُن عاقلہ و بالغہ نے آداب بجا لا کے عرض کیا کہ یہ کنیز ناچیز دختر وزیر کی ہے کہ واسطے مخلصی والد بزرگوار کے لباس مردانہ اوپر اپنے آراستہ کر کے اس سوداگر کو لائی اور حضور میں حاضر کیا۔ بیشتر جو کچھ مرضی مبارک ہو، انسب و اولیٰ ہے۔ یہ بات سن کر سوداگر بے ہوش ہوا اور ایک نعرہ جانکاہ مارا کہ حاضران مجلس خاموش ہوئے۔ بعد ایک ساعت کے ہوش میں آیا اور کہا: افسوس صد ہزار افسوس، اس قدر محنت اور مشقت ضایع اور برباد گئی۔ تب میں نے کہا کہ اے سوداگر! کیا محنت برباد گئی کہ اس قدر ملول اور مغموم ہوا۔ کہا کہ حضرت سلامت! میرے اولاد نہ تھی اور فرزندی میں اسے لیا تھا، سو کہاں میسر ہوا۔ میں نے اُس کے کان میں مژدۂ وصال دختر وزیر کا کہا۔ بارے خوش ہوا۔ بعد اُس کے اُس لڑکی کو اندرون خاص محل کے بھیج کر تیاری شادی کی کی اور نہایت دھوم دھام و جلوس تمام سے بہ عقد ازدواج سوداگر کے دی۔ وزیر کو اسپ با زین زر اور خلعت زیب آور بھیج کر قید سے چھوڑا اور بہ دستور سابق اوپر کام وزارت کے مامور کیا۔ اُس تاجر سے اور دختر وزیر سے دو پسر تولد ہوئے کہ بیچ کار خدمت سرکار والا کے رکھے، چنانچہ ایک ملک التجار اور دوسرا قورخانہ کا داروغہ ہے۔
جس وقت کہ بادشاہ یہ سرگذشت زبان ہدایت ترجمان اپنی سے بیان کر چکا، فرمایا کہ اے درویشو! مطلب سراسر اظہار اس داستان کے سے یہ تھا کہ تم کو ایک جرات پیدا ہو اور بیچ کہنے حقیقت اپنی درویش چہارم حِجاب نہ کرے۔ اب لازم یہ ہے کہ مجھ کو بھی ایک رفقاے ہمدرد اپنے سے جان کر کسی طرح کا پردہ اور حجاب درمیان میں نہ لاؤ گے۔ میں بھی ایک محتاج تمھاری ملاقات کا ہوں۔